جہنم سے پناہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
جہنم سے پناہ
اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کی چوتھی صفت یہ ذکر فرمائی ہے :
وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا O إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا .
سورۃ الفرقان، آیت نمبر 66،65
ترجمہ: وہ )اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے یوں عرض کرتے ہیں کہ ( اے ہمارے رب! ہم سے جہنم کے عذاب کو پھیر دے! بے شک اس )جہنم( کا عذاب چمٹنے والا / ہلاک کرنے والا ہے۔ بے شک وہ)جہنم ( بہت ہی برا ٹھکانہ ہے اور بری قیام گاہ ہے۔
مقام خشیت:
اللہ تعالیٰ کے نیک بندے جن کے اوصاف کا تذکرہ چل رہا ہے۔ ان کے مقامِ عبدیت، مقامِ تواضع اور مقامِ عبادت کے بعد اب مقامِ خشیت کا ذکر ہے کہ عباد الرحمٰن اپنے مقام عبدیت، مقام تواضع اور مقام عبادت پر اِتراتے نہیں، بلکہ ان مقامات پر ہونے کے باوجود ان کے دل میں خدا تعالیٰ کا خوف اور غلبہ خشیت مزید بڑھ جاتا ہے۔
جہنم سے پناہ :
حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے بعد وہ اپنے رب کے حضور یوں دعا کرتے ہیں : اے ہمارے رب! ہمارے اعمال اس قابل نہیں کہ جن کی وجہ سے ہم جہنم کے عذاب سے بچ سکیں، بس آپ اپنے فضل و کرم سے جہنم کے عذاب کو ہم سے دور پھیر دیجیے۔ پھر ڈرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جہنم کا عذاب چمٹنے والا اور ہلاک کرنے والا ہے، جہنم برا ٹھکانہ اور بری قیام گاہ ہے۔
نیک اعمال کے باوجود دعا:
یہاں یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ عباد الرحمٰن صرف رحمت کی امیدیں باندھ کر نیک اعمال پر بھروسہ کر کے بیٹھ نہیں جاتے بلکہ مغفرت کی طلب اور خوف خدا ان کے دل میں موجزن رہتا ہے وہ اللہ کی پکڑ اور عذاب سے بھی پناہ مانگتے ہیں۔
خوف اور امید:
قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر جہاں نیک لوگوں کی صفات کا تذکرہ اور ان کی مدح و تعریف کی گئی ہے وہاں پر ان کی یہ صفت خوف اور امید کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ۔
سورۃ الم سجدۃ، آیت نمبر16
ترجمہ: ان کے جسم بستروں سے دور رہتے ہیں اپنے رب کے حضور خوف اور امید کی درمیانی کیفیت )گناہوں سے خائف اور رحمت کے طلبگاربن کر(دعا مانگتے ہیں اور جو ہم نے ان کو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو جامع صفات:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صفتیں ایسی ہیں جو تمام صفات نبوت کی جامع ہیں، صفت بشیر اور صفت نذیر۔
بشیر…… محبت کی وجہ سے نیک اعمال پر ثواب اور جزا کی بشارت دینے والا۔
نذیر…… شفقت کی وجہ سے برے اعمال پر عذاب اور سزا سے ڈرانے والا۔
عبادالرحمٰن نبوت کے دونوں اوصاف سے سبق حاصل کرنے والے ہیں، نیک اعمال اس لیے کرتے ہیں کہ اللہ راضی ہو جائے اور برے اعمال سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اللہ ناراض نہ ہو جائے۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى شَابٍّ وَهُوَ فِي الْمَوْتِ فَقَالَ كَيْفَ تَجِدُكَ قَالَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنِّي أَرْجُو اللّٰه وَإِنِّي أَخَافُ ذُنُوبِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ فِي مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا يَرْجُو وَآمَنَهُ مِمَّا يَخَافُ
جامع الترمذی، باب ماجاء ان المومن یموت بعرق الجبین، حدیث نمبر 905
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قریب المرگ نوجوان کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے پوچھا: تم اپنے بارے میں کیا محسوس کر رہے ہو؟ اس نوجوان نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں اللہ رب العزت سے رحمت اور مغفرت کی امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے بھی ڈرتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی بندے کے دل میں موت کے وقت یہ دونوں باتیں اکٹھی ہو جائیں یعنی امید رحمت اور خوف و خشیت تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز عطا فرما دیتا ہے جس کی وہ اللہ سے امید رکھتا ہے یعنی رحمت اوراس سے بچا لیتا ہے جس کے وبال سے وہ پناہ چاہتا ہے۔
اعمال پر اترائیے نہیں:
انسان کو چاہیے کہ وہ نیک اعمال کرے،ضرور کرے لیکن اپنے اعمال پر اترائے نہیں، بلکہ اللہ رب العزت سے قبولیت کی امید رکھے، ہمارے اعمال اس قابل نہیں کہ جن کی وجہ سے ہم جنت کے حق دار کہلا سکیں۔ اس ذات کے احسانات و انعامات کے مقابلے میں ہماری عبادات کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، اس لیے نیک عمل کر کے اللہ سے قبولیت کی امید رکھی جائے۔
توبہ ضروری ہے :
بطور خاص دینی کام کرنے والے حضرات کو اپنی آخرت کی فکر بہت زیادہ کرنی چاہیے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہیے اور توبہ کے عمل کو دہراتے رہنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عباد الرحمٰن کے اوصاف میں یہ بات سمجھائی ہے کہ نیک اعمال کیے جائیں اور ساتھ ساتھ امید و خوف، رحمت و خشیت دونوں کو ملحوظ رکھ کر دعائیں کی جائیں۔ گناہوں کا خوف ہونا چاہیے جس انسان میں اپنے گناہوں کا خوف پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اسے توبہ کی توفیق مل جاتی ہے اور جسے توبہ کی توفیق مل جائے اللہ تعالیٰ ایسے انسان کی مغفرت بھی فرما دیتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے :
وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى
سورۃ طٰہٰ، آیت نمبر 82
ترجمہ: اور بے شک میں اس شخص کی بخشش کرنے والا ہوں جو توبہ کرے، )اچھی طرح (ایمان لائے، نیک عمل کرے اور پھر سیدھے راستے پر چلتا رہے۔
یاد رکھیں کہ اللہ ہی بخشنے والی ذات ہے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس کے سامنے اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پکا ارادہ کریں۔ نفسانی و شیطانی خواہشات سے بچیں اور عباد الرحمٰن کے اوصاف اپنانے کی کوشش کریں۔