حجاج کرام توجہ فرمائیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
حجاج کرام توجہ فرمائیں
اللہ تعالیٰ کریم ہیں،ان کا کرم یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان نیک کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھ دیتے ہیں جبکہ اگر کوئی مسلمان بندہ برائی کاصرف ارادہ کرے اور برائی کا کام نہ کرے اس پر اللہ کریم اس کے نامہ اعمال میں نیکی لکھ دیتے ہیں ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرْوِي عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ قَالَ إِنَّ اللهَ كَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ ثُمَّ بَيَّنَ ذَلِكَ فَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كَتَبَهَا اللهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللهُ لَهُ عِنْدَهُ عَشْرَ حَسَنَاتٍ إِلَى سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَى أَضْعَافٍ كَثِيرَةٍ وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كَتَبَهَا اللهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللهُ لَهُ سَيِّئَةً وَاحِدَةً۔
صحیح البخاری ،باب من ھم بحسنۃ او بسیئۃ ، الرقم: 6491
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ رب العزت سے نقل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: اللہ رب العزت نیکیوں کو بھی لکھتے ہیں اور برائیوں کو بھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب کوئی مسلمان کسی نیک کام کرنے کا ارادہ کرے ، اس پر عمل کرنے سے پہلے پہلے اللہ رب العزت اس کے نامہ اعمال میں مکمل نیکی اور اجر وثواب لکھ دیتے ہیں ۔ اگر وہ نیک کام کرنے کا ارادہ کرے اور پھر وہ نیک کام کر بھی لے تو اللہ کریم اس کے نامہ اعمال میں (اخلاص کے بقدر(دس سے لے کر سات سو گنا بلکہ سات سو گنا سے بھی زیادہ اجر و ثواب لکھ دیتے ہیں ۔ جبکہ اگر کسی مسلمان کے ذہن میں صرف برے کام کرنے کاارادہ پیدا ہو اور وہ ) اللہ کے خوف کی وجہ سے (اس برے کام کو نہ کرے ۔ اس پر بھی اللہ اس کے نامہ اعمال میں مکمل نیکی اور اجر و ثواب لکھ دیتے ہیں اگر کسی نے برا کام کر لیا تو اس کے نامہ اعمال میں صرف ایک برائی کا گناہ لکھتے ہیں۔
قانون عدل یا شان کرم؟
اس حدیث مبارک کو پڑھئے اور بار بار پڑھئے ، سوچیئے کہ اللہ ہم سے کتنی محبت فرماتے ہیں ۔ نیکی کا محض ارادہ کریں تو نامہ اعمال میں لکھ دیتے ہیں اگر وہ نیک کام کر لیں تو اس کا ثواب دس سے لے کر سات سو گنا بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ عطا فرماتے ہیں ۔ قانون عدل کا تقاضا تو یہ تھا کہ نیک کام کےمحض ارادے پر مکمل اجرو ثواب نہ ملتا اور جب نیک کام کر لیا جائے تو اس کی مقدار کے برابر اجر ملتا لیکن اللہ رب العزت مسلمان بندے سے قانون عدل کے بجائے شان کرم کا معاملہ فرماتے ہیں جس کی وجہ سے محض ارادے پر بھی اجر وثواب عطا فرماتے ہیں ۔
جبکہ دوسری جانب دیکھئے تو عجیب بات سامنے آتی ہے اگر کوئی مسلمان بندہ کبھی گناہ کا ارادہ کر لے تو اس کے محض ارادے پر اس کے نامہ اعمال میں برائی نہیں لکھتے بلکہ گناہ کا ارادہ کرنے کے باوجود اگر بندہ وہ گناہ نہیں کرتا تو اس پر بھی اس کے نامہ اعمال میں نیکی لکھتے ہیں ۔ اور اگر اس سے گناہ سرزد ہو جائے تو نامہ اعمال میں برائی کی مقدار کے برابر گناہ لکھتے ہیں، زیادہ نہیں لکھتے ۔
کرم بالائے کرم:
مسلمان بندے سے اللہ کی محبت کا عالم دیکھیے کہ نیکی کے ارادے پر اجر و ثواب اور نیک کام کرنے پر قانون عدل کے بجائے شان کرم کا معاملہ ۔ دس سے لے کر سات سو بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ اجر و ثواب عطا فرماتے ہیں ۔ایک طرف تو لطف و کرم اور عنایات کی یوں بارشیں برساتا ہے جبکہ دوسری طرف عفو و درگزر کا یہ عالم کہ برائی کے محض ارادے پر گناہ نہیں بلکہ ارادے کے باوجود گناہ نہ کرنے پر نامہ اعمال میں نیکی اور اجر وثواب لکھ دیتے ہیں اور اگر کوئی قسمت کا مارا گناہ کر بھی بیٹھے تو اس کے نامہ اعمال میں اسی برائی کے بقدر گناہ لکھتے ہیں۔ یہ اللہ رب العزت کے وہ احسانات ہیں جن کو ذہن میں رکھنے سے نیکیوں کا شوق اور برائیوں سے بچنے کی توفیق ملتی ہے ۔
نیکی کا ارادہ :
عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ رَحِمَہُ اللہُ قَالَ : هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : إِذَا تَحَدَّثَ عَبْدِي بِأَنْ يَعْمَلَ حَسَنَةً ، فَأَنَا أَكْتُبُهَا لَهُ حَسَنَةً۔
صحیح مسلم ، باب اذا ھم العبد بحسنۃ ، الرقم: 251
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : جب میرا بندہ اپنے دل میں کسی نیک کام کا پختہ ارادہ کرتا ہے تو میں اس کے لیے نیکی اور اجرو ثواب لکھ دیتا ہوں ۔
اس لیے جب تک ممکن ہو نیک اعمال کرتے رہنا چاہیے اور اگر کبھی بشری تقاضے کے تحت نیک عمل کرنا ممکن نہ ہو تو ارادہ کر لینا چاہیے اس کی وجہ سے نامہ اعمال میں خیر ہی خیر اور اجرو ثواب لکھا جاتا رہے گا ۔
نیکی کا اجر:
جب مسلمان بندہ نیکی کا کام کر لیتا ہے تو اللہ رب العزت اسےاس نیکی کے بدلے میں دس گنا ثواب عطا فرماتے ہیں ۔ قرآن کریم میں ہے :
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا۔
سورۃ الانعام، رقم الآیۃ: 160
ترجمہ: ایک نیکی لے کر آنے والے کو اس کا دس گنا ثواب دیا جائے گا ۔
عام طور پر یہی ضابطہ خداوندی ہے لیکن اگر اخلاص بڑھ جائے تو اللہ اجر میں اضافہ فرما دیتے ہیں اور کبھی تو اس اضافے میں اس قدر اضافہ فرماتے ہیں کہ اسے بے حساب بنا دیتے ہیں ۔
برائی کا ارادہ:
ایک بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ گناہ کا ارادہ کر لینے کے بعد اس کو چھوڑنے کی وجہ کئی ہو سکتی ہیں اگر اللہ کا خوف غالب آگیا اور گناہ نہیں کیا تو اس صورت میں نامہ اعمال میں گناہ کے بجائے نیکی لکھی جائے گی اور اگر برائی کا ارادہ کر لینے کے بعد کسی نے پوری کوشش بھی کر لی لیکن پھر بھی گناہ نہ کر سکا تو اب اس کے نامہ اعمال میں برائی لکھ دی جاتی ہے ۔
إِنَّ اللَّهَ يَتَجَاوَزُ لِأُمَّتِي عَمَّا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَكَلَّمْ بِهِ أَوْ تَعْمَلْ وَمَنْ سَعَى فِي حُصُولِ الْمَعْصِيَةِ جُهْدَهُ، ثُمَّ عَجَزَ عَنْهَا، فَقَدْ عَمِلَ۔
جامع العلوم و الحکم، النوع الرابع
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ رب العزت نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وساوس کو معاف فرما دیا ہے جب تک وہ اس برائی کی بات کو زبان سے کہہ نہ لیں یا پھر اس وسوسے کو عملی شکل نہ دے لیں۔ جو شخص برائی کا کام کرنے کی پوری کوشش کرے لیکن اس کو کر نہ سکے تو یہ شخص ایسا ہی ہے جیسے اس نے یہ گناہ والا کام کر لیا ہو۔
برائی کے کام:
مَنْ جاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلا يُجْزى إِلَّا مِثْلَها
سورۃ الانعام ،رقم الآیۃ: 160
ترجمہ: جو شخص برائی کرے اس کو صرف برائی کے برابر ہی سزا دی جائے گی ۔
حُجاج کرام کے لیے لمحہ فکریہ!
حج کی پروازوں نے اڑان بھرنا شروع کر دی ہے ، دنیا بھرسے عازمین حج حرمین کی طرف رواں دواں ہو رہے ہیں ۔ اللہ کریم تمام حجاج کے حج کو قبول فرمائیں۔ میری تمام حجاج سے گزارش ہے کہ بعض مقامات اور ایام ایسے ہیں جن میں گناہ کی سزا عام مقامات اور ایام کی نسبت بڑھ جاتی ہے ۔ بالخصوص ایام حج میں اور حرم شریف میں گناہ کرنے سے گناہ کی سزا بڑھا دی جاتی ہے ۔
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: لَأَنْ أُخْطِئَ سَبْعِينَ خَطِيئَةً- يَعْنِي بِغَيْرِ مَكَّةَ- أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُخْطِئَ خَطِيئَةً وَاحِدَةً بِمَكَّةَ۔
جامع العلوم والحکم
ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مکہ مکرمہ میں کیا جانے والا ایک گناہ عام جگہوں میں کیے جانے والے ستر گناہوں سے زیادہ سخت ہے ۔
عَنْ مُجَاهِدٍ رَحِمَہُ اللہُ قَالَ: تُضَاعَفُ السَّيِّئَاتُ بِمَكَّةَ كَمَا تُضَاعَفُ الْحَسَنَاتُ۔
جامع العلوم والحکم
ترجمہ: حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جیسے مکہ میں کی جانے والی نیکی کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے اسی طرح مکہ میں کیے جانے والے گناہ کی سزا بھی کئی گنا بڑھا دی جاتی ہے ۔
قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ رَحِمَہُ اللہُ بَلَغَنِي أَنَّ الْخَطِيئَةَ بِمَكَّةَ بِمِائَةِ خَطِيئَةٍ، وَالْحَسَنَةَ عَلَى نَحْوِ ذَلِكَ.
جامع العلوم والحکم
ترجمہ: حضرت ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں مکہ مکرمہ میں کیا جانے والا ایک گناہ سو گناہوں کے برابر ہے جبکہ مکہ مکرمہ میں کی جانے والی نیکیوں میں بھی اسی طرح اضافہ کیا جاتا ہے ۔
قَالَ قَتَادَةُ رَحِمَہُ اللہُ فِي هَذِهِ الْآيَةِ: اعْلَمُوا أَنَّ الظُّلْمَ فِي الْأَشْهُرِ الْحُرُمِ أَعْظَمُ خَطِيئَةً وَوِزْرًا فِيمَا سِوَى ذَلِكَ۔
جامع العلوم والحکم
ترجمہ: حضرت قتادہ رحمہ اللہ سورۃ التوبۃ کی رقم الآیۃ: 36 ان عدۃ الشہور عنداللہ اثنا عشر شھرا۔ الخ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ اشہر حُرُم )رجب ،ذوالقعدہ ، ذوالحج اور محرم (میں گناہ کرنا عام مہینوں میں گناہ کرنے سے بڑا جرم ہے ۔
اللہ کریم ہمیں نیک بننے اور نیک ارادے کرنے کی توفیق دے، گناہگار بننے اور گناہ کے ارادے سے بچائے ۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
مرکزی جامع مسجد راولا کوٹ ، آزاد کشمیر
جمعرات ،11 جولائی ، 2019ء