امن کی آمنائیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
امن کی آمنائیں
ایک خبر ملاحظہ ہو !
”مظفر گڑھ: جتوئی کے علاقے میں چند روز قبل زیادتی کا شکار ہونے والی طالبہ نے ملزمان کو بے گناہ قرار دیئے جانے پر خود کو آگ لگالی۔نادر اور اس کے 4 ساتھیوں نے 18 سالہ آمنہ کو چند روز قبل اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جس پر طالبہ کے والدین نے تھانے میں ان کے خلاف رپورٹ درج کرائی، پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے پانچوں ملزمان کو گرفتار کرلیا
تاہم بعد ازاں انہیں بے گناہ قرار دے کر چھوڑ دیا گیا جس پر زیادتی کا شکار طالبہ دلبرداشتہ ہو کر آج تھانے کے باہر خود کو تیل چھڑک کر آگ لگالی، جھلسی ہوئی لڑکی کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا جبکہ اسپتال حکام کے مطابق آمنہ کے جسم کا کافی حصہ پوری طرح جل چکا ہے جس کے باعث اس کی حالت تشویشناک ہے۔دوسری جانب وزیر اعلیٰ پنجاب نے زیادتی کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس سے اس کی رپورٹ طلب کرلی اور انتظامیہ کو متاثرہ طالبہ کو علاج معالجے کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔“ بالآخر آمنہ نے خود سوزی کر لی۔
معاشرے میں ایمان ، امن کے فقدان کے بعد اب آمنہ بھی ختم ہو رہی ہیں۔ ایمان سے دوری کا نتیجہ یہ نکلا کہ امن سے ہاتھ دھو بیٹھے اور امن ختم ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب آمنہ۔ آمنائیں بھی کھو بیٹھے۔ یاالہٰی !ہم کہاں جائیں؟ ایمان کے لٹیرے بھیس بدل کر رہبر بنے ہوئے ہیں اور امن کے لٹیروں نے اپنا نام امن کے رکھوالے رکھ لیا ہے۔ اور آج کی آمنہ پر ایسا ظلم ہے کہ الاماں الاماں۔
معاشرتی برائیوں میں جنسی اور اخلاق باختہ ایسے جرائم جنم لے رہے ہیں کہ جنہیں سن کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ بعض تعلیمی اداروں میں بنت حوا کے ساتھ مظالم کی خونچکاں داستانیں سننے اور دیکھنے میں آرہی ہیں۔ کئی آمنائیں ہیں جو ظلم و جبر کی چکی میں مسلسل پس رہی ہیں۔ غنڈوں ، وڈیروں ، عیاش جاگیرداروں اور بدقماشوں کی شیطنت نے ان کی عزت کو تاراج کر دیا ہے اور جب یہ امن کی بھیک مانگنے کے لیے امن کے ٹھیکداروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتی ہیں تو امن ان کیلیے سراب نما شکل اختیار کر لیتا ہے۔ بالآخر بعض آمنائیں تو حالات سے سمجھوتہ کر لیتی ہیں اور بعض آمنائیں خود کشی اور خود سوزی کر لیتی ہیں۔ حکمرانوں کے امن سے تو حجاج کا ظلم اچھا تھا۔ جب ایک مظلوم و لاچار بیٹی نے سرد آہ لےکر اس سے فریاد رسی کی تو اس نے دیبل تک اور دیبل سے ملتان تک اپنی فوجیں اتار دیں بالآخر اس بہن کو انصاف اور امن مہیا کیا۔ یہاں ہر روز کئی آمنائیں اس طرح کے مظالم کی بھینٹ چڑھتی ہیں ، یہاں ہر روز کئی آمنائیں روح سوزی کے جھٹکے برداشت کرتی ہیں ، یہاں ہر روز کئی آمنائیں اپنے جسم نہ سہی لیکن اپنی زندگی بھر کی خوشیوں کو آگ لگا لیتی ہیں ، یہاں ہرروز کئی آمنائیں اپنے مستقبل کو ہمیشہ ہمیشہ کیلیے مایوسی کے ایندھن میں جھونک دیتی ہیں۔ کئی آمنائیں ہیں جو روز جیتی ہیں روز مرتی ہیں۔ اے کاش !وہ دن ہم بھی دیکھ لیں جب وطن عزیز میں میری آمنہ کو خوشیاں ملیں ، جب میری آمنہ اپنی گڑیوں سے کھیلے ، جب میری آمنہ کے دل سے خوف دور ہوسکے۔
جب میری آمنہ غنڈوں کی در اندازی سے بچ جائے ، جب میری آمنہ وڈیروں ،عیاش جاگیرداروں اور نوابوں کے ستم اور مظالم سے آزاد ہوجائے۔ کب میری آمنہ خود سوزی چھوڑے گی ، کب میری آمنہ خوشیوں کی مالا پہنے گی؟ کب میری آمنہ کا ایمان بچے گا اور کب میری آمنہ کو امن ملے گا؟ آخر کب؟
بِأَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ؟
اس سے پہلے کہ ہم مندرجہ بالا عنوان کی وضاحت پیش کریں ایک رپورٹ ملاحظہ فرمائیں: ”ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انسانی حقوق سے متعلق سالانہ رپورٹ برائے 2013 جاری کردی گئی ہے۔ جس کے مطابق گزشتہ سال جبری گمشدگی کے 90 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ جبری لاپتہ افراد میں سے 129 کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔11 صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کردیا گیا، کراچی میں 3ہزار 218 افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے،45 خودكش حملے ميں 694 جبکہ 31 ڈرون حملوں ميں 199 افراد اور 200 سے زائد فرقہ وارانہ حملوں میں 687 افراد لقمہ اجل بنے۔رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں قتل کے 14ہزار سے زائد مقدمات درج کئے گئے، 800خواتین نے خودکشی کی جبکہ 56خواتین کو بیٹی پیدا کرنے کی پاداش میں قتل کردیا گیا۔ گزشتہ سال 869 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔”
یہ قبل از اسلام کی بات ہے کہ جب اَن کھلی کلیوں کو شگفتہ بننے سے قبل ہی مَسل دیا جاتا تھا ،گورِ غریباں میں ان کو ہمیشہ ہمیش کی نیند سلادی جاتی، حوا کی بیٹی کے ساتھ زمانہ جاہلیت سے اب تلک ناروا سلوک کی داستانِ غم مسلسل تاریخ کے اوراق میں رقم ہوتی چلی آرہی ہے۔ کرب و الم کا جانکاہ اور روح فرسا وہ لمحہ سبھی نے کئی بار اپنی آنکھوں سے ضرور دیکھا ہوگا جب کسی بچی کی ماں کو” مبارکباد“ دی جاتی ہے۔ جب کوئی’ اپنا’ اپنا حق سمجھتے ہوئے ناک بھوں چڑھا کر یوں لب کشائی کرتا ہے: ”اچھا ماشاء اللہ! بچی ہوئی ہے ، …چلیں! کوئی بات نہیں،پریشان نہ ہوں۔ اللہ بیٹا بھی دے گا۔”
عرب کے جس مزاج اور رویے کو ہم” جاہلیت“ کہتے ہیں وہ اور آج کے دور کے ہمارے مزاج ورویے میں صرف زمانے کی تقدیم تاخیر کا فرق نہیں بلکہ ایک اور بھی فرق خوب واضح نظر آتا ہے۔ وہ یہ کہ عرب کا بدو ، گنوار ، اجڈ ، جاہل صرف پیدا ہونے والی بچیوں کو گڑھےکھود کر داب دیتا اور شرم وعار کی خود ساختہ دلدل سے باہر نکل آتا تھا۔لیکن آج کا پڑھا لکھا ، سلجھا ہوا ، باشعور صرف نئی آنکھیں کھولنے والی بچی کو ہی نہیں بلکہ اس سے اپنی آنکھوں کو قرار بخشنے والی” ماں“ کو بھی موت کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔صرف وطن عزیز پاکستان میں گزشتہ سال کی رپورٹ اس دعویٰ کی صداقت پر مضبوط دلیل ہے۔ اسلام کو زائد از ضرورت تصور کرنے والا ہمارا معاشرہ کیا جانے کہ بیٹی کتنی بڑی اور عظیم خدا کی نعمت ہے۔
میرے اور ہم سب کےپیارے نبی ،آخرالزمان خاتم النبیین ، خدا کے لاڈلے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ کا فرمان ہے جس کے ہاں دو بچیاں ہوئیں اوراس نے ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی تو وہ دونوں اسے جنت میں داخل کروائیں گی اوردوسرے مقام پر یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ جس گھر میں تین لڑکیاں ہوں اس گھر میں رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔
اسلامی تعلیمات میں ہر باپ کو یہ تلقین کی گئی ہے جب بازار سے کوئی کھانے پینے کی چیز لاؤ تو پہلے لڑکی کو دو بعد میں لڑکے کو دو، کیونکہ لڑکی کا دل نرم و نازک ہوتا ہے۔دنیائے کے تمام مذاہب و ادیان میں صرف اسلام ایسا دین ہے جس نے بیٹی کوباعث سعادت قابل فخر قرار دیا اوران کے ساتھ ہمدردی و غمگساری کا جذبہ دیا ہے۔
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جو لوگ اپنی لڑکیوں کو پیار و محبت سے پرورش کریں گے تو وہ بچیاں بروز محشر جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔
صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو میں اور وہ قیامت کے دن اس طرح ہوں گے پھر آپ نے اپنی دو انگلیوں کو ملایا۔
سنن ابی داؤد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ارشاد نبوی ہے کہ جس کے گھر لڑکی پیدا ہو پھر وہ اس کو زندہ دفن نہ کرے نہ ہی اس کو ذلیل سمجھے اور نہ ہی لڑکے کو اس پر اہمیت دے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرے گا۔
بیٹی کو جنم دینے پر اس کے ماں کو قتل کر دینے کے محض ایک سال کے عرصے میں محتاط اندازے کے مطابق 56 واقعات کیا اس بات کی غمازی نہیں کرتے کہ ہم دور جاہلیت میں ہیں۔ نہیں بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے۔
رپورٹ پڑھ کر میں یہ سوچ رہا تھا کہ روز محشر جب وہ بچیاں جن کو عرب کے جاہلوں نے زندہ زمیں میں گاڑ دیا تھا ، اٹھیں گی اور ان ظالموں کے گریبانوں کو چاک کر کے یہ صدا بلند کریں گی جس سے خدا کا عرش بھی کانپ اٹھے گا۔ بای ذنب قتلت۔ [ہم ] کس جرم کی پاداش میں قتل کردی گئی تھیں۔ عین اسی وقت بیٹیوں کو جنم دے کر قتل ہونی والی مائیں بھی اٹھ کر اپنا مقدمہ باری تعالی ٰ کے دربار میں سنائیں گی۔ ہزار کرب ،دکھ اور غم ان کے لہجوں میں اترا ہواہوگا اور ان کی زبان سے بھی [غالباً ] یہی الفاظ نکل رہے ہوں گے بای ذنب قتلت۔ تو کون ایسا ہے جو اس وقت خدائی قہر و جلال کے سامنے دم مار سکے۔ سوچتا ہوں کہ میرا نام نہاد پڑھا لکھا مسلمان کبھی اسلام کےگھریلو نظام کو بھی پڑھ لیتا جس میں الفت ، مودت ، رافت اور انس ومحبت کا درس ہے تو محشر کے دن کی شرمندگی اور ہمیشہ کی ذلت سے بچ جاتا۔