سورج گرہن

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورج گرہن
اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے سورج اور چاند دو بڑی نشانیاں ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ایک حساب کے تحت طلوع و غروب کے نظام میں جکڑے ہوئے ہیں اسی مقرر کردہ حساب کی ایک نوع یہ بھی ہے کہ ان کو مختلف اوقات میں گرہن لگتاہے۔
ماہرین فلکیات کے مطابق 26 دسمبر کو سورج کو گرہن لگے گا اور پاکستان کے تمام جنوبی علاقے کے لوگ 20 سال بعد مکمل سورج گرہن دیکھیں گے، آخری بار ایسا 11 اگست 1999 کو ہوا تھا، سورج گرہن جنوبی پاکستان خاص طور پر ساحلی علاقوں کراچی اور گوادر میں سب سے زیادہ ہوگا ۔
نشانیاں بھیجنے کی وجہ:
سورج گرہن اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہے اوران کے دکھلانے کا مقصد اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہ ذکر فرماتے ہیں :
وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا۔
سورۃ الاسراء ، رقم الآیۃ: 59
ترجمہ: اور ہم ڈرانے کےلیے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں ۔
قَالَ قَتَادَةُ رَحِمَہُ اللہُ إِنَّ اللَّهَ خَوَّفَ النَّاسَ بِمَا يَشَاءُ مِنْ آيَاتِهِ لَعَلَّهُمْ يَعْتَبِرُونَ وَيَذَّكَّرُونَ وَيَرْجِعُونَ ذُكر لَنَا أَنَّ الْكُوفَةَ رُجِفَتْ عَلَى عَهْدِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ رَبَّكُمْ يَسْتَعْتِبُكُمْ فَأَعْتِبُوهُ وَهَكَذَا رُوي أَنَّ الْمَدِينَةَ زُلْزِلَتْ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ مَرَّاتٍ فَقَالَ عُمَرُ: أَحْدَثْتُمْ وَاللَّهِ لَئِنْ عَادَتْ لَأَفْعَلَنَّ وَلَأَفْعَلَنَّ۔
تفسیر ابن کثیر تحت آیت ھذہ
ترجمہ: حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اپنی نشانیوں سے ڈراتے ہیں تاکہ وہ عبرت و نصیحت حاصل کریں اور اللہ ہی کی طرف رجوع کریں۔ یہ واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک مرتبہ کوفہ میں زلزلہ آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:لوگو!یہ پکی بات ہے کہ تمہارا پرودرگار) تمہارے گناہوں پر ( تنبیہ اور سرزنش فرما رہا ہے لہذا اسے)نیک اعمال کر کے ( راضی کر لو۔اسی طرح یہ بات بھی نقل کی گئی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مدینہ طیبہ میں زلزلے کے کئی جھٹکے آئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو تمہاری بدعملیوں کی وجہ سے زلزلہ آیا ہے قسم بخدا!اگر دوبارہ زلزلہ آیا تو میں تمہیں سخت سزا دوں گا ۔
قیامت کی یاد:
سورج گرہن کو ظاہر فرمانے کا مقصد بھی ڈرانا ہے کہ اللہ جل شانہ کی کبریائی اور قدرت کو دیکھ ڈرنا چاہیے اس سے قیامت کی یاد آتی ہے کہ جیسے اب تھوڑی دیر کے لیے سورج ہلکا سا بے نور ہوجاتا ہے اسی طرح قیامت کے دن بھی سورج مکمل بے نور ہو جائے گا اور اس کو لپیٹ دیا جائے گا ۔ انسان غور کرے کہ سورج اتنی بڑی مخلوق ہونے کے باوجود اللہ کی قدرت کاملہ اور قدرت قاہرہ کے سامنے بالکل بے بس اور مجبور ہے اللہ جب چاہے اسے بے نور کر دے اور جب چاہے اسے روشنی عطا کر دے جب سورج اور چاند جیسی بڑی مخلوقات کی یہ حالت ہے تو ہم کس شمار قطار میں ہیں؟ لہذا اس ذات کےعظیم اور اس ذات کے جبار و قہار ہونے کا خوف دل میں پیدا کرنا چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ کی حالت :
اس دنیا میں نظام ارضی و سماوی کےتغیرات و انقلابات چونکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ڈرانے کےلیے ہوتے ہیں تو جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی جتنی معرفت ہوگی اسی قدر اس میں خوف اورخشیت پیدا ہوگی اوریہ بات بھی یقینی ہے کہ مخلوقات میں سے سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی معرفت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوتی ہے اس لیے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ خوف وخشیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزِعًا يَخْشَى أَنْ تَكُونَ السَّاعَةُ۔
صحیح البخاری ،باب الذکر فی الکسوف ، الرقم: 1059
ترجمہ: حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت گھبرا کر اٹھے اس خوف سے کہ کہیں قیامت نہ قائم ہو جائے۔
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہ قَالَ: اِنْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ يَجُرُّ ثَوْبَهُ فَزِعًا۔
السنن الکبریٰ للنسائی ، نوع آخر من صلاۃ الکسوف ، الرقم: 1883
ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خشیت الہٰی کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ آپ کپڑوں کو ٹھیک طرح سے سمیٹے بغیر ہی گھر سے باہر تشریف لائے۔
رسول اللہ ﷺ کا عمل :
عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزِعًا يَخْشَى أَنْ تَكُونَ السَّاعَةُ فَأَتَى الْمَسْجِدَ فَصَلَّى بِأَطْوَلِ قِيَامٍ وَرُكُوعٍ وَسُجُودٍ رَأَيْتُهُ قَطُّ يَفْعَلُهُ ۔
صحیح البخاری ،باب الذکر فی الکسوف ، الرقم: 1059
ترجمہ: حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت گھبرا کر اٹھے اس خوف سے کہ کہیں قیامت نہ قائم ہو جائے۔ آپ نے مسجد میں آکر بہت ہی لمبا قیام ، لمبا رکوع اور لمبے سجدوں کے ساتھ نماز پڑھی)حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ( میں نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
سورج گرہن اور اصلاح عقائد:
ساری دنیا کو اپنی روشنیوں سے روشن کرنے والے سورج کا بے نور ہونا چونکہ غیر معمولی نوعیت کا واقعہ ہوتا ہے اس لیے اس موقع پرمختلف قسم کی باتیں پھیل جاتی ہیں بعض لوگ تو اسے محض اتفاق ہی سمجھتے ہیں جبکہ بعض اس کو اپنے مخصوص نظریات کی زاویے سے دیکھتے ہیں۔ اسلام ایسے موقع پر اپنے ماننے والوں کو جہاں نیک اعمال کی تعلیم دیتا ہے اس سے پہلے اُن کے عقائد کی اصلاح کرتا ہے تاکہ اس طرح محیر العقول واقعات کو دیکھ کر توہمات میں مبتلا ہو کر اسے محض اتفاق کا کرشمہ مت سمجھیں اور نہ ہی اس بارے کسی طرح کے غیر حقیقی نظریات اپنائیں۔
سورج گرہن اور دہریہ نظریہ:
دہریہ خدا تعالیٰ کے وجود ہی کے منکر ہیں جب وہ خدا کی ذات کو ہی نہیں مانتے تو خدا کی صفات قدرت وغیرہ کیسے مانیں گے؟ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تمام حوادثات زمانہ محض اتفاق سے ہورہا ہے کوئی ذات اسے کنٹرول نہیں کر رہی اسی طرح سورج گرہن اور چاند گرہن بھی محض اتفاقاً کبھی کبھار رونما ہوجاتے ہیں۔
دہریہ نظریے کی تردید:
اسلام اس نظریے کی تردید کرتا ہے:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ… فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ مِنْ آيَاتِ اللهِ ۔
صحیح مسلم ،باب صلاۃ الکسوف، الرقم: 2044
ترجمہ: ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا… اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہیں۔
معلوم ہوا کہ یہ اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں محض اتفاق کا کرشمہ نہیں جیسا کہ خداتعالیٰ کے منکرین خدا کا نظریہ ہے۔
سورج گرہن اور مشرکین عرب کا نظریہ:
مشرکین عرب سورج گرہن جیسے غیر معمولی واقعے کو دیکھ کر اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے تھے کہ یہ کسی بڑی عظیم الشان شخصیت کی موت کی وجہ سے ہوتا ہے۔
عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ… وَذَاكَ أَنَّ ابْنًا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاتَ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ فَقَالَ النَّاسُ فِي ذَاكَ۔
صحیح البخاری ، باب الصلاۃ فی کسوف القمر، الرقم: 1063
ترجمہ: حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تو لوگوں نے کہا کہ ان کی وفات کی وجہ سے سورج کو گرہن لگا ہے ۔
مشرکانہ نظریے کی تردید:
اسلام اس نظریے کی تردید کرتا ہے :
عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ… فَقَالَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللهِ وَإِنَّهُمَا لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ۔
صحیح البخاری، باب الصلاۃ فی کسوف القمر ، الرقم: 1063
ترجمہ: حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی طویل حدیث میں ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تو لوگوں نے کہا کہ ان کی وفات کی وجہ سے سورج گرہن ہوا ہے۔اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے دو بڑی نشانیاں ہیں ان کو گرہن کسی کی موت کی وجہ سے نہیں لگتا۔
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہ قَالَ: اِنْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ…قَالَ: إِنَّ نَاسًا يَزْعُمُونَ أَنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لاَ يَنْكَسِفَانِ إِلاَّ لِمَوْتِ عَظِيمٍ مِنَ الْعُظَمَاءِ وَلَيْسَ كَذَلِكَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ الله۔
السنن الکبریٰ للنسائی ، نوع آخر من صلاۃ الکسوف ، الرقم: 1883
ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں سورج گرہن ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں نے نظریہ بنالیا ہے سورج و چاند کو گرہن اس لیے لگتا ہے کہ کسی عظیم شخصیت کی موت واقع ہوئی ہے حالانکہ یہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے سورج اور چاند کو گرہن کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں لگتا یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے بڑی نشانیاں ہیں ۔
سورج گرہن اور نجومیوں کا نظریہ:
نجومی یعنی سورج ، چاند اور ستاروں کی عبادت کرنے والے اور انہی کو نفع و نقصان کا مالک سمجھنے والے لوگوں کا نظریہ ہے کہ سورج اور چاند گرہن کے موقع پر خوف کھانا اور نماز ،دعا استغفار وغیرہ کی تعلیم سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سورج اور چاند میں ذاتی طور پرنفع و نقصان دینے کے اختیارات موجود ہیں تبھی تو ان کے گرہن لگنے کے موقع ڈرا جاتا ہے ۔
نجومیانہ نظریے کی تردید:
اسلام اس نظریے کی تردید کرتا ہے:
عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ… فَقَالَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللهِ۔
صحیح البخاری، باب الصلاۃ فی کسوف القمر ، الرقم: 1063
ترجمہ: حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے دو بڑی نشانیاں ہیں۔
معلوم ہوا کہ یہ خود اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں خود رب اور الہ نہیں کہ ذاتی طور پر کسی کو نفع یا نقصان دے سکیں بلکہ ان کی حیثیت محض قدرت باری تعالیٰ کی نشانیوں کے طور پر ہے اور بس ۔
سورج گرہن اور ہندوانہ نظریہ:
دودھ کے سمندر سے خداؤں نے راکشسوں کی مدد سے ایک ایسا مشروب نکالا جس کو پینے والا امر ہو جائے گا یعنی اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ راکشسوں کو خداؤں نے وہ مشروب دینے سے انکار کر دیا، پھر جس محفل میں تمام خدا بیٹھے تھے اور باری باری سب کو امرت دیا جا رہا تھا۔ امرت دینے والی دیوی کا نام موہینی تھا۔ ایک سواربھانو نامی راکشس خدا کا روپ اور بھیس بدل کر اس محفل میں آ بیٹھا۔ اس کے دائیں جانب چندرا دیوتا (چاند کا خدا) اور بائیں جانب سوریا دیوتا (سورج کا خدا) بیٹھے تھے جنہوں نے سواربھانو کو پہچان لیا کہ یہ خدا کے روپ میں راکشس ہے۔ انہوں نے فوراً سے یہ بات موہینی کو بتلائی، موہینی درحقیقت وِشنو دیوتا تھا جو موہینی کے روپ میں آیا ہوا تھا۔ وِشنو نے فورا یہ بات سنتے ہی اس راکشس سواربھانو کی گردن کو اپنے سودرشن چکرا سے کاٹ ڈالا، مگر اس وقت تک سواربھانو کے گلے تک وہ امرت پہنچ چکا تھا جس وجہ سے اس کا سر امر ہو گیا اور جسم مر گیا اور سر آسمان کی طرف اڑ گیا اس کے سر کو” راہو“ اور اس کے پیچھے رہ جانے والے دھڑ کو” کیتو“ کہا جاتا ہے۔ اس وجہ سے اس کا نام ”راہو کیتو“ پڑ گیا۔سواربھانو اس وقت سانپ کی شکل اختیار کر چکا تھا جب اس کا سر اور دھڑ علیحدہ ہوئے تو راہو (سر) کیتو(دھڑ) نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا کہ ہم چندرا اور سوریا سے بدلا لیں گے کیونکہ اسے چندرا و سوریا پر بہت غصہ تھا کہ ان دونوں کی شکایت کی وجہ سے اس کا یہ حشر ہوا تو اس نے ان دونوں سے بدلا لینے کی ٹھان لی۔ اسی وجہ سے سال کے کسی حصے میں جب راہو سوریا (سورج) یا چندرا (چاند)کے قریب ہوتا ہے تو اسے وہ بدلے کےلیے نگل لیتا ہے اس کو سورج گرہن اور چاند گرہن کہتے ہیں ۔
بحوالہ : ایک غلط سوچ
ہندو دھرم والوں کا نظریہ ہے کہ گرہن کے اس عمل کے وقت ملک کے کسی بڑے آدمی کی موت ہوتی ہے ۔
ہندوانہ نظریے کی تردید:
اسلام اس نظریے کی تردید کرتا ہے:
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہ قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ…قَالَ…لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ ۔
السنن الکبریٰ للنسائی ، نوع آخر من صلاۃ الکسوف ، الرقم: 1883
ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند گرہن کی وجہ سے کسی کی موت واقع نہیں ہوتی۔
فائدہ:
لِمَوْتِ أَحَدٍ
کے شروع والے لام کو اَجلیہ بھی بنا سکتے ہیں اور تعلیلیہ بھی ۔
سورج گرہن اور ملحدین کا نظریہ:
ملحدین کہتے ہیں کہ ایک طرف تم کہتے ہو کہ قرآن کریم میں ہےسورج اور چاند اپنےاپنے مقرر کردہ حساب کے مطابق چل رہے ہیںاَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ جب سورج چاند کا سارا نظام ہی ایک طے شدہ حساب میں جکڑا ہوا ہےتو یہ ایک طبعی چیز ہے اس پر خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ اسباب کے تحت رونما ہوتا ہے اس موقع پر دعا ، استغفار ، صدقہ خیرات اور دیگر کام بھی نہیں کرنے چاہییں۔ یہ تو ایسا ہے کہ جیسے روزانہ سورج طلوع اور غروب ہوتا ہےتو جیسے روزانہ کے طلوع و غروب سے کوئی خوف زدہ نہیں ہوتا اس سے بھی نہیں ہونا چاہیے۔
ملحدانہ نظریے کی تردید:
اسلام اس نظریے کی تردید کرتا ہے:
اس نظریے کے مطابق ہر وہ چیز جس کا تعلق اسباب کے ساتھ جڑا ہوا ہو اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ تمام تکالیف یہاں تک کہ موت بلکہ قیامت بھی اسباب کے تحت ہے ان سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیےجبکہ اس نظریے کے حاملین کو ان چیزوں کا خوف کھائے جاتا ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس پراسرار کائنات میں جو واقعات رونما ہوتے ہیں سائنسی ترقی کی بدولت بعض واقعات کے ظاہری اسباب تک ہماری رسائی ہو جاتی ہے اور اکثر واقعات و تغیرات ایسے ہیں جن تک سائنسی ترقی کے باوجود بھی رسائی نہیں ہوسکتی ان کا تعلق محض اللہ کی قدرت اور مشیئت کے ساتھ ہے جن کی نظریں ان واقعات کے ظاہری اسباب تک محدود رہتی ہیں ان کے لیے کائنات کےتغیرات دلچسپ تماشے سے زائد کچھ نہیں ہوتے لیکن جن کی نگاہ ان ظاہری اسباب سے بھی اوپر جاتی ہے وہ ان واقعات سے اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ اور قدرت کاملہ کے عقیدہ کا رسوخ دل میں پیوست کرلیتے ہیں اس لیے ان جیسے واقعات کے جو ظاہری اسباب تجربے اور مشاہدے سے معلوم ہوتے ہیں انبیاء کرام علیہم السلام ان کے بیان کرنے کی ضرورت محسوس نہیں فرماتے کیونکہ ایسے ظاہری اسباب تک پہنچنے کےلیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور، تجربات اور مشاہدات کی دولت عطا کر رکھی ہے ، وحی کی ضرورت نہیں۔ ہاں انبیاء کرام علیہم السلام اُن باتوں کی طرف توجہ کراتے ہیں جن تک رسائی سے عقل، تجربہ اور مشاہدہ سب ناکام ہوجاتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلط عقیدے کی تو کھل کر تردید فرمائی کہ چاند اور سورج کے گرہن لگنے کو کسی کی موت و حیات سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس کی سائنسی وجہ بیان نہیں فرمائی ۔ بلکہ ظاہری سبب سے اوپر کی اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی جس کو عام طور انسان فراموش کر دیتا ہے اور یہ کہہ کر مطمئن ہو جاتا ہے کہ یہ سب کچھ تو اسباب کے تحت رونما ہو رہا ہے لہذا ڈرنے کی چنداں ضرورت نہیں اور فرمایا کہ سورج جیسی عظیم الجثہ مخلوق کا بے نور ہونا اللہ کی قدرت کی دلیل ہے کہ جس اللہ کو اس پر یہ اختیار حاصل ہے کہ جب چاہے بے نور کردے اور جب چاہے اس کی روشنی واپس لوٹا دے ایسے ہی اسے انسان جیسی کمزور مخلوق پر بھی مکمل قدرت حاصل ہے جب چاہے اسے موت دے اور محشر میں زندہ اٹھا کر اس کےلیے جنت و جہنم کا فیصلہ فرمائے ۔
رسول اللہ ﷺ کی تعلیم:
عَنْ قَيْسٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللهِ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَقُومُوا فَصَلُّوا۔
صحيح بخاری، باب الصلاۃ فی کسوف الشمس ، الرقم: 1041
ترجمہ: حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج و چاند کو کسی کے مرنے سے گرہن نہیں لگتا، یہ تو قدرت خداوندی کی دو نشانیاں ہیں جب انہیں گرہن ہوتے دیکھو تو نماز پڑھو۔
عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ …وَقَالَ هَذِهِ الْآيَاتُ الَّتِي يُرْسِلُ اللهُ لَا تَكُونُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنْ يُخَوِّفُ اللهُ بِه عِبَادَهُ فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَافْزَعُوا إِلَى ذِكْرِهِ وَدُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ۔
صحیح البخاری ،باب الذکر فی الکسوف ، الرقم: 1059
ترجمہ: حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سورج گرہن کے موقع پر …آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ )سورج اور چاند گرہن ( نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ظاہر فرماتا ہے یہ کسی کی موت وحیات کی وجہ سے نہیں آتیں بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اس لیے جب تم اس طرح کی کوئی چیز دیکھو تو فوراً اللہ تعالی کا ذکر کرو ، اس سے دعا اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو ۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ:… فَقَالَ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَقُولَ ثُمَّ أَمَرَهُمْ أَنْ يَتَعَوَّذُوا مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ۔
صحیح البخاری، باب التعوذ من عذاب القبر فی الکسوف، الرقم: 1050
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےمروی ایک طویل روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو سورج گرہن کے بارے وہ سب باتیں تعلیم کے طور پر ارشاد فرمائیں جو اللہ چاہتے تھے اور بعد میں انہیں حکم دیا کہ عذاب قبر سے پناہ مانگیں۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ… فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ مِنْ آيَاتِ اللهِ وَإِنَّهُمَا لاَ يَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَكَبِّرُوا وَادْعُوا اللَّهَ وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا.
صحیح مسلم ،باب صلاۃ الکسوف، الرقم: 2044
ترجمہ: ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا … اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ تعا لیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں ان کو کسی کی مو ت یا زند گی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا جب تم انہیں (اس حالت میں ) دیکھو تو اللہ کی بڑائی بیان کرو، اللہ تعا لیٰ سے دعا مانگو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔
سورج گرہن کے وقت کیا کریں؟
اس بارے مذکورہ بالا روایات ہماری رہنمائی کرتی ہیں ان میں مجموعی طور پر نماز ، دعا، ذکراللہ ، استغفار اور صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
سورج گرہن اور نماز:
سورج گرہن کے وقت جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے صلوٰۃ الکسوف کہتے ہیں جس کے چند اہم مسائل ہم ان شاء اللہ آخر میں ذکر کریں گے ۔ ابھی یہاں یہ عرض کرنا ہے کہ سورج گرہن کے وقت نماز کا حکم کیوں دیا گیا ہے ؟تو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ نماز اہم العبادات ہے، تمام عبادات میں اس کی فضیلت نرالی اور بلند ہے، اللہ کی رحمت کو اپنے اوپر متوجہ کرنے کا ذریعہ ہے، مصیبت میں دل کی تسلی کا باعث ہے، اللہ کو راضی کرنے کا سبب ہے، اپنی عاجزی اور بے بسی کا اظہار ہے ، یہی وجہ ہے کہ عام معمولات کے علاوہ جب کبھی کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آتا مثلاً تیز ہوا ، آندھی اور طوفانی بارش وغیرہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں مشغول ہو جاتے ۔ سورج گرہن بھی ایک غیر معمولی نوعیت کا معاملہ ہوتا ہے کیونکہ اس میں سورج جیسا عظیم الشان جثہ بے نور ہوجاتا ہے تو اس موقع پر نماز کا حکم دیا گیا ہے ۔
سورج گرہن اور دعا:
دعا ایسا نیک عمل ہے کہ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہمارے حق میں اپنی صفت رحمت کو صفت غضب پر غالب فرما لیتے ہیں اور مصائب سے چھٹکارا نصیب فرماتے ہیں ۔ سورج گرہن کا وقت بھی انہی اوقات میں شامل ہے جس میں انسان مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے اس لیے دعا کا حکم دیا گیا ہے ۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الدُّعَاءَ يَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ يَنْزِلْ فَعَلَيْكُمْ عِبَادَ اللَّهِ بِالدُّعَاءِ۔
جامع الترمذی ، باب بلا ترجمۃ ، الرقم: 3548
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو مصائب نازل ہوچکےیا ہونے والے ہوں اس میں دعا کام آتی ہے۔اس لیے اللہ کے بندو! دعاؤں کا خوب اہتمام کرو ۔
سورج گرہن اور ذکر اللہ:
اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے اصل تو یہ ہے کہ انسان کا کوئی لمحہ اللہ کی یاد کے بغیر نہیں گزرنا چاہیے لیکن جب کوئی مصیبت یا پریشانی غیر معمولی واقعہ پیش آجائے تو اس موقع پر زبان اور دل دونوں سے اللہ اللہ کی صدا سنائی دینی چاہیے۔ سورج گرہن سے خوف کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اگر اس خوف میں اللہ کی رحمت کی آمیزش نہ کی جائے تو محض خوف مایوسی پیدا کرتا ہے اور یہ مایوسی اللہ سے دور کرتی ہے اس لیےحکم دیا گیا ہے کہ اس موقع پر اللہ کا ذکر کرنا چاہیے کیونکہ قرآنی فیصلہ ہے کہ ذکر اللہ سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ۔
سورج گرہن اور استغفار :
اللہ کی طرف سے سورج کو گرہن لگنا بطور تنبیہ کے ہوتا ہے کہ اپنے برے اعمال سے باز آجاؤ اور تائب ہو کرمعافی مانگو ورنہ دیکھو کہ میں سورج جیسی عظیم الشان مخلوق کو یوں بے نور کر سکتا ہوں تو تمہیں سزا دینا میرے لیے کیا مشکل ہے ؟ لہذا اس موقع پر خصوصیت کے ساتھ استغفار کا حکم دیا گیا ہے ۔
سورج گرہن اور عذاب قبر سے پناہ:
سرسری طور پر سورج گرہن اور عذاب قبر میں کوئی مناسبت نظر نہیں آتی لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو ان دونوں میں مناسبت موجود ہے اسی لیے اس موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب قبر سے پناہ حاصل کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔
قَالَ بن الْمُنِيرِ فِي الْحَاشِيَةِ مُنَاسَبَةُ التَّعَوُّذِ عِنْدَ الْكُسُوفِ أَنَّ ظُلْمَةَ النَّهَارِ بِالْكُسُوفِ تُشَابِهُ ظُلْمَةَ الْقَبْرِ وَإِنْ كَانَ نَهَارًا وَالشَّيْءُ بِالشَّيْءِ يُذْكَرُ فَيُخَافُ مِنْ هَذَا كَمَا يُخَافُ مِنْ هَذَا فَيَحْصُلُ الِاتِّعَاظُ بِهَذَا فِي التَّمَسُّكِ بِمَا يُنْجِي مِنْ غَائِلَةِ الْآخِرَة۔
فتح الباری شرح صحیح البخاری، باب التعوذ من عذاب القبر فی الکسوف
ترجمہ: ابن منیر رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ سورج گرہن کے وقت عذاب قبر سے پناہ حاصل کرنے میں مناسبت یہ ہے کہ جیسے قبر میں اندھیرا ہوتا ہے اسی طرح سورج گرہن کے وقت دن میں بھی اندھیرا ہوجاتا ہے )یہ الگ بات ہے کہ قبر کا اندھیرا سورج گرہن کے اندھیرے سے کہیں زیادہ ہوگا ( اور ضابطہ ہے کہ ایک چیز دوسری چیز کے یاد کرنے کا سبب ہوتی ہے اس لیے انسان سورج گرہن کے وقت خوف زدہ ہوتا ہے جس طرح قبر کے عذاب سے خوف زدہ ہوتا ہے تو وہ آخرت کی ہولناکیوں سے نجات دینے والی چیزوں کو اختیار کر کے عبرت حاصل کرتا ہے ۔
سورج گرہن اور صدقہ و خیرات :
اللہ کے راستے میں اپنے مال کو خرچ کر کے مستحق افراد کی ضروریات کو پورا کرنا صدقہ وخیرات کہلاتا ہے ۔صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دور کرتا ہے اور بری موت سے حفاظت کا ذریعہ بنتا ہے ۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَةُ السِّرِّ تُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ وَصَدَقَةُ الْعَلَانِيَةِ تَقِي مِيْتَةَ السُّوءِ۔
شعب الایمان للبیہقی ، فصل فی طلاقۃ الوجہ ، الرقم: 7704
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:چپکے سے صدقہ کرنا رب تعالیٰ کے غضب کو دور کرتا ہے اور علانیہ صدقہ کرنا بری موت سے بچاتا ہے۔
سورج گرہن چونکہ اللہ کے غضب کا عکاس ہوتا ہے اس موقع پر اگر اللہ تعالیٰ کا رحم و کرم شامل حال نہ ہو تو انسانیت فنا ہو جائےاس لیے اس موقع پر صدقہ و خیرات کا حکم دیا گیا ہے۔
صلوٰۃ الکسوف کے چند مسائل:

صلوٰۃ الکسوف کا وقت سورج گرہن لگنے کی ابتداء سے لے کر گرہن کے زائل ہونے تک رہتا ہے ۔ البتہ اوقات مکروہ) جن میں نماز پڑھنا جائز نہیں ) میں نہیں پڑھی جاتی۔ ان اوقات مکروہ میں نماز کے علاوہ دعا ، استغفار ، ذکر اذکار وغیرہ کرتے رہنا چاہیے ۔

صلوٰۃ الکسوف کے لیے اذان و اقامت نہیں ۔

صلوٰۃ الکسوف میں خطبہ نہیں ہوتا ۔

صلوٰۃ الکسوف کی دو رکعتیں ہیں ۔

صلوٰۃ الکسوف باجماعت ادا کی جائے اگرچہ انفرادا بھی گنجائش ہے ۔

صلوٰۃ الکسوف سری نماز ہے لیکن جہر کی گنجائش بھی موجود ہے ۔

صلوٰۃ الکسوف بھی دو رکعات والی عام نماز وں کی طرح ہےیعنی ہر رکعت میں ایک رکوع ہے۔ ہاں قراءۃ اور رکوع و سجود طویل ہونے چاہییں ۔
فائدہ: جن روایات میں ایک رکعت میں ایک سے زائد رکوع کا تذکرہ ملتا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر دن اور ہر رات شریعت کے موافق گزارنے کی توفیق نصیب فرمائیں ۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
خانقاہ ، چشتیہ شاہ عالم سلنگور ، ملائیشیا
جمعرات ،19 دسمبر ، 2019ء