اصحابِ رسول صلی ا للہ علیہ وسلم

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اصحابِ رسول صلی ا للہ علیہ وسلم
بمقام: رونق مسجد، ینگون
بتاریخ: 17-02-2013
الحمد للہ وحدہ لا شریک لہ والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
قال اللہ تعالی: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ
سورۃ المائدۃ:119
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي
الجامع الصحیح للسنن والمسانید
اللھم صلی علی محمد وعلی اٰل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وعلی اٰل ابراھیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد وعلی ال محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید
جا زندگی مدینہ سے جھونکے ہوا کے لا
شاید کہ حضور خفا ہیں منا کے لا
کچھ ہم بھی اپنا چہرہ باطن سنوار لیں
ابوبکر سے آئینے عشق و وفا کے لا
دنیا مسلماں پہ بہت ہی تنگ ہوگئی
فاروق اعظم کے دور کے وہ نقشے اٹھا کے لا
جن سے گناہ نے ہمیں محروم کردیا
عثمان سے وہ زاویے شرم وحیا کے لا
مغرب کی گلیوں میں مارا مارا نہ پھر اے گدائے علم!

دروازہ علم سے خیرات جا کے لا

 
بحیثیت مسلمان دو ذمہ داریاں
ہمارے ذمہ بحیثیت مسلمان دو کام ہیں
1: امت کو ایمان اور اعمال پہ لانا
2: امت کا ایمان اور اعمال بچانا
جس طرح دنیوی زندگی کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں
1: اموال کو جمع کرنا
2: جمع شدہ اموال کو محفوظ کرنا
اگر مال جمع نہ کریں، تو کام چلتا نہیں ہے اور جمع کیا ہوا مال محفوظ نہ کیا جائے، تو کام بنتا نہیں ہے۔اس لیے دوکاندار مال جمع بھی کرتے ہیں اور جو مال صبح سے شام تک جمع کیا ہے، اس کو محفوظ بھی کرتے ہیں۔ اموال کو جمع کرنے کا طریقہ اور ہوتا ہے جمع شدہ اموال کو محفوظ کرنے کا طریقہ اور ہوتا ہے۔ امت کو ایمان اور اعمال پہ لانے کا طریقہ اور ہوتا ہے اور جب آجائے تو ان کے ایمان اور اعمال کو بچاتے ہیں، دلائل سے۔
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ
النحل:125
یہ ایمان پہ لانے کی بات ہے
وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ
یہ ایمان بچانے کی بات ہے۔ قرآن کریم نے ایمان پہ لانے کی بات بھی کی ہے اور بچانے کی بات بھی کی ہے۔ ہمارے بعض کم علم حضرت جن کے پاس علم نہیں ہوتا مگر علم پہ ناز بہت کرتے ہیں، ان کو لانے کا طریقہ تو معلوم ہوتا ہے، بچانے کانہیں ہوتا۔ اس لیے جب کوئی آدمی بچانے کی بات کرے تو کہتے ہیں بچانا غلط ہے۔ حالانکہ لانا بھی ضروری ہے اور بچانا بھی ضروری ہے۔
عام مشاہدے کی مثال
آپ بازار جاتے ہیں، کپڑا خرید کر لاتے ہیں پہننے کےلیے۔لیکن آپ بعد میں کپڑے کو گند ا ہونے سے بچاتے بھی ہیں۔ اگر گندا ہوجائے تو اس کو صاف بھی کرتے ہیں۔ تو جس طرح نیا کپڑا لاتے ہیں اس کپڑے سے داغ دھبے دور بھی کرتے ہیں۔ جیسا کہ طبیب یہ بھی بتاتا ہے کہ تم نے کیا کھانا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ کیا نہیں کھانا ہے۔ اگر کوئی بندہ صرف یہ کہے کیا نہیں کھانا، تو لوگ کہیں گےبہت غلط آدمی ہے، یہ بتاتا ہے”کیا نہیں کھانا“مگر کھانا کیاہے، وہ نہیں بتاتا۔ توجو کھانا ہو،وہ بھی بتانا ضروری ہے اور جس سے بچنا ہو، وہ بتانا بھی ضروری ہے۔
امت میں فتنے اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب امت کے مقتدا ایک چیز کو اختیار کرکے دوسری چیزکو چھوڑ دیتے ہیں۔ لانے والی محنت تو کرتے ہیں اور بچانے والی نہیں کرتے۔ اس سے پھر امت میں فساد پیداہوتا ہے۔ آپ ایک اچھے سے اچھا بنگلہ، اچھی سے اچھی کوٹھی، اچھے سے اچھا مکان بنا دیں۔تو آپ ایمان کے ساتھ بتائیں اگر اس مکان میں ہواکی وجہ سے گندگی لگے، مٹی اور مچھر پیدا ہوں تو اس کو ختم کرنے کی بھی ترکیب سو چتے ہیں کہ نہیں؟ اور جب آپ نے مکان بنایا ہے، قالین بچھائے ہیں، پردے لگائے ہیں، فانوس لگائے ہیں، اس میں خوشبو چھڑکی ہے، مکان زبردست ہُوا ہے۔لیکن اگر گرمی کے موسم میں مچھر آئیں،تو ان مچھروں کو ختم کرنے کے لیے آپ ا سپرے بھی کرتے ہیں۔
جب اسپرے استعمال کیا ہے تو کچھ نہ کچھ بو تو آئی ہےلیکن آپ اس کی وجہ سےا سپرے کی افادیت کا انکار نہیں کرتے،اس لیے کہ پھر مچھر داخل ہوں گے۔ اور آپ کے ہوتے ہوئے آپ کے گھر میں موت آنا شروع ہو جائےگی، امراض پیدا ہوں گے۔ تو جب فتنوں کے تحفظ کے لیے چھڑکا ؤ کریں تو کچھ نہ کچھ بو کا ماحول پیدا ہوتا ہے، اس ماحول کو دو چار دن کے لیے برداشت کریں تو پھر ہمیشہ کے لیے فتنے اپنا وجود ختم کردیتے ہیں۔ ہمارے بہت سارے احباب جن پر ہمیں بہت تعجب ہوتا ہےان باتوں کو سمجھتے نہیں ہیں اور اعتراضات کر دیتے ہیں۔
کسی کو سننا، کسی کے بارے میں سننا
میں جب بھی کسی علاقے میں جاؤں اور میرا پہلا سفر ہو، تو میری سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ میری گفتگو کو وہاں کے علماء اور مشائخ سنیں۔عوام کو بعد میں لائیں،پہلے مشائخ اور علماء سنیں۔ کیوں؟ ہوتا یہ ہے کہ میری گفتگو عوام سنتی ہے، مشائخ اس میں آتے نہیں،عوام سنتی ہے ، علماء سنتے نہیں ہیں اور میرے جانے کے بعد پھر وہی کہتے ہیں کہ اس کی کیا ضرورت تھی؟ اگر انہوں نے بات سنی ہوتی،تو پھر کبھی بھی اعتراض نہ ہوتا، جب سنیں گے نہیں تو اعتراضات تو ہو ں گے۔اس کو میں دوسرے لفظوں میں یوں کہتا ہوں کہ بہت سارے احباب دنیا بھر میں ایسے ہیں کہ جنہوں نے میرے بارے میں بہت کچھ سنا ہوتا ہے،لیکن مجھے نہیں سنا ہوتا۔
دو لفظوں میں فرق کریں۔ میرے بارے میں سنا ہوتا ہے، مجھے نہیں سنا ہوتا۔ جب آدمی کسی کےبارے میں سنے، توذہن اور ہوتا ہے اور جب کسی کو سنے تو ذہن اور ہوتاہے۔ میں اس پر بھی دلیل پیش کرتا ہوں۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں، میرے ڈیڑھ گھنٹے کے بیان میں آپ ایک جملہ بھی ایسا ثابت نہیں کریں گے کہ جس پر دلیل نہ ہو۔ میں نے صبح بیان کیا، آپ اس کو دوبارہ سنیں، ابھی آپ کو نہیں مزا آئےگا، ابھی تو بیان ساراسبحان اللہ اور ماشاء اللہ کی نذر ہو جاتا ہے۔ آپ اس کی کیسٹیں کروائیں، اور پھر بعد میں خلوت میں بیٹھ کے سنیں، پھر آپ کو پتا چلے گا کہ بیان کتنا مدلّل ہوتا ہے۔ ایک ایک جملے پر میں دلیل لاتا ہوں، ایک ایک لطیفے پر دلیل، ایک ایک مثال پہ دلیل لاتا ہوں، بغیر دلیل کے ایک جملہ بھی میں نہیں کہتا۔ تو میں یہ بات کہہ رہا تھا آدمی جب کسی کو سنے، توذہن اور ہوتا ہے اور جب کسی کے بارے میں سنے، تو ذہن اور ہوتا ہے۔
غیروں سے سنا تم نے
اس پر میں دلیل پیش کرنے لگا ہوں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں ہیں، ایک بوڑھی عورت مکہ مکرمہ سے جارہی تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کےسامان کی گٹھڑی اپنی سر پر اٹھائی،فرمایا: اماں جان! کہاں جانا ہے؟ فلاں جگہ جانا ہے۔ سامان اٹھایا، اماں جان کو وہاں پہنچادیا، جب چھوڑ کر آنے لگے تو اماں جی نے نصیحت کی بیٹے! مکہ میں جاؤ تو محمد سے بچ کے رہنا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: جس کا ترجمہ میں اپنے لفظوں میں کر رہا ہوں، {عوامی زبان میں} کہ اماں جان آپ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے یا محمد کے بارے میں سنا ہے؟ تو اس نے کہا میں نے محمد کو تو نہیں سنا،ان کے بارے میں سنا ہے۔رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس کے بارے میں سنا، وہ میں ہی ہوں، اگر اجازت ہو تو کچھ مجھے بھی آپ سن لیں تو جب بوڑھی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سنا، مکہ چھوڑ کے جارہی تھی، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، تو مکہ واپسی آرہی تھی۔ کسی کے بارے میں سنیں تو ذہن اور ہوتا ہے اور جب کسی کو سنیں تو ذہن اور ہوتا ہے۔
امام اعظم ابو حنیفہ اور امام جعفر صادق رحمہمااللہ کا دلچسپ مکالمہ
ایک اور مثال سنیں! امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ ہمارے امام ہیں، کوفہ سے مکہ مکرمہ گئے، وہاں حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی، توان کو امام صاحب نے سلام کیا، حضرت امام رحمہ اللہ نے سلام کا جواب صحیح طرح نہیں دیا، ایسےجیسے بندہ ناراض ہوتا ہے۔ کبھی آپ مدرسے میں جائیں، استاذ ناراض ہو اور آپ سلام کریں پتا ہے استاذ کیسے جواب دیتے ہیں؟ اسی طرح انہوں نے امام صاحب کو جواب دیا جیسا کہ ناراض استاد شاگرد کو جواب دیتا ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ﷫ نے پو چھا کہ آپ کچھ خفا سے معلوم ہوتے ہیں، خیر تو ہے؟ فرمایا تیرے بارے میں ہم نے سنا ہے کہ جب حدیث آتی ہے،ادھر تیرا قیاس ہوتا ہے، تو قیاس کے مقابلے میں حدیث کو چھوڑ دیتا ہے اور قیاس کو لے لیتا ہے،اس سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔
حضرت امام صاحب نے فرمایا، جس کا ترجمہ میں اپنی زبان میں کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے سنا ہے یا میرے بارے میں سنا ہے؟ انہوں نے کہا تجھے نہیں سنا، تیرے بارے میں سنا ہے۔ حضرت امام صاحب نے فرمایا پھر آپ ذرا مجھےسنیں! میں آپ سے پوچھتا ہوں، مجھے ایک بات بتائیں، عورت کو جب ماہواری کا خون آتا ہے، حالت حیض میں،ان دنوں میں عورت نماز نہیں پڑھتی، میں سارے لفظوں کو کھول کے بتاتا ہوں، پھر بعد میں الجھن نہیں ہوتی تا کہ مسئلہ سمجھ میں آئے، مسائل بیان کرنے میں حجاب سے کام نہ لیا جائے۔
آپ یہ بتائیں! ان دنوں میں عورت نماز بھی نہیں پڑھتی، روزہ بھی نہیں رکھتی اور بعد میں روزے کی قضا کرتی ہے اور نماز کی قضا نہیں کرتی۔میرا قیاس کہتا ہے کہ روزے کی قضانہ کرے اور نماز کی قضا کرے، کیوں؟ اس لیے کہ نماز اہم ہے بنسبت روزے کے۔ یہ نماز کی قضا کرے روزے کی قضا نہ کرے،یہ میرا قیاس کہتا ہے۔ لیکن میں نے اپنے قیاس کو چھوڑ دیا، آپ کے نانا جی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی وجہ سے۔ چونکہ انہوں نے فرمایا ہے کہ روزے کی قضا کرے اور نماز کی قضا نہ کرے، تو میں نے قیاس کو چھوڑا ہے، حدیث کی وجہ سے۔
مجھے آپ یہ مسئلہ بتائیں کہ جب کوئی شخص فوت ہوجائے اور اس کا وارث بیٹا بھی ہو اور بیٹی بھی ہو، میرا قیاس کہتا ہے کہ بیٹی کو دو گنا مال ملےاور ایک گنابیٹے کو، کیونکہ بیٹا طاقتور ہے،باہر جاکر کمالے گا، لڑکی کمزور ہے، یہ کہاں جائےگی؟ تو طاقتور کو تھوڑا دو اور کمزور کو زیادہ پیسہ دو۔لیکن آپ کے ناناجی کےقرآن اور حدیث نے بتادیا کہ نہیں نہیں،مرد کو دو گنا دو، عورت کو ایک گنا دو، تو میں نے قیاس کو چھوڑا ہے آپ کے ناناجی کے فرمان کی وجہ سے۔
اچھا آپ مجھے مسئلہ بتائیں۔ ایک طرف چھوٹا پیشاب ہے اور ایک طرف مادہ منویہ ہے، ان میں نجاست کی غلاظت کس میں زیادہ ہے؟ انہوں نے کہا جی پیشاب میں، اچھا پھر قیاس کہتا ہے کہ جب پیشاب کرے تو اس کی وجہ سے آدمی غسل کرے اور منی کی وجہ سے غسل نہ کرے، کیونکہ اِس میں خفت ہے اور اُس میں غلاظت زیادہ ہے، لیکن آپ کے نانا جی نے فرمایا کہ منی کی وجہ سے غسل ہوتا ہے اور پیشاب کی وجہ سےاستنجا اور وضو ہے۔ تو میں نے قیاس کو چھوڑ ا آپ کے ناناجی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی وجہ سے۔
امام جعفر صادق رحمہ اللہ اٹھے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ماتھا چوم لیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ ابوحنیفہ سچ کہتا ہے، میں نے تیرے بارے میں سنا ہے، تجھے نہیں سنا۔تو میں بھی کہتا ہو ں رنگون والو! آپ نے میرے بارے میں سناہے، مجھے نہیں سنا۔جب تک آدمی کسی کو نہ سنے، شبہات کا شکار ہوتا ہے، جب سنے تو شبہات ختم ہو جاتے ہیں۔
ہمارا دردِدل بھی سمجھو!
اس لیے میں جب کسی علاقے میں جاؤں تو میری خواہش ہوتی ہے کہ اس علاقے کے علماء اور مشائخ کی خدمت میں حاضری دوں تاکہ ان کے سامنے بات رکھوں کہ ہم کیا کہنا چاہتے ہیں اور ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ ہمیں کون سی تکلیف ہے ہمیں کون سا درد ہے جو پوری دنیا میں پھرتے ہیں۔ ہمارا درد بھی تو سمجھو۔ شوق سے تو کوئی آدمی بھی گھر سے بے گھر نہیں پھرتا، شوق سے کوئی آدمی چوبیس گھنٹے سفر نہیں کرتا۔
اس دور میں ہر بندہ مشغول ہے، آپ کے مدارس ہیں، میرا بھی مستقل مدرسہ ہے”مرکز اہل السنت والجماعت“کے نام سے۔ میری مستقل خانقاہ ہے، میری مستقل زمین اور میرا کاروبار ہے۔ سب کچھ میں چھوڑتا ہوں، تمہاری ایک بیوی ہے،میری تین ہیں اور میں سب کچھ چھوڑ کےدوڑتا ہوں تو میں پاگل تو نہیں ہوں کہ میں گھر سے بے گھر پھرتا ہوں۔ آخر کوئی درد تو ہے جو ہمیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔ ہمارےاس درد کو سمجھو، پھر اگر ہماری بات غلط ہو تو ہمیں سمجھاؤ کہ ہم اپنے آپ کی اصلاح کرلیں اور ہم اپنے آپ کو ٹھیک رخ پہ لےکر چلیں۔ خیر اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ میں جو عنوان سمجھا نا چاہ رہا تھا کہ امت کو ایمان پہ لانا او رامت کا ایمان بچانا، یہ دونوں کا م ہمارے ذمے ہیں۔
ايمان پر لانے والی محنت، ايمان بچانے والی محنت
لانے والی محنت کو اُدْعُ اور بچانے والی محنت کو جادل۔ اُدْعُ بھی ضروری ہے اور جادل بھی ضروری ہے۔فرق کیا ہے؟ بعض لوگ ہمیں نصیحت کرتے ہيں اور کہتے ہیں مولانا صاحب! آپ جادل تو پڑھتے ہیں بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ بھی تو پڑھيں۔ میں نے کہا آپ اُدْعُ تو پڑھتے ہیں
بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ بھی تو پڑھيں، تو جس طرح مجادلہ جبلۃاحسن کےساتھ مشروط ہے تو اُدْعُ بھی بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ
کےساتھ مشروط ہے۔اُدھر شرط نہیں ہوگی تو حکم ختم ہوجائےگا، ادھر شرط نہیں ہوگی تو یہاں بھی حکم بدل جائےگا۔ تو ہمارا جو خاص کام ہے وہ امت کو بچانے والا ہے۔ تبلیغ کا کام لانے والا ہے، مدارس کا کام لانے والا ہے اور ہمارا کام بچانے والا ہے۔
مسئلہ کی وضا حت بذریعہ مثال
جیسا میں سمجھانے کے لیے بات کہتا ہوں، ایک آدمی مٹھائی کی دوکان پر جاتا ہے، مٹھا ئی کھانے کےلیے۔ فروٹ کی دوکان پر جاتا ہے،پھل کھانے کےلیے۔ لیکن اگر مٹھائی کھا کر بدہضمی ہوجائے يا فروٹ کھائے اور اسی آدمی کے معدے میں خرابی پیدا ہوجائے تو پھر کلینک پہ جاتا ہے انجکشن لگوانے۔تویہ مدارس اور خانقاہيں اور دعوت و تبلیغ فروٹ اور پھلوں کی دوکان ہيں، یہ مٹھائیوں کی دوکانیں ہیں۔ جب کسی کو مٹھا ئی اور پھل ہضم نہ ہوں، پھر اس کو ہمارے کلینک میں بھیج دو! اس کو دو چار انجکشن لگاليں گے، ٹھیک ہوجائےگا۔ انجکشن بھی ضروری ہے اور مٹھائی کھلا نا بھی ضروری ہے۔
دنیا میں کوئی آدمی کلینک کا انکار تو نہیں کرتا ہے اور ڈاکٹر کو یہ نہیں کہتا کہ تمہاری دوکان پر پهل نہیں ہیں، تم ہمیشہ ٹیکے لگاتے ہو۔وه كہے گا ہمارا کام ہی انجکشن ہے، ہم ہر وقت ٹیکے ہی لگائیں گے۔ اس لیے اگر دو چار انجکشن لگیں اور انجکشن سے تهوڑی سی درد ہو تومريض ”سی“ کرتا ہے اس سی کی وجہ سے ہمیں کچھ نہ کہو، اسے کہو اور تسلی دو کہ بیٹا ایک انجکشن او ر لگے گا،تو ٹھیک ہو جاؤگے۔ اگر انجکشن سے کوئی ”سی“ کرے تو ڈاکٹر کو کچھ نہیں کہتے، مریض کو تسلی دیتے ہیں۔ آپ لوگ مریض کو تسلی دیتے ہیں اور ڈاکٹر کو کچھ نہیں کہتے۔
جب مسائل كی بات آتی ہے تو آپ لوگ مریض کو تسلی نہیں دیتے، ہمیں برا کہتے ہیں کہ تم انجکشن کیوں لگاتے ہو؟ بھائی! جب ہم انجکشن لگائیں گے تو" سی" تو ساتھ کرےگا،تو جب "سی" ہو جائے تو اس کو تسلی دو کہ ایک دو انجکشن اور لگوالو، کورس پوراکرو۔انشاءاللہ تم ٹھیک ہوجاؤگے،چليں!میں نے تھوڑا سا اپنا کام سمجھادیا۔
میں نے آپ سے گزارش کی تھی کہ آج کے اعتبار سے تین موضوع تھے:
1: پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات
2: پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی بات
3: پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت
آج کی ہماری مجلس میں جو بات ہوگی، یہ پیغمبر کی جماعت کے عنوان پر ہوگی۔ پیغمبر کی جماعت یعنی صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین۔
پہلے یہ سمجھیں کہ جماعت صحابہ کی حیثیت کیا ہے؟ اس پر قرآن کریم کی دو آیات بنیادی طور پر ذہن میں رکھیں
نمبر1: فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا
البقرۃ:136
نمبر2: وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ
التوبۃ:100
پوری شریعت کا خلاصہ دو لفظوں میں
میں نے دو آیتیں کیوں پڑھی ہیں؟ اس لیےکہ شریعت دو چیزوں کا نام ہے
نمبر 1: عقیدہ
نمبر2: عمل
دوچیزوں کا نام شریعت ہے،اگر کوئی بندہ یہ اشکال لے کراٹھ کھڑا ہو کہ حکیم الامت تھانوی﷫ نے تو پانچ لکھی ہیں،میں کہتا ہوں وہ میرے خلاف نہیں ہے۔ اس لیے کہ میں نے خلاصہ بیان کیا ہے۔اخلاق، اعمال، معاشرت،آداب یہ سارے اعمال کی قسمیں ہیں، میں نے صرف بنیادی طور پر بات کی ہے کہ عقائد و اعمال دو چیزیں ہیں جو خلاصہ ہے شریعت کا۔
عقائد اور اعمال میں معیار پیغمبر کے صحابہؓ، کیوں
؟ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا اس آیت میں بتایا کہ عقائد میں صحابہ حجت ہیں وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ
اس میں بتایا کہ اعمال میں صحابہ حجت ہیں، عقائد میں بھی حجت ہیں، اعمال میں بھی حجت ہیں، عقیدہ صحابی جیسا ہو تو قبول ہے، نہ ہو تو نا قابل قبول ہے، عمل صحابی جیسا ہو قابل قبول ہے۔ عقائد میں بھی حجت، اعمال میں بھی حجت۔ بات سمجھ آرہی ہے؟
فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا
دورانِ بیان کوئی سو جائے تو؟
اگر بیان کے دوران کوئی سو جائے تو اسے ڈانٹا نہ کریں۔ اچھی طرح سمجھیں! آپ چونکہ علماء ہیں، کل آپ نے کام کرنا ہے، اگر آپ کے بیان کے دوران کوئی سو جائے تو اسے ڈانٹا نہ کریں۔ کیوں؟ ہمارے شیخ حکیم اختر ﷫ فرماتے ہیں کہ علمی مجلس کی مثال ماں کی گود کی طرح ہے، بچہ گلیوں میں کھیلتا ہے۔ نہیں سوتا، ماں کی گود میں آئے تو فوراً سو جاتا ہے، ماں کبھی نہیں ڈانٹتی کہ تو کھیلتے ہوئے نہیں سویا ہے، میری گود میں آکر کیوں سویا ہے؟ ماں سمجھتی ہے کہ کھیل میں سکون نہیں ہے میری گود میں سکون ہے۔ کاش مولانا بھی سمجھیں کہ دکان میں سکون نہیں، میرے بیان میں سکون ہے، جب سکون آئے گا تو پھر سوئیں گے نا؟ بات سمجھ آگئی یا نہیں؟
اگلا جملہ سمجھو یہ تو ہمارے شیخ کی بات ہے، اب ہمارا حاشیہ سنو! میں کراچی حضرت کی خدمت میں گیا، تو میں نے کہا حضرت! میں نے آپ کے متن پر حاشیہ چڑھایا ہے، بڑے متن لکھتے ہیں، چھوٹے حاشیہ چڑھاتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا سناؤ! میں نے کہا جب ماں کی گود میں بچہ سوئے، ماں ڈانٹتی تو نہیں، کہتی ہے تو گلی میں کھیلتا کیوں نہیں سوتا؟ میری گود میں سوتا ہے۔ ماں بچے کوایک جملہ کہتی ہے کہ بیٹا دودھ پی لو،پھر سو جانا۔ میں نے کہا ہمارے بیان میں کوئی سو جائے، ہم ڈانٹتے تو نہیں ہیں لیکن یہ کہتے ہیں کہ بھائی اٹھ جاؤ!تھوڑا سادودھ پی لو، پھر سوجانا۔
ہمارے بیان کو سمجھنے کے لیے ذوقِ سلیم چاہیے
اس سے اگلا جملہ سنو! ہم دیہاتی لوگ ہیں، دیہات والوں کا دودھ بہت خالص ہوتا ہے، اس لیے ہمارا علم بھی خالص ہے۔ اگر علم چاہیے تو ربی زدنی علما اور اگر دودھ چاہیےتو اللھم بارک لنا فیہ وزدنا منہ۔ جو دعا علم کے لیے ہےوہی دعا دودھ کے لیے ہے۔ اگر خوا ب میں دودھ پیا ہے تو اس کی تعبیر علم ہے۔اس لیے ہم کہتے ہیں، اب اٹھ جاؤتھوڑا سا دودھ پیو، اس کا کیا مطلب ہے؟ تھوڑا سا علم لے لو، ہمارا علم بہت خالص ہے۔
جس آدمی نے کبھی خالص دودھ نہ پیا ہو اور پہلی دفعہ خالص دودھ پیے تو اس کے پیٹ میں گڑ گڑ ہوتی ہے اور جس آدمی نے خالص مسئلہ کبھی نہ سنا ہو،پہلی بار میں اس کے منہ میں گڑگڑہوتی ہے۔ اس لیے جب کوئی خالص دودھ پیے اور اس کے پیٹ میں گڑ گڑ ہوتو اسے کہتے ہیں دوچار مرتبہ پی لیں پیٹ ٹھیک ہوجائےگا، ہمارے بیان کے بعد کوئی گڑ گڑ کرے تو کہیں دوچار بیان اور سنیں انشاء اللہ ٹھیک ہو جائیں گے آپ۔ تو خالص دودھ پینے کے بعد اگر پینے والے کے پیٹ میں گڑ گڑ ہو تو دودھ کا قصور ہے یا اس کے پیٹ کا قصور ہے؟ ہمارے بیان کے بعد اگر کوئی گڑگڑ کرےتو ہمارے بیان کا قصور ہے یا اس کے منہ کا قصو ر ہے؟ آپ مجھے کہہ دیں گے دوبارہ برما نہ آنا۔کیوں؟ تمہارے بیان پر دوچار نے گڑگڑ کی ہے۔ بتائیں آپ مجھے روکیں گے یا ان کو سمجھائیں گے؟ بولتے نہیں، اب تم چپ ہو جاتے ہو، جھجکتے ہو ناتم؟ تم جھجکتے ہو۔ ہم بڑی کھلی کھلی بات کرتے ہیں، چونکہ ہمارے تم سے مفادات وابستہ نہیں ہیں، خالص اللہ کے لیے آئے ہیں۔آپ ہمارے میزبانوں بھائی سلیم وغیرہ سے پوچھیں! خالص اللہ کےلیے آئے ہیں، ایک ٹکے کا نہ ہم نےاب آپ سے تقاضا رکھا ہے، نہ زندگی بھر آپ سے رکھیں گے انشاء اللہ۔ یہ تقاضوں کا تو مسئلہ ہی نہیں ہے، ہمارے تو مفادات نہیں ہیں۔
ہم تو اس درد کو لے کر آئے ہیں کہ برما رنگون کے علماء ان مسائل کو سیکھیں اور حلوے سے آسان ان مسائل کو لیں، اب اگر کوئی سونا بھی چاہے، سو بھی جائے تو ہم انہیں پیار سے اٹھائیں گے، کوئی ساتھی آپ کا سوئے تو کیا کہو گے؟ اٹھو بھائی تھوڑا سا دودھ پی لو، تو وہ ناراض نہیں ہوتا میں آپ کو وہ طریقہ بتارہا ہوں جسے آپ عوام میں بیان بھی کریں اور عوام پر یشان بھی نہ ہو،عوام الجھن کا شکا ر بھی نہ ہو۔ آپ عوام کو جگا بھی دیں تو بھی عوام برا محسوس نہ کرے۔ یہ خدا کی نعمت ہے، اللہ کسی کسی کو عطا فرماتے ہیں۔ تو صحابہ کرام عقائد میں بھی حجت ہیں اور اعمال میں بھی حجت ہیں۔ عنوان آگیا ذہن میں؟
عقائد اور اعمال دو چیزوں کا نام دین ہے۔ عقائد میں حجت آیت
فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا
عقائد میں صحابہ جیسا عقیدہ ہوگا تو تم کامیاب ہوں گے۔ اٰمنوا کا ترجمہ کیاکیا؟ صحابہ جیسا عقیدہ ہوگا تو تم کامیاب ہوگے، ناکام نہیں ہوگے
۔وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ
ان جیسے اعمال ہوں گے تو قبول ہوں گے، اگر ان جیسے اعمال نہ ہوں تو تم برباد ہوگے۔
ایک سوال اور اس کا جواب
اب ایک سوال اور اس کا جواب سمجھیں۔ فَ
إِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا اگر ایمان صحابہ جیسا ہوگا، تو تم کامیاب ہو گے۔صحابہ جیسا ایمان ممکن ہے؟ صحابہ جیسا ایمان ہو سکتا ہے؟ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ
صحابہ جیسا ایمان کہاں سے لاؤگے؟ ان جیسا ایمان توممکن ہی نہیں، تو صحابہ جیسا ایمان جب ممکن ہی نہیں، تو اللہ رب العزت نے کیوں فرمایا کہ صحابہ جیسا ایمان ہوگا پھر قبول ہوگا؟ یہ تو تعلق با لمحال ہے کہ اگرصحابہ جیسا ایمان ہوتو کامیاب۔ اگر یہ کامیابی کا مدار ہے تو یہ تو ہمارے اختیار میں نہیں ہے، ہم کیسے کریں گے؟ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ہماری کامیابی تو ممکن ہی نہیں ہے۔ سوال سمجھ آگیا؟ بعض لفظ نہ بھی سمجھ آئیں تو پریشان نہ ہوں۔
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کا دلچسپ واقعہ
میں نے بتایا تھا آپ کو، حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کے ارشاد کے متعلق، حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ بیان فرمایا، بیان علمی تھا، بیان عوام کو سمجھ نہیں آیاتو بعد میں ایک مولوی صاحب نے حکیم الامت تھانوی صاحب پر اعتراض کیا کہ آپ نے اتنا مشکل بیان کیا جو عوام کو سمجھ نہیں آیا، اس بیان کی کیا ضرورت تھی؟ وہ بھی تو حکیم الامت تھے ناں! حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ فرمانے لگےمولوی صاحب! اگر ان کو میرا بیان سمجھ میں آگیا تو اچھا، اگر نہیں آیا تو بہت اچھا۔اس مولوی صاحب نے کہا حضرت! ہمیں تو آپ کا یہ جملہ بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ بیان سمجھ آگیا تو اچھا، نہیں آیا تو بہت اچھا۔
حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کا جملہ سمجھنا۔ حکیم الامت کے جملے کی وضاحت انہوں نے خود فرمائی، فرمانے لگےاگر ان کو بیان سمجھ آگیا تو اچھا، جو مسئلہ میں سمجھا نا چاہتا تھا، سمجھ آگیا، نہیں سمجھ آیا تو بہت اچھا، یہ گمراہ اس لیے ہو تے ہیں جب یہ سمجھتے ہیں کہ مانا ہم مولوی نہیں ہیں، لیکن کچھ نہ کچھ ہم نے بھی پڑھا ہے، مانا ہم عالم نہیں ہیں، لیکن ہمارا مطالعہ بھی کم نہیں ہے۔ آج ان کو پتا چلا ان کا علم کتنا ہے اور میرے علم کی سطح کیا ہے۔
اب ان کو مسئلہ سمجھ تو نہیں آیا لیکن ذہن میں آیا کہ اشرف علی تھانوی کا علم بڑا ہے، اب یہ گمراہ نہیں ہوں گے اب یہ مجھ سے ٹکر نہیں لیں گے، کبھی گمراہ نہیں ہوں گے، اگر مسئلہ سمجھ آگیا تو اچھاہوا، مسئلہ سمجھ آیا۔اگر سمجھ نہیں آیا،چلو یہ تو سمجھ آگیا کہ اشرف علی تھانوی کا علم کیسا ہے، اب ہم سے ٹکر ائیں گے نہیں، اور یہ کبھی گمراہ بھی نہیں ہوں گے۔ اس لیے سمجھ آیا تو اچھا، نہ سمجھ آیا تو بہت اچھا۔ آپ یہ تو کہیں گے کہ مولانا الیاس گھمن ایسی باتیں کرتے ہیں کہ ہمیں سمجھ نہیں آتیں،یہ تو نہیں کہیں گے جاہل آدمی ہے،اس کو بلانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ تو نہیں کہیں گے ناں! یہی کہیں گے اس کو نہ بلاؤ، فائدہ نہیں ہوتا،لیکن یہ نہیں کہیں گے جاہل ہے۔اس کو آتا کچھ نہیں۔
صحابہ جیسا ایمان کیونکر؟
تو میں کہہ رہا تھا فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا اب ذرا سوال کا جواب سمجھنا! مثل دو قسم کا ہوتا ہے
1: مثل کیفیت
2: مثل کمیت
ایک ہوتی ہے مقدارحجم یعنی کمیت اور ایک ہوتی ہےکیفیت۔ جب یہ فرمایا صحابہ جیسا ایمان، اس سے مراد کیفیت نہیں ہے، اس سے مراد کمیت ہے۔ صحابہ کے ایمان کی کیفیت توپیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی وجہ سے ہے۔ اس کیفیت کا آنا ناممکن ہے لیکن کمیت وہی ہوگی جو صحابہ کرام کی ہے کمیت کا معنی؛ جن جن چیزوں پر صحابہ ایمان لائے ہیں، ان ان چیزوں پر ایمان لاؤ توپھر کامیاب ہو گے،ان میں ایک چیز بھی چھوڑ دوگے تو تم ناکام ہوجاؤگے۔ سوال حل ہوگیا و
َالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ
میں نے کہا میں بڑی مختصر بات کہہ رہا ہوں، ایک ایک جملہ پر میں نہیں جارہا۔ آیت میں اللہ نےصحابہ کرام کو اعمال میں معیار بتایا ہے۔
صحابہ کرام تنقید سے بالا تر ہیں
اب ذرا ایک عقیدہ سننا! پھر دیوبند کے اس عقیدے کی ذرا وجہ سننا! ہمارا ایک نظریہ ہے کہ صحابہ معیار حق ہیں اور تنقید سے بالاتر ہیں، ان پر تنقید نہیں کر سکتے، لوگ کہتے ہیں کیوں نہیں کرسکتے؟ آپ حضرات میں سے دورہ حدیث کے طلباء بھی ہوں گے یا جنہوں نے اصول حدیث پڑھا ہے وہ بھی ہوں گے اور مشائخ علماء تو سمجھتے ہیں کہ جب بھی ہم کسی سند پہ بات کرتے ہیں اور صحابی آجاتا ہے تو اس پر جرح نہیں کرسکتے، وہ جرح اور تنقید سے بالاتر ہیں۔ میری بات سمجھ میں آگئی؟
وبہ قال حدثنا احمد بن اشکاب قال حدثنا محمد بن ھذیل عن عمارۃ بن القعقاع عن ابی زرعہ عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ چارپر بحث کرسکتے ہیں، پانچویں پر نہیں۔ کیوں؟ چار بعد کے ہیں،پانچواں صحابی ہے۔
الصحابة كلهم عدول
الموطا،با ب الرجل یتزوج المراۃ
صحابہ عادل ہیں، تنقید سے بالا تر ہیں۔ ذرا ا س کی وجہ سمجھنا! وجہ کیا ہے؟ بعض حضرات کا نظریہ ہے کہ صحابہ تنقید سے بالاتر نہیں ہیں۔ ان میں سے ایک شخص ہے ابوالاعلی مودودی ان کی تنظیم کانام ہے جماعت اسلامی۔ ان کا نظریہ ہے کہ صحابہ تنقید سے بالاتر نہیں، کیوں نہیں ہیں؟ دیکھو فلاں موقع پر غلطی ہے، فلاں غلطی ہے، فلاں غلطی ہے۔ بات اچھی طرح سمجھنا! صحابہ تنقید سے بالاتر کیوں ہے؟ اس لیے ہم نے ان کو جو صحابی مانا ہے، عقیدے کی بنیاد پر۔ اگر صحابی کا عقیدہ ٹھیک نہیں،وہ صحابی ہے ہی نہیں۔
صحابی کون ہوتا ہے؟ جسے حالت ایمان میں صحبت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ملے۔ ایمان وہ نہیں ہے جس کا عقیدہ غلط ہو، ایمان وہ ہے جس کا عقیدہ ٹھیک ہو۔اگر عقیدہ ٹھیک نہیں تو صحابی ہے ہی نہیں اور اگر عمل میں فرق ہو تو صحابیت میں فرق آتا ہی نہیں۔نہیں سمجھے؟ اگر عقیدہ ٹھیک نہیں ہےتو صحابی نہیں ہے۔ صحابی کون ہے؟ عقیدہ ٹھیک ہو اور صحبت پیغمبر ملے۔ اگر عمل میں کوتاہی ہے تو ہم نے عمل کی بنیاد پر صحابی مانا ہی نہیں۔ صحابی مانا کہ عقیدہ ٹھیک ہو اور صحبت پیغمبر ہو۔ اگر عقیدہ ٹھیک نہیں تو صحابی ہی نہیں۔
اگر عمل میں کوتاہی ہے تو ہم نے عمل کی بنیاد پر صحابی مانا ہی نہیں، اس پر تنقید نہیں ہو سکتی۔ نہ عقیدے پر نہ عمل پر۔
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواعَنْهُ
صاحب ہدایہ پر اعتراض اور اس کا جواب
ذرا ایک سوال اور اس کا جواب سنیں! ایک شخص نے میرے اوپر سوال کیا کہ صاحب ہدایہ گستاخ صحابہ ہے۔ کیوں؟ کہ اگر صحابی ہو اسے کہا جاتا ہے رضی اللہ عنہ اور اگر صحابی کے بعد کا کوئی ولی ہو، تابعی، تبع تابعی وغیرہ، اور وفات پاجائے، اسےکہتے ہیں رحمۃ اللہ علیہ، علیہ الرحمۃ، مرحوم صحابی ہو تو رضی اللہ عنہ اگر غیر صحابی ہو تو رحمہ اللہ۔آپ نے سنا ہے؟ اسی طرح کہتے ہیں؟ اور صاحب ہدایہ کہتے ہیں عند ابی حنیفۃ رضی اللہ تعالی عنہ یہ گستاخ صحابہ ہے، کیوں؟ جو رضی اللہ عنہ صحابہ کے لیے تھا، وہ رضی اللہ عنہ ابو حنیفہ کے لیے کہتا ہے۔ تو یہ گستاخ صحابہ ہے۔حضرت ابوحنیفہ کو صحابہ کے برابر کھڑا کردیا۔ سوال سمجھ آگیا؟ سوال سمجھو، تو پھر جواب سمجھ آئےگا۔
میں نے کہا اگر غیر صحابی کو رضی اللہ عنہ کہنا گستاخی ہےتو پھر صاحب ہدایہ کو گستاخ صحابہ نہ کہو، خود اللہ کو گستاخ صحابہ کہو( معاذاللہ)۔ نہیں سمجھے؟ خود اللہ کو گستاخ صحابہ کہو۔ اس نے کہا، کیوں؟ میں نے کہا غیر صحابی کو رضی اللہ عنہ اللہ نے فرمایا ہے وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ میں نے کہا یہ تو ہدایہ نہیں، قرآن میں ہے، تو پھر کہہ دو گے، قرآن غلط ہے اور اللہ پاک جو صاحب قرآن ہے، اللہ پاک نے غلط فرمایا، گستاخی کی ہے۔ کہتے ہیں نہیں، یہ تو نہیں کہہ سکتے۔ میں نے کہا پھر ہدایہ پر کیوں اعتراض کرتے ہو؟ پھنس گیا ناں! ہم نے پہلے پھنسالیا،پہلے ان کے علم کا جائزہ لیا، ابھی جواب تو شروع ہونا ہے، یہ تو ہم نے الزامی جواب اس کے اوپر ماراہے تاکہ اس کے دانت کھٹّے کرسکیں، اس کو یہ پتا چلے کہ اس کی علمی صلاحیت کیا ہے، جو کچھ ہدایہ میں لکھا ہے وہ تو قرآن میں لکھا ہے، اگر اس بنیاد پر ہدایہ پر اعتراض ہے،میں نے کہا قرآن پر اعتراض کرو۔پھر چپ۔۔۔!کہتا ہےپھر یہ اصطلاح غلط ہے صحابی کو رضی اللہ عنہ اور غیر صحابی کو رحمۃ اللہ علیہ میں نے کہا اصطلاح بھی ٹھیک ہے۔ اب سمجھنا! میں نے کہا اصطلاح بھی ٹھیک ہے۔ تو پھر قرآن میں غلطی ہے، میں نے کہا قرآن میں بھی ٹھیک ہے۔ دونوں کیسے ٹھیک ہو سکتےہیں؟ رضی اللہ عنہ صحابی کو کہنا ہے اور رحمۃ اللہ علیہ غیر صحابی کو۔ اور قرآن نے رضی اللہ عنہ غیر صحابی کو بھی کہا ہے، اگر اصطلاح ٹھیک ہے تو پھر قرآن میں غلط ہے۔ میں نے کہا دونوں ٹھیک ہیں، اس نے کہا، دونوں کیسے ٹھیک ہیں؟
میں نے کہا آپ کو یہ پتا نہیں کہ اس ضابطہ کو بنایا کیوں گیا ہے۔ اگر ضابطے کی وجہ سمجھ آجائے، تو اشکال ختم ہوجائے۔ اس نے کہا کیا مطلب؟ میں نے کہا یہ ضابطہ اس لیے بنایا گیا ہے کہ اگر رضی اللہ عنہ لکھ دو گے، پتا چلے گا صحابی ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ لکھیں گے تو پتا چلے گا غیر صحابی ہے۔ تو یہ صحابی اور غیر صحابی میں فرق کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ ہم کہتے ہیں اگر کتاب میں لکھا ہو حضرت محمد نے فرمایا، اب پتا نہیں یہ محمد نبی ہے، صحابی ہے، غیر صحابی ہے، کون ہے۔ اور اگر لکھا ہوحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پتا چلا کہ نبی ہے۔ حضرت محمد رضی اللہ عنہ نے فرمایا پتا چلا کہ محمد بن حنیفہ صحابی ہے۔ اگر لکھا ہو کہ حضرت محمدرحمہ اللہ نے فرمایاتو پتا چلا محمد بن حسن شیبانی ہے، یہ بعد کا آدمی ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم سے پتا چلا نبی ہے،رضی اللہ عنہ سے پتا چلا صحابی ہے، رحمۃ اللہ علیہ سے پتا چلا یہ بعد والے ہیں۔ یعنی کہ یہ اصطلاح صلی اللہ علیہ وسلم، رضی اللہ عنہ، رحمہ اللہ فرق بیان کرنے کے لیے ہے۔ اور اگر کسی بندے کا نام اتنا معروف ہو کہ اس کے فرق کرنے کے لیے رحمہ اللہ نہ لکھنا پڑھے اور پھر بھی فرق ہو جائے رضی اللہ عنہ نہ لکھے تب بھی فرق ہو جائے تو وہاں رحمہ اللہ بھی ٹھیک ہے، رضی اللہ عنہ بھی ٹھیک ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بڑے آدمی ہیں، ان کا نام اتنا معروف ہے کہ تو اتر کے درجہ کی شہرت ان کے نام کو ملی ہے اور دنیا جانتی ہے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ صحابی نہیں، بلکہ بعد کے ہیں۔ یہ قاعدہ تو بنا تھا فرق کرنے کےلیے، خود ان کا نام بھی فرق کرتا ہے کہ یہ صحابی نہیں، بعد کا بندہ ہے۔ رحمہ اللہ کہہ دو تب بھی ٹھیک ہے، رضی اللہ عنہ کہہ دو تب بھی ٹھیک ہے، دونوں ٹھیک ہیں۔
صاحب ِہدایہ اور حرم نبوی کا توافق
میں نے کہا کہ اگر تمہارےپیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے تو پھر سعودی عرب کے خلاف بات کرو، کیوں؟ مسجد نبوی میں لکھا ہواہے نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ میں نے کہا ان کو کہو، گستاخ صحابی ہے، تاکہ تمہارے ریال بند ہوں، ان کوکبھی نہیں کہو گے۔ بھئی اگر ہدایہ میں امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ لکھا ہے، تو مدینہ منورہ میں بھی لکھا ہے امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ لیکن آپ کو پتا نہیں لکھا ہو ا کہاں پر ہے؟ علم میں ہو تو پھر مسئلہ حل ہوتا ہے۔ہم تو محض عمرہ کر کے واپس آجاتے ہیں۔
مجھے ایک ساتھی کہنے لگا کہ آپ عمرے کے لیے جاتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں۔ تو کہاں جارہے ہیں؟ میں نے کہا مکہ۔ عمرے کے لیے نہیں؟ میں نے کہا نہیں۔مجھےکہا،کیوں جاتے ہیں؟ میں نے کہا کام کرنے کےلیے۔ عمرہ؟ میں نےکہا،وہ بھی کرتے ہیں۔ کہتا ہےکہ میں سمجھا نہیں۔ میں نے کہا عمرہ کے لیے جائیں تو ثواب تھوڑا ہے، کام کےلیے جائیں اور عمرہ کریں تو ثواب زیادہ ہے۔ اللہ کرے، یہ فرق آپ کو سمجھ آجائے۔ میں نے کہا تبلیغ والے کہتے ہیں، میں سال لگانے کے لیے گیا تھا حج بھی کرآیا۔ میں نے کہا ہم کام کے لیے گئے تھے، ساتھ عمرہ بھی کرآئے۔ بات سمجھ گئے؟ ایک ہے عمرہ کے لیے جانا اور ایک ہے دین کی دعوت کے لیے جانا اور عمرہ بھی کرنا، دونوں میں کتنا فرق ہے؟ اللہ ہمیں دین کی باتیں سمجھ آنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی،معنی اصحاب ِرسول کا
صحابہ کرام عقائد میں بھی حجت اور اعمال میں بھی حجت۔ میں جماعت صحابہ کی بنیاد پر بات کررہا ہوں۔ مسائل تو بعد کا کی بات ہے۔ اگلی بات سمجھیں! میں نے ایک حدیث مبارک پڑھی ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنن ابن ماجہ میں روایت ہے فرمایا
سيأتى على أمتى ما أتى على بنى إسرائيل مثل بمثل حذو النعل بالنعل حتى لو كان فيهم من نكح أمه علانية كان فى أمتى مثله إن بنى إسرائيل تفرقوا على ثنتين وسبعين ملة وستفترق أمتى على ثلاث وسبعين ملة كلها فى النار غير واحدة قيل وما تلك الواحدة قال ما أنا عليه اليوم وأصحابى
(جامع الاحادیث،رقم الحدیث:13180 )
میری امت پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ میری امت بنی اسرائیل کے نقش قدم پر چلے گی۔ میں پھر بھی یہ بات کہتاہوں طلباء سے، ترجمہ کرنا سیکھو۔ حذو النعل بالنعلکا ترجمہ کیا کرینگے؟ نقش قدم پر چلے گی
۔ حتى لو كان فيهم من نكح أمه علانية كان فى أمتى مثلهاگر
بنی اسرائیل میں کوئی ایسا بدبخت گزرا ہے، جس نے اپنے ماں سے منہ کالا کیا، میری امت میں بھی ایسے گندے لوگ آئیں گے، جو اپنی ماں سے منہ کالا کریں گے۔ ترجمہ ایسا کرو کہ لفظ بھی پورا ادا ہواور لوگ آپ کے ترجمہ کرنے سے کراہت بھی محسوس نہ کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن بنى إسرائيل تفرقوا على ثنتين وسبعين ملة وستفترق أمتى على ثلاث وسبعين ملة كلها فى النار غير واحدة
بنی اسرائیل میں 72فرقے بنے تھے، میری امت میں 73 فرقے بنیں گے، سب جہنم میں جائیں گے،مگر ایک فرقہ جنت میں جائےگا۔
قيل وما تلك الواحدة قال ما أنا عليه اليوم وأصحابى
پوچھا، یا رسول اللہ! وہ جنت میں جانے والا کون ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ما انا علیہ واصحابی اس کا ترجمہ کیا کریں گے؟ میں ترجمہ کرنے لگا ہوں۔یہ خطیبانہ ترجمہ نہیں ہے، یہ وکیلانہ ترجمہ ہے۔ خطیبانہ ترجمہ پر سوال ہوتے ہیں، وکیل کو پتا ہوتا ہے، میرے اس ترجمے پر کیا جرح ہونی ہے۔ وہ ترجمہ ایسا کرتا ہے کہ جرح سے بچ جائے۔ ترجمہ سمجھنا ماانا علیہ واصحابی صحابہ کرام نے پوچھا: یارسول اللہ! وہ جنت میں جانے والی جماعت کون سی ہوگی؟ فرمایا: ماانا علیہ واصحابی اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جو حدیث مجھ سے لے، معنی میرے صحابی سے لے۔سمجھ آگئی؟ کہ حدیث مجھ سے لے اور معنی میرے صحابہ سے لے۔
اچھی طرح بات سمجھنا! ماانا علیہ واصحابی کا مطلب کیا ہے؟ حدیث کس کی ہو؟ نبی کی اور معنی کس کا ہو؟ صحابی کا۔ یہ جنتی ہے۔ یہ بنیاد ہے آج کے دور میں جھگڑے کی، غیر مقلدین کا جو ہم سے جھگڑا ہے ناں، اس کی بات کر رہا ہوں۔یہ اس جھگڑے کی بنیاد ہے۔
ہمارا نام اہل السنت والجماعت کیوں؟
بہت سارے لوگ اس لیے اس فتنے کے خلاف کام نہیں کرتے کہ سمجھتے نہیں کہ فتنہ ہے کتنا بڑا؟ فتنہ کا اندازہ نہیں، فتنہ کتنا بڑا ہے۔ میں ذرا اس پر بات شروع کرتا ہوں، اچھی طرح بات سمجھنا! ہمارا نام کیا ہے؟ اہل السنت والجماعت اور یہ نام کس نے دیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دیا ہے۔ الدرالمنثور تفسیر اٹھالیں
يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ
آیت کریمہ دیکھیں، اس کے تحت موجود ہے۔ صحابہ ؓ نے پوچھا: یا رسول اللہ! جن کے چہرے سفید ہوں گے وہ کون ہیں؟ فرمایا
تبيض وجوه أهل السنة والجماعة وتسود وجوه أهل البدع والضلالة
(تفسیر الدرّ المنثور، اٰل عمران:106 )
جن کے چہرے سیاہ ہیں،وہ کون ہیں؟ فرمایا
ھم اہل البدع والضلالۃ
تو ہمارا نام اہل السنت والجماعت اللہ کے رسول صلی علیہ وسلم نے خود رکھا ہے۔ اب اس کا مطلب کیا ہے کہ سنت پیغمبر کی، سمجھے پیغمبر کے صحابہ سے۔ حدیث پیغمبر کی ہو اور معنی جماعت صحابہ بیان کرے، بس یہ ہے اہل السنت والجماعت کا مؤقف۔ تو ہمارا نام کیا ہے؟ اہل السنت والجماعت۔ ہمارے مد مقابل کا نام کیا ہے؟ اہل حدیث۔ اس پہ ایک چھوٹا سا سوال سمجھیں۔
غیر مقلدین سے گفتگو کیسے کریں؟
کبھی آپ کو غیر مقلد ملے، آپ اس سے پوچھیں، تم کون ہو؟ وہ کہے گا اہل حدیث۔ اس سے پوچھو، اصلی یا نقلی؟ وہ کہے گا،اصلی ہوتے ہیں نقلی تو نہیں۔میں جو پوچھ رہا ہوں اس کا جواب دو،اصلی یا نقلی؟ اگلی بات پھر بعد میں کریں گے۔ وہ آپ کوکہے گا،اصلی۔ اس سے کہو اچھا یہ بتاؤحدیث کی اقسام کتنی ہیں؟ اس کونہیں پتا ہے اس سے پوچھو، محدثین کے طبقات کتنے ہیں؟ اس کو نہیں پتا۔ (12ہیں ) بات سمجھتے ہو! اس کو نہیں پتا، اس سے پوچھو، احادیث کی تعداد کتنی ہے؟ اس کو نہیں پتا۔ امام سیوطی کےقول کے مطابق 50ہزار متون ہیں۔
اس سے پوچھو صحیح بخاری میں حدیث کی تعداد کتنی ہے؟ اس کو نہیں پتا۔کہو، آپ تو اہل حدیث ہیں ہی نہیں۔ ہمیں نہیں پتا تو کیا ہوا؟ سوال تو اس پر ہے، ہمارے اوپر تھوڑا ہے۔ اس سے پوچھو اصلی ہو یا نقلی؟ وہ کہے گا اصلی۔ تو پھر وہی سوالات کرو،جو میں نے کیے۔وہ نہیں بتاسکتا۔ اس سے کہنا پھر تو مان لے ناں! کہ تو اصلی نہیں ہے،نقلی ہے۔ کیوں؟ اصلی اور نقلی میں کیا فرق ہوتا ہے؟ اصلی اہل حدیث اسے کہتے ہیں جو حدیث میں ماہر ہو، محدث ہو اور خود کو اہل حدیث کہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی اہل حدیث ہیں۔ کیوں؟ ماہر فی الحدیث ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ، امام بخاری رحمہ اللہ تعالی، امام مسلم رحمہ اللہ اہل حدیث ہیں، کیوں؟ محدث ہیں،حدیث میں ماہر ہیں۔ حدیث میں ماہر کو اہل حدیث کہنایہ اصلی ہے، حدیث میں ماہر نہ ہو، اس کو اہل حدیث کہے، یہ نقلی ہے۔ تو اس سے پوچھو تُو اصلی ہےیا نقلی؟ وہ کہے گا اصلی۔ یہ سوال کرواب جواب نہیں آئےگا۔
غیر مقلدین کو اہل حدیث کا نام کس نے دیا
غیر مقلدین کو اہل حدیث کانام کہاں سے ملا؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو دیانہیں، البتہ انگریز نے دیا ہے اور ہم تمہاری کتابوں سے ثابت کردیں گے کہ تمہیں یہ نام انگریز نے دیا ہے، تو یہ بات مان لو کہ ہمیں یہ نام اہل السنت والجماعت، سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے، تمہیں اہل حدیث کا نام سرکار برطانیہ نے دیا ہے۔ تمہیں برطانیہ کی سرکار مبارک، ہمیں مدینہ کی سرکار مبارک، تمہیں تاج برطانیہ چاہیے، ہمیں تاج مدینہ چاہیے۔
اچھی طرح بات سمجھنا! میں ایک جملہ سمجھانے لگاہوں، میں نے پوچھا اہل حدیث اصلی یا نقلی؟ کہے گا اصلی تو پھنس گیا ناں! اب اس نے بھی سوال کرنا ہے، ہم نے کہا اصلی اہل حدیث وہ ہوتا ہے جو حدیث میں ماہر ہو، یہ اصلی اہل حدیث ہے۔ میں نے ایک مرتبہ ٹنڈوالٰہ یار سندھ میں بیان کیا، تو ایک ساتھی نے مجھ سے یہ سوال کیا، کہ مولانا! ہمیں یہ بات صحیح سمجھ میں نہیں آئی کہ اصلی اہل حدیث ماہر فی الحدیث ہوتا ہے، اگر نہ ہو تو نقلی ہوتا ہے۔
میں نے اس سے پوچھا تمہاری قوم کیا ہے؟ مجھے کہتے ہیں بھٹی آپ کے ہاں بھٹی نہیں ہوگی، کوئی بھی قوم ہوگی۔میں نے پوچھا تمہاری قوم کیا ہے؟ کہنے لگا بھٹی میں نے کہا تمہاری بیوی دھوبن ہے؟ دھوبن سمجھتے ہو، کسے کہتےہیں؟ جو کپڑے دھوتی ہے میں نے کہا تمہاری بیوی دھوبن ہے؟ تو تم نے بھٹی ہو کر دھوبن سے شادی کیوں کی ہے؟ کہنے لگا نہیں، دھوبن نہیں، بھٹی ہے۔ میں نے کہا تمہاری بیوی تمہاری کپڑے نہیں دھوتی؟ کہتے ہیں دھوتی ہے میں نے کہا تو پھر دھوبن ہوئی ناں! کہتے ہیں نہیں میں نے کہا کیوں؟ کہنے لگا مولانا صاحب! جو کپڑے دھوئے،اسے دھوبی نہیں کہتے،جس کا کپڑے دھونا پیشہ ہو، اسے دھوبی کہتے ہیں۔ میں نے کہا جسے دوحدیثیں رفع یدین کی یاد ہوں، اسے اہل حدیث نہیں کہتے۔ حدیث میں ماہر ہو، اسے اہل حدیث کہتے ہیں۔ میں نے کہا اب سمجھ آئی؟ کہنے لگا جی آگئی۔میں نے اس لیے کہا میں ساتھ مثالیں دیتا ہوں تاکہ بات پوری سمجھ میں آجائے، سمجھ آگئی ہے؟
اب اگر ہمارے ہاں کوئی ساتھی تبلیغی جماعت میں چلاجائے، چار ماہ لگاکرآجائے، کوئی ساتھی خانقاہ میں جائے اور چھ ماہ لگاکر آجائے، اب چہرے پہ ڈاڑھی ہے، سر پہ ٹوپی اور پگڑی ہے، لمبا کرتہ پہنا ہوا ہے، یہ رونق امام مسجد میں نہیں ہے۔ تو ہم نے کہا بھئی آپ مغرب کی نماز پڑھا دو، کہتے ہیں میں تو نہیں پڑھاتا، ہم نے کہا کیوں؟ کہنے لگا میں قاری نہیں ہوں، تو میں نے کہا تم کیاکرتے تھے؟ اس نے کہا میں چار ماہ جماعت میں لگا کر آیا ہوں، میں نے کہا کتنی سورتیں یاد کی ہیں جماعت میں؟ کہتا ہے دس۔ دس کیوں، سورت فاتحہ سورت نہیں ہے؟ آپ ڈرتے ہیں، کہیں گیارہویں ثابت نہ ہوجائے! میں نے کہا تم نے تو گیارہ سورتیں یاد کی ہیں تو قاری نہیں ہے؟ یہ کون ہے؟ دیانت والا، بدیانت نہیں۔ کہتے ہیں میں قاری نہیں ہوں۔ میں نے کہا کہ تونے تو گیارہ سورتیں یادکی ہیں؟ وہ کہتے ہیں گیارہ سورتیں یاد کرنے سے قاری نہیں بنتا، قرآن کا ماہر ہو تو قاری بنتا ہے، میں قاری نہیں۔ میں نےکہا وہ گیارہ سورتیں یاد کرکے خود کو قاری نہیں کہتا اور تو ایک حدیث یاد کرکے خود کو اہل حدیث کہتاہے۔تو بد دیانت ہے اور یہ دیانت والا ہے۔
غیر مقلدین کے اعتراض کا دندان شکن جواب
اب وہ جو آپ کے اوپر سوال کرے گا وہ ذرا سمجھیں! سوال کیا ہوگا؟ اگر اہل حدیث کا معنی حدیث میں ماہر ہونا ہے، تو اہل السنت کا معنی سنت میں ماہر ہونا ہے۔ اچھا آپ بتاؤ کہ اہل السنت اصلی ہو کہ نقلی؟ اگر وہ آپ سے پوچھ لےتو آپ کیا جواب دیں گے؟ بات سمجھ میں آگئی؟ اگر اہل حدیث کا معنی حدیث میں ماہر ہونا ہے، اہل تاریخ کا معنی تاریخ میں ماہرہے، اہل تفسیر کا معنی تفسیر میں ماہر ہے، تو اہل السنت کا معنی سنت میں ماہر ہونا ہے، آپ سنت کے ماہر ہیں جو اہل السنۃ کہلاتے ہیں؟ آپ کیا جواب دیں گے؟ ذرا جواب سمجھیں! ہمارے پاس دو جواب ہیں: الزامی بھی ہے،تحقیقی بھی ہے۔
میں کہتا ہوں، قیاس کا تقاضا یہ تھا کہ جس طرح اہل تاریخ مؤرخ کوکہتے ہیں، اہل تفسیر مفسّر کو کہتے ہیں، اہل حدیث محدّث کو کہتے ہیں اور اہل السنت، سنت میں ماہر کو کہتے ہیں۔ قیاس کا تقاضا یہی تھا، لیکن ہم نے قیاس کو چھوڑ دیا ہے،کیوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی وجہ سے۔ اللہ کے نبی سے پوچھا گیا یوم تبیض وجوہجن کے چہرے قیامت کے دن سفید ہوں گے، وہ کون ہیں؟ تو جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ھم اہل السنۃ والجماعۃجنت میں جانے والا سنت کا ماہر ہونا ضروری نہیں ہے، جنت میں جانے والا سنت کا ماننے والا اور سنت کا عامل ہونا ضروری ہے۔
قیاس کہتا تھا کہ سنت کا ماہر اہل السنت ہوتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنت کا ماہر نہیں،سنت کا عامل اہل السنت کہلاتا ہے۔ہم نے قیاس کو چھوڑ ا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی وجہ سے۔ ہمارے پاس حوالہ بھی ہے، غیر مقلدین کی کتاب ہے عبداللہ دامانوی نے کتاب لکھی ہے۔ اس پر مقدمہ زبیر علی زئی کا ہے۔ اس کے مقدمے میں لکھا ہے کہ حدیث کے ماہر کو اہل حدیث کہتے ہیں۔ تاریخ کےماہر کو اہل تاریخ کہتے ہیں اور تفسیر کے ماہر کو اہل تفسیر کہتے ہیں اور سنت پر عمل کرنے والوں کو اہل السنت کہتے ہیں۔ میں نے کہا جو معنی ہم نےکیا،وہ تم لوگوں نے بھی کیا ہے۔ اس لیے ہمارے اوپر کوئی اشکال کی بات نہیں ہے۔
اب ذرا بات سمجھیں جو میں سمجھا نے لگا ہوں۔میں نے کہا تھا ما انا علیہ واصحابیاس کا ترجمہ کیا کریں گے، حدیث مجھ سے لے اور معنیٰ میرے صحابی سے۔ یہ مااناعلیہ واصحابیکا معنی اب ہوا۔ میں اس پر تھوڑی سی بات کہنے لگا ہوں۔ بعض لوگوں کو بات سمجھ نہیں آتی، ذرا وہ سمجھیں! ایک شخص کہتا ہے: بتائیں! آپ میں اور غیر مقلدین میں کیا فرق ہے؟ ہم نے کہا ہم سے بعد میں پوچھو، پہلے ان سے پوچھو کہ تم میں اور ان میں کیا فرق ہے؟ پہلے ان سے پوچھو، پھر ہم سے پوچھو۔ان سے پوچھو گے پھر ہم سے پوچھو گے تو مسئلہ جلدی سمجھ آئےگا،کیوں؟
تعرف الاشیاء باضدادھا
کہنے لگا، ہم نے ان سے پوچھا ہے۔میں نے کہا،وہ کیا کہتے ہیں؟ کہنے لگا کہ وہ کہتے ہیں کہ سرگودھا جاؤ،حنفیوں کے پاس امام ملےگا، ہمارے پاس آؤ،نبی ملےگا۔ ان کے پاس جاؤ،فقہ ملے گی، ہمارے پاس آؤ، حدیث ملے گی۔
غیر مقلدین کا خوشنما دھوکہ
یہ فرق بتاتے ہیں کہ ہمارے پاس آؤ تو حدیث،ادھر جاؤتو فقہ، ہمارے پاس آؤتونبی، ان کے پاس جاو تو امام۔ وہ امام والے، ہم نبی والے،وہ فقہ والے،ہم حدیث والے ہیں۔ میں نے کہا جی جھوٹ بولتے ہیں۔ کہا جی صحیح کیا ہے؟ میں نے کہا صحیح یہ ہے، ادھر جاؤتب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم، ہمارے پاس آؤتب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم، ادھر جاؤتب بھی حدیث، اِدھر آؤتب بھی حدیث۔ اب بات سمجھنا! اُدھر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم، اِدھر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔اُدھر بھی حدیث، اِدھر بھی حدیث۔ کہا جی پھر اختلاف کیا ہے؟
میں نے کہا اختلاف سمجھنا! ہم اور وہ دونوں کہتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے حدیث کے الفاظ صحابی سے ملتے ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی نہ ہو، حدیث کے الفاظ امتی کو مل ہی نہیں سکتے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کے درمیان کون واسطہ ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم۔
تو جہ رکھنا! حدیث کے الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کے علاوہ مل ہی نہیں سکتے۔ میں نے کہا ہم بھی کہتے ہیں،حدیث کے الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کے علاوہ مل ہی نہیں سکتے۔ اگلا جھگڑا، اب اختلاف شروع ہونے لگا ہے۔ ہم کہتے ہیں حدیث کے الفاظ پیغمبر کا صحابی دےگا اور حدیث کے الفاظ کامعنی بھی پیغمبر کا صحابی دے گا۔ وہ کہتے ہیں نہیں، حدیث کے الفاظ پیغمبر کے صحابی دیں گے اور حدیث کا معنی ہمارا وہابی دےگا۔ لفظ صحابی سے لو، معنی وہابی سے لو، مسلک غیر مقلد بنتا ہے۔ فرق سمجھ آگیا؟ یہ ہے اختلاف، ہم کہتے ہیں لفظ صحابی سے تو معنی بھی صحابی سے۔ وہ کہتے ہیں کہ لفظ صحابی سے تو معنی وہابی سے۔ وہ خود کوکہتے ہیں وہابی۔ وہ خود کو کیا کہتے ہیں؟ وہابی۔ ہم تو خود کو وہابی نہیں کہتے۔ ہم تو خود کو سنّی کہتے ہیں۔
وہابی کی نسبت کی حقیقت
آپ پریشان نہ ہوا کریں کہ وہاب اللہ کا نام ہے، بات نیت کی ہے۔مرزائی خود کو کیا کہتے ہیں؟ احمدی کہتے ہیں نا! تب بھی وہ کافر ہیں۔یہ خود کو وہابی کہنے سے ، اہل السنت کیسے بن جاتے ہیں؟ احمد کی نسبت اُن کی طرف غلط ہے، وہاب کی نسبت اِن کی طرف غلط ہے۔ صرف نسبت کا نام رکھنے سے آپ پریشان نہ ہو جایا کریں۔ جو منکر حدیث ہیں، وہ خود کو اہل قرآن کہتے ہیں، تو کتنا اچھا نام رکھا ہوا ہے۔
ہم اچھے نام رکھنے سے ان کے کرتوت بتلاناچھوڑ دیں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ بدعتی خود اپنے آپ کو صوفی کہتے ہیں، تو اچھا نام رکھنے سے ہم ان کے بدعات کارد کرنا چھوڑ دیں؟ بات سمجھ آرہی ہے؟ الیاس قادری کی جماعت خود کو دعوت اسلامی کہہ رہی ہے۔ ہم نام کو دیکھ کے ان کے کرتوت بیان کرنا چھوڑدیں؟ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہماری کتابیں آرہی ہیں، دعوت اسلامی پر کتاب آخری مراحل میں ہے۔
تو جہ رکھیں! میں یہ بات سمجھانے لگاہوں ان کا مؤقف ہے: لفظ صحابی سے اور معنی وہابی سے۔ ہم کہتے ہیں لفظ صحابی سے اور معنی بھی صحابی سے۔ اب ذرادوچار مثالیں سمجھیں تاکہ پوری بات کھل کے سامنے آجائے۔ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ جب انسان ڈاڑھی رکھ لے تو ڈاڑھی ایک مٹھی رکھنی چاہیے۔ غیر مقلد ین کا مؤقف یہ ہے کہ جب انسان ڈاڑھی رکھے تو جہاں تک جاتی ہے اسے جانے دینا چاہیے۔روکنا نہیں چاہیے۔ہمارا مؤقف؟ ڈاڑھی مٹھی۔ان کا مؤقف؟ ناف اور ناف سے نیچے جہاں تک جاتی ہے، جانے دو۔غیر مقلد سے پوچھو، اتنی لمبی ڈاڑھی جو رکھتے ہو اس پر دلیل کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں ہمارے پاس دلیل صحیح بخاری کی روایت ہے۔ ہمارے بہت سارے حضرات صحیح البخاری کا نام سن کر کافی پریشان ہوجاتے ہیں۔روایت کون سی ہے؟ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا
خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ وَفِّرُوا اللِّحَیۃ وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ
(صحیح البخاری، رقم الحدیث: 5892،بَاب تقلیم الاظفار )
مشرکین کی مخالفت کرو اپنی ڈاڑھی بڑھاؤاور اپنی مونچھیں کٹاؤ۔
دوسری روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
عن ابي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم وفروا اللحیۃ
(المعجم الاوسط،رقم الحدیث:5062 )
کہ مونچھیں کٹاؤ اور ڈاڑھی کو بڑھایا کرو اور چھوڑدیا کرو۔ جب اللہ تعالی کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مونچھیں کٹاؤاور ڈاڑھی بڑھاؤ،ڈاڑھی چھوڑدو۔ ہم بھی ڈاڑھی چھو ڑتے ہیں اور بڑھاتے ہیں، جہاں تک جائے، چلی جائے۔ اللہ تعالی کے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے مبارک ارشاد پر ہم عمل کرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ہم اہل حدیث ہیں۔
غیر مقلدین کے دلائل کی حقیقت
میں نے کہا اب ذرا بات سمجھنا! اس حدیث مبارک کے راوی کون ہیں؟ کہا جی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ۔ میں نے کہا حضرت عبد اللہ بن عمر نے اس حدیث کا معنی کیا بیان کیا ہے؟ ذرا وہ معنی بھی بیان کردو۔حضرت امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری، جلد نمبر 2،کتاب اللباس، باب تقلیم الاظفارمیں اسی روایت کو نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ وَفِّرُوا اللِّحیۃ وَأحْفُوا الشَّوَارِبَمشرکین کی مخالفت کرو، اپنی ڈاڑھی بڑھاؤ اور اپنی مونچھیں کٹاؤ۔
اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں
وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوْ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ فَمَا فَضلَ أَخَذَه
عبد اللہ بن عمر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جاتے، حج یا عمرہ کرتے، جب حج یا عمرہ سے فارغ ہوتے، اپنی ڈاڑھی کو مٹھی میں لیتےجو مٹھی سے بڑھ جاتی اس کو تراش لیتے۔ میں نے کہا ہم نے صحابی سے لفظ لیا ہے تو معنی بھی صحابی سے لیا ہے، تم نے لفظ صحابی سے لیا ہے اور معنی وہابی سے لیا ہے۔ لفظ صحابی سے لو، معنی بھی صحابی سے لو تو ڈاڑھی مٹھی بھر رہ جاتی ہے۔ لفظ صحابی سےلو اور معنی وہابی سے لو، تو ڈاڑھی نیچے تک چلتی جاتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان کے شاگر د ابو زرعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ ثُمَّ يَأْخُذُ مَا فَضَلَ عَنِ الْقُبْضَة
(مصنف ابن ابی شیبۃ،رقم الحدیث:25992،باب ما قالوا في الأخذ من اللحية )
حضرت ابو ہریرہ اپنی ڈاڑھی کو مٹھی میں لیتے،
ثُمَّ يَأْخُذُ مَا فَضلَ عَنِ الْقُبْضَة
جو ڈاڑھی مٹھی سے بڑھ جاتی، اس کو تراش لیتے۔ تو جو تم نے دو راویتیں پیش کی ہیں، دونوں میں ہے کہ ڈاڑھی بڑھاؤاور خود راویانِ حدیث مٹھی تک رکھتے تھے۔ تو ہمارا مسلک یہ ہے کہ لفظ صحابی سے لو، تو معنی بھی صحابی سے لو۔
الزام ان کو دیتے تھے، قصور اپنا نکل آیا
مجھے مٹھی بھر ڈاڑھی اور لمبی ڈاڑھی پر ایک بات یاد آگئی ہے، اسے بھی ذہن نشین فرمالیں۔ ایک غیر مقلد مولانا صاحب تقریر فرمارہے تھے، احناف پرتنقید کر رہے تھے، تقریر کیا تھی کہ دیکھو ہم ہاتھ سینے پر باندھتے ہیں اور حنفی ہاتھ ناف کے نیچے باندھتے ہیں۔ سینہ پاک ہے اور زیر ناف جگہ ناپاک ہے۔ پاک جگہ پر ہاتھ باندھو، مسلک اہل حدیث بنتا ہے، ناپاک جگہ پر ہاتھ باندھو تو مسلک احناف بنتا ہے۔ دلیل سمجھ آئی؟ آپ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔
جب فتنہ سامنے آئے اور جواب نہیں بنتا، تب آپ سمجھیں گے کہ ہمارا کام کتنا اہم ہے۔ ہم کہتے ہیں فتنہ آنے سے پہلے اس کو روکو۔سوال سمجھ آگیا؟ سینہ پاک ہے اور زیر ناف جگہ ناپاک ہے،یہ ان کی بات کہہ رہا ہوں، پاک جگہ پہ ہاتھ باندھو تو مسلک اہل حدیث، ناپاک جگہ پر ہاتھ باندھو تو مسلک احناف۔ ہم پاک ہیں، مسئلہ بھی پاک ہے، حنفی ناپاک ہیں، ان کے مسئلے بھی ناپاک ہیں۔ اب استغفر اللہکہیں گے تو جواب تو نہیں بنے گا۔ میں نے کہا، جواب سنو! بھائی مسئلہ یہ ہے کہ اگر سینے پر ہاتھ باندھو، تو دایاں اوپر اور بایاں نیچے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دائیں ہاتھ پر کوئی اختلاف نہیں ہے دایاں تو بائیں کے اوپر ہے ناف کے نیچے ہو تب بھی، سینہ پر ہو، تب بھی دایاں اوپر ہی رہتا ہے، اختلاف بائیں ہاتھ میں ہے ہم نے کہا ناف کے نیچے رکھو، تم نے کہا سینہ کے اوپر رکھو، تو اختلاف بائیں پہ ہے یا دائیں پہ؟ بائیں پہ ہے، الٹے ہاتھ پہ۔
میں نے کہا تم یہ کہتے ہو کہ سینہ پاک ہے اور زیر ناف جگہ ناپاک ہے، تو مجھے بتاؤ یہ بایاں ہاتھ پاک جگہ کے لیے ہے یا ناپاک جگہ کےلیے؟ یہ استنجاکرنے کےلیے ہے یا کلی کرنے کےلیے؟ تو میں نے کہا یہ سوال تو تھا ہی تمہارے اوپر کہ بایاں ہاتھ تھا ناپاک جگہ والا۔ ناپاک جگہ پہ رکھو تو مسلک احناف ہے، ناپاک جگہ والا ہاتھ پاک جگہ پر رکھو تو مسلک اہل حدیث ہے۔ اب جواب دو! بات سمجھ آگئی؟
اینٹ کا جواب پتھر
میں نے کہا اگر تم اس طرح دلیل دوگے، تو ہم بھی اس طرح دلیل دیں گے، ہم دلیل دیں گے نہیں، ہم دلیل ماریں گے اور تمہیں بہت تکلیف ہوگی۔ کہنے لگے، کون سی دلیل؟ میں نے کہا پھر ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ زیر ناف جگہ ناپاک ہے اور سینہ پاک ہے، پاک جگہ تک ڈاڑھی رکھو تو مسلک احناف بنتا ہے، ناپاک جگہ تک ڈاڑھی لےجاؤ تو مسلک اہل حدیث بنتا ہے۔ ہم بھی تو کہہ سکتے ہیں ناں! لیکن ہم نہیں کہتے، ہم ایسے الفاظ استعمال نہیں کرتے، کہہ تو ہم بھی سکتے ہیں۔
ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ ناپاک جگہ پر جو بال ہو ں انہیں صاف کرواور تم پاک بال بھی وہاں لے جاتے ہو۔ تو اس کا کیا جواب دو گے؟ کوئی جواب نہیں بنتا، ابھی تو ہماری بات آپ کو عجیب لگے گی، جب کوئی فتنہ سامنے آجائے گا، تب تمہیں مزہ آجائےگا، مقابل نہ ہو تو پھر بندے کو صحیح مزا نہیں آتا، مقابل ہو تو پھر بندہ دلیل پیش کرتا ہے۔یہ کورس نہیں ہے، جب کورس ہو گا تو پھر میں آپ کو مستقل نسخے دوں گا۔
اگر کوئی غیر مقلد مل جائے، تو آپ کون سا نسخہ استعمال کریں۔نسخہ نمبر 1،2،3،4،5۔۔۔
تو کوئی نہ کوئی نسخہ ان شاء اللہ شفا ضرور دےگا۔ جی ہم آپ کو ایسا نسخہ دیں گےکہ آپ نسخہ لے کر پھر یں گے، غیر مقلد بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ بات سمجھ آگئی ہے؟ تو میں نے کہا لفظ صحابی سے اور معنی صحابی سے تو مسلک احناف۔لفظ صحابی سے اور معنی وہابی سے تو مسلک غیر مقلدین۔ خلاصہ صرف یہ ہے کہ ہم اہل السنت والجماعت ہیں۔ تو ہم کہتے ہیں حدیث کے الفاظ بھی صحابی سے اور حدیث کے الفاظ کا معنی بھی پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سے ہو۔ میں نے اس پر کئی مثالیں اکٹھی کی ہیں مسائل سمجھانے کےلیے کہ فلاں مسئلہ کیسے سمجھنا ہے۔
ایک نیا مسئلہ
میں ایک مسئلہ اور پیش کرتا ہوں صرف سمجھانے کے لیے۔ ہمارے ہاں مسئلہ چلتا ہے آمین کا۔ آمین اونچی آواز سے کہیں یا آمین آہستہ کہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی ہم میں سے حج اور عمرے والے اونچی آواز سے آمین شروع کردیتے ہیں۔ آپ کی مسجد میں کوئی اونچی آواز سے آمین کہے،حوصلہ شکنی کیا کریں اور سمجھایا کریں، بھائی آہستہ آمین کہنا سنت ہے۔ حرم کا نام لے کے لوگوں کوگمراہ کر رہے ہیں، حرم کا نام استعمال کرتے ہیں، حرم والا مسلک دو رنگا نہیں ہوتا۔ دلیل کیا ہے؟ ہم کہتے ہیں آمین آہستہ،غیر مقلد کہتے ہیں کہ آمین اونچی آواز سے۔
غیر مقلدین کی دلیل اورہماراجواب
غیر مقلد ین کی دلیل ہے سنن دارقطنی میں ،اور بھی کئی ایک کتابوں کے اندر ہے۔ حضرت وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
صليت خلف رسول الله صلى الله عليه و سلم قال: فلما قال ولا الضالين قال آمين مد بها صوته
(سنن دارقطنی،باب التأمين في الصلاة بعد فاتحة الكتاب والجهر بها )
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، جب حضورﷺ نے ولاالضالینکہا،تو آمین کہی،مد کا ایک معنی ہے جہر اونچی آواز سے آمین،دوسرا معنیٰ کھینچ کے آمین پڑھی، اونچی آواز سے جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی ہے تو آپ اس کو کیوں نہیں پڑھتے؟ ہم نے کہا یہ جوآپ نے حدیث لی ہے، پیغمبرﷺ کے صحابی سے لی ہے تو معنی خود نہ کریں، معنی بھی پیغمبرﷺ کے صحابی سے لے لیں۔ یہی وائل ابن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم حين فرغ من الصلاة حتى رأيت خده من هذا الجانب ومن هذا الجانب وقرأ غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقال آمين يمد بها صوته ما أراه إلا يعلمنا
(الکنی والاسماء،رقم الحدیث:1090 )
کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےپیچھے فجر کی نماز پڑھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور میں نے خود دیکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں جانب سلام پھیرا ہے، پھر بائیں جانب، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر المغضوب علیھم ولاالضالین پڑھا، پھر حضور نے آمین بھی فرمائی،آگے ایک عجیب بات فرمائی یمد بھا صوتہ اونچی اواز سے آمین پڑھی مااراہ الا یعلمنااب صحابی حدیث کا معنی بتارہے ہیں۔
سنیں! کہتے ہیں جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اونچی آواز سے آمین پڑھی تھی ناں! یہ نبی پاک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل معمول نہیں تھا، بلکہ اونچی آواز سے آمین پڑھی تھی ہمیں تعلیم دینے کےلیے کہ اس موقع پر تم نے آمین پڑھنی ہے۔ اور کبھی کبھار تعلیماً اونچی آواز سے کہنے سے آمین اونچا پڑھنے کا دوام ثابت نہیں ہوتا، تو لفظ صحابی نے دیا ہے تو معنی بھی صحابی سے لو اور جب لفظ صحابی سے لو اور معنی وہابی سے لو، آمین اونچی بنتی ہے۔لفظ صحابی سے اور معنی بھی صحابی سے تو آمین آہستہ بنتی ہے۔ ہم کہتے ہیں لفظ صحابی دے اور معنی بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی دے، یہی ہمارا مسلک ہے۔
تعلیماً بلند آواز سے پڑھنے کی دو اور مثالیں
اس پر صرف دو مثالیں ذہن میں رکھ لیں۔ ایک صحیح مسلم میں ہے اور بڑی معروف روایت ہے۔حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بنا فيقرأ في الظهر والعصر في الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب وسورتين ويسمعنا الآية أحيانا
(صحیح مسلم،رقم الحدیث:451 )
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ظہر اور عصر کی نماز پڑھاتے، پہلی دو رکعتو ں میں سورت فاتحہ بھی پڑ ھتے، ساتھ دو سورتیں اور بھی پڑھتے، آگے فرماتے ہیں ويسمعنا الآية أحياناکبھی کبھی ظہر کی نماز میں اونچی آواز سے تلاوت کرتے تھے ایک آدھ آیت کی۔ یہاں ظہر کی نماز میں اونچی آواز سے تلاوت کرنا کسی کے ہاں سنت نہیں ہے، یہ کبھی کبھی کیوں ہوتا تھا؟ امت کو بتانے کے لیے کہ اس موقع پر تم نے یہ تلاوت کرنی ہے جیسے ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں اونچی آواز سےپڑھتے، جو تعلیماً تھا تو تعلیماً سے تو دوام ثابت نہیں ہوتا۔ حضرت عبدۃ فرماتےہیں
أن عمر بن الخطاب كان يجهر بهؤلاء الكلمات يقول سبحانك اللهم وبحمدك تبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك
(صحیح مسلم،رقم الحدیث:399 )
کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ جب کبھی نماز جنازہ پڑھتے، تو یہ کلمات اونچی آواز سے پڑھتے، حالانکہ کوئی بھی یہ اونچی آواز سے نہیں پڑھتا۔کبھی کبھی کیوں پڑھتے؟ تعلیماًپڑھنے سے جہر کا دوام ثابت نہیں ہوتا، تو لفظ صحابی سے لو اور معنی بھی صحابی سے تو یہ مسلک اہل السنت والجماعت احناف دیوبند بنتا ہے۔
آمدم بر سرِمطلب
میں نے آپ کی خدمت میں صرف یہ تین باتیں عرض کی ہیں سمجھانے کےلیے:
1: پیغمبر کی ذات
2: پیغمبر کی بات
3: پیغمبر کی جماعت
پیغمبر کی جماعت کو جماعتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں، جو عقیدے میں بھی حجت ہیں
فان امنو ا بمثل ما امنتم بہ فقد ھتدو ا اور اعمال میں بھی حجت ہیں والسابقون الاولون من المہاجرین والانصار والذین اتبعو ھم باحسان رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ
صحابہ تنقید سے بالاتر اور معیار حق ہیں۔ تنقید سے بالا تر کیوں ہیں ؟ اس لیے کہ اگر عقیدے میں خلل ہو صحابی بنتا ہی نہیں ہے۔ اگر عمل میں فرق آئے، صحابیت میں فرق پڑتا ہی نہیں ہے ہم نےصحابی عمل کی وجہ سے نہیں مانا، عقیدے کی وجہ سےاور پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی وجہ سےمانا ہے۔
ہم نے عرض کیا حدیث جناب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابی سےلیں گے، معنی بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سے لیں گے۔ اگر حدیث صحابی سے اور معنی وہابی سے، مسلک غیر مقلد بنتا ہے اور جب لفظ صحابی سے لیں معنی بھی صحابی سے لیں گے تو مسلک اہل السنت والجماعت احناف دیوبند بنتا ہے۔اللہ تعالی ہمیں بات سمجھنے کی تو فیق عطا فرمائے۔
غیر مقلدین اور دیگر فِرَقِ باطلہ میں توافق اور تفاوت
ہم پیغمبرﷺ کی ذات کوبھی مانتے ہیں، پیغمبرﷺ کی بات بھی مانتے ہیں۔ کوئی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات نہیں مانتا، کوئی پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں مانتا اور کوئی پیغمبر کی جماعت نہیں مانتا۔ اچھی طرح سمجھنا! قادیانیوں کو دیکھو یہ پیغمبر کی ذات نہیں مانتے اور منکر حدیث کو دیکھو، یہ پیغمبر کی بات نہیں مانتا، کوئی پیغمبرکی بات کو نہیں مانتے خود کو اہل قرآن کہتے ہیں،رافضیوں کو دیکھیں! پیغمبر کی جماعت کو نہیں مانتے۔ فرق کیا ہے شیعہ صحابہ کو نہیں مانتا، غیر مقلد صحابہ کی نہیں مانتا۔ وہ صحابہ کی ذات نہیں مانتا، یہ صحابہ کی بات نہیں مانتا۔ وہ صحابہ کا ایمان نہیں مانتا، یہ صحابہ کو دلیل نہیں مانتا۔ وہ بڑا رافضی ہے، یہ چھوٹا رافضی ہے۔
دونوں میں فرق اچھی طرح سمجھیں! شیعہ ایمان کونہیں مانتا، یہ صحابہ کو دلیل نہیں مانتا۔وہ صحابہ کی ذات نہیں مانتا، یہ صحابہ کی بات کو نہیں مانتا۔ وہ صحابہ کو نہیں مانتا، یہ صحابہ کی نہیں مانتا۔ہم دیوبند والے صحابہ کا ایمان بھی مانتے ہیں، صحابہ کو دلیل بھی مانتے ہیں، صحابہ کی ذات بھی مانتے ہیں، صحابہ کی بات بھی مانتے ہیں، صحابہ کو بھی مانتے ہیں، صحابہ کی بھی مانتے ہیں،
بات سمجھ آگئی؟ ایک ہے ذات ِپیغمبر، مرزائی پیغمبر کی ذات کے بعد ایک دوسری ذات مانتے ہیں، اور منکرین حدیث پیغمبر کی ذات کو مانتے ہیں، پیغمبر کی بات کو نہیں مانتے اور روافض وغیرمقلدین جماعت صحابہ کو نہیں مانتے، ہم حضور کی ذات کو بھی مانتے ہیں بات کو بھی مانتے ہیں اور جماعت کو بھی مانتے ہیں۔ اللہ مجھے اور آپ سب کو سب چیزوں کو ماننے کی تو فیق عطافرمائیں۔
واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین
سوالات
سوال1: حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم برزخی ہے یا دنیوی؟
جواب: برزخی بھی ہے دنیوی بھی ہے۔ کیا مطلب؟ حضور ﷺ کی حیات برزخ میں ہے، اس لیے برزخی ہے اور دنیا والے جسم کی حیات ہے اس لیے دنیوی کہتے ہیں۔ دنیوی سے مراد کیاہے؟ دنیاوالا جسم۔برزخی سے مراد عالم برزخ۔
سوال2: ڈاکٹر ذاکر نائیک غیر مقلد ہے یا نہیں؟
جواب: نیم غیر مقلد ہے۔ کھلا کھلا غیر مقلد نہیں ہے۔ نیم غیر مقلد ہے۔ کبھی کبھی ائمہ کا نام لیتا ہے۔ گستاخ ذاکر نائیک کے بیانات سننا جائز نہیں ہے۔ اس کے بیانات سے بچناضروری ہے۔ اس لیے کہ وہ محقق بھی نہیں ہے اور وہ گمراہ ہے اور گمراہ کرتا ہے۔ بہت سارے مسائل غلط بیان کرتا ہے۔ چونکہ آپ کے علم میں نہیں ہے۔ آپ اس میں پھنس جائیں گے۔ پھر آپ کہیں گے ہم نے سنا کیا تھا، نکلا کیا ہے۔ چونکہ مولوی تو ہے نہیں، ڈاکٹر ہے اور ذاکر بھی ہے اور نائیک بھی ہے۔ اس لیے اس کے بیانات سے بچنا ضروری ہے۔ صحیح ہے ناں؟
لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ ذاکر نائیک کیا ہے؟ تو ہم کہتے ہیں ڈاکٹر ہے اور ذاکر ہےاور نائیک ہے۔ اس لیے جو ڈاکٹر بھی ہو، ذاکر بھی ہو، نائیک بھی ہو اس سے تو بچنا چاہیے۔ علماء کی بات سنا کریں، باقی ذاکر نائیک اور علماء حق میں کیا فرق ہے؟ بات توجہ سے سمجھیں! جدہ میرا بیان تھا، شاہین عزیز یہ میں۔ تو ایک ساتھی نے مجھے چٹ دی کہ علماء حق اور ذاکر نائیک میں کیا فرق ہے؟ میں نے اس سے عرض کیا کہ جو سرچ اور ریسرچ میں فرق ہے،وہ علماء حق اور ذاکر نائیک میں فرق ہے مجھے کہتے ہیں جی ہم سمجھے نہیں۔میں نے کہا تم سمجھتے تو ذاکر نائیک کو سنتے کیوں؟
میں نے کہا یہاں عزیز یہ میں ایک بہت بڑا سٹیڈیم ہے اتحاد کے نام پہ، جس میں سعودی عرب کی ٹیمیں فٹ بال کھیلتی ہیں، میں نے کہا جب اس گراونڈ میں فٹ بال کھیلی جاتی ہے تو رات کو بہت بڑی بڑی لائٹیں لگاتے ہیں، تاکہ رات کو دن کا سماں اور منظر بن جائے، ان بڑی بڑی لائٹوں کو کیا کہتے ہیں؟ سرچ لائٹ۔ میں نے کہا جب یہ سرچ لائٹ جل رہی ہو اور کھلا ڑی گیند کے ساتھ کھیلیں، ادھر سے فٹ بال دوڑتے دوڑتے لےآئے اور جب گول کرنے لگے،ایک ساتھی لائٹ کو آف کردے اور پھر آن کرے،تو میں نے کہا اس سے کھلاڑی کوشاباش دوگے؟ کہتے ہیں نہیں۔ میں نے کہا دیکھنے والے خوش ہونگے؟ کہتے ہیں،نہیں۔ میں نے کہا کھیل اچھا ہوگا؟ کہا، نہیں۔ میں نے کہا کیوں؟ کہنے لگے،اس لیے کہ اس نے لائٹ کو آف کرکے آن کیا ہے، اگر یہ آن ہی رہتی تو بہتر تھا آف کرنے سے پورا کھیل خراب ہو جائےگا۔
میں نے کہا جو سرچ لائٹ تھی، اس کو آف کیا پھر آن کیا اس کو کیا کہتے ہیں؟ ریسرچ، تو پتا یہ چلا جب کھیل چل رہا ہوں تو سرچ لائٹ کو ری سرچ کرنے سے کھیل خراب ہو جاتا ہے، تو جس مسئلہ کوچودہ سو سال فقہا ء نے سرچ کیا ہے اس کو ریسرچ کرنے سے شریعت کے مسائل برباد ہوجاتے ہیں۔ بات سمجھ آرہی ہے؟ تو جس پہ سرچ ہو چکی ہو اس پہ ری سرچ کرنے سے مسائل خراب ہو جاتے ہیں، جس مسئلہ کی صحابہ نے تحقیق کی ہے، اب اس مسئلہ پر ریسرچ کرنا ہماری عقل سے باہر ہے، اس لیے علماء حق سرچ والے ہیں اور ڈاکٹر صاحب ریسرچ والا ہے اور یہ ڈاکٹر ایم بی بی ایس ہے، پی ایچ ڈی ڈاکٹر نہیں ہے، پی ایچ ڈی ڈاکٹر تحقیق کرتا ہے، ایم بی بی ایس ڈاکٹر پیشاب،پاخانہ،مثانہ چیک کرتا ہے۔
کبھی آپ نے مسئلہ چیک کرانا ہو آپ لکھیں اور دارالعلوم میں بھجو ادیں اور پیشاب چیک کرانا ہو، تھیلی میں بند کرلیں، بمبئی ڈاکر نائیک کو بھجوا دیں۔ ہمارے ذمے مسائل چیک کرنا ہے، ان کے ذمے پیشاب چیک کرنا ہے۔ تو جس کا جوکام ہے اس کا کام اس سے لیں، آپ اس سے ہمارا والا کام لیتے ہیں، مولوی دوائی دے، تمہاری جان برباد ہو جائےگی اور ڈاکٹر مسئلے بتائے، تمہارا ایمان تباہ ہو جائےگا، جان ان کو چیک کرائیں، ایمان ہمیں چیک کرائیں۔
سوال3: ہمارے برما کے مسلمان اس کے بڑے معتقد ہیں، اس کے بارے میں کچھ وضاحت فرمائیں؟
جواب: کیا وضاحت؟ میں نے بتادیا،برما کیا ، پوری دنیا میں میڈیا کا جادو ہے، اور جادو کے بل وہ ناچتاہے اللہ کریں کہ ہمارا بھی اس طرح کے میڈیا کا سلسلہ بن جائے، تو پھر آپ کے سامنے آجائے گا۔ ہم نے تو خیر اپنی کو شش جاری رکھی ہے، انشاء اللہ اسباب کی صوت پیدا ہوئی تو ہم شروع کر دیں گے چینل۔ ہم تو لگے ہوئے ہیں۔ سٹوڈیو ہمارا زیر تعمیر ہے۔ تین منزلیں مکمل ہوگئی ہیں۔ ریکارڈنگ کا سسٹم شروع ہونے والا ہے۔ اور دبئی اور پاکستان میں ہماری بات جاری ہے جب یہ بن گیا،آپ برما میں بیٹھے رہو گے اور مسائل سنتے رہو گے، ان کے معتقد ہونے کے بجائے علماء حق کے پاس آؤگے۔
ہم علماء حق کو ان معاملات پہ توجہ دینی چاہیے، تو جہ نہیں دیں گے تو بہت نقصان ہوگا۔ آج نہیں تو کل یہ نقصان ہونا ہی ہونا ہے۔ میں یہاں آپ کے بر ما میں آیا ہوں تو بغیر پاسپورٹ یا پاسپورٹ کے ساتھ آیا ہوں؟ پاسپورٹ پہ تصویر نہیں ہے؟ یہ جائز ہے یا ناجائز؟ آپ میں سے کسی نے بھی نہیں کہا کہ یہ ناجائز ہے۔ اس لیے کہ آپ کوتصویر کھنچوانی پڑے گی، جو حرام ہے۔ میں نےجو تصویر کھنچوائی ہے، کیو ں کھنچوائی ہے؟ کوئی فلم دیکھنے کے لیے آیا ہوں؟ کوئی بزنس کے لیے آیا ہوں؟کیوں آیا ہوں؟ بتاؤکیوں آیا ہوں؟ بیان کے لیے آیا ہوں ناں! اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ میری تصویر کی گنجائش نکالتے ہیں۔
ہم جو چینل کی بات کرتے ہیں، کس لیے؟ اس پہ کوئی بزنس کرنا ہے؟ کیا کریں گے اس پر؟ یہی دین ہوگا اس پر۔ ہم نہیں آئیں گے تو ذاکر نائیک آئے گا، ہم نہیں آئیں گے تو جاوید غامدی آئےگا، ہم نہیں آئیں گے تو طاہر القادری آئےگا، ہم نہیں آئیں گے فرحت ہاشمی آئے گی، ہم نہیں آئیں گے گمراہ آئیں گے۔ بات تو صرف اتنی ہے، ہم سنت اور واجب جائز اور ناجائز کی بحث نہیں کرتے ہیں، اس کو اچھی طرح سمجھو! میرے اوپر فتویٰ نہ لگا دینا، کہ مولانا الیاس گھمن صاحب آئے تھے، اس کو جائز کر کے چلے گئے۔
اچھی طرح سمجھنا! اس کو جائز، سنت اور واجب میرے کھاتے میں نہ ڈالنا۔میرے بارے میں غلط بات ساتھی اڑا دیتے ہیں، مجھے بلاوجہ تکلیف ہوتی ہے۔ جائز چیز جائز ہوتی ہے، ناجائز ناجائز ہوتا ہے۔ ایک معاملہ ہوتا ہے جواز، عدم جواز کا اور ایک ہے ضرورت، عدم ضرورت کا۔ جو از کا مسئلہ اور ہوتا ہے ضرورت کا مسئلہ اور ہوتا ہے۔
میں باہر گیا ہوں ناں! مجھے اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے۔آپ یقین فرمائیں! آپ سوچ نہیں سکتے، کتنی بڑی دنیا اپنے ایمان کو بر باد کر رہی ہے، ان گمراہ قسم کے ڈاکٹر وں کی وجہ سے۔ یا تو ہمت کرکے نکلیں، بسم اللہ پڑھیں، گلی گلی جائیں، چوراہوں پر جائیں،دوکانوں پر جائیں، نکلیں، بھر پور ایمان کی محنت کریں اور اگر نہیں نکل سکتے، تو پھر جو حضرات اس موضوع پر کام کرسکتے ہیں، ان کے بارے میں تھوڑی سی نرمی پیدا کریں۔ میں آپ کو نہیں کہہ رہا کہ آپ تصویر یں بنائیں، آپ کو نہیں کہہ رہا کہ آپ چینل بنائیں، میں کہتا ہوں جو لگے ہوئےہیں، ان کے بارے میں آپ تھوڑا سا خود کو خاموش رکھیں اور ان کی نیت پہ شک نہ کریں۔
دارالعلوم کراچی میں اجلاس ہوا،اور کافی عرصہ اجلاس جاری رہا، پھر البلاغ نے باقاعدہ اس کا خلاصہ جاری کیا، خلاصہ کیا تھا کہ بعض علماء اس کے جواز کے قائل ہیں اور بعض اس کے عدم جواز کے قائل ہیں۔ لہذا جو قائلینِ جواز ہیں وہ اپنا کام کریں اور جو قائلین عدم جواز ہیں، وہ قائلین جواز کی نیت پر شک نہ کریں، ان پہ اعتراض نہ کریں۔ بات سمجھ آگئی؟ اب مفتی محمدتقی عثمانی صاحب سے بڑھ کر تو میں نہیں ہوں، مفتی رفیع عثمانی سے بڑا تو نہیں ہو ں کہ میں ان کے اوپر تنقید کرو ں۔ مجھے کیا حق ہے؟ چھوٹوں کو چھوٹا رہنا چاہیے اور بڑوں کو بڑا رہنا چاہیے۔ ہمارے مشائخ میں جن کی وہ رائے ہے ہم ان کی رائے کو بھی سلام پیش کرتے ہیں اور جن کی یہ رائے ہے ان کو بھی ہم سلام پیش کرتے ہیں۔ وہ بھی بڑے ہیں، یہ بھی ہمارے بڑے ہیں۔
اکابر پر اعتماد
ہم چھوٹوں کو بڑوں کے کاموں میں فتویٰ بازی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اس سے امت میں توڑ پیدا ہوتا ہے، جو ڑ پیدا نہیں ہوتا۔یہ بات اچھی طرح سمجھیں، اس لیے میں اور کچھ نہیں کہتا، میں آپ کےسامنے ہاتھ باندھتا ہوں، میرے بس میں ہوتا اللہ کی قسم میں آپ کے پاؤں بھی پکڑ لیتا، علماء اکابر کی رائے میں آپ نے دخل نہیں دینا، سکوت اختیار کریں، اس میں عافیت ہے، اس میں ایمان کی حفاظت ہے، میری بات سمجھے ہیں؟ اب مفتی محمدتقی عثمانی صاحب اور مولانا سلیم اللہ خان صاحب دونوں بڑے ہیں، دونوں بڑوں کی رائے ہے۔ ہمیں کیا ضرورت ہے دخل دینے کی؟ بس وہ بھی بڑے ہیں، یہ بھی بڑے ہیں، بڑے اس میں علمی بات کریں، آپ کو جن کی رائے پسند ہو، لے لیں، ہم اپنے مشائخ میں سے کسی کو گمراہ تو نہیں کہہ سکتے، کیسے کہہ سکتے ہیں؟ ہماری کیا حیثیت ہے کہ اپنے اکابر پر فتویٰ بازی کریں۔
اس لیے میں آپ سے گزارش کر رہا ہوں کہ اس پہ سکوت اختیارکیا کریں۔ بہت زیادہ دخل نہ دیا کریں، اسی میں خیر ہے، اسی میں عافیت ہے، یہ دیکھا کرو اکابرین میں سے ہمارے اکابر کس طرف ہیں؟ جس طرف ہوں بس اسی طرف چلیں، اگر آپ کو رائے سے اختلاف ہو تو خاموش ہو جا ئیں، اپنے اکابر کی رائے پہ رائے زنی نہ کریں،کبھی مداخلت نہ کریں، اکابر کے خلاف بک بک کرنے سے ایمان برباد کر بیٹھیں گے، ہمارے پاس ان کے علاوہ ہیں کون، بتا ؤ؟ نہ علم ہے، نہ دلیلیں ہیں، کچھ بھی نہیں ہے، ایک ہمارے مشائخ ہی بچتے ہیں، ان کی لڑائیوں کو اچھا ل دو گے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ امت مزید افتراق کا شکار ہوگی۔ جس ملک میں آپ رہتے ہیں، یہاں تو زیادہ متحد رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر ان مسائل پر آپ یہاں لڑنا شروع ہو گئے، تو بتائیں آپ کی اصلاح کون کرےگا؟ ہمیں جوڑ نے کے لیے کون بندہ آئےگا؟
میں اس لیے گزارش کر رہا ہوں کہ میرے جانے کے بعد میری رائے کو بطور فتویٰ پیش نہ کرنا، میں جواز عدم جواز کی بات نہیں کرتا۔ ہمارے مشائخ اگر جواز کے قائل ہیں، وہ بھی ہمارے بڑے ہیں اور اگر عدم جواز کے قائل ہیں، وہ بھی ہمارے بڑے ہیں۔ جو جواز کے قائل ہیں، وہ اس پر کام کریں اس میں لڑائی نہیں ہوگی اور فائدہ بہت زیادہ ہوگا۔ میں مفتی نہیں ہوں، میں نے تو ہر بیان میں آپ کی خدمت میں گذارش کی ہے کہ میں دیوبند مسلک کا محقق نہیں ہوں، میں دیوبند مسلک کا ناقل ہوں، ناقل پر فتویٰ نہیں لگاتے، مفتی پر فتویٰ لگاتے ہیں۔ میں تو رائے پیش کردو ں گا کہ یہ مشائخ یوں فرماتے ہیں او ر یہ مشائخ یوں فرماتے ہیں۔
ہمارے حضرت، عارف با اللہ،شیخ المشائخ، حکیم محمد اختر عدم جواز کے قائل ہیں، مجھے یاد ہے بنوری ٹاؤن میں ایک مرتبہ مسئلہ چلتا رہا، جھینگے کے بارے میں، کہ جھینگا جائز ہے کہ نہیں۔ مسئلہ چل رہا تھا، مفتی ولید صاحب رحمہ اللہ فرماتے کہ گنجائش ہے، باقی حضرات فرماتے گنجائش نہیں ہے۔ اب مسئلہ چل رہا تھا کہ جائز ہے یا ناجائز۔ دونوں رائے تھیں اور دو نوں چل رہی تھیں۔ بعض جائز کہتے ہیں اور بعض ناجائز کہتے ہیں۔ ہمارے باقی احباب کی رائے تھی کہ اس مسئلہ میں ان علماء پر زیادہ اعتماد کرو جو پانی میں یا پانی کے قریب رہتے ہیں، وہ مبتلا بہ ہیں۔ بنگلہ دیش کے علماء پر اعتماد کریں۔ ہم خشکی کے علماءہیں، ہم جھینگے کے بارے میں وہ فیصلہ نہیں کر سکتے، جو پانی والا عالم فیصلہ کردے۔ وہ بھی ہمارے بڑے ہیں ان پر اعتماد کریں۔ جب اس مسئلہ پر دو رائے آجائیں، جواز اور عدم جواز کی، آپ بتائیں کس پر فتویٰ دے سکتے ہیں؟ ہم یہ کہیں گے کہ اگر آپ کے مزاج میں آتا ہے تو کھالیں، نہیں آتا تو نہ کھائیں۔ اپنے علماء کے بارے میں کسی پر گمراہی کا فتویٰ نہ لگانا۔ میری بات سمجھ آگئی آپ کو؟
ہمارے ہاں پاکستان میں میزان بینک ہے، مفتی محمدتقی عثمانی صاحب اس کے ساتھ ہیں، بعض اور بھی علماءاس کے ساتھ ہیں۔ میر ااپنا اکاؤنٹ میزان بینک میں ہے۔ مجھ سے ساتھی پوچھتے ہیں کہ ٹھیک ہے یا نہیں؟ میں نے کہا میر ا اکاؤنٹ اس میں ہے، اور میں کیا کہہ سکتا ہوں کیوں؟ اب بینکنگ کے نظام میں جو مفتی محمدتقی عثمانی صاحب کی حیثیت ہے وہ ہماری نہیں ہے، اس میں ہم ان ہی پر اعتماد کریں گے۔ ہم لوگ کیسے دخل اندازی کریں گے؟ میری بات سمجھ آگئی آپ کو؟ میں صرف اس لیے گزارش کر رہا ہوں کہ اس قسم کے جدید مسائل میں اگر اکابر ین کی رائے میں اختلاف آجائے تو آپ اس اختلاف کو ہو ا نہ دیا کریں۔ اس میں گنجائش نکل سکتی ہے تو نکال لیں، نہیں نکل سکتی تو پھر سکوت فرمائیں، اس میں زیادہ رائےدہی نہ کیا کریں، دخل دینے کا نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں اب رائے ونڈ کا کام ہے پوری دنیا میں، یہ ویڈیو کے ساتھ ہے یابغیر ویڈیو کے؟ ہماری خانقاہ کا کام پوری دنیا میں ویڈیو کے ساتھ ہے یا بغیر ویڈیو کے؟ بغیر ویڈیو کے ہےناں! ہمارے دارالعلوم دیوبند کا کام پوری دنیا میں ہے ویڈیو کا ہے یا بغیر ویڈیو کے؟ بغیر ویڈیو کے پوری دنیا میں ہو رہا ہے۔میں اس لیے کہہ رہا ہوں دارالعلوم دیوبند کا کام ایسا ہے، ہماری خانقاہ کا کام ایسا ہے، ہمارے رائے ونڈ کا کام ایسا ہے بغیر ویڈیو، میڈیا کے، پوری دنیا میں اللہ نے پھیلادیا ہے لیکن اگر ہمارے بعض مشائخ ریڈیو کی رائے پیش کردیں آپ اس سے اتفاق نہ کریں، گھر میں ٹی وی نہ لگائیں، چینل نہ لائیں، لیکن چونکہ ہمارے اکابر ہیں، ان کے خلاف آپ فتوے نہ دیں، میری بات سمجھ آگئی؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ لڑے ہیں یا نہیں؟ بتاؤ لڑے ہیں ناں! ایک دوسرے کو قتل بھی کیا ہے یا نہیں؟ آپ کسی کے بارے میں رائے دے سکتے ہیں؟ آپ کہیں گے دونوں ہمارے بڑے ہیں۔ علی رضی اللہ عنہ بھی ہمارے ہیں، معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ہمارے ہیں، وہ بھی امام ہیں، یہ بھی امام ہیں، ایک ہمارے ماموں لگتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی کے بھائی ہیں، دوسرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے شوہر ہیں، دونوں ہمارے ہیں، نہ ہم اُنہیں کچھ کہہ سکتے ہیں، نہ اِنہیں کچھ کہہ سکتے ہیں۔
اگر کوئی رائے پوچھے گا، ہم کہیں گے وہ بھی مجتہد اور یہ بھی مجتہد، ایک مجتہد مصیب ہے، دوسرا مجتہد مخطی ہے۔ یہ میں نے تھوڑی سی وضاحت اس لیے کی ہے کہ آپ تھوڑا سا تحمل فرمایا کریں۔بہت جلد آپے سے باہر ہو کر گرم نہ ہُوا کریں، اللہ ہم سب کو اپنے مشائخ کی قدر کرنے کی تو فیق عطافرمائے۔ ہمارے ہاں چونکہ مسائل چلتے ہیں، اس لیے لوگ بہت جلدی گرم ہو جاتے ہیں۔ اپنے مشائخ، اپنے اکابر علماء دیوبند کا ساتھ دیں، ان سے کبھی بھی پیچھے نہ ہٹیں، اگر آپ کے مشائخ اور دوسرے مشائخ کی رائے میں اختلاف ہو جائے، آپ زبان بند رکھیں۔ بڑے، بڑوں کے خلاف بولیں تو بات بنتی ہے، چھوٹا بڑے کے خلاف بولے، تو بات نہیں بنتی۔
ہمارے گھر میں ہمارے ابا ہیں اور میرےچچا ہیں، اگر کسی مسئلہ پر میر ے ابا اور چچا لڑ پڑیں، تو مجھے ابا کا ساتھ دےکرچچا کے سرپر ڈنڈا مارنا چاہیے؟ مجھے چھوڑدینا چاہیے، مارنا نہیں چاہیے۔ تُو پوچھے کیوں؟ میں کہوں یا ر ایک میرا باپ ہے، ایک میرا چچا ہے۔ میں چھڑا تو سکتا ہوں لڑ نہیں سکتا۔ا گر آپ کے شیخ اور دوسرے شیخ کے رائے میں اختلاف ہوجائے، آپ نہ لڑیں، اپنے شیخ کی رائے کو ترجیح ضرور دیں، لیکن دوسرے کے خلاف نہ ہوں، لڑائی سے بچیں!
ہم بہت عجیب لوگ ہیں، میں بعض باتیں کہتا ہوں، آپ کہیں گے پتا نہیں آپ نے کہا ں سے شروع کی ہے؟ ہم غیر سے لڑنے کی بات کریں ناں، تو لوگ کہیں گے نہ لڑو بابا، حالات ٹھیک نہیں ہیں، ہم کہیں غیر سے لڑو، لوگ کہیں گے نہیں! برما کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، اور اکابر سے لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ بھائی جب غیر سے لڑنے کی حالات اجازت نہیں دیتے، تو اپنوں سے لڑنے کی اجازت دیتے ہیں پھر؟ اپنوں کے لیے تیار بیٹھے ہیں، غیر کے لیے حالات اجازت نہیں دیتے۔
اللہ ہم سب کو لڑائی سے بچنے کی توفیق دیں، اللہ تشدد سے محفوظ رکھیں، اللہ اس ملک میں مزید اتفاق اور اتحاد سے رہنے کی تو فیق عطافرمائیں! رائے میں کچھ اختلاف آجائے، اس کو بر داشت کریں اور لڑنے کا ماحول قطعاً نہ بنائیں، اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔
واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین