پارہ نمبر:23

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
پارہ نمبر:23
سورۃ یٰسٓ
امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر دلیل:
﴿یٰسٓ ۚ﴿۱﴾ وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡحَکِیۡمِ ۙ﴿۲﴾اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۳﴾﴾
اس سور ۃ کو قرآن کریم کا دل کہتے ہیں۔ صبح اس کو پڑھنے سے پورے دن کے کام درست رہتے ہیں۔ ان آیات میں نص قطعی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو ثابت کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ بذات خود حکمت سے لبریز قرآن کریم کی قسم کھا کر فرمارہے ہیں کہ (اے میرے محبوب!)آپ یقیناً پیغمبروں میں سے ہیں۔ آیت نمبر پانچ میں آپ کا منصبی فریضہ بیان کیا گیا کہ آپ ان لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادوں کو پہلے نہیں ڈرایاگیا۔ اس سے مراد مکہ مکرمہ اور اس کے مضافات ہیں کیونکہ یہاں حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا۔
تین رسولوں کا قصہ:
﴿وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلًا اَصۡحٰبَ الۡقَرۡیَۃِ ۘ اِذۡ جَآءَہَا الۡمُرۡسَلُوۡنَ ﴿ۚ۱۳﴾ ﴾
گزشتہ آیات میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا بیان تھا۔ اب یہاں سے آگے کئی آیات تک تین رسولوں کا قصہ بیان کیا جارہاہے۔ قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ نہ تو بستی کا تعین کیا اور نہ ہی رسولوں کے ناموں کا۔ البتہ بعض روایات میں بستی کا نام انطاکیہ اور رسولوں کے نام صادق،صدوق اور شلوم یا شمعون علیہم السلام بتائے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے دورسولوں کو بھیجا، لوگوں نے ان کی تکذیب کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی تائید وتقویت کے لیے تیسرے رسول کو بھیجا لیکن بستی والوں نے ان کی بات نہ مانی اور تکذیب کی۔
حبیب نجارکی ہمدردی:
﴿وَ جَآءَ مِنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ رَجُلٌ یَّسۡعٰی قَالَ یٰقَوۡمِ اتَّبِعُوا الۡمُرۡسَلِیۡنَ﴿ۙ۲۰﴾ ﴾
"رجل "کا نام روایات میں حبیب بن اسماعیل نجار بتایاگیاہے ، یہ بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ انہوں نے رسولوں کی دعوت پر ایمان قبول کرلیاتھا۔ جب انہوں نے شہر والوں کا یہ حال سنا کہ وہ رسولوں کے ساتھ ایسا سلوک کر رہے ہیں تو وہ دوڑتے ہوئے شہر میں آئے اور قو م کوہمدردی کے طورپر بڑے احسن انداز میں سمجھایاکہ رسولوں کی بات مان لو۔ لیکن قوم نے انہیں شہید کردیا۔
جنت میں داخلے کا مطلب:
﴿قِیۡلَ ادۡخُلِ الۡجَنَّۃَ ؕ قَالَ یٰلَیۡتَ قَوۡمِیۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾﴾
شہادت کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے حبیب نجار کو جنت میں داخلے کی خوشخبری دی گئی۔ جنت میں داخلہ تو حشر نشر کے بعد ہو گا، البتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ نیک لوگوں کو عالم برزخ میں جنت کی بعض نعمتیں عطا کردی جاتی ہیں، اسی کو دخول جنت سے تعبیر فرمادیتے ہیں۔ حبیب نجار نے جنت کی نعمتیں دیکھ کر اظہار افسوس کیا کہ کاش میری قوم کو معلوم ہوجائے کہ مجھے کن نعمتوں سے نوازا گیا ہے!
مشرک قوم کا انجام:
﴿وَ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلٰی قَوۡمِہٖ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ مِنۡ جُنۡدٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ مَا کُنَّا مُنۡزِلِیۡنَ ﴿۲۸﴾﴾
جب قوم کی سرکشی میں مزید اضافہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ہلاکت کافیصلہ فرمادیا۔ فرمایا کہ ہمیں کسی قوم کو ہلاک کرنے کےلیے آسمان سے فرشتوں کو نازل کرنے کی ضرروت نہیں بس ایک چنگھاڑ ہی کافی ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک ہی فرشتے نے چیخ ماری اور پوری بستی کلیجے پھٹنے کی وجہ سے تباہ برباد ہو گئی۔
قیامت کے دن ہاتھ اور پاؤں کا گواہی دینا:
﴿اَلۡیَوۡمَ نَخۡتِمُ عَلٰۤی اَفۡوَاہِہِمۡ وَ تُکَلِّمُنَاۤ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ تَشۡہَدُ اَرۡجُلُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۶۵﴾﴾
قیامت کے دن جس وقت حساب کتاب کا معاملہ ہورہا ہوگا کفار اس وقت اپنے شرک اور کفر کا انکار کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے منہ پر مہر لگادیں گے۔ مہر لگانے کا مطلب یہ ہے کہ منہ کو پابند کیا جائے گا کہ وہ اپنی مرضی سے نہیں بولے گا۔ ان کے ہاتھ اور پاؤں کو قوت گویائی عطا فرمائیں گے تو ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے کہ انہوں نے فلاں فلاں جرائم اور گناہ کیے تھے۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ ہے کہ وہ تعجب سے اپنے اعضاء سے مخاطب ہوکر کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟
مشرکین کی تردید:
﴿وَ مَا عَلَّمۡنٰہُ الشِّعۡرَ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہٗ ؕ اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ وَّ قُرۡاٰنٌ مُّبِیۡنٌ﴿ۙ۶۹﴾ ﴾
اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ ہم نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو شعر کا علم نہیں دیا اور نہ ہی شاعری پیغمبر کی شان کے لائق ہے، یہ تو نصیحت کی بات ہے اور نہایت واضح قرآن ہے۔ کفار؛ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتے تھے کہ یہ شاعر ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ اس کی نفی فرمارہے ہیں۔ کفار کیوں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر اور قرآن کو شعر کہتے تھے؟ ہمارے ہاں شاعر وہ ہے جو مسجع اور مقفیٰ کلام کہے۔ جبکہ اہل عرب کے ہاں شاعر وہ بھی ہے جو فرضی، خیالی اور غیر تحقیقی باتیں کرے۔ تو کفار نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہتے کہ یہ فرضی اور خیالی باتیں کرتے ہیں۔ (العیاذباللہ) قرآن کریم نے مشرکین کی اسی بات کی تردیدفرما ئی ہےکہ نہ تو ہم نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعری سکھائی اور نہ ہی شاعری آپ کے شایان شان ہے۔
مشرک کی حماقت:
﴿اَوَ لَمۡ یَرَ الۡاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰہُ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ فَاِذَا ہُوَ خَصِیۡمٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۷۷﴾﴾
مکہ مکرمہ میں عاص بن وائل ایک مشرک تھا۔ اس نے ایک بوسیدہ ہڈی لی، اس کو ریزہ ریزہ کردیا۔ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کیا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کوبھی زندہ کرے گا؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ اپنی پیدائش کو بھول گیا؟ ہم نے انسان کو ایک نطفے سے بنایا ہے۔ جس خدا نے پہلے پیدا کیا ہے وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔ آگے دودرختوں کی مثال دیکر سمجھایا کہ جو خدا سبز درختوں سے آگ کو پیدا کرتا ہے اس کے لیے بوسیدہ ہڈی سے دوبارہ پیدا کام کرنا کیا مشکل ہے؟
سورۃ الصٰفٰت
اس سورۃ کانام اس کی پہلی آیت سے ماخوذ ہے۔ یہ سورۃ مکی ہے، اس میں اسلام کے بنیادی عقائد توحیدورسالت اور قیامت کااثبات کیا گیا ہے۔ اور مشرکین کے ایک غلط عقیدے [کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں، معاذ اللہ] کی تردید کی گئی ہے۔
مشرکین کی تردید:
﴿وَ الصّٰٓفّٰتِ صَفًّا ۙ﴿۱﴾ فَالزّٰجِرٰتِ زَجۡرًا ۙ﴿۲﴾فَالتّٰلِیٰتِ ذِکۡرًا ۙ﴿۳﴾ ﴾
یہاں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی تین قسمیں کھائی ہیں۔ قسم ہے ان فرشتوں کی جو صفیں باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں او ر ان فرشتوں کی جو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں۔ یعنی شیاطین جب عالمِ بالا کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ فرشتے ان کو روکتے ہیں۔ اور قسم ہے ان فرشتوں کی جو تلاوت کرتےہیں ذکر کی۔ یہاں مشرکین کی تردید فرمائی اس لیے کہ مشرکینِ مکہ میں سے ایک طبقہ ملائکہ کی عبادت کرتا تھا اور ایک طبقہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتاتھا۔ تو ملائکہ کی قسمیں کھا کریہ بتایا کہ معبود بر حق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ نہ اس کا کوئی شریک ہے اورنہ ہی اسے اولادکی ضرورت ہے۔
اہل جنت کا ذکر:
﴿اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ رِزۡقٌ مَّعۡلُوۡمٌ ﴿ۙ۴۱﴾ فَوَاکِہُ ۚ وَ ہُمۡ مُّکۡرَمُوۡنَ ﴿ۙ۴۲﴾ ﴾
اہل جنت کو رزقِ معلوم ملے گا۔ جنت کے رزق میں ہلکا سا بھی شبہ نہیں کہ شاید ملے شاید نہ ملے؛ نہیں، بلکہ یقیناً اور دائماً ملے گا۔ دنیا کی طرح نہیں کہ کو ئی شخص یقین کے ساتھ نہیں بتا سکتا کہ کل مجھے کیا اور کتنا رزق ملنے والا ہے۔ جنتی لوگ تختوں پر آمنے سامنے بیٹھیں گے اور گفتگو کریں گے۔
اہل جہنم کا ذکر:
﴿اَذٰلِکَ خَیۡرٌ نُّزُلًا اَمۡ شَجَرَۃُ الزَّقُّوۡمِ ﴿۶۲﴾ اِنَّا جَعَلۡنٰہَا فِتۡنَۃً لِّلظّٰلِمِیۡنَ ﴿۶۳﴾ ﴾
گزشتہ آیات میں اہل جنت اور ان کے انعامات کا ذکر تھا۔ یہاں اہل جہنم اور ان کے عذاب کا ذکر ہے۔ جہنمیوں کو زقوم کا درخت جو نہایت بدبو دار، کڑوا اور کریہہ المنظر ہے، بطور خوراک ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس درخت کو ظالموں کےلیے آزمائش بنایاہے۔ اس کے خوشے ایسے ہوں گے جیسے شیطان کا سر ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ:
﴿وَ لَقَدۡ نَادٰىنَا نُوۡحٌ فَلَنِعۡمَ الۡمُجِیۡبُوۡنَ ﴿۫۷۵﴾﴾
یہاں سے لے کر کئی آیات تک اللہ تعالیٰ نے چھ انبیاء (حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ،حضرت ہارون، حضرت لوط اور حضرت یونس علیہم السلام) کے قصص وواقعات کو بیان کیاہے۔
نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمالی اور نوح علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کو درد ناک عذاب سے بچا لیا۔ باقی سب ختم ہوگئے۔ طوفان نوح کے بعد زمین پر جو نسلِ انسانی چلی وہ نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں کی نسل سے ہے۔ آپ علیہ السلام کے ان تین بیٹوں کے نام یہ ہیں: سام، حام اور یافث۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ:
﴿وَ اِنَّ مِنۡ شِیۡعَتِہٖ لَاِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۘ۸۳﴾ اِذۡ جَآءَ رَبَّہٗ بِقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ ﴿۸۴﴾ ﴾
حضرت ابراہیم علیہ السلام ؛حضرت نوح علیہ السلام کے گروہ کے آدمی تھے، یعنی عقائد ایک تھے۔ قوم حضرت ابراہیم علیہ السلام کو میلے پر لےجانا چاہتی تھی تو آپ علیہ السلام نے عذر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں بیمارہوں۔ ہوسکتاہے حقیقت میں بیمار ہوں یا یہ مطلب ہو کہ تمہارے کفر وشرک کی وجہ سے میری طبیعت روحانی طورپر خراب ہے۔ نہ جانے کا مقصد بتوں کو توڑنا تھا تاکہ ان کو اپنے بتوں کو بے بسی معلوم ہوجائے۔
امتحان میں کامیابی:
﴿ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعۡیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ ﴿۱۰۲﴾﴾
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام عطا فرمائے۔ آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ انہیں ذبح کررہے ہیں تو بیٹے سے رائے لی۔ بیٹے نے فرمایاجو آپ نے دیکھا ہے کرگزریے۔ یہ اگرچہ خواب تھا لیکن انبیاء علیہم السلام کے خواب وحی ہوا کرتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے حکم کی تعمیل کی لیکن اللہ تعالیٰ نے جنت سے مینڈھا بھیج دیا، وہ ذبح ہوا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام بچ گئے۔ یہ امتحان تھا جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کامیاب ہوئے۔
حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ:
﴿وَ اِنَّ یُوۡنُسَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۳۹﴾ؕ اِذۡ اَبَقَ اِلَی الۡفُلۡکِ الۡمَشۡحُوۡنِ ﴿۱۴۰﴾ۙ ﴾
حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ سورۃ یونس میں بھی گزرچکا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام نینوا بستی میں مبعوث ہوئے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی مگر قوم نے نہ مانا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایاتین دن کے بعد عذاب آئے گا اور آپ خود اس بستی سے حکم خداوندی کے آنے سے پہلے چلے گئے۔ قوم نے گڑگڑ ا کر توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے عذاب ٹال دیا۔ آپ علیہ السلام کشتی میں سوار ہوئے، کشتی بھنور میں پھنس گئی، قرعہ اندازی میں آپ کا نام آیا۔ پانی میں گئے تو مچھلی نے منہ میں لے لیا پھر کچھ وقت یا دنوں بعد باہر نکال دیا۔ بعض لوگوں نے عصمتِ انبیاء کے خلاف بات کرتے کہاکہ آپ علیہ السلام نے فریضہ نبوت میں کوتاہی کی، معاذ اللہ۔ یادرہے تمام انبیاء علیہم السلام انتخاب خداہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے کوئی ایسا کام نہیں ہونے دیتے جو عصمت کے منافی ہو۔ مزید تفصیل "دروس القرآن"میں اسی مقام پر ملاحظہ فرمائیں۔
مشرکین مکہ کی تردید:
﴿فَاسۡتَفۡتِہِمۡ اَلِرَبِّکَ الۡبَنَاتُ وَ لَہُمُ الۡبَنُوۡنَ ﴿۱۴۹﴾ۙ ﴾
شروع سورت میں بیان کیا جاچکاہے کہ مشرکین فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ثابت کرتے تھے۔ یہاں ان کی تردید کی جارہی ہے کہ یہ کیسا انصاف ہے کہ اپنے لیے تو لڑکیوں کو پسند ہی نہیں کرتے، شرم کے مارے زندہ دفن کردیتےہو جبکہ اللہ تعالیٰ کےلیے بیٹیاں ثابت کرتے ہو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کو نہ بیٹوں کی ضرروت ہے نہ بیٹیوں کی۔ اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے پاک اور منزہ ہیں۔
تنزیہ باری تعالیٰ:
﴿سُبۡحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الۡعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ ﴿۱۸۰﴾ۚ وَ سَلٰمٌ عَلَی الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۸۱﴾ۚ وَ الۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۸۲﴾٪﴾
سورۃ کے آخر میں پھر مشرکین ومنکرین کی تردید فرمائی۔ مشرکین نے کہا تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں، اس کی تردید میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پاک ہے۔ انبیاء علیہم السلام کا ذکر کیا کہ لوگوں نے انبیاء علیہم السلام کو نہیں مانا تو فرمایا:
وَ سَلٰمٌ عَلَی الۡمُرۡسَلِیۡنَ
سلامتی ہے انبیاء علیہم السلام پر۔ مشرک لوگ شرک کا ارتکاب کرتے تھے، فرمایا:
وَ الۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ
تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، اللہ تعالیٰ شرک کو پسند نہیں فرماتے، اللہ توحید کو پسند فرماتے ہیں۔
سورۃص
مذاکرات میں ناکامی:
﴿اَجَعَلَ الۡاٰلِہَۃَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا اِنَّ ہٰذَا لَشَیۡءٌ عُجَابٌ ﴿۵﴾﴾
جناب ابوطالب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رشتے داری کا حق نبھاتے تھے۔ ان کی آخری عمر میں مشرکین ان کے پاس آئے اور کہا کہ آپ اپنے بھتیجے (محمدصلی اللہ علیہ وسلم )سے کہیں کہ وہ ہمارے بتوں کو برا بھلا نہ کہیں تو ہم انہیں ان کے دین اسلام پر چلنے سے منع نہیں کریں گے۔ جب جناب ابوطالب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں انہیں ایک ایسے کلمہ کی دعوت نہ دوں کہ جس سے پوراعرب وعجم ان کے سامنے سرنگوں ہوجائے؟ انہوں نے پوچھا وہ کلمہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ توحید پیش کیا تو انہوں نے کہا کہ تعجب ہے کہ ہم سارے خداؤں کو چھوڑ کر ایک خدا کی عبادت کریں، یہ ہم سے نہیں ہو سکتا۔ اس پر وہ سارے لوگ چلے گئے۔ اس موقع پر سورۃ ص کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔
حضرت داود علیہ السلام کی آزمائش:
﴿وَ ہَلۡ اَتٰىکَ نَبَؤُا الۡخَصۡمِ ۘ اِذۡ تَسَوَّرُوا الۡمِحۡرَابَ ﴿ۙ۲۱﴾﴾
حضرت داود علیہ السلام سے کوئی اجتہادی لغزش ہو گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دو بندے بھیجے جو دیوار پھلانگ کر حضرت کے پاس گئے۔ حضرت داود علیہ السلام اس وقت اپنی عبادت گاہ میں تھے۔ انہوں نے اپنے جھگڑے کا مقدمہ پیش کرکے فیصلہ چاہا۔ حضرت داود علیہ السلام نے ان کا فیصلہ فرمایا لیکن اس کے ساتھ ہی حضرت داود علیہ السلام کو اچانک خیال آیا کہ میرا تو امتحان ہوگیا،فوراً اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور سجدے میں گر گئے۔ یہاں کچھ آیات میں اس واقعے کو بیان فرمایا گیا ہے۔ لغزش کیا ہوئی تھی؟ قرآن کریم اس معاملے میں خاموش ہے۔ اس لیے ہمیں بھی کھودکرید کرنے کی ضرورت نہیں۔ تفصیلات کےلیے کتاب"دروس القرآن " ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کا ذکر:
﴿وَ وَہَبۡنَا لِدَاوٗدَ سُلَیۡمٰنَ ؕ نِعۡمَ الۡعَبۡدُ ؕ اِنَّہٗۤ اَوَّابٌ ﴿ؕ۳۰﴾ اِذۡ عُرِضَ عَلَیۡہِ بِالۡعَشِیِّ الصّٰفِنٰتُ الۡجِیَادُ ﴿ۙ۳۱﴾ ﴾
حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنگ وجہاد کے لیے عمدہ قسم کے گھوڑے رکھے ہوئے تھے۔ ایک دن آپ نے ان گھوڑوں کا معائنہ کیا اور اتنے مشغول ہوئے کہ آپ کی نماز عصر قضا ہو گئی۔ آپ کو بہت افسوس ہوا، فرمایا ان گھوڑوں کو دوبارہ لاؤ! پھر اللہ تعالیٰ کےلیے انہیں قربان کردیا۔ پھر حضرت سلیما ن علیہ السلام کی حکو مت کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہواؤں، پرندوں اور جنوں پر حکومت عطا فرمائی تھی۔
حضرت ایوب علیہ السلام کا قصہ:
﴿وَ اذۡکُرۡ عَبۡدَنَاۤ اَیُّوۡبَ ۘ اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَسَّنِیَ الشَّیۡطٰنُ بِنُصۡبٍ وَّ عَذَابٍ﴿ؕ۴۱﴾﴾
حضرت ایوب علیہ السلام کو ایک بیماری لاحق ہوئی تھی، یہاں ان کی شفا کا بیان ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے حکم خداوندی سے زمین پر پاؤں مارا تو چشمہ جاری ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس سے نہائیں اور اسے پییں۔ صحت مل گئی۔ بیماری کی حالت میں ایک مرتبہ شیطان حضرت کی اہلیہ سے ملا کہ میں طبیب ہوں آپ کے شوہر کا علاج کروں؟ گھر والی نے حامی بھرلی۔ شیطان نے کہا میری ایک شرط ہے کہ جب ٹھیک ہوجائیں تو آپ نے کہنا ہے کہ اس طبیب نے اسے شفا دی ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کو یہ واقعہ سنایاتو آپ کو غصہ آیا کہ وہ تو شیطان تھا۔ آپ علیہ السلام نے قسم کھائی کہ ٹھیک ہو گیا تو تمہیں سو چھڑیاں ماروں گا۔ جب صحت یاب ہوئے تو پریشان تھے کہ قسم پوری کرتا ہوں تو وفادار بیوی کو تکلیف ہو گی نہیں کرتاتو حانث ہوتاہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایک سو چھوٹی چھوٹی لکڑیوں کا ایک گٹھا لے کر ایک ہی مرتبہ اپنی بیوی کو ماردیں، قسم پوری ہوجائے گی۔
سورۃ کے آخر میں حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
سورۃ الزمر
اس سورۃ کے آخر میں دو گروہوں کا ذکر ہے اور زمر کا معنی گروہ ہے۔ اسی مناسبت سے اس کا نام"الزمر"رکھا گیا ہے۔
مشرکین کے غلط عقیدے کی تردید:
مشرکین یہ مانتے تھے کہ کائنات کو بنانے والے اللہ تعالیٰ ہیں۔ لیکن وہ بتوں اور فرشتوں کی عبادت اور پوجا پاٹ کرتے اس نظریے سے کہ یہ خوش ہو کر ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کردیں گےاور اللہ تعالیٰ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے۔ یہاں ان کی تردید کی گئی ہے کہ عبادت تو خالص اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اور شفاعت کےلیے دوشرطیں ہیں: شفاعت کرنے والا اللہ کے ہاں مقبول ہو اور جس کی شفاعت ہونی ہے وہ قابلِ مغفرت ہو۔ یہاں دونوں شرطیں مفقود ہیں تو وہ سفارش کیسے کریں گے؟
اسلام کے لیے شرح صدر:
﴿اَفَمَنۡ شَرَحَ اللہُ صَدۡرَہٗ لِلۡاِسۡلَامِ فَہُوَ عَلٰی نُوۡرٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ﴾
اللہ تعالیٰ جب کسی شخص کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتے ہیں تو وہ شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص نور اور روشنی پر ہوتا ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! شرح صدر کا کیا معنی ہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اس بندے کے قلب کو وسیع فرما دیتے ہیں۔ یعنی احکامِ شریعت کو سمجھنا پھر ان پر عمل کرنا اس بندے کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کی نشانی پوچھی تو فرمایا: جنت کی طرف انسان کا رجوع ہوتا ہے، دنیا کے دھوکےسے بچتا ہے اور موت کے آنے سے پہلے موت کی تیاری کرتا ہے۔
موحد ومشرک کی مثال:
﴿ ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیۡہِ شُرَکَآءُ مُتَشٰکِسُوۡنَ وَ رَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ہَلۡ یَسۡتَوِیٰنِ مَثَلًا ﴿۲۹﴾ ﴾
ایک غلام مختلف آقاؤں کی ملکیت میں ہواور ہر آقا اسے اپنا اپنا کام کہے تو وہ غلام پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے کہ کس کا کہا مانوں؟ دوسراوہ غلام ہے جو صرف ایک ہی آقا کی ملکیت ہے اسے کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوتی۔ اسی طرح مشرک کئی خداؤں کو مانتا ہے اب وہ پریشان ہے کبھی اِس کے سامنے جھکا ہوا ہے اور کبھی اُس کے سامنے جھکا ہوا ہے؛ اس کو یکسوئی میسر نہیں آتی۔ جبکہ موحد صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے، اسی کی اطاعت کرتاہے۔ اسے یکسوئی حاصل ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ