اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ
خانقاہِ اشرفیہ اختریہ
مرکز اہل السنۃ و الجماعۃ سرگودھا
6 دسمبر2012ء
اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد! فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ۔ :Īاللّهُ يَجْتَبِيْ إِلَيْهِ مَنْ يَشَآءُ وَيَهْدِيْ إِلَيْهِ مَنْ يُنِيْبُĨ
سورۃ الشوریٰ:13 
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔ اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَاركْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
میں نےآپ کے سامنے سورۃ الشوری ٰ کی ایک آیت تلاوت کی ہے۔ اللہ رب العزت نے اس آیت میں اپنی ذات تک پہنچنے کے دو راستے بتائے ہیں۔ ہر انسان کی اصل منزل اللہ کی ذات ہے۔ اللہ ہی خالق ہے،اللہ ہی مالک ہے،اللہ تمام انسانو ں کی اصلی منزل ہے۔
اس آیت میں اللہ نے اپنے تک پہنچنے کے دو طریقے بیان فرمائے ہیں۔ ایک ’’اِجْتِبَاء‘‘ اوردوسرا’’اِنَابَتْ‘‘ ہے۔ بسااوقات بند ہ محنت نہیں کرتا اور اللہ بغیر محنت کے بندہ کو اپنے تک پہنچادیتے ہیں اور بسا اوقات انسان محنت کرتاہے اور محنت کرنے کے بعد اللہ اس کواپنی ذات تک پہنچاتے ہیں۔ دونوں طریقے چلتے ہیں۔ اس کوکبھی یوں بھی کہتے ہیں کہ ایک چیز ہوتی ہے ’’وہب‘‘ اور ایک چیز ہوتی ہے ’’کسب‘‘۔ مثلاًقرآن میں اللہ نے چار طبقات وہ بیان فرمائے ہیں جو انسانیت کے سب سے اعلیٰ طبقے ہیں۔
1:نبیین 2:صدیقین 3: شہداء 4:صالحین عنی انبیا ء،صحابہ،شہداءاوراولیاء۔
اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پہلامقام نبوت،دوسرامقام صحابیت، تیسرامقام شہادت اور چوتھامقام ولایت ہے۔
ان میں دو مقا م ’’مقام ِوھب‘‘ ہیں اور دو مقام’’مقام ِ کسب‘‘ ہیں۔ نبوت اور صحابیت مقام وہب ہیں اور شہادت اورولایت مقامِ کسب ہیں۔ نبوت اور صحابیت محنت اوراعمال سے نہیں ملتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطاسے ملتی ہے او ر شہادت و ولایت کا مقام انسان کو محنت سے ملتاہے۔ انسان محنت کرتاہے تو اللہ اس کو عطافرمادیتے ہیں۔
میں سمجھا رہا تھا کہ ایک ’’وہب‘‘ ہے او رایک ’’کسب‘‘ ہے۔ دونوں کو ایک مثال سے سمجھیں :
وھب اور کسب کی مثال:
ہما رے شیخ حضر ت اقد س عارف باللہ مولانا شاہ محمد حکیم اختر دامت برکاتہم نے ایک بہت پیاری مثال ارشاد فرمائی ہے۔ حضرت فرمانے لگے کہ شاہ محمد احمد رحمہ اللہ ایک بہت بڑے شیخ تھے اور بہت بڑے آدمی تھے۔ ہمارے شیخ حضر ت اقدس حکیم صاحب نے شاہ محمد احمد رحمہ اللہ کی خدمت میں تین سال مستقل صحبت میں گزارے۔
ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم جس شخص سے بیعت کا تعلق جوڑتے ہیں، اس کی مجلس میں نہیں بیٹھتے،کبھی کبھی اس کی مجلس میں آبھی جائیں، تو مستقل اس کی صحبت میں نہیں بیٹھتے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلتاہے کہ جو رنگ شیخ کا مر ید پر چڑھنا چاہیے، و ہ نہیں چڑھ پاتا۔
خیر میں جو بات عرض کر رہا تھا کہ حضرت شاہ محمد احمد رحمہ اللہ کی صحبت میں حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے تین سال گز ارے ہیں۔
تین سال کا عرصہ بہت بڑاعرصہ ہے،حضرت چونکہ کالج میں پڑھتے تھے؛جامعہ طبیہ کالج علیگڑھ میں۔ تو حضرت کی خانقاہ میں رہتے،وہا ں سے کالج جاتے اور کالج سے پھر خانقاہ جاتے۔ پوری رات خانقاہ میں گزارتے،پھر وہاں سے کالج اور کالج سے خانقاہ۔ تو جو اُن کی جوانی کاعرصہ تھا، و ہ بوڑھے شیخ کے حوالے کیا۔ یہ وہی شاہ محمد احمد رحمہ اللہ ہیں، جنہوں نے مرزا غالب کے شعر کا بڑے پیارے انداز میں جواب دیا تھا۔ مرزا غالب نے شعر کہا تھا :
عشق نے غالب نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے ]

حضرت شاہ محمد صاحب نے اس کاجواب دیا،فرمایا:
عشق نے کما کر دیا احمد

آدمی تھے ورنہ ہم بس نام کے

کیونکہ غالب عشق مجازی پہ مرتاتھا اور شاہ محمد احمد عشق حقیقی پہ روتے تھے،تو ظاہر ہے کہ اپنے میدان میں وہ ٹھیک کہہ رہاہے او راپنے میدان میں یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ یہ شاہ محمد احمدوہ ہیں جنہیں ”پرتاب گڑھی“ کہتے ہیں۔ دوسرے شیخ شاہ عبد الغنی پھولپوری ہیں۔ ان کی خدمت میں حکیم صاحب نے اٹھارہ سال گزارے۔ دیکھو”ا ٹھارہ سال“بات کہنی بڑی آسان ہے۔
تذکرہ حضرت حکیم محمد اختر دامت برکاتہم:
ہم حضرت کی خدمت میں تھے، تو حضر ت فرمانے لگے: آج لوگوں کو تعجب ہوتاہے کہ حکیم اختر بوڑھے کے پاس لوگ اپنی جوانیاں لٹاتے ہیں۔ کسی کو یہ نہیں پتا کہ اختر نے اپنی جوانی ایک بوڑھے کے قدموں میں اٹھارہ سال لٹائی ہے،یہ تو کسی کو نہیں پتا۔ آج لوگ میر ی سہولتیں،راحتیں دیکھتے ہیں، لیکن یہ نہیں پتا کہ میں نے شیخ کی خدمت کتنی کی ہے؟
حضرت حکیم صاحب نے”معارف مثنو ی“ کتاب لکھی اورحضرت مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کے ہاں تقریظ کے لیےلے گئے۔ حضرت بنوری فرماتے ہیں:جب یہ معارف مثنوی میرے پاس آئی، تو مجھے پتاچلاکہ حکیم اختر مولوی ہے،ورنہ میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ مولانا عبد الغنی پھو لپوری کا نوکر ہے۔ ”خادم“ تو بڑا عزت والا لفظ ہے،حضرت فرماتے ہیں:میں سمجھتا تھا کہ نوکر ہے، کیوں ؟ حضرت کی دوائیاں کوٹنی،حضر ت کے نسخے کوٹنے اور حضرت کے سر پر مالش کرنی،لنگی باندھ کے ان کی خدمت میں لگے رہتے تھے، تو لوگ سمجھتے کہ یہ حضرت کا نوکر ہے۔
معارف مثنوی لکھی، تو پتہ چلاکہ یہ شخص نوکر نہیں ہے بہت بڑا عالم ہے۔ بندوں کویہ بات سمجھ نہیں آتی۔ جب تک آدمی خدمت کرکے اپنے آپ کو شیخ کے وجود میں فنانہ کردے۔ اس وقت تک کامیابی انسان کو نہیں ملا کرتی۔
تذکرہ شاہ عبدالقادر رائےپوری رحمہ اللہ:
آپ نے نام سنا ہے،حضرت شاہ عبد القادر رحمہ اللہ کا، یہاں خانقاہ ڈھڈیاں میں ان کی قبرہے۔ یہ رائےپور کے نہیں تھے۔ دراصل ان کے شیخ تھے شاہ عبدالرحیم رحمہ اللہ، یہ اپنے شیخ میں اس قدر فنا تھےکہ لوگ ان کو بھی شاہ عبدالقادررائےپوری کہتے ہیں۔ ایک مرتبہ ریلوےاسٹیشن پہ لوگ بہت بڑی تعداد میں آئے ہوئے تھے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی﷫نے کسی سے پوچھا کہ یہ ر ش کیوں ہے؟ جواب ملا کہ شاہ عبدالرحیم رحمہ اللہ کے جانشین، شاہ عبد القادر رائےپوری تشریف لائے ہیں،تو لوگ ان کی زیارت کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ حضرت تھانوی نے فرمایا کہ ہم بھی زیارت کرتے ہیں کیونکہ بڑے آدمی ہیں۔
جب ان کی مجلس میں پہنچے تو حکیم الامت حضرت تھانوی نے سوال کیا کہ آپ حضرت کے جانشین ہیں اور ہم نے آپ کو کبھی بھی حضرت کی خانقاہ میں رائےپور میں نہیں دیکھا،تو آپ کیسے جانشین بنے، اور اتنی بڑی نسبت آپ کو کیسے ملی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ جب کبھی آپ خانقاہ میں آئے تھے، تو ایک وہاں” کا لو“ہوتا تھا،میں وہی کالو ہوں۔
یہ بات کسی کو سمجھ نہیں آتی، میں یہی روتاہوں کہ خدمت بہت بڑی بات ہے،آدمی کو خدمت کرنا سمجھ نہیں آتی۔ تو انہوں نے کہا کہ میں وہی ہوں جس کو لوگ ”کالو“ کہتے تھے۔ میں وہی عبدالقادر ہوں، دیکھا اللہ نے کتنا مقام عطافرمایا۔
ایک نکتہ:
میں ایک بات نکتہ کےطور پر عرض کرتا ہوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سب سے بڑا کما ل ”صحابیت“ ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مقام سب سے بڑاہے۔ اس پر آپ ایک دلیل ذہن نشین فرمائیں!صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مقام سب سے بڑاہے۔ صحابہ کرام کا بڑا مقام ہے، لیکن واحد و ہ صحابی جن کو قرآن نے ”صحابی“ کہا و ہ حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں۔
إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا
التوبۃ :40 
تو ان کامقام سب سے بلند ہوناچاہیئے۔ یہ حضرت ابوبکرؓکااعزاز ہے۔
شاہ محمد احمد ؒ اور شاہ ابرارالحق رحمہ اللہ ہر دوئی، ہمارےحکیم صاحب کے شیخ ہیں۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے دنیا سے وفات پاجانے والے سب سے آخری خلیفہ حضرت شاہ ابرارالحق ہیں۔ میں نےالحمدللہ ان کی زیارت کی ہے،میں دعوی نہیں کرتالیکن شاذو نادر بندے ایسے ہوں گے، جنہوں نے یہ منظر دیکھا ہو، جو میں نے درجہ ثالثہ والے سال دیکھا کہ شاہ ابرارالحق ہردوئی کھڑے ہیں اور ہمارے مرشد حضرت حکیم اختر دامت برکاتہم اور مفتی رشید احمد دونوں ڈنڈا گتکا چلارہے تھے۔ شاہ صاحب کھڑے دیکھ رہے تھے ،ایک بوڑھا شیخ کھڑا دیکھ رہا ہے اور دوسرے بوڑھے ڈنڈا چلاناسکھارہے ہیں۔
یہ منظر ہم نے درجہ ثالثہ میں دیکھا ہے اور کراچی سے بہت دور صبح سیر کے لیے سپر ہائی وے پر گئے اور اپنے شیخ کو گتکا چلاکر سکھایا۔ اب بتاؤاگر کوئی ابھی شیخ اپنے کسی مرید کو کہے تو وہ کیسے تیار ہو گا وہ کہے گا میں اتنا بڑا معزز آدمی اور مجھے کام کہہ دیا ہے۔ تو اپنے شیخ کو بڑھاپے میں ڈنڈا چلاکر سکھارہےہیں، کیوں؟کہ ہما را شیخ بوڑھا اس سے خوش ہوگا۔ اپنے شیخ کو اس سے خوش کریں۔
خیر میں حضرت شاہ محمداحمد کا واقعہ عرض کر رہاتھا کہ حضرت کسی کی عیا دت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ ساتھ شاہ ابرار الحق بھی ساتھ تھے۔ راستے میں مولانا محمد احمد صاحب نے فرمایا: یہاں ہمارے ایک دوست حکیم سلمان صاحب ہیں، ان کوبھی ساتھ لے چلو۔ ان کو لینے کے لیے گئے تو وہ سو رہے تھے۔ فرمایا کہ ان کواٹھادو۔ حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ اصل میں تو اٹھا نا تکلیف کاسبب تھا، اگر ان کونہ اٹھاتے تو ان کو تکلیف زیادہ ہوتی۔
اب بتاؤ! رات کو آپ کے گھر کوئی بڑا آدمی آئے اور آپ سو رہے ہوں اور وہ واپس چلا جائے۔ جب آپ کو پتہ چلے تو آپ نے رونا ہے یا نہیں؟کہ ہمیں اٹھا دیتے۔ الغرض، کہا کہ ان کواٹھاؤاور انہیں ساتھ لے کر چل پڑے۔ اس پرہمارے مرشد کے مرشد حضرت ابرار الحق نے فرمایا کہ اسے کہتے ہیں:”اجتبا ء“حکیم سلمان سوئے پڑے ہیں اور ان کو اٹھا کر ساتھ ملایا۔ میں ”وہب“ بتارہاتھا کہ آدمی محنت نہیں کرتا بلا محنت کسی مقام تک پہنچتاہے۔
آگے نکلے تو آگے ان کے میزبان تھے، ڈاکٹر صاحب،ان کی کار میں جانا تھا۔ جب ان کی کار تک پہنچے، ڈاکٹر صاحب نے دروازہ کھولا اور کہا کہ اندر آجائیں۔ یہ دیکھ کر مولانا ابرارالحق ہر دوئی کہنے لگے کہ اسے کہتے ہیں:” انابت“ دیکھو ہم تھوڑاسا چلے ہیں، تو کار کادروازہ کھلا توہم بیٹھے۔ کبھی اللہ کسی آدمی کو کھینچ لیتے ہیں۔ جیسے یہ سوئے ہوئے تھے۔ تو شیخ نے اٹھایا،اور کبھی اللہ تعالی محنت کرنے کی وجہ سے منزل تک پہنچادیتے ہیں جیسےیہ گئے اورڈاکٹر صاحب نے گیٹ کھولا اوریہ گاڑی میں بیٹھ گئے۔
چند واقعات:
تو میں بات یہ سمجھا رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے دو راستے ہوتے ہیں۔ ایک راستہ یہ ہے کہ اللہ کسی کوکھینچ لے او ربغیر بندے کی محنت کے کھینچ لے اور دوسرا راستہ یہ ہے، کہ بند ہ محنت کرےاور محنت سے اپنے مولاکو پالے۔ یہ دونوں طریقے قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں۔ اس پر میں چند ایک واقعات بیا ن کرتاہوں۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا واقعہ:
ہمارےاکابر میں سے وہ حضرات جن کو اللہ پاک نے خود کھینچاہے۔ ان میں سے پہلاواقعہ حضرت ابو بکرصدیق کا ہے۔ ان کا ”اجتباء“ ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو کھینچاہے۔ امام سیوطی رحمہ اللہ نے”الخصائص الکبریٰ“میں یہ واقعہ نقل کیا ہےکہ صدیق اکبررضی اللہ عنہ مکہ سے چلے اور شام کے علاقے میں تجارت کے لیے گئے۔ راستے میں ابوبکررضی اللہ عنہ کو خواب آیا اور انہوں نے اپنا خواب ایک عیسائی راہب،عالم کو بیان کیا کہ تعبیر بیا ن کریں۔
خواب آئے توتعبیر کےلیے ہر بندہ کوبیان نہ کیا کریں۔ حدیث میں دولوگ بتائے ہیں کہ ان کو بیان کرنا چاہیے؛ایک حبیب اوردوسرا لبیب۔
(جامع الترمذی:کتاب الرؤیا، باب تعبیر الرؤیا )
یعنی دوست ہو یا عقلمندہو،اس کے علاوہ کسی بندے سے خواب کی تعبیر کبھی بھی نہ پوچھیں۔
اس لیے کہ حدیث میں آتاہےکہ آدمی جب خواب دیکھتاہے تو بندے اور آسمان کے درمیان خواب لٹکا رہتاہے،جیسا معبر تعبیر دیتاہے خواب اس کے مطابق صادق آتاہے۔
مولانا قاری محمد طیب کا واقعہ:
حضرت قاری محمد طیب صاحب نے خطبات ِ حکیم الاسلام میں اس پر کئی واقعات نقل فرمائے ہیں۔ میں صرف ایک واقعہ ذکرکرتاہوں۔ مولانا مظہر نا نوتوی نے خواب دیکھا کہ بریلی شہر سے بطخیں اڑیں،ہندوستان میں دو شہر ہیں،ایک کا نا م بریلی ہے اور دوسرے کا نا م الٹے بانس بریلی ہے۔ احمد رضا خان بریلی شہر کانہیں تھا، بلکہ الٹےبانس بریلی کا تھا،یعنی بریلی وہ بھی ٹیڑھی۔سیدھی بریلی کا نہیں تھا۔
تو یہ خوا ب دیکھا کہ بریلی شہر سے بطخیں اڑیں اور ان کے گھر آکر رکیں۔ انہوں نے قاسم العلوم والخیر ات، حجۃ اللہ فی الارض، مولانا محمد قاسم نانوتوی﷫ سے پوچھا کہ میں نے خواب دیکھاہے کہ بریلی شہر سے بطخیں اڑی ہیں اور میرے گھر آکر رکی ہیں۔ مولانا قاسم نانوتوی فرمانے لگے کہ بریلی شہر میں تمہیں ملازمت ملے گی۔ اگر تم ہمیں مٹھائی کھلاؤ، تو بیس روپے ماہانہ ملازمت ملے گی اور اگر تم مٹھائی نہ کھلاؤ، تو گیارہ روپے والی ماہانہ ملازمت ملے گی۔ اس نے کہا میں مٹھا ئی کھلاؤں گا۔ آپ بیس روپے والی تعبیر دے دیں۔
ہمارے مشائخ نے مٹھائی کھا نی تھوڑی ہے، وہ اپنی ظرافت ِطبع اور اپنے مرید کو خوش کرنے کے لیے ایسی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں مٹھائی کھلاتاہوں۔ تو حضرت نے فرمایا کہ تمہیں کچھ ہی دنوں میں بیس روپے ماہانہ والی ملازمت کے لیے کال آجائےگی۔ کچھ ہی روز گزرے تھے،انہوں نے درخواست پہلے ہی دی ہوئی تھی ملازمت کے لیے، تو بریلی شہر سے ان کے گھر میں تار آگئی کہ بیس روپے ماہانہ پر آپ کو ملازمت مل گئی ہے، بیس روپے ماہانہ ڈیوٹی پر دفتر میں بیٹھ جائیں۔
اس دور میں جو بھی تار یا خط ہوتے تھے، اس کے ذریعے خبر آگئی۔ انہوں نے حضرت نانوتوی سے پوچھا کہ حضرت ! آپ نے جوتعبیر بتائی۔ وہ تو بالکل ٹھیک ہے، لیکن یہ جو آپ نے کہا کہ مٹھا ئی نہ کھلاؤ تو گیارہ روپے اور اگر مٹھا ئی کھلا ؤں تو بیس روپے یہ کیا ماجرا ہے؟
حضرت فرمانے لگے کہ حدیث میں ہے کہ خواب کی تعبیر معبّر کی تعبیر کے مطابق ہوتی ہے۔ تم نے خواب میں بطخیں دیکھیں ہیں اور عربی زبان میں بطخ کو”بطُّ“ کہتےہیں۔ ”ط“مشدد اور فارسی میں بطخ کو”بطْ“کہتے ہیں۔”ط“مخفف۔ ”ط“مشد د ہو تو ”ط“دوہوتی ہیں اور”ط “مخفف ہو، تو”ط“ایک ہوتی ہے۔
اور حروف ابجد کے اعتبارسے”ب“کے عدد 2 اور ”ط“کے 9 بنتے ہیں۔ تو میری مرضی ہے فارسی ”بط“ لوں یا عربی والی”بطّ“لو ں۔ فارسی والی لوں، توپھر11ہوں گے اور عربی والی لوں تو پھر عدد21 ہوں گے۔ اس لیے میں نے فارسی والی”بط“ کی بجائے عربی والی بطّ لی ہے۔ اس لیے تمہیں بیس روپے والی ملازمت مل گئی،میں معبر ہوں، اور تعبیر دینے میں میری مرضی ہے، جس بھی زبان میں تعبیر دےدوں،اس لیے میں نے دو صورتیں بتائی۔
تعبیر کا فن:
اب یہ خواب کی تعبیر ایک فن ہے، جو ہر بندے کے پاس نہیں ہوتی۔ ابھی چند دن قبل کی بات ہے، ایک مولانا صاحب نے کہا کہ میں نے دو خواب دیکھے ہیں، ان کی تعبیر پو چھنی ہے، اس نے خواب بیان کیا۔ خواب تو میں نےسن لیا۔ لیکن میں نے کہا کہ میں تعبیر اپنے مرید کے علاوہ کسی کو بتاتا نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ بسا اوقا ت خواب میں ایسی چیزیں ہوتی ہیں، دوسرے سے کہیں گےتو وہ الجھن کاشکار ہو ں گے اور مریدخوش ہو گا، میرے شیخ کو میرے عیوب کا پتہ چلا ہے، اب انشاءاللہ وہ میر ی اصلاح فرمائیں گے۔ وہ کہنے لگا مجھے آپ بتادیں، میں نےکہا کہ آپ کے خواب کی تعبیر یہ ہے، کہ آپ دینی کام کرتے ہیں لیکن گناہوں کے ساتھ۔ گنا ہوں سے توبہ کرو اور خالص دین کاکام کرو۔ ان کا خواب یہ تھا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں بیت اللہ کا طواف کرتاہوں، حالتِ جنابت کے ساتھ۔
اب یہ تعبیر کیسے بنتی ہے ؟ آپ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ میں آپ کو صرف یہ بات بتارہا ہوں کہ ہر بندے کے سامنے خواب کا تذکر ہ نہ کیا کریں۔ اپنے خواب کو سنبھا ل کر رکھا کریں۔ جیسی تعبیر دے گا ویسی بات فٹ ہو جا ئے گی۔ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا خواب:
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا اور عیسائی عالم کے سامنے اس کا تذکرہ کیا۔ عیسائی راہب نے کہا: اس کی تعبیر یہ ہے کہ
” يبعث نبي من قومك تكون وزيره في حياته وخليفته بعد موته “
کہ تمہاری قوم میں سے ایک نبی مبعوث ہوگا، تم زندگی میں اس کے نائب اور اس کی وفات کے بعد اس کے خلیفہ ہو گے۔
یہ تعبیر تھی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اس خواب کی تعبیر کو سنا۔ آگے لکھا ہے :
فأسرها أبو بكر حتى بعث النبي صلی اللہ علیہ و سلم۔ اس تعبیر کو چھپا لیایہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی، تو ابوبکر نےآپ سے پوچھا:” یا محمد! ما الدلیل علی ماتدعی؟
“ [آپ کے اس دعوی نبوت پر کیا دلیل ہے؟]کیونکہ ابھی تک کلمہ نہیں پڑھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الرؤیا التی رأیت بالشام۔ میری نبوت پر دلیل تیرا و ہ خواب ہے جوتو نے شام میں دیکھاہے۔ صدیق اکبر نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگئے۔ اس روایت میں ہے:
فعانقہ و قبّل مابین عینیہ
۔ چمٹ گئے اورپیشانی کا بوسہ لیا۔
(الخصائص الکبریٰ: ج1 ص51 )
محدثین +نے لکھاہے کہ صدیق اکبر واحد وہ شخص ہیں جنہوں نے کلمہ پڑھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کابوسہ لیا او رجب دنیا سے گئے تب بھی بوسہ لیا۔ جب آئے تب بھی ماتھا چوما اور جب گئے تب بھی ماتھا چوما۔ اب بتاؤ اس سے بڑی کیا دلیل ہوگی کہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں، شیخ کا ہاتھ چومنا جائز ہے؟ بندے کو بڑا تعجب ہوتاہے کہ لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ چومنا جائز ہے؟ اللہ تعالی ہمیں بات سمجھے کی توفیق عطافرمائیں۔
ایک علمی بحث:
آپ حضرات نے ہمیشہ سنا ہے کہ باقی حضرات نے کلمہ پڑھا ہے اور دلیل مانگی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نےبغیر دلیل مانگے کلمہ پڑھا ہے۔ یہاں دلیل سے مراد ”معجزہ“ ہے، یعنی بغیر معجزہ مانگے کلمہ پڑھاہے، باقی معجزہ مانگتے تھے پھر کلمہ پڑھتے تھے۔ یہ اصول اپنی جگہ ٹھیک ہے اور ابو بکر کا دلیل مانگنا اپنی جگہ ٹھیک ہے۔ بسااوقات ایسے ہوتاہے کہ ایک اصول نہ سمجھنے کی وجہ سے بند ے کو غلط فہمی پیدا ہوتی ہے، اصول اپنی جگہ بجاہوتے ہیں اور نصو ص و معاملات اپنی جگہ درست ہوتے ہیں۔ میں اس پر مثالیں دیتا ہوں۔
مثال نمبر1:
مجھے ایک شخص کہنے لگا کہ ”ہدایہ“کامصنف صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم کا گستاخ ہے۔ میں نے کہا: کیوں گستاخ ہے ؟ کہنے لگا کہ یہ لکھتاہے:عند ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہ۔ یہ گستاخی ہے۔ میں نےپوچھا گستاخی کیسے ہے؟تو وہ کہنے لگاکہ صحابی ہو تو رضی اللہ عنہ کہا جاتاہے اور غیر صحابی ہوتو رحمۃ اللہ علیہ،جو لقب صحابی کاتھا اس نے غیر صحابی کود ے کر صحابہ کی توہین کی ہے۔ میں نے کہا کہ غیر صحا بی کو رضی اللہ عنہ کہنا صاحب ہدایہ کا طریقہ نہیں ہے خود قرآن کریم کاطریقہ ہے، اس کا جواب قرآن میں ہے۔ میں نے کہا،پارہ 11رکوع 2میں ہے۔
وَالسَّابِقُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ۔
﴿التوبۃ:100﴾
[ترجمہ: اور مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ پہلے ایمان لائے، اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سب سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اس سے راضی ہیں]
تو اللہ نے انصار ومہاجرین صحابہ اور ان کے متبعین کو بھی”رضی اللہ عنہم“ فرمایا ہے، لہذا اب تو یہ بھی کہہ دے کہ اللہ رب العزت گستاخ صحابہ ہے معاذ اللہ۔ اب چپ ہو گیا۔
پھر مجھے کہنے لگاکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصول غلط ہے۔ میں نے کہا: اصول بھی ٹھیک ہے،وہ کہنے لگا: پھر قرآن غلط ہے ؟ میں نے کہا:قرآن بھی ٹھیک ہے۔ کہنے لگا:آخر مطلب کیا ہے ؟ تو میں نے کہا: اسی مطلب اور سمجھنے کانام ”فقہ“ ہے، جس سے خدانے تمہیں محروم رکھاہے۔ پھر میں نے کہا کہ علماء نے یہ ضابطہ کہ صحابی کو رضی اللہ عنہ او رغیر صحابی کو رحمۃ اللہ علیہ کہا جائے اس لیے بیان فرمایاکہ مثلاًایک نام کے تین آدمی ہیں؛ میں مثال کے طور پر کہتا ہوں کہ ”محمد “ ایک نام ہے، اس نام کے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں،صحابی بھی ہیں او ربعد کے ولی بھی ہیں۔ محمدرسول اللہ نبی ہیں، محمد بن حنفیہ صحابی ہیں اور محمد بن حسن الشیبانی آپ کو ولی مل جائیں گے۔ اب اگر کوئی کہے کہ محمد نے فرمایا تو کیسے پتہ چلے کہ یہ کون سے محمد ہیں ؟ تو ضابطہ سے معلوم ہواکہ اگر ”صلی اللہ علیہ وسلم“ ہوگا تو سمجھو اللہ کے نبی ہیں،اگر ”رضی اللہ عنہ“ ہوگا تو صحابی ہیں اوراگر ”رحمۃ اللہ علیہ“ ہوگا، تو آہ سمجھو کہ اللہ تعالی کے ولی ہیں۔
یہ اصطلاحات اس لیے تاکہ بعد والے کو دھوکہ نہ ہو۔ اگر رضی اللہ عنہ ہو گا تو صحابی اور رحمۃ اللہ علیہ ہو تو بعد کے آدمی ہوں گے۔ ”امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ“ کہا جا ئے تو کسی کے ذہن میں شک نہیں پڑتا کہ نبی ہوگا یا صحابی ہوگا۔ لہذا اگر غیر صحابی کی شہرت اتنی زیادہ ہوکہ اگر ”رضی اللہ عنہ“ کہہ بھی دیں تو شہرت زیادہ ہونے کی وجہ سے پتہ چل جائے گا کہ صحابی نہیں ہے۔ ایسے شخص کو رضی اللہ عنہ کہنا بالکل صحیح ہے۔ اب قرآن، ضابطہ،ہدایہ سب ٹھیک ہیں۔
مثال نمبر2:
ایک شخص کہنے لگا کہ آپ یوں کہتےہیں کہ فقہ حنفی قرآن وحدیث کا مغزہے، یہ تو قرآن و حدیث کی توہین ہے۔ میں نےکہا: کیسے؟ کہنے لگا: کہ بادام میں ایک چھلکااور ایک مغز ہوتاہے، اصل چیز مغز ہوتاہے چھلکانہیں، تو تم نے قرآن و حدیث کا مغز فقہ حنفی کو کہہ کر قرآن وحدیث کو چھلکاکہا اور فقہ کو مغز کہا،یہ تم نے قرآن و حدیث کی توہین کی ہے۔ میں نے کہا ا س کا نام توہین ہے توتم نبی کریم ﷺپر فتویٰ لگاؤ، معاذ اللہ۔ وہ مجھے کہنےلگاکہ وہ کیوں ؟ میں نےکہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”الدعاء مخ العبادۃ “
[جامع الترمذی: ابواب الدعوات، باب فضل الدعوۃ]
کہ دعا عبادت کا مغز ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع، قیام،سجدہ کو چھلکافرمادیا اور دعاکو مغز کہہ دیا،تو تیرے اصول کے مطابق اللہ کے نبی نے رکوع، سجدے کی توہین کی ہے۔ اب خاموش ہو گیا کیونکہ جواب نہیں،میں نے کہا تم” الدعاء مخ العبادۃ“کو ہی نہیں سمجھے۔
ہمارے ہاں ایک مرض چلاہے کہ فرض پڑھیں گے، سلام پھیریں گے اور دوڑیں گے، دعا ہی نہیں مانگتے۔ اللہ کے بندے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
”اَلدُّعَاءُ مُخُّ اَلْعِبَادَة “
(سنن الترمذی،رقم الحدیث:3371، باب ماجاء في فضل الدعاء )
کیسی تجھے جلدی ہے، پانچ منٹ میں چار رکعت پڑھ لی ہیں اور پانچ سیکنڈ میں دعا مانگنے کےلیے تیا ر نہیں ہے۔ ا س کی مثال بالکل ایسے ہی ہے کہ کوئی آدمی پورامہینہ مزدوری کرے اور ماں 31 تاریخ کو پوچھے: بیٹا تنخواہ لائے ہو؟ تو وہ کہے کہ نہیں لایا،اماں پوچھے: کیوں؟ تو وہ کہے کہ اماں! اتنی لمبی لائن لگی ہوئی تھی، چار گھنٹے تنخواہ کے لیے کھڑاہوناپڑتا۔ کیسےکھڑاہوتا؟تو وہ کہے گی: الو! 31دن تونے ملازمت کرلی اور چار گھنٹے تو کھڑا نہیں ہوسکتاتھا ؟ اسی طرح پانچ منٹ میں چار رکعت پڑھ لی ہیں او رپانچ سیکنڈ میں دعانہیں مانگ سکتا ؟اور کہتاہے کہ مجھے جلدی ہے۔
میں نے کہا تو” الدعاء مخ العبادۃ “کو نہیں سمجھا۔ اس حدیث کامطلب یہ ہے کہ اس عبادت سے مقصود اللہ سے کچھ لیناہے، اسی طرح فقہ قرآن وحدیث کا مغز ہے،اس کامطلب یہ ہے کہ قرآن و حدیث سے مقصود شریعت پر عمل کرنا ہے اور اسی کانا م فقہ حنفی ہے۔
مثال نمبر3:
ایک مثال اور یہ ہے کہ اہل السنۃ والجما عۃ کا نظریہ ہے کہ نبی کریمﷺ مدینہ منورہ میں ہیں اور آپ کا فیض پورے عالم میں ہے۔ یہ ہمارا عقیدہ ہے۔ اہل بدعت کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ کے نبی ہر جگہ میں ہیں۔ ان کی دلیل بخاری کی روایت ہےکہ جب انسان قبر میں دفن ہوتاہے، اس کے پا س فرشتے آتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں:
1: مَنْ رَبُّكَ 2: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِى بُعِثَ فِيكُمْ
بعض روایا ت میں ہے کہ من نبیک،مادینک۔
سنن ابی داؤد،رقم الحدیث:4755،باب فی المسئلۃ فی القبر )
اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی آدمی” 87چک “میں فوت ہو ا، اور نبیﷺمدینہ منورہ میں ہیں۔ اور عربی میں دو لفظ ہیں،کوئی دور ہوتو اسے ”ذالک“ کہتے ہیں اور اگر قریب ہوتو ”ہذا “۔ یعنی اگر دور ہوتو وہ، اگر قریب ہو تو یہ۔ فرشتہ کہتا ہے
”ماتقول فی ھذاالرجل “اگر اللہ کے نبی 87چک کے قبرستان میں نہ ہوتے، تو فرشتہ کہتا ”ماتقول فی ذلک الرجل “اس شخص کے بارے میں کیا کہتاہے؟حالانکہ فرشتے نے پوچھا ”ماتقول فی ھذاالرجل “
اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا ہے؟
اہل بدعت کی دلیل کی وضاحت:
یہ دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہا ں 87 چک میں ہیں۔ ایک سیکنڈ میں لاکھوں موتیں ہوتی ہیں۔ اس کامطلب یہ ہے کہ لاکھوں قبروں میں نبیﷺتشریف لاتے ہیں۔ تو حاضرناظر توہوئے نا۔ میں نےکہا: نہیں۔ وہ کہتاکیوں نہیں؟ میں نے کہا تیرے خلاف قرآن موجود ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی قوم بتوں،ستاروں،سورج کو بھی پوجتی تھی۔ قرآن میں ہے۔
” فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا“
[الانعام:76]
جب رات چھاگئی ابراہیم علیہ السلام نے ستارے کودیکھا۔ اورقوم کو سمجھانے کے لیے فرمایا ”هَذَا رَبِّي“یہ رب ہے۔
”فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ “
[الانعام:76]
جب ستارہ غروب ہوگیا تو کہا کہ ڈوبنے والے خدانہیں ہوتے۔ یہ کیسارب ہے؟
ابراہیم علیہ السلام نے” ھذا“کہا۔ حالانکہ ستارہ دور ہے ذلک کہناچاہیے تھا۔ جیسے فرشتے نے یہاں ھذا کہا وہاں ابراہیم علیہ السلام نے دور والے کو ھذاکہا۔ اور کہا
”ماتقول فی ھذا الرجل“ ک
ہنے لگا کیا پھر اصو ل غلط ہے؟ میں نے کہا کہ اصول بھی ٹھیک ہے،وہ کہنے لگا کہ پھر ابراہیم علیہ السلام نے” ھذا“کیوں کہا تو میں نے کہا کہ یہ ہمارے ذمہ ہے،یہ تمہیں سمجھ نہیں آئے گی۔ اسی لیےتو تم پھسلتے ہو۔
ایک اور ضابطہ:
میں نے کہا کہ ایک اور ضابطہ ہے کہ جس چیز کو دیکھاجارہا ہے وہ دور ہو لیکن دیکھنے والے او راس چیز کے درمیان کوئی حجاب نہ ہوتو اسے ھذاکہتے ہیں۔ ابراہیم م  زمین پر ہیں اور ستارے آسمان پرہیں۔ درمیان میں کروڑوں کلومیٹر کا فاصلہ ہے لیکن حجاب نہیں تھا۔ اس لیے ابراہیم علیہ السلام نے” ھذا “فرمایا۔ اسی طرح میت سرگودھا میں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں ہیں، درمیان میں حجاب نہیں تھا اس لیے کہا
ما تقول فی ھذاالرجل۔
آمدم بر سرِ مطلب:
بات یہاں سے چلی تھی کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پوچھا ”ماالدلیل علی ماتدعی یا محمد“ جب یہ ثابت ہے کہ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے بغیر دلیل کے کلمہ پڑھا، تو آپ نے یہ دلیل کیسے پیش کردی تو میں نے کہا، وہ بات بھی ٹھیک ہے اور یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ کیونکہ مطالبہ دلیل دو قسم کا ہوتا ہے۔
1: از راہ محبت2: از راہ مخالفت
دونوں میں فرق ہےمثلاً ایک بچے نے تلاوت کی، آپ کو پسند آئی، آپ کہتے ہیں کہ ماشاء اللہ اس بچے نے کس قاری صاحب سے پڑھا ہے؟ ایک اور نے پڑھا اس کا اعراب اور لہجہ صحیح نہیں تھا، تو آپ کہتے ہیں ”اِنّیں کس قاری صاحب تو پڑھیا اے؟“سوال ایک ہی ہے ،لیکن پہلا پوچھنا بطور محبت تھا اور دوسرا پوچھنا بطور نفرت تھا، پہلا بطور موافقت کے تھا اور دوسرا بطور مخالفت کے تھا۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے پوچھا بطور محبت اور موافقت کے،اس پوچھنے کو پوچھنا نہیں کہتے۔ دوسروں نے بطور مخالفت کے دلیل مانگی تھی، ابوبکر نے بطور موافقت پوچھا ہے کہ حضور آپ کے دعویٰ نبوت پر کیا دلیل ہے؟ایسا لگتاہے کہ دعویٰ دل میں اتر چکا ہے، لیکن پھر پوچھتے ہیں، کیا دلیل ہے۔ دونوں میں فرق واضح ہوگیا۔
حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کا واقعہ:
مضمون یہ چل رہا تھا کہ کبھی اللہ بندے کو توفیق عطا فرماتاہے بغیر بندے کی محنت کے، جیسے اللہ تعالی نےحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو چنا ہے۔ دوسرا واقعہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کا ہے۔ یہ صحابی ہیں بڑے پائے کے۔ حضرت وحشی نے ابھی کلمہ نہیں پڑھا تھا،غلام تھے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے۔ وحشی مکہ میں ہیں، اورادھر جب میدان احد سجا۔ تو چونکہ ہندہ کے والد میدان بدر میں قتل ہوئے تھے تو ہندہ نے کہا کہ میرے والد کو حمزہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا ہے۔ اگر تو نے میرے باپ کے قاتل حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کرے گا تو میں تجھے اپنا تمام زیور اتار کر دے دوں گی، حضرت جبیر بن مطعم نے کہا کہ اگر تو حضرت حمزہ کو قتل کیا تو تجھےآزاد کر دوں گا۔ وحشی چھوٹے نیزے کے بڑے ماہر تھے۔ انہوں نے تاک کر نیزا مارا، حضرت حمزہ شہید ہوگئے اور وحشی آزاد ہوگئے اور مکہ سے نکل گئے۔ وحشی کو یہ غم تو تھا کہ مسلمان فاتح بننے کے بعد مجھے قتل کریں گے اور انتقام لیں گے۔ حضرت حمزہ عنہ کو شہید کیا گیا، جسم کے ٹکڑے کیے گئے، مثلہ کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا شدید دکھ ہوا۔
لیکن ایک وقت آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ تم وحشی کے پاس جاؤ اور اس کو اسلام کی دعوت دو۔ یہ اللہ تعالی کا انتخاب ہے۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے ”مرقاۃ شرح مشکوۃ “میں واقعہ یہ وقعہ نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ جاؤا سے دعوت دو۔ جب گئے، تو وحشی کہنے لگے: میں تو کلمہ نہیں پڑھتا، اس لیے کہ قرآن میں ہے کہ جو قتل کرتا ہے،زنا کرتا ہے، شرک کرتا ہے وہ جہنم میں جائے گا اور دوہرا عذاب پائے گا، تو سارے کرتوت تو میں نے کیے ہیں، میں کیسے کلمہ پڑھوں؟وحشی کا اشکال لے کرواپس پہنچےتو اس پر آیت اتری:
إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ۔
الفرقان:70 
فرمایا کہ وحشی کو جاکر بتاؤ کہ اللہ کا حکم آگیا ہے کہ جو ایمان لائے، نیک اعمال کرے اور گزشتہ گناہوں پر توبہ کرے تو اللہ اس کے گناہوں کو بھی نیکیوں سے بدل دیتے ہیں۔ وحشی کے پاس پیغام پہنچا، تو وحشی کہنے لگے:ہذا شرط شدید۔ کہ گناہوں کو بھی چھوڑوں اور توبہ بھی کروں، یہ میرے بس میں نہیں ہے،اتنا مشکل معاملہ مجھ سے نہیں ہوتا۔ پھر قرآن کی آیت اتری۔
إِنَّ اللّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ
النساء:48،116 
کہ اللہ شرک کے علاوہ جو گناہ چاہے معا ف فر ادے گا۔ وحشی نے پھر کہا کہ ابھی معافی کا وعدہ نہیں ہے، اللہ چاہیں تو معاف کریں گے ورنہ نہیں اور مجھے کیا پتہ میری معافی چاہیں گے یا نہیں؟وحشی کے لیے قرآن کی آیت پھر اتری۔
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوْا عَلٰى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ
الزمر: 53 
کہ مایوس نہ ہو میں تمہارے سارے گناہ معاف کردوں گا۔ وحشی نے کہا کہ اب ٹھیک ہے میں مسلمان ہوتاہوں۔ اسے کہتے ہیں۔
” اَللّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ
اتنا بڑا قاتل !اور اللہ کی رحمت آئی کہ خدا اسلام کی طرف لارہے ہیں اور وہ دوڑ رہے ہیں، بالآخر کلمہ پڑھا اور وحشی سے حضرت وحشی رضی اللہ عنہ بنے۔ پھر حضرت وحشی خود فرماتے ہیں کہ جب میں جاہل تھا زمانہ جاہلیت میں۔
”قد قتلت فی جاہلیتی خیر الناس وقتلت فی الاسلام شر الناس“
(مرقاۃ شرح مشکوۃالمصابیح)
لہذا وحشی نے عجیب کام کیا، کہتے ہیں کہ جب مسلمان ہوا تو جی چاہتا تھا کہ جتنا بڑا مسلمان جرنیل شہید کیا ہے تو اتنا بڑا کوئی کافر قتل کروں گا تاکہ بدلہ،کفارہ ہوجائے میرے گناہ کا۔ مسیلمہ کذاب جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد دعویٰ نبوت کیاہے۔ اس کے قاتل کا نام وحشی رضی اللہ عنہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا ضمیر مطمئن ہوا کہ میں نے حمزہ رضی اللہ عنہ کو تو شہید کیا تھا،لیکن بدلے میں کافر بہت بڑا مارا ہے۔
حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کا واقعہ:
تیسرا واقعہ فضیل بن عیاض کا ہے۔ ابتداءًیہ ڈاکو تھے،شرابیں پیتے تھے، لوٹ مار کرتے تھے لیکن جب خدا نے بدلا ایک گھر گئے، ڈاکہ ڈالنے کے لیے،دیوار پھلاندی، تہجد کا وقت تھا، آگے گھر میں تلاوت ہورہی تھی، وہاں یہ آیت سنی۔
أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِيْنَ آمَنُوْا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللّهِ
الحدید:16 
[ترجمہ: جو لوگ ایمان لے آئے ہیں، کیا ان کے لیے اب بھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر کے لیے پسیج جائیں؟]
یہ آیت سنی اورکہا: دوبارہ پڑھو، اور بالآخر تائب ہوکر واپس آگئے۔ یہ اللہ کا نظام ہے۔
حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ کا واقعہ:
حضرت جنید بغدادی کو خدا نے چنا،یہ شاہی پہلوان تھے ان کا نام چلتا تھا، بادشاہ نےاعلان کیا کہ اس سے کوئی پہلوان کشتی کرے، یہ سرکاری مال کھاتاہے، اس کی کشتی تو دیکھیں کہ پہلوان کتنا بڑا ہے ؟جب اعلان ہوا تو بوڑھا آدمی اسی (80) سال کا، کاپنتے وجود کے ساتھ میدان میں سامنے آگیا۔ اس نے کہا: میں کشتی کروں گا، جنیدبغدادی نے کہا: میں تیری ہڈی پسلی ایک کردوں گا، اپنی اوقات تو دیکھ،ہم سے کشتی کرے گا؟ تو اس نے کہا: ہاں میں کشتی کروں گا۔
جب میدان میں آئے، کشتی کرنے لگے تو کشتی سے پہلے اس بوڑھے نے جنید بغدادی کے کان میں کہا: جنید! میں سید ہوں،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے ہوں،بوڑھا ہوں، گھر میں فاقے ہیں، میں تو کشتی نہیں کرسکتا،اگر آج تو گر جائےگا، تو حضور کی نسل کو کھانا مل جائے گا، میں نے تجھ سے کشتی کیا کرنی ہے؟!جب یہ بات ان کے کان میں کہی، توجنید بغدادی نے دو چار ٹیڑھے میڑے داؤ پیچ کیے اور پھر گر گئے اور بوڑھا ان کے سینے پر سوار ہوگیا۔
جنید بغدادی کی شکست کا اور بوڑھے کی فتح کا اعلان ہوگیا۔ دیکھو !کتنا بڑا سرکاری پہلوان اور شکست کا اعلان، لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے لیے قربانی دی ہے،رات خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، فرمایا: جنید! تم نے ہماری نسل کا خیال کیا ہے، پوری دنیامیں میں تیری شہرت کے ڈنکے بجوادوں گا۔ آج دنیا میں کون سا ایسا بندہ ہوگا جو جنید بغدادی کو نہ جانتا ہو۔ ایک چھوٹا سا واقعہ پیش آیا اور اللہ نے کایا پلٹ دی۔
اللہ کسی یوں چن لیتاہے اور کسی کو محنت کرنی پڑتی ہے اللہ ہم سب کو بلامشقت اپنی محبت عطا فرمائے، اللہ بلامشقت رضاء و جنت عطا فرمائے۔ لیکن اگر کوئی مشقت آجائے تو خود کو تیار کریں اور خندہ پیشانی سے برداشت کریں۔
میں نے کئی بار آپ کی خدمت میں گزارش کی ہے، لہذا اسی مجلس میں فیصلہ کرو کہ جو گزشتہ گناہ ہیں اللہ معاف فرمادیں،آئندہ نہیں کریں گے،نیت کرو،نیت میں کیا حرج ہے۔ اللہ جس کو چاہیں گے اسی کو عطا فرمائیں گے۔ اب بتاؤموت کے وقت کا کوئی پتہ ہے،اچانک مرجائیں اور چہرے پہ داڑھی نہیں ہے، تو بتاؤ اللہ کے رسول کو کیا جواب دیں گے؟ شراب پی کے اچانک مرجائیں تو بتاؤ اللہ کو کیا جواب دیں گے؟اللہ نے موت کا وقت مقرر کیا ہے، لیکن بندے کو بتایا نہیں ہے۔ اس وجہ سے تاکہ بندہ ہر وقت تیار رہے، کسی وقت بھی موت کا فرشتہ آسکتاہے۔ میں اس لیے گزارش کرتاہوں کہ اللہ کے سامنے پہنچنا ہے اور پہنچنے کے دو ذریعے ہیں؛ کبھی اللہ چن لیتاہے اور کبھی محنت کرنی پڑتی ہے۔
حضرت جی مولانا محمدالیاس رحمہ اللہ کا ملفوظ :
مجھے حضرت جی مولانا محمدالیاس رحمہ اللہ کا ملفوظ یاد آیا جو ہماری فکر کے سوفیصد خلاف ہے۔ حضرت نے بڑی عجیب بات فرمائی، فرمانے لگے کہ ہم کبھی محنت کرتے ہیں، محنت کرکے بندے کو دین پہ لاتے ہیں اور بعض بندے بغیر محنت کے مل جاتے ہیں، جو بغیر محنت کے ملے اس کی قدر زیادہ کرنا،اس کی وجہ یہ ہے کہ جو تیری محنت سے آیا وہ تیری محنت کا نتیجہ ہے اور جو تیری محنت کے بغیر ملا وہ خدا کی عطا ہے۔ اللہ کی عطا کو معمولی نہ سمجھنا،ہم کہتے ہیں کہ یہ میری محنت سے آیا ہے اور یہ خود آیا ہے،حالانکہ وہ خود نہیں آیا خدا کی عطا ہے اور خدا کی عطا کی قدر کرو۔
اللہ ہمیں حقیقی محبت عطا فرمائے،ہمیں سلوک کی منزلیں طے کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اللہ ہمیں گناہوں سے بچائے، اللہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے محبت کی توفیق عطا فرمائے۔
وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔