قسط--47محرم الحرام

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
قسط-47محرم الحرام
اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے ۔یوں تو سارے اوقات ، ماہ و سال اور زمانے اللہ ہی کے ہیں لیکن بعض ایام کو اللہ تعالیٰ نے بطور خاص فضیلت بخشی ہے انہی میں سے ماہ محرم الحرام کے بابرکت ایام بھی ہیں ۔ یہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ کہلاتا ہے چونکہ اس مہینے کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہے اس لیےجہاں یہ حرمت اور تقدس والا مہینہ ہے وہاں پر اس میں عبادت کا حکم بھی دیا گیا ہے،اس کو خلاف شریعت امور،بدعات اور رسومات و خرافات میں ضائع نہیں کرنا چاہیےبلکہ اس بارے جتنی تعلیم شریعت اسلامیہ میں موجود ہے افراط و تفریط سے ب الاتر ہو کر فقط اسی پر عمل کیا جائے ۔
کرنے کے کام :
1: روزہ رکھنا
2: عاشوراء کے دن اہل و عیال پر وسعت کرنا
متعدد احادیث مبارکہ میں محرم کے روزے رکھنے کی خصوصی ترغیب دی گئی ہے ۔ چند پیش خدمت ہیں :
1: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ صَلَاةُ اللَّيْلِ۔
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والے روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں ۔
صحیح مسلم ، باب فضل صوم المحرم ، حدیث نمبر 1982
اللہ تعالیٰ نے محرم الحرام کے تمام دنوں میں عاشوراء یعنی دسویں محرم کو خاص اہمیت و فضیلت بخشی ہے اپنی اہمیت کے پیش نظر اس میں روزہ رکھنا اور بھی زیادہ فضیلت کا باعث ہے ۔قبل از اسلام بھی اس دن کی تعظیم کی جاتی تھی اسلام نے آ کر اس کو باقی رکھا ۔ چنانچہ
2: عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ دَخَلَ (قَدِمَ) النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَإِذَا أُنَاسٌ مِنَ الْيَهُودِ يُعَظِّمُونَ عَاشُورَاءَ وَيَصُومُونَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْنُ أَحَقُّ بِصَوْمِهِ فَأَمَرَ بِصَوْمِهِ۔
ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہاں پر یہودی لوگ دسویں محرم کی عظمت کے پیش نظر اس دن روزہ رکھا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم )اہل اسلام(اس دن روزہ رکھنے کے زیادہ حق دار ہیں چنانچہ آپ نے )بامر الہٰی ( روزہ رکھنے کا حکم جاری فرمایا۔
صحیح بخاری ، باب اتیان الیہود النبی حین قدم المدینۃ ، حدیث نمبر 3942
اس روزے کی فضیلت حدیث پاک میں اس طرح موجود ہے ۔
3: عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ…قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ … وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ.
ترجمہ: حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:مجھے اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ یوم عاشورا کا روزہ گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔
صحیح مسلم ، باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام، حدیث نمبر 1976
محترم قارئین !یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ اسلام بذات خود ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، ہر پہلو سے اپنے اندر جامعیت و کمال رکھتا ہے اپنی اسی جامعیت اور کمال کے پیش نظر اپنے ماننے والوں کوالگ سے اپنی شناخت عطا کرتا ہے دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی شکل و صورت ، عبادات و معاملات ،طرز معاشرت ، اخلاقیات ،تہذیب و تمدن اور ان کے کلچر کی مشابہت سے سختی سے روکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ یہود بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں تو آپ علیہ السلام نے اہل اسلام کو تاکیدی حکم دیا کہ تم یہود کی موافقت کے بجائے ان کی مخالفت کرو ۔ چنانچہ
4: عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ حِينَ صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ قَالَ فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےدسویں محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو صحابہ نے عرض کی:اے اللہ کے رسول! اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑی تعظیم و اہمیت دیتے ہیں۔ (یعنی آپ ہمیں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیتے ہیں اور عاشوراء کے روزہ جیسی عبادت میں ان کی مخالفت کے بجائے موافقت ہورہی ہے۔) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آئندہ سال اگر اللہ نے چاہا تو ہم نویں تاریخ کا روزہ )بھی ساتھ (رکھیں گے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اگلا سال آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے۔
صحیح مسلم، باب ای یوم یصام فی عاشوراء، حدیث نمبر 1916
نوٹ: اس لیے حدیث پاک کے مطابق عاشوراء کے روزے کے ساتھ نویں محرم یا پھر گیارہویں محرم کا روزہ ملانا چاہیے تاکہ یہود و نصاریٰ کی مشابہت لازم نہ آئے ۔
دوسرا کرنے کا کام یہ ہے کہ عاشوراء کے دن اہل و عیال پر وسعت سے خرچ کیا جائے ، اس کی برکت سے اللہ کریم رزق کی تنگی اور فقر و فاقہ سے نجات عطاء فرماتے ہیں ۔
5: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ وَسَّعَ عَلَى عِيَالِهِ وَأَهْلِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللهُ عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَتِهِ۔
شعب الایمان للبیہقی ، باب صوم التاسع والعاشر، حدیث نمبر 3515
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دسویں محرم والے دن اپنے گھر والوں پر وسعت کے ساتھ خرچ کرے گا تو اللہ تعالیٰ سارا سال اس)کے رزق میں اور اس کے مال( پر وسعت فرمائے گا ۔