چوتھی نصیحت اکثر اوقات خاموش رہنا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
﴿ اکثر اوقات خاموش رہنا ﴾
حدیث مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھی نصیحت یہ ارشاد فرمائی:
عَلَيْكَ بِطُولِ الصَّمْتِ فَإِنَّهُ مَطْرَدَةٌ لِلشَّيْطَانِ وَعَوْنٌ لَكَ عَلَى أَمْرِ دِينِكَ.
زیادہ خاموش رہا کرو کیونکہ یہی چیز شیطانی حملوں سے بچانے والی ہے اور دینی امور میں تمہاری مددگار ہو گی۔
زبان کا استعمال:
اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم میں ایک عضو ایسا بنایا ہے جس سے ہم اپنے دل کی بات کا اظہار کر سکتے ہیں اپنے محسوسات، مشاہدات اور تجربات کو بتلا سکتے ہیں اور وہ عضو ”زبان“ ہے۔ اس عضو کو اگر قابو میں رکھا جائے اور اس کا درست استعمال کیا جائے تو انسان دنیا و آخرت میں کامیاب ہوتا ہے اور اگر اس کو لایعنی ، فضول ، جھوٹ ، غیبت ، چغلی، فحش گوئی ، بدعہدی ، گالم گلوچ ، طنز و تشنیع ، تمسخر وغیرہ میں استعمال کیا گیا تو اسی کی وجہ سے انسان کا وقار، اعتماد اور ذاتی حیثیت معاشرے سے ختم ہوجاتی ہے اور وہ جہنم کا ایندھن بن جاتا ہے۔
شیطانی حملوں سے حفاظت:
اللہ تعالیٰ نے شیطان کو انسان کا کھلم کھلا دشمن قرار دے کر اس سے بچنے کا تاکیدی حکم دیا ہے اور خاموشی ایسی چیز ہے جو انسان کو شیطانی حملوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ کیونکہ جب بندہ اپنی زبان کو خاموش رکھے گا تو ان تمام گناہوں سے بچ جائے گا جو زبان کے غلط استعمال سے سرزد ہوتے ہیں ایسے انسان سے شیطان مایوس ہوگا اور وہ اس کے مکر وفریب اور وساوس سےبچ جائے گا ۔
دینی امور میں مددگار:
دینی امور میں خاموشی معاون و مددگار بنتی ہےاس لیے کہ جب شیطان سے حفاظت ہوگی تو ذکراللہ ، تلاوت ، وعظ و نصیحت ، درود پاک ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر وغیرہ الغرض تمام دینی امور کی ادائیگی میں آسانی ہوگی ۔
خاموشی میں سلامتی :
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَسْلَمَ فَلْيَلْزَمِ الصَّمْتَ۔
المعجم الاوسط للطبرانی، الرقم: 1934
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہو کہ وہ سلامتی کے ساتھ زندگی گزارے توخاموش رہنے کا خوب اہتمام کرے ۔
فائدہ: ہر شخص کی یہ خواہش ہے کہ وہ سلامتی والی زندگی گزارے لیکن افسوس کہ وہ اس طریقے کو اپنانے کےلیے آمادہ نہیں جس سے سلامتی ملتی ہے اور وہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموش رہنے کو قرار دیا ہے ۔
خاموشی میں دانائی:
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: الصَّمْتُ حِكَمٌ وَقَلِيلٌ فَاعِلُهُ۔
جامع بیان العلم وفضلہ، الرقم: 921
ترجمہ: حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ خاموشی حکمت ہے اور اس کو اختیار کرنے والے بہت ہی کم لوگ ہیں۔
فائدہ: ہر وقت فضول بولتے ہی رہنا بے وقوفی اور کم عقلی کی علامت ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں موقع محل کے مطابق سنجیدگی سے گفتگو کرنا حکمت و دانائی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ حکمت و دانائی والے لوگ بہت کم پائے جاتے ہیں ۔
خاموشی میں رحمت :
حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ رَحِمَہُ اللہُ قَالَ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ أَبِي حَبِيبٍ رَحِمَہُ اللہُ يَقُولُ: إِنَّ الْمُتَكَلِّمَ لَيَنْتَظِرُ الْفِتْنَةَ وَإِنَّ الْمُنْصِتَ لَيَنْتَظِرُ الرَّحْمَةَ۔
جامع بیان العلم وفضلہ، الرقم: 912
ترجمہ: حَیْوہ بن شُرَیْح کہتے ہیں کہ میں نے یزید بن ابی حبیب رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ) بلاوجہ (بولنے والےکو آزمائش کا منتظر رہنا چاہیے اور خاموش رہنے والے کو رحمت کا منتظر رہنا چاہیے۔
فائدہ: بغیر ضرورت کے غیر ضروری باتیں کرنا انسان کو آزمائش اور ابتلاء میں ڈال دیتا ہےاور یہ چیز باعث زحمت ہے جبکہ ان آزمائشوں سے چھٹکارا پانے کے لیے غیر ضروری باتوں سے خاموشی اختیار کرنا باعث رحمت ہے ۔
خاموشی میں نجات:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَمَتَ نَجَا۔
جامع الترمذی، الرقم: 2501
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص خاموش رہا وہ نجات پا گیا ۔
فائدہ: ایسے مقامات جہاں بولنے سے فساد پیدا ہوتا ہو وہاں خاموش رہنے میں نجات ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھی جائے کہ جہاں خاموش رہنے سے فساد پھیل رہا ہو وہاں حکمت و دانائی سے بول کر فساد کو دور کرنا ضروری ہے۔یعنی جیسے خاموشی کے مقام پر خاموش رہنے میں نجات ہےاسی طرح بولنے کے مقام پر بولنا بالخصوص فتنوں کی سرکوبی کےلیے مصلحت اور دلائل کی قوت کے ساتھ گفتگو کرنا بھی باعث نجات ہے ایسے موقع پر خاموش رہنا دینی حمیت و غیرت کے خلاف ہے ۔
فائدہ: زبان کو قابو میں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے ہونے والے گناہوں مثلاً: جھوٹ ، غیبت ، گالم گلوچ ، فحش گوئی ، فضول گوئی وغیرہ سے زبان کو بچایا جائے۔
خاموشی اور تنہائی کا معیار:
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حِطَّانَ رَحِمَہُ اللہُ قَالَ: لَقِيتُ أَبَا ذَرٍّ فَوَجَدْتُهُ فِي الْمَسْجِدِ مُخْتَبِئًا بِكِسَاءٍ أَسْوَدَ وَحْدَهُ فَقُلْتُ: يَا أَبَا ذَرٍّ مَا هَذِهِ الْوَحْدَةُ؟ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: الْوَحْدَةُ خَيْرٌ مِنْ جَلِيسِ السَّوْءِ وَالْجَلِيسُ الصَّالِحُ خَيْرٌ مِنَ الْوَحْدَةِ وَإِمْلَاءُ الْخَيْرُ خَيْرٌ مِنَ السُّكُوتِ وَالسُّكُوتُ خَيْرٌ مِنْ إِمْلَاءِ الشَّرِّ۔
شعب الایمان للبیہقی ، الرقم: 4639
ترجمہ: حضرت عمران بن حطان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ایک دن مسجد میں گیا تو وہاں پر حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کالے رنگ کی چادر سے گوٹھ مارے اکیلے تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا اے ابوذر! یہ تنہائی کیوں اختیار کی ہوئی ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ برے دوستوں کی صحبت سے تنہائی بہتر ہے اور نیک لوگوں کی صحبت تنہائی سے بہتر ہے اور اچھی بات کہنا خاموشی سے بہترجبکہ بری بات کرنے سے خاموش رہنا بہتر ہے ۔
فائدہ: معلوم ہوا کہ حدیث میں جلوت و خلوت اور خاموشی و گفتگو کے معیار کی نشاندہی فرمادی گئی ہے ۔ لوگوں کے ساتھ بیٹھنے اور ان سے گفتگو کرنے کو منع نہیں کیا جا رہا بلکہ غیر ضروری اور غیر شرعی گفتگو اور لوگوں سے ساتھ فضول مجلس لگانے سے منع کیا گیا ہے ۔
کم بولنا حکمت ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا رَأَيْتَ الْعَبْدَ يُعْطَى زُهْدًا فِي الدُّنْيَا وَقِلَّةَ مَنْطِقٍ فَاقْتَرِبُوا مِنْهُ فَإِنَّهُ يُلْقِي الْحِكْمَةَ۔
المعجم الاوسط للطبرانی ، الرقم: 1885
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جسے دنیا سے بے رغبتی عطا کی گئی ہے اور کم سے کم بولنے کی نعمت عطا کی گئی ہے تو تم اس کے قریب رہو اس لیے کہ وہ دانائی اور حکمت کی باتیں دل میں ڈالے گا۔
فائدہ: معلوم ہوا کہ خاموشی اختیار کرنے اور بوقت ضرورت بولنے والے کو اللہ تعالیٰ حکمت کی نعمت سے مالا مال فرماتے ہیں اس لیے ایسے شخص کے ساتھ رہنے کی ترغیب دی جا رہی ہے تاکہ اس کی صحبت کے آثار اس پر بھی اثرانداز ہوں ۔ گویا اس حدیث مبارک میں حکمت و دانائی حاصل کرنے کا طریقہ بتلایا جا رہا ہے ۔
اسلام کی خوبی:
عَنْ عَليِّ بْنِ حُسَيْنٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ۔
جامع الترمذی، الرقم: 2318
ترجمہ: حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسلام کی خوبی میں یہ بات بنیادی طور پر شامل ہے کہ انسان فضول باتوں اور فضول کاموں کو چھوڑ دے۔
فائدہ: معلوم ہوا کہ ہر وہ بات اور کام جس کا تعلق کسی جائز دنیاوی فوائد سے نہ ہو یا وہ کسی دینی فائدے سے وابستہ نہ ہو وہ لایعنی میں شامل ہے ہاں اگر کوئی ایسی بات اور کام ہے جس کا تعلق دین سے ہے یا پھر وہ بات اور کام تو دنیاوی ہے لیکن جائز امور میں شامل ہے تو اسے لایعنی نہیں کہا جا سکتا ۔ حدیث مبارک میں جس سے بچنے کو اسلام کی خوبی قرار دیا جا رہا ہے وہ پہلی قسم ہے ۔
نیکی اور برائی کا مدار:
عَنْ أَبِي سَعِيدِ نِالخُدْرِيِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ۔ رَفَعَهُ ۔ قَالَ:إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ فَإِنَّ الأَعْضَاءَ كُلَّهَا تُكَفِّرُ اللِّسَانَ فَتَقُولُ: اِتَّقِ اللَّهَ فِينَا فَإِنَّمَا نَحْنُ بِكَ فَإِنْ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا وَإِنِ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا۔
جامع الترمذی، باب ماجاء فی حفظ اللسان ، الرقم: 2407
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ روزانہ جب انسان بیدار ہوتا ہے تو اس کے جسم کے تمام اعضاء اس کی زبان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے زبان ہمارے معاملے میں اللہ سے ڈرنا بے شک ہمارا تیرے ساتھ تعلق ہے اس لیے کہ اگر تو درست رہی تو ہم سے صادر ہونے والے اعمال بھی درست رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھے پن اور کج روی کا شکار ہو گئی تو ہم سے صادر ہونے والے اعمال بھی گناہ بن جائیں گے ۔
فائدہ: معلوم ہوا کہ زبان مدار ہے نیک اور برے اعمال کا ۔ اگر زبان کا استعمال درست رہا تو باقی اعضاء سے نیک اعمال صادر ہوں گے اور اگر زبان کا استعمال درست نہ ہوا تو باقی اعضاء سے برے اعمال سرزد ہوں گے ۔
زیادہ گناہوں کی وجہ:
عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ……سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ أَكْثَرَ خَطَايَا ابْنِ آدَمَ فِي لِسَانِهِ۔
شعب الایمان للبیہقی، الرقم: 4584
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: انسان کے زیادہ تر گناہ زبان کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
فائدہ: معلوم ہوا کہ جب تک زبان کا رخ درست نہیں ہوتا انسان گناہوں میں مبتلا رہتا ہےاور جب زبان کا رخ درست ہوتا ہے تو بندہ گناہوں سے باہر نکلتا آتاہے ۔
اچھی بات یا پھر خاموشی:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ۔
صحیح البخاری، باب حفظ اللسان، الرقم: 6475
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اچھی باتیں کہے یا پھر خاموش رہے۔
فائدہ: معلوم ہوا کہ جب تک انسان اچھی باتیں کرتا رہے شریعت اسے بولنے سے نہیں روکتی اور جب اس کے پاس کہنے کے لیے اچھی باتیں ختم ہو جائیں تو اب شریعت اسے خاموش رہنے کا حکم دیتی ہے۔
کاش میں گونگا ہوتا:
وَقَالَ الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ: لَيْتَنِي كَنْتُ أَخْرَسَ إِلَّا عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ۔
المرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ،باب فی اخلاقہ و شمائلہ ، الرقم: 5826
ترجمہ: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کاش میں اللہ کے ذکر کے علاوہ کچھ نہ بول سکتا ، گونگا ہوتا ۔
غیبت اور چغلی کی تلافی :
اس لیے شریعت میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ بولنے میں از حد احتیاط سے کام لیں بغیر سوچے سمجھے کوئی بات منہ سے نہ نکالیں اور اگر کبھی بولنے میں کوئی بات خلاف شریعت منہ سے نکل جائے تو فوراً اس پر توبہ کریں اگر کسی کو گالی دی ہو ، چغل خوری کی ہو ، غیبت کی ہو یا کسی کا تمسخر کیا ہو ان صورتوں میں توبہ کے ساتھ ساتھ اس متعلقہ شخص سے بھی معافی مانگنا ضروری ہے اور جن لوگوں کے سامنے اس کی غیبت یا چغلی کی تھی انہی لوگوں کے سامنے اس بندے کی تعریف اور اچھائی بیان کریں ۔اور اگر کسی وجہ سے معاف کرانا مشکل ہو تو اس شخص کے لیے اور اپنے لیے استغفار کریں اور یوں دعا مانگیں:
اللھم اغفرلنا ولہ
ترجمہ: اے اللہ ہماری اور اس کی مغفرت فرما!
دعوتِ فکر:
آپ روزانہ ایک وقت مقرر کر کے دن بھر کی اپنی باتوں کا حساب لگائیں کہ میں نے کتنی مفید باتیں کی ہیں اور کتنی فضول باتیں؟ آپ خود اس نتیجے تک پہنچیں گے کہ خاموشی میں کتنے فوائد ہیں۔
اللہ کریم ہمیں زبان کی حفاظت کرنے کی اور مفید باتیں کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم