قسط-8 صلح صفائی

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
قسط-8 صلح صفائی
اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق کے جو اعمال محبوب اور جو کام پسند ہیں ان میں ایک ”صلح صفائی“ ہے ۔ادیان عالم میں صرف اسلام ہی ایسا دین ہے جو زندگی کے ہرموڑ پر مکمل رہنمائی فرماتا ہے ، ذاتی و انفرادی زندگی کے تمام پہلووں کا احاطہ کرتے ہوئے اجتماعی زندگی کی تمام پیچیدگیوں اور الجھنوں کو سلجھاتا ہے ، اس کا موثر اور آسان حل بھی پیش کرتا ہے، اس کا فائدہ محض دنیا تک ہی محدود نہیں رکھتا بلکہ ہمیشہ ہمیش کی کامیابی کے حصول تک مقرر کرتا ہے ۔
چونکہ ہر انسان کا مزاج اور طبیعت دوسرے سے مختل ف ہوتا ہے اس لیے اکٹھے رہن سہن ، لین دین اور باہمی معاملات و تعلقات میں اکثر اوقات دوسرے کی خلاف مزاج باتوں سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور یہ غلط فہمیاں بڑھتے بڑھتےنفرت و عداوت ،قطع کلامی و قطع تعلقی ،دشمنی ولڑائی جھگڑے ، خون خرابے اور قتل و غارت تک جا پہنچتی ہیں ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں فساد شروع ہو جاتا ہے انسانی نظام زندگی تباہ ہو کر رہ جاتا ہے ، حتیٰ کہ خاندانوں کے خاندان اجڑ جاتے ہیں۔
اس موقع پراسلام ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے؟ قرآن کریم کے متعدد مقامات پر صلح کی اہمیت و ضرورت ، اس کی ترغیب اور خاندانی و معاشرتی نظام زندگی میں اس کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے ، اسے” خیر“ سے تعبیر کیا گیا ہے ، اسے ضروری قرار دیا گیا ہے ، ایسے لوگوں کی مدح اور تعریف کی گئی ہے جو صلح پسند ہوں ۔آئیے اس بارے میں چند احادیث مبارکہ سے سبق لیتے ہیں۔
1: عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ أَهْلَ قُبَاءٍ اقْتَتَلُوا حَتَّى تَرَامَوْا بِالْحِجَارَةِ فَأُخْبِرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ فَقَالَ اذْهَبُوا بِنَا نُصْلِحُ بَيْنَهُمْ۔
صحیح بخاری ، باب قول الامام لاصحابہ اذھبوا بنا نصلح ، حدیث نمبر2693
ترجمہ: حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل قباء کسی معاملے پر باہم جھگڑ پڑے یہاں تک کہ ہاتھا پائی اور ایک دوسرے پر پتھر پھینکنے کی نوبت آ گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو فرمایا : ہمارے ساتھ چلو ہم ان کے درمیان ”صلح صفائی “کراتے ہیں ۔
2: أَنَّ أَنَسًا رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ أَتَيْتَ عَبْدَ اللهِ بْنَ أُبَيٍّ فَانْطَلَقَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَكِبَ حِمَارًا فَانْطَلَقَ الْمُسْلِمُونَ يَمْشُونَ مَعَهُ وَهِيَ أَرْضٌ سَبِخَةٌ فَلَمَّا أَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِلَيْكَ عَنِّي وَاللهِ لَقَدْ آذَانِي نَتْنُ حِمَارِكَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْهُمْ وَاللهِ لَحِمَارُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَطْيَبُ رِيحًا مِنْكَ فَغَضِبَ لِعَبْدِ اللهِ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ فَشَتَمَهُ فَغَضِبَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَصْحَابُهُ فَكَانَ بَيْنَهُمَا ضَرْبٌ بِالْجَرِيدِ (بِالْحَدِيدِ) وَالْأَيْدِي وَالنِّعَالِ فَبَلَغَنَا أَنَّهَا أُنْزِلَتْ: وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا۔
صحیح بخاری ،باب ما جاء فی الاصلاح بین الناس اذا تفاسدوا، حدیث نمبر2691
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی معاملے کے حل کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی گئی کہ آپ عبداللہ بن ابی )منافق ( کے پاس تشریف لے چلیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست کو قبول فرمایا اور ایک دراز گوش )گدھے(پر سوار ہوئے آپ کے ہمراہ چند مسلمان بھی تھے جس طرف آپ جا رہے تھے وہ زمین سیم اورشوروالی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے تو عبداللہ بن ابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مجھ سے ذرا دور رہیں آپ کے گدھے کی بدبو سے مجھ تکلیف ہو رہی ہے۔ ) مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوفت اور تکلیف دینا تھا (چنانچہ انصار مدینہ میں سے ایک شخص نے کہا کہ اللہ کی قسم !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گدھے سے آنے والی بو تجھ سے بہت اچھی اور خوشبو دارہے ۔ عبداللہ بن ابی کو اس پر غصہ آیا اور اس کی قوم کے ایک شخص نے اس انصاری صحابی کو گالی دی۔ چنانچہ دونوں قوموں کے درمیان لڑائی ہو گئی یہاں تک کہ نوبت ہاتھاپائی پر جا پہنچی۔ چنانچہ اسی موقع پر سورۃ الحجرات کی آیت نازل ہوئی جن کا ترجمہ یہ ہے : اگر اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑجھگڑ پڑیں تو ان کے درمیان ”صلح “کرا دو ۔
نوٹ: عبداللہ بن ابی بظاہر خود کو مومن کہتا تھا اس لیے قرآن کریم میں اس کے گروہ کو بھی مومن کہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ شخص مومن نہیں بلکہ پکا منافق تھا۔
3: عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَاقَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَحِلُّ الْكَذِبُ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ يُحَدِّثُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ لِيُرْضِيَهَا وَالْكَذِبُ فِي الْحَرْبِ وَالْكَذِبُ لِيُصْلِحَ بَيْنَ النَّاس۔
جامع الترمذی ، باب ماجاء فی اصلاح ذات البین ، حدیث نمبر 1862
ترجمہ: حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تین مواقع ایسے ہیں جہاں جھوٹ بولنے کی گنجائش موجود ہے،پہلا میاں بیوی کے درمیان صلح کے وقت ، دوسراجنگ میں اورتیسرا لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے ۔
4: عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ قَالُوا بَلىٰ قَالَ صَلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ فَإِنَّ فَسَادَ ذَاتِ الْبَيْنِ هِيَ الْحَالِقَةُ۔
جامع الترمذی ، باب منہ ، حدیث نمبر 2433
ترجمہ: حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جودرجہ میں)نفلی( روزے) نفلی( نماز اور )نفلی( صدقے سے بھی زیادہ فضیلت والی ہے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کیوں نہیں ؟ ضرور بتایئے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ لوگوں کے درمیان ”صلح صفائی“ کرانا ہے ۔ اس لیے کہ باہمی ناچاقی اور پھوٹ دین کو ختم کرنے والی چیز ہے ۔
5: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تُفَتَّحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ فَيُغْفَرُ فِيهِمَا لِمَنْ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا إِلَّا الْمُهْتَجِرَيْنِ يُقَالُ رُدُّوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا۔
جامع الترمذی ، باب ما جاء فی المتھاجرین ، حدیث نمبر 1946
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت کے دروازے سوموار اور جمعرات کو کھولے جاتے ہیں ان دو دنوں کے اندر لوگوں کی مغفرت کا فیصلہ کیا جاتا ہے لیکن مشرک آدمی اور باہمی عدوات رکھنے والوں کی مغفرت نہیں کی جاتی ۔ )فرشتوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ ( انہیں دیکھتے رہو! انہیں مہلت دو یہاں تک کہ وہ دونوں آپس میں ”صلح صفائی “کر لیں ۔
6: عَنْ أَبِیْ أَيُّوبَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا أَيُّوبَ أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى صَدَقَةٍ يُحِبُّهَا اللهُ وَرَسُولُهُ؟ تُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ إِذَا تَبَاغَضُوا، وتَفَاسَدُوا۔
المعجم الکبیر للطبرانی ، حدیث نمبر 3922
ترجمہ: حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو ایوب!میں تمہیں ایسے نیکی کے بارے میں بتلاتا ہوں جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہے ۔جب لوگ لڑ جھگڑ پڑیں یا )ان کی محبت میں کسی وجہ سے کمی آ جائے یعنی( فسادمیں مبتلا ہو جائیں،تو ان کے درمیان” صلح صفائی“ کرانا ۔