قسط-53 دورہ تربیۃ العلماء

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
قسط-53 دورہ تربیۃ العلماء
اللہ تعالی کے نازل کردہ دین اسلام کے داعی ، مبلغ اور محافظ آج کے دور میں اہل حق علماء کرام ہیں ۔عالم اسباب میں دین اسلام کے تمام شعبے انہی کے وجود سے وابستہ ہیں۔عقائدونظریات،افکار،عبادات،تہذیب،معیشت،معاشرت، معاملات، قیام امن، تعلیم و تعلم،اخلاق و کردار کی پاکیزگی، حسن معاملات،اخوت و محبت، رواداری ، امانت و دیانت ، تقویٰ و پرہیز گاری ،عزت و عظمت ، خلوص و صداقت، جان نثاری وغم گساری، ایثار و ہمدردی اور احترام انسانیت کو دلائل شریعت کی روشنی میں علماء کرام ہی صحیح طور پر جانتے ہیں ۔ یوں سمجھیے کہ انسانی معاشرہ ایک جسم کی مانند ہے اور اس میں علماء کرام کا طبقہ دل کی طرح ہے ، اگر یہ صحیح کام کرتا رہے تو سارا جسم درست رہے گا اور اگ ر اس میں بگاڑ آجائے تو باقی جسم زیادہ دیر باقی نہیں رہ پاتا ۔
ہمارا معاشرہ ایک ایسی کشتی میں سوار ہے جومصائب آلود بھنور میں بری طرح پھنس چکی ہے اورہر طرف سے کفر و شرک ،الحاد و بدعات ، رسومات و خرافات ، گمراہی،جہالت، غیر وں کی غلامی میں جکڑی آزاد خیالی، ہلاکت آفرینی ، تباہی و بربادی، قتل و غارت،لڑائی جھگڑے، انفرادی و اجتماعی ناچاقیاں، باہمی دوریاں، نفرتیں ، پستی اخلاق ، تنزلی کردار اور عدم استحکام کی منہ زور لہریں اس کو ڈبونے کے لیے منہ کھولی کھڑی ہیں ۔
ان سب کے باوجود بحیثیت مجموعی پھر بھی معاشرہ غرق نہیں ہو رہا تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کشتی ران )ملاح (علماء ہیں ، جب تک یہ چپو چلاتے رہیں گے تب تک معاشرہ ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رہے گا اور اگر انہوں نے سستی اور غفلت سے کام لیا، کشتی اسلام کے پیندے میں کسی کو سوراخ کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی تو وہ وقت دور نہیں جب پوری کشتی ساحل پر لگنے کے بجائے بیچ دریا غرق ہو جائے ۔
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الْقَائِمِ عَلَی حُدُودِ اللَّهِ وَالْمُدْهِنِ فِيهَا کَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا عَلَی سَفِينَةٍ فِي الْبَحْرِ فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلَاهَا وَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا فَکَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا يَصْعَدُونَ فَيَسْتَقُونَ الْمَائَ فَيَصُبُّونَ عَلَی الَّذِينَ فِي أَعْلَاهَا فَقَالَ الَّذِينَ فِي أَعْلَاهَا لَا نَدَعُکُمْ تَصْعَدُونَ فَتُؤْذُونَنَا فَقَالَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا فَإِنَّا نَنْقُبُهَا مِنْ أَسْفَلِهَا فَنَسْتَقِي فَإِنْ أَخَذُوا عَلَی أَيْدِيهِمْ فَمَنَعُوهُمْ نَجَوْا جَمِيعًا وَإِنْ تَرَکُوهُمْ غَرِقُوا جَمِيعًا۔
جامع الترمذی، باب منہ ، حدیث نمبر 2173
ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ کے مقرر کردہ حدود پر قائم رہنے والے ( یعنی اس کے احکام کی پابندی کرنے والے ) اور اس کی مخالفت کرنے والوں کی مثال اس قوم کی طرح ہے، جو قرعہ اندازی کے ذریعہ ایک کشتی میں سوار ہوئی، بعض لوگوں کو کشتی کے اوپر والے حصے میں جگہ ملی جبکہ کچھ لوگوں کو نچلے حصہ میں، نچلے طبقہ والے اوپر چڑھ کر پانی لیتے تھے توان اوپر والوں پر پانی گر جاتا تھا،اس وجہ سے کشتی کے اوپر والے حصے کے لوگوں نے کہا: ہم تمہیں تکلیف پہنچانے کے لیے اوپر نہیں چڑھنے دیں گے۔ تو نچلے حصہ والوں نے کہا: ہم کشتی کے نیچے سوراخ کرلیں گےوہاں سے پانی لے لیں گے، اب اگر اوپر کے حصہ والے ان کے ہاتھ پکڑ کر روکیں گے تو سب بچ جائیں گے اور اگر انہیں ایسا نہیں کریں گے تو تمام کے تمام ڈوب کر ہلاک ہو جائیں گے۔
عوام کی ذمہ داری فقط اتنی ہوتی ہے کہ وہ اسلامی احکامات کو سیکھے اور اس پر عمل کرے ۔ جبکہ علماء کی ذمہ داری اس سے سوا ہوتی ہے ، انہوں نے دین سیکھنا بھی ہے ، سکھانا بھی ہے ،خود عمل بھی کرنا ہے اور دوسروں کو ترغیب و ترہیب کے ساتھ عمل پیرا بھی کرنا ہے ، اس کو دوسروں تک پہنچانا بھی ہے ، پھیلانا بھی ہے اس کے ساتھ ساتھ فرقہ بازوں ، فتنہ گروں اور گمراہ گروں سے اسے بچانا بھی ہے ۔
اپنی ہمہ جہت ذمہ داریوں کو احسن انداز میں نبھانے کے لیےاس طرح کی مجلس مذاکرہ کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے جس میں درج ذیل انفرادی خصوصیات موجود ہوں ۔

1.

علماء کرام کو اپنے اپنے دائرہ کار کی حساسیت کا احساس ہو ۔

2.

دعوت و حفاظت دین کا طریقہ اور اسلوب معلوم ہو ۔

3.

دین اسلام کی بنیادیں کھوکھلی کرنے والے علمی و عملی فتنوں سے آگاہی ہو ،محض آگاہی ہی نہیں بلکہ ایسے شرپسند عناصر کی وارداتوں سے بچنے کی تدابیر کا شعور بھی دیا جائے۔

4.

انفرادی اور اجتماعی طور پر پرامن زندگی گزارنے کی ہدایات بھی اس میں موجود ہوں ۔

5.

علم میں رسوخ ، عمل میں پختگی اور اخلاص میں مزید قوت پیدا کرنے کے شوق بارے اصول مذکور ہوں ۔
اس کے لیے محراب مسجد سے لے کر مسند افتاء وقضاء تک ، مصلی امامت سے معاشرے کی قیادت و سیادت تک ، لوگوں کی علمی ، عملی ، معاشرتی ، سماجی و رفاہی ضروریات سے لے کر ان کی اخلاقی، روحانی اور فکری تربیت تک ۔ہر میدان میں حکمت عملی ، بیدار مغزی ، معاملہ فہمی اور اپنے فریضے کی کماحقہ ادائیگی کے لیے فکری تربیت بہت ضروری ہے جبکہ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ درست بات کو درست طریقے اور درست وقت کے انتخاب کے بغیر ذکر کیا جائے تو اُس سے حاصل ہونے والے سارے فوائد کبھی نہیں ملا کرتے۔
حق کی طرف لانا اور باطل سے بچانا ، نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا ، اچھے اخلاق دینا اور برے اخلاق سے ہٹانا یہ منصب نبوت ہے ، تعلیم کتاب و حکمت کے ساتھ ساتھ تزکیہ و احسان کا سبق درس گاہ نبوت سے ملتا ہے ، نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام اپنے مبارک مشن کا جس طبقے کو وارث بناتا ہے وہ علماء کرام کا طبقہ ہے ۔
اگر علماء کرام اپنے اس عظیم ترین منصب کو ہلکا یا العیاذ باللہ گھٹیا سمجھیں ، یا اس کے تقاضوں کو صحیح طور پر نہ نبھائیں ، یا پھر مجرمانہ تغافل سے کام لیں تو ان سے اس بارے پوچھ تاچھ ہو گی ۔
آج ہم جس پستی اور انحطاط کا شکار ہیں اس کی بنیادی وجہ ہر شخص اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر ادا نہیں کر رہا ، اگرہر شخص غیر ذمہ دارانہ رویوں کو چھوڑکر اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کرلے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کےلیے خلوص نیت سے لگ جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرے کو جہالت ،بدامنی اور فساد سے نجات نہ ملے ۔
الحمدللہ !اللہ کریم نے ہمارے دل میں یہ فکر پیدا فرمائی ، اور اس کے لیے مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا کی زمین کا انتخاب کیا ، دورہ تربیۃ العلماء کے عنوان سے علماء کو اپنے فرائض منصبی سے احسن طریقے کے ساتھ عہدہ برآء ہونے کا احساس دلانا ہے اس کے لیے فکری نشستیں جم رہی ہیں ، اہم موضوعات اور عقائد پر ان کی تربیت کی حتی المقدور کوشش جاری ہے ، آج اس کا تیسرا دن ہے۔
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ کی فضائیں اکابر اھل السنۃ والجماعۃ کے مسلک اور منہج سے معمور ہیں ، دور حاضر میں علمی کام کرنے کےلیے پالیسی کے مطابق دورحاضر میں علمی کام کرنے کا طریقہ بتلایا گیا ہے ،علماء کرام کی بہت بڑی تعداد دوردراز سے سفر کر کے یہاں تشریف لائی ہے۔ مجھے اللہ کی ذات پر کامل یقین ہے کہ معاشرےکو جہالت اور بدامنی، فرقہ واریت کی لپیٹ سے نکالنے کے لیے یہ پروگرام اپنے مثبت نتائج لائے گا ۔ ایں دعا از من و جملہ جہاں آمین باد
اللہ تعالیٰ اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے کمی کوتاہی کو معاف فرمائے اورامت کے سب سے زیادہ معزز طبقہ علماء کرام میں احساس ذمہ داری کو بیدار کرنے کا ذریعہ بنائے ۔ آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ ، مرکز اھل السنۃ والجماعۃ ، سرگودھا
جمعرات ، 2 نومبر ، 2017ء