ساتویں نصیحت ملامت کی پرواہ مت کریں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
﴿ملامت کی پرواہ نہ کرنا ﴾
حدیث مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں نصیحت یہ ارشاد فرمائی:
لَا تَخَفْ فِي اللهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ.
اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ملامت کی پرواہ نہ کرو۔
دو اہم باتیں:
اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری میں کسی ملامت کرنے والے کی طعن و تشنیع کی پرواہ نہ کرنا ۔ اس سے معلوم ہواکہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا شروع کرتا ہے کچھ لوگ اس پرناحق ملامت اور طعن و تشنیع وغیرہ کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ جب ملامت کی جائے تو طبعاً اس کے اثرات منتقل ہوتے ہیں ۔
ملامت کی پرواہ نہ کریں:
جب آپ شریعت کے حکم پر عمل کر رہے ہوں یا شرعی قوانین کی پابندی کر رہے ہوں تو ایسی صورت میں کچھ لوگ آپ کو اس پر ملامت کریں گے، ایسے لوگوں کی ملامت کی پرواہ مت کریں کیونکہ ملامت کرنے والے مخلوق ہیں اور آپ خالق کی بات پر عمل کر رہے ہیں ۔ خالق کے مقابلے میں خود مخلوق کی کوئی حیثیت نہیں تو مخلوق کی باتوں کی بھلا کیا حیثیت ہو سکتی ہے ؟اس لیے علم دین حاصل کریں، اپنی اولاد کو دین سکھلائیں،خود دین پر عمل کریں ،اپنی اولاد کو دین پر عمل کرائیں ،اپنی وضع قطع اسلامی رکھیں ،اپنا لباس ، اپنا مزاج ، اپنا انداز گفتگو ، اپنا طرز زندگی الغرض اپنی ساری زندگی اسلامی طریقے کے مطابق گزاریں لوگوں کی ملامت کی پرواہ مت کیجیے ۔ امام طیبی رحمہ اللہ شرح مشکوٰۃ میں اسی جملے کی شرح میں فرماتے ہیں :كُنْ صُلْبًا فِي دِينِكَ دینی معاملات میں خود کو پختہ کرو ۔
داڑھی اور لباس:
مردوں میں عموماً دو باتوں کی وجہ سے لوگ ناحق ملامت کرتے ہیں ۔ ایک تو داڑھی اور دوسرا لباس ۔ بہت سے ناسمجھ لوگ داڑھی کا مذاق اڑاتے ہیں یا نفس امارہ کے اکسانے پر داڑھی والا داڑھی کٹوا لیتا ہےاور یوں دل مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھلنی کرنے کا جرم کر بیٹھتا ہے ۔
داڑھی کٹانا، دلِ رسول ﷺکو زخمی کرنا ہے:
مرزا قتیل بیدل ہندوستان کے بہت بڑے شاعر تھے ان کے کلام میں سوز وگداز پایا جاتا ہے ایک مرتبہ انہوں نے بہت عمدہ عارفانہ نظم لکھی جو کسی طرح ایران پہنچ گئی، وہاں کے ایک شخص اس نظم سے اتنے متاثر ہوئے کہ شاعر کی زیارت کے لیے ہندوستان چلے آئے ۔ آکر ان کے بارے معلوم کیا تو پتہ چلا وہ حجام کے پاس گئے ہوئے ہیں ۔ یہ شخص بھی حجام کے پاس جا پہنچا دیکھا کہ وہی شاعر داڑھی منڈوا رہے )شیو کروا رہے ( ہیں۔اس شخص نے اس شاعر سے کہا: ”آغاریش می تراشی“ (جناب! آپ بھی داڑھی منڈاتے ہیں) مرزا صاحب نے شوخی سے جواب دیا: ”بلے ریش می تراشم، لکن دل کسے نمی تراشم“ (ہاں! داڑھی تراشتا ہوں لیکن کسی کا دل نہیں دکھاتا ہوں)
بیدل صاحب سے بھی صاحب دل مخاطب تھے فورا کہا : ”آرے دل رسول اللہ می خراشی“! ) ہاں، ہاں!یہ کام کر کے آپ کسی اور کانہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل ضرور چھلنی کررہے ہو (
یہ بات مرزا قتیل بیدل کے دل پر جالگی اور انہوں نے اس آنے والے شخص کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا:
جزاک اللہ چشمم باز کردی
مرا با جانِ جاں ہم راز کردی

¬¬¬¬¬

ترجمہ: اے میرے مہربان!اللہ تمہیں اس خیرخواہی کا بدلہ اپنی شایان شان عطا فرمائے تم نے غفلت کی وجہ سے میری بند آنکھیں کھول دیں اور مجھے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے باخبر کر دیا ۔
لباس پہننے میں گناہ سے بچیں:
اسی طرح اگر اسلامی طرز کا لباس اسلامی طریقے کے مطابق پہن لیا جائے تو لوگ باتیں بناتے ہیں۔ یا پھر وہ خود کو اپنی نگاہ میں اچھا خیال نہیں کر رہا ہوتا جس کی وجہ سے وہ شلوار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکا لیتا ہے اور یوں ایک گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوجاتا ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ مِنَ الْإِزَارِ فَفِي النَّارِ۔
صحیح البخاری، باب ما اسفل من الکعبین فھو فی النار ، الرقم: 5787
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹخنے اور اس کے نیچے نیچے کا جو حصہ شلوار ، چادر وغیرہ سے چھپا رہ جائے گا وہ قیامت والے دن جہنم میں جلے گا ۔
فائدہ: حدیث پاک میں جو وعید ہے اس کےلیے دو شرطیں ہیں: نازلاً اور قائماً ۔ جن کی تفصیل یہ ہے کہ نازلاً کا معنی ہے کہ وہ کپڑا اوپر سے نیچے کی طرف آنے والا ہو جیسے شلوار ، تہبند ، پینٹ ۔ اس کے برعکس نہیں یعنی جرابیں موزے وغیرہ مراد نہیں ۔ قائما کا معنی یہ ہے کہ کھڑا ہونے اور چلنے پھرنے کی حالت مراد ہے اگر انسان بیٹھا ہوایا لیٹا ہوا ہواور کپڑے کی وجہ سے ٹخنے ڈھکے رہیں تو اس میں گناہ نہیں ہے ۔
پردہ :
خواتین میں پردہ ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے خواتین کو معاشرے کےلعن طعن سہنے پڑتے ہیں ۔ایسے موقع پر مسلمان خاتون کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عطا کیا ہوا اصول ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ شریعت پر عمل کرتے وقت کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے ۔ ملامت کی وجہ سے حق بات کہنا ، سننا اور حق بات پر عمل کرنا مت چھوڑئیے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۔مفتی محمدشفیع دیوبندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے يُجَاهِدُونَ فرمایااور آگے وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ فرمایا۔ اس لیے کہ جہاد غیروں کے ساتھ ہے اپنوں کے خلاف نہیں ہے۔ آگے فرمایا وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ اس کا تعلق غیروں سے نہیں ،اپنوں سے ہے۔اپنے طعن وتشنیع بھی کرتے ہیں،یہ کام بھی نہیں چھوڑتے۔ آدمی اللہ کے دین کے لیے تحریک چلائے گا اس پہ جان بھی دے گا،تشدد برداشت کرے گا اور جب اپنے اس کے خلاف بولیں گے دل چھوٹا کرکے بیٹھ جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بھی مشکل ہے مگر وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔
مسلمان کی شان:
عَنْ عَلِيٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوْقٍ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ۔
مسند احمد، الرقم: 1905
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مخلوق کو راضی کرنے میں خالق کو ناراض مت کرو۔
اطاعت کا دائرہ کار:
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اسلام ہمیں اولوالامر کی اطاعت، والدین، اساتذہ اور مشائخ کی بات ماننے کا حکم دیتا ہے ۔ لیکن اس کا دائرہ مقرر کرتا ہے کہ ان کی بات اس وقت تک ماننی ہے جب تک وہ اللہ کے حکم سے نہ ٹکرائیں ۔اور جب ان کی بات اللہ کے حکم کے خلاف آجائے اب اللہ کی بات ماننی ہے مخلوق میں بھلے کوئی بھی ہو اس کی بات نہیں ماننی یہاں تک کہ اپنے والدین، قریبی رشتہ دار،اساتذہ ، زوجین، اولاد الغرض کوئی بھی ہو اس کی بات نہیں ماننی ۔
نفس کی اطاعت:
بلکہ اس سے بڑھ کر خود اپنے آپ کی بات اپنے نفس کی بات جو اللہ کے حکم کے خلاف ہو اس کو نہیں ماننا کیونکہ نفس بھی ایک مخلوق ہےاور ایسا نفس جو انسان کو برائی پر ابھارے شریعت میں ”نفس امارہ“ کہلاتا ہے۔
مقامِ فکر:
اب ہمیں اپنی روزمرہ کی زندگی میں غور کرنا ہوگا ۔ کتنے مواقع ایسے آتے ہیں ایک طرف ہمارے اللہ کا حکم ہوتا ہے اور دوسری طرف ہمارے نفس امارہ کی خواہش ہوتی ہے۔ مثلاً نماز کاوقت ہو چکا ہے، اذان ہو چکی ہے، جماعت کا وقت بھی قریب ہے اب ایک طرف اللہ کا حکم ہے کہ نماز ادا کرو اور دوسری طرف اپنے نفس کی خواہش ہے کہ سویا رہوں ، بیٹھا رہوں ، آرام کرتا رہوں ، بیوی بچوں کے ساتھ باتیں کرتا رہوں ، آفس میں کام کرتا رہوں ، دکان پر خرید و فروخت کرتا رہوں ، موبائل ، ٹی وی وغیرہ دیکھتا رہوں ۔ اب ایسے وقت میں اپنے نفس کی خواہش کو قربان کریں ، اللہ کا حکم مانیں ، سب کام کاج چھوڑیں ، اٹھیں نماز کی تیاری کریں اور نماز ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم