اتحاد اور… ملا نما راہزن

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اتحاد اور… ملا نما راہزن
قافلہ حق جولائی ،اگست،ستمبر2010ء
’’جب تک ہم متحد تھے تب تک ہم غالب تھے جب اتحاد کادامن چھوٹا افتراق وانتشار میں مسلمان مظلوم ومحکوم اور مجبور نظرآتا ہے۔‘‘ بات بالکل بجا ہے لیکن اس کا ذمہ دا رکو ن ہے ؟ یہ وہ اہم سوال ہے جس کاجواب ہم نے تلاش کرنا ہے۔ بعض سطحی سوچ کے حامل بے سمجھی میں اس کاذمہ دار’’ملا‘‘کو ٹھہراتے ہیں۔بعض کی رائے کوئی اور ہوتی ہے بعض کچھ کہتے ہیں اور بعض کچھ۔
لیکن!ذراٹھنڈے دل سے اس پر غور کیا جائے تو ہرذی شعور اس نتیجے پر پہنچے گا کہ اس کا ذمہ دار’’ملا‘‘نہیں بلکہ’’ملا نما راہزن‘‘ہے۔ یہ ملا نماراہزن کون ہے ؟مختصر سن لیجئے!
امت مسلمہ کے کتنے متفقہ عقائد تھے جن کو ’’ملا نماراہزن‘‘ نے عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر مختلف فیہ بنا دیا۔کتنے نظریات ایسے تھے جن پر امت مرحومہ عمل پیرا تھی لیکن ’’ملا نما راہزن‘‘نے ان کا انکارکردیا۔بہت سے ایسے مسائل بھی ہیں جو ہمیں فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوتے ہیں اور امت سواچودہ سو برس سے اس پر عمل کررہی ہے لیکن ’’ملا نما راہزن‘‘نے ان کو بھی یکسر نظرانداز کردیا۔
’’یہ ملا نما راہزن‘‘کئی بھیس بدل کر ایمان وعقائد پر ڈاکہ ڈال رہاہے۔مثلاً ساری امت کا متفقہ عقیدہ اور نظریہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہمارے لیے شفیع(شفاعت کرنے والا)ہیں ہم اپنی محبتیں اسی ذات سے استوار رکھتے ہیں، اپنے دکھوں کا مداوا اسی کو جانتے ہیں اسی کا وسیلہ دے کر اپنے سیئات کی معافی چاہتے ہیں، اسی کے روضے کی جالیوں کو چوم کر اپنے دل کابوجھ ہلکا کرتے ہیں اور قلبی سکون پاتے ہیں۔
لیکن !!!’’ملا نما راہزن‘‘نے ہمیں مایوسی کے دلدل میں دھکیلنے کے لیے یہ ’’نیا شگوفہ‘‘نکالاکہ ’’نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم …جن پر ہم درود بھیجتے ہیں… اپنی قبر میں زندہ نہیں بلکہ یہ تو قبر ہے ہی نہیں۔‘‘
اب آپ بتلائیں مسلمان مایوس ہوں گے یانہیں؟؟کیافرق ہے کہ یہودی بھی اپنے نبی کی قبر کو بھول بھال گئے اور مسلمان کے لیے بھی اس کے نبی کی قبر خالی!!!
وہ جو دلوں کا سہارا ہیں بے کسوں اور محتاجوں کا ملجا وماویٰ ہیں، اس ذات کے بارے میں ایسے بے سند، من گھڑت،جھوٹے قصے کہانیاں سنا کر مسلمانوں کوگمراہی کے کچوکے لگا رہے ہیں کہ فضول ہے ان پر سلام بھیجنا، فضول ہے ان کے روضہ پر جانا، فضول ہے ان سے شفاعت کی درخواست کرنا،فضول ہے ان کاوسیلہ دینا،فضول ہے ان کے شہر(مدینہ)کی طرف سفر کرنا … وغیرہ وغیرہ
آپ بتلائیں کیا یہ امت کا رہنما ہے یا راہزن؟جس نے امت کا سب سے قیمتی اثاثہ ہتھیالیا، اس کا سرمایالوٹا۔ اب کیا اس سے اتحاد ہوسکتا ہے؟
شاید میرے بعض دوست اس موقع پریہ کہہ دیں کہ ’’نہیں!نہیں ہوسکتا۔‘‘
لیکن! وسعت ظرفی یہ ہے کہ اس سے بھی اتحا دہوسکتا ہے صرف ایک شرط کے ساتھ۔
وہ کیا؟
وہ یہ کہ وہ شخص اپنے عقل کے پیدا کردہ نظریا ت کو چھوڑ کر ’’اہل السنۃ والجماعۃ‘‘کے متفقہ عقائد کو مان لے اور اس کے خلاف افتراق کی بھٹی میں نہ خود جلے اور نہ دوسرے سادہ لوح مسلمانوں کو اس میں دھکیلے۔ تب اس سے ہمارا اتحاد ہی اتحاد ہے اور اگر وہ مسلمانانِ عالم کے عقائد کے خلاف اپنے نئے تراشیدہ عقائد رکھتا ہے اور اعمال میں بھی ترمیم واضافہ کا قائل ہے، صحابہ کو معیا رحق نہیں مانتا، فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم و حجت تسلیم نہیں کرتا تووہ خود ہم اہل السنۃ سے متحد ہونے کا خواہاں نہیں۔
حالانکہ ہماری پیشکش اب بھی موجود ہے لیکن شرط مذکور کے ساتھ اور اگر وہ شخص خود نہیں بدلتا اور اپنے غلط مسلک کو بھی نہیں چھوڑتابلکہ اس آس اور امید میں ہے کہ ہم اپنا مسلک حق مسلک اہل السنۃ والجماعۃمحض اس شخص کوملانے کے لیے بدلیں گے تو ع…
ایں خیال است و محال است و جنوں
یہ ہرگز نہیں ہوگا۔ کیونکہ غلط نظریات وہ نہ چھوڑے اور ہم صحیح نظریات کو بدل کر ا س کے ہم نوا بن جائیں۔ تو ایسا ہرگز ہرگزنہیں ہوسکتا !
وقت کا تقاضاہے کہ وطن عزیز پاکستا ن میں اور عالم اسلام میں ہر کلمہ گو ’’اہل السنۃ والجماعۃ‘‘ کے نظریات کا قائل اور عامل بن جائے تب فرقہ واریت جیسی لعنت ختم ہوگی پھر سے مومن کی وہی آن وہی بان اور وہی شان ہوگی اور جب تک کلمہ گو اس بات کااحساس اپنے اندرپیدا نہیں کرلے گا کہ وہ متفقہ عقائد میں سے کسی کا انکار کرکے خود اتحاد واتفاق کا دشمن بن رہا ہے تب تک ’’فرقہ واریت‘‘ بچے جنتی رہے گی۔
خدارا! نفس کی انانیت بھلا کر’’ اہل السنۃ والجماعۃ‘‘ میں قولاً،فعلاًاور عملاً شریک ہوجائیں۔ اللہ تعالی صحیح فہم عطا فرمائیں۔
اکابر علماء کے نمائندہ اجلاس میں اتحا داہل السنۃ والجماعۃ کاموقف
بمقام جامعہ اشرفیہ، لاہور
جامعہ اشرفیہ لاہور میں تمام اکابر اور جماعتوں کے نمائندہ اجلاس میں بندہ کو اتحاد اہل السنت والجماعت کا ناظم اعلی ہونے کی حیثیت سے دعوت دی گئی۔ بندہ کے انتہائی اختصار کے ساتھ اکابر علماء کی خدمت میں درج ذیل نکات پیش کیے۔
1: حضرت شیخ ا لہند دیوبندیت کا متن ہیں جب کہ حضرت مدنی، تھانوی، کاشمیری رحمہم اللہ وغیرہ اس کی شرح ہیں۔ لہذا ان کے نظریات کے حاملین دیوبندی ہیں۔نیز دیوبندی وہ ہیں باطل نظریات کے خلاف کام کریں چونکہ فتنوں کے خلاف کام کرناان اکابر کا مزاج تھا لہذا فتنوں کے خلاف کام کرنا ’’دیوبندیت‘‘ہے نہ کہ فرقہ واریت۔
لہذا فتنوں کے تعاقب کے لیے اگر جمعیت ذمہ داری لے لے تو ہم اپنی اپنی جماعتیں ختم کرنے کو تیار ہیں۔وگرنہ بصورت دیگر تمام جماعتوں کوقائم رکھتے ہوئے ان جماعتوں کے تین تین یا دو دو ارکان پر مشتمل ایک بورڈ بنا دیا جائے تاکہ تمام دیوبندی جماعتوں میں اتفاق واتحاد رہے۔
2: قومی وبین الاقوامی نئے پیش آمدہ مسائل کے لیے چند مفتیان کرام پر مشتمل فقہی بورڈ یا چند محققین پر مشتمل ایک ادارہ بنا دیا جائے جس کا نگران شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کو بنادیا جائے۔ باقی تمام احباب ان کی تحقیق پر اعتماد فرمائیں۔
3: ملک میں نفاذِ اسلام کے لیے جمعیت علماء اسلام کو بنیاد بنا کر تحریک چلائی جائے جس کے لیے جمعیت کے قائدین کو بھی چاہیے کہ وہ دیگر مذہبی جماعتوں اور جامعات کو اعتماد میں لیں۔
4: ملک میں بڑھتے ہوئے امریکی اثر ورسوخ کو ختم کرنے کے لیے سیاسی حکمت عملی اختیار کی جائے جس کی قیادت جمعیت علماء اسلام کرے اور باقی تمام مذہبی تنظیمیں اور جامعات ان کی تائید کریں اور حسب ضرورت ساتھ دیں۔
5: یہ میڈیا کا دور ہے لہذا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو ضرور اختیار کرنا چاہیے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین
والسلام
محمد الیاس گھمن