قسط-43 قربانی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط-4 3قربانی
اللہ تعالیٰ کا مبارک نام لے کر اللہ کے نام پر اللہ کی رضاء حاصل کرنے کے لیے ماہ ذوالحج کی 10 ، 11 اور 12 تاریخ تک متعین جانور ذبح کرنا ”قربانی“ کہلاتا ہے۔ عبادات میں قربانی کی بہت اہمیت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے شروع ہوئی اور اُمتِ محمدیہ علی صاحبہا السلام تک برابر مشروع چلی آرہی ہے، ہرمذہب وملت کا اس پرعمل رہا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِنْ بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ۔
سورۃ الحج آیت نمبر 34
ترجمہ: ہم نےہر امت کےلئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ چوپائیوں کے مخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نےعطاء فرمائے۔
قربانی والی عبادت اگرچہ ہرامت میں رائج رہی ہے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں یہ عمل خصوصی اہمیت اختیار کر گیا،اسی وجہ سے اسے ’’سنتِ ابراہیمی‘‘ بھی کہاجاتا ہے چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے محض اللہ کی رضامندی کےلیے اپنے لخت جگرحضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کیلئے پیش کیا تھا۔ اسی عمل کی یاد میں دنیا بھر کے اہل اسلام ہر سال قربانی کرتے ہیں۔قربانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ کے ہر حکم پر ہرقسم کی قربانی کےلئے ہر وقت تیار رہنا چاہیے اور جان و مال کی محبت کو چھوڑ کرخالص اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا کرنی چاہیے دراصل یہی قربانی کی حقیقت اور روح ہے ۔ اسی بات کا سبق قرآن کریم میں ملتا ہے:اِنَّ صَلاَ تِی وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَا تِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
سورۃ الانعام آیت نمبر 162
ترجمہ: میری نماز، میری قربانی، میرا جینا ،میرامرنا سب اللہ کی رضا مندی کےلئے ہے جو تمام جہانوں کاپالنے والا ہے۔
یہ ایسا عمل ہے کہ ان دنوں میں اس عمل سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو اور کوئی عمل محبوب نہیں ۔ چنانچہ
1: عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَاعَمِلَ آدَمِیٌ مِنْ عَمَلٍ یَوْ مَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ اَنَّہْ لَیَأ تِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقُرُوْنِھَا وَاَشْعَارِھَا وَاَظْلاَفِھَا وَاِنَّ الدَّمَ یَقَعُ مِنَ اللّٰہِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ مِنَ الْاَرْضِ فَطِیْبُوْا بِھَا نَفْساً•
جا مع الترمذی با ب ما جاء فی فضل الاضحیہ،حدیث نمبر 1413
ترجمہ: ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: عید الاضحیٰ کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نز دیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں، سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کےہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے، لہذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو ۔
2: عَنْ اِبْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْھُمَا قَالَ اَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِیْنَۃِ عَشَرَسِنِیْنَ یُضَحِّیْ•
جامع الترمذی، ابواب الاضاحی، حدیث نمبر 1427
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا (اس قیام کے دوران) آپ قربانی کرتے رہے۔
3: عَنْ زَیْدِ ابْنِ اَرْقَمَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا ھٰذِہِ الاَضَاحِیُّ قَالَ سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ قَالُوْا فَمَا لَنَا فِیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ قَالُوْا فَالصُّوْفُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِنَ الصُّوْفِ حَسَنَۃٌ•
سنن ابن ماجہ، باب ثواب الاضحیہ، حدیث نمبر 3127
ترجمہ: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا: یارسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ (یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت (اور طریقہ) ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہم نےعرض کیا کہ ہمیں قربانی کے کرنے سے کیا ملے گا؟ فرمایا ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے (پھر سوال کیا) یارسول اللہ! اون (کے بدلے میں کیا ملے گا) فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔
4: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا اُنْفِقَتِ الْوَرَقُ فِیْ شَئْیٍ اَفْضَلُ مِنْ نَحِیْرَۃٍ فِیْ یَوْ مِ الْعِیْدِ•
سنن الدارقطنی ،با ب الصید والذبائح ، حدیث نمبر 4815
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالی کے ہاں کسی خرچ کی فضیلت اس خرچ سے ہرگز زیادہ نہیں جو بقرعید والے دن قربانی پر کیا جا ئے ۔
اس کے علاوہ بھی متعدد روایات میں قربانی کی اہمیت و فضیلت واضح ہوتی ہے ۔ لہذا اسے حکم الہٰی سمجھ کر اللہ کی رضاء اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات جان کر اس پر عمل کیا جائے ۔
لمحہ فکریہ! آج کل بہت سے وہ لوگ جن کے دل میں اسلامی احکامات کی قدر نہیں یا قدر تو ہے لیکن سمجھ نہیں وہ یوں کہتے ہیں کہ اس سے بہتر ہے کہ آدمی کسی رفاہی کام پر ان پیسوں کو خرچ کر لے ۔ یہ سوچ اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ اللہ کے حکم کی قدر و منزلت دل میں معمولی حیثیت اختیار کر چکی ہے ورنہ اللہ حکیم و خبیر کا حکم ہو اور اس میں انسانیت کا نفع نہ ہو ،یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ اللہ تعالی کا ہر حکم انسانیت کی دنیا و آخرت کی فلاح و بہبود کا ضامن ہے۔
اس لیے ان باتوں میں الجھ کر اللہ رحیم کے حکم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقےکو العیاذ باللہ بے وقعت اور فضول سمجھنا بہت بڑی بے وقوفی ہے اگر اس میں مزید تقویت پیدا کی جائے تو ایمان کمزور ہوتے ہوتے ختم ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالی اپنی مخلوق سے جس قدر پیار کرتے ہیں اتنا کوئی نہیں کر سکتا، قربانی بھی در حقیقت اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق سے محبت کا اظہار ہے کیونکہ محبوب اپنے محب سے بطور محبت کے ہی مانگتا ہے ۔ اگر محبت نہ ہو تو کون مانگتا ہے ۔ جب ہم اللہ سے کچھ مانگیں تو اس میں بھی محتاجی سے بڑھ کر محبت کو شامل حال کرنا چاہیے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا رحم و کرم کرنے والا نہ آج تک پیدا ہوا اور نہ ہی قیامت تک پیدا ہو سکتا ہے ۔ لیکن آپ دیکھ لیجیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود رحمۃ للعالمین ہونے کے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ قربانی کرنے سے بہتر ہے کہ کسی رفاہی اور سماجی کام میں اس رقم کو خرچ کر لو۔ یہ بات بھی بالکل بجا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایثار ، ہمدردی اور جذبہ خیر خواہی کی جیسی تعلیم ارشاد فرمائی ایسی تعلیم بھی کہیں نہیں ملتی اور جیسا خود عمل کر کے دکھایا ایسا اسوہ حسنہ بھی کہیں نہیں ملتا ۔
اللہ تعالیٰ خودرحمان و رحیم ہیں آپ کے محبوب رؤف و رحیم بلکہ رحمۃ للعالمین ہیں لیکن نہ اللہ تعالیٰ نے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ایسی کوئی بات ارشاد فرمائی ہے ۔ بلکہ اس سے بڑھ کر اس سوچ کی واضح طور پر تردید فرمائی ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ کو سب سے بڑھ کرقربانی کے لیے جانور کا خون بہانے والا عمل پسند ہے۔
نوٹ: وہ ممالک جہاں کل بروز جمعۃ المبارک ذوالحج کی 9 تاریخ ہو گی وہاں کے لوگ نویں ذی الحج عرفہ کا روزہ رکھنے کا اہتمام فرمائیں ۔ بعض لوگ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ایسے میسجز چلا رہے کہ عرفہ کے بارے صرف سعودی عرب کے دن اور تاریخ کا اعتبار کیا جائے گا ہر ملک کا نہیں ۔ درست بات یہی ہے کہ ہر ملک میں نویں ذوالحج کا اعتبار ہو گا ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت کے منشاء اور مزاج کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ ،مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا جمعرات، 31 اگست، 2017ء