قسط-25 -جمعۃ الوداع اور قضائے عمری

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
قسط-25 جمعۃ الوداع اور قضائے عمری
اللہ تعالیٰ ہم گناہ گاروں کا شمار اُن خوش قسمت لوگوں میں فرما دیں جن کی اس ماہِ مقدس میں مغفرت ہو جاتی ہے اور وہ جہنم سے آزاد ہو جاتے ہیں،سردار مہینے کا سردار دن یعنی رمضان المبارک کا جمعۃ المبارک(جمعۃ الوداع )آ چکاہے،اس عظیم الشان دن کو پورے ادب و احترام کے ساتھ عبادات میں گزاریں۔ جو مسنون اعمال جمعۃ المبارک میں ادا کیے جاتے ہیں ان کو پوری اطمینان قلبی سے مکمل کریں ، مزید یہ کہ اس دن صلوٰة التسبیح ، تلاوت قرآن ، ذکر اللہ ، درود پاک اورصدقہ و خیرات جیسے مبارک اعمال خوب خوب کریں۔
اس کے بعد اللہ کے حضور رو رو کر دعائیں کریں کہ یا اللہ ہمیں رمضان کے بابرکت ایام بالخصوص سید الایام( جمعۃ المبارک) کا دن بار بار نصیب فرما اور اگر ہماری زندگی کا یہ آخری رمضان اور آخری جمعۃ الوداع ہے تو اے باری تعالیٰ اس کو ہماری مغفرت اور جہنم سے نجات کا ذریعہ بنا اور اس بات کوبھی اچھی طرح یاد رکھیں کہ ہماری مغفرت اور نجات کا دارومدار اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع میں ہے۔ زمانے کے رسوم و رواج ، معاشرے کے خودساختہ خرافات اور بدعات یہ سب اللہ کے ہاں مواخذے اور پکڑ کا باعث ہیں نجات کے نہیں۔
ہماری قوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ عبادات میں افراط و تفریط کی شکار ہے۔ سنت میں بدعت کی ملاوٹ اور دین کے ثابت شدہ احکام و مسائل میں کمی و بیشی کا مرض اس کا سب سے بڑا المیہ ہے، چنانچہ جمعۃ الوداع کے بارے میں بھی ہماری قوم اسی صورتحال سے دوچار ہے۔ بطور خاص اس دن جس مسئلہ کو زیادہ زیر بحث لایا جاتا ہے وہ ہے فوت شدہ نمازوں کو ادا کرنے کا۔ افسوس صد افسوس کہ بعض کم علم بلکہ احکام شریعت سے لاعلم لوگوں نے نماز جیسے دینی معاملے کو بھی اپنی اوٹ پٹانگ خواہشات کے تابع بنانے کی کوشش کی اور امت کو افراط و تفریط کے دو پاٹوں میں پاٹنے کا جرم کیا۔
ایک گروہ نے تو یہ نظریہ بنالیا کہ قضاءشدہ نمازوں کو ادا کرنے کی ضرورت نہیں محض توبہ ہی سے کام چلا لیا جائے۔ جبکہ دوسری طرف بعض لوگوں نے اس عبادت کا حلیہ بگاڑتے ہوئے یہ حل نکالا کہ ساری زندگی کی نمازیں ادا کرنا بہت دشوار ہے اس لیے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو قضائے عمری کے نام سے ایک نئی نماز ایجاد کی اور یہ کہا کہ صرف چار رکعتوں کو مخصوص طریقے سے ادا کر لینے سے ساری عمر کی نمازیں ادا ہو جائیں گی۔اس سوچ کے حامل افراد رمضان المبارک میں اس مخصوص نماز کے جھوٹے میسجز پھیلاتے ہیں، جس کی وجہ سے امت کا ایک بہت بڑا طبقہ ان کی گمراہی کے جال میں پھنس جاتا ہے ، عام سادہ لوح مسلمان بھی اسے صحیح سمجھ کر اپنی زندگی بھر کی نمازیں ادا نہیں کرتے اور اس نماز کو پڑھ لینے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں قضاءشدہ نمازوں کو ادا کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہی۔
جبکہ شریعت اسلامیہ کا حکم یہ ہے کہ قضاءشدہ نمازیں نہ تو محض توبہ سے ذمہ سے معاف ہوتی ہیں اور نہ رمضان المبارک کے آخری جمعۃ المبارک کو چار رکعات کی مخصوص نماز کو ادا کرلینے سے ساری نمازیں ادا ہوتی ہیں بلکہ قضاءشدہ نمازوں کو ادا کرنا ضروری ہے۔آج کل کے تیز رفتار زمانے کے سست رفتار مسلمان کی حالت قابل توجہ بھی ہے ،قابل رحم بھی اور قابل اصلاح بھی ہے۔ اول تو بہت سے مسلمان نماز ادا ہی نہیں کرتے، اگر کبھی پڑھ بھی لیں تو شرائط و آداب اور حقوق کا بالکل خیال نہیں کرتے اور خشوع وخضوع سے خالی نماز محض اٹھک بیٹھک کا نمونہ پیش کرتی ہے اور بس۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان اہم العبادات (نماز)کے چھوٹ جانے پر نادم ہوتے، توبہ تائب ہوتے اور شریعت کے حکم کے مطابق اپنی قضاءشدہ نمازوں کو جلد ادا کرتے لیکن افسوس کہ احساس ندامت مٹتا جا رہا ہے۔آئیے قرآن و سنت کی روشنی میں مختصر دلائل ذکر کرتے ہیں ، ملاحظہ فرمائیں:
1: عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَهَا لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ
صحیح بخاری، باب من نسی صلاۃ ، حدیث نمبر 597
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو شخص نماز کو( اپنے وقت پر پڑھنا) بھول جائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ جب بھی اس کو یاد آئے(کہ اس نے فلاں نماز نہیں پڑھی)تو اسے چاہیے کہ وہ نماز پڑھے اس کے علاوہ اس کا کوئی کفارہ نہیں۔
نوٹ : صحیح مسلم میں یہی حدیث کچھ چند الفاظ کے اختلاف کے ساتھ موجود ہے۔
2: عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الرَّجُلِ يَرْقُدُ عَنْ الصَّلَاةِ أَوْ يَغْفُلُ عَنْهَا قَالَ كَفَّارَتُهَا أَنْ يُصَلِّيَهَا إِذَا ذَكَرَهَا۔
سنن نسائی، باب من نسی الصلاۃ، حدیث نمبر610
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو نماز کے وقت میں سو جائے یا غفلت کی وجہ سے چھوڑ دے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب بھی اسے اپنی قضاءشدہ نماز یاد آئے تو وہ اسے پڑھ لے۔
3: عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا كَانَ يَقُولُ مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلَمْ يَذْكُرْهَا إِلَّا وَهُوَ مَعَ الْإِمَامِ فَإِذَا سَلَّمَ الْإِمَامُ فَلْيُصَلِّ الصَّلَاةَ الَّتِي نَسِيَ ثُمَّ لِيُصَلِّ بَعْدَهَا الْأُخْرَى۔
موطا امام مالک ، باب الرجل یصلی فیذکر ان علیہ صلاۃ فائتۃ ، حدیث نمبر 584
ترجمہ: حضرت نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص نماز پڑھنا بھول جائے، پھر امام کے ساتھ نماز پڑھتے وقت اس کو اپنی چھوڑی ہوئی قضاءنماز یاد آجائے تو جب امام سلام پھیرے تو اس کو چاہئے کہ پہلے وہ بھولی ہوئی قضاءنماز پڑھے پھر اس کے بعد دوسری نماز پڑھے۔
4: عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ شَغَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّى ذَهَبَ مِنْ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ۔
جامع ترمذی، باب ماجاء فی الرجل تفوتہ الصلوات، حدیث نمبر 164
ترجمہ: حضرت ابو عبیدہ بن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ غزوہ خندق والے دن مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چار نمازیں پڑھنے سے رو ک دیا تھا یہاں تک رات کا کچھ حصہ گذر گیا، جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا تو انہوں نے اذان دی اور پھر اقامت کہی، پس ظہر کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی تو عصر کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی تو مغرب کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی اور عشاءکی نماز پڑھی۔
نوٹ: معلوم ہوا کہ اگر نماز کسی بھی وجہ سے یہاں تک کہ جہاد جیسے عظیم فریضے کی ادائیگی کے دوران بھی قضاءہو جائے تب بھی اس کو بعد میں ادا کرنا ضروری ہے۔
5: قَالَ الاِمَامُ الھُمَّامُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْبُخَارِیُّ فِیْ صَحِیْحِہِ ۔۔وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ مَنْ تَرَكَ صَلَاةً وَاحِدَةً عِشْرِينَ سَنَةً لَمْ يُعِدْ إِلَّا تِلْكَ الصَّلَاةَ الْوَاحِدَةَ۔
صحیح بخاری، باب من نسی صلاۃ فلیصل اذا ذکرھا
ترجمہ: امام بخاری رحمہ اللہ؛ حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں: جس شخص نے ایک نماز چھوڑ دی تو (اگرچہ)بیس سال بھی گزر جائیں تو وہ شخص اسی اپنی قضاءشدہ نماز کو ادا کرے۔
6: فَالْأَصْلُ فِيهِ أَنَّ كُلَّ صَلَاةٍ فَاتَتْ عَنْ الْوَقْتِ بَعْدَ ثُبُوتِ وُجُوبِهَا فِيهِ فَإِنَّهُ يَلْزَمُ قَضَاؤُهَا سَوَاءٌ تَرَكَهَا عَمْدًا أَوْ سَهْوًا أَوْ بِسَبَبِ نَوْمٍ وَسَوَاءٌ كَانَتْ الْفَوَائِتُ كَثِيرَةً أَوْ قَلِيلَةً۔
بحر الرائق ، فصل الصوم علی التراخی وقضاء الصلاۃ علی الفور الا بعذر
ترجمہ: امام ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اصول یہ ہے کہ ہر وہ نماز جو کسی وقت میں واجب ہونے کے بعد رہ گئی ہو ، اس کی قضاءلازم ہے خواہ انسان نے وہ نماز جان بوجھ کر چھوڑی ہو یا بھول کر ، یا نیند کی وجہ سے نماز رہ گئی ہو۔ چھوٹ جانے والی نمازیں زیادہ ہوں یا کم ہوں۔)بہر حال قضا لازم ہے (
7: حَاصِلُ الْمَذْهَبِ أَنَّهُ إِذَا فَاتَتْهُ فَرِيضَةٌ وَجَبَ قَضَاؤُهَا وَإِنْ فَاتَتْ بِعُذْرٍ ۔۔ وَإِنْ فَاتَتْهُ بِلَا عُذْرٍ وَجَبَ قَضَاؤُهَا عَلَى الْفَوْرِ عَلَى الْأَصَحِّ۔
شرح مسلم للنووی ،باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ ، تحت حدیث من نسی الصلاۃ
ترجمہ: مشہور شارحِ مسلم علامہ نووی شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس شخص کی نماز فوت ہوجائے اس کی قضاءاس پر ضروری ہے خواہ وہ نماز کسی عذر کی وجہ سے رہ گئی ہو … اور بھول یا بغیر عذر کے چھوٹ گئی ہو۔
8: مَنْ قَضَى صَلَاةً مِنَ الْفَرَائِضِ فِي آخِرِ جُمُعَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ كَانَ ذَلِكَ جَابِرًا لِكُلِّ صَلَاةٍ فَائِتَةٍ فِي عُمُرِهِ إِلَى سَبْعِينَ سَنَةً بَاطِلٌ قَطْعًا لِأَنَّهُ مُنَاقِضٌ لِلْإِجْمَاعِ عَلَى أَنَّ شَيْئًا مِنَ الْعِبَادَاتِ لَا يَقُومُ مَقَامَ فَائِتَةِ سَنَوَاتٍ .
الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ ، حدیث نمبر 519
ترجمہ: علامہ ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہ روایت کہ جو شخص رمضان کے آخری جمعہ میں ایک فرض نماز قضاءپڑھ لے تو ستر سال تک اس کی عمر میں جتنی نمازیں چھوٹی ہوں گی ان سب کی ادائیگی ہو جائے گی یہ روایت قطعی طور پر جھوٹ پر مبنی ہے اس لیے کہ یہ حدیث اجماع کے خلاف ہے۔ جبکہ اجماع اس پر ہے کہ کوئی بھی عبادت سالہاسال کی چھوٹی ہوئی نمازوں کے قائم مقام نہیں ہو سکتی۔
نوٹ: فقہاءنے اس بات کی تصریح کی ہے کہ قضاءشدہ نمازوں میں سے صرف فرض نمازوں اور وتروں کو ادا کیا جائے سنتوں اور نوافل کی قضاءنہیں کی جائے گی۔
اللہ پاک ہمیں شریعت کے احکام پر قرآن و سنت کے مطابق عمل کی توفیق نصیب فرمائے اور بدعات و خرافات سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن
اسلام آباد ، پاکستان
جمعرات ، 22جون ، 2017ء