بنیادی عقائد

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بنیادی عقائد
مدرسہ فیض القرآن تتلےوالی
خطبہ مسنونہ
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضللہ ومن یضلل فلا ھادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولٰنا محمدا عبدہ ورسولہ فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۔
پ 30 سورة العصر
دورد شریف:
اللھم صل علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید اللھم بارک علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید۔
تمہید:
اہل السنت والجماعت سے تعلق رکھنے والے غیور سنی نوجوان بھائیواور معزز علماءکرام! میں نے آپ حضرات کی خدمت میں قرآن کریم کی مختصر سورة تلاوت کی ہے اس سورة میں اللہ رب العزت قسم اٹھاکر ایک مضمون بیان فرماتے ہیں
”وَالْعَصْرِ“قسم ہے زمانے کی ” إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ “بے شک وہ انسان کامیاب ہو گا ” إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا“جس کا عقیدہ ٹھیک ہو ” وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ “
اور نیک اعمال کرتا ہو وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ اورصحیح عقیدہ اور نیک عمل کی دعوت دیتا ہو ” وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ “اگر صحیح عقیدہ اور نیک عمل کی راہ میں مشکلات آئیں تو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتا ہو۔
عقیدہ اور عمل کا تعلق:
پہلی بات عقیدہ ہے اور دوسری بات عمل۔ عمل کا تعلق آدمی کے جسم اور بدن کے ساتھ ہے عقیدہ کا تعلق آدمی کے دل اور قلب کے ساتھ ہے اللہ رب العزت نے عقیدے کا محل دل کو کیوں بنایا؟اور عمل کا محل جسم کو کیوں بنایا ؟ یہ بڑی واضح اور طے شدہ عقلی بات ہے کہ جس پر کوئی آیت یا حدیث پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔
قیمتی سامان کی حفاظت:
دنیا کے اندر یہ طے شدہ اصول ہے کہ چیز جتنی مہنگی ہوتی ہے اس کی حفاظت اتنی زیادہ کی جاتی ہے اس کے رکھنے کا محل اتنا ہی محفوظ ہو تا ہے۔ آپ نے اپنے شہر میں جوتوں کی دکان دیکھی کپڑوں کی دکان دیکھی اور سبزی کی دکان بھی کپڑے جوتے اور سبزی کی دکان پر کوئی گارڈ نہیں ہوتا کوئی پہرے دار نہیں رکھے جاتے لیکن جس دکان کے اندر سونا ہو وہاں پہرے دار بھی ہوتے ہیں وہ دکان لاک اپ بھی ہوتی ہے اس کی حفاظت کا بندوبست زیادہ کیا جا تا ہے کیوں کہ جو قیمت سونے اور چاندی کی ہے وہ قیمت سبزی کپڑے اور جوتے کی نہیں۔ تو چیز جس قدر قیمتی ہو اس کے رکھنے کا محل بھی اس قدر قیمتی ہو تا ہے اللہ رب العزت کے خزانے میں عمل بھی ہے اور عقیدہ بھی ہے جس قدر قیمت عقیدہ کی ہےاس قدر قیمت عمل کی نہیں ہے کیونکہ عقیدہ قیمتی تھا اللہ رب العزت نے اس کے رکھنے کا محل محفوظ یعنی دل رکھا اور عمل اس کے مقابلے میں کم قیمت تھا اس کے رکھنے کی جگہ نسبتا غیر محفوظ جسم رکھا تو جو جسم اور دل میں نسبت ہے وہ عقیدہ اور عمل میں نسبت ہے۔
اعضائے جسمانی اور عقیدہ وعمل:
اس کی دوسری وجہ بھی ذہن نشین فرما لیں اگر آدمی کے اعضائے بدن کٹ جائیں آدمی پھر بھی زندہ رہتا ہے۔ اگر آدمی کی آنکھ کٹ جائے پھر بھی زندہ رہتا ہے، ناک کٹ جا ئے تب بھی زندہ رہتا ہے ،پاؤں کٹ جائے تب بھی زندہ رہتا ہے۔ آپ نے کتنے ایسے مریض اور معذور دیکھے ہیں دونوں ہاتھ کٹے ہیں، دونوں پاؤں کٹے ہیں، آنکھ نکلی ہے تب بھی زندہ ہیں لیکن پوری دنیا میں ایک بھی بندہ آپ کو ایسا نہیں ملے گا کہ جس کا تھوڑا سا دل کٹ جائے اور وہ پھر بھی زندہ رہے۔ زندہ رہنے کے لیے جسم کا پورا ثابت صحیح ہونا ضروری نہیں لیکن دل کا سالم ہو نا ضروری ہے اس طرح مومن ہونے کے لیے عقائد کا ٹھیک ہونا ضروری ہے اعمال میں کوتاہی ہو تو مومن رہتا ہے عقیدہ میں کوتاہی رہ جائے تو مومن نہیں رہتا دل کے بعض اجزا کاٹ دیے جائیں تو بندہ زندہ نہیں رہ سکتا اور جسم کے بعض اجزا ء کا ٹ دیے جائیں تو بندہ زندہ رہ سکتا ہے اس طرح بعض عقائد ختم کر دیے جائیں تو بندہ مومن نہیں رہتا لیکن بعض اعمال میں خلل آجائے تو بندہ مومن رہتا ہے یہ دو باتیں آپ ذہن نشین کر لیں اور غور فرمائیں کہ عقیدہ کی محنت زیادہ ضروری ہے یا عمل کی محنت زیادہ ضروری ہے ؟
عقیدہ کی اہمیت:
اس لیے اللہ رب العزت نے فرمایا
”وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا“
نجات پانے کے لئے جو پہلی چیز ضروری ہے وہ عقیدہ ہے اور ہمارے ہاں عقیدے میں ہی کوتاہی ہے اعمال پر زور دیتے ہیں عقیدہ پرزور نہیں دیتے بد عقیدگی کا جرم بد عملی سے کہیں زیادہ ہے اور اللہ رب العزت نے عقیدہ کی اہمیت کو بیان کرنے کے لیے فرمایا
” لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ “
پ24 سورة الزمرآیت65
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ پر یہ وحی آئی لَئِنْ أَشْرَكْتَ عام مفسرین اس کا معنیٰ یہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے نبی کو خطاب کر کے فرمایا میرا پیغمبر اگر آپ سے بھی عقیدہ میں خلل آگیا تو آپ کے عمل بھی ضائع ہوں گے۔
مولوی ضیاءاللہ شاہ بخاری کی ہرزہ سرائی:
ضیاءاللہ شاہ بخاری نے اس آیت کا ترجمہ کیا۔ زبان کانپتی ہے کہتا ہے اللہ نے فرمایا نبی سے اور نبی پاک نے فرمایا کہ اللہ نے یہ بات مجھے بتا دی ہے کہ ہم نے تجھے سرداری دی ہے یہ دیا ہے وہ دیا ہے اگر (العیاذ باللہ) نقل کفر کفر نباشد ”لیکن خدا نے مجھے بتایا ” لَئِنْ أَشْرَكْتَ“اے میرے نبی اگر تو نے شرک کیا تو میں تجھے سرداروں کی جگہ سے اٹھا کے چوڑھے کی جگہ پر بٹھا دوں گا۔ “
العیاذباللہ نقل کفر کفر نباشد لعنت بھیجو اس پر یہ موحد ہے ؟میرے پاس کیسٹ موجود ہے مجھ سے کیسٹ منگوا لیں ضیاءاللہ شاہ بخاری کا بیان ہے میں کہتا ہوں کس چیز کو تم توحید کہتے ہو ؟ ہماری سمجھ سے ماوراء ہے۔
موحدوں والی شکل تو اپناؤ:
ریاض میں اسی جنوری میں جمعہ کے بعد میرا بیان تھا اور اللہ کی شان دیکھیں بیان بھی اس بندے کے گھر میں جو مسلکاً اہلحدیث ہے مجھے نہیں پتہ کہ یہ اہل حدیث ہے رمضان المبارک میں؛ میں مکہ مکرمہ گیا تو اس سے حرم میں ملاقات ہو گئی اس نے مجھ سے باتیں پوچھیں میں نے جواب دیا اس نے مجھ سے نمبر لے لیا میں نے اسے نمبر دے دیا میں جب سعودیہ پہنچا تو میں نے اسے فون کیا: ”کیا حال ہے؟ ٹھیک ٹھاک“ اب مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ بندہ کون ہے؟ میں نے کہا” یار میں نے آپ کا نمبر محفوظ کیا تھا آپ کون ہیں ؟“ کہتا ہے ”ملیں گے تو پتہ چل جائے گا میں کون ہو ں؟ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ “اس کو میرے بارے میں علم نہیں تھا کہ پاکستان میں یہ غیر مقلدین کے خلاف کام کرتا ہے میں نے کہا میں” ریاض “آرہا ہوں کہتا ہے بہت اچھا پھر ریاض پہنچ کر میں نے فون کیا کہتا ہر جمعہ کے روز ہمارے ہاں درس ہوتا ہے آج آپ درس دیں میں نے کہا چلو میں دے دیتا ہوں میں نے سمجھا اپنا ساتھی ہے۔ آئے السلام علیکم ان کے سلام ہی بتاتا ہے کہ یہ طبقہ اور ہے۔
وہاں جب میں گیا تو میں نے محسوس کیا کہ میں کسی اور جگہ بیٹھا ہوں کہتا ہے درس شروع کریں میں نے پھر وہاں پر توحید کے موضوع پر گفتگو کی جو میں بات بتانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ توحید کی آڑ میں بے ادبی کرنا اس کو توحید نہیں کہتے اس کو توحید کے نام پر بے دینی کہتے ہیں موحد اور خدا کے دربار میں ننگے سر کھڑا ہو یہ کیسے ممکن ہے؟ ایک سپاہی I.G کے سامنے ننگے سر کھڑا نہیں ہوتا اور خدا کو سجدہ کرنے والا خدا کے سامنے ننگے سر کھڑا ہو ہم کیسے مان لیں کہ یہ توحید ی ہے؟ توحیدی اور اکڑ کے نماز میں کھڑا ہو ہماری سمجھ سے باہر ہے ؟ہو توحیدی اور قرآن اٹھا کے جوتے کی جگہ پہ رکھے ہماری سمجھ سے باہر ہے؟ ہو توحیدی اور ٹانگیں قبلہ کی طرف پھیلا کر بیٹھ جائے ہماری سمجھ سے باہر ہے ؟سمجھ نہیں آتی کیسی توحید ہے؟
توحید کی آڑ میں …مذموم منصوبے:
خیر !میں عرض کر رہا تھا
” وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ“
بعض لوگ توحید کی آڑ میں:

کبھی نبوت پہ حملہ۔

کبھی کرامت پہ حملہ

توحید کی آڑ میں ولایت پر حملہ

توحید کی آڑ میں عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ

تو حید کی آڑ میں کبھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر حملہ
یہ نئے نئے حملے کریں گے اور عنوان توحید کا ہو گا۔
نبی کو قبر میں زندہ مانا تو ……؟:
مجھے ایک بندہ کہنے لگا ہم اس لیے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کے قائل نہیں کہ یہ توحید کے خلاف ہے میں نے کہا کیوں توحید کے خلاف ہے ؟ہمیں بھی سمجھاؤ کہتا ہے اللہ بھی ”حی ‘‘ نبی بھی” حی“اللہ کو بھی ہمیشہ کے لیے زندہ مانا نبی کو بھی ہمیشہ کے لیے زندہ مانیں یہ تو شرک ہو گیا۔ میں نے کہا تو یہ بتا دیکھنے والے کو عربی زبان میں کیا کہتے ہیں کہتا ”بصیر“میں نے کہا تو دیکھتا ہے ؟کہتا ہے جی ہاں۔ میں نے کہا کیا خدا بھی دیکھتا ہے؟ کہتا ہے جی ہاں میں نے کہا خدا بھی بصیر تو بھی بصیر یہ تو شرک ہوا تیری آنکھیں نکال دینی چاہییں تاکہ تو نہ دیکھے اور شرک نہ ہو۔
میں نے کہا سننے والے کو کیا کہتے ہیں؟ کہتا” سمیع“میں نے کہا اللہ پاک سنتے ہیں؟ کہتا ہے جی ہاں۔ میں نے کہا آپ بھی سنتے ہیں؟ کہتا ہے جی ہا ں۔ میں نے کہا تیرے کان پھوڑ دینے چاہییں تاکہ تو سمیع نہ رہے ا ور شرک نہ ہو۔ کہتا ہے جب ہم کہتے ہیں بندہ سنتا ہے معنی اور ہوتا ہے۔ خدا سنتا ہے معنی اور ہوتا ہے۔ خدا دیکھتا ہے معنی اور ہوتا ہے بندہ دیکھتا ہے معنی اور ہو تا ہے۔ میں نے کہا جب ہم کہتے ہیں نبی زندہ ہے معنی اور ہو تا ہے خدا زندہ معنی اور ہو تا ہے۔ اس کی حیات اور ہے اور نبی کی حیات اور ہے۔
ازلی اور ابدی میں پہلا فرق:
اس میں فرق ہے وہ یہ کہ خدا کی حیات ازلی بھی ہے ابدی بھی ہے نبی کی حیات ازلی نہیں ابدی ہے اور ابدی حیات پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو کیا ابدی حیات تو ہمیں بھی ملے گی بھائی اللہ ہم سب کو جنت میں لے جائے (سامعین….آمین ) تو جنت میں جانے کے بعد موت آئے گی ؟( سامعین…..نہیں) تو جنت میں حیات کون سی ہو گی ؟ (سامعین ….ابدی) تو پھر شرک ہو جائے گا فرق کیا ہے ؟ہمیں حیات کچھ سال بعد ملے گی نبی کو پہلے ملی ہے تو ابدی حیات ہر امتی کو ملنی ہے جو کلمہ گوہے۔ خدا کی حیات ازلی بھی ہے اور ابدی بھی ہے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ازلی نہیں؛ ابدی ہے۔ خدا کی حیات اور ہے اور نبی کی حیات اور ہے۔
ازلی اور ابدی میں دوسرافرق:
اور اس میں دوسرا فرق یہ ہے کہ اللہ کی حیات ہمیشہ سے ہے ہمیشہ کے لیے ہے درمیان میں ایک سیکنڈ موت کا نہیں ہے اور پیغمبر کو حیات ملی ہے پھر نبی پر وفات آئی ہے پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو حیات ملی ہے۔ تو نبی کو حیات ملنے کے بعد موت ملتی ہے اور خدا کی حیات میں انقطاع نہیں، تسلسل ہے۔ وہ حیات الگ ہے یہ حیات الگ ہے۔
مسئلہ سماع موتیٰ اور توحید:
ایک شخص کہنے لگاہم کہتے ہیں جی قبروں والے نہیں سنتے۔ میں نے کہا وجہ؟ کہتا ہے یہ تو حید ہے اس لیے کہ جب یہ کہیں کہ سنتے ہیں تو لوگ کہیں گے دیتے بھی ہیں۔ میں نے کہا تو نے کہا توحید یہ ہے کہ نہیں سنتے ؟اگر سنتے کہیں تو لوگ کہیں گے دیتے بھی ہیں۔ میں نے کہا توحید تو یہ ہے کہ سنتے ہیں دے تب بھی نہیں سکتے۔ نہیں سمجھے؟ سنتے ہیں دے تب بھی ؟(سامعین ….نہیں سکتے) ایک بندہ سنتا نہیں اس لیے نہیں دیتا یہ کون سی توحید ہے سن کر بھی نہیں دے سکتا یہ توحید ہے۔ میں نے کہا تم کس توحید کی بات کرتے ہو؟ بلا وجہ توحید کے نام پرکبھی پیغمبر کی حیات پر حملہ کبھی کرامت پر حملہ کیا یہ توحید ہے ؟
قدرتِ خداوندی اور کرامت:
میں بہاولپور کے قصبہ مبارک پور میں گیا دو آدمی آگئے سکول ٹیچر تھے مجھے کہتے ہیں ہم پہلے دیوبندی تھے اب ہم اہلحدیث ہوئے ہیں میں نے کہا اب مرزائی ہو جاؤ مجھے کیا فرق پڑتا ہے؟ رب نے سارے بندے تو جنت میں نہیں بھیجنے جہنم بھی تو بنائی ہے۔ اصل میں ان کے ذہن میں ہوتا ہے کہ ہمارے سوالوں کا کوئی جواب نہیں دے سکتا میں نے کہا ہم پریشان نہیں ہوتے ہمیں اپنے مسلک پر بڑا اطمینان ہے۔
مجھے آپ دلیل بتا دیں جس کو دیکھ کر آپ اہلحدیث ہوئے ہیں اس کا جواب میرے ذمہ ہے ہدایت اللہ کے ذمے۔ مجھے کہتا ہے فضائل حج میں حضرت شیخ زکریا رحمہ اللہ نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک بندہ حج کے لیے جارہا تھا راستے میں بیمار پڑا اور لیٹ گیا اور کوئی علاج کرنے والا اس کو نہ ملا ایک شخص آیا اور اس نے کہا میں نبی ہوں اور خدا نے مجھے تیرے علاج کے لیے بھیجا ہے یہ حضرت شیخ زکریا نے کفر لکھا ہے۔ میں نے کہا اس میں کفر کیا ہے؟ کہتا ہے بندہ مرنے کے بعد دنیا میں نہیں آسکتا اگر آیا ہے تو کفر ہے۔
میں نے کہا حضرت شیخ رحمہ اللہ نے یہ نہیں لکھا کہ ”آیا“ ہے بلکہ اس نے یہ کہا ہے کہ میں اللہ کا نبی ہوں مجھے اللہ نے ”بھیجا“ ہے۔ آنا اور ہے اور بھیجنا اور ہے میں نے کہا کوئی بندہ یہ کہے کہ مرنے کے بعد آدمی دنیا میں” آ“سکتا ہے یہ بات الگ ہے اور کوئی کہے کہ خدا مرنے کے بعد بندے کو ”لا“ سکتا ہے، یہ بات الگ ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔ ایک آدمی کہتا ہے میں آسمان پر جا سکتا ہوں یہ غلط ہے اور ایک آدمی یہ کہے کہ خدا ہم سب کو ابھی آسمان پر لے جا سکتا ہے تو کیا یہ بھی غلط ہے ؟
حیات بعد الممات …بنی اسرائیل کا مقتول:
اب اس کو تھوڑی سی بات سمجھ آئی۔ میں نے کہا اگر یہ بات قرآن میں موجود ہو تو پھر ؟کیا تم قرآن بھی چھوڑ دو گے؟ کہتا ہے قرآن میں نہیں ہے۔ میں نے کہااگر میں ثابت کر دوں تو ؟پھر کہتا ہے ہم مان لیں گے۔ میں نے کہا اللہ رب العزت قرآن میں فرماتے ہیں سورة البقرہ میں ہے کہ بنی اسرائیل کا ایک بندہ قتل ہوا قاتل نہیں ملتا تھا موسیٰ علیہ السلام کے پاس گے موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے بات کی اللہ نے وحی بھیجی فرمایا ان سے کہہ دو ایک گائے ذبح کریں اور اس کا ایک ٹکڑا مقتول کے بدن سے لگا دیں مقتول زندہ ہو کر خود بتائے گا کہ قاتل کون ہے؟ میں نے کہا ایسا ہوا ؟کہتا ہے جی ہوا ہے۔ میں نے کہا اب کہہ دو کہ قرآن میں بھی کفر ہے اب خاموش۔
حیات بعد الممات… اورواقعہ حزقیل علیہ السلام:
”أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ “
ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے اللہ کے نبی نے کہا جہاد کرو! کہا جی نہیں کرتے! مر گئے
” وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا“
موت دے دی ” ثُمَّ أَحْيَاهُمْ “پھر ایک نہیں اللہ ہزاروں کو زندہ کر کے اس دنیا میں لائے۔ کہہ دو کفر ہے۔
پ 2سورۃ البقرۃ آیت 243
حیات بعد الممات …اور واقعہ عزیر علیہ السلام:
تیسرے پارے میں ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں
”أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا “
حضرت عزیر علیہ السلام تھے یا کوئی اور ولی تھے گزرے بستی تباہ شدہ تھی کہا اللہ یہ بستی کیسے زندہ ہو گی؟ خدا نے موت دے دی ایک دن نہیں سو سال تک دی۔ سو سال کے بعد اللہ نے زندہ کیا فرمایا ” كَمْ لَبِثْتَ“کتنی دیر ٹھہرے ہو ؟ کہا ” لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ“ایک دن یا دن کا تھوڑا سا حصہ۔ میں نے کہا حضرت عزیر علیہ السلام دنیا میں آئے ؟ کہتا ہے جی آئے۔ میں نے کہا کہہ دو کفر ہے۔
پ 3سورۃ البقرۃ آیت 259
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ کیا تھا قبر پر کھڑے ہو کر فرماتے تھے ” قم باذن اللہ“خدا دنیا میں کھڑا کر دیتا۔ کہہ دو کفر ہے۔ میں نے کہا جو کفر تمہیں فضائل اعمال میں نظر آئے یہ تو قرآن میں موجود ہے کہہ دو کفر ہےاور یہودی ہو جاؤ۔
مماتیوں کا ایک شبہ:
ایک دلیل اور دے گا ایک آدمی نے مجھے کہا حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کے نبی تھے فوت ہو گئے،ٹھیک ہے۔ پھر وہاں

بارش تو ہوتی ہو گی۔

بادل بھی گرجتے ہوں گے۔

یعنی آندھیاں بھی آتی ہوں گی۔

مٹی بھی اڑتی ہو گی۔
عزیر علیہ السلام کو پتہ کیوں نہ چلا ؟ اگر نبی زندہ ہو تا تو پتہ چل جاتا۔ یہ دلیل ہے آدمی سویا ہوتا ہے ہوا چل رہی ہوتی ہے نہیں پتہ چلتا مچھر کا ٹ رہا ہوتا ہے نہیں پتہ چلتا ایک آدمی کو ہلکی سی آہٹ بھی آئے پتہ چل جاتاہے جیسے اللہ نے پوچھا حضرت عزیر سے کہ ” كَمْ لَبِثْتَ “حضرت عزیر نے فرمایا ” لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ“یہ ان کی دلیل ہے کہ نبی مردہ ہوتے ہیں۔
واقعہ اصحابِ کہف:
میں نے کہا قرآن کریم میں اللہ تعالی ٰ نے اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا ہے تین سو نو سال اصحاب کہف سو گئے اللہ نے فرمایا کتنے دن ٹھہرے ؟” يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ“دیکھو سوئے پڑے ہیں پتہ نہیں چلتا کہہ دو مردے تھے۔ سوئے ہوئے پتہ نہ چلنا یہ دلیل ہے موت نہیں ہے۔ آدمی سوجائے تو پتہ پھر بھی نہیں چلتا آدمی دنیا چھوڑ جائے تو پتہ پھر بھی نہیں چلتا قیامت کے دن اٹھیں گے تو اللہ فرمائیں گے کتنی دیر ٹھہرے؟ تو لوگ کیا کہیں گے؟ جواب دیں گے قرآن کریم میں ہے کچھ دن ٹھہرکے آئے ہیں تو کیا تم مردے ہو یا زندہ بیٹھے ہو؟ تو پتہ کیوں نہیں چلے گا اتنے سال زندہ رہنے کے باوجود بھی خدا کی ہیبت کی وجہ سے پتہ نہیں چلے گا۔
میں پہلے بات یہ عرض کر رہا تھا کہ توحید کی آڑ میں بد عقیدگی پھیلانا یہ اہل السنت والجماعت کا کام نہیں اہل بدعت کا کام ہے اہل الحاد کا کام ہے اللہ نے قسم اٹھا کے فرمایا
” وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا “
نجات کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ تمہارا عقیدہ ٹھیک ہو۔ عقیدہ کے نام پر غلط عقیدہ دیتے ہو عقیدہ صحیح کرنے کے نام پر امت کو تباہ کرتے ہو ہم بھی کہتے ہیں کہ عقیدے کی تحریک چلاؤ !پہلے لوگوں کا عقیدہ ٹھیک کرو پیغمبر نے بھی تیرہ سال لوگوں کے عقیدے پر محنت کی ہے میں یہ بتا رہا تھا دو چیزیں ہیں۔ 1 عقیدہ 2 عمل
عقیدہ توحید:
عقائد میں پہلا عقیدہ؛ عقیدہ توحید ہے۔ تو حید کے بارے میں تین باتیں ذہن میں رکھ لیں۔
1: اللہ موجود ہے:
ایک طبقہ دنیا میں وہ ہے جو کہتا ہے خدا ہے ہی نہیں۔ انہیں کہتے ہیں ”دہریے“دہر کہتے ہیں زمانہ کو یہ کہتے ہیں زمانہ سے کائنات چلتی ہے خدا ہے ہی نہیں۔
2: اللہ ایک ہے:
ایک اور طبقہ ہے وہ کہتا ہے خدا ہے لیکن ایک نہیں کروڑوں ہیں انہیں ”مشرک“کہتے ہیں۔
3: اللہ ہر جگہ پر ہے:
ایک طبقہ ہے جو کہتا ہے خدا ہے لیکن صرف ایک جگہ پر، صرف عرش پر اسے ”غیر مقلد“کہتے ہیں لوگوں نے ان کے بہت سارے نام بنائے ہوئے ہیں کچھ کہتے ہیں مسلمانی سکھ وغیرہ لیکن ہم ان کو غیر مقلد کہتے ہیں قرآن کریم نے ان سب کی تردید کی ہے
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
اللہ رب العزت ہے اور ایک ہے
هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ
حاضرو ناظر صرف اللہ:
اللہ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
دلیل 1:
وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ
پ1سورة البقرہ آیت115
مشرق بھی خدا کا مغرب بھی خدا کا تم جدھر منہ کرو گے خدا ادھر ہو گا خدا ہر جگہ پر ہے
دلیل 2:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ
پ2 سورة البقرۃ آیت186
میرے بندے جب میرے بارے میں پوچھیں فانی قریب میں تمہارے قریب ہو ں عرش قریب ہے یا دور ؟(سامعین۔دور)عرش قریب نہیں بعید ہے پہلے سات آسمان اوپر کرسی ہے کرسی پر سمندر ہے سمندر پر عرش ہے قرآن کہتا ہے
”وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ “
پ3 سورة البقرۃ آیت255
کرسی آسمانوں کے نیچے ہے یا اوپر ؟(سامعین… اوپر) اور کرسی کے اوپر کیا ہے
وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ۔
پ12 سورة ھود آیت7
اللہ کا عرش پانی پر ہے یہ قریب ہے کہ دور ہے ؟( سامعین۔ دور) اللہ کیا فرماتے ہیں قریب ہوں۔ میرے پاس تیونس کے عرب لڑکے آئے وہ کہنے لگے اس سے مراد خدا نہیں” خدا کا علم “ہے میں نے کہا اللہ فرماتے ہیں ” وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي“جب یہ بندے میرے بارے میں پوچھیں خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ میرے علم کے بارے میں پوچھیں تو فرمانا میرا علم قریب ہے جو سوال ہوا وہی جواب ہو گا جب سوال اللہ کی ذات کے بارے میں ہے تو جواب بھی اللہ کی ذات کے بارے میں ہو گا نا عجیب بات ہے بندے سوال ذات کے بارے میں پوچھیں خدا جواب علم کے بارے میں دے تو لوگ کہیں گے ہم نے پوچھا کیا ہے جواب کیا ملا لوگ کہتے ہیں قرآن نہیں پڑھتے سنو۔
دلیل 3:
” وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ “
اللہ آسمانوں میں بھی ہے اللہ زمین میں بھی ہے۔
پ 7 سورة انعام آیت3
دلیل 4:
” نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلَكِنْ لَا تُبْصِرُونَ “
ہم تمہارے قریب ہوتے ہیں لیکن تمہیں نظر نہیں آتے جب تمہاری روح نکلتی ہے ” فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ “ہم تمہارے قریب ہوتے ہیں نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ لیکن تمہیں نظر نہیں آتے۔
پ27 سورۃ واقعہ آیت نمبر85
دلیل 5:
” نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ“
ہم تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
پ26 سورة ق آیت16
دلیل 6:
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ تم تین ہو تو چوتھا خدا ہے وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ تم پانچ ہو تو چھٹا خدا ہے ” وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ “تم کم ہو یا زیادہ خدا تمہارے ساتھ ہے۔
پ28 سورة المجادلہ آیت7
اللہ آسمان میں بھی ہے
” أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ “
کیا تم اس خدا سے مطمئن ہو جو آسمان میں ہے اور تمہیں عذاب دے کر برباد کر دے۔
پ29 سورة الملک آیت16
وہ آسمان میں بھی ہے وہ زمین میں بھی ہے ترمذی میں سورةحدید کی تفسیر میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث موجود ہے حضور نے فرمایا
” لو أنكم دليتم رجل بحبل إلى الأرض السفلى لهبط على الله “
ترمذی شریف رقم الحدیث 3298
کہ اگر تم رسی پھینکو اور سب سے نچلی زمین پر جائے تو وہ رسی بھی اللہ پر گرے گی صحیح بخاری میں روایت موجود ہے: جب نماز پڑھو تو منہ قبلہ کی طرف کرو کیوں کہ اللہ تمہارے سامنے ہے سامنے پر بھی دلیل موجود ہے تو میں گزارش کر رہا تھا خدا ہے خدا ایک ہے خدا ہر جگہ پر ہے ہمارے پاس دلائل موجود ہیں خدا قسم اٹھا کے فرماتا ہے کہ تمہارا عقیدہ ٹھیک ہو نا چاہیے۔
عقیدہ رسالت:
اس کے بعد نبوت کے بارے میں تین باتیں ذہن نشین فرما لیں۔
1۔ ذاتِ نبوت 2۔ وصفِ نبوت 3۔دلیلِ نبوت
ذاتِ نبوت:
ذاتِ نبوت بشر ہے اللہ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ
پ 16 سورة کہف آیت110
وصفِ نبوت:
وصف نبوت نور ہے اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں
” قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ يَهْدِي بِهِ اللَّه “
اللہ اس سے ہدایت دیتا ہے۔
پ6 سورة المائدہ آیت15
دلیلِ نبوت:
دلیلِ نبوت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے ہم ذات نبوت بھی مانتے ہیں، وصف نبوت بھی مانتے ہے اور دلیل نبوت بھی مانتے ہیں۔ کہتے ہیں ماشاءاللہ ہمارے حضرت کا چہرہ نورانی ہے کیا معنیٰ؟ نماز پڑھی ہے اثر چہرے پر آیا ہے یہ نہیں کہ حضرت کا چہرہ نور بن گیا چہرہ بشر کا رہتا ہے اثرات نور کے آتے ہیں۔ فرق کیا ہے؟ ایک ہے معاملہ نبی کا اور ایک ہے معاملہ امتی کا۔ امت پہ غلبہ مادیت کا ہے اور نبی پر غلبہ روحانیت کا ہے۔ مادیت کو بشریت کہتے ہیں روحانیت کو نورانیت کہتے ہیں۔ اس کا معنیٰ یہ نہیں ہوتا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بدل جاتی ہے تو ذات پیغمبر بشر ہے وصف پیغمبر نور ہے۔
میں یہ بات چیلنج کے ساتھ کہتا ہوں تمہیں پوری دنیا میں ایک شخص بھی نہیں ملے گا جو یہ لکھ کر دے کہ پیغمبر بشر نہیں ہیں ہزار تقریریں کریں گے مگر لکھ کر نہیں دیں گے اس لیے ہم کہتے ہیں دیکھو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سید البشرہیں اور جبرئیل سید الملائکہ اور اماں حوا ام الانسان اور حضرت آدم ابوالانسان ہیں تو

ابو الانسان ہونے کے انسان ہو نا ضروری۔

سید الملائکہ ہو نے کے لیے ملک ہو نا ضروری۔

اور سید البشر ہو نے کے لیے بشر ہو نا ضروری۔
سردار تو بنتا ہی قوم میں سے ہے کسی دوسری قوم کا بندہ آکر سردار بنے وہ تو سرداری سجتی ہی نہیں اس لیے ہمارے نبی کی ذات بشر ہے اور وصف نور ہے۔
صدیق اکبر کا خواب ….دلیلِ نبوت:
اور دلیل نبوت معجزہ ہے میں اس پر مثال دیتا ہوں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابھی کلمہ نہیں پڑھا اسلام کا اعلان نہیں ہوا شام کے علاقے میں گئے وہاں جا کر عیسائی راہب کو خواب بیان کیا راہب نے تعبیر دی مکہ مکرمہ کا ایک شخص نبوت کا دعوی کرے گا
” تكون وزيره في حياته وخليفته بعد موته “
وہ اعلان نبوت کرے گا تو توں اس کا وزیر ہو گا اور جب وہ دنیا چھوڑ جائے گا تو توں اس کا جانشین ہو گا حضرت ابو بکر صدیق نے خواب دیکھا عیسائی عالم سے تعبیر لی حضرت صدیق اکبر مکہ میں آئے سیدھے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ملے بچپن کا یارانہ تھا ادھر اعلان نبوت ہوا اس وقت صدیق مکہ میں نہیں شام میں تھے واپسی پر اعلان نبوت کو سن کر فرمایا ”
يا محمد ما الدليل على ما تدعي “
اے محمد! یہ جو آپ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اس پر دلیل کیا ہے؟
جواب سنو! حضور نے فرمایا
”الرؤيا التي رأيت بالشام“
ابو بکر میرے دعویٰ نبوت پر دلیل وہ خواب ہے جو تو نے شام میں دیکھا اور مکہ میں آکر مجھ سے سوال کیا۔ یہ کیا ہے ؟ (سامعین۔ دلیل نبوت) معجزات کو دلائل نبوت کہتے ہیں۔
خصائص کبریٰ ج 1 ص 51
سر سید احمد اور انکار معجزہ:
سر سید خان نے دلائل نبوت کا انکار کیا کیوں کہ سر سید کہتا ہے دور کی بات کو دیکھنا اللہ کا کام ہے، دور کی بات کو سنناخدا کا کام ہے، یہ چاند کے ٹکڑے کرنا خدا کا کام ہے چلتے دریاؤں کو روک دینا خدا کا کام ہے، میں یہ نبی کے کام نہیں مانتا۔ انکار کیا کہتا ہے جو اس کو مان لے وہ مشرک ہوا اس کو بھی تو حید کا ہیضہ ہوا۔ ایک ہمارے ہاں قوم پھرتی ہے انہوں نے مان تو لیا لیکن ایک قدم آگے بڑھ کے مانا انہوں نے کہا اگر چلتے دریا کو روک سکتا ہے تو ہماری قسمت نہیں بدل سکتا؟ اشارہ کر کے چاند کے دو ٹکڑے کر سکتا ہے تو ہمیں اولاد نہیں دے سکتا ؟اگر صدیق کو شفاءدے سکتے ہیں تو ہمارے مریض کو نہیں دے سکتے؟ غلط فہمی دونوں کو لگی۔ ایک نے دلیلِ نبوت کا انکار کیا کہ اللہ کے ساتھ شرک نہ ہو جا ئے انہوں نے دلیلِ نبوت کا اقرار کیا اور نبی کو ”مختار کل“ مان لیا۔
مسلکِ اعتدال …….. اہل السنت والجماعت:
اہل السنت والجماعت کا مسلک یہ ہے دلیلِ نبوت فعل خدا کا ہوتا ہے جو نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے خدا چاہے تو ظاہر کر دے خدا نہ چاہے تو ظاہر نہ فرمائے۔ ہم سرسید کی طرح انکار بھی نہیں کرتے اور دوسری قوم کی طرح ”مختار کل“ بھی نہیں مانتے اللہ دکھانے پر آئے تو دکھا دے اور اگر نہ دکھا نے پر آئے تو آپ غزوہ بنی مصطلق میں گئے ہیں اونٹنی کے نیچے امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار ہے۔ اللہ نے نہیں دکھایاپتہ نہیں چل رہا جب دکھا نے پر آئے تو نبی مکہ مکرمہ میں بیت اللہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہیں خدا نے سارے پردے ہٹا دیے فرمایا دیکھو بیت المقدس کے دروازے کتنے ہیں؟ کھڑکیاں کتنی ہیں؟ دکھانے پر آئے تو سینکڑوں کلومیٹر دور بیت المقدس کی کھڑکیاں دکھا دے اور نہ دکھانے پر آئے تو اونٹ کے نیچے ہار پڑا نہ دکھائے ہم دلیلِ نبوت بھی مانتے ہیں۔
قیامت صغریٰ و کبریٰ:
ایک ہوتی ہے قیامت صغریٰ اور ایک ہوتی ہے قیامت کبریٰ۔ کبریٰ کا معنیٰ بڑی اور صغری ٰکا معنی ٰچھوٹی قیامت
مَنْ مَاتَ قَامَتْ قِيَامَتُه
بندہ مر جاتا ہے تو چھوٹی قیامت شروع ہو جاتی ہے اور حشر کو دوبارہ اٹھے گا تو بڑی قیامت شروع ہو جائے گی۔
الجامع الصحیح للسنن والمسانید ج 1 ص 322
جسم اور روح کا تعلق:
چھوٹی قیامت اور بڑی قیامت میں فرق یہ ہے کہ چھوٹی قیامت میں عرضِ نار ہے اور بڑی میں دخولِ نار ہے چھوٹی میں عرضِ جنت ہے اور بڑی میں دخولِ جنت ہے چھوٹی قیامت میں جسم الگ ہے روح الگ ہے صرف روح کا تعلق ہے بڑی قیامت میں جہاں روح ہے وہاں جسم ہے۔
دونوں میں فرق سمجھو قبر میں آدمی گیا فرشتہ پوچھتا ہے:

”من ربک“ تیرا خدا کون ہے؟

”من نبیک‘‘تیرا نبی کون ہے؟

” ما دینک “تیرا دین کیا ہے ؟
بندہ کہتا ہے’’ربی اللہ ،نبی محمد ، دینی السلام“اب حدیث مبار ک میں موجود ہے” فَيُنَادِى مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ“آسمان سے فرشتہ اعلان کرتاہے”فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ “اس کو جنت کا بچھونا دے دو۔ وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ جنت کا دروازہ کھول دواس کو جنت کا لباس پہنا دو میت یہاں پہ جنت وہاں پہ دروازہ کھلتا ہے ” فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا وَطِيبِهَا“وہاں سے جنت کی خوشبو جنت کی ہوا قبر میں آتی ہے” نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ“پہلی رات کی دلہن کی طرح سو جا یہ قبر ہے یہ چھوٹی قیامت ہے۔ اگر کافر ہے جواب نہیں دیا کہا جا تا ہے’’ فَأَفْرِشُوهُ مِنَ النَّارِ“جہنم کا بچھونا دو ” وَأَلْبِسُوهُ مِنَ النَّارِ“جہنم کا لباس دو ” وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ“میت یہاں پہ جہنم وہاں پر جہنم کا دروازہ کھول دو
’’حتی بعثہ اللہ من مرقدہ ذلک
“حتیٰ کہ اس سونے کی جگہ سے اٹھائیں گے جنت والاہے تو بھی سویا ہوا جہنم والا ہے تو بھی سویا ہوا نہ یہ جنت میں جاتا ہے نہ وہ جہنم میں جاتاہے جنت وہاں رہتی ہے جہنم وہاں رہتی ہے میت یہاں رہتی ہے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور مومن ہے تو جنت کی خوشبو بھی آتی ہے اور کافرہے تو جہنم کی بدبو بھی آتی ہے اسے کہتے ہیں عرضِ نار اورعرضِ جنت۔ قرآن کہتا ہے
” النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا“
پ 24 سورة المومن آیت نمبر 46
ان پر” نار“کو پیش کیا جاتاہے اور جب قیامت ہوگی
”وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ “
اگر کافر ہوگا
”أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ “
جہنم میں داخل کردو اگر مومن ہوگا
”فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي“
پ 30 سورة الفجر
مومن جنت میں داخل ہوجا گا قیامت صغریٰ میں عرضِ نار ہے، عرضِ جنت ہے جنت میں نہیں جاتا جنت پیش ہوتی ہے جہنم میں نہیں جہنم پیش ہوتی ہے قیامت کبریٰ میں اگر مومن ہے تو جنت میں جاتا ہے اگر کافر ہے تو جہنم میں جاتا ہے ہم وہ بھی مانتے ہیں ہم یہ بھی مانتے ہیں۔ اب یہ معنیٰ ہوتو کیا مشکل ؟ اب خواہ مخواہ مماتی پریشان کریں گے جنت کدھر ہے ؟نظر نہیں آرہی۔ جہنم کدھر ہے ؟نظر نہیں آرہی قبر کھلی ہے ؟تو نظر نہیں آرہی۔ ہمیں نظر کیوں نہیں آتی؟ ہم نے کہا نظر آنے کا نام ایمان نہیں ہے يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِنظر نہ بھی آئے پھر بھی مانے ایمان اس کا نام ہے۔
نگاہ ولی میں وہ تاثیر دیکھی:
میں آخری بات کرتا ہوں ہری پور میں گیا تو دو تین لڑکے اہلحدیث اکھٹے ہو کر آگئے کتاب ہاتھ میں پکڑی ہے حضرت تھانوی کی ارواح ثلاثہ کہ جی حکیم الامت حضرت تھانوی نے اس میں بہت کچھ غلط لکھا ہے۔ میں نے کہا سنائیں۔ کہتا ہے حضرت تھانوی لکھتے ہیں فلاں ولی ہندوستان کی مسجد میں تھے باہر نکلے کتے پر نگاہ پڑی تو کتا کامل ہوگیا اور باقی کتے اس کے پیچھے چل پڑے اور وہ کتے سارے مراقبے میں چلے گئے دیکھو ولی کی نگاہ سے کتا بھی کامل ہوتا ہے ،کتے بھی مراقبے کرتے ہیں۔ بھلا کتا بھی مراقبہ کرتا ہے؟ بھلا کتے بھی کامل ہوسکتے ہیں؟ یہ حکیم الامت حضرت تھانوی نے بات غلط لکھی ہے۔ میں نے اس سے کہا اگر یہ بات قرآن میں ہو تو پھر قرآن چھوڑ دے گا ؟کہتا ہے قرآن میں نہیں ہے میں نے کہا ہو تو؟ کہتا ہے دکھائیں میں نے کہا اصحابِ کہف جو غار میں گئے تھے ساتھ کتا بھی تھا وہ کتا ناقص تھا یا کامل ؟
کمال سے جنس نہیں بدلتی:
ہمیں اشکال تب ہوتا ہے ہم جب ہم سمجھتے ہیں کہ کامل بندہ ہے کتا کامل ہو تو شاید انسان بن جائے گا۔ کتا کامل ہوگا تو کتوں کے اعتبار سے ہوگا نہیں سمجھے ؟ آپ نے کتا رکھا ہے رکھوالی کے لیے گوشت بھی کھائے رکھوالی بھی کرے۔ کتوں میں کتا کامل ہوانا ؟آپ نے رکھا ہے رکھوالی کے لیے اور چور کے آنے پر نہ بھونکے تو کتا ناقص ہوا نا ؟آپ نے کتا رکھا ہے شکار کے لیے خرگوش پکڑکے دے آپ کا تو کتا کامل ہوا نا؟ اور اگر آپ بھی کھلائیں اور خرگوش بھی کھاجائے اور خرگوش کو پکڑ کے نہ دے تو کتا ناقص ہوا۔ جب ہم کہتے ہیں کتا کامل ہے تو کتوں کے اعتبار سے کامل ہے بندوں کے اعتبار سے نہیں۔
معیارِ ولایت کیا ہے ؟:
ضیاءالحق شہید ہوئے ہم جامعہ امدایہ فیصل آباد میں پڑھتے تھے ہمارے استاد شیخ نذیر احمد رحمہ اللہ نے طلباءکو جمع کیا اور جمع کرکے تقریر کی تو انہوں نے فرمایا آج ایک ولی دنیا سے اٹھ گیا ہے۔ آپ میں اگر کوئی پی پی کا، ق لیگ کا، ن لیگ کا، جمعیت کا ہو میری بات پہ ناراض نہ ہوں۔ میں ایک اصولی بات کہنے لگا ہوں انہوں نے فرمایا”ولی“اٹھ گیا ہے۔ پھر ہمیں استادوں نے کہا آپ کو تعجب ہوگا جو داڑھی منڈائے بھلا وہ بھی ولی ہو سکتا ہے ؟ کتنے اس کے اختیارات تھے اس نے اسلام نافذ نہیں کیا استادوں نے” ولی“کیسے کہہ دیا۔ فرمایا نہیں اشکال اس لئے ہوا کہ تم نے ضیاءالحق کا مقابلہ شیخ الحدیث سے کیا۔ضیاءالحق کا مقابلہ مسجد کے امام سے کیا ،ضیاءالحق کا مقابلہ چار ماہ لگانے والے تبلیغی بھائی سے کیا، ضیاءالحق صدر تھا تو صدر کا مقابلہ صدروں سے کرو ! S.H.O کا مقابلہ امام سے یا S.H.Oسے ؟ S.H.Oخدانہ کرے رشوت کھائے اور کام بھی نہ کرے، دوسرا کھائے اور کام بھی کرے تو کون اچھا ہوگا ؟ یار پیسے کھاتا ہے پر کام تو کرتا ہے لوگ کہتے ہیں پیسے کھاندا اے پر کم کردا اے جیڑی گل آکھے اس تے کھلو جاندا اے اس گلوں جنڑا اے اب جنڑا کا معنی یہ ہوتا ہے!! جنڑاکا معنی تو یہ تھا کہ حرام بھی نہ کھاتا کام بھی کرتا اب ہم نے اس کو جو جنڑا کہا یہ دوسرے ایس۔ ایچ۔ او کے مقابلہ میں کہا۔
جب ہم نے کہا کتا کامل ہے تو کتوں کے ؟( سامعین۔۔ اعتبار سے کہا) اصحابِ کہف کے ساتھ اللہ نے اس کتے کا تذکرہ کیا وہ کتا کامل تھا یا ناقص ؟تو میں نے کہا بنی اسرائیل کے ولی کی نگاہ پڑے تو کتا کامل ہوجاتا ہے پیغمبر کی امت کے ولی کی نگاہ پڑے تو کتا کامل کیوں نہیں ہوتا ؟ میں نے کہا یہ قرآن میں ہے بھائی کہتا ہے اچھا جی مراقبہ ؟میں نے کہا یہ بھی قرآن میں ہے کہتا ہے کہاں پر؟ میں نے کہا یہ بتا مراقبہ کہتے کسے ہیں ؟ کہتا ہے مراقبہ کہتے ہیں کہ آدمی بیٹھا ہو اور نگاہ جھکالے خانقاہوں میں مشائخ ایسے ہی کراتے ہیں کہ سوچیں قبر کو ذہن میں لائیں،کبھی لوگ کہتے ہیں کہ مراقبہ حدیث سے کہاں ثابت ہے؟ میں نے کہا بھائی مراقبہ علاج ہے اور علاج حدیث سے ثابت تھوڑا ہی ہوتا ہے یہ تو علاج ہے جب مرض بڑھتے ہیں اللہ حکیم پیدا کرتا ہے امراض کے علاج کی خاطر۔ یہ تو علاج ہے علاج ! میں نے کہا مراقبہ کا معنیٰ؟ کہتا ہے مراقبہ کا معنیٰ ہے گردن جھکادیں۔ میں نے کہا سجدہ کا معنی ؟کہتا ہے پیشانی زمین پہ رکھ دیں میں نے کہا مجھے بتاؤ مراقبہ زیادہ اہم ہے یا سجدہ ؟آپ بتاؤ۔ (سامعین ….سجدہ زیادہ اہم ہے
کیفیت سجدہ و مراقبہ:
میں نے کہا قرآن کہتا ہے
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ۔
پ17سورةالحج آیت18
میں نے کہا قرآن کہتا ہے کیا تو نہیں دیکھتا اللہ کو سجدے آسمان والے کرتے ہیں زمین والے کرتے ہیں شمس چاند اور ستارے کرتے ہیں اللہ کو سورج اور چاند سجدہ کرتا ہے وَالْجِبَالُ پہاڑ کرتے ہیں وَالشَّجَرُ درخت کرتے ہیں وَالدَّوَابُّجانور کرتے ہیں بتا کتا جانور ہے یانہیں ؟ کہتا ہے جانور ہے میں نے کہا خدا کہتا ہے سجدے کرتے ہیں تو کہتا ہے مراقبہ بھی نہیں کرتے اوجی اسیں تے کدی نہیں ویکھیا ہم نے کبھی نہیں دیکھا میں نے کہا تیرے دیکھنے کا نام ایمان نہیں ہے۔
ایمان کس چیز کا نام ہے ؟:
خدا کے فرمان کو ماننے کا نام ایمان ہے نظر آئے تب بھی ایمان ہے نظر نہ آئے تب بھی ایمان ہے۔ یہ درخت سجدہ کرتا ہے۔ کیسے کرتاہے ؟ ہمیں نہیں پتہ یہ خدا کا اور درخت کا معاملہ ہے۔ ہم مانیں گے کرتا ہے کیونکہ خدانے قرآن میں فرما دیا۔ ہمارے دیکھنے کا نام ایمان نہیں ہے اس لیے اللہ نے ایمان کا تعلق مشاہدات کے ساتھ نہیں جوڑا۔ کیوں ؟ مشاہدہ میں غلطی لگتی ہے۔ مشاہدہ نام ہے کان سے سننے کا، آنکھ سے دیکھنے کا، ہاتھ سے پکڑنے کا، غلطی لگتی ہے کہ نہیں۔
یہاں سے گاڑی گئی ہے اور ایک لڑکے نے ون۔ ٹو۔ فائیو موٹر سائیکل دوڑا دیا تھوڑی دیر بعد واپس آیا پوچھا کہاں گیا تھا؟ اس نے کہا گاڑی میں آدمی نے پگڑی اس طرح باندھی ہوئی تھی کہ میں نے سمجھا استاد ہیں۔ میں سکوٹر دوڑا کے کول جاکے ویکھیا تے او کوئی ہور مولوی سی۔ دیکھا آنکھ کو دھوکہ لگ گیا۔ ایسے لگتا ہے کہ نہیں؟ آپ نے فون کیا سنا بھائی عبد اللہ کی حال اے ؟نہیں نہیں میں عبداللہ نہیں وزیر بولداں۔ جی مینوں غلطی لگ گئی اے تو جس کو غلطی لگے اس کا نام ایمان نہیں ہے۔
” وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى “
پ27 سورة النجم آیت3۔4
کان کا نام ایمان نہیں ہے اس کو غلطی لگ جاتی ہے۔ آنکھ کانام ایمان نہیں اس کو غلطی لگ جاتی ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا نام ایمان ہے جس میں غلطی کا تصور بھی نہیں۔ نبی کی آنکھ کبھی دھوکہ نہیں کھاتی ، نبی کے دل کو بھی دھوکہ نہیں مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىنبی کی نگاہ کو بھی دھوکہ نہیں۔ اس کے دیکھنے کا نام بھی ایمان ہے ، اس کے سوچنے کا نام بھی ایمان ہے، اس کے ہنسنے کا نام بھی ایمان ہے، ایمان جوکہ نبوت پر ختم ہوتا ہے ہم نے اس لیے کہا ایمان اسی کا نام ہے جو نبی فرمائے عقل کا نام ایمان نہیں ہے سوچ کا نام ایمان نہیں ہے
” وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا “
اللہ فرماتے ہیں قسم اٹھاکے۔ آدمی کامیاب تب ہوگا اس کا عقیدہ ٹھیک ہو۔ بات ذہن میں آگئی ؟ میں نے تھوڑی سی بات کی ہے اس کا عقیدہ ٹھیک ہو۔

توحید بھی ٹھیک ہو توحید کے نام پہ بزرگوں کو گالیاں مت دے۔

توحید کے نام پہ بیعت کا انکار مت کرے۔

توحید کے نام پہ ذکر کا دشمن مت بنے۔

توحید کے نام پہ ولی کی کرامت کا انکار مت کرے۔

توحید کے نام پہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں حیات کا انکار نہ کرے۔

توحید کے نام پہ بے ادب مت بنے۔
گر فرق مراتب نہ کنی زندیقی:
خدا؛ خدا ہے۔ مصطفیٰ؛ مصطفیٰ ہے۔ خدا کا مقام اپنا ہے مصطفیٰ کا مقام اپنا ہے میری بات سمجھ آرہی ہے ؟ آدمی توحید کا اقرار کرے مگر توحید کی آڑ میں گستاخیاں نہ کرے، توحید کی آڑ میں بے ادبیاں نہ کرے اللہ کی قسم ایمان سلب ہوتا ہے۔ میں نے کہا نبوت ہےمیں نے کہا قیامت ہے دعا فرمائیں اللہ میرا اور آپ کا عقیدہ ٹھیک فرمائے
وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین
اس کے بعد حضرت متکلم اسلام نے سامعین کے درج ذیل سوالات کے علمی اور تحقیقی جوابات ارشاد فرمائے افادہ عام کی غرض سے ان کو یہاں نقل کیا جا تا ہے۔
سوال:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معصوم ہونے کی تھوڑی سی وضاحت فرمائیں۔
جواب:
بات لمبی ہوجانی ہے دیکھیں نبی معصوم ہے دلائل تو قرآن کریم میں بہت ہیں
” يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ “ن
بی کی اطاعت کرو اگر نبی خود گناہ کرے تو اس کی اطاعت کا کیا معنیٰ ؟اور اطاعت بھی کیسی
” مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ “
جس نے نبی کی بات مانی اس نے خدا کی بات مانی تو نبی کی بات خدا کی تبھی ہوسکتی ہے اگر نبی گناہ نہ کرے اگر پیغمبر گناہ گار ہوگا تو پیغمبر کی بات خدا کی بات کیسے بنے گی نبی تو معصوم ہے۔
عصمت انبیاءپر عقلی دلیل:
اور عقلی دلیل ذہن نشین فرمالو اللہ نے انسان کو جسم اور روح سے بنایا: جسم کومٹی سے بنایا، جسم کی خوراک کو مٹی سے پیدا کیا، جسم مٹی سے بنایا بیمار ہوجائے دوامٹی سے بنائی ، روح کو آسمان سے بھیجا:روح کی خوراک بھی آسمان سے آئی ،روح بیمار ہو جائے دوابھی آسمان سے، روح کی دوااور خوراک کانام ”وحی “ہے۔ جسم بیمار ہوجائے اس کو طبیب چاہیے اور جسم کے علاج کرنے والےکو ڈاکٹر اور حکیم کہتے ہیں روح بیمار ہو جائے تو طبیب چاہیے روح کے علاج کرنے والے کو نبی اور رسول کہتے ہیں اور طبیب جس مرض کا معالج ہو اس مرض میں مبتلا ہوجانا یہ طبیب کا عیب ہے نبی امراض روحانیہ کا معالج ہے اور مرض روحانی کا نام” گناہ“ہے۔ نبی نے جس مرض کا علاج کرنا ہے وہ کام خود کرے گا تو عیب ہوگا اللہ نبی کو عیب سے پاک رکھتے ہیں اس لیے ہم کہتے ہیں کہ نبی معصوم ہے دلیل سمجھ آئی تو ٹھیک نہ سمجھ آئی تو اس کیسٹ کو آپ دوبارہ سنیں عصمت انبیاءپر آدمی مستقل گھنٹہ لگائے تو بات بنتی ہے۔
سوال:
” لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ “
اشکال یہ ہوتا ہے اللہ قرآن میں فرماتے ہیں اے نبی ہم نے تیر اگناہ معاف کیا تو کیا نبی معصوم ہے جبکہ اس آیت میں اللہ نے ذنب کی نسبت نبی کی طرف کی ہے ؟
جواب:
اس کا جواب ذہن نشین فرمالیں۔ میں پہلے مثال دیتا ہوں پھر بات سمجھ آئے گی استاد نے لڑکے کو بھیجا جاؤ دودھ لےکرآؤ شیشے کے گلاس میں دودھ لے کر آیا ٹھوکر لگی اور دودھ گر گیا لڑکا روتا ہے استاد نے کہا کیوں روتاہے ؟ استاد جی معاف کر دیں استاد نے کہا کیا معاف کردیں تیرا قصور تھوڑا ہی ہے تونے جان بوجھ کر تو نہیں گرایا ٹھوکر لگی اور گر گیا ہے۔ وہ روتا رہتا ہے پھر بھی کہتا ہے استاد جی! آپ پھر بھی معاف کردیں استاد نے کہا معاف تب کروں جب تیرا قصور ہو اتنی دیر میں سمجھ دار بندہ آیا اس نے پوچھا: استاد جی! یہ کیوں روتا ہے ؟فرمایا میں نے دودھ لینے بھیجا ہے گلاس ٹوٹ گیا ٹھوکر لگی یہ روتا ہے معافی دے دو میں کہتا ہوں معافی تب ہو جب جرم تو ہو یہ کہتا ہے جرم ہے میں کہتا ہوں جرم نہیں۔ آدمی سمجھ دار تھا اس نے کہا یہ لڑکا عام طالب علم نہیں بڑا حساس ہے بڑا ذکّی ہے بڑا فتین ہے بڑا سمجھ دار ہے استاد جی آپ اس کی تسلی کے لیے کہہ دیں کہ بیٹا قصور تو نہیں ہے لیکن جسے تو قصور کہتا ہے نا میں نے اس کو بھی معاف کیا تاکہ یہ خوش ہو جائے۔ تو استاد کہتا ہے پتر!تیرا قصور تو نہیں ہے اگر تواس کو قصور کہتا ہے چل میں تیری اے غلطی وی معاف کیتی وہ خوش ہوکر دوڑ جاتا ہے استاد جی نے معاف کردیا۔
خطاب اور نقل کرنے میں فرق:
نبی بھول کر ایک کام کرتا ہے اور بھول کر کام کرنے کو گناہ نہیں کہتے لیکن نبی اپنی شان کے مطابق کہتا ہے اللہ میں نے گناہ کیا اللہ معاف فرمادے تو پھر اللہ اپنی زبان میں فرماتے ہیں کہ بھول کر کام کرنے کو گناہ نہیں کہتے لیکن جس کو توں نے گناہ کہا ہم نے اس کو بھی معاف کردیا
لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ
یہ اللہ نبی کے لفظ کو نقل کرتا ہے لفظ کو نقل کرنا اور ہوتاہے اور براہ راست بات کرنا اور ہوتا ہے ایک شخص نے کہا اذان سے پہلے جو الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہپڑھتے ہیں میں نے کہا غلط ہے کہتا ہے کیوں ؟
میں نے کہا آپ اس میں رسول اللہ کو خطاب کرتے ہیں خطاب تب کریں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے سنیں گے بھی تو سہی حضور تو مدینہ منورہ میں ہیں کیسے خطاب کروگے ؟ مجھے کہتا ہے آپ نماز کے اندر تشہد میں پڑھتے ہیںالسلام علیک ایھا النبی تو پھر آپ بھی تو حضور کو خطاب کرتے ہیں پھر آپ پڑھنا چھوڑ دیں میں نے کہا بات سمجھو میں نے کہا جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو کہتے ہیں يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ اے نبی اپنی بیویوں کو اپنی بیٹیوں کو ایمان والی عورتوں کو کہہ دیں کہ پردہ کریں یہ اللہ نے فرمایا ہم پڑھتے ہیں جب ہم قرآن کی آیت پڑھتے ہیں آپ نبی کو حکم کرتے ہیں کہ نبی اپنی بیویوں، بیٹیوں کو کہو کہ پردہ کریں میں نے کہا اللہ نے قرآن میں فرمایا
يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا
پ29 سورۃ المزمل آیت1،2
میرے پیغمبر !آپ کھڑے ہوکر نماز پڑھیں جب ہم کہتے ہیں تو ہم نبی کو خطاب کرکے حکم دیتے ہیں ؟ کہتاہے کہ نہیں
” يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ “
پ 29 سورۃ مدثرآیت1،2
ہم کہتے ہیں اے مدثر !کھڑا ہو رب کی توحید بیان کر ! جب ہم يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ کہتے ہیں نبی کو حکم دیتے ہیں ؟ خطاب کرتے ہیں ؟کہتا ہے کہ نہیں۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا
قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ۔
پ 30 سورۃ الکافرون آیت1
میرا پیغمبر آپ کہہ دیں اے کافرو! جب ہم قرآن پڑھتے ہیں خطاب کرتےہوئے حکم دیتے ہیں ؟کہتا ہے کہ نہیں ہم خطاب نہیں کرتے۔ فرق کیا تھا جو اللہ نے خطاب کیا ہم اس خطاب کو نقل کرتے ہیں خطاب کرنا اور بات ہے اور خطاب کو نقل کرنا اور بات ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم عرش پر معراج کی رات گئے ہیں پوچھا میرے نبی کیا لائے ” التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ “اللہ میری زبان تیرے لیے۔ اللہ میراجسم تیرے لیے۔اللہ میرا مال تیرے لیے۔
فرمایا”السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِىّ“ فرمایا میرا نبی تیرا سب کچھ میرے لیے میرا سب کچھ تیرے لیے میرے سلام تیرےلیے۔ یہ کس نے فرمایا؟ جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو
السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِىّ
کو جو رب نے خطاب کیا اسے نقل کرتے ہیں۔ دلیل کیا ہے نقل کرتے ہیں دلیل یہ ہے میں نے کہا ” السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِىّ“آپ کو شک ہے کہ میں نے نبی کو خطاب کیا ہے نمازی نے کہا ” السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِىّ“آپ کو شک ہے کہ نبی کو خطاب کیا ہے تو جب نبی خود ” السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِىّ“پڑھتے تو نبی کس کو سلام کرتے ؟ خطاب نہیں تھا نبی خداکے ان الفاظ کو نقل فرماتے صحابہ نے ان الفاظ کو نقل کیا وہی الفاظ ہم نے نقل کیے اور جب تو کہتا ہے
الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ تو نقل نہیں کرتا تو حضور کو خطاب کرتا ہے خطاب کرنا اور بات ہے نقل کرنا اور بات ہے ” لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ “
خدا یہ نہیں کہتا کہ نبی آپ نے گناہ کیا نہیں نہیں خدا فرماتا ہے نبی جس کو آپ نے گناہ سمجھا ہے میں نے اس کو بھی معاف کیا۔ اللہ خود گناہ نہیں کہتا نبی کے لفظ ”ذنب“ کو نقل کرتا ہے نقل اور بات ہے خطاب کرنا اور بات ہے۔
نسبت کے بدلنے سے معنیٰ میں تبدیلی
دوسری بات سمجھیں لفظ ایک ہوتا ہے نسبت کے بدلنے سے معنیٰ بدل جاتاہے میں کہتا ہوں مجھے اپنی والدہ سے بڑا پیار ہے مجھے اپنی والدہ سے محبت ہے کوئی آپ کو اشکال ہوا میں کہتا ہوں مجھے اپنی بیٹی سے بہت پیار ہے مجھے اپنی بیٹی سے بہت محبت ہے آپ کو کوئی اشکال ہوا اور اگر میں یہ کہہ دوں مجھے اپنی بیوی سے بڑا پیار ہے آپ کے کہنا ہے یہ کیسا مولوی ہے؟ اور اگر آدمی بیان کے دوران یہ کہے کہ خدا کی قسم مجھے ماں سے بہت پیار ہے تو کان کھڑے نہیں ہوتے اور بیان کے دوران یہ کہہ دے بیوی سے بہت پیار ہے تو پھر کان کھڑے ہوتے ہیں کہ نہیں؟ لفظ پیار محبت ایک ہے اس کی نسبت ماں کی طرف ہو تومعنیٰ اور ہے بیٹی کی طرف ہو تو معنیٰ اور ہے۔ بیوی کی طرف ہو تو معنی اورہے۔ اور لفظ ذنب کا معنیٰ ”گناہ “ہے لیکن ذنب کی نسبت امت کی طرف ہو تو معنیٰ اور ہے۔ نبی کی طرف ہو تو معنیٰ اور ہے۔نسبت کے بدلنے سے معنی بدل جایا کرتے ہیں اس لیے
” لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ “
کا معنی وہ نہیں ہے جو ہم گناہ کا معنی کرتے ہیں۔