حدیث جبرائیل

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
حدیث جبرائیل
بمقام: ینگون،برما
بتاریخ: 2013-02-15
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونومن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ با للہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ہادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولٰنا محمدا عبدہ ورسولہ اما بعد!
فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (1 ) الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (2 ) مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (3 ) إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (4 ) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (5 ) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (6 )
الفاتحۃ
میرے نہایت واجب الاحترام ساتھیو! میرا چونکہ آپ کے شہر کا پہلا سفر ہے اور پہلے سفر کا پہلا بیان ہے۔ میں نے پہلے سفر اور پہلے بیان کی مناسبت سے ایک سورت اور ایک حدیث تلاوت کی ہے، اس سورۃ کو ام القرآن اور حدیث کو ام السنۃ کہتے ہیں۔ آج میں اس سورۃ اور اس حدیث پر بات کروں گا۔ سورۃ کا نام ام القرآن اور حدیث ام السنۃ ہے۔ ام کا معنی عربی زبا ن میں جس طرح ماں آتا ہے، اسی طرح خلاصہ بھی آتا ہے اور اسی طرح عربی زبان میں معنی”اثر“بھی آتا ہے۔ تو ام القرآن کا معنی ہے، پورے قرآن کا خلاصہ اور ام السنۃ کا معنی ہے،پوری سنت کا خلاصہ، یعنی پورے دین کا خلاصہ۔ سورۃ فاتحہ قرآن کا خلاصہ ہے اور حدیث جبرائیل تمام احادیث کا خلاصہ ہے۔ چونکہ خلاصہ کو ام کہتے ہیں، اسی لیے سورۃ فاتحہ ام القرآن ہے اور حدیث جبرائیل ام السنۃ ہے۔ سورۃ فاتحہ کو ام القرآن اس لیے کہتے ہیں کہ قرآن کریم کے جتنے مضامین، اللہ تعالی نے الم سے لے کر والناس تک بیان فرمائے ہیں، وہ سارے مضامین، سورۃ فاتحہ میں اجمالاً بیان فرمائے ہیں۔ مرد، عورت، پڑھا لکھا، ان پڑھ ہر بندے کے لیے پورے قرآن کریم کا خلاصہ یہی ہے۔ پورے قرآن مجید میں 6 مضامین ہیں:
1: تو حید
2: رسالت
3: قیامت
4: احکام
5: ماننے والے
6: نہ ماننے والے
خلاصہ قرآن
سبق سمجھ کر سنیئے! الحمد سے لے کر والناس تک، اللہ تعالی نے ان مضامین کو تفصیلاً بیان کیا ہے اور سورۃ فاتحہ میں ان تمام مضامین کو اجمالاً بیان فرمایا۔
الحمد للہ رب العالمین، الرحمن الرحیم
اس میں اللہ نے توحید کو بیان کیا ملک یوم الدین میں قیامت کو بیان کیا، ایاک نعبد وایاک نستعین اس میں احکام کو بیان کیا، اھدنا الصراط المستقیم، صراط الذین انعمت علیہم اس میں رسالت اور ماننے والوں کو بیان کیا اور غیر المغضوب اس میں نہ ماننے والے کو بیان کیا۔ جو 6 مضامین پورے قرآن میں تفصیل سے بیان فرمائے ہیں، انہی 6 مضامین کو سورۃ فاتحہ میں اختصار سے بیان فرمایا۔ اس لیے سورۃ فاتحہ کو ام القرآن کہتے ہیں کہ قرآن کے تمام مضامین کا خلاصہ اس میں ہے۔ میں یہ بتارہا تھا کہ جو چھ مضامین پورے قرآن میں تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے، وہ چھ مضامین سورۃ فاتحہ میں اختصار کے ساتھ بیان فرمائے۔
ضال اور مغضوب میں فرق
ایک لفظ تو یہ سمجھیں کہ ماننے والے اور نہ ماننے والے میں فرق یہ ہے کہ جو ماننے والے تھے، ان کے لیے لفظ ایک بولا اور جو نہ ماننے والے تھے، ان کے لیے لفظ دو لے آئے مغضوب اور ضال اس لیے کہ پوری دنیا میں ماننے والوں کی ایک قسم ہیں اور نہ ماننے والوں کی دو قسمیں ہے۔ بعض لوگ اس وجہ سے نہیں مانتے کہ ان کے پاس جہالت ہے، علم نہیں اور بعض اس وجہ سے نہیں مانتے کہ ان کے پاس محبت نہیں ہے، بغض ہے۔ تو جو بندہ جہالت کی وجہ سے نہ مانے، اسے ضال کہتے ہیں اور جو ضد کی وجہ سے نہ مانے ا سے مغضوب کہتے ہیں۔
بعض لوگوں کو مسئلے کا پتا ہوتا ہے، مگر ضد کی وجہ سے نہیں مانتے۔ جو بندہ جہالت کی وجہ سے نہ مانے ا سے ضال کہتے ہیں اور جو ضد کی وجہ سے نہ مانے ا سے مغضوب کہا ہے ہیں۔ اللہ تعالی نے دونوں کا تذکرہ کیا، کہ نہ ماننا کبھی ضد کی وجہ سے ہوتا ہے اور کبھی جہالت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جن میں جہالت نہ ہو، علم آجائے اور ضد ختم ہو کر محبت آجائے، تو اللہ پاک اس کو ماننے کی توفیق عطا فرمادیتے ہیں۔ اس لیے ماننے والوں کے لیے ایک لائن ہے اور نہ ماننے والوں کے لیے دو لائنیں ہیں۔
اللہ کا نام اوراللہ کی صفات
تو پہلی آیت الحمد للہ رب العالمین اس میں یہ سمجھیئے کہ یہ اللہ کا نام ہے اور رب اللہ کی صفت ہے. اللہ تعالی کی صفات بہت بے شمار ہیں، لیکن جب اللہ تعالی نے قرآن مجید کا آغاز فرمایا ہے تو اپنی صفت رب سے شروع کیا ہے اور جب قرآن کو ختم فرمایا ہے، تب بھی صفت رب لائے ہیں۔ قل اعوذ برب الناس تو قرآن مجید کا آغاز بھی صفت رب سے ہے اور اختتام بھی صفت رب پر ہے اور آپ حیران ہوں گے کہ عالم ارواح میں بندوں سے جو سوال کیا، وہ بھی صفت رب سے کیا ہے الست بربکم کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ اور دنیا میں بھی جب بندہ اللہ کو رب مانتا ہے، تو اس فرمان الٰہی کے مطابق
ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا
دنیا میں بھی اللہ کی رحمتیں اس پر پڑتی ہیں، جو ربنا اللہ کہتا ہے اور موت کے بعد بھی قبر میں فرشتے پوچھتے ہیں کہ من ربک؟
لفظ رب کا فلسفہ
عالم ارواح میں الست بربکم اور عالم دنیا میں
ان الذین قالوا ربنا اللہ
تو عالم ارواح میں بھی رب کی بات کی ہے، عالم دنیا میں بھی رب کی بات کی ہےاور عالم برزخ میں بھی رب کی بات فرمائی ہے۔ قرآن کا آغاز بھی رب سے ہے اور اختتام بھی رب پر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صفتِ رب، اللہ کی وہ صفت ہے، جو تمام صفات کو جامع ہے، کیوں؟ رب کا معنی ہے، آہستہ آہستہ تربیت کرتے ہوئے کامل بنانے والا اور رب ہوتا بھی وہی ہے، جو علیم ہو، رب ہوتا وہ ہے، جو قدیر ہو۔ اگر علم نہ ہو، قدرت نہ ہو، تو تربیت کرے گا کیسے؟
رب ہوتا وہ ہے کہ اگر یہ تربیت کے بعد اچھے کام کرے، تو رب جزا دے سکے، اگر تربیت کے بعد اچھے کام نہ کرے، تو سزا دے سکے۔ اللہ کی ساری صفتیں لفظ رب کے اندر آتی ہیں۔ اس لیے اللہ نے ساری صفات کے بجائے ایک صفت ذکر فرمائی، جسے رب کہتے ہیں۔ اس میں ساری صفات جمع فرمائیں۔
الحمد للہ رب العالمین۔ العالمین جمع ہے عالَم کی۔ عالَم کہتے ہیں، جہان کو۔ ہمارے یہ چار جہان ہیں:
1: عالم ارواح
2: عالم دنیا
3: عالم برزخ
4: عالم آخرت

عالم ارواح؛ جب روحیں تھیں تو جسم نہیں تھے۔

عالم دنیا؛ جب جسم بھی ہیں اورروح بھی۔

اور عالم برزخ کہ جس میں جسم کا بھی پتا نہیں چلتا اور روح کا بھی پتا نہیں چلتااور جسم کوئی بندہ مانتا ہے کوئی نہیں مانتا صرف غائب ہونے کی وجہ سے۔

عالم آخرت جس میں جسم بھی ہوگا، روح بھی ہوگی۔
توبنیادی طور پر انسان کے اعتبار سے عالم چار ہیں: عالم ارواح، عالم دنیا، عالم برزخ اور عالم آخرت۔ ہر عالم کے احکام الگ الگ ہیں۔ عالم ارواح کے احکام بالکل الگ ہیں۔ اس میں صرف توحید کا اقرار ہے۔ جیسا آیت کریمہ سے واضح ہے
الست بربکم
دنیا برزخ اور آخرت
عالم دنیا میں عقائد بھی ہیں اور مسائل بھی ہیں اور عالم برزخ، جو قبر کی زندگی ہے، اس میں سوال اور جواب روح سے بھی ہیں اور جسم سے بھی۔ اگر جواب ٹھیک ہوں گے، تو ثواب جسم اور روح دونوں کو ہوگا۔ اگر جواب غلط ہوگیا، تو عذاب جسم اور روح دونوں کو ہوگا، کیسے ہوگا؟ اس پر میں بات نہیں کرتا، اس پر کھلا وقت چاہیے، جس میں میں پوری بحث کرتا کہ برزخ میں عذاب کیسے ہوتا ہے، برزخ کی حقیقت کیا ہے، عالم برزخ کہتے کسے ہیں؟ ہم جس قبر میں میت کو چھوڑ کر آتے ہیں، اس میں عذاب ثواب (ان شاء اللہ وقت ہوا )تو اس پر گفتگو کریں گے۔
دنیا اور برزخ کی وجہ تسمیہ
اب عالم آخرت کا معنی آخری عالم۔ تو عالم ارواح کا معنی کہ جہاں روحیں ہیں، جسم نہیں۔ اس دنیا کو عالم دنیا کہتے ہیں دو وجہ سے۔ علماء تو سمجھتے ہیں کہ دنیا دنو سے ہے۔ دنوکا معنی ہوتا ہے، قریب ہونا۔ یہ عالم قریب اور اگلا بعید ہے، اس لیے اس کو عالم دنیا کہتے ہیں۔
یا عالم دنیا کو دنیا اس لیے کہتے ہیں کہ دنیا دنائ ۃ سے ہے۔ اس کا معنی ہوتا ہےگھٹیا پن۔ یہ چونکہ گھٹیا ہے اور آخرت اعلیٰ ہے، اس لیے اس کو عالم دنیا کہتے ہیں۔
برزخ کا معنی ہوتا ہےپردہ۔ عالم برزخ میں سب کچھ ہے لیکن پردے ہوتے ہیں۔ ہر بندے کو سمجھ نہیں آتا، اس لیے میں اس پر تھوڑی سی بات کرتا ہوں۔ عالم آخرت کا معنی بعد والا، چونکہ یہ پہلے ہے، وہ بعد میں ہے، اس لیے اس کو عالم آخرت کہتے ہیں۔ عالم برزخ کو تھوڑا سا سمجھیں۔
برزخ کا معنی ہے پردہ۔ یہ میں بات اس لیے سمجھاتا ہوں کہ ہمارے ہاں جب تک فتنہ پیدا نہیں ہوتا، لوگ فتنہ کا رد سنتے نہیں ہیں۔ جب فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کا علاج کرتے ہیں، تو علاج ہوتا نہیں ہے۔ جب تک فتنہ پیدا نہ ہو، تو اس کا علاج نہیں کرتے اور جب فتنہ آجائے تو پھر علاج کی کوشش کرتے ہیں۔ علاج ہوتا نہیں ہے۔ اس لیے فتنے کی آمد سے پہلے پہلے فتنے کا علاج کیا کریں، تاکہ باہر آکر کوئی فتنہ ڈالنے کی کوشش کرے، تو ہمیں پہلے سے پتا ہو کہ ہمارا عقیدہ کیا ہے؟
موت کو سمجھنے کے لیے نیند کو سمجھیں
برزخ کا معنی ہے پردہ۔ موت کے بعد کیا ہوتا اور کیسے ہوتا ہے؟ اگر اس کو سمجھنا ہو، تو اس کے لیے نیند کو سمجھیں، اگر نیند سمجھ آئے، تو موت کے بعد کی زندگی سمجھ آتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند پر موت کا لفظ بولا ہے، نیند پر موت کا لفظ بولا ہے، جب رات سونے لگتے ہیں تو دعا مانگتے ہیں اللھم باسمک اموت واحییٰ اب آپ مرنے لگے ہیں یا سونے لگے ہیں؟ [سونےلگے ہیں، سامعین]
پھر دعا میں اموت کیوں کہتے ہو؟ انام کہو ناں۔ سونے لگے ہو اور کہتے ہو اموت۔ جب صبح اٹھتے ہوتو کہتے ہو الحمد للہ الذی احیانا بعد اماتنا حالانکہ کہنا چاہیے
الحمد للہ الذی ایقظنا بعد ما انامنا
اللہ رات آپ نے سلایا تھا تو اب جگا دیا، لیکن کہتے ہیں رات آپ نے مارا تھا اب زندہ کردیا۔ اتنی بات سمجھ آگئی؟ اس سے پتا چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند پر موت کا لفظ بولا ہے۔ بات سمجھنا! جس طرح نیند پر موت کا لفظ بولا ہے، اسی طرح موت پر نیند کا لفظ بھی بولا ہے۔ حدیث مبارک میں مذکور ہے، لفظ بتانے لگا ہوں کہ موت پر نیند کا لفظ کہاں بولا گیاہے۔
قبر میں ایمان و اعمال کے متعلق سوال
حدیث مبارک میں ہے کہ جب بندے کو قبر میں دفن کردیا جاتا ہے، اس کے بعد اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے اٹھاتے ہیں، اور اس سے سوال کرتے ہیں:
من ربک، من نبیک، مادینک؟
یعنی تیرا رب کون ہے، تیرانبی کون ہے، تیرا دین کیا ہے؟ بندہ اس سوال کا یہ جواب دیتا ہے ربی اللہ میرا رب اللہ تعالی ہے۔
نبیی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
میرےنبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ دینی الاسلام میرا دین اسلام ہے۔ حدیث میں ہے
فینادی مناد من السماء
پھر فرشتہ کہتا ہے نم کنومۃ العروس۔ کیا کہتا ہے؟ نم کنومۃ العروس ایسے سوجا جیسے پہلی رات دلہن سوتی ہے۔
موت اور نیند میں توافق صوری
سوجا یا مرجا؟ قبر سونے کی جگہ ہے یا مرنے کی جگہ ہے؟ فرشتہ کیا کہتا ہے؟ تو سوجا۔ اوربستر پر رات سونے لگتے ہیں تو کہتے ہیں
اللھم باسمک اموت واحییٰ
حالانکہ سونے لگے ہیں کہتے ہیں اموت قبر میں ہے لیکن کہتے ہیں نمسوجا، تو جس طرح نیند کے لیے موت کالفظ استعمال ہوا ہے، اسی طرح موت کےلیے نیند کا لفظ بھی آیا ہے، میں اس پر دلائل پیش کررہا تھا اگر موت کے بعد کی زندگی سمجھنی ہے تو نیند سمجھیں۔ نیند سمجھ آئے گی، تو موت کے بعد کی زندگی سمجھ آئے گی۔ اگر نیند سمجھ نہ آئے، تو موت کے بعد کی زندگی بھی سمجھ نہیں آئے گی۔
چلیں میں ایک نکتہ پیش کرتا ہوں، فرشتہ پوچھتا ہے من ربک؟ تیرا رب کون ہے؟ من نبیک؟ تیرا نبی کون ہے؟ مادینک؟ تیرا دین کیا ہے؟ تو جواب دیتا ہے
ربی اللہ، نبیی محمد صلی اللہ علیہ وسلم، دینی الاسلام توفرشتہ کہتا ہے نم کنومۃ العروس
ایسے سوجا جیسے پہلی رات کی دلہن سوتی ہے۔ ایک نکتہ پیش کرنے لگا ہوں، اس کو اتنا کہہ دیتاتو سوجا،یہ دلہن کی بات کیوں کی ہے؟ میں لطیفے نہیں سناتا، میرا ہنسانا مزاج ہی نہیں ہے، آپ نے مجھے بہت دفعہ سنا ہے، میں ہنسانے والا مولوی تو نہیں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دلہن کی طرح سوجا، نبوت کے الفاظ ہیں، میرے آپ کے تو نہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ مبارک بغیر حکمت کے ہوتا ہی نہیں، اتنا فرماتے نم سوجا، یہ کیوں فرمایا؟ کنومۃ العروس کہ دلہن کی طرح سوجا۔ یہ نومۃ علماء سمجھتے ہیں فعلۃ کا وزن ہے۔ فعلۃ کئی معنوں میں آتا ہے۔
تعامل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ہماری سوچ
میں ایک مرتبہ بیان میں عروس کا لفظ سمجھا رہا تھا۔ مجھے ایک طالب علم نے چٹ دی، استاد جی! پہلی رات دلہن سوتی بھی ہے؟ میں ایک بات بڑے افسوس سے کہتا ہوں، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ پر کبھی تعجب اس لیے ہوتا ہے کہ ہم گناہوں پر بہت جری ہوتے ہیں، بے حیائی کے ماحول میں رہتے ہیں، جنسیت کے ماحول میں رہتے ہیں، شہوت کے ماحول میں رہتے ہیں، گناہوں کی آلودگی میں پھنسے ہیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ اس ماحول میں سمجھتے ہیں، تو کیسے سمجھیں؟
اچھی طرح میری بات سمجھیں، جب ہم یہ حدیث مبارک پیش کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزوں کی محبت اللہ نے میرے دل میں ڈالی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں 
النساء والطيب وجعل قرة عيني في الصلاة
سنن النسائی،رقم الحدیث:9339
خوشبو اور عورت اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ جب خوشبو کی بات کریں، تعجب نہیں ہوتا، عورت کی بات کریں، تو بندہ تعجب سے دیکھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے فرمایا، اس کی کیا وجہ ہے؟ ہم اور ماحول میں بات کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ماحول میں بات فرماتے ہیں۔ جس نگاہ سے رسول اللہ نے بات فرمائی ہے، جس زاویے سے حضور نے فرمایا، وہ زاویہ ہمارے دماغ میں نہیں ہے، کیونکہ ہمارے دماغ میں عورت کا خاص مفہوم ہے، اس مفہوم سے ہٹ کر ہم سوچنے کے لیے تیار نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شرافت، حیا اور عفت کے پیکر ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو بات فرمائیں، جب تک حضور کی بات نہ سمجھیں، یہ حدیث سمجھ آسکتی ہی نہیں۔
اچھی طرح بات سمجھیں! آدمی اگر آپ سے کہتا ہے میں پاکستان سے آیا ہوں، دیکھو مجھے بیٹی بہت یاد آتی ہے، تو آپ کو تعجب تو نہیں ہوگا، کیوں؟ بیٹی ہے، باپ کو بیٹی یاد آتی ہے، پوری کائنات انسانی کی عورتیں حضور کی کیا لگتی ہیں؟ [جی بیٹیاں،سامعین] تو باپ کے دل میں بیٹی کا خیال آنا، کوئی عجیب بات ہے؟ اب اگر کوئی بیان کرے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میرے دل میں عورت کی محبت ہے، چونکہ ہم محبت کا معنی اور سمجھتے ہیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ پر کان کھڑے ہوتے ہیں کہ حضور نے کیسی بات فرمائی ہے؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی حکمت
اچھا مرد طاقتور ہے، عورت کمزور ہے اور کمزور پر آدمی شفقت کرتا ہے اور یہ اس دور کی بات ہے، جب عورتوں کو زندہ در گور کیا جاتا تھا، لوگ اس کو گھٹیا اور گندی نگاہوں سے دیکھتے تھے، معاشرےکا سب سے گندا فرد عورت شمار ہوتی تھی۔ اس دور میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے دل میں خدا نے اس کی شفقت ڈالی ہے۔ اگر اس کمزور کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں قدر نہ آتی تو اس کے قدموں میں جنت کے فیصلے کون کرتا؟
اب دیکھیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس زاویے سے بات فرمارہے ہیں اور ہم اس ماحول میں رہ کر کس زاویے سے بات کو سمجھتے ہیں، تو اپنی اصلاح کرانی چاہیے ناں! اپنا تزکیہ کرانا چاہیے، اپنی آنکھ کو صاف کرنا چاہیے، اپنے دل کو پاک کرنا چاہیے، نبوت کے الفاظ میں تعجب ہوتو ایمان کا خطرہ ہوگا۔ میں یہ بات اس لیے عرض کررہاہوں کہ آپ حضرات کا تعجب ختم ہو۔ ویسے جب بات کریں تو بندے کو بہت زیادہ تعجب ہوتا ہے۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ حکمت اور بلاغت وفصاحت سے خالی نہیں ہیں۔ اتنا فرماتے نم سوجا کنومۃ العروس دلہن کی طرح سوجا، یہ دلہن کا لفظ کیوں لائے؟ وہ تو میں نے ویسے آپ کو سمجھایا کہ ایک طالب علم نے چٹ دی کہ استاد جی! پہلی رات دلہن سوتی بھی ہے؟ وہ سمجھتا ہے کہ نہیں سوتی، بہت ساری باتیں آدمی کو بہت دیر بعد سمجھ آتی ہیں۔ ہم جب بچپن میں تھے، ہمارے گاؤں میں کسی لڑکی کی شادی ہوتی، تو وہ شادی کے موقع پررو پڑتی، تو ہم سمجھتے، مکار ہے۔ دیکھو! ایسے آنسو بہا رہی ہے، خوشی کا دن ہے، رونے کا دن تھوڑا ہی ہے، ہم یہ سمجھتے تھے،اس لیےکہ ہمارے خیال میں شادی کا معنی خوشی ہے۔
لیکن جب بیٹی کے باپ ہوئے، اب پتا چلا کہ لڑکی کیوں روتی ہے، اس وقت نہیں سمجھ آتی، اب سمجھ آتی ہے، کیوں روتی ہے، مجھے اپنا یاد ہے، میری بیٹی کا نکاح جب ہوا، میں اتنا رویا، مجھ سے گھر سے باہر بیٹی دیکھی نہیں جارہی تھی۔ اچھا رخصتی پر رونا نہیں آیا، جب میں نے اپنی بیٹی کی منگنی کی تو میں روپڑا، اور منگنی دوسرے شہر میں نہیں، اپنے ہی گاؤں میں ایک محلے سے دوسرے محلہ میں تھی، صرف میں بیوی کو گھر بتانے کے لیے گیا کہ فلاں بندے آئے ہیں، میں نے بیٹی کے لیے ہاں کی، میں اپنی زبان سے ہاں نہ کہہ سکا اور روپڑا، یہ میری کیفیت ہے، جِسے لوگ پتھر دل سمجھتے ہیں۔ اچھا، تو جو بیٹی ہمیشہ کے لیے باپ کو چھوڑ رہی ہے، وہ روئے گی نہیں تو کیا کرے گی؟ جو ہمیشہ ماں کو چھوڑرہی ہے، وہ روئے گی نہ تو کیا کرے گی؟ آپ تو خوش ہوئے ہیں، آپ کے گھر بندہ آیا ہے۔ باپ اپنے بیٹے سے کہہ دے، ہمیشہ کے لیے گھر سے نکل جا، بیٹے کو دکھ ہوتا ہے کہ نہیں؟ میں اس لیے کہتا ہوں، بہت ساری باتیں بہت دیر بعد سمجھ آتی ہیں، جلدی سمجھ نہیں آتیں۔ اس طالب علم نے تعجب سے پوچھا کہ استاد جی! دلہن پہلی رات سوتی ہے؟ میں نے کہا ہاں سوتی ہے۔ فرشتہ کہتا ہے
من ربک، من نبیک، مادینک یہ کہتا ہے ربی اللہ، نبیی محمد صلی اللہ علیہ وسلم، دینی الاسلام
اپنا کام پورا ہوگیا نماب سوجا، کام پورا ہوگیا، جو کام تیرے ذمہ تھا تو نے کردیا، اب سوجا، اب سکون سے سو۔
مسائل کے بیان کرنے میں حجاب سے کام نہ لیا جائے
یہ تو میں نے اس کے سوال کا جواب دیا ہے، تاکہ حدیث سمجھ آئے۔ یہ جواب نہیں دیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام پر اعتراض پیدا ہوگا۔ اگر اس اعتراض کو ہم نے صاف نہ کیا، کوئی اور بندہ حدیث پر اعتراض کرے گا اور آپ سے حدیث کا انکار کرادے گا۔ اگر ان اعتراضات کی ہم صفائی نہیں کریں گےکہ لوگ محسوس کریں گے، عورتیں محسوس کریں گی، بندے کیا کہیں گے،تو ہماری یہ نسل منکر حدیث ہوجائے گی۔
یہ اعتراض جب منکر حدیث کرے گا، پہلی رات دلہن سوتی ہے کیا؟ حضورصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: سوجا، تو آپ کو حدیث پر شک ہوگا یا نہیں؟ [شک ہوگا، سامعین ] جب جواب دیں گے، اب شک ہوگا؟ اب نہیں ہوگا، کیوں؟ ہم نے جواب جودے دیا ہے، پہلے پوچھتا ہے تیرا رب کون ہے، نبی کون ہے، دین کیا ہے؟ یہ جواب دیتا ہے، اس نے سب کام مکمل کیا تو کہتا ہے اب سوجا، تو اسی طرح جو دلہن کے ذمہ کام ہے، وہ کرنے کے بعد سوتی ہے۔
اعتراض اور سوال کا جواب پورا دیں،اس میں جھجک سے کام نہ لیں، آپ جھجک سے کام لیں، اور کوئی منکر حدیث ہوگیا، تو جہنم میں جائےگا۔ ایسے موقع پر شرمانا کفر کو جنم دیتا ہے۔ ہر موقع پر حجاب سے کام نہیں لیتے، مسائل کھول کھول کر بیان کرتے ہیں۔اگر آپ مسائل کھول کر بیان نہیں کریں گے تو امت کفر کے اندر چلی جائے گی۔
کنومۃ العروس کیوں کہا؟
چلیں اب سمجھ آگئی بات؟ انکار حدیث کا بہت بڑا فتنہ ہے، ایسے شبہات پیدا کرکے امت کو حدیث کے انکار پر لگاتے ہیں۔ میں نکتہ پیش کرنے لگاہوں، فرشتہ کہتا ہے نم کنومۃ العروس یہ دلہن کا لفظ نہ کہتا، ویسے کہہ دیتا سوجا۔ یہ کیوں کہا دلہن کی طرح سوجا؟ اچھی طرح سمجھ لیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، میں صرف ایک وجہ پیش کرتا ہوں۔ ایک عورت کو آپ دل میں جگہ دیتے ہیں، لیکن اس کو دیکھ نہیں سکتے، خدا سے بھی ڈرتے ہیں، معاشرہ سے بھی ڈرتے ہیں۔ بات سمجھنا! ایک عورت آپ کے دل میں جگہ پاتی ہے، آپ اس کو ہاتھ نہیں لگاسکتے، خدا سے بھی ڈرتے ہیں، معاشرہ سے بھی۔ ٹیلی فون نہیں کرتے۔ خدا سے بھی ڈرتے ہیں، معاشرہ سے بھی۔ میسج نہیں کرتے، خدا سے بھی ڈرتے ہیں، معاشرہ سے بھی۔ اس کے قریب نہیں جاتے، خدا سے بھی ڈرتے ہیں، معاشرہ سے بھی۔ ماں کا ڈر ہے، باپ کا ڈر ہے، خاندان سے بھی ڈرتے ہیں، ان کے محلے والوں کا ڈر ہے، چاہتے ہیں، لیکن ڈرتے ہیں۔
وہی عورت اگر کلمہ نکاح کے ساتھ آجائے۔ وہی باپ ہے، وہی ماں ہے، وہی خاندان ہے، اب کوئی ڈر نہیں، قبر کا خلوت کا گھر ہے، ڈر لگتا ہے۔ ظلمت کا گھر ہے، ڈر لگتا ہے۔ قبر کیڑوں کا گھر ہے، ڈر لگتا ہے۔ جب کلمہ ایمان کے ساتھ جاؤ، اب کوئی ڈر نہیں، جس طرح عورت کو دیکھنے سے ڈر لگتا تھا، کلمہ نکاح کے ساتھ آئے،اب کوئی ڈر نہیں۔ قبر سے ڈر لگتا تھا، کلمہ ایمان کے ساتھ آجاؤ، کوئی ڈر نہیں۔ اب سمجھ آیا؟ دلہن کی بات کیوں فرمائی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسی مثال دی ہے، ایسی مثال ہم دے سکتے ہیں؟ ایسی عجیب بات سمجھائی ہے۔
اس مثال کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں فرمایا، اس کو عام بندہ نہیں سمجھا سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں فرمایا؟ ایسے سوجاجیسے پہلی رات کی دلہن سوتی ہے۔ سمجھ آگئی ہے؟ دیکھیں! میں اور آپ سب اس معاشرہ کے فرد ہیں، کسی خاتون کو اگر چاہیں تو ڈر لگتا ہے کہ نہیں خدا تعالیٰ، خاندان والے، محلے والے،گورنمنٹ والے سب سے ڈر لگتا ہے اور اگر کلمہ نکاح کے ساتھ آجائے، وہی پولیس ہے، وہی قانون ہے، وہی خاندان ہے، اب ڈر نہیں ہے۔ اسی طرح قبر میں جانے سے ڈر لگتا ہے لیکن کلمہ ایمان کے ساتھ جاؤ، تو کوئی ڈر نہیں، جیسے تجھےوہاں ڈر کلمہ نکاح کی وجہ سے نہیں، ایسے ہی تجھے یہاں ڈر کلمہ ایمان کی وجہ سے نہیں ہے۔
حالت ِ نوم میں روح اور جسم کا تعلق
میں اصل بات یہ سمجھانا چاہ رہا تھا کہ عالم برزخ تب سمجھ آتا ہے کہ جب عالم موت سمجھ آئے، عنوان ذہن میں ہے؟ عالم برزخ سمجھ آتا ہے جب عالم موت سمجھ آئے۔ عالم موت سمجھ آتا ہے، جب عالم نیند سمجھ آئے۔ نیند سمجھ آئے تو برزخ سمجھ آتی ہے۔ نیند میں کیا ہوتا ہے؟ ذرا نیند سمجھیں! نیند میں ہوتا ہے کہ ایک آدمی آپ کے ہاں اسی شہر میں سویا ہوا ہے، کیانام ہے شہر کا؟ [ینگون، سامعین ] اچھابات سمجھیں! اب یہاں ینگون میں ساتھی آپ کا سویا ہوا ہے، اٹھ کر کہتا ہے، مجھے خواب آیا ہے اور میں نے خواب میں دیکھا ہے، میں مکہ مکرمہ گیا ہوں، عمرہ کیا ہے، بیت اللہ کا طواف کررہا ہوں، جب میں حجر اسود کے قریب گیا بوسہ لینے کے لیے، ایک بندہ آیا اور اس نے مجھے دھکے دے کر دور کردیا حجر اسود سے، میری آنکھ کھل گئی۔ اس کی تعبیر کیا ہے؟ آپ اس سے کہیں گے کہ تو یہاں سویا ہوا تھا، تو جھوٹ بولتا ہے، تو وہاں گیا ہی نہیں ہے، کیوں؟ ہم میں سے ہر بندہ سمجھتا ہے، یہ رنگون میں ہے، اس کاجسم طواف نہیں کررہا ہے بلکہ اس کی روح کررہی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوتا ہے ناں! آدمی کا جسم رنگون میں ہے اور روح اس کی مکہ پہنچ گئی ہے، جو طواف کررہی ہے۔
یہ معاملہ روح کے ساتھ آیا ہے، جسم کے ساتھ پیش نہیں آیالیکن جسم اس کو محسوس کررہا ہے۔ اس لیے پریشان ہو کر اٹھا اور اٹھ کر خواب کی تعبیر پوچھی۔ تو اس طرح نیند میں جسم کہیں ہوتا ہے روح کہیں ہوتی ہے۔حالات روح پر آتے ہیں جسم محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح جسم قبر میں ہوتا ہے، روح علیین یا سجین میں ہوتی ہے، حالات روح پر آتے ہیں، تو جسم محسوس کرتا ہے۔ ایک آدمی یہاں آپ کے پاس سویا ہوتا ہے اور اٹھ جاتا ہے، آپ اس سے پوچھتے ہیں کیا ہوا؟ کہتا ہے مجھے سانپ نے ڈسا ہے، حالانکہ کوئی سانپ نہیں ہوتا، وہ ڈر رہا ہوتا ہے، اس کے جسم پر خوف ہوتا ہے، اس کے جسم پر کبھی پسینہ آجاتا ہے، کبھی جسم کانپ جاتا ہے، مجھے سانپ نے ڈسا ہے، حالانکہ سانپ تو کوئی نہیں ہوتا۔ وہ سانپ کس کو ڈستا ہے، روح کو۔ اور محسوس کون کرتا ہے؟ [جسم، سامعین ] تو جس طرح عالم نوم ( عالم نیند ) میں احوال روح پر آتے ہیں جسم محسوس کرتا ہے۔
اسی طرح عالم برزخ، عالم موت، عالم قبر میں حالات روح پر آتے ہیں اور جسم محسوس کرتا ہے، سمجھ آگیا؟ میں اتنی مثالیں آپ کو دے رہا ہوں۔ میرے پاس مثالوں کا ذخیرہ ہے، یہ صرف سمجھانے کے لیے آپ کو دے رہا ہوں۔
آدمی کو خواب آتا ہے، جب کبھی خواب آئے، تو ہر کسی کو نہ بتائے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہر کسی کو خواب نہ بتائیں۔ صرف حبیب اورلبیب یعنی عقل مند اور دوست سے۔ اس لیے کہ خواب آسمان اور زمین کے درمیان لٹکا ہوتا ہے۔ خواب دینے والا جس طرح خواب کی تعبیر دیتا ہے، اسی طرح اللہ اس خواب کو صادق فرمادیتے ہیں۔ اس لیےبندہ ہر کسی کو خواب نہ بتائے، اس کا بڑا خیال رکھیں۔
مولانا محمد قاسم نانوتوی کا واقعہ
میں نے درمیان میں مسئلہ عرض کردیا، چلواس پر میں ایک چھوٹا سا واقعہ پیش کرتا ہوں بانی دارالعلوم دیوبند، قاسم العلوم والخیرات مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے قریبی عزیز تھے مولانا مظہر نانوتوی رحمہ اللہ۔ ان کو خواب آیا۔ خواب یہ آیا کہ ہندوستان میں ایک شہر ہے بریلی، اس شہر سے کچھ بطخیں اڑیں۔ بطخ سمجھتے ہو؟ جو مرغی کی طرح ہوتی ہے، بطخ اڑی اور ان کے گھر میں آکر گری۔ انہوں نے اس خواب کی تعبیر مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ سے پوچھی۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ فرمانے لگے کہ تم نے سرکار کو ملازمت کے لیے درخواست دی ہے، تمہاری درخواست منظور ہوگئی ہے اور بریلی شہر سے تمہیں تار آئے گا تمہاری نوکری پکی ہوگئی، اگر ہمیں مٹھائی کھلاؤتو تمہیں بیس روپے ماہانہ کی ملازمت ملے گی اور اگر مٹھائی نہ کھلاؤ تو گیارہ روپے ماہانہ کی تنخواہ کی ملازمت متعین ہوگی۔ مٹھائی کھلاؤ تو بیس روپے ماہانہ اور نہ کھلاؤ توگیارہ روپے ماہانہ۔
انہوں نے کہا جی میں مٹھائی کھلاؤں گا۔ فرمایا پھر آپ کو وہاں سے بیس روپے ماہانہ کا تار وصول ہوجائے گا۔ یہ حضرت نے از راہ محبت فرمایا تھا اور مٹھائی کیوں کھانی ہوتی، کوئی چھوٹا بچہ آپ سے کہتاہے استاد جی ہمارے گھر آئیں، استاد جی کہتے ہیں مچھلی کھلاؤگے تو آؤں گا۔ یہ تو محبت کررہا ہے، مچھلی شاگردوں سے کیا کھانی ہوتی ہے،پیار سے ایسی باتیں کرتے ہیں۔
تو کچھ دنوں بعد وہاں سے تار آگئی اور بیس روپے ماہانہ میں ملازمت مل گئی۔ مولانا مظہر نانوتوی رحمہ اللہ نے پوچھا کہ حضرت آپ نے خواب کی تعبیر بالکل ٹھیک بتائی ہے اور بیس روپے ماہانہ پر مجھے ملازمت مل گئی ہے، لیکن یہ تعبیر آپ نے بتائی کیسے ہے؟ اور ساتھ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مٹھائی کھلاؤ گے تو بیس نہ کھلاؤ گے تو گیارہ۔
فرمانے لگے آپ نےبطخ دیکھی ہے؟ بطخ کو عربی زبان میں بطّ کہتے ہیں۔ با اور ط مشدد میں دو ط ہیں اور اسی بط کو فارسی زبان میں بط کہتے ہیں با اور ط ایک ہے،مخفف بط ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خواب کی تعبیر معبّر کی تعبیر کے مطابق ہوتی ہے، جیسی معبر تعبیر دے گا، ویسی ہی تعبیر ہوگی۔ اب میرے اوپر ہے کہ میں فارسی والی بط دوں یا عربی والی بط۔ ابجد کے اعتبار سے ب کے عد د دو ہیں اور ط کے نو آتے ہیں۔ اگر فارسی والی بطخ لیتا ہوں، تو ب اور ط ایک ہے، نو اور دو گیارہ۔ اگر عربی والی لیتا ہوں تو ط مشدد ہے، ب اور ط دو ہیں، نو اور دو گیارہ، گیارہ اور نو بیس۔تو میری مرضی ہے، فارسی والی بطخ لوں یا عربی والی۔ تم نے کہا مٹھائی کھلاؤں گا۔ ہم نے عربی والی کہہ دی، تم نہ کھلاتے تو ہم فارسی والی کہہ دیتے۔
میں اسی لیے کہتا ہوں کسی کو خواب آئے، تو مٹھائی لے کر آئے۔اور میں تعبیر بتاتا ہوں لیکن ہر کسی کونہیں۔ ہر کسی کو اسی لیے نہیں بتاتا کہ اگر تعبیر بتاؤں گا تو لوگ خواب پوچھتے ہیں، مسائل نہیں پوچھتے۔ اور ہماری خواہش ہوتی ہے مسائل پوچھیں، اس لیے میں تعبیر بتاتا نہیں۔ ہمارے حضرت کی برکت ہے، بحمداللہ ہماری تعبیر بڑی درست ثابت ہوتی ہے، ہاں جو خاص ساتھی ہو یا سلسلے میں جڑا ہو ان کو بتاتا ہوں۔ پاکستان میں تو میرا مزاج ہے، بیعت لوں گا تو تعبیر بتاؤں گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پھر ان کو چسکا لگ جاتا ہے۔ پھر ہر روز ایک خواب آیا، پھر سوتے ہیں پھر خواب آیا۔ یہ روزانہ خواب ہی پوچھتے ہیں، ان کو تعبیروں پر نہیں لگانا چاہیے، مسائل پر لگاناہے۔
الحمد للہ رب العالمین
ایک عالم ارواح، ایک عالم دنیا، ایک عالم برزخ اور ایک عالم آخرت۔ عالم برزخ میں سمجھا رہا تھا کہ عالم برزخ کیا ہے۔ میں نے کہا عالم برزخ کو سمجھنا ہےتو عالم نیند کو سمجھو اور جب نیند سمجھ نہیں آئے گی تو برزخ سمجھ نہیں آئے گی۔ دنیا میں احوال جسم پر آتے ہیں، روح محسوس کرتی ہے۔ برزخ میں احوال روح پر آتے ہیں اور جسم محسوس کرتا ہے۔ اچھی طرح بات سمجھیں! دنیا میں احوال جسم پر آتے ہیں اور روح محسوس کرتی ہے۔
احوال جسم پر، احساس روح کو
آپ قرآن کریم کان سے سنتے ہیں یا روح سے؟ [کان سے، سامعین] مزہ کون لیتا ہے؟ [روح، سامعین ]کہتے ہیں تونے میری روح کو خوش کردیا ماشاء اللہ! قران سنایا روح خوش ہوگئی۔ تو یہ روح سن رہی ہے یا کان سن رہا ہے؟ دیکھو حالات سننے کے کان پر آرہے ہیں اور مزہ کس کو آرہا ہے؟ [روح کو،سامعین ] شربت جسم پی رہا ہے اور مزہ؟ [روح کو،سامعین ] تو یہ شربت کا نام جسم افزاء نہیں ہے، روح افزاء ہے۔ بتاؤجسم پی رہا ہے یا روح پی رہی ہے؟ [جسم،سامعین ] تو کیا نام ہونا چاہیے؟ جسم افزا۔ کہتے کیا ہیں؟ روح افزا پیا جسم نے ہے، مزہ روح نے لیا ہے۔ تو جس طرح دنیا میں جسم پر حالات آتے ہیں اور روح محسوس کرتی ہے۔ برزخ میں روح پر حالات آتے ہیں اور جسم محسوس کرتا ہے۔ بات سمجھ آرہی ہے؟ اور یہ سمجھ کیسے آئے گا، اس کے لیے نیند کو سمجھیں۔ نیند میں حالات روح پر آتے ہیں اور محسوس جسم کرتا ہے۔
احوال ِدنیا اور احوال برزخ میں فرق
برزخ میں حالات روح پر آتے ہیں اور محسوس بدن کرتا ہے۔ فرق کیا ہے؟ کہ دنیا میں جسم پر جو آثار محسوس ہوتے ہیں وہ نظر آتے ہیں اور قبر میں جسم جو محسوس کرتا ہےوہ نظر نہیں آتا۔ اس لیے دنیا میں کوئی جسم کے آثار کا انکار کردیں تو لوگ کہتے ہیں تو اندھا ہے، یہ نہیں کہتےبے ایمان ہے۔ بات سمجھ آرہی ہے؟ اب دیکھو آدمی سویا ہوا ہے اور روح نکل گئی ہے، عمرہ کے لیے گئی ہے، روح مکہ مکرمہ دیکھ رہی ہے، روح طواف کررہی ہے، لیکن جسم بھی زندہ ہے کہ نہیں؟ بولو کیسے زندہ ہے آنکھ سے نظر آیا ہے، پیٹ اوپر ہورہا ہے، نیچے ہورہا ہے۔ پتا چل رہا ہے، اس کی نبض چل رہی ہے، ہاتھ لگاؤ تو پتا چلتا ہے، جیسے ہی سانس نکل کر گیا ہے، اس کو زندہ مانا۔ یہ قرآن میں نہیں لکھاہوا، نظر آرہا ہے۔ بات سمجھتے ہیں؟
جب آدمی سویا ہوتا ہے، روح جسم میں نہ بھی ہو، سیر کے لیے چلی جائے، زندہ مانتے ہوناں! کیوں مانتے ہو؟ نظر آرہا ہے۔ اگر کوئی بندہ کہے زندہ نہیں ہے کیا کہو گے؟ بےایمان کہیں گے؟ یا کہیں گےاندھاہے؟ تجھے نظر نہیں آرہا؟ بات سمجھ آرہی ہے؟ دنیا میں اگر کوئی سویا ہوا ہو، کوئی بندہ کہے زندہ نہیں ہے، تو کیا کہوگے؟ بولو ناں! یہ تو نہیں کہتے کہ بے ایمان ہے، کہتے ہیں تو اندھا ہے، تجھے نظر نہیں آرہا، دیکھ سانس لے رہا ہے، تجھے نظر نہیں آرہا، دیکھ اس کی نبض چل رہی ہے، اندھا کہیں گے۔
لیکن جو قبر میں زندہ ہے اس کو زندہ نہ مانیں تو پھر اس کو نہیں کہیں گے تو اندھا ہے، کیوں نظر نہیں آرہا؟ اس لیے کہ وہ آنکھ سے نظر نہیں آرہا بلکہ وہ نظر آرہا ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی وجہ سے۔ جس چیز کا پتا آنکھ سے چلےاس کو نہ مانے تو اندھا کہتے ہیں اور جس کا پتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے چلے اس کو نہ مانے اس کو بے ایمان کہتے ہیں۔ تو ہم نے سونے والے کو زندہ مانا ہے آنکھ کی وجہ سے اور مرنے والے کو زندہ مانا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی وجہ سے۔ آنکھ دھوکہ کھا سکتی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان دھوکہ نہیں کھاسکتی۔ آنکھ دھوکہ کھاسکتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان؟ [دھوکہ نہیں کھاسکتی، سامعین]
کیا دلیل، کیا مثال
توجہ رکھنا! میں ایک مثال دینے لگا ہوں۔ میری عادت ہے، میں دلیل کے ساتھ مثال چلاتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم دلیل سے قائل ہوگا، غیر عالم مثال سے قائل ہوتا ہے۔ یہ ضابطہ یاد رکھیں! عالم دلیل سے قائل ہوتا ہے اورغیر عالم؟ میں جاہل نہیں کہہ رہا آپ میں سے بہت سارے ناراض ہونے لگیں گے، میں جاہل تھا؟ میں نے ایف اے کیا ہے، بی اے کیا، مجھے جاہل کہہ دیا۔ جاہل میں نہیں کہہ رہا میں کہہ رہا ہوں غیر عالم۔ غیر عالم کہنے میں تو بے ادبی نہیں ہے ناں؟ انجینئر ہے، غیر عالم ہے، جاہل نہیں لیکن عالم تو نہیں ہے ناں؟ اس لیے عالم کو قائل کرتے ہیں، دلیل سے اور غیر عالم کو قائل کرتے ہیں مثال سے۔
میں مثال دینے لگا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان دھوکہ نہیں کھاتی۔ آنکھ دھوکہ کھاتی ہے۔ آپ مجھے دیکھ رہے ہیں، میرے سر پر سفید پگڑی ہے، آپ نے دیکھا میں نے کپڑے پہنے ہو ئے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ مولانا صاحب پگڑی پہنتے ہیں، اب کل آپ کسی بندے کو دیکھیں کہ کسی گاڑی پر جارہا ہے۔ تین بندے ساتھ ہیں اور سفید پگڑی پہنی ہے۔ ایک لڑکا موٹر سائیکل دوڑا کر پیچھے سے آتا ہے۔ ایسے دیکھتا ہوا، کیا ہوا؟ کہتا ہے اوہ۔۔ مجھے غلط فہمی ہوگئی ہے، میں نے سمجھا مولانا صاحب ہیں، یہ تو کوئی اور ہے۔ آنکھ دھوکہ کھاتی ہے کہ نہیں؟ ایسے کئی بار ہوتا ہے آپ فون سنتے ہیں، السلام علیکم! بشیر بھائی کیا حال ہے؟ وہ کہتا ہے نہیں نہیں میں تو خلیل ہوں۔اوہو۔۔ میں بھول گیا ہوں۔خلیل بھائی کیا حال ہے؟ کہتے ہیں ناں؟ دیکھو کان کو دھوکہ لگ گیا، کان دھوکہ کھاتا ہے، آنکھ دھوکہ کھاتی ہے، اس لیے اللہ نے کان اور آنکھ پر ایمان کا مدار نہیں رکھا۔
معیارِ ایمان کیا ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان دھوکہ نہیں کھاتی، خدا نے ایمان کا معیار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر رکھا ہے۔ بات سمجھ آرہی ہے ناں؟ برزخ کو سمجھنا ہے تو نیند کو سمجھ لو۔ نیند سمجھ آگئی تو برزخ سمجھ آگئی۔ مردہ بدن پاس پڑا ہوا ہے، سوال جواب ہورہا ہے، حساب کتاب چل رہا ہے، اگر نیک ہے تو جنت کے مزے لے رہا ہے، اگر برا ہے تو ٹھکائی ہو رہی ہے۔ مجھے نہیں سمجھ آرہی، سویا ہوا ہو، اس کے حالات تجھے سمجھ نہیں آتے تو موئے کے حالات کیسے سمجھ آئیں گے؟ بات سمجھ آگئی ناں؟ سونے والے کے حالات تجھے سمجھ نہیں آتے۔ تو جو مرا ہے اس کے حالات تجھے کس طرح سمجھ آئیں گے؟
تو سونے والے کے حالات بھی نہیں سمجھتا، مرنے والے کےحالات بھی نہیں سمجھتا، حالات اس پر بھی ہیں، پتا نہیں چلتا۔ حالات اس پربھی ہیں، پتا نہیں چلتا۔ یہ محسوس ہوتے ہیں، آنکھ کی وجہ سے۔ وہ محسوس ہوتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی وجہ سے۔ اس لیے ہم عالم دنیا بھی مانتے ہیں، عالم برزخ بھی مانتے ہیں، میں آخری بات کہتا ہوں، آخری اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مجھے اچانک خیال آیا کہ خواتین بھی بیٹھی ہیں اور آپ حضرات بھی کہیں تھک نہ جائیں، ان شاء اللہ پھر سہی۔
میں ایک آخری بات سمجھانے لگا ہوں، لفظ برزخ کو سمجھیں، برزخ کا معنی ہے پردہ۔ امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کو جو بندہ دنیا میں پہچانتا تھا جب قبر پر آکر سلام کہتا ہے تو قبر میں میت اس آنے والے کو پہچان لیتی ہے۔
مسند احمد بن حنبل
سماعِ موتی پر اعتراض اور اس کا جواب
اس پر لوگ جو سوال کرتے ہیں، وہ سمجھنا! جب ہم قبر پہ جاکے میت کو کہتے ہیں
السلام علیکم یا اہل القبور
ہم نے سلام کیا اور میت نے سن لیا۔ اگر میت نے جواب دیا تو ہم نے نہیں سنا۔ لوگ کہتے ہیں کہ میت نے بھی نہیں سنا، دلیل کیا ہے، اگر وہ جواب دیں، تو ہم نے نہیں سنا، تو جب ہم نہیں سنتے تو اس نے کیسے سنا؟ بات سمجھ آرہی ہے؟ اچھا اگر آدمی قبر پر آیا ہے اور قبر میں میت نے پہچان لیا ہے ہم نہیں مانتے، کیوں؟ ہمیں نہیں پتا چلاکہ اس کے اندر کیا ہوا ہے، اس کو کیسے پتا چلا؟ اچھی طرح بات سمجھیں! اس پر میں جواب دینے لگا ہوں، اس عالم کا نام برزخ ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُون
المؤمنون:100
مفہوم برزخ سمجھنے کے لیے عام مشاہدے کی مثال
جو بندہ فوت ہو کے قبر میں چلا جاتا ہے، اس کے پیچھے پردہ ہے، برزخ کا معنی ہے پردہ، اس کے پیچھے پردہ ہے، آپ بازار میں جائیں، امی جان آپ کے ساتھ ہیں، آپ والدہ کو لے کر بازار میں ڈاکٹر صاحب کے پاس گئےدوا لینے کے لیے، امی نے پردہ کیا ہوا ہے، اب بتائیں، والدہ آپ کے ساتھ ہے، اس کے چہرے پر پردہ ہے، تو ڈاکٹر آپ کی والدہ کا چہرہ دیکھتا ہے یا دیکھ سکتا ہے؟[نہیں۔ سامعین] اور امی جان ڈاکٹر کا چہرہ دیکھ رہی ہے، کیوں؟ بات سمجھیں! والدہ کا چہرہ ڈاکٹر کیوں نہیں دیکھ رہا کہ یہ پردے میں ہے اور ڈاکٹر کا چہرہ والدہ کیوں دیکھ رہی ہے کہ ڈاکٹر پردے میں نہیں ہے۔ تو پتا چلاکہ جو پردے میں ہو اس کے حالات کا پتا نہیں چلتا اور جو پردے میں ہے، وہ باہر کے حالات معلوم کرلے، تو برزخ کے خلاف نہیں ہے۔ سمجھ آگئی بات؟ والدہ پردے میں ہے، دوکانداران کو نہ دیکھے، تو ٹھیک ہے اور والدہ کو پردے میں سے دوکاندار نظر آئے تو یہ خلاف نہیں ہے کیونکہ والدہ پردے میں ہے، دوکاندار نہیں۔
پردے میں میت ہے، ہم پردے میں نہیں ہیں۔ میت کے پیچھے پردہ ہے، امی کے آگے پردہ ہے، اس لیے آگے والا اس کو نہیں دیکھ سکتا۔ یہ اس کو دیکھتی ہے، میت کے پیچھے پردہ ہے، میت پردہ میں ہے، ہم پردے میں نہیں ہیں، ہم نے سلام کیا اور میت نے سن لیا، کیوں؟ ہمارا السلام علیکم کہنا پردہ میں نہیں ہے، وہ جواب دے، ہم نہ سنیں کیونکہ میت پردے میں ہے، اس کا جواب دینا پردے میں ہے، ہم قبر پر جائیں، اس کو پتا چل جائے تو ہو سکتا ہے اس لیے کہ ہمارا جانا پردے میں نہیں ہے، وہ سن لے، ہمیں پتا نہ چلے تو ٹھیک ہے کیونکہ وہ پردے میں ہے۔ صحیح بخاری میں روایت موجود ہے:
الْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتُوُلِّيَ وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ حَتَّى إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمأَتَاهُ مَلَكَانِ فَأَقْعَدَاهُ فَيَقُولَانِ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَيُقَالُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنْ النَّارِ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنْ الْجَنَّةِ
صحیح البخاری،رقم الحدیث:1338،باب الميت يسمع خفق النعال
جب میت کو دفن کیا جاتا ہےاور دفن کرنے والےواپس آنے لگتے ہیں تو میت ان کے چلتے ہوئے جوتوں کی آواز کو سنتی ہے۔ کیوں؟ ہمارے جوتوں کی آواز پردے میں نہیں ہے وہ میت پردے میں ہے،اس لیے میت محسوس کرتی ہےلیکن ہمیں پتا نہیں چلتا، اقعداہ میت کو بٹھادیتے ہیں، میت بیٹھتی ہے، ہمیں پتا نہیں چلتا، اس کا بیٹھنا پردے میں ہے، سوال و جواب پردے میں ہے۔ ہمارے بیٹھنے کا پتا اس کو چلے تو ہوسکتا ہے۔
امام بخاری باب کلام المیت باب قائم کرتے ہیں، اس میں دوسری حدیث لاتےہیں
إِذَا وُضِعَتْ الْجِنَازَةُ فَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً قَالَتْ قَدِّمُونِي قَدِّمُونِي وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ يَا وَيْلَهَا أَيْنَ يَذْهَبُونَ بِهَا يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الْإِنْسَانَ وَلَوْ سَمِعَهَا الْإِنْسَانُ لَصَعِقَ
صحیح البخاری،رقم الحدیث:1380
اس حدیث میں ہے فان کانت صالحۃ اگر میت نیک ہے تو کہتی ہے قدمونی قدمونی مجھے جلدی لے جاؤ، اور اگر بری ہےتو کہتی ہےمجھے کہاں لے کر جارہے ہو؟ رکو۔ یہ بول رہا ہے لیکن ہمیں پتا نہیں چلتا، اس کا بولنا بھی پردے میں ہے، اس کا سننا بھی پردے میں ہے، عالم برزخ کا معنی پردے والا عالم۔ وہ پردے میں ہےہم پردے میں نہیں ہیں۔ ہمارے احوال کا میت کو پتا چل جائے یہ برزخ کے خلاف نہیں ہے اور میت کے احوال کا ہمیں پتا چلے، یہ برزخ کے خلاف ہے۔ اس لیے برزخ والوں کے حالات باہر والوں کو نہیں پتا چلتے ، باہر والوں کے حالات کا پتا چل جائے تو برزخ کے خلاف نہیں۔
کرامت کا امتیاز
آپ کہیں گے کہ کبھی کبھی پتا چل جاتا ہے، کبھی کسی کو ولی کو پتا چلے، تو اس کو خرق عادت کہتے ہیں، جو کرامت ہوتی ہے، یہ عادت کے مطابق نہیں۔ کرامت کو کرامت تک محدود رکھتے ہیں، اس کو آگے نہیں چلائیں گے۔ توجہ رکھنا! آدمی سویا ہوا ہو، آپ پاس بیٹھے ہیں، اعتکاف میں بیٹھے ہیں اور وہ اٹھ کرکہتا ہے کہ آج میں نے خواب میں سورہ یس کی تلاوت کی ہے، آپ نے سنی؟ وہ کہتا ہے آپ نہیں سنتے اور اگر آپ سورہ یس کی تلاوت کریں، وہ آواز سنے اور اٹھ جائے، یہ ہوسکتا ہے۔ آپ بولیں اور وہ سنے اور اٹھ جائے۔ ایسا ہوتا ہے۔ وہ بولے اور آپ نہ سنیں، ایسا ہوتا ہے۔ تو اس لیے سونے والا تلاوت کرتا ہے، پاس بیٹھنے والے کو پتا نہیں چلتا اور بیٹھنے والا تلاوت کرتا ہے، وہ سنتا ہے اور اٹھ جاتا ہے۔ اس لیے نیند کے حالات سمجھ آئیں تو موت کے احوال سمجھ آتے ہیں۔ میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں اگر آج یہ باتیں نہیں سمجھیں گے کل کو منکر حدیث آکر آپ کے عقید ےپر اعتراض کرے گا، حدیثوں پر اعتراض کرے گا پھر امت میں بگاڑ پیدا ہوگا۔ ہماری محنت کا اصل میدان عقائد ہیں اس لیے ہم عقائد پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کے عقائد کی اصلاح فرمائے۔
میں نے الحمد للہ رب العالمین کے متعلق تھوڑی سے گزارش پیش کی ہے، اللہ ہم سب کی اصلاح فرمائے۔ باقی پھر ان شاء اللہ چلیں گےعشاء کے بعد۔ کل بھی بیان ہے، پرسوں بھی بیان ہے، مزید ان شاء اللہ باتیں آتی رہیں گی۔ ہماری خواہش ہوگی کہ عقائد کے حوالے سے گفتگو بھی کریں اور جو اشکالات ہیں ان کو بھی صاف کریں۔میں ان شاء اللہ اگلی مجلس میں سورۃ الفاتحہ کے مضمون بھی بیان کروں گا اور سورۃ الفاتحہ پر مسئلہ بھی تفصیل سے بیان کروں گا کہ جب امام قراءۃ کرے، تو مقتدی کو کرنی چاہیے کہ نہیں؟ اس پر بھی بات کروں گا۔ قرآن بھی پیش کروں گا، حدیث بھی پیش کروں گا اور عقلی دلائل سے بھی ثابت کروں گا کہ امام کے پیچھے قراءۃ کرنا عقل کے بھی خلاف ہے، نقل کے بھی خلاف ہے، دونوں کے خلاف ہے۔ ان شاء اللہ بات چلے گی۔ اللہ مجھے اور آپ کو شریعت کو سمجھ کر اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اللہ ہم سب کو بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین