قسط-46 اَمن و اَمان

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط-46 اَمن و اَمان
اللہ تعالیٰ کے ہاں ایمان کے بعد بڑی نعمت امن و امان ہے ، اس لیے ذات باری تعالیٰ نے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر اس کو انعام اور احسان کے طور پر ذکر فرمایا ہے ۔21 ستمبر کو دنیا بھر میں عالمی یوم امن مختلف انداز میں منایا جاتاہے۔ ہرمذہب سے وابستہ قوم اسے اپنےاپنے زوایہ نگاہ سے دیکھتی ہے جبکہ اہلیان اسلام اسے قرآن و سنت کی روشنی میں اپنانے پر زور دیتے ہیں ۔ اسلامی زاویہ نگاہ میں امن و امان کی اہمیت و حیثیت کیا ہے ؟ آیات قرآنیہ کے حوالے سے مختصر طور پر چند باتیں ذکر کی جاتی ہیں ۔
امن کی بنیاد؛ بنیادی عقیدہ توحید سے ملی ہوئی ہے اور روئے زمین پر توحید کی مضبوط بنیاد بیت اللہ شریف کی بنیاد سے ہی مربوط ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کعبۃ اللہ کو امن کی بنیاد ، امن کا مقام اور امن کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں امن و امان سے متعلقہ بہت سی آیات کریمہ کا تعلق بیت اللہ کے ساتھ ہے ۔ چند آیات ملاحظہ فرمائیں :
1: وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا۔
سورۃالبقرۃ آیت نمبر 125
ترجمہ: اور جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے عبادت گاہ اور امن کی جگہ بنایا۔
2: وَمَنْ دَخَلَـهٗ كَانَ اٰمِنًا۔
سورۃ آل عمران آیت نمبر 97
ترجمہ: اور جو اس میں داخل ہو جائے وہ امن والا ہو جاتا ہے۔
3: أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا۔
سورۃ العنکبوت آیت نمبر 67
ترجمہ : کیا وہ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم (مکہ)کو پرامن بنا دیا ہے۔
4: أَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَهُمْ حَرَمًا آمِنًا۔
سورۃ القصص آیت نمبر 57
ترجمہ: ہم نے ان کے لیے حرم کو مقام امن بنایا۔
5: فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ
سورۃ القریش آیت3،4
ترجمہ: انہیں چاہیے کہ اس گھر (کعبہ) کے مالک کی (ہی) عبادت کریں۔ جس نے انہیں بھوک (کے دنوں) میں کھانا کھلایا اور انہیں خوف سے (بچا کر) امن عطا کیا ۔
فائدہ: اسی آیت کے تحت مفسرین نے لکھا ہے : ولکون البیت باعثا لامنھم۔ کیونکہ بیت اللہ لوگوں کے امن کا باعث ہے ۔
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے بیت الحرام کو لوگوں کے دینی و دنیاوی امور میں درستگی و اصلاح کا سبب بنایا ہے ۔ حج ، عمرہ جیسے مبارک اعمال جن کی ادائیگی کا تعلق براہ راست کعبۃ اللہ سے ہے اسی طرح نماز کے لیے بطور قبلہ بھی بیت اللہ شریف ہے۔اس کے علاوہ اس جگہ پر انسان تو انسان جانوروں تک کو امن حاصل ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ہے :
6: جَعَلَ اللهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ
سورۃ المائدہ، آیت نمبر97
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے کعبہ بزرگی والے گھر کو لوگوں کی بقاء کا باعث کر دیا ہے۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کی خالص توحید اپناتا ہے اور شرک سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے امن والا قرار دیتے ہیں،قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنی مشرک قوم سے توحید اور شرک کے عنوان پر مکالمہ موجود ہے:
7: قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ O وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ O الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَO
سورۃ الانعام،آیت نمبر 80 تا 82
ترجمہ: )حضرت ابراہیم علیہ السلام نے( کہا : کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو، حالانکہ اس نے مجھے ہدایت دی ہے اورجنہیں تم اللہ کا شریک سمجھتے ہو میں ان سے نہیں ڈرتا مگر یہ کہ جو میرا رب چاہے، میرے رب نے ہر چیز کا علم سے احاطہ کر رکھا ہے ،کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟۔ اور )بھلا (میں کیوں ڈروں ان سے جن کو تم )اللہ کا (شریک بناتے ہو؟
حالانکہ تم انہیں اللہ کے شریک بنانے سے نہیں ڈرتے، جس کی کوئی دلیل اللہ نے تم پر نہیں اتاری،)بتاؤ(دونوں گروہوں میں سے امن کا زیادہ حق دار کون ہے؟اگر تم جانتے ہو۔ )اور اگر تم نہیں جانتے تو پھر اچھی طرح سن لو کہ ( جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا یہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں۔
فائدہ: اس سے معلوم ہوا کہ امن و امان کےصحیح معنوں میں حق دار بھی اہل ایمان ہیں اور امن و امان کا قیام بھی انہی سے وابستہ ہے ۔
جیسے امن و امان کی ضرورت دنیاوی معاملات میں پیش آتی ہے اسی طرح بعض دینی عبادات میں بھی اس کو بہت دخل ہے۔ اہم العبادات نماز کے بارے قرآن کریم میں ہے :
8: فَإِذَا اطْمَأْنَنْتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ
سورۃ النساء، آیت نمبر103
ترجمہ: جب اطمینان حاصل کر لو تو )مکمل(نماز ادا کرو۔
اسی طرح جامع العبادات حج کے بارے قرآن کریم میں ہے :
9: فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ
سورۃ البقرة ، آیت نمبر196
ترجمہ: جب تم پُر امن ہو جاؤ تو جو شخص حج کے ساتھ عمرہ بھی کرے تو وہ میسر قربانی کرے۔
بسا اوقات حالت امن میں کی گئی عبادات حالت خوف میں کی گئی عبادات سے زیادہ بہتر ہوتی ہیں، قرآن کریم میں ہے:
10: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ۔
سورۃ النور،آیت نمبر55
ترجمہ: تم میں سے مومن اور نیکو کار لوگوں کے ساتھ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں زمین پر ایسے ہی خلافت عطا کرے گا جیسے تم سے پہلے لوگوں کو عطا کی تھی اور ان کے دین کو مضبوط کرے گا جسے اللہ نے پسند کیا ہے ان لوگوں کے لیے اور ان کے خوف کو امن میں تبدیل کر دے گا۔ )چنانچہ( وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے اور جو اس کے بعد کفر کرے تو وہی فاسق ہیں ۔
جس طرح امن و امان کا تعلق عبادات سے ہے اسی طرح مستحکم معیشت کا تعلق بھی امن و امان سے وابستہ ہے لیکن یہ اس وقت تک جب تک اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کیا جائے اور جب انسان ناشکری پر اتر آئے تو امن کی جگہ بھوک وافلاس اور خوف و ہراس لے لیتی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ہے :
11: وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ ۔
سورۃ النحل آیت نمبر 112
ترجمہ: اللہ تعالیٰ ایک بستی کی مثال بیان کرتا ہے۔ جو امن و چین سے رہتی تھی اور ہر طرف سے اس کا رزق اسے وسیع مقدار میں پہنچ رہا تھا۔ پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کے کرتوتوں کا مزا یہ چکھایا کہ ان پر بھوک اور خوف (کا عذاب) مسلط کردیا۔
مذکورہ بالا آیات قرآنیہ سے یہ بات اچھی طرح سمجھ آ رہی ہے کہ امن و امان انسانیت کی بنیادی ضروریات میں اولین حیثیت رکھتا ہے ۔ فراہمی امن کے بعد درجہ بدرجہ انسانی ضروریات کا دائرہ پھیلتا جاتا ہےچونکہ اسلام امن وامان کا اکیلا علمبردار ہے اس لیے عارضی دنیا اور دائمی آخرت کی فلاح اور کامیابی اسی سے وابستہ کر دی گئی ہے۔قرآن کریم انسانیت کو جھنجوڑتے ہوئےان الفاظ سے دعوت فکر دیتا ہے:
12: اِنَّ الَّـذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِىٓ اٰيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ۗ اَفَمَنْ يُّلْقٰى فِى النَّارِ خَيْـرٌ اَمْ مَّنْ يَّاْتِـىٓ اٰمِنًا يَّوْمَ الْقِيَامَةِ ۔
سورۃ فصلت ، آیت نمبر 40
ترجمہ: بے شک جو لوگ ہماری آیات میں الحاد )تکذیب یا تحریف (کے مرتکب ہوتے ہیں وہ ہم سے چھپے نہیں رہتے، کیا وہ شخص جو آگ میں ڈالا جائے گا وہ بہتر ہے یا وہ شخص جو قیامت کے دن امن کے ساتھ آئے گا۔
یہ بات بھی یاد رہے کہ معاشرے سے امن و امان کو مخدوش یا تباہ کرنے والے جرائم پیشہ افراد کو حکومت کی جانب سےسزا دی جائے، لوگوں کی جانوں کے تحفظ اور انہیں پرامن رکھنے کے لیے بدمعاشوں ، غنڈوں اور قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لا کر سزا دی جائے ۔ اسی طرح لوگوں کے اموال کے تحفظ اور انہیں پر امن رکھنے کے لیے چوروں، لٹیروں اور ڈاکووں، فریب کاروں ،کرپشن مافیااور بھتہ مافیا کو قانون کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا دی جائے ۔
اسی طرح لوگوں کی عزت و آبرو کے تحفظ اور انہیں پرامن رکھنے کے لیے ظالموں اور جابروں کو قانون کے کٹہرے میں لا کر عبرت ناک سزا دی جائے۔ لیکن جب تک ان عناصر کو کھلی چھوٹ دی جاتی رہے اور بے گناہوں پر ظلم و ستم جاری رہے تو قیام امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
قارئین !قرآن کریم کے مطالعے سے جہاں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ امن و امان کے لیے توحید ، انصاف ، نیکی ، شکران نعمت اور حرمین شریفین کا تحفظ ضروری ہے وہاں یہ بات خود بخود امن و امان کو سبوتاژ کرنے والے مندرجہ ذیل امور معلوم ہو جاتے ہیں۔
1: شرک
2: ظلم
3: گناہ
4: ناشکری
5: حرمین شریفین کا عدم تحفظ
ان کڑے حالات میں تمام اہلیان اسلام بالخصوص مسلمان حکمران متحد ہو کر قیام امن کے لیے مضبوط حکمت عملی اپنائیں بالخصوص برما کے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے جان لیوا مظالم کا سدباب کریں ۔ حقوق انسانیت کی عالمی تنظیموں کو بھی اس معاملے پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔
قارئین کرام!ماضی کے اندوہناک حالات تاریخ کی کتابوں میں پڑھ لیجیے یا موجودہ حالات کو بچشم خود دیکھ لیجیے آپ کےلیے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ اقوام عالم میں سوائے مسلم قوم کے کسی نے بھی قیام امن کے لیے مثبت کردار ادا نہیں کیا بلکہ ہمیشہ قیام امن کے دلربا نعرے کی آڑ میں خون مسلم کی ہولی کھیلی ہے اورآج تک یہ مشق ستم جاری ہے ۔
ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ مجبور ، مقہور ، مظلوم بلکہ مقتول مسلمانوں کو بدامنی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے ۔ عالمی یوم امن جہاں دیگر اقوام کو ظلم سے رکنے کا عندیہ دیتا ہے وہاں پر قوم مسلم کو باہم متحد ہونے کا اشارہ بھی دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن

خانقاہ حنفیہ ، مرکز اھل السنۃ والجماعۃ ، سرگودھا

جمعرات، 21 ستمبر، 2017ء