تواضع سے چلنا

User Rating: 1 / 5

Star ActiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تواضع سے چلنا
اللہ تعالیٰ نے عباد الرحمٰن کی پہلی صفت یہ ذکر فرمائی ہے :
الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا
سورۃ الفرقان،آیت نمبر 63
ترجمہ: وہ زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے پھرتے ہیں۔
یہ عباد الرحمٰن کی پہلی صفت ہے کہ وہ زمین پر تواضع کے ساتھ چلتے ہیں کیونکہ انسان کی چال اس کے کردار و اخلاق اور قلبی کیفیات کی آئینہ دار ہوتی ہے، اگر تکبر اور فخر و غرور جیسی امراض میں مبتلا ہے تو چال متکبرانہ ہوگی، یا پھر مایوسی، احساس کمتری کی وجہ سے قدم گھسیٹ گھسیٹ کر چل رہا ہوگا یا پھر ریا کاری اور دکھلاوے کی وجہ سےکہ لوگوں کی نگاہ میں صاحب کمال نظر آؤں بتکلف آہستہ آہستہ بناوٹی خشوع کے ساتھ چلتا ہوا نظر آئے گا، یہ سب باتیں غلط ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ سنت کے مطابق چلا جائے۔ متعدد احادیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چلنے کا تذکرہ موجود ہے جن کا خلاصہ یہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار مبارک عام آدمی کی رفتار سے قدرے تیز تھی مگر چال مبارک ایسی تھی کہ ہموار جگہ پر چلتے ہوئے بھی ڈھلوان میں اترتے ہوئے نظر آتے تھے۔ چستی کے ساتھ مضبوط قدموں سے ایسے چلتے تھے کہ آپ کی چال سےتواضع، عاجزی، سنجیدگی، متانت، سکون، اطمینان، عزم، ہمت اور شجاعت ٹپکتی تھی۔ تکبر، بڑائی، فخر اور غرورکے ساتھ اکڑکر نہ چلتے۔ کندھوں کو ہلاہلا کر سینہ پُھلا کر، تکلف اور تصنع )بناوٹی خشوع اور عاجزی (سے نہ چلتے۔نہ ہی پیروں کو گھسیٹ کر، بیمار، لاغر اور سست آدمی کی طرح چلتے اور نہ ہی راہ چلتے وقت ادھر ادھر توجہ کرتے بلکہ شرافت و شائستگی کے ساتھ نظریں جھکا کر سیدھے اپنی منزل کی طرف چلتے رہتے۔
اکڑ کر مت چلیں:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا
سورۃ الاسراء، آیت نمبر 37
ترجمہ: اور زمین پر اکڑ کر مت چل۔
ایک جوتا پہن کر مت چلیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَمْشِي أَحَدُكُمْ فِي نَعْلٍ وَاحِدَةٍ لِيُحْفِهِمَا جَمِيعًا أَوْ لِيُنْعِلْهُمَا جَمِيعًا
صحیح بخاری، باب لا یمشی فی نعل واحدۃ، حدیث نمبر 5856
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایک جوتا پہن کر نہ چلے یا تو دونوں اتار کر چلے یا پھر دونوں پہن کر۔
فائدہ: اگر ایک جوتا قریب پڑا ہے جبکہ دوسرا کچھ فاصلے) دو تین قدم ( پر ایسی صورت میں ایک جوتا پہن کر دوسرے جوتے تک جایا جا سکتا ہے،اس میں حرج نہیں۔
کبھی کبھار ننگے پاؤں بھی چلیں:
قَالَ) فَضَالَةُ بْنِ عُبَيْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ (كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا أَنْ نَحْتَفِيَ أَحْيَانًا۔
سنن ابی داؤد، کتاب الترجل، حدیث نمبر3629
ترجمہ: حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس بات کا حکم فرماتے تھے کہ کبھی کبھی ننگے پاؤں بھی چلا کرو۔
فائدہ: موسم گرما میں صبح کے وقت گھاس پر ننگے پاؤں چلنے سے جسم کی گرمی دور ہوتی ہے اور دماغ کو سکون ملتا ہے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین فرما لیں کہ ننگے پاؤں وہاں چلیں جہاں جگہ کا پاک ہونا یقینی ہو، اگر گھر میں ایسی جگہ ہے جہاں چھوٹے بچےپیشاب کرتے رہتے ہیں تو ایسی جگہ پر ننگے پاؤں بالکل نہیں چلنا چاہیے۔
اہم کام کی وجہ سے تیزی سے چلیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تو یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مناسب رفتار سے چلتے کبھی کوئی اہم کام ہوتا تو تیزی سے بھی چل لیتے تھے۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ الادب المفرد میں تحریر فرماتے ہیں۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: أَقْبَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْرِعًا وَنَحْنُ قُعُودٌ حَتَّى أَفْزَعَنَا سُرْعَتُهُ إِلَيْنَا فَلَمَّا انْتَهَى إِلَيْنَا سَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: قَدْ أَقْبَلْتُ إِلَيْكُمْ مُسْرِعًا لِأُخْبِرَكُمْ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ فَنَسِيتُهَا فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ
الادب المفرد للبخاری، باب السرعۃ فی المشی، حدیث نمبر 813
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیزی کے ساتھ ہماری جانب آئے، ہم لوگ آپ کے تیزی کے ساتھ آنے کی وجہ سے ڈر گئے۔ ہمارے پاس پہنچنے کے بعد آپ نے ہمیں سلام کیا اور فرمایا میں تمہارے پاس اس لیے تیزی کے ساتھ آیا کہ تم کو شب قدر کی اطلاع کروں، لیکن تمہاری کچھ باہمی باتوں کی وجہ سے میں اسے )شب قدر کی تعیین ( بھول گیا اب تم اسے )رمضان المبارک کے( آخری عشرہ میں تلاش کرو۔
نظریں جھکا کر چلیں:
چلتے وقت نگاہوں کی خوب حفاظت کریں، غیر محرم کو دیکھنے، گھورنے اور تاڑنے سے بچیں، یہ حکم عام ہے آپ پیدل ہوں یا سوار۔ دونوں حالتوں میں نظروں کو جھکا کر رکھیں۔ ڈرائیونگ کے وقت بلاضرورت دائیں بائیں نہ دیکھیں تاہم اگر سامنے سے غیرمحرم نظر آجائیں تو آنکھیں بند نہ کریں بلکہ کھلی رکھیں البتہ دل میں توبہ و استغفار کرتے رہیں۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ بِالطُّرُقَاتِ…قَالُوا وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ غَضُّ الْبَصَرِ.
صحیح بخاری، باب قول اللہ تعالیٰ یا ایھا الذین اٰمنو ا لا تدخلوا بیوتا، حدیث نمبر 6229
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: راستوں میں نہ بیٹھو….صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ راستے کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نگاہوں کو جھکانا۔
فائدہ: وہ نوجوان جو بازاروں میں اس لیے گھومتے ہیں تاکہ کسی کی ماں بہن کو کندھے ماریں، ان سے بدتمیزی کریں یا راستوں میں بیٹھ کر قوم کی بچیوں کو دیکھتے رہتے ہیں ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
باربار پیچھے مڑ کر نہ چلیں:
راستے چلنے کے اسلامی آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بار بار پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ آپ چلتے تو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے تھے۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الأَنْصَارِيِّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لاَ يَلْتَفِتُ وَرَاءَهُ إذَا مَشَى۔
نوادر الاصول، لحکیم ترمذی، الأصل الرابع عشر
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب راہ چلتے تو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے تھے۔
کبھی کبھی دوستوں کا ہاتھ تھام کر چلیں:
عَنْ بُرَيْدَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: خَرَجْتُ يَوْمًاأَمْشِي فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ …… فَأَخَذَ بِيَدِي فَانْطَلَقْنَا نَمْشِي جَمِيعًا۔
<d+iv class="reference">شعب الایمان للبیہقی، باب القصد فی العبادۃ، حدیث نمبر 3600
ترجمہ: حضرت بریدہ اسل``می رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ایک دن میں چل رہا تھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ……آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑااور ہم ایک ساتھ چلنے لگے۔

فائدہ: دوستوں کا ہاتھ پکڑ کر چلنے سے محبت پیدا ہوتی ہے اور تعلق میں مضبوطی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

چلتے ہوئے تکلیف دہ چیز ہٹادیں:
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَلْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيق،
صحیح مسلم، باب شعب الایمان، حدیث نمبر 162
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کےساٹھ یا ستر سے کچھ زیادہ شعبے ہیں ان میں سے سب سے زیادہ افضل لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے چھوٹا راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔

چلتےہوئے سلام کریں : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ يُسَلِّمُ الرَّاكِبُ عَلَى الْمَاشِي وَالْمَاشِي عَلَى الْقَاعِدِ صحیح بخاری، باب تسلیم الماشی علی القاعد، حدیث نمبر 6233 ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار شخص پیدل چلنے والے کو اور پیدل چلنے والا شخص بیٹھنے والے کو سلام کریں۔ راستہ بھولنے والے کی رہنمائی کریں: عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ … وَإِرْشَادُكَ الرَّجُلَ فِي أَرْضِ الضَّلَالِ لَكَ صَدَقَةٌ. جامع الترمذی، باب ماجاء فی صنائع المعروف، حدیث نمبر 1879 ترجمہ: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا….راستہ بھولے ہوئے شخص کی رہنمائی کرنا بھی نیکی ہے۔ چند فوائد :  خواتین کو چاہیے کہ مردوں سے ہٹ کر چلیں اور مردوں کو بھی چاہیے کہ خواتین کے چلنے کی جگہ پر نہ چلیں۔  سڑک عبور کرتے وقت گاڑیوں والی سمت دیکھ کر خوب احتیاط سے چلیں۔  پیدل چلنا ہے تو سڑک کے کناروں پر چلیں۔  گاڑی پر سوار ہوں تو ٹریفک قوانین کی پابندی کریں۔  راستہ چلتے وقت ایسی چیزیں راستے میں نہ پھینکیں جن سے کسی کو تکلیف ہوتی ہو یا گندگی پھیلتی ہو۔