خوشی وغمی ……مزاجِ شریعت کیا ہے؟

User Rating: 1 / 5

Star ActiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
خوشی وغمی ……مزاجِ شریعت کیا ہے؟
انسان کی زندگی دکھ سکھ ، غمی و خوشی ، بیماری و صحت ، نفع و نقصان اور آزادی و پابندی سے مرکب ہے۔ اس لیے شریعت نے صبر اور شکر دونوں کو لازمی قرار دیا ہے تاکہ بندہ ہر حال
میں اپنے خالق کی طرف رجوع کرے۔
دکھ ، غمی ، بیماری ، نقصان اور محکومیت پر صبر کا حکم ہے اور ساتھ ساتھ ان کو دور کرنے کے اسباب اختیار کرنے کا بھی حکم ہے جبکہ سکھ ، خوشی ، صحت ، نفع اور آزادی پر شکر کرنے کا حکم ہے اور ساتھ ساتھ ان کی قدردانی کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اگر دونوں طرح کے حالات کو شریعت کے مزاج اور منشاء کے مطابق گزارا جائے تو باعث اجر وثواب ورنہ وبال جان۔
لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم دونوں حالتوں میں خدائی احکام کو پس پشت ڈالتے ہیں۔ مشکل حالات پر صبر کے بجائے ہائے ہائے، مایوسی و ناامیدی اور واویلا کرتے ہیں جبکہ خوشی کے لمحات میں حدود شریعت کو یکسر پامال کردیتے ہیں۔ اس کی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ جب کسی گھر میں کوئی فوتگی ہو جاتی ہے تو لوگوں کی زبانیں تقدیر خداوندی پر چل پڑتی ہیں اور مرنے والے کو کہہ رہے ہوتے ہیں کہ” ابھی تو تیرا وقت بھی نہیں آیا تھا” وغیرہ وغیرہ۔
دوسری طرف خوشی کے لمحات میں ہم کسی طرح بھی مسلمان نہیں دکھتے، اگر شادی بیاہ کا موقع ہو تو اس سے پہلے اتنی رسوم ادا کی جاتی ہیں جن کا اسلام سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ،اتنی فضول خرچی کی جاتی ہے کہ آدمی کنگال ہو جاتا ہے۔ ہماری اکثر شادیاں ہندوں کے کلچر میں ڈھل چکی ہیں۔ بچوں کی پیدائش کا مرحلہ آئے تو ہمارے گھروں میں دور جاہلیت کی یاد پھر سے تازہ ہو جاتی ہے۔ بچہ کی عمر میں اگرسال کا اضافہ ہو تو غیر مسلم اقوام والی رسم سالگرہ ہمارےسادگی والے اسلامی خرمن کو جلا دیتی ہے۔ اگر آزادی والی نعمت ملی ہے تو ہم اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے جنونی و جذباتی بن کر اپنی ناجائز جنسی خواہشات کو تسکین دینے میں جُت جاتے ہیں۔ اسی 14 اگست 2015 ء کو کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ منچلے نوجوانوں نے جشن آزادی کی آڑ میں جنسی آزادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کتنی عفت مآب بہنوں کی آنچل کشی ہے ہمارے وطن کا عیاش طبقے اس موقع پر واقعی آزاد ہوتا ہے۔ آزادی منانے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے ہی وطن کے قوانین کو روندتے رہیں۔ سال بعد محض ایک دن میں صرف جھنڈے ،جھنڈیاں لگا کر ملی نغموں اور ترانوں کی گونج میں مخلوط بے ہودہ ماحول کو فروغ دے کر ہم اسلامی نظریاتی فلاحی و جمہوری سلطنت کے یوم تاسیس کی روح کو مجروح نہ کریں بلکہ آزادی کا شکرانہ یہ ہے کہ ہم سب مل کر اس ملک کی ترقی کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں اور اس کے استحکام ، سالمیت اور بقاء کے لیے اپنی جان تک کا نذرانہ پیش کردیں۔
چاند رات ہو ، عید کا دن ہو ، یوم آزادی ہو یا غیر مسلم اقوام کے تہوارمثلاً اپریل فول ویلنٹائن ڈے یا کوئی بھی خوشی کی تقریب۔ اس دوران ہم اپنے جان و مال کو ضائع کرتے ہیں۔کتنے ٹریفک حادثات ہماری خوشیوں کی جان لے لیتے ہیں اور کتنے جنسی جرائم ہمارے اسلامی معاشرے کے معطر ماحول کو متعفن کر دیتے ہیں۔
آئیے ! سب مل کر عزم کریں کہ ہم شریعت کی رہنمائی میں اپنی زندگی بسر کریں گے خوشی کے مواقع پر شکر اور آزمائش کی گھڑیوں میں صبر کریں گے۔ ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
نعمتِ شکر
انسانی زندگی دومختلف حالات سے مر کب ہے۔ خوشی او رغمی۔ اسلام دونوں حالات سے متعلق ہماری مکمل راہنمائی کرتاہے۔
اگر خوشی ،سکھ اور فراوانی کی نعمت مل جائے تو ہمارا رویَہ کیاہوناچاہیے؟اور اگر کبھی بطور آزمائش حالات ناموافق اور ناسازگار ہو جائیں،کسی تکلیف ،دکھ،بیماری اور تنگی کاسامناکرناپڑ جائے تو ہمیں کیاکر ناچاہیے؟
چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ سے مر وی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” مومن کاحال بھی بہت عجیب ہے اس کی ہر حالت میں بھلائی ہی بھلائی ہے، مزید یہ کہ مومن کے علاوہ یہ بات کسی اور مذھب کے ماننے والے کو نصیب نہیں۔ اگر اسے سہولت،آسانی اور خوشی حاصل ہوتی ہے تو یہ اللہ کاشکر گزار بندہ بن جاتا ہے جو اس کے لیے اجر کے اور فراوانی ِنعمت کے لحاظ سے خیر ہی خیر ہے اور اگر کبھی ناساز گار حالات سے واسطہ پڑجائے تو امر الہیٰ پرصابر برضا رہتا ہے جو اس کے لیے اجر اور معیت ِخداوندی کے لحاظ سے خیر ہی خیر ہے۔
کیاہم نے کبھی اس بات پرغور کیا ہے کہ ہم ہر وقت خدائی نعمتوں کے بارتلے دبے ہوئے ہیں۔ اُس نے اپنی مخلوقات میں سے ہمیں سب کاسردار انسان بنایا، انسانو ں میں سے ہمیں مسلمان بنایا،اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاامتی بنایا، ہمیں زندگی گزارنے اور آخرت سنو ارنےکےلیے کتاب ِہدایت دی۔ کتاب ِ ہدایت سمجھانے کے لیے ہمارے اندر ہادی ِبرحق صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ،ہمیں صحابہ واہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے مقدس شخصیات نصیب فرمائیں۔ کفر وشر ک سے بچاکر دولتِ اسلام عطاء فرمائی ،رسوم ورواج اور بدعات و خرافات سے ہٹا کرسنت نصیب فرمائی۔عقل پر ستی اور گمراہیو ں سے دور رکھنے کے لیے اولیاءاور مجتہدین نصیب فرمائے۔
کھیتی باڑی ، کاروبار زندگی اور رہائش کے لیے زمین عطاء کی۔ خوراک کے لیے سبزیاں ،پھل فروٹ ،گوشت اورمختلف کھانے پینے کی مختلف انواع و اقسام کی بےشمار چیزیں مہیاکیں۔ جسم ڈھانپنے کے لیے اچھا اور عمدہ لباس،سفری ضروریات کے لیے سواریاں،معاشرے میں رہنے کےلیےعزت ،جسمانی اعضاء میں تناسب اور نعمت ِحسن، خوشحال زندگی کیلیے اچھے رفیق اور شریک حیات،آل واولادعطا فرمائے۔
آنکھ جیسی نعمت جس سے سارا جہاں حقیقی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے ،دماغ جسے صحیح طور پر کام میں لا کر بڑی سے بڑی کامیابیوں کو حاصل کیاجاسکتا ہے، زبان جس سے دلی جذبات اور خواہشات کو اداکیاجاسکتاہے، ہاتھ پاؤں کی سلامتی سے دوسری کی محتاجی ختم فرمائی اور سانس وغیرہ۔
الغرض کثیر اور عظیم نعمتوں میں ہم ہر رو زاپنی صبح و شام کرتے ہیں۔ ان کے استعمال کاطریقہ بھی بتلادیاکہ ان عظیم نعمتوں کو غلط طریقے سے استعمال نہ کرنابلکہ صحیح طور پر استعمال کرکے شکر ادا کرو گے تو تمہیں یہ بھی اور دیگر نعمتوں سے مالا مال کردوں گا۔ میر ے احسانات ،انعامات اور اعزازات وصول کرکے میری ناشکری اور ناقدری نہ کرنا ورنہ تمہیں اس جرم کی سزا میرے عذاب کی صورت میں اٹھانا پڑے گی۔
معاشرے کاالمیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ہر وقت پریشانی کااظہار کر تے ہیں اپنی کم نصیبی ،لاچاری ، محرومی قسمت کا رونا روتے ہیں بلکہ کچھ تو ایسے بھی ہیں جن کی زبان سے ناشکری کےایسے الفاظ نکلتے ہیں جو انتہا ئی مایوس کن ہوتے ہیں۔
جامع التر مذی اور دیگر معتبرکتب ِاحادیث میں اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قیمتی اصو ل ارشاد فرمایا ہے:
دو خصلتیں ایسی ہیں جس میں وہ پیدا ہو جائیں اللہ کریم اس کو صابر و شاکر لکھ دیتا ہے پہلی خوبی دین داری کے معاملے میں اپنے سے فائق انسان کی طرف دیکھے اور پھر اس کی اقتداء میں لگ جائے خود بھی نیکی اختیا ر کرے اور اس جیسی نیکیوں کو انجام دینے کی بھر پور کو شش کرے۔ دوسری خوبی اس میں یہ ہو کہ دنیا وی امو ر میں اپنے سے کم تر انسان کو دیکھے پھر اللہ کی طر ف سے ملنے والی زیادہ نعمت کو دیکھے اس پر اللہ کا شکر اداکرے تو ایسے شخص کواللہ پاک صابر وشاکر لکھ دیں گے۔
افسو س صد افسو س کہ ہم اس کے بر عکس زند گی گزار رہے ہیں۔ دنیاوی امور میں اتنے آگے بڑھنے کی تگ ودو میں مسلسل مصروف عمل ہیں کہ حلال و حرام کافرق بھی ختم کربیٹھے ہیں۔ دولت ،دولت اور دولت کے حصول میں انسانی رشتوں کو بھی یکسر نظرانداز کر بیٹھتےہیں۔ ہماری نظریں کبھی بھی اپنے سے چھو ٹے اور کم درجے کے لو گو ں پر نہیں پڑتیں۔ چھوٹے کاروبا ر، چھو ٹے مکانات ، معمو لی غذاؤں سے پیٹ کادوزخ جلانے والوں کی حالت زار ہمیں دیکھنی پڑ بھی جائے تو ہم اسے عبرت کی بجائے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اس انداز سے سو چنے اور غور کرنے کامو قع ہی نہیں مل پاتا کہ ہم خداکاشکر اداکرسکیں۔خداکے وعدہ پر یقین کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصول کو مدِنظر رکھتے ہوئے شکر کرنے کے خوگر بنیں اللہ ظاہری نعمتیں بھی بڑھاویں گے او ر قلبی سکون و راحت بھی نصیب فر مائیں گے۔