ہمارا راستہ ہماری منزل

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ہمارا راستہ ہماری منزل
ماہنامہ بنات اہلسنت، اگست 2010ء
آج ہماری زندگی میں پھر ایک بار14اگست کادن آرہا ہے۔ اس سے ہماری بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔63سال پہلے اس ملک کوجب حاصل کیا جارہا تھا تو اس کامطلب یہ قرارپایا تھا: ’’لاالہ الااللہ‘‘آسان لفظوں میں آپ اسے’’ اسلام کی بالادستی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔
اس کی خاطر کتنی قربانیاں دی گئیں۔اس کاتصور کرتے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہرطرف ہندو سکھ بلوائیوں کاشورشرابہ ،قتل وغارت، عصمت دری، لوٹ مار، جنگ وجدل، مسلمانوں کے لاشے گر رہے تھے۔
قارئین!ذرا چشم ِتصورکوواکیجئے۔ ماؤں سے ان کے دودھ پیتے بچے چھین کرموت کے گھاٹ اتارے جارہے ہیں۔ بہادر نوجوان اس ملک…جس میں ہم بستے ہیں…کوحاصل کرنے کے لیے تن من دھن کی بازی لگا رہے ہیں۔ علماء کرام اس جہد مسلسل کی پیہم کوشش میں ہمہ وقت مصرف ومشغول نظر آرہے ہیں۔ بوڑھوں کے درد بھرے نالے عرش معلی کوحرکت دے رہے ہیں، بے کسوں کی آہیں افلاک کا سینہ چاک کررہی ہیں سب کی زبان پریہی الفاظ ہیں:
’’پاکستان کامطلب کیا؟ لاالہ الا اللہ ‘‘
’’ہم غلامی کی زندگی نہیں چاہتے۔ ہم آزاد قوم ہیں آزادی چاہتے ہیں اوراس آزادی کے حصول کے لیے ہمیں جان کی بازی بھی لگانی پڑی توہم لگادیں گے۔ لیکن ایک ایسی ریاست ضرورحاصل کریں گے جس میں ہم آزادی سے جی سکیںاور ہم آزادی سے اپنے دین پرعمل پیراہوسکیں۔جہاں اسلام کاقانون ہو، جہاں خلّاقِ عالم کا ابدی دستور(قرآن)کانظام ہو،جہاں امن ، انصاف اورعدل کی فراوانی ہو، جہاں مظلوم کوئی نہ ہو، جہاں ظالم کواس کے ظلم کی کڑی سزادی جائے۔ رشوت، چوربازاری نام کی کوئی چیز نہ ہو۔ ہم ایسی ریاست چاہتے ہیں جس میں مسلمان کی شناخت باقی رہے۔ اسلامی حمیت وغیرت قائم رہے۔‘‘
یہ وہ جذبات تھے جوآزادی کے متوالوں کے سینوں میں موجزن تھے۔ جن لوگوں نے جان گھربار اورسب کچھ لٹاکراس دیس کوحاصل کیاتھا آج وہ بزبان حال ہم سے شکایت کررہے ہیں کہ
کیایہی وہی پاکستان ہے جس کے لیے ہم ہندوؤں بلوائیوں سے سر بکف ہوکر بھڑ گئے تھے؟ کیایہ وہی پاکستان ہے جس کے لیے ہم سولیوں پرجھول گئے ؟ کیایہ وہی پاکستان ہے جس کے لیے ہمارے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے گئے؟ کیایہ وہی پاکستان ہے جس کے بارے میں ہم سب نے یہ نعرہ بلندکیاتھا:
پاکستان کامطلب کیا؟ لاالہ الااللہ
کیایہ وہی دیس ہے جس کے بارے ہم یہ چاہتے تھے کہ اس میں امن وعدل کی بہاریں چلیں، جہاں انصاف کے پھول کھلیں۔ جہاں اسلام کی تعلمیات عام ہوں؟لیکن!
اس میں توہمیں…پاکستان پرکٹ مرنے والوں…کووہ نظرنہیں آرہا جو ہم چاہتے تھے۔ اس پاکستان میں تو پاکیزہ اقدارکوختم کرنے کی سازشیں ہیں۔ اس میں تواسلام کی بالادستی ہنوز درجہ التواء میں پڑی ہوئی ہے۔ آئین بنتے توہیں لیکن…وہ آئین کب بنے گاجب اسلام کے نفاذکااعلان ہوگا؟ آئین بنتے تو ہیں لیکن…وہ آئین کب بنے گا جس کی وجہ سے ملک سے بدامنی کاجنازہ نکل سکے؟ قانون بنتے توہیں لیکن وہ قوانین کب بناکرلاگوکیے جائیں گے جس سے واقعی مجرم سزاقرارپائے؟
آج ان لوگوں کے شکوے سنتا ہوں تودل پھٹنے کوآتاہے۔ ان کی شکایتیں سن کریقین ہوجاتاہے کہ وہ سچے ہیں اور ہم راہ بھول چکے ہیں۔ پھریکایک مجھے کوئی نادیدہ طاقت تسلی دیتی ہے کہ راہ بھولے ہو، منزل تونہیں بھولے!راستہ توپھربھی مل جاتاہے، منزل بھول گئے تو اس کی تلاش مشکل ہوجائے گی۔ سنو!
’’ہمارارستہ آزادی ہے اورہماری منزل اسلام کانفاذ ہے۔‘‘
خدا وہ دن جلد لائے جب میری قوم اپنارستہ بھی پالے اوراپنی منزل بھی۔
آمین ثم آمین
والسلام
محمد الیاس گھمن