شمع بت خانہ مجھے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
شمع بت خانہ مجھے؟
قافلہ حق، اکتوبر، نومبر، دسمبر 2012ء
27 ستمبر 2012 کی وہ شام کس قدر حسین تھی جب اس ذرۂ خاک کو رفعتِ افلاک سے ہمکنار ہونے کے لئے چن لیا گیا۔اگرچہ قید وبند، پابندئ سلاسل یا زہرہلاہل آسودہ حال زندگی کے لئے سوہانِ روح ہیں لیکن دشت جنوں کے آبلہ پاؤں کے لئےکسی نعت عظمیٰ سے کم نہیں۔ یہی تو وہ مقامِ دلنواز ہے جس سےابنائے عصر بے خبر ہیں کہ کسی کے لئے مرناہی تو زندگی ہے اور پھر مرنا بھی اس کے لئے جو سببِ زندگی ہے۔ ہفت اقلیم کی بادشاہتیں اس کی اک ادائے فقر پر قربان۔
دل و جان تو کچھ بھی نہیں دو جہاں بھی شہِ لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پرکٹ مرتے توحق ادا نہ ہوتا۔ روز روشن کی آزمائشیں کوئی نئی نہیں ،جنوں کی منزل کے یہ ابتدائی مرحلے ہیں۔ ہم جیسے شوریدہ سر سوبار اس آتش و آہن کا کھیل کھیلے ہیں، زنجیروں کا زیور پہن کر عروسِ نو کی طرح اپنی زیبائش پر اترانا تو ہمیں وراثت میں ملا ہے۔
ہم نے چومی ہیں بہت دار ورسن کی چوٹیاں

سجدے امڈے ہیں جبیں میں باب زنداں دیکھ کر

 
کبھی اس کے یاروں رضی اللہ عنہم اجمعین کی ناموس میں پا بہ زنجیر ہوئے، کبھی اس کے کلمے کی بلندی کے لئے پسِ زنداں ہوئے تو کبھی حق گوئی کی پاداش میں پابندِ سخن ہوئے۔ اس دارورسن سے آنکھ مچولی تو تب سے شروع ہے جب مسوں نے پھوٹ کر مرد آہن اور صنف نازک میں خطِ امتیاز نہ کھینچا تھا۔اگرچہ آج تو خط امتیاز میں بھی چاندنی اتر آئی ہے، مگر ہم ہیں کہ اس شعر کے مصداق سےہٹنے کو تیار نہیں:
وہ جہاں تھے وہیں کھڑے ہوں گے

جو کسی بات پر اڑے ہوں گے

 
راقم کو ہر دور میں مصلحت پسندی کا درس دینے والوں نے اپنی نصیحتوں میں کمی نہ کی لیکن میں مجبورہوں کہ جب بات فخر موجودات سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی آجاتی ہے تو پھر مجھے اپنا سر بال دوش محسوس ہوتا ہے اور خواجہ یثرب کی حرمت پر کٹ مرنے کو دل بے چین ہوجاتا ہے اور میری اسی دیوانگی نے دیوانوں کو جگادیا۔
جب 27 ستمبر کو ختم نبوت کانفرنس میں تاجدار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی اہمیت بتانے اور ان راہزنوں کی حقیقت کو آشکار کرنے کے لئے بندہ نے کمر ہمت باندھی تو بہت سوں کے کمر بند ڈھیلے پڑ گئے۔ اور ناجائز پروپیگنڈہ کر کے شہر کی انتظامیہ کو مجھے پابند سلاسل کرنے پر مجبور کردیا لیکن کب تک ؟
آخر ختم نبوت کی خاطر گرفتاری ہو اور خدا کی رحمت جوش میں نہ آئے، آج خدا کی وہ رحمت اور محبت کا منظر میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں بندگان خدا کا ایک لشکر ہے جو اپنے جذبات کا اظہار کر رہا ہے۔ختم نبوت کے لئے یہ چار دن کی گرفتاری نے مجھے جو عزت بخشی ہے تو ان کی عزت کا عالم کیا ہوگا جو ختم نبوت کے تحفظ کے لئے کٹ گئے۔
باہر لوگ نعروں سے سینہ افلاک کو چاک کر رہے ہیں۔ اور میں گاڑی میں بیٹھا جنگ یمامہ کا منظر دیکھ رہاہوں جب 12 سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ناموس ختم نبوت پر کٹ رہے ہیں میری آنکھوں کے سامنے ان کے کٹے ہوئے جسم ہیں۔۔۔ یہ بوڑھی اماں کو ن ہے جو اپنے بیٹے کے سر سے سہرا اتار کر پیشانی چوم کر کچھ کہہ رہی ہے؟ ٹھہرو اے قافلہ والو! ذرا مجھے اس بوڑھی کی آواز تو سننے دو:
” بیٹا!آج تیرے سر پر شادی کا سہرہ میں نے دیکھ لیا ہے اب جاؤ اور دیکھو لوگ کس طرح ختم نبوت پر کٹ رہے ہیں ،بیٹا اپنی جان دے دو آج محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم تیری طرف دیکھ رہے ہیں۔“
سعادت مند بیٹا آگے بڑھا اور گولیوں کا نشانہ بن کر جامِ شہادت نوش کر گیا۔ یہ میں کہاں سے کہاں آگیا؟ شاید جنگ یمامہ سے لاہور کے مال روڈپر آگیاہوں جہاں ایک ہی دن میں سینکڑوں جوان ناموس رسالت اور ختم نبوت کے لئے قربان ہوگئے۔ کاش میں بھی ختم نبوت کے تحفظ میں کام آجاؤں، کاش میر ا خدا مجھے وہ کیل بنادے جو مرزائیت اور دنیائے الحاد کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو۔
مجھے گرفتار کرنے والوں کے ذہن میں تھا کہ شاید اس سے دیوانے دب جائیں گے مگر کہاں ،یہاں تو جوش جنوں اور بڑھا ہے:
خانہ زادِ زلف ہیں، زنجیر سے بھاگیں گے کیوں

ہیں گرفتارِ وفا، زنداں سے گھبرائیں گے کیا

 
کاش یہ بات ان ملعونوں کو بھی معلوم ہوجائے جو توہین رسالت کا ارتکاب کرتے ہیں کہ مسلمان تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر کٹنا کس قدر سعادت سمجھتے ہیں کہ میرے جیسا عام آدمی بھی اگر ناموس رسالت کے لئے چار دن پابند سلاسل ہوجائے تو یہ اس کے استقبال کی تاریخ رقم کردیتے ہیں تو جو پھانسی کے پھندوں پر جھول جانے والے ہیں،ان کا مقام ومرتبہ کیا ہوگا۔میری گرفتاری پر نوجوانوں کا لشکر جن کی ظاہری وضع قطع تو صلحاء والی نہ تھی مگر اس ظاہری بے دینی کے لبادے میں وہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معمور دل رکھتے تھے۔
یہ نوجوان آج سڑکوں پر دیوانہ وار نعرہ رسالت بلند کر رہے تھے، ایک دوست مجھ سے کہنے لگے یہ سب آپ کی قربانی کا نتیجہ ہے کہ ہزاروں جوان شبان ختم نبوت میں شامل ہوکر تحفظ ختم نبوت کا فریضہ سر انجام دینے کو تیار ہوکر نکلے ہیں اور آپ کے اس تھوڑی سی تکلیف اٹھانےسے مرزائیت کے دجل کا پردہ اٹھ گیا ہے۔ میرے دل سے اک ہوک سی اٹھی۔
میرے مٹنے سے جو بڑھ جائے حرم کی روشنی

آؤ گل کر دو سمجھ کر شمع بت خانہ مجھے

 
والسلام
محمد الیاس گھمن