درِ نبی پر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
درِ نبی پر
آئیے ! اس کے در اقدس کی چوکھٹ کے اپنی نگاہوں سے بوسے لیتے ہیں جس کی پُر تاثیر نگاہ نے انسانیت کے بگڑے مزاج کو بدلا، برے حالات سے نجات دی ، خونیں واقعات کو لگام دی ، گندےخیالات کے زاویے موڑ دیے ، مردہ قوموں نے جس کی پاکیزہ حیات کے طفیل حیاتِ جاودانی کے گوہر سمیٹے۔
گنبد خضریٰ کی آغوش نے اپنے اندر ایسے لَعل کو سلایا ہوا ہے جس نے انسانیت کو میٹھی نیند سلایا۔ انوار الہٰی کی تجلیات کو جذب کر کے قلب اطہر سے نور ہدایت کی کرنیں بکھیریں۔ جس کی بدولت انسانیت کی تمام اصناف نے کمال لازوال حاصل کیا۔
اس کہسار سے پوری وادی میں علم و عمل ، تہذیب و تمدن ، عزت و شرافت، عظمت و وقار، غیرت و حمیت، سطوت و ہیبت ، جاہ وحشمت ، بصیرت و حکمت، عزیمت و فراست، شان و شوکت ، صداقت و عدالت ، سخاوت و شجاعت، خلافت و حکومت ، سیاست و حاکمیت کے صافی چشمے پھوٹ رہے ہیں۔اور گلستان میں امن و آشتی، آزادی و حریت، سکون وراحت اور قلبی طمانیت کے برگِ گل سے مشام جان کو معطر کیے ہوئے ہے۔
کائنات کے محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے نسل ، رنگ ، قوم ، قبیلہ ، برادری ، زبان ، علاقے اور ذات پات کے تفاوت کی بنیاد پر باہمی برتری و کمتری کی کسوٹی کو یکسر مسترد کر کے معرفتِ خالق اور پرہیز گاری کی اکائی پر یکساں متحد کردیا۔ ایسا عظیم الشان دستور العمل پیش فرمایا جو صبح قیامت تک امنِ عالم کا بلا شرکت ِغیرے اکیلا ضامن ہے۔
کل بھی ، آج بھی اور آئندہ بھی اسی دستور کو اپنانے میں فلاح و کامیابی کی ضمانت ہے۔ یہ جز وقتی ، ہنگامی اور مخصوص اوقات کے لیے تشکیل نہیں دیا گیا تھا کہ محض وقت گزرنے سے اپنی افادیت کھو بیٹھے۔ جیسا کہ چند مفکرین ……فرائیڈ وغیرہ…… کی فکر و نظر کی کج روی اور شعور و دانش کی کمزوری نے اپنے ایسے فرسودہ خیالات کو عقل نارسا کی پاتال میں پناہ دے رکھی ہے۔
گوشت پوست کے اس مشت خاکی کو خواہشات ، شہوات ، کبر و غرور ، تفاخر پسندی ، نسل ، زبان ، علاقے ، سیاسی و سماجی اقدار ، معاشی و معاشرتی اقدار کی زنجیروں نے ہر طرف سے لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ انسانیت اس کے پنجہ استبداد میں سسکیاں لے رہی تھی۔ اگر رحمت کونین صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست کرم سے اس کو آزاد نہ کراتے تو کبھی بھی اس کی فضیلت و برتری ظاہر نہ ہوتی۔
انسانیت کی ستم ظریفی دیکھیے آج اپنے اسی محسن کو فراموش کر بیٹھی ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہی ہے جو آج کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ سانحات و حوادثات کا بے رحم شکنجہ اس کو دبوچے ہوئے ہے۔ جنگِ عظیم اول اور دوم کی ہولناک بھٹی میں یہی ابن آدم اور بنت حوا خاکستر ہوئے۔
اس کے لبوں پر امن و عافیت کی تمنا دعا کا روپ دھارنے کو ترس گئی ہے۔ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قوانین سے بغاوت کا اثر یہ ہے کہ زمینی و سماوی عذابوں نے ایسے چُرکے لگائے ہیں کہ انسانیت ابھی تک کرب و الم سے کراہ رہی ہے ، اور یہ اس وقت تک کراہتی ہی رہے گی تاوقتیکہ اس کو اسی در پر نہ لے جایا جائے ، جہاں کے ذرے مہر و ماہ کو شرماتے اور دل و نگاہ کو چمکاتے ہیں۔
یعنی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے در پر۔