میانہ روی

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
میانہ روی
اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کی پانچویں صفت یہ ذکر فرمائی ہے :
وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا
سورۃ الفرقان، آیت نمبر 67
ترجمہ: ”اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ ہی بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ اس کے درمیان اعتدال اختیار کرتے ہیں۔ “
اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے اوصاف میں ایک وصف ”میانہ روی“ ہے یعنی خرچ کرتے وقت وہ افراط و تفریط کا شکار نہیں ہوتے بلکہ حیثیت کے موافق اور ضرورت کے مطابق خرچ کرتے ہیں۔
مال اللہ کی نعمت ہے،اس کا تعلق عملی زندگی کے ساتھ ہے اگر وہ شریعت کے احکام کے مطابق ہے تو مال کی کثرت باعث رحمت ہے اور اگر عملی زندگی شریعت کے احکام کے خلاف ہے تو مال کی قلت بھی باعث عذاب ہے۔
متقی کے مال دار ہونے میں حرج نہیں:
عَنْ رَجُل مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كُنَّا فِي مَجْلِسٍ فَطَلَعَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى رَأْسِهِ أَثَرُ مَاءٍ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ، نَرَاكَ طَيِّبَ النَّفْسِ، قَالَ: أَجَلْ۔ قَالَ: ثُمَّ خَاضَ الْقَوْمُ فِي ذِكْرِ الْغِنَى، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا بَأْسَ بِالْغِنَى لِمَنْ اتَّقَى، وَالصِّحَّةُ لِمَنْ اتَّقَى خَيْرٌ مِنَ الْغِنَى، وَطِيبُ النَّفْسِ مِنَ النِّعَمِ .
مسند احمد، حدیث نمبر 23228
ترجمہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک گیلا تھا )یعنی غسل کر کے تشریف لائے تھے( ہم نے عرض کی کہ یا رسول اللہ آپ بہت خوش دکھائی دے رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جی ہاں )ایسا ہی ہے (صحابی فرماتے ہیں کہ پھر لوگ مال ودولت کے بارے میں گفتگو کرنے لگے )یعنی اس کی مذمت بیان کرنے لگے(تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خوف خدا رکھنے والے شخص کے لیے مال و دولت بری چیز نہیں اور متقی آدمی کے لیے مال و دولت سے بڑھ کر صحت وتندرستی زیادہ اچھی چیز ہے اور دل کی خوشی )سکون و چین( بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔
مال کے بارے چار اہم باتیں:
…1 مال کو حلال اور جائز طریقے سے حاصل کریں۔ ناجائز اور حرام ذرائع آمدن سے بچیں، جیسا کہ فراڈ، دھوکہ، سود، جھوٹ، جھوٹی قسمیں اور غیر شرعی طریقہ ہائے معاملات۔ یاد رکھیں مال تو ناجائز اور حرام ذرائع سے بھی مل جاتا ہے لیکن اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے خدا کی ناراضگی اس میں داخل ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے بیماریاں، لڑائی جھگڑے، بے چینی و بے سکونی، ذہنی ڈپریشن اور اولاد بے ادب اور نافرمان بن جاتی ہے۔ حرام کا لقمہ ایسا زہر ہے جس کے ہوتے ہوئے عبادت کی حلاوت کا احساس بھی نہیں ہو پاتا۔ حالات کی بہتری کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں لیکن حرام مال، حرام لباس اور حرام خوراک کی وجہ سے اللہ انہیں قبول نہیں فرماتے۔
2… مال کے ساتھ جن حقوق اللہ کا تعلق ہے ان کو بروقت ضرور کریں۔ صدقا ت واجبہ جیسا کہ زکوٰۃ، عشر، قربانی، صدقہ فطر وغیرہ اور صدقات نافلہ جیسے مسجد، مدرسہ، طلباء دینیہ، اور غرباء مساکین وغیرہ پر خرچ کرنا۔ یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ مال و دولت ملنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا نہ کرنا اور جن عبادات کا تعلق مال کے ساتھ ہے مال کے کم ہونے کے خوف کی وجہ سے ان عبادات کو ادا نہ کرنا دنیا و آخرت کی بربادی ہے، مال ختم نہ بھی ہو لیکن انسان کی زندگی ایک دن ضرور ختم ہوجائے گی اور یہی مال دوسروں کی ملکیت میں چلا جائے گا۔
3… مال کے ساتھ جن حقوق العباد کا تعلق ہے ان کی ادائیگی برقت کریں۔ اہل و عیال کی معاشی ضروریات کو پورا کرنا اور اپنی حیثیت کے مطابق ان کے اخراجات کو پورا کرنا ضروری ہے۔ والدین، بہن بھائی، قریبی رشتہ دار، ہمسائے اور ضرورت مند طبقے پر اپنی مالی وسعت کے مطابق خرچ کرنا اسلام کی تعلیم، اللہ کی خوشنودی اور رضا کا ذریعہ اور مال میں مزید فراخی اور برکت کے حصول کا باعث ہے۔ اس لیے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اعتدال کے ساتھ مال کو کام میں لاتے رہیں۔
4… زیادہ مال خرچ کرنے میں بھی حرج نہیں۔ایک بات اچھی طرح یاد رکھیں جہاں ضرورت ہو وہاں ایک لاکھ بھی خرچ کرنا گناہ نہیں اور جہاں ضرورت نہ ہو وہاں ایک روپیہ بھی خرچ کرنا مناسب نہیں۔ ہمیں نام و نمود اور شہرت کے لیے مال خرچ کرنے سے بچنا چاہیے شادی بیاہ پر فضول خرچی سے بچنا چاہیے ہر معاملہ میں اعتدال اور میانہ روی کا خیال کرنا چاہیے۔
میانہ روی سمجھ داری کی علامت:
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مِنْ فِقْهِ الرَّجُلِ رِفْقُهُ فِي مَعِيشَتِهِ۔
مسند احمد، حدیث نمبر 21695
ترجمہ: حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان کی سمجھ داری یہ ہے کہ وہ اپنی معیشت میں میانہ روی قائم کرے۔
میانہ روی کرنے والا محتاج نہیں :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ۔
مسند احمد، حدیث نمبر 4269
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ کبھی محتاج نہیں ہوتا جو خرچ کرنے میں میانہ روی کو ملحوظ رکھے۔
ہر حال میں میانہ روی:
عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْسَنَ الْقَصْدَ فِي الْغِنَى، وَأَحْسَنَ الْقَصْدَ فِي الْفَقْرِ، وَأَحْسَنَ الْقَصْدَ فِي الْعِبَادَةِ
مسند بزار، حدیث نمبر 2946
ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے رویات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مال کی فراوانی کے وقت میانہ روی قائم کرنا، تنگدستی اور غربت کے وقت میانہ روی قائم کرنا اور عبادات میں میانہ روی قائم کرنا بہت ہی پسندیدہ بات ہے۔
نجات دینے والی تین چیزیں:
عَنْ أَنَسِ بنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ مُنْجِيَاتٌ: خَشْيَةُ اللَّهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ، وَالْقَصْدُ فِي الْغِنَى وَالْفَقْرِ، وَالْعَدْلُ فِي الرِّضَا وَالْغَضَبِ۔
اعتلال القلوب للخرائطی، باب من عف فی عشقہ عن مواقعۃ الحرام، حدیث نمبر 102
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں نجات دینے والی ہیں: اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب سے ڈرنا خواہ بندہ تنہائی میں ہو یا لوگوں میں موجود ہو۔ مال کی فراوانی اور غربت دونوں میں میانہ روی قائم کرنا اسی طرح خوشی اور ناراضگی دونوں میں انصاف کرنا۔
میانہ روی آدھی معیشت:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الِاقْتِصَادُ فِي النَّفَقَةِ نِصْفُ الْمَعِيشَةِ۔
شعب الایمان للبیہقی، باب الاقتصاد فی النفقۃ،حدیث نمبر 6148
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خرچ میں میانہ روی اختیار کرنا آدھی معیشت ہے۔
آیت کا حقیقی اور اول مصداق:
عَنْ يَزِيدَ بْنِ اَبِیْ حَبِيبٍ قَالَ بَلَغَہُ فِی ھذہِ الآیۃِ قَالَ کَانَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا لَا يَأْكُلُونَ طَعَامًا يُرِيدُونَ بِهِ نَعِيمًا وَلا يَلْبَسُونَ ثَوْبًا يُرِيدُونَ بِهِ جَمَالا۔
الزھد للمعافی، باب فی الکفاف، حدیث نمبر 170
ترجمہ: حضرت یزید بن ابی حبیب رحمہ اللہ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس آیت کا )حقیقی اور اول (مصداق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں وہ محض لذت حاصل کرنے کےلیے کھانا نہیں کھاتے تھے اور نہ ہی باہمی تفاخر کےلیے لباس پہنتے تھے۔
فائدہ: محض تلذذ کے لیے کھانا اور جمال کے لیے لباس پہننا بھی جائز ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عام معمول مبارک بغرض تلذذ کھانا اور بغرض جمال کپڑا پہننے کا نہیں تھا۔
خدائی نعمتوں کا اثر دکھائی دے:
اللہ تعالیٰ انسان کو جس قدر بھی نعمتیں عطا فرمائے ان کو دنیاوی شہرت میں خرچ کرنے کے بجائے اللہ کو راضی کرنے میں لگانا چاہیے۔ حدیث مبارک کا یہ مطلب نہیں کہ اچھا کپڑا، اچھا کھانا یا اچھی سواری وغیرہ منع ہے۔ ہاں دنیاوی فخر ومباحات، ریا کاری اور تکبر کے طور پر منع ہے باقی رہا ان کو اللہ کی نعمت سمجھ کر استعمال کرنا یہ باعث ثواب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالی اس بات کو پسند فرماتے ہیں کہ اس کے بندے پر اس کی نعمتوں کا اثر دکھائی دے۔
پہاڑوں کے برابر خرچ کرنا:
قَالَ عُثْمَانُ بْنُ الْأَسْوَدِ: كُنْتُ أَطُوفُ فِي الْمَسَاجِدِ مَعَ مُجَاهِدٍ حَوْلَ الْكَعْبَةِ فَرَفَعَ رَأَسَهُ إِلَى أَبِي قُبَيْسٍ وَقَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا أَنْفَقَ مِثْلَ هَذَا فِي طَاعَةِ اللَّهِ لَمْ يَكُنْ مِنَ الْمُسْرِفِينَ، وَلَوْ أَنْفَقَ دِرْهَمًا وَاحِدًا فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ كَانَ مِنَ الْمُسْرِفِينَ.
التفسیر الکبیر للرازی، سورۃ الاسراء تحت آیۃ ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین
ترجمہ: حضرت عثمان بن اسود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں امام مجاہد رحمہ اللہ کے ساتھ کعبۃ اللہ کے گرد طواف کر رہا تھا انہوں نے جبل ابی قبیس)مکہ کے مشہور پہاڑ( کی طرف دیکھا اور فرمایا اگر کوئی شخص اس پہاڑ کے برابر اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرادی میں سونا خرچ کرے تو پھر بھی اس کا شمار فضول خرچ لوگوں میں نہیں ہوگا اور اگر کوئی ایک درہم بھی اللہ کی نافرمانی میں خرچ کر ڈالے تو وہ پکا فضول خرچ ہے۔
اسراف، اقتار اور قوام:
قَالَ النَّحَّاسُ: وَمِنْ أَحْسَنِ مَا قِيلَ فِي مَعْنَاهُ أَنَّ مَنْ أَنْفَقَ فِي غَيْرِ طَاعَةِ اللَّهِ فَهُوَ الْإِسْرَافُ، وَمَنْ أَمْسَكَ عَنْ طَاعَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَهُوَ الْإِقْتَارُ، وَمَنْ أَنْفَقَ، فِي طَاعَةِ اللَّهِ تَعَالَى فَهُوَ الْقَوَامُ.
تفسیر قرطبی، سورۃ الفرقان تحت آیۃ والذین اذا انفقوا لم یسرفوا
ترجمہ: امام نحاس رحمہ اللہ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں کیا ہی خوب بات ارشاد فرمائی ہے، کہتے ہیں کہ جس نے اللہ کی اطاعت کے علاوہ میں مال کو خرچ کیا وہ فضول خرچی ہے، جو شخص اللہ کی اطاعت میں خرچ کرنے سے رک گیا وہ تنگی اور بخل ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مال خرچ کیا تو وہ میانہ روی اختیار کرنے والا ہے۔
عَنْ إِبْرَاهِيمَ فِي قَوْلِهِ: وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا لَا يُنْفِقُ نَفَقَةً يَقُولُ النَّاسُ قَدْ سَرَفَ.
تفسیر ابن ابی حاتم، باب قولہ تعالیٰ، لم یسرفوا، حدیث نمبر 15375
ترجمہ: حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس سے مراد وہ شخص ہے جو مال کو بے ڈھنگے طریقے سے ایسے خرچ نہیں کرتا کہ لوگ اس کے بارے میں یہ کہنے لگیں کہ اس نے فضول خرچی کی ہے۔
بیوی کی ضروریات پوری کرنا:
عَنْ دَاودَ، قَالَ: قُلْتُ لِلْحَسَنِ: أَشْتَرِي لِامْرَأَتِي فِي السَّنَةِ طِيبًا بِعِشْرِينَ دِرْهَمًا أَسَرَفٌ هَذَا؟ قَالَ:لَيْسَ هَذَا بِسَرَفٍ
مصنف ابن ابی شیبہ باب فی الاسراف فی النفقۃ، حدیث نمبر 26600
ترجمہ: امام داؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو کہا کہ میں نے اپنے بیوی کے لیے بیس درہم کی خوشبو ہر سال خریدتا ہوں کیا یہ فضول خرچی ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں یہ فضول خرچی نہیں۔
میانہ روی کی خوبیاں:
جو شخص میانہ روی کی صفت کو اپناتا ہے اسے:

ذہنی سکون میسر آتا ہے

اطمینان قلبی کی دولت نصیب ہوتی ہے

شکر کا عادی بنتا ہے

خوشحال زندگی گزارتا ہے

اور معاشرے میں بھی سمجھ دار انسان شمار ہوتا ہے۔
اور جو شخص فضول خرچی اور تنگی میں پڑتا ہے وہ:

گناہ کا ارتکاب کرتا ہے

ذہنی ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے

ناشکرا بنتا ہے

بدحال زندگی گزارتا ہے

اور معاشرے میں بے وقوف انسان شمار ہوتا ہے۔
میانہ روی کا دائرہ:
میانہ روی کا تعلق محض معاشرت سے ہی نہیں بلکہ اعتقادات، عبادات، معاملات، اخلاقیات سے بھی ہے۔ ان میں سے جب کسی مقام پر افراط و تفریط پائی جاتی ہے تو شریعت اسے یکسر مسترد کر دیتی ہے۔