قسط--53 عذاب کے اسباب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط-35عذاب کے اسباب
اللہ تعالیٰ ہمارے خالق بھی ہیں اور مالک بھی ہیں ، خالق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم از خود نہیں بنے بلکہ اس ذات نے ہمیں وجود بخشا اور مالک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمیں جس کام کا حکم دے اور جس بات سے رکنے کا کہے اس کی تمام باتوں کو ماننا ہمارے لیے ضروری ہے ۔ دوسری بات یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ جن باتوں اور کاموں کا حکم دیتے ہیں ان میں خیر ہوتی ہے اور جن امور سے بچنے اور رکنے کا حکم دیتے ہیں ان میں شر ہوتا ہے ،اگرچہ ظاہری طور پر دیکھنے کے اعتبار سے اس کے برخلاف بھی نظر آئے۔
جب تک کوئی قوم اللہ کے نازل کردہ احکامات پر چلتی رہتی ہے تب تک مجموعی طور اس پر تکالیف اور مصائب نہیں اترتیں لیکن جب اسی قوم کی اکثریت اللہ کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتی ہے تو خدا کی طرف سے مصائب و شدائد اس قوم کو گھیر لیتی ہیں ، قرآن کریم میں سابقہ امتوں کی تباہی ،بربادی اور ہلاکت کے اسباب مذکور ہیں کہ فلاں قوم نے فلاں خدائی حکم سے روگردانی کی تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر فلاں عذاب نازل فرمایا ۔ قرآن کریم محض قصے کہانیوں کی کتاب نہیں جس میں قصہ برائے قصہ ہو بلکہ یہ کتاب عبرت کا درس دیتی ہے ، انسان کو سوچنے کی دعوت فکر دیتی ہے۔اللہ تعالیٰ اپنی نافرمان قوموں کو ہلاک فرما دیتے ہیں ، فلاں قوم نے فلاں حکم خداوندی کی خلاف ورزی کی ، تو ان کو فلاں عذاب کے گھاٹ اتار دیاگیا ،لہذا تم ان گناہوں سےخود کو بچانا ۔
احکامات الہٰیہ پر عمل کی دعوت اور منہیات الہیہ سے رکنے کی فکر ہر نبی نے اپنی قوم کو دی ہے ، خصوصاً جناب نبی آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس کی بہت تلقین فرمائی ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے امت کو یہی تعلیم دی ہے ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ: مَا ظَهَرَ الْغُلُولُ فِي قَوْمٍ قَطُّ، إِلاَّ أُلْقِيَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبُ، وَلاَ فَشَا الزِّنَا فِي قَوْمٍ قَطُّ، إِلاَّ كَثُرَ فِيهِمُ الْمَوْتُ، وَلاَ نَقَصَ قَوْمٌ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ، إِلاَّ قُطِعَ عَنْهُمُ الرِّزْقُ، وَلاَ حَكَمَ قَوْمٌ بِغَيْرِ الْحَقِّ، إِلاَّ فَشَا فِيهِمُ الدَّمُ، وَلاَ خَتَرَ قَوْمٌ بِالْعَهْدِ، إِلاَّ سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْعَدُوَّ.
موطا امام مالک ، باب ماجاء فی الغلول ، حدیث نمبر 1325
ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتے ہیں :جب کسی قوم میں حرام مال عام ہو جائے ، تو اللہ رب العزت ان کے دلوں میں خوف اور دہشت بٹھا دیتے ہیں ،اور جب کسی قوم میں زنا )بدکاری(عام ہو جائے تو ان میں موت کی کثرت ہو جاتی ہے اور حادثاتی اموات پھیل جاتی ہیں ، اور جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگے تو ان کے رزق کوگھٹا دیا جاتا ہے اور جب کوئی قوم ظلم و ناانصافی کرنے لگے تو ان میں قتل و قتال عام ہوجاتا ہے ، اور جب کوئی قوم وعدہ خلافی )عہد شکنی(کے جرم کا ارتکاب کرتی ہے تو ان پر دشمن کو مسلط کر دیا جاتا ہے ۔
حدیث مبارک کو بار بار پڑھیں اور پھر ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ آج وہ کون سا جرم ہے جو ہم نہیں کر رہے؟
مال کمانے میں حلال حرام کی تمیز اٹھ چکی ہے ، جائز اور ناجائز سب کچھ چلتا ہے ، سود ، رشوت ، ناحق غصب ، لوٹ کھسوٹ ، چوری چکاری ، ڈکیتی اور فراڈ بازی عام ہے ، ہر شخص دوسرے کو نقصان پہنچانے میں مسلسل آگے بڑھ رہا ہے ۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ ہمارے دلوں میں بزدلی ، مرعوبیت ، خوف اور دہشت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔
زنا تو ہمارے معاشرے کا ایک فیشن بن چکا ہے ، زانی شخص اسے اپنے لیے فخر کی بات سمجھتا ہے ، دوستوں میں بیٹھ کربڑی دیدہ دلیری سے اس کا تذکرہ کرتا ہے کہ میں نے فلاں سے العیاذ باللہ زنا کیا ہے ۔ اس سے بڑھ کر مصیبت یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر کرتا ہے ،ساری زندگی کے لیے اس کے خاندان کو کہیں منہ دکھانے کا نہیں چھوڑتا ، اس کا مستقبل برباد کر دیتا ہے ۔ کسی کی عزت کو داغدار کرنا ہی بہت بڑا جرم ہے، خدانخواستہ اگر کبھی عورت کے دل میں شیطان غلبہ پالے اور وہ باوجود پیکر عفت ہونے کے از خود اس گناہ کی دعوت دے تو شریعت کا حکم ہے اس وقت اس سے کہا جائے کہ انی اخاف اللہ ۔ میں اس بارے اللہ سے ڈرتا ہوں ۔ بہت صبر آزما مرحلہ ہے لیکن اس کی جزا بہت بڑی ہے چنانچہ قیامت کے دن جب سورج بہت ہی قریب ہوگا اور روز حشر کی گرمی لوگوں کو جھلسا رہی ہو گی اس وقت اللہ کریم ایسے شخص کو اپنے عرش کا سایہ فراہم کریں گے ۔
زنا سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اسباب زنا چھوڑ دے ، نامحرم کو دیکھنا ، ملنا ملانا ، میسجز کرنا ، کال کرنا ، میل ملاپ رکھنا ، فلمیں ، ڈرامے ، موسیقی ، گانے ، غزلیں سننا اور دیکھنا ۔ اپنی آنکھوں کی حفاظت کرے ، اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اپنی پناہ میں لے لیتے ہیں اور زنا جیسی لعنت سے محفوظ فرما لیتے ہیں ۔ جب تک انسان بدنظری نہیں چھوڑتا؛ زنا سے بچنا اس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے ۔ اس گناہ کی نحوست اور لازمی نتیجہ کثرت سے اموات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔ باہمی لڑائیاں ، بیماریاں اور قدرتی آفات پھیل جاتی ہیں اور حادثاتی طور پر مرنے کی شرح بڑھ جاتی ہے ۔
حرص و ہوس ایسا مرض ہے جو انسان کو گھٹیا سے گھٹیا کام کرنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ شروع میں یہ ایک نفسانی خواہش ہوتی ہے پھر دھیرے دھیرے اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے وہ اس کی زندگی کا لازمی حصہ بن جاتا ہے ۔ اس کی طبیعت اور فطرت لالچ بن جاتی ہے ۔ حدیث مبارک میں دراصل تاجروں کی ایک گندی خصلت کا تذکرہ ہے کہ وہ چند روپوں کی خاطر ناپ تول میں کمی کرتے ہیں ، خرید و فروخت کے وقت جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں ، دھوکہ دہی سے کام لیتے ہیں ۔ مال تو بک جاتا ہے لیکن مال کے بکنے سے پہلے انسان کا ایمان بھی بک چکا ہوتا ہے ۔ اسی وجہ سے گھروں میں خیر باقی نہیں رہتی ۔ مال کی کثرت کے باوجود اس میں برکت نظر نہیں آتی ۔اسباب تعیش کے باوجود راحت مقدر نہیں بن سکتی ۔
ظلم اور ناانصافی اس وقت ہمارے پورے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ شمار کیا جاتا ہے ۔انسان میں ظلم و انصافی کا مرض اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ طاقت اور اقتدار کے نشے میں مست ہو جاتا ہے اور خوف خدا اس کے دل سے نکل جاتا ہے ۔ غلبہ و دبدبہ کا زعم اس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کردیتا ہے ۔ مخلوق خدا کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ تو مخالفین کے ساتھ معاملات کے نازک موقع پر بھی عدل کا حکم دیتے ہیں ۔ قرآن کریم میں ہے :
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا۔
سورۃ المائدہ ، آیت نمبر 8
مفہوم آیت : کسی قوم سے دشمنی تمہیں عدل و انصاف کی خلاف ورزی پر مجبور نہ کرے ۔ عدل کرو ۔
لیکن جب ظلم پل کر جوان ہوتا ہے تو وہ معاشرے سے امن و سکون ، عدل و انصاف ، راحت و سرور اور خوشحالی و ترقی کو مار ڈالتا ہے ۔ اس کے دست ستم سے معاشرہ زخموں سے بری طرح گھائل ہو جاتا ہے ، قتل و قتال عام ہو جاتا ہے ۔بالخصوص جب کسی شخص کو فریقین کے درمیان قاضی یا جج بنایا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ انصاف اور عدل سے کام لے ، ظلم و انصافی سے گریز کرے ۔ ورنہ اس کا یہ جرم صرف اس کی ذات کی حد تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا وبال پورے معاشرے پر پڑے گا ۔
آج کی دنیا انسانی تمدن و اخلاقیات کو بھلائے جا رہی ہے ، ستم یہ ہے کہ بدعہد شخص خود کو چالاک شاطر اور چرب لسان سمجھ کر دل ہی دل میں خوش ہوتا ہے ، اپنی بات سے پھر جانا ایک معمول سا بنتا جا رہا ہے ۔ انسانی اقدار اور اخلاقی قدریں اس قدر کھوکھلی ہو چکی ہیں دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے دیندار وضع قطع والے لوگ اس زوال کو اپنا کمال سمجھتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ مجھے ، آپ کو اور پوری امت مسلمہ کو عذاب کے اسباب سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ایسی تمام باتوں سے محفوظ فرمائے جو بندے کو عذاب کا مستحق بنا دیتی ہیں ۔
آمین بجاہ سید المرسلین و خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ۔
والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ ، راولپنڈی اسلام آباد
جمعرات ، 9 نومبر ،2017ء