آٹھویں نصیحت عیب گوئی سے بچنا

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
﴿عیب گوئی سے بچنا ﴾
حدیث مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےآٹھویں نصیحت یہ ارشاد فرمائی:
لِيَحْجِزْكَ عَنِ النَّاسِ مَا تَعْلَمُ مِنْ نَفْسِكَ
لوگوں کے عیوب تلاش کرنے سے بچو اور اپنی کوتاہیوں پر نظر رکھو۔
خطا کا پُتلا:
اللہ تعالیٰ کی ذات خود بھی ”ستار العیوب“ہے اور ہمیں بھی عیب پوشی کا حکم دیا ہے ۔ ہم انسانوں کے معاشرے میں رہتے ہیں اور انسان تو ہوتا ہی خطا کا پُتلا ہے۔الانسان مرکب من الخطاء والنسیان انسان خطا اور نسیان سے بناہے۔ شریعت اسلامی میں حکم ہے کہ لوگوں کے عیوب اور نقائص کو تلاش نہ کیا جائے اور اگر نظر آ بھی جائیں تو انہیں چُھپایا جائے اُچھالا نہ جائے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایسے شخص کے لیےہلاکت اور تباہی کی وعید ذکر فرمائی ہے جو لوگوں کے عیوب تلاش کرتا ہے اور پھر دوسروں کو بتاتا پھرتا ہے :
وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ۔
ہر ایسے شخص کے لیے تباہی و ہلاکت ہے جو لوگوں کے منہ پر ان کے عیوب بتاتا ہے یعنی طعنہ زنی کرنے والا ہے اور جو لوگوں کی پیٹھ پیچھے ان کے عیوب بتاتا پھرتا ہے یعنی غیبت کرنے والا ہے ۔
سلجھا ہوا طبقہ :
جو ہر وقت لوگوں کی اچھائیاں اور خوبیاں تلاش کرتے ہیں،خوبیوں ہی کا ذکر کرتے ہیں۔ لوگوں کی عدم موجودگی میں ان کے بارے خیر کے کلمات کہتے ہیں یہ لوگ بہت سی برائیوں سے محفوظ رہتے ہیں مثلاً: چغل خوری، بہتان، جھوٹ، غیبت وغیرہ جیسے کبیرہ گناہوں سے بچے رہتے ہیں۔
بگڑا ہوا طبقہ:
جو ہر وقت کسی نہ کسی کےعیوب تلاشتا رہتا ہے، اس ٹوہ میں رہتا ہے کہ کب کوئی غلطی کرے اور میں اس کو معاشرے میں رسوا کروں۔ لوگوں کی عدم موجودگی میں ان کے بارے شر اور برائی کے کلمات کہتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے اگر لوگوں میں کوئی عیب نہ بھی ملے تو از خود کوئی غلط اور برائی کی بات اُن کی طرف منسوب کرتا ہے پھر اس کو معاشرے میں پھیلاتا ہےنتیجۃً ایسا انسان الزام تراشی، بہتان طرازی، کذب بیانی جیسے کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہو کر خود کو خدائے رحمٰن و رحیم کی رحمت سے دور کر لیتا ہے ۔
شہد کی مکھی:
ان دونوں طبقوں میں وہی فرق ہے جو شہد کی مکھی اور گندی مکھی میں ہوتا ہے ۔ ان لوگوں کی مثال جو لوگوں میں خوبیاں اور اچھائیاں تلاش کرتے ہیں شہد کی مکھی جیسی ہے جو پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو، لطافت اور نظافت کی متلاشی رہتی ہے ان سے رس چُوستی اوراس سےشہد بناتی ہے جس میں لوگوں کے لیے خیر ہی خیر ہے بلکہ بہت سی بیماریوں کا علاج ہی شہد ہے۔
گندی مکھی:
ان لوگوں کی مثال جو لوگوں کے عیوب تلاش کرتے اور ان عیوب کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں گندی مکھی جیسی ہے جو سارے بدن کو چھوڑ کر زخم والی جگہ پر بیٹھتی ہے، غلاظتوں کے ڈھیر پر پرورش پاتی ہے، گندگی پر بسیرا کرتی ہے اور اس سے بیماریاں جنم لیتی ہیں ، وبائیں پھوٹتی ہیں ۔
قیامت میں شرمندگی سے حفاظت:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَسْتُرُ عَبْدٌ عَبْدًا فِي الدُّنْيَا إِلَّا سَتَرَهُ اللّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔
صحیح مسلم ، باب بشارۃ من ستراللہ تعالیٰ عیبہ فی الدنیا ، الرقم: 4692
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب کو چھپائے گا) اسے ذلت و رسوائی سے بچائے گا( تو اللہ کریم روز قیامت اس کے گناہوں کو چھپالیں گے۔
عیب پوشی پر جنت:
عَنْ أَبِي سَعِيدِ نِ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرَى مُؤْمِنٌ مِنْ أَخِيهِ عَوْرَةً فَيَسْتُرُهَا عَلَيْهِ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللّهُ الْجَنَّةَ۔
المعجم الاوسط للطبرانی ، الرقم: 1480
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص اپنے مومن بھائی کے عیوب کو دیکھ کر چھپالیتا ہے تو اللہ اسے بدلے میں جنت عطا فرمائیں گے ۔
عیب گوئی کا انجام:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ سَتَرَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ سَتَرَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَنْ كَشَفَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ كَشَفَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ حَتَّى يَفْضَحَهُ بِهَا فِي بَيْتِهِ۔
سنن ابن ماجہ ، باب الستر علی المومن ، الرقم: 2546
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” جو کسی دوسرے کی ”عیب پوشی“ کرتا ہے اللہ قیامت کے دن اس کے عیوب اور گناہوں کو چھپالیں گے اور جو شخص لوگوں کی ”عیب گوئی“ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو گھر بیٹھے ذلیل اور رسوا کردیتا ہے۔ “
قابل مبارک باد :
عَن أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم عَلَى نَاقَتِهِ الْعَضْبَاءِ۔۔۔طُوبٰی لِمَنْ شَغَلَهُ عَيْبُهُ عَن عُيُوْبِ النَّاسِ۔
مسند البزار، الرقم: 6237
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عضباء نامی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا دوران خطبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قابل مبارک باد ہے وہ شخص جسے اپنا عیب لوگوں کی عیب گیری سے دور رکھے ۔
قابلِ رحم حالت:
آج ہمارے معاشرے کی حالت بہت زیادہ قابل رحم ہے، لوگوں کے خفیہ عیوب ٹٹولنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس میں عوام و خواص سب شامل ہیں ۔یہاں تک کہ ہمارے دلوں سے اس گناہ کے گناہ ہونے کا بھی احساس مٹتا چلا جا رہا ہے۔ دوسروں کے عیوب دیکھنے اور ٹٹولنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے عیوب دیکھیں اور ان کی اصلاح کی فکر کریں جب تک بندہ عیب جوئی اور عیب گوئی کے مرض کا شکار رہتا ہے اس وقت تک اپنی اصلاح نہیں کر پاتا اور جب اپنے عیوب کو دیکھنا شروع کرتا ہے تو اسے دوسروں کے عیوب دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی ۔
اللہ کریم ہمیں اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر صدق دل سے عمل کی توفیق نصیب فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم