قسط--19توبہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط-19توبہ
اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی صدق دل سے معافی مانگنا اور آئندہ ان سے بچنے کا پختہ عزم کرنا ”توبہ“ کہلاتا ہے ۔نفس و شیطان کے بہکاوے کے ساتھ ساتھ انسان میں نسیان کا عنصر بھی پایا جاتا ہے اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقے اور شریعت اسلامیہ کی پاکیزہ تعلیمات سے روگردانی کر بیٹھتا ہے ۔ کبھی نفسانی خواہشات ، کبھی شیطانی وساوس،کبھی برے ماحول کی وجہ سے ، کبھی جہالت اور لاعلمی کی بنیاد پر بدعملی اس سے سرزد ہو جاتی ہے ، یہ وہ واقعاتی حقائق ہیں جن سے ہم سب کا اکثر اوقات واسطہ پڑتا رہتا ہے ۔
افسوس کا مقام ہے بلکہ یوں کہیے کہ افسوس صد افسوس یہ ہےکہ ہم جس معاشرے میں پرورش پا رہے ہیں اس معاشرے میں علم دین ، اسلامی تہذیب و تمدن ، اخلاقیات و آداب اور احساسِ عبدیت و انسانیت ختم ہوتے جا رہے ہیں اس لیے معاشرے میں مسلسل بے سکونی بڑھتی چلی جا رہی ہے، آج ہمارے گھروں اورتمام شعبہ ہائے زندگی میں باہمی نفرتیں ،آپسی ناچاقیاں ، دوریاں اور لڑائی جھگڑے، فسق و فجور ، بری عادات و اطوار ، فرنگی تہذیب و کلچرفروغ پا رہا ہے ۔ یہ ہم سب کا مشترکہ المیہ ہے جس کا رونا ہم روتے تو رہتے ہیں لیکن اس مصیبت سے عملاً جان چھڑانے کی کوشش نہیں کرتے ۔
علم سے دوری ، بدعملی ، بداخلاقی ، بدامنی ، بد تہذیبی ، جہالت اور معاشرتی جرائم کا پورا معاشرہ بحیثیت قوم مجرم بن چکا ہے ۔ ایسے حالات میں اپنے ماحول کو درست کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ کر ہے ،اللہ تعالیٰ سے باغی انسانیت کو پھر سے اللہ کے لطف وکرم، فضل و احسان، مہربانی اور رحمت کے قریب کرنے کی اشد ضرورت ہے ،اسے گناہوں کی دلدل سے نکال کر اطاعت و فرمانبرداری کی شاہراہ پر ڈالنا ہوگا جو شاہراہ سیدھی جنت جاتی ہے ۔
اس کےلیے بنیادی طور جن اوصاف کی ضرورت ہے ان میں سے ایک وصف یہ ہے کہ برائی اور اس پر ندامت گناہ اور اس پر شرمندگی کا احساس دلوں میں زندہ ہو جائے ۔ یہی احساس انسان کو توبہ پر آمادہ ، نیکی پر ابھارتا اور شریعت پر چلاتا ہے۔ اس کو باقی رکھنے کے لیے اپنی زندگی کا محاسبہ کرنا ہوگا کہ ہماری زندگی کس قدر شریعت کے مطابق اور کتنی شریعت کے مخالف گزر رہی ہے؟
اگر ہماری زندگی اس رخ پر چل رہی ہے جس پر اللہ اور اس کا رسول چاہتے ہیں تو ”مقامِ شکر“ ہے اور اگر خدانخواستہ ہماری زندگی شیطان کی مقرر کردہ پرخطر راہوں میں سے کسی بھیانک راہ پر چل رہی ہے تو” مقامِ فکر“ ہے ۔
ہر شخص اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے ضمیر کا فیصلہ سن سکتا ہے حالات و واقعات اور زمینی حقائق یہ بتلاتے ہیں کہ اس وقت پوری مسلم امہ گناہوں کے گرداب میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے ، بداعمالیوں کا ایک طوفان ہے جو ہماری ٹوٹی پھوٹی نیکیوں کو بہائے لے جا رہا ہے ہمارے نیک اعمال بھی بعض کبیرہ گناہوں کی وجہ سے مٹتے جا رہے ہیں اس لیے ہمیں اپنے اندر احساس پیدا کرنا ہوگا تاکہ توبہ کی توفیق نصیب ہو ۔
توبہ ایسی نیکی ہے جو اللہ کی بارگاہ میں جلد قبول ہوتی ہے ، اللہ کو محبوب ہے ۔ انسان جب گناہ کرتا ہے تووہ کراماً کاتبین اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیتے ہیں ،قیامت کے دن انسان کے اپنے وہ اعضاء جن سے اس نے گناہ کیا ہوگا / زمین کا وہ حصہ جس پر گناہ کیا ہوگا اور نامہ اعمال سب کے سب اس کے خلاف گواہی دیں گے ۔
اگر انسان صدق دل سے توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم سے فرشتوں کو بھلا دیتے ہیں ، اعضاء کو بھلا دیتے ہیں ،زمین کو بھلا دیتے ہیں اور نامہ اعمال سے مٹا دیتے ہیں۔دنیاوی و اخروی مصائب و تکالیف سے اسی توبہ کی بدولت نجات ملتی ہے، اس سے اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ ہمیں توبہ کی کس قدر ضرورت ہے !!!
دوسری بات یہ کہ اگر ایک بار توبہ ٹوٹ جائے تو پھر توبہ کریں ، پھر ٹوٹ جائے پھر توبہ کریں، لاکھ مرتبہ بھی توبہ ٹوٹ جائے پھر بھی توبہ کریں ۔ اس اندیشے کی وجہ سے توبہ نہ کرنا کہ کہیں ٹوٹ نہ جائے شیطانی دھوکہ ہے اس سے خود کو بچائیں۔توبہ کے حوالے سےآیات و احادیث تو بکثرت موجود ہیں لیکن ان میں سے صرف چند ملاحظہ ہوں ۔
1: زیادہ توبہ کرنے والے اللہ کے محبوب ہیں ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ۔
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 222
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں ۔
2: توبہ سے کامیابیاں ملتی ہیں ، ارشاد باری عز و جل ہے:
وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔
سورۃ النور، آیت نمبر 31
ترجمہ: اے ایمان والو!تم سب کے سب اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
3: نزع اور سکرات کے وقت یعنی جب روح نکلنے لگے تو اس وقت توبہ قبول نہیں ہوتی، قرآن کریم میں ہے :
وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ۔
سورۃ النساء، آیت نمبر18
ترجمہ: ان گناہ گار لوگوں کی توبہ قابل قبول نہیں جب ان کی موت کا وقت سر پر آن پہنچے تو وہ کہے کہ میں اب توبہ کرتا ہوں۔
نوٹ: مدارک التنزیل میں امام نسفی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے سکرات اور غرغرہ موت کے وقت توبہ کرنا یہ اضطراری حالت ہے اختیاری نہیں ۔ جبکہ توبہ اختیاری قبول ہوتی ہے اضطراری نہیں۔
4: توبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیتے ہیں ،قرآن کریم میں ہے :
إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا۔
سورۃ الفرقان،آیت نمبر 70
ترجمہ: مگر جنہوں نے توبہ کی اور اللہ کی بات کو مانا ، نیک اعمال کیے تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو نیکیوں سے تبدیل کر دیں گے اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے ۔
5: اللہ تعالیٰ توبہ قبول اور گناہوں کو معاف فرماتے ہیں ،ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ۔
سورۃ الشوریٰ ، آیت نمبر 25
ترجمہ: اللہ وہ ذات ہے جو اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور گناہوں کو معاف فرماتا ہے ۔
6: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا ، تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ.
صحیح مسلم ، باب فی التوبۃ حدیث نمبر6960
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرمائیں گے جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہوجائے ۔
فائدہ: سورج کا مغرب سے طلوع ہونا قیامت کی ایک بڑی نشانی ہے ۔ ایک دن ایسا بھی ضرور آئے گا جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا اوردوپہر کے وقت درمیان تک پہنچے گاپھر دوبارہ مغرب کی طرف غروب ہو جائے گا ۔ اس کے بعدمعمول کے مطابق مشرق سے طلوع ہوگا اور مغرب میں غروب ہوگا ۔ بعض محدثین نے لکھا ہے کہ مغرب سے سورج طلوع ہونے کے 150 سال بعد قیامت آئے گی ۔ واللہ اعلم
7: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَوْ أَخْطَأْتُمْ حَتَّى تَبْلُغَ خَطَايَاكُمُ السَّمَاءَ، ثُمَّ تُبْتُمْ، لَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ۔
سنن ابن ماجہ ، باب ذکر التوبۃ، حدیث نمبر 4248
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری برائیاں اور بداعمالیاں اس قدر زیادہ ہوجائیں کہ وہ آسمان تک پہنچ جائیں اس کے باوجود بھی اگر تم توبہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ قبول فرمائیں گے۔
8: عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ۔
جامع الترمذی ، باب منہ، حدیث 2423
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ساری اولاد آدم)سوائے انبیاء کرام علیہم السلام کے ( گناہ گار ہے اور سب سے اچھے گناہ گار وہ ہیں جو کثرت کے ساتھ توبہ کرنے والے ہیں ۔
9: عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ۔
سنن ابن ماجہ، باب ذکر التوبۃ، حدیث نمبر4250
ترجمہ: حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گناہ سے )صدق دل سے شرائط و آداب کے ساتھ (توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔
10: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ الْمُؤْمِنِ مِنْ رَجُلٍ فِي أَرْضٍ دَوِّيَّةٍ مَهْلِكَةٍ مَعَهُ رَاحِلَتُهُ عَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ فَنَامَ فَاسْتَيْقَظَ وَقَدْ ذَهَبَتْ فَطَلَبَهَا حَتَّى أَدْرَكَهُ الْعَطَشُ ثُمَّ قَالَ أَرْجِعُ إِلَى مَكَانِيَ الَّذِي كُنْتُ فِيهِ فَأَنَامُ حَتَّى أَمُوتَ فَوَضَعَ رَأْسَهُ عَلَى سَاعِدِهِ لِيَمُوتَ فَاسْتَيْقَظَ وَعِنْدَهُ رَاحِلَتُهُ وَعَلَيْهَا زَادُهُ وَطَعَامُهُ وَشَرَابُهُ فَاللَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ الْعَبْدِ الْمُؤْمِنِ مِنْ هَذَا بِرَاحِلَتِهِ وَزَادِهِ۔
صحیح مسلم ، باب فی الحض علی التوبۃ ، حدیث نمبر4929
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ نے فرمایا: مومن بندے کی توبہ سے اللہ تعالیٰ اس سے بھی کہیں زیادہ خوش ہوتے ہیں جیسے کوئی مسافر شخص کسی ایسی وادی میں پہنچا جو بالکل بیابان اور ہلاکت خیز تھی اس کی سواری پر اس کا سامان ، کھانا پینا وغیرہ موجود تھا ، اسے نیند آئی وہ سو گیا جب نیند سے بیدار ہوا تو دیکھا کہ اس کی سواری موجود نہیں تھی ، اس کی تلاش میں وہ گھوما ، گرمی اور پیاس نے اس کا برا حال کردیا ، پھر وہ مایوس ہو کر واپس آگیا کہ اور یہ سوچ کر سو گیا کہ اب موت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔
اچانک اس کی آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی سواری اس کے سامنے موجود ہے تو اس شخص کو جس قدر سواری کے مل جانے سے خوشی حاصل ہوئی اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کی توبہ سے اس سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں ۔
11: عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ حَدِيثًا لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ إِلَّا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ حَتَّى عَدَّ سَبْعَ مَرَّاتٍ وَلَكِنِّي سَمِعْتُهُ أَكَثَرَ مِنْ ذَلِكَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كَانَ الْكِفْلُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا يَتَوَرَّعُ مِنْ ذَنْبٍ عَمِلَهُ فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ فَأَعْطَاهَا سِتِّينَ دِينَارًا عَلَى أَنْ يَطَأَهَا فَلَمَّا قَعَدَ مِنْهَا مَقْعَدَ الرَّجُلِ مِنْ امْرَأَتِهِ أَرْعَدَتْ وَبَكَتْ فَقَالَ مَا يُبْكِيكِ أَأَكْرَهْتُكِ قَالَتْ لَا وَلَكِنَّهُ عَمَلٌ مَا عَمِلْتُهُ قَطُّ وَمَا حَمَلَنِي عَلَيْهِ إِلَّا الْحَاجَةُ فَقَالَ تَفْعَلِينَ أَنْتِ هَذَا وَمَا فَعَلْتِهِ اذْهَبِي فَهِيَ لَكِ وَقَالَ لَا وَاللَّهِ لَا أَعْصِي اللَّهَ بَعْدَهَا أَبَدًا فَمَاتَ مِنْ لَيْلَتِهِ فَأَصْبَحَ مَكْتُوبًا عَلَى بَابِهِ إِنَّ اللّهَ قَدْ غَفَرَ لِلْكِفْل۔
جامع الترمذی ، باب منہ، حدیث نمبر2420
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ نے فرمایا: بنی اسرائیل میں کفل نامی ایک شخص تھا کوئی گناہ کا کام ایسا نہیں تھا جو اس نے نہ کیا ہو ، ایک دن ایک خاتون اس کے پاس آئی تو اس نے اسے60دینار دیے تاکہ وہ اس سے اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کر سکے ، جب وہ اس کے لیےمکمل طور پر تیار ہوگیا تو وہ خاتون کانپنے لگی اور زور زور سے رونے لگی۔
کفل نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ میں پیشہ ور فاحشہ عورت نہیں ہوں،میں نے کبھی یہ کام نہیں کیا ۔ اب میں کسی شدید ضرورت کی وجہ سےبے حد مجبور ہو گئی ہوں ۔
کفل نے اس خاتون کو کہا کہ اگر یہ بات ہے کہ تونے کبھی یہ برا کام نہیں کیا تو جا میں بھی تمہیں کچھ نہیں کہتا یہ رقم بھی اپنے پاس رکھ لے اور ساتھ میں یہ بھی کہا : اللہ کی قسم آج کے بعد میں کبھی بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔
وہ شخص رات کو فوت ہوا جب صبح ہوئی تو اس کے گھر کے دروازے پر یہ لکھا ہوا موجود تھا : ان اللہ قد غفر للکفل ۔ اللہ تعالیٰ نے کفل کی مغفرت کر دی ہے ۔