سورۃ المؤمنون

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ المؤمنون
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿ قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾ الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾﴾
سورت کے فضائل وخصوصیات:
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی آتی تھی تو عام طور پر ایسی آواز ہوتی جیسے شہد کی مکھیاں بھنبھناتی ہیں، ان کے اڑنے سے ایک آواز پیدا ہوتی ہے، جب وہ آواز ختم ہوتی تو ہم سمجھ جاتے کہ آپ پر وحی آ چکی ہے۔ ایک بار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے آواز آنا شروع ہوئی تو ہم بھی قریب ہو گئے تاکہ دیکھیں کہ نئی وحی کیا آئی ہے۔ جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ ہوکر یہ دعا مانگی:
"اَللّٰهُمَّ زِدْنَا وَلَا تَنْقُصْنَا وَأَكْرِمْنَا وَلَا تُهِنَّا وَأَعْطِنَا وَلَا تَحْرِمْنَا وَآثِرْنَا وَلَا تُؤْثِرْ عَلَيْنَا وَأَرْضِنَا وَارْضَ عَنَّا."
سنن الترمذی ، رقم: 3173
کہ اے اللہ! ہمیں زیادہ عطا فرما، کمی نہ فرما، ہمیں عزت عطا فرما ہمیں ذلت سے محفوظ فرما، ہمیں بخشش عطا فرما ہمیں محروم نہ فرما، ہمیں دوسروں پر ترجیح دے دوسروں کو ہم پر ترجیح نہ دے، ہم سے راضی ہو جا اور ہمیں بھی اپنی رضا سے راضی کر دے۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی مجھ پر دس آیات ایسی نازل ہوئی ہیں کہ جو شخص ان پر پورا پورا عمل کرے وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔
تفسیر ابن کثیر: ج4 ص463
مومنین کی سات صفات:
سورۃ المؤمنون کی پہلی دس آیات میں ایمان والوں کی سات خاص صفات ذکر کی گئی ہیں :
[1]: ﴿الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾﴾
کہ نماز عاجزی کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
[2]: ﴿وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾﴾
کہ فضول کاموں اور فضول باتوں سے بچتے ہیں۔ یہ بات خود حدیث مبارک میں بھی ہے کہ
”إِنَّ مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكَهُ مَا لَا يَعْنِيْهِ“
کہ یہ آدمی کے اسلام کی خوبی ہے کہ فضولیات سے بچتا رہے۔
سنن الترمذی، رقم: 2318
[3]: ﴿وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾﴾
کہ وہ لوگ زکوٰۃ پابندی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔
[4]: ﴿وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ ۙ﴿۵﴾﴾
کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شرمگاہ کی حفاظت پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ ایک حدیث مبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
" مَنْ يَضْمَنْ لِىْ مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنْ لَهُ الْجَنَّةَ․"
صحیح البخاری ، رقم:6474
کہ جو شخص مجھے اپنی زبا ن اور اپنی شرمگاہ کی ضمانت دے تو میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
گناہ شروع ہوتا ہے دیکھنے سے، آنکھ دیکھتی ہے اور ہاتھ پکڑتا ہے پھر شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے اور انجام بہت برا ہوتا ہے۔ اس لیے جو بدکرداری سے بچنا چاہےاس کا سب سے پہلا حل یہ ہے نا محرموں سے بچے، اپنی نگاہ کی حفاظت کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
ہمارے مشائخ نے بڑی وضاحت کے ساتھ لکھا اور فرمایا ہے کہ جب تک بچے کے چہرے پر ڈاڑھی نہ آئے بلا وجہ اس کے چہرے پر نگاہ نہیں ڈالنی چاہیے، اس سے بچنا چاہیے۔ جب تک چہرے پر ڈاڑھی نہ ہو ایسے بچے کو امرد کہتے ہیں۔ اس سے بچنا ضروری ہے، خلوت میں اس کے ساتھ کبھی نہ بیٹھیں۔ اپنے آپ کو محفوظ رکھیں۔
امام محمد کا ایک ہفتے میں حفظ قرآن:
حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ اس بارے میں معروف ہے۔ امام محمد رحمہ اللہ بہت خوبصورت تھے اور بچپن میں پڑھنے کے لیے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے پاس آئے۔ امام اعظم دوران سبق ان کو سامنے نہیں بٹھاتے تھے بلکہ پشت کے پیچھے بٹھاتے تھے۔ یہ کون ہیں! امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت۔
اور امام محمد کون ہیں؟ ذرا ان کی قابلیت کو دیکھنا کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے والد اپنے بیٹے امام محمد کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے پاس لا ئے کہ ان کو درسگا ہ میں بٹھائیں اور پڑھائیں۔ فرمایا:کیا یہ قرآن کا حافظ ہے؟ عرض کیا کہ نہیں۔ فرمایا: میری درسگاہ میں بیٹھنے کی شرط یہ ہے کہ طالب علم قرآن کا حافظ ہو۔ امام محمد کے والد ایک ہفتے کے بعد پھر اپنے بیٹے کو لائے کہ میرے بیٹے کو کلاس میں بٹھا لیں! فرمایا تم پچھلے ہفتے بھی لائے تھے تو میں نے بتایا تھا میری شرط ہے کہ طالب علم قرآن کا حافظ ہو، اس لیے پہلے اس کو حفظ کراؤ! تو امام محمد کے والد نے کہا“ جی میرا بیٹا قرآن حفظ کر کے آ گیا ہے۔ یہ تھے امام محمد۔ ایک ہفتے میں مکمل قرآن حفظ کرنے والا آدمی لیکن امام صاحب نے اپنے سامنے نہیں بٹھایا بلکہ پشت کے پیچھے بٹھایا۔ اس لیے جب انسان بے احتیا طی کرتا ہے تو گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اپنے آپ کو ان گناہوں سے بچاؤ! یہ گناہ ایسے ہیں کہ دنیا میں بھی ذلت اور آخرت میں بھی ذلت اٹھانی پڑتی ہے اور ایمان تباہ ہو جاتا ہے، اعمال تباہ ہو جاتے ہیں، حافظہ کمزور ہو جاتا ہے، پڑھائی سے دل اچاٹ ہوجاتا ہے اور یہ ایسا عجیب گناہ ہے کہ جب لگ جائے پھر انسان کی جان نہیں چھوڑتا۔
خود کو گناہوں سے بچائیے!
ہمارے حضرت عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جو شخص زمانہ طالب علمی میں اس گناہ میں مبتلا ہو جائے وہ مہتمم اور شیخ الحدیث بھی بن جائے تب بھی اس گناہ سے جان نہیں چھوٹتی، اس لیے زمانہ طالب علمی سے ہی احتیاط کرو اور جبر کے ساتھ خود کو سنبھالو۔
﴿اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ فَاِنَّہُمۡ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ ۚ﴿۶﴾﴾
ایمان والے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتے ہیں، ہاں اپنی بیوی ہو یا اپنی باندی ہو تو پھر جائز ہے۔ آپ اندازہ فرما ئیں کہ شرمگاہ کا استعمال ان دو کے علاوہ کرنا حرام ہے، زنا ہو تب بھی حرام ہے، مشت زنی ہو تب بھی حرام ہے، لواطت ہو تب بھی حرام ہے، بیوی کا پچھلا حصہ استعمال کرو تب بھی حرام ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"مَلْعُونٌ مَنْ أَتَى امْرَأَةً فِيْ دُبُرِهَا."
مسند احمد :ج9 ص416 رقم الحدیث 10158
کہ جو شخص عورت کا پیچھے والا حصہ استعمال کرے تو وہ ملعون ہے۔
اپنی ہی بیوی ہو اور حالتِ حیض اور حالتِ نفاس میں ہمبستری کرے تب ہی حرام ہے۔ تو دیکھو! شریعت نے کس حد تک منع کیا ہے۔ اس لیے یہ ساری صورتیں اس میں شامل ہیں۔ نا محرم عورت سے زنا کرنا بھی شامل ہے، لواطت بھی شامل ہے، اپنی عورت کا پچھلا حصہ استعمال کرنا بھی شامل ہے، حالتِ حیض اور نفاس میں اگلا حصہ استعمال کرنا بھی شامل ہے۔ اس لیے ان تمام قسم کے گناہوں سے بچنا ضروری ہے۔
مسائل میں جھجک سے کام نہ لیں:
اور مسائل بیان کرتے وقت جھجک سے کام نہیں لینا چاہیے۔ مسائل کھل کر بیان کرنے چاہییں۔ ہمارے حضرت حکیم محمد اختر رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے -میں نے اپنے کانوں سے حضرت کی مجالس میں سنا ہے- فرمایا کہ تم شلواریں اتارتے ہو اور تمہیں شرم نہیں آتی اور جب میں کہتا ہوں کے شلوار مت اتارو تو کہتے ہو کہ اختر کیسی باتیں کرتا ہے! تم بلیوپرنٹ اور ننگی فلمیں بند کمرے میں دیکھتے ہو تمہیں شرم نہیں آتی اور جب میں کہتا ہوں یہ کام نہ کرو تو تم کہتے ہو کہ اختر کیسی باتیں کرتا ہے! تم دوسروں کے بچوں کو گندی نگاہ سے تاڑتے ہو تمہیں شرم نہیں آتی اور جب میں کہتا ہوں کہ مت تاڑو! تو کہتے ہو کہ اختر کیسی بات کرتا ہے! اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
[5، 6]: ﴿وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِاَمٰنٰتِہِمۡ وَ عَہۡدِہِمۡ رٰعُوۡنَ ۙ﴿۸﴾﴾
ایمان والے امانات کا خیال کرتے ہیں اور معاہدات کا خیال کرتے ہیں۔
[7]: ﴿وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَوٰتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ ۘ﴿۹﴾﴾
اور نماز کی پابندی کرتے ہیں۔
اللہ رب العزت نے یہ سات اوصاف بیان کیے ہیں۔ شروع بھی نماز سے کیا ہے اور ختم بھی نماز پر کیا ہے۔ اس سے آپ اندازہ فرمالیں کہ نماز کتنی اہم چیز ہے۔ جو لوگ نوافل کا اہتمام کرتے ہیں وہ سنن اور واجبات کا بھی اہتمام کرتے ہیں اور جو سنن اور واجبات کا اہتمام کرتے ہیں وہ فرائض کا بھی اہتمام کرتے ہیں، فرض کی حفاظت کے لیے نوافل کا اہتمام بہت ضروری ہے، نوافل کا اہتمام نہ کریں تو فرض کا اہتمام نہیں ہوتا۔
نماز میں رفع یدین نہ کرنے کی دلیل:
﴿الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾﴾
جہاں خشوع کی اور تفسیریں ہیں ان میں سے ایک تفسیر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ بھی مروی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں:
مُخْبِتُوْنَ مُتَوَاضِعُوْنَ لَا یَلْتَفِتُوْنَ یَمِیْنًا وَّلَا شِمَالًا وَّلَا یَرْفَعُوْنَ أَیْدِیَہُمْ فِی الصَّلَاۃِ․
تفسیر ابن عباس :ص212
کہ خشوع وخضوع والے وہ لوگ ہیں جو نماز میں عاجزی اور انکساری کرتے ہیں اور دائیں بائیں نہیں دیکھتے اور نماز میں رفع الیدین نہیں کرتے۔
تو ہم کہتے ہیں کہ ہم اھل السنۃ والجماعۃ احناف دیوبند نماز پڑھتے ہیں اور نماز میں رفع الیدین نہیں کرتے۔ ہماری دلیل قرآن کریم کی یہی آیت ہے: ﴾
﴿الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾
جو لوگ رکوع جاتے، رکوع سے اٹھتے اور تیسری رکعت سے اٹھ کر رفع یدین کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہماری دلیل بھی قرآن کریم میں ہے:
﴿خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ ﴾
الاعراف 7: 31
یہاں ”مسجد“ سے مراد ہے
”صلوٰۃ“
یعنی ”عند کل صلوٰۃ“ کہ نماز کے وقت زینت کا خیال کیا کرو اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہاں زینت سے مراد رفع الیدین ہے یعنی نماز میں رفع الیدین کا اہتمام کرو۔ تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ایک صحابی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ایک آیت کی تفسیر کریں جس کا معنی ہو کہ نماز میں رفع الیدین نہ کرو تو احناف کہتے ہیں کہ رفع الیدین نہ کرنا قرآن سے ثابت ہو گیا اور اگر ایک صحابی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب رفع الیدین کرنے کی تفسیر کرتے ہیں تو رفع الیدین کرنا بھی تو قرآن سے ثابت ہوگیا۔
ہم کہتے ہیں کہ بات سمجھو! دو لفظ الگ الگ ہیں؛ ایک ہے لفظ
”فِیْ“
اور ایک ہے لفظ
”عِنْدَ“
ہے۔ لفظ
”فِیْ“
کا معنی ہوتا ہے میں اور اندر، اور لفظ
”عِنْدَ“
کا معنی ہوتا ہے پاس۔ تو نماز میں دو قسم کے رفع یدین ہیں؛ ایک رفع یدین ہے تکبیر تحریمہ کے وقت، یہ ہے ”عند“ اور ایک ہے رکوع کرتے وقت، یہ ہے
”فی“۔
یعنی ایک ہے رفع یدین نماز میں کرنا اور ایک ہے رفع یدین نماز کے پاس کرنا۔ تو عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
وَلَا یَرْفَعُوْنَ أَیْدِیَہُمْ فِی الصَّلَاۃِ.
خشوع والے نماز میں رفع یدین نہیں کرتے۔ یہ جو رکوع والا رفع الیدین ہے یہ نماز میں والا رفع یدین ہے لہذا اسے نہ کیا جائے اور
﴿خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ﴾
میں مسجد سے مراد نماز ہے اور بقول آپ کے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی تفسیر کے مطابق نماز کے پاس رفع الیدین کرو تو یہ نماز کے پاس والا رفع یدین وہ ہوتا ہے جو نماز کے شروع میں ہو یعنی تکبیر تحریمہ والا رفع یدین۔ اب اس کا معنی یہ ہے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رفع یدین کرو یعنی تکبیر تحریمہ والا رفع یدین اور ادھرعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نہ کرو یعنی رکوع والا رفع یدین۔ تو تمہارا ایک رفع یدین بھی قرآن سے ثابت نہیں ہے، جو کرنا ثابت ہے وہ بھی ہمارے والا ہے اور جو نہ کرنا ثابت ہے وہ بھی ہمارے والا ہے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
میں نے کل بھی کہا تھا کہ بات سمجھانا سیکھو! اپنی زبان میں فصاحت پیدا کرو، فصاحت اور بلاغت کا معنی لفاظی نہیں ہے، فصاحت اور بلاغت کا معنی ہے کہ اس طرح گفتگو کرو کہ سامع اور مخاطب کے دل و دماغ میں بات اتر جائے، یوں بات کیا کرو!
عیدین میں رفع یدین کیوں؟
پھر وہ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اچھا! احناف نماز میں رفع الیدین کے قائل نہیں لیکن جب تم عیدین کی نماز پڑھتے ہو تو چھ مرتبہ رفع الیدین نماز میں کرتے ہو ہر تکبیر کے ساتھ اور جب وتر پڑھتے ہو تو تیسری رکعت میں دعائے قنوت کے وقت جب اللہ اکبر کہتے ہو تو رفع الیدین کرتے ہو تو یہ رفع یدین بھی تو نماز میں ہوا، پھر یہ عمل بھی تو تمہارے مسلک کے خلاف ہوا۔
ہم نے کہا: نماز نام ہے اذکار اور افعال کا لیکن اصل نام ہے اذکار کا -یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں، پھر دوسروں کو سمجھائیں- ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکۡرِیۡ ﴿۱۴﴾﴾
طٰہٰ 20: 14
کہ نماز پڑھو تاکہ تم میرا ذکر کرو۔ نماز کا مقصد ہے اللہ کا ذکر کرنا۔ میں بارہا کہتا ہوں کہ ترجمہ کرنا سیکھو۔ اس آیت کا ترجمہ یوں کرو! ”نماز پڑھو تاکہ تم نماز کے ذریعے میرا ذکر کرو!“ لام تعلیل کا ہے۔ معلوم ہوا کے نماز سے مقصود اللہ کا ذکر ہے۔ اب نماز میں کچھ اقوال ہوتے ہیں، ان کو ذکر کہنا اور سمجھنا بہت آسان ہے۔ مثلاً
”سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ“
یہ ذکر ہے
، ”اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ“
یہ ذکر ہے،
”سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی“
یہ ذکر ہے،
”اَلتَّحِیَّاتُ لِلہِ“
یہ ذکر ہے لیکن جو افعال ہیں وہ کیسے ذکر بنیں؟ ہم کہتے ہیں کہ نماز کے وہ افعال جو مقرون بذکر اللہ ہیں وہ ذکر ہی ہیں۔ جیسے ہم نے ہاتھ اٹھائے اور کہا اللہ اکبر، یہ ہاتھ اٹھانا ذکر ہو گیا کیونکہ ہم نے ا س کے ساتھ اللہ اکبر کہہ دیا ہے۔ ہم ہاتھ باند ھ کر کھڑے ہوئے اور
”سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ“
پڑھا تو یہ قیام بھی ذکر ہو گیا کیونکہ اس کے ساتھ اللہ کا ذکر مل گیا ہے۔ پھر ہم نے کہا
”سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ“
اور کھڑے ہوئے اور ساتھ اللہ کا نام بھی لیا تو گویا کہ کھڑا ہونا بھی ذکر ہو گیا۔ پھر ہم رکوع میں گئے تو کہا اللہ اکبر، ہم سجدے میں گئے تو کہا اللہ اکبر۔ اب جو افعال کے ساتھ ذکر ہے تو اس ذکر کی وجہ سے وہ افعال بھی ذکر ہوگئے۔
اسی طرح جب ہم تکبیراتِ عیدین کہتے ہیں تو ہاتھ اٹھاتے وقت ساتھ کہہ دیتے ہیں اللہ اکبر۔ یہ ہاتھ اٹھانا ایک فعل ہے لیکن ساتھ اللہ کا نام لیا تو یہ بھی ذکر بن گیا۔ وتر کی تیسری رکعت میں ہاتھ اٹھاتے ہیں اور ساتھ کہتے ہیں اللہ اکبر، تو یہ فعل کے ساتھ اللہ کا نام لیا تو یہ بھی ذکر بن گیا۔ تو تکبیراتِ عیدین کے وقت اور وتر کی تیسری رکعت میں دعائے قنوت کے وقت جب ہم ہاتھ اٹھاتے ہیں، رفع الیدین کرتے ہیں تو ساتھ اللہ کا نام بھی لیتے ہیں۔ لہذا یہ حرکات اور افعال بھی اللہ کا ذکر بن جاتے ہے، اور غیر مقلدین جب رکوع میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں اللہ اکبر، انہوں نے یہاں پر دو کام کیے ہیں؛ ایک رکوع میں گئے اور دوسرا ہاتھ اٹھائے۔ اب یہ اللہ اکبر کس کے لیے ہے؟ رکوع میں جانے کےلیے ہے یا رفع یدین کےلیے ہے؟ تو یہاں پر ذکر ایک ہے اور افعال دو ہیں تو یہ ذکر کس فعل کےلیے ہے؟ اب ان افعال میں سے ایک ہے رکوع جانا اور ایک ہے ہاتھ اٹھانا۔ رکوع جانا تو فرض ہے اگر رکوع نہ کریں تو نماز نہیں ہوتی اور ہاتھ اٹھانا یعنی رفع الیدین کرنا یہ تمہارے ہاں بھی فرض نہیں ہے تو اس اللہ اکبر والے ذکر کو کس فعل کے لیے شمار کرو گے؟ رکوع کے لیے شمار کرو گے تو ٹھیک ہے اس سے رکوع اللہ کا ذکر بن جائے گااور نما ز کا حصہ بن جائے گا۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ اللہ اکبر کہنا رفع الیدین کے لیے ہے تو پھر ہاتھ اٹھانا تو اللہ کا ذکر بن جائے گا لیکن رکوع کرنا اللہ کا ذکر نہ بنے گا تو جب اللہ کا ذکر نہ بنا تو نماز کا حصہ نہ ہوا اور رکوع نماز کا حصہ نہیں ہو گا تو نماز ادا نہیں ہو گی۔ اگر اللہ اکبر کہنے کو رکوع کا حصہ بنا لیں اور رفع الیدین کا نہ بنائیں تو رفع الیدین نماز کا حصہ نہ بنے گا تو نماز تمہارے ہاں پھر بھی ہو جا ئے گی۔ اس لیے آپ جو رفع الیدین کرتے ہیں اس کے ساتھ اللہ کا ذکر موجود نہیں ہوتا، جب اس رفع الیدین کے ساتھ اللہ کا نام نہیں لیا گیا تو یہ ذکر اللہ نہ بنا اور قرآن کہتا ہے:
﴿وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکۡرِیۡ﴾
کہ نماز پڑھو تاکہ تم میرا ذکر کرو۔ اس لیے ہمارے والا جو رفع الیدین ہے وہ تو نماز کا حصہ بن جاتا ہےاس پر تو کوئی اشکال ہی نہیں اور تمہارے والے رفع الیدین نماز کا حصہ نہیں بنتے اس لیے اشکال اس پر ر ہتا ہے، ہمارے رفع الیدین پر اشکال بالکل نہیں ہوتا۔
تخلیقِ انسانی کے سات مراحل:
﴿وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿ۚ۱۲﴾ ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ ﴿۪۱۳﴾ ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَکَ اللہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ ﴿ؕ۱۴﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کے سات مراحل بنائے۔ پہلا مرحلہ
﴿مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ﴾
ہے کہ انسان کی تخلیق کا پہلا مرحلہ مٹی کا خلاصہ ہے۔ پوری مٹی سے تو بندہ پیدا نہیں ہوتا البتہ مٹی کے خلاصے سے پیدا فرمایا۔ دوسرا مرحلہ
﴿ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ﴾
اس کے بعد مٹی کے خلاصے سے نطفہ یعنی پانی کا قطرہ بنا۔ تیسرا مرحلہ
﴿ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً﴾
کہ اس پانی کے نطفے کو علقہ یعنی جما ہوا خون بنا دیا۔ چوتھا مرحلہ
﴿فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً﴾
کہ اس جمے ہوئے خون کا لوتھڑا بنایا۔ پانچواں مرحلہ
﴿فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا﴾
پھر اس لوتھڑے کو ہڈیوں میں تبدیل کر دیا۔ چھٹا مرحلہ
﴿فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا﴾
پھر ہڈیوں کے اوپر گوشت چڑھا دیا۔ ساتوا ں مرحلہ
﴿ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ﴾
کہ پھر مکمل انسان بنا دیا۔ یہ جو ساتواں مرحلہ ہے یہ انسان کے بدن میں روح ڈالنا ہے۔
روح دو قسم کی ہے: ایک ہے روحِ حیوانی اور ایک ہے روحِ حقیقی۔ روحِ حقیقی تو اللہ نے عالمِ ارواح میں ہر کسی کی پیدا فرمادی ہے، ایک ہے ہر عضو میں روح تو یہ روحِ حیوانی ہوتی ہے۔ عالمِ ارواح اورروحِ حقیقی کا تعلق جیسےہی جڑ جاتا ہے تو بندے میں حیات پیدا ہوتی ہے۔ جب اس کا تعلق ختم ہوجاتا ہے تو انسان پر موت آجاتی ہے۔
حیات فی القبر کاثبوت:
﴿ثُمَّ اِنَّکُمۡ بَعۡدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوۡنَ ﴿ؕ۱۵﴾ ثُمَّ اِنَّکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ تُبۡعَثُوۡنَ﴿۱۶﴾﴾
اللہ نے تمہیں ان سات مراحل سے گزار کر زندگی دی، پھر تمہیں موت دیں گے اور پھر قیامت کے دن تمہیں دوبارہ کھڑا کریں گے۔
اب بعض لوگوں کا اس آیت سے یہ استدلال کرنا کہ قبر میں حیات نہیں ہے بہت بڑی حماقت او رنادانی کی بات ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے موت دیں گے، پھر قیامت کے دن اٹھائیں گے۔ اگر قبر میں حیات ہوتی تو اس کا بھی ذکر ہوتا، معلوم ہوا کہ قبر میں حیات نہیں ہے۔
اس کا جواب اچھی طرح سمجھ لیں کہ ایک ہے حیاتِ ظاہری اور ایک ہے حیاتِ باطنی اور حیاتِ مخفی۔ ایک وہ حیات ہے جو نظر آ رہی ہوتی ہے اور ایک وہ حیات ہے جو نظر نہیں آتی۔ موت کے بعد قبر میں جو حیات ملتی ہے وہ حیاتِ ظاہری نہیں ہوتی بلکہ یہ حیاتِ مخفی ہوتی ہے، اسی لیے فرمایا کہ ﴿لَّا تَشۡعُرُوۡنَ﴾
البقرۃ 2: 154
کہ یہ حیات ایسی ہے کہ تمہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جب قیامت کے دن دوبارہ کھڑا کریں گے تو وہ حیات ایسی ہوگی جو مخفی نہیں ہوگی بلکہ ظاہری اور واضح ہوگی۔ اب آیت کا مطلب اور تفسیر یہ ہو گی کہ اللہ تعالیٰ بندے کو پہلے موت دیں گے، اس کے بعد قبر میں حیات دیں گے لیکن یہ حیات مخفی ہو گی ظاہری اور آنکھوں سے نظر آنے والی نہیں ہو گی، پھر جب قیامت قائم ہو گی تو اسی مخفی حیات کو ظاہری حیات بنا کر بندے کو کھڑا کر دیں گے۔ اسی لیے قران کریم میں موت کے بعد اٹھنے کے لیے کبھی لفظ
”بعث“
استعمال ہوا ہےاور کبھی لفظ
”حیات“
استعمال ہوا ہے۔ لفظ
”بعث“
کا معنی ہوتا ہے کہ بندے میں حیات تو تھی لیکن نظر نہیں آرہی تھی، مخفی تھی اور جب بندے کو کھڑا کر دیا تو جو حیات پہلے سے ہے اب وہ نظر آنے لگی ہے۔
اس کو مثال سے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک آدمی سویا ہوا ہےلیکن ہے زندہ، اب کوئی کہے: اس کو اٹھاؤ۔ تو اٹھا نے کا معنی کیا ہے کہ اس کو زندہ کرو یا نیند سے بیدار کرو؟ (نیند سے بیدار کرو۔ سامعین) لیکن وہ نیند سے اٹھتےہی کہتا ہے:
”أَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَیْہِ النُّشُوْرُ“
کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں موت کے بعد زندہ کیا اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اب دیکھیں کہ ہم نے تو کہا تھا کہ اس سوئے ہوئے کو بیدار کرو اور وہ سویا ہوا شخص اٹھ کر کہتا ہے کہ میں زندہ ہوگیا۔ حالانکہ اسے کہنا چاہیے کہ میں بیدار ہوگیا ہوں لیکن وہ کہتا ہے کہ میں زندہ ہو گیا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جو نیند میں حیات ہے یہ بیداری کی نسبت کم ہے اس لیے اس کو نیند بھی کہہ دیتے ہیں اور موت بھی کہہ دیتے ہیں۔ اسی طرح قبر میں جو حیا ت ہے یہ حیات ایسی ہے جو دنیا والی حیات کی نسبت کم ہے اور اتنی حیات ہے کہ
”قَدْرَ مَا یَتَلَذَّذُ وَ یَتَأَلَّمُ“
جس سے بدن راحت کو محسوس کرے اور خدانخواستہ اگر کافر ہے تو دکھ کو محسوس کرے کیونکہ حیات بہت کم درجے کی ہے۔ اس لیے اس حیات کو موت کی طرح سمجھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بندے کو دوبارہ زندہ کر دیا گیا ہے۔
تو کبھی لفظِ بعث آتا ہے اور کبھی لفظِ احیاء۔ احیاء کا معنی کہ پہلے اس کی حیات مخفی تھی اب اس کو حیات ظاہری مل گئی ہے تو کہہ دیا گیا کہ اس کو زندہ کر دیا اور بعث کا معنی کہ حیات پہلے سے تھی لیکن اس کے اجزاء منتشر تھے، اب اکٹھے کیے اور اس کو کھڑا کر دیا۔ اس لیے یہ استدلال کرنا کہ اس آیت سے قبر کی حیات کی نفی ہوتی ہے بالکل غلط ہے۔ قبر کی حیات کی نفی کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں بارہا کہتا ہوں کہ بندے پر مسئلہ کھل جائے تو پھر الجھن نہیں رہتی، جب تک مسئلہ نہ کھلے تو پھر الجھنیں ہی رہتی ہیں۔
قوم کسے کہتے ہیں؟
﴿وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖ فَقَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۲۳﴾﴾
ہم نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ انہوں نے جا کر کہا کہ اے میری قوم! اللہ کی عبات کرو جس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔
ایک ہے لفظِ
”امت“
اور ایک ہے لفظِ
”قوم“۔
قوم کا مفہوم الگ ہے اور امت کا مفہوم الگ ہے۔ پیغمبر کو جس کی طرف بھیجا جاتاہے وہ پیغمبر کی امت ہوتی ہے اور پیغمبر جس میں پیدا ہوتا ہے وہ پیغمبر کی قوم ہوتی ہے۔ پیغمبر کی امت میں تو کئی قومیں ہوتی ہیں لیکن پیغمبر کی اپنی قوم ایک ہوتی ہے کئی قومیں نہیں ہوتیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:
﴿وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ ﴾
ابراہیم 14: 4
ہم نبی کو وحی کی وہ زبان دیتے ہیں جو نبی کی قوم کی زبان ہوتی ہے۔
اگر ہم دنیا کے سارے مسلمان ایک قوم ہوتے تو ہم سب کی زبان عربی ہوتی حالانکہ ہم سب کی زبان عربی نہیں ہے۔ پتا چلا کہ ہم مسلمان کئی قومیں ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اس کی قوم کی زبان میں وحی دیتا ہے تاکہ نبی اپنی قوم کو اسی کی زبان میں اللہ کے احکام سمجھا سکے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم قریش تھی جس کی زبان عربی تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عربی زبان میں وحی دی گئی ہے۔
میں عوام کوسمجھانے کے لیے یہ بات کہا کرتا ہوں آپ مرزائیوں سے پوچھیں کہ تم لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہو، یہ بتاؤ کہ اس پر وحی آتی تھی؟ وہ کہیں گے کہ جی آتی تھی۔ اس کی وحی کس زبان میں آتی تھی؟ آپ جب اس کی نام نہاد وحی کی زبانیں گنیں وہ سات یا نو بنتی ہیں، کبھی عربی میں وحی، کبھی فارسی میں وحی، کبھی انگریزی میں وحی، کبھی سنسکرت میں وحی، کبھی کسی اور زبان میں وحی حالانکہ نبی کی وحی کی زبان نبی کی قوم کی زبان ہوتی ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ مرزاقادیانی کی قومیں سات تھیں نو تھیں یا ایک تھی؟ کہتے ہیں: جی ایک تھی۔ تو جب قوم اس کی ایک ہے تو وحی کی زبان بھی ایک ہونی چاہیے، جب اس کی وحی کی زبانیں کئی ہیں تو اس کی قومیں بھی کئی ہونی چاہییں نا! اور جس آدمی کی قومیں کئی ہوتی ہیں وہ حلال زادہ نہیں ہوتا بلکہ وہ حرام زادہ ہوتا ہے۔ حرام زادے آدمی کو شریف انسان ماننا مشکل ہے ہم اس کو نبی کیسے مان لیں؟! بات سمجھ میں آ گئی؟ (جی ہاں۔ سامعین)
ربوہ کا معنی اور قادیانی دھوکہ:
﴿وَ جَعَلۡنَا ابۡنَ مَرۡیَمَ وَ اُمَّہٗۤ اٰیَۃً وَّ اٰوَیۡنٰہُمَاۤ اِلٰی رَبۡوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیۡنٍ ﴿٪۵۰﴾﴾
حضرت مریم علیہا السلام جبرائیل امین علیہ السلام کے پھونکنے سے امید سے ہو گئیں۔ جب بچہ جننے کا وقت آیا تو اپنی بستی سے نکل گئیں اور ایک اونچی جگہ پر ٹھہریں۔ قرآن کریم میں ہے :
﴿فَنَادٰىہَا مِنۡ تَحۡتِہَاۤ اَلَّا تَحۡزَنِیۡ قَدۡ جَعَلَ رَبُّکِ تَحۡتَکِ سَرِیًّا ﴿۲۴﴾ وَ ہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ بِجِذۡعِ النَّخۡلَۃِ تُسٰقِطۡ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّا ﴿۫۲۵﴾﴾
مریم 19: 24، 25
کہ فرشتے نے ان کے نیچے ایک جگہ سے انہیں آواز دی کہ آپ غم نہ کریں۔ آپ نے رب نے آپ کے نیچے ایک چشمہ پیدا کر دیا ہے۔ ایک کھجور کا درخت ہے۔ اس کے تنے کو اپنی طرف ہلائیں تو پکی ہوئی تازہ کھجوریں گریں گی۔ انہیں کھاتی پیتی رہیں۔ کھجوریں کھانے اور چشمے کا پانی پینے سے معلوم ہوتا ہے کھجور نہایت طاقتور چیز ہے۔ ولادت کے بعد عورت کو بہت طاقت والی خوراک دیتے ہیں تاکہ کمزوری دور ہو جائے۔ تو مریم علیہا السلام نے اس مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جنا۔
”رَبْوۃ“ عربی زبان میں اونچی جگہ کو کہتے ہیں۔ اس آیت سے قاد یانی دھوکہ دیتے ہیں ، ربوہ کا معنی ربوہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے شہر کا ذکر قرآن میں ہے۔ دیکھو کفر کتنی محنت کرتا ہے۔ ان لوگوں نے ایسی جگہ کو تلاش کیا جو عام زمینوں سے اونچی ہے۔ یہ چناب نگر میں اونچی جگہ پر ہے۔ پہاڑ ہیں اور ساتھ میں دریا کا جو پانی بہہ رہاتھا اس کو انہوں نے چشمہ بنا دیا کہ قرآن کریم میں ہے۔ اب دنیا کے کافر جن کو انہوں نے مرزائی بنا کر ایک کفر سے دوسرے کفر میں لانا ہے ان کو یہ سمجھانے کے لیے کہ مرزا قادیانی نبی ہے اور اس کا ذکر قرآن میں ہے۔
ہمارے اکابر کو اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق اجر عطا فرمائے۔ حضرت مولانا منظور احمد چینوٹی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات پہ محنت شروع کی کہ اس شہر کا نام تبدیل کرانا ہے۔ مولانا چینوٹی بہت محنتی آدمی تھے۔ بس جس کام میں لگ جاتے اس کو چھوڑتے نہیں تھے جب تک منزل تک نہ پہنچا دیتے۔ ربوہ کا نام تبدیل کروا کر ”چناب نگر“ بنانے میں مولانا منظور احمد چینوٹی رحمۃ اللہ علیہ کو تیس سال لگ گئے۔ اس لیے بیانات میں جب بھی ذکر کریں تو ”چناب نگر“ ہی کہیں تاکہ ان کے دماغ سے ربوہ نکل جائے اور چناب نگر معروف ہوجائے۔ تیس سال کی محنت کے بعد ربوہ سے چناب نگر تبدیل کیا گیا۔ اب اگر باہر سے کوئی کافر آئے گا اور یہاں چناب نگر لکھا ہو گا تو وہ مرزائیوں سے کہے گا نا کہ تم توکہتے ہو کہ قرآن میں جس ربوہ کا ذکر ہے وہ یہی شہر ہے لیکن یہاں تو چناب نگر لکھا ہوا ہے، یہ ربوہ تو نہیں ہے۔
انسان بقدرِ وسعت مکلف ہوتا ہے:
﴿وَ لَا نُکَلِّفُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا وَ لَدَیۡنَا کِتٰبٌ یَّنۡطِقُ بِالۡحَقِّ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ ﴿۶۲﴾﴾
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم جب بھی کسی چیز کا حکم دیتے ہیں تو آدمی کی وسعت اور طاقت کے مطابق دیتے ہیں۔ اس لیے یہ بات ذہن نشین کر لیں قرآن کریم اور شریعت کا حکم بندے کے لیے مشکل تو ہو سکتا ہے لیکن نا ممکن نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ ایسا حکم دیتے ہی نہیں جس کا کرنا بندے کے اختیار اور بس میں نہ ہو۔
حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ کوئی مرد زنا کرنے کے لیے عورت کے جسم پر بیٹھا ہو تو اسے حکم ہے کہ پیچھے ہٹ جاؤ! اگر پیچھے ہٹنا ممکن نہ ہوتا تو اللہ رب ا لعزت پیچھے ہٹنے کا حکم ہی نہ دیتے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ایسی حالت میں بھی زنا سے بچنا انسان کے اختیار میں ہے۔
اور ہمارے حضرت عارف باللہ مولانا شاہ حکیم محمد اختر رحمۃ اللہ علیہ اس کی مثال دے کر یوں سمجھاتے تھے کہ یہ کیسے اختیار میں ہے! فرماتے تھے کہ آدمی زنا کے لیے عورت کے جسم پر بیٹھا ہو اور اچانک دروازہ کھلے تو ساری شہوت ختم ہوجاتی ہے، کوئی بندہ اوپر سے آجائے تو شہوتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ فرماتے کہ اتنی سی بات ہے تو یہ بندہ کیسے کہتا ہے کہ میرے بس میں نہیں ہے، معمولی تصور سے کہ مجھے کوئی دیکھ نہ لے آدمی کی خواہش اور شہوت ختم ہو جاتی ہے تو جب یہ تصور کریں کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے تو شہوت کیسے ختم نہیں ہو گی؟!
صاحبِ حیثیت بندوں پر عذاب کا معنی:
﴿بَلۡ قُلُوۡبُہُمۡ فِیۡ غَمۡرَۃٍ مِّنۡ ہٰذَا وَ لَہُمۡ اَعۡمَالٌ مِّنۡ دُوۡنِ ذٰلِکَ ہُمۡ لَہَا عٰمِلُوۡنَ ﴿۶۳﴾ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَخَذۡنَا مُتۡرَفِیۡہِمۡ بِالۡعَذَابِ اِذَا ہُمۡ یَجۡـَٔرُوۡنَ ﴿ؕ۶۴﴾﴾
ان مشرکین کے دل اس دین اسلام کے معاملہ میں بالکل غافل ہوئے پڑے ہیں اور اس کے علاوہ ان لوگوں کے اور بھی کئی برے کام ہیں جو یہ لوگ کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ہم ان میں سے دولت مند اور امیر لوگوں کو عذاب دیتے ہیں تو یہ لوگ چیخ اٹھتے ہیں۔
مشرک لوگ حضرات انبیاء علیہم السلام کی بات نہیں مانتے تھے تو ان پر عذاب آجاتا اور جب عذاب آنا ہوتا تو اللہ فرماتے ہیں کہ ہم ان میں سے آسودہ حال، سرمایہ دار اور مالدار لوگوں کو پکڑتے ہیں پھر وہ مالدار لوگ چیختے چلاتے ہیں۔ عذاب تو امیر اور غریب دونوں پر آتا ہے لیکن قرآن مجید میں جب بھی عذاب آنے کا ذکر آتا ہے تو مالداروں کا ذکر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صاحبِ حیثیت بندہ ہر آفت سے بچنے کا سامان اختیار کرلیتا ہے لیکن جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو یہ صاحبِ حیثیت لوگ بھی اس سے بچنے کا سامان نہیں کر پاتے اور عذاب میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔
مشرکین کی عادت:
﴿قَدۡ کَانَتۡ اٰیٰتِیۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فَکُنۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ تَنۡکِصُوۡنَ ﴿ۙ۶۶﴾ مُسۡتَکۡبِرِیۡنَ ٭ۖ بِہٖ سٰمِرًا تَہۡجُرُوۡنَ ﴿۶۷﴾﴾
مشرکین کی عادت یہ تھی کہ اللہ کی بات کو سنتے نہیں تھے بلکہ دوڑتے جاتے تھے، آیات کا انکار کرتے تھے اور یہ کام غرور اور تکبر کی وجہ سے کرتے تھے۔ اور یہ لوگ رات کو محفلیں سجا سجا کر قرآن کریم کے بارے میں بے ہودہ باتیں کرتے تھے۔
لفظ
”سٰمِرًا“
اگرچہ مفرد ہے لیکن یہاں جمع یعنی ”سَامِرِیْنَ“ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ان مشرکین کی یہ گندی عادت تھی کہ رات کو بیٹھ کر قصے کہانیا ں سناتے، اللہ کی آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
اس آیت کے تحت مفسرین نے لکھا ہے کہ رات کو قصے سنانا کہانیاں سنانا یہ مناسب نہیں ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جب عشاء کے بعد کسی کو قصے کہانیوں اور فضول گپوں میں مشغول دیکھتے تو سخت تنبیہ فرماتے اور بعض لوگوں کو تو باقاعدہ سزا دیتے تھے، فرماتے کہ عشاء کے بعد جلدی سو جاؤ شاید صبح تہجد کی توفیق مل جائے۔
مشرکین مکہ کی ہٹ دھرمی:
﴿وَ لَقَدۡ اَخَذۡنٰہُمۡ بِالۡعَذَابِ فَمَا اسۡتَکَانُوۡا لِرَبِّہِمۡ وَ مَا یَتَضَرَّعُوۡنَ ﴿۷۶﴾﴾
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کے لیے بددعا کی جس کی وجہ سے ان پر سخت قحط آیا۔ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے، مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ عالمین کے لیے رحمت بن کر آئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واقعی میں رحمت بن کر آیا ہوں۔ ابو سفیان کہنے لگے کہ ہمارے کچھ بندے آپ نے بدر میں مار دیے اور جو باقی بچے ہیں ان کو قحط سالی میں مارنا چاہتے ہیں؟ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ یہ قحط ختم ہو جائے۔ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے دعا فرمائی تو قحط ختم ہوگیا۔
تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ان کو عذاب میں مبتلا کیا تھا اور پھر اس سے نجات بھی دی لیکن یہ لوگ ایسے ہیں کہ پھر بھی اپنے رب کے سامنے نہیں جھکے۔ اور یہ عذاب سے نجات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے ملی لیکن یہ لوگ پھر بھی اپنے کفر اور شرک پر جمے رہے حالانکہ حق تھا کہ یہ لوگ راہِ راست پر آ جاتے۔
﴿حَتّٰۤی اِذَا فَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِیۡدٍ اِذَا ہُمۡ فِیۡہِ مُبۡلِسُوۡنَ ﴿٪۷۷﴾﴾
اللہ فرماتے ہیں کہ اگر ہم ان پر سخت عذاب نازل کریں تو یہ لوگ ایک دم مایوس اور حیرت زدہ ہو جائیں گے۔
نافرمان لوگوں پر یہ عذاب یا تو دنیا میں ہی کسی وقت آ سکتا ہے یا پھر موت کے بعد یہ لوگ اس عذاب کا مزہ چکھیں گے۔ اللہ پاک ہمیں ہر حال میں اپنی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
توحید و قیامت دو اہم عقیدے:
﴿وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡـِٕدَۃَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۷۸﴾﴾
اللہ رب العزت نے ان دو رکوع میں اہمیت کے ساتھ دومسئلے بیان کیے ہیں:
1 : تو حید 2: قیامت
پھر تو حید پر اللہ نے بہت سارے دلائل ارشادفرمائے۔ اس لیے ان آیات میں بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو بہت اہم ہیں اور سمجھنے والی ہیں۔ فرمایا کہ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہیں سننے کے لیے کان دیے ہیں، دیکھنے کے لیے آنکھیں دی ہیں اور سمجھنے کے لیے دل دیا ہے،
﴿قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ﴾
پھر بھی تم بہت کم شکر اداکرتے ہو، چاہیے تو یہ تھا کہ جب اللہ نے بغیر مانگے آنکھ دی ہے تو اس سے وہ کچھ دیکھتے جو اللہ چاہتے ہیں، کان دیے ہیں تو اس سے وہ سنتے جو اللہ چاہتے ہیں، اللہ نے دل دیا تو اس سے وہ سوچتے جو اللہ چاہتے ہیں، کان آنکھ اور دل اللہ نے دیے ہیں اور استعمال تم اپنی مرضی کے مطابق کرتے ہو، یہ بات مناسب نہیں ہے۔
اللہ کے شکر کی ایک صورت یہ ہے کہ بندہ زبان سے کہے کہ یا اللہ! تیرا شکر ہے، یا اللہ! تیرا بڑا شکر ہے․․ ․ یہ بھی ٹھیک ہے لیکن اصل شکر یہ ہے کہ انسان اعضاء سے وہ کام کرے جو اللہ چاہتے ہیں۔ کوئی شحص اپنے والد سے کہے کہ آپ میرے والد ہیں، بڑے ہیں، بزرگ ہیں میں آپ کو مانتاہوں۔ والد صاحب کہےکہ بیٹا! مجھے پیاس لگی ہے میں نے پانی پینا ہے جاؤ پانی لاؤ! اب بیٹا کہتا ہے کہ ابو جان آپ کے پاس سے اٹھنے کو میرا دل نہیں کرتا۔ ایک بندہ کہتا ہے کہ ابو! میں آپ کا بہت ادب کرتا ہوں۔ والد صاحب کہتا ہے کہ مجھے بھوک لگی ہے، میں نےکھانا کھاناہے جاؤ کھانا لاؤ! کہتا ہے ابو جی میرا جی چاہتاہے کہ میں آپ کے پاس ہی بیٹھوں۔ اب بیٹے کی یہ باتیں اپنی جگہ پر تو ٹھیک ہیں لیکن اس موقع پر یہ مناسب نہیں ہیں۔ اس موقع پر تو یہ دیکھیں کہ والد صاحب کی ضرورت کیا ہے؟ جو ضرورت ہوتی ہے وہ پوری کریں اور والد صاحب کا حکم مانیں۔ اللہ رب العزت کا معاملہ یہ ہے کہ بندوں سے اس کو کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اللہ ہم سے کوئی چیز مانگتے ہیں، ہاں اللہ رب العزت ہمیں جو احکام دیتے ہیں وہ ہمارے فائدے کے لیے دیتے ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ ان تمام اعضاء کو اللہ کے حکم کے مطابق استعمال کرو اور یہی اصل اللہ کا شکر ہے۔
بعث بعد الموت:
﴿وَ ہُوَ الَّذِیۡ ذَرَاَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ ﴿۷۹﴾ وَ ہُوَ الَّذِیۡ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ وَ لَہُ اخۡتِلَافُ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۸۰﴾ بَلۡ قَالُوۡا مِثۡلَ مَا قَالَ الۡاَوَّلُوۡنَ ﴿۸۱﴾ قَالُوۡۤا ءَ اِذَا مِتۡنَا وَ کُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبۡعُوۡثُوۡنَ ﴿۸۲﴾ لَقَدۡ وُعِدۡنَا نَحۡنُ وَ اٰبَآؤُنَا ہٰذَا مِنۡ قَبۡلُ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۸۳﴾﴾
کہ تمہیں خدا ہی نے زمین میں پھیلایا اور پھر تم نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اللہ ہی زندہ کرتاہے اور اللہ ہی موت دیتا ہے، دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن اللہ ہی لاتے ہیں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے، اتنی موٹی موٹی باتیں بھی نہیں سمجھتے! اب دیکھو قرآن نے کتنے اچھے انداز میں یہ بات سمجھائی ہے، اور فرمایا کہ اے پیغمبر! آپ تو ان کو باتیں سمجھا رہے ہیں لیکن یہ لوگ سمجھنے کے بجائے ویسی ہی باتیں کرتے ہیں جیسی باتیں پچھلے لوگوں نے کہی تھیں، تو جو پہلے نبیوں کو جواب ملتاتھا وہی جواب آپ کو بھی ملنا ہے۔ پہلے لوگ کیا کہتے تھے؟ پہلے لوگ کہتے تھے کہ جب ہم فوت ہوجائیں گے، مٹی ہوجائیں گے، ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا ہم واقعی دوبارہ اٹھائے جائیں گے؟ یہ جو وعدے ہمارے ساتھ کیے جا رہے ہیں یہ ہمارے آباؤ اجداد کے ساتھ پہلے والے انبیاء علیہم السلام بھی کیا کرتے تھے، ان وعدوں کی کوئی حقیقت نہیں، نہ ہمارے آباء و اجداد اٹھے تھےاور نہ ہم اٹھیں گے، یہ نہیں ہو سکتا، یہ باتیں سب پرانے قصے اور کہانیاں ہیں۔
اب یہاں جوبات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ مشرکین اور کفار جو قیامت کے دن کا انکار کرتے ہیں انہیں ایک اشکال اور دماغی تعجب تھا۔ ان کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ہم مٹی ہو جائیں گے تو دوبارہ کیسے اٹھائے جائیں گے؟
ان کا جواب تو قرآن مجید نے دیا ہے اپنے مقام پر کہ دیکھو! جب تم نہیں تھے تو ہم نے تمہیں پیدا کیا تھا، تو جب ایک بار پیدا کیا تو دوبارہ پیداکرنا تو بہت آسان ہے، اب کیا مشکل ہے؟ مثلاً ایک عمارت موجودنہیں ہے، اس کو پہلی مرتبہ بنانا مشکل ہے لیکن جب عمارت تیار ہو جائے تو اس کو دوبارہ بنانا کیا مشکل ہے؟!
عذابِ قبر بر حق ہے:
اب کتنے لوگ ایسے ہیں کہ جو اسلام کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور پھر ذہن یہ ہوتا ہے کہ جب انسان فوت ہوجاتا ہے، قبر میں چلا جاتاہے، مٹی میں ختم ہوجاتا ہے تو اس کے جسم کو عذاب نہیں ہوتا کیونکہ جسم تو ختم ہوگیا۔ لہذا عذاب صرف روح کو ہوگا۔ کتنے تعجب کی بات ہے۔ دیکھو! اس جسم کو ثواب اور عذاب ہم نے نہیں دینا، یہ اللہ تعالیٰ نے دینا ہے، کوئی چیز نظر نہ آ رہی ہو اور اس کو مارنا اور عذاب دینا ہو تو یہ ہمارے لیے مشکل ہے اللہ کے لیے مشکل نہیں ہے، اللہ کی قدر ت کا انکار تو نہ کرو، دعویٰ توحید کا ہے اور انکار قبر کے عذاب کا کیا جا رہا ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے! بڑے تعجب کی بات ہے۔
اس لیے میں عرض کرتا ہوں کہ یہ مسئلہ اچھی طرح سمجھو کہ قبر کہتے ہیں اس جگہ کو جہاں میت اور میت کے اجزا ہوں۔ قبر کامعنی یاد رکھیں! اگر ایک بندے کو جانور نے کھالیا، اس انسان کے اعضاء کے اجزا جانور کے معدہ میں پہنچے ہیں، پھر تبدیل ہوکر زمین میں گئے ہیں اور ذروں کی صورت میں زمین میں تقسیم ہوگئے ہیں لیکن وہ اجزاء گئے تو ہیں، جہاں جہاں منتشر اجزاء ہیں وہ ساری جگہ اس کے لیے قبر ہے۔ کوئی آدمی دریا میں یا سمندر میں گرا، پھر وہ وہیں گَل گیا اور اس کے اجزاء پانی میں تحلیل ہوگئے، یہ ہمیں نہیں پتا لیکن اللہ کو تو پتا ہے، اس بندے کے اجزاء جہاں جہاں ہیں وہ ساری کی ساری اس بندے کی قبر ہے۔ اگر کسی شحص کو جلادیا ہے، پھر اس کی راکھ کو پانی میں بہادیا ہے تو یہ سارے اجزاء جہاں جہاں گئے ہیں یہی اس کی قبر ہے۔ تو قبر صرف وہ جگہ نہیں جہاں میت کو دفن کرتے ہیں بلکہ وہ بھی قبر ہے جہاں میت اور میت کے اجزاء ہو ں۔ اللہ تعالیٰ ان اجزاء سے روح کا تعلق جوڑتے ہیں اور تعلق جوڑ کر اگر بندہ نیک ہو تو اچھا بدلہ دیتےہیں اور اگر کافر ہو تو اس کو سزا دیتے ہیں، اس لیے اس پر تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟
صحیح بخاری میں ایک روایت موجود ہے۔ ایک شحص تھا، اس نے اپنی اولاد کو وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو بہت سی لکڑیاں جمع کرکے آگ جلانا اور مجھے اس میں ڈال دینا، میری لاش جلانے کے بعد ہڈیوں کو پیس لینا اور اس راکھ کو کسی گرم یا کسی تیز ہوا چلنے والے دن میں پانی میں بہا دینا۔ جب وہ فوت ہو گیا تو اس کے گھر والوں نے اس کی وصیت کے مطابق یہ کام کیا اور اس کی راکھ کو پانی میں بہا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بندے کے اعضاء کو جمع کیااور اس سے پوچھا: ”لِمَ فَعَلْتَ؟“ کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ مطلب یہ تھا کہ تو نے ایسی وصیت کیوں کی؟ اس نے کہا : مِنْ خَشْیَتِکَ، اے اللہ! تیرے ڈر کی وجہ سے ایسا کیا۔ تو خدا نے اس کو معاف کردیا۔
صحیح البخاری، رقم: 3479
انسان بقدرِ عقل مکلف ہے:
حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ یہ عقیدہ کفریہ ہے کہ کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ میرا جسم ہوگا تو اللہ عذاب دے گا اور اگر جسم نہیں ہو گا تو اللہ عذاب ہی نہیں دے گا لیکن اللہ نے اس بندے کو پھر بھی معاف کر دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی اپنی عقل کے مطابق مکلف ہوتا ہے، جتنی عقل ہو گی اتنا ہی مکلف ہو گا۔ اس کا ذہن یہ نہیں تھا کہ عذاب نہیں ہوگا۔ اس کا ذہن تھا کہ جسم ہوگا تو عذاب ہوگا، جب جسم ہی نہیں ہوگا تو عذاب ہی نہیں ہوگا۔ تو اس کا دماغ ہی اتنا تھا۔ وہ خدا کی قدرت کا انکار نہیں کررہا تھا۔ اس لیے اللہ نے اسے معاف کردیا تھا۔
حضرت تھانوی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ اگر میں عالم ہونےکے باوجود حضرت حاجی امدادا للہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت نہ ہوتا تو میں فتویٰ باز مولوی ہوتا اور حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی وجہ سے میں احتیاط سے فتویٰ دیتا ہوں۔
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ مرکزِ اعتدال:
اس لیے ہم اپنے مرکز اھل السنۃ والجماعۃ 87 جنوبی سرگودھا میں علماء کو مناظرہ بھی پڑھاتے ہیں، فرقِ باطلہ کا رد بھی سکھاتے ہیں، بولنے کا سلیقہ بھی سکھاتےہیں اور لکھنا بھی سکھاتے ہیں۔ میرے کالم پاکستان کے کئی اخبارات میں ہر ہفتے چھپتے ہیں اور آج کے اخبارات میں بھی چھپے ہیں۔آپ آج بھی دیکھ لیں۔ سارےکام بحمداللہ ہم کرتے ہیں اور ہمارے مرکز و خانقایہ حنفیہ میں ایک سبق صبح نمازِفجر سےپہلے ہوتاہے، طلبہ اور اساتذہ اٹھ کر تہجد پڑھتے ہیں اس کے بعد سبق پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، پھر فجر کی نماز پڑھتے ہیں، پھر سورت یٰسین پڑھتے ہیں، پھر ذکر کرتےہیں، پھر اشراق تک تلاوت کرتےہیں، پھر اشراق پڑ ھ کر ناشتہ کرتے ہیں۔ ہم اس طر ح اپنے طلبہ کو سنبھالتے ہیں کہ یہ فتوے باز اور لڑاکے مولوی نہ بنیں بلکہ اعتدال کے ساتھ مسائل کو سمجھانے والے علماء بنیں۔ اس کے باوجود میرے بارے میں مشہور ہے کہ یہ بڑا سخت ہے۔ میں حیران ہوں کہ سختی کا نام ونشان بھی نہیں ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ بہت سخت ہے۔
ہم نرم لوگ ہیں!
میں ملائشیا میں تھا تو وہاں میرے میزبان شافعی علماء تھے۔ وہ خانقاہوں میں پیر بھی ہیں اور تبلیغی مرکز رائیونڈ کے فاضل بھی ہیں۔ ان میں سے ایک مولانا جمال صاحب ہیں جو مجھے بڑی محبت سے استاذ جی کہہ کر پکارتے ہیں، وہ مجھے کہنے لگے: استادجی لوگ کہتے ہیں کہ آپ بہت سخت ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ آپ بہت نرم ہیں اور آپ کے نرم ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ملائشیا والے آپ کو قبول کرتے ہیں۔ ملائشیا کے بارےمیں کہتے ہیں کہ یہ ملائی سے ہے یعنی اتنا نرم ہے۔ میں نے ملائشیا کے چار سفر کیے ہیں۔ ان میں لڑائی، گالی گلوچ کا تصور ہی نہیں ہے۔
خیر میں یہ بات سمجھا رہا تھا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بندہ ایمان کا اتنا مکلف ہوتا ہے جتنی اس کے پاس عقل ہو۔ اس کی حضرت تھانوی نے ایک بڑی عجیب مثال دی ہے۔ فر مایا کہ ایک دیہات میں ایک عالم نے بیان کیا کہ اللہ آنکھ سے بھی پاک ہے، ناک سے بھی پاک ہے، کان سے بھی پاک ہے، اللہ دیکھتےہیں بغیر آنکھ کے، سنتے ہیں بغیر کان کے اور بولتے ہیں بغیر زبان کے، اللہ سب چیزوں سے پاک ہیں۔ توایک دیہاتی اٹھا۔ اَن پڑھ تھا۔ اس نے کہا کہ مولوی صاحب! یہ خدا ہے یا تر بوز ہے-
العیاذ باللہ
- کہ نہ آنکھ ہے، نہ ناک ہے، نہ کان ہے کچھ بھی نہیں ہے، کیا یہ خدا ہے؟ حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ اس کو کافر نہیں کہنا کیونکہ اس کی عقل اتنی ہے۔ اس کی سوچ یہ ہے کہ بندہ ہو اور آنکھ نہ ہو تو کتنا عجیب لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہو اور اللہ کی آنکھ نہ ہو یہ کیسے ہوسکتاہے؟! یہ بات اس کی عقل میں آ ہی نہیں سکتی، اس کی عقل ہی اتنی ہے اس لیے اس دیہاتی بندےکو کافر نہیں کہنا۔
اس لیے جس میں عقل کم ہو اس کے ساتھ نرمی اور شفقت کا معاملہ کیا جاتا ہے، اس کو مارا اور ڈانٹا نہیں جاتا۔
سارے اختیارات کا مالک اللہ ہے:
﴿قُلۡ لِّمَنِ الۡاَرۡضُ وَ مَنۡ فِیۡہَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۸۴﴾ سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلہِ ؕ قُلۡ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۸۵﴾ قُلۡ مَنۡ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبۡعِ وَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ﴿۸۶﴾ سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلہِ ؕ قُلۡ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۸۷﴾ قُلۡ مَنۡۢ بِیَدِہٖ مَلَکُوۡتُ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُوَ یُجِیۡرُ وَ لَا یُجَارُ عَلَیۡہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۸۸﴾ سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلہِ ؕ قُلۡ فَاَنّٰی تُسۡحَرُوۡنَ ﴿۸۹﴾﴾
پھر اللہ پاک نے فرمایا کہ اے پیغمبر! آپ ان سے پوچھیں کہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے یہ کس کا ہے؟ یہ لوگ کہیں گے کہ اللہ کا ہے۔ آپ ان سے فرمائیں کہ کیا پھر بھی تم اس سے سبق نہیں لیتے، سمجھتے نہیں؟ پھر فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ سات آسمانوں اور عرشِ عظیم کا رب کون ہے؟ تو وہ کہیں گے کہ وہ بھی اللہ ہے۔ آپ ان سے فرمائیں کہ جب یہ مانتے ہو تو اللہ سے ڈرتے کیوں نہیں ہو؟ اگر ان سے پوچھیں کہ وہ کون ہے جس کے پاس سارے اختیار ات ہیں؟ جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا! اگر تمہیں پتا ہے تو ذرا بتاؤ! تو کہیں گے کہ یہ سارے اختیارات اللہ کے پاس ہیں۔ تو ان سے کہو کہ پھر کہاں سے تم پر یہ جادو ہوا ہے کہ یہ سب چیزیں مانتے ہو لیکن اللہ کو نہیں مانتے! تو یہ ساری باتیں اللہ تعالیٰ نے دلائل کے طور پر بیان فرمائی ہیں۔
﴿مَا اتَّخَذَ اللہُ مِنۡ وَّلَدٍ وَّ مَا کَانَ مَعَہٗ مِنۡ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَہَبَ کُلُّ اِلٰہٍۭ بِمَا خَلَقَ وَ لَعَلَا بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ سُبۡحٰنَ اللہِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ ﴿ۙ۹۱﴾﴾
نہ تو اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی شریک ہے، کیونکہ اگر اللہ کے ساتھ کوئی خدا ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوق کو لے کر الگ ہو جاتا اور پھر وہ دونوں خداایک دوسرے سے لڑائی شروع کرتے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی بنائی ہوئی باتوں سے پاک ہے۔
اللہ کا کوئی شریک نہیں:
خدا کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اب دیکھیں کہ دنیا میں کتنے لوگ ایسے ہیں کہ جو اللہ کو مانتے ہیں اور ساتھ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بھی مانتے ہیں، کتنے ایسے ہیں کہ جو خدا کومانتے ہیں اور ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بھی مانتے ہیں اور کتنے ہیں کہ جو اللہ کو مانتے ہیں اور ساتھ حضرت مریم کو اللہ کی بیوی مانتے ہیں، کوئی حضرت عزیر کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں۔ تو یہ جو پوری دنیا کا نظام چل رہا ہے اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ ایک ہے، کوئی اس کا شریک نہیں ہے، نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ اس کی کوئی بیوی ہے، وہ اکیلا اس نظام کو چلا رہا ہے۔
بڑھیا کا چرخا:
آپ کو شاید یاد ہو کہ میں نے آپ کو سنایا تھا کہ ایک بڑھیا جنگل میں چرخا کات رہی تھی۔ اس سے کسی نے پوچھا کہ تمہارا کیا عقیدہ ہے؟ اللہ کو مانتی ہو؟ کہا بیٹا مانتی ہوں۔ اس سے پوچھا کہ اللہ کو ماننے پر تمہارے پاس دلیل کیا ہے؟ اس نے کہا: دلیل یہ چرخا ہے۔ کہا کہ چرخے سے تمہیں کیسے سمجھ میں آیا کہ خدا ہے؟ کہا کہ مجھے یہ سمجھ میں آیا کہ میں چرخے کو چلاتی ہوں تو چلتا ہے اور جب چھوڑ دیتی ہوں تو رک جاتاہے، اگر چرخے کو چلانے والی بوڑھی اماں نہ ہو تو چرخانہیں چلتا۔ تو میں دیکھتی ہوں کہ اگر کوئی نکالنے والا نہ ہو تو سورج کیسے نکل سکتاہے؟ برسانے والا نہ ہو تو بادل کیسے برس سکتاہے؟ چلانے والا نہ ہو تو ہوائیں کیسے چل سکتی ہیں؟ اچھا یہ بتاؤ کہ اللہ کتنے ہیں؟ بڑھیا کہنے لگی کہ ایک ہے۔ اس کی دلیل کیا ہے؟ کہا کہ اس کی دلیل بھی یہی چرخا ہے۔
کہا کہ چرخے سے کیسے پتا چلا؟ اس نے کہا: میری ماں نے مجھے جہیز میں چرخا دیا تھا، میرے بال کالے تھے اور آج بالوں میں سفیدی آ گئی ہے لیکن چرخا نہیں ٹوٹا، کیوں نہیں ٹوٹا اس لیے کہ اس کو چلانے والی میں ایک ہوں۔ اگر اس کو چلانے والی دو عورتیں ہوتیں، ایک وہاں بیٹھتی اور ایک یہاں بیٹھتی، ایک کہتےکہ چرخا یوں چلا دوسری کہتی کہ یوں چلا، ایک سیدھا چلاتی اور دوسری الٹا چلاتی تو چرخا کب سے ٹوٹ گیا ہوتا! ایک کہتی کہ یہ میراہے اور دوسری کہتی کہ میرا ہے، ایک نے کہنا تھا کہ میں نے چلانا ہے اور دوسری کہتی کہ میں نے چلانا ہے۔ تو اب تک چرخے کا نہ ٹوٹنا اس وجہ سے ہے کہ میں اکیلی مالک اور چلانے والی ہو ں۔ تو سورج روزانہ وقت پر طلوع ہوتا ہے اور وقت پر غروب ہوتاہے، یہ آسمان اور زمین، یہ دن رات کا نظام تباہ نہیں ہو رہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ چلانے والا ایک ہے۔
اب دیکھیں بات سمجھ میں آئی تو ایک چرخے سے بھی سمجھ میں آئی اور جن کو سمجھ میں نہیں آتی وہ سائنس پڑھ کر بھی گمراہ ہوتے ہیں، ٹیکنالوجی پڑھ کر بھی گمراہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائیں۔ (آمین)
کفار و مشرکین کو عذاب کی وعید:
﴿قُلۡ رَّبِّ اِمَّا تُرِیَنِّیۡ مَا یُوۡعَدُوۡنَ ﴿ۙ۹۳﴾ رَبِّ فَلَا تَجۡعَلۡنِیۡ فِی الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۹۴﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے کئی آیات میں یہ فرمایا ہے کہ ہم کافروں اور مشرکوں کو عذاب دیں گے، جو لوگ آپ کی بات نہیں مانتے ان کو سزا دیں گے۔ اب یہ عذاب قیامت کے دن ہو گا یہ بات تو یقینی ہے لیکن اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اسی دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آئے اور یہ بھی احتمال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد آئے اور یہ ضابطہ ہے کہ جب کسی قوم پر عذاب آتا ہے تو صرف ظالموں پر نہیں آتا بلکہ ظالموں کے ساتھ ساتھ نیک لوگوں پر بھی آتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ نیک لوگوں پر عذاب آتا تو ہے لیکن آخرت میں ان کو کوئی عذاب نہیں ہو گا اور دنیا میں جو تکلیف اور پریشانی ان کو ملی ہے اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کا اجر دیں گے۔ تو جب یہ بات ممکن تھی کہ حضور علیہ السلام کی زندگی میں ان مشرکین پر عذاب آتا تو اب حضور علیہ السلام کو تلقین کی جا رہی ہے کہ آپ اپنے رب سے یہ دعا مانگیں کہ اے اللہ! اگر آپ نے ان لوگوں کو میرے سامنے ہی عذاب دینا ہے تو مجھے اس سے محفوظ رکھنا اور ان لوگوں میں شامل نہ فرمانا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم عذاب سے بالکل محفوظ ہیں لیکن پھر بھی آپ کو یہ دعا سکھائی گئی تاکہ آپ ہر حال میں اپنے رب کو یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
﴿وَ اِنَّا عَلٰۤی اَنۡ نُّرِیَکَ مَا نَعِدُہُمۡ لَقٰدِرُوۡنَ ﴿۹۵﴾﴾
کہ ہم اس بات پر قادر ہیں کہ آپ کے سامنے ہی ان مشرکین پر عذاب نازل کر دیں۔
عذاب دوقسم کا ہوتا ہے؛ ایک ہے خاص عذاب جو مخصوص لوگو ں پر آتا ہے اور ایک ہے عام عذاب جوسب لوگوں پر آتا ہے۔ اس امت میں خاص خاص لوگوں پر خاص خاص عذاب آتے رہے ہیں، -اللہ نہ کرے- شاید آئندہ بھی آ جائے لیکن اس امت پر عمومی عذاب کہ جس سے امت کے سارے مجرم تباہ ہوجائیں، یہ نہ آیا ہے اور نہ آئے گا۔
دائرۂ نبوت:
اس کی وجہ قرآن کریم نے یہ بتائی ہے:
﴿وَ مَا کَانَ اللہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ﴾
الانفال 8: 33
میرے محبوب! آپ جب تک ان میں ہیں تو ہم ان کو عمومی عذاب دے کر ہلاک نہیں کریں گے۔ اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور پوری کائنات کے نبی ہیں۔ یہ کیسے ثابت ہوا؟ وہ اس طرح کہ اللہ رب العزت کا ضابطہ ہے کہ اللہ جب کسی مجرم قوم کو عذاب دینے کا فیصلہ فرماتے ہیں تو جو نبی کا دائرہ نبوت ہوتا ہے اللہ نبی کو اس دائرے سےنکال لیتے ہیں اور مجرم قوم کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر جب عذاب آیا تو ان کو دائرۂ نبوت سے نکالا، جودی پہاڑ پر لے گئے اور قوم کوہلاک کردیا۔ حضرت شعیب علیہ السلام کو مدین سے نکال کر ان کی قوم کو ہلاک کردیا کیونکہ مدین ان کا دائرہ نبوت تھا۔ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر جب عذاب آیا تو ان کی بستی سدوم ان کا دائرہ نبوت تھا، ان کو وہاں سے نکالا اور ان کی مجرم قوم کو ہلاک کیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجرم قوم کو اللہ تعالیٰ ہلاک کیوں نہیں فرماتے؟ اس لیے کہ
”وَاَنْتَ فِيْهِمْ“
اس لیے کہ نبی ان میں موجود ہے۔ کوئی شحص کہہ سکتا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ گئے پھر تو عذاب آ جانا چاہیے تھا؟ ہم کہتے ہیں کہ حضور اب بھی دنیا میں ہیں۔اچھا! جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم عرش پر چلے گئے پھر تو عذاب آ جانا چاہیے تھا؟ ہم کہتے ہیں کہ حضور اب بھی دنیا میں ہیں۔کوئی شحص کہہ سکتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم پر وفات آ گئی اور آپ قبر میں چلے گئے، اب تو دنیا میں نہیں ہیں اب تو عذاب آ جانا چاہیے!
ہم کہتے ہیں کہ بات سمجھو! مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر اجتماعی عذاب کیوں نہیں آتا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام عذاب تب آتا ہے جب نبی کا جو دائرۂ نبوت ہے اللہ اپنے نبی کو اس دائرہ نبوت سےنکال لیں، تو پھر مجر م قوم پر عذاب آتاہے۔ ہمارے نبی کا دائرہ نبوت کیاہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے نبی ہیں، مدینہ کے نبی ہیں، طائف کے نبی ہیں، تبوک کے نبی ہیں، فرش کے نبی ہیں، عرش کےنبی ہیں، اِس جہان کےنبی ہیں، اُس جہان کے نبی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دائرۂ نبوت اتنا وسیع ہے کہ نہ آپ نے دائرہ نبوت سے باہر جانا ہے اور نہ ہی مجر م قوم پر عمومی عذاب آناہے۔ تو عام عذاب نہ آنے کی وجہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت میں موجودہیں۔
شیطان سے حفاظت کی دعا:
﴿وَ قُلۡ رَّبِّ اَعُوۡذُ بِکَ مِنۡ ہَمَزٰتِ الشَّیٰطِیۡنِ ﴿ۙ۹۷﴾﴾
اب دیکھو! اللہ کے نبی کو حکم ہے کہ آپ یہ دعا مانگا کریں کہ اے اللہ! شیطان کی چھیڑ چھا ڑ سے مَیں آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان القرآن میں لکھاہے کہ ایسا کیوں ہے؟ فرماتے ہیں کہ یہ اس لیے کہ جب ان پر اللہ عذاب نہیں بھیج رہے اور یہ آپ کو تکلیف دیتےہیں تو ہو سکتا ہے کہ شیطان آپ کے دل میں ڈال دے کہ آ پ بھی ان کو تکلیف دیں۔ اس لیے فرمایا کہ آپ دعا مانگیں کہ اے اللہ! شیطان کے ان وسوسوں سے مجھے بچا کر رکھنا، شیطان کی اس چھیڑ چھاڑ سے بچا کر رکھنا۔
کوئی شحص بغیر کسی وجہ کے آپ کو گالی دیتا ہے تو دل میں آتا ہے کہ میں بھی اس کو گا لی دوں۔ یہ جو دل میں آتا ہے کہ میں بھی گالی دو ں تو یہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا بلکہ یہ شیطان کی طرف سے ہو تاہے کہ تم بھی اس کو گالی دو۔ اس کا علاج یہ ہے کہ اس موقع پر یہ آیات پڑھا کرو:
﴿وَ قُلۡ رَّبِّ اَعُوۡذُ بِکَ مِنۡ ہَمَزٰتِ الشَّیٰطِیۡنِ ﴿ۙ۹۷﴾ وَ اَعُوۡذُ بِکَ رَبِّ اَنۡ یَّحۡضُرُوۡنِ ﴿۹۸﴾﴾
یہ دعا پڑھیں گے تو اللہ پاک محفوظ فرما لیں گے۔ گالی کا جواب گالی نہیں ہوتا۔ اللہ ہم سب کو محفوظ فرمائیں۔
حضر ت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو رات کو نیند نہیں آتی تھی تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ مجھے رات کو نیند نہیں آتی، میں کیا کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم یہ دعا پڑھ لیا کرو :
أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّۃِ مِنْ غَضَبِهٖ وَعِقَابِهٖ وَشَرِّ عِبَادِهٖ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِيْنِ وَأَنْ يَحْضُرُوْنِ․
مؤطا امام مالک، رقم: 3499
میں اللہ کے بے عیب کلمات کی برکت سے اللہ کی ناراضگی، اللہ کے عذاب اور اس کے بندوں کے شر اور شیطان کی چھیڑ چھاڑ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اور اس بات سے بھی اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ شیاطین مجھ پر تسلط کریں اور میرے پاس آئیں۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے دعامانگی تو سکون کی نیند سوتے تھے۔
اس سے ایک مسئلہ یہ ثابت ہو ا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اللہ کےنبی! مجھے نیند نہیں آتی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا بتائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر اللہ کے کسی نیک بندے کے پاس جائیں کہ میرے سر میں درد ہے، میرے پیٹ میں درد ہے، میرے بیٹے کو تکلیف ہے اور وہ کہے کہ یہ دعا پڑھ لو تو اس دعا اور ورد کا پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہوگیا کہ یہ جائز ہے۔ یہ نہیں کہنا کہ غلط اور بالکل ناجائز ہے، ایسے فتوے جلدی نہ لگایا کرو۔
انسانی فطرت:
﴿حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَہُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ رَبِّ ارۡجِعُوۡنِ ﴿ۙ۹۹﴾ لَعَلِّیۡۤ اَعۡمَلُ صَالِحًا فِیۡمَا تَرَکۡتُ کَلَّا ؕ اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَآئِلُہَا﴾
فرمایا کہ اے میرے پیغمبر! ابھی تو یہ بات نہیں مانتے ہیں لیکن ایک وقت آئے گا جب ان کو موت کے آثار نظر آئیں گے اور آخرت کی منزلیں نظر آنے لگیں گی تو یہ کہیں گےاے رب! مجھے واپس لوٹادیں، میں دنیا میں جو دین کے کام نہیں کر سکا اب جا کر کروں گا، فلاں گناہ کیا تھا لیکن اب واپس جا کر نہیں کروں گا، فلاں نیک عمل نہیں کیا تھا اب جا کر کروں گا۔ فرمایا اے پیغمبر!
﴿کَلَّا﴾
ہرگز نہیں، اگر ہم ان کو بھیج بھی دیں تو یہ پھر بھی نہیں کریں گے،
﴿اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَآئِلُہَا﴾
بس یہ ان لوگوں کی زبان سے کہنے کی باتیں ہیں، یہ واپس جا کر بھی یہ کام نہیں کریں گے۔
جیسے خدا نخواستہ کسی کا ایکسیڈنٹ ہونے والا ہو، کوئی حادثہ پیش ہونے والا ہو تو کہتے ہیں کہ اللہ ایک بار بچا لے، بس ایک بار بچا لے، ایک بار خیریت سے گھر پہنچ جائیں تو اب گناہ نہیں کریں گے، جب گھر پہنچ جاتے ہیں تو پھر شروع ہو جاتے ہیں، پھر بازنہیں آتے۔ تو فرمایا ان کی فطرت ہے کہ یہ بازنہیں آئیں گے۔
عالمِ برزخ:
﴿وَ مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ بَرۡزَخٌ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿۱۰۰﴾﴾
اے میرے پیغمبر! اب ان کے پیچھے ایک پردہ ہےاور قیامت تک کے لیے ہے۔
یہاں چند ایک باتیں سمجھیں تاکہ آپ کو قبر، حیات، نبوت اور صلوٰۃ وسلام یہ سارے مسائل سمجھ میں آئیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ عالم چارہیں :
1 : عالم ارواح
2 : عالم دنیا
3 : عالم برزخ
4 : عالم آخرت
عالم ارواح یہ انتظار کی جگہ ہے اور عالم دنیا یہ کام کی جگہ ہے اور عالم برزخ یہ آرام کی جگہ ہے اور عالم آخرت یہ انعام کی جگہ ہے۔
کل رات ہمارے مرکز اھل السنۃ والجماعۃ میں خانقاہی اجتماع ہے۔ ترغیب تو میں بہت دیتا ہوں کہ آپ ہمارے خانقاہی اجتماع میں آیا کریں، بیان میں شرکت کیا کریں، مجلسِ ذکر میں بیٹھا کریں تو وہاں پر آدمی کھل کے بات کرتا ہے، تفصیل سے بات ہوتی ہے، لوگ بھی زیادہ ہوتے ہیں، لوگ دور دور سے سننے کے لیےآ تے ہیں اور جب طلب ہوتی ہے تو پھر مضمون نکلتا ہے، جب طلب نہ ہو تو مضمون نہیں نکلتا۔ بچے میں طلب ہو اور روئے تو ماں کی چھاتی میں دودھ اتر آتا ہے اور جب عوام میں طلب ہو تو عالم کی زبان سے علم نکلتا ہے، جب طلب نہیں ہوتی تو کوشش کرنے کے باوجود بھی بیان کھل کر نہیں ہو پاتا۔ یہ اللہ کا عجیب نظام ہے۔
خیر میں عرض کر رہا تھا کہ عالمِ ارواح انتظار کی جگہ ہے، عالمِ دنیا یہ کام کی جگہ ہے، عالمِ برزخ یہ آرا م کی جگہ ہے اور عالمِ آخر ت یہ انعام کی جگہ ہے۔ دنیامیں کام کرنا ہے آرام نہیں کرنا، ہاں اتنا آرام کریں جس سے کام کے لیے تیار ہوجائیں اور بس، باقی آرام قبر میں ہو گا اور دنیا میں اعمال کی جزا نہ مانگیں، اعمال کی جزاکی جگہ آخر ت ہے۔
برزخ کے بارے میں دوسری بات سمجھیں! برزخ کا معنی ہے ”پردہ“ آپ والدہ کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس گئےہیں دوا لینا چاہتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر مرد ہے اور والدہ نے پر دہ کیا ہوا ہے تو والدہ کا پر دہ آگے ہوتا ہے یا پیچھے؟ (آگے۔ سامعین) اور یہاں پر ہے
﴿مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ﴾
کہ ان کے پیچھے پردہ ہو گا۔ تو دنیا میں پر دہ آگے ہوتا ہے اور جب انسان مرجائے تو اس کا پردہ پیچھے ہوتا ہے۔ تووالدہ پردے میں ہے ڈاکٹر تو پردے میں نہیں ہے۔ اب جو پردے میں ہے وہ باہر والے کو دیکھ لے تو یہ پردے کے خلاف نہیں ہے اور باہر والا اگر پردے میں دیکھ لے تو یہ پردے کے خلاف ہے۔
اس سے پتا چلا کہ پردے کے باہر سے پردے میں والے کے حالات معلوم نہیں ہوتے، ہاں پردے میں والے کو پردے کے باہر والے کے حالات کا پتا چل جاتاہے۔ تو جب کوئی شحص فوت ہو جاتا ہے تو یہ میت پردے میں ہے یا ہم پردے میں ہیں؟ یہ میت پردےمیں ہے، ہم پردے میں نہیں ہیں۔ اس کا معنی یہ کہ اگر ہم میت کی قبر پر جائیں او ر میت کو دیکھ لیں تو یہ پردے کے خلاف ہے اور اگر میت ہم کو دیکھ لے تو یہ پردے کے خلاف نہیں ہے۔
امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ اقدس میں پردہ:
ایک بندہ کہتا ہے کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت قرآن کے خلاف ہے، کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ میت پردے میں ہوتی ہے تو پردے والا باہر والے کو کیسے پہچان سکتا ہے؟ میں نے کہا: یہ روایت قرآن کے خلاف کیسے ہے؟ قرآن تو کہتا ہے کہ میت پردے میں ہے تو جو پردے میں ہو وہ پردے سے باہر والے کو دیکھ لے تو پردے کے خلاف نہیں ہے، پردے کے مطابق ہے۔
مستدرک الحاکم میں روایت موجودہے، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے کمرے میں دفن کردیا گیا تو میں جاتی تھی اور پردے کا اہتمام نہیں کرتی تھی۔ پھر میرے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دفن کیا گیا میں پھر بھی جاتی تھی اور پردے کا اہتمام نہیں کرتی تھی، کیونکہ ایک میرا والد ہے اور ایک میرا شوہر ہے، دونوں سے پردہ نہیں ہے۔
” فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ مَعَهُمْ “
جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھ دفن کردیا گیا، فرماتی ہیں
” فَوَاللّهِ مَا دَخَلْتُ إِلَّا وَأَنَا مَشْدُوْدَةٌ عَلَىَّ ثِيَابِىْ“
پھر خدا کی قسم! میں اس وقت تک نہیں جاتی تھی جب تک میں اچھی طرح پردہ نہ کر لیتی تھی۔ اس کی وجہ خود بیان کرتی ہیں کہ
”حَيَاءً مِنْ عُمَرَ رَضِىَ اللّهُ عَنْهُ“
کیونکہ مجھے عمر رضی اللہ عنہ سے حیا آتی تھی۔
المستدرک علی الصحیحین للحاکم:ج3 ص609 رقم الحدیث 4458
اب لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کیسے دیکھ رہے تھے وہ تو برزخ میں تھے؟ بھائی! حضرت عمر رضی اللہ عنہ پردے میں تھے یا امی عائشہ رضی اللہ عنہا پردے میں تھیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پردے میں تھے۔ اگر پردے میں والا پردے کے باہر دیکھ لے تو یہ پردے کے خلاف نہیں ہے۔ جب عمر رضی اللہ عنہ روضہ میں دفن ہوئے تو امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے پردہ کر لیا۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں دیکھ سکتے تھے تو امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے پردہ کیوں کیا؟ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ جب قرآن سمجھ میں آجائے تو پھر بات بنے گی۔
ہر حدیث کو قرآن کے خلاف کہہ کر رد نہ کرو، اللہ کے پیغمبر پر اترنے والا قرآن بھی مانو اور اللہ کے رسو ل کے ارشادات بھی مانو۔ میں پوری دنیا میں یہ محنت کر رہا ہوں کہ قرآن بھی مانوا ور حدیث بھی مانو، حدیث کو رد نہ کیا کرو کہ یہ قرآن کے خلاف ہے بلکہ سمجھنے والے سے سمجھ لیا کرو۔ ہماری سمجھ کم ہے اور امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی سمجھ بہت زیادہ ہے۔ حکیم الاسلام قاری محمد طیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک صحابی کو نبوت کی صحبت کی برکت سے خدا اتنی عقل عطا فرماتا ہے کہ اگر صحابی کی عقل کی زکوٰۃ تقسیم کی جائے تو قیامت تک کے لیے کوئی انسان پاگل نہیں رہے گا اور یہ تو عام صحابی نہیں بلکہ ام المومنین امی عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی فہم کو دیکھو! اللہ ہمیں بات سمجھنے کی تو فیق عطافرمائے۔ تو میں نے برزخ کے حوالے سے یہ مختصر سی بات کی ہے۔
خاندانِ نبوت کی نسبت کی اہمیت:
﴿فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَلَاۤ اَنۡسَابَ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوۡنَ ﴿۱۰۱﴾﴾
قیامت کے دن دو مرتبہ صور پھونکا جائے گا؛ پہلی مرتبہ اسرافیل علیہ السلام جب صور پھونکیں گے تو سارے لوگ مرجائیں گے، پھر جب دوبارہ پھونکیں گے تو مرے ہوئے لوگ زندہ ہوجائیں گے۔ قیامت کے دن اعمال کام آئیں گے، نسب کام نہیں آئے گا کہ یہ فلاں کا بیٹا ہے، فلاں کا باپ ہے، فلاں کا چچا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"كُلُّ نَسَبٍ وَصِهْرٍ مُنْقَطِعٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اِلَّا نَسَبِيْ وَصِهْرِيْ․"
المعجم الاوسط للطبرانی: ج3 ص145رقم الحدیث 4132
قیامت کے دن کسی کانسب کام نہیں آئے گا، اس دن صرف میرا نسب اور دامادی تعلق ہی کام آئے گا۔ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی آیت کے تحت یہاں لکھاہے کہ ”اسی حدیث کو سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما سے نکاح کیا اور چالیس ہزار درہم مہر باندھا۔“
تفسیر عثمانی: ج2 ص169
تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ چاہتے تھے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا داماد بن جاؤں تاکہ قیامت کے دن اس خاندانِ نبوت کی نسبت کام آ جائے۔ اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی حضرت ام کلثوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دی۔
قیامت کے دن وزنِ اعمال :
﴿فَمَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِیۡنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾ وَ مَنۡ خَفَّتۡ مَوَازِیۡنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فِیۡ جَہَنَّمَ خٰلِدُوۡنَ ﴿۱۰۳﴾ۚ﴾
اللہ رب العزت نے قیامت کے حوالے سے بات فر مائی ہے کہ قیامت والے دن جس بندے کا نیک عمل والا پلڑا بھاری ہو گا تو وہی کامیاب ہو گا اور اگر نیک اعمال والا پلڑا ہلکا ہو گیا تو اب خسارا اور نقصان ہو گا، ایسا بندہ جہنمی ہے۔ دعاکریں کہ اللہ ہمارے نیک اعمال والا پلڑا وزنی فرما دیں۔
یہاں جو بات کی جارہی ہے یہ کفر اور ایمان کی ہے کہ ایک بندہ کافرہے اور ایک مؤمن ہے، کافر کا میزان ہلکا ہو گا اور مؤمن کا میزان بھاری ہو گا۔ قیامت کے دن وزن کس چیز کا کیا جائے گا اس بارے میں کئی قسم کی روایات ملتی ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ خود انسان مؤمن و کافر کو تولا جائے گا، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے نامہ اعمال کو تولا جائے گا اور بعض روایات میں ہے کہ انسان کے اعمال کو تولا جائے گا۔ تینوں قسم کی روایات موجود ہیں۔ دعاکریں کہ قیامت کے دن اللہ ہم سب کا ایمان والا پلڑا بھاری فرما دیں۔
میں آج اسی مقام پر دو حدیثیں پڑ ھ رہا تھا۔ جمعہ کے بعد میں گھر میں تھا اور گھر والے پاس بیٹھے تھے۔ جب میں نے ان روایتوں کو پڑھا تو بہت خوش ہوا۔ گھروالے مجھے کہتے ہیں کہ کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ ڈر تو بہت لگتاہے کیونکہ اعمال بہت کمزور ہیں اور بہت تھوڑے ہیں، کبھی کبھی ایسی احادیث سامنے آتی ہیں تو پھر ہمت بڑھ جاتی ہے۔ اب یہاں اس مقام پر مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز شہیدوں کا خون اور علماء کی روشنائی جس سے انہوں نے علم دین کی کتابیں لکھی تھیں باہم تولے جائیں گے تو علماء کی روشنائی کا وزن شہیدوں کے خون سے زیادہ نکلے گا۔“
معارف القرآن: ج6ص337
اب بندے کوتسلی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں کتاب ہے شمائل ترمذی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں شمائل ترمذی سے بہتر کوئی کتا ب نہیں ہے، اس کتاب میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، تیل، سرمہ، آپ کے کپڑے، نعلین، ہنسنا وغیرہ یہ پوری زندگی جمع کی ہے۔
زبدۃ الشمائل شرح شمائل ترمذی:
میں نے سن 2000 میں اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا اور اس کی شرح لکھی ”زبدۃ الشمائل“ کے نام سے اور یہ کتاب میں نے تیرہ دنوں میں لکھی ہے۔ آپ پڑھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا۔ جب میں نے کتاب علماء کو پیش کی تو مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر دامت فیوضہم مہتمم جامعۃ العلوم الاسلامیۃ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی نے اس پر تقریظ لکھی اور جب میں نے یہ کتاب دار العلوم دیوبند میں بھیجی تو شیخ الحدیث حضرت مولانا سعید احمد پالنپوری حفظہ اللہ نے بھی اس پر تقریظ لکھی ۔ حضرت مولانا محمد اکرم طوفانی صاحب دامت برکاتہم نے بھی اس پر تقریظ لکھی ہے۔ بابا جی سے ہمیں پیار ہے، آپ کو اختلاف ہو تو میں کچھ نہیں کہتا، مجھے پیار ہے اور میری عادت ہےکہ جو بندہ کام کرے میں اس کے پاؤ ں چومتا ہوں، اس بوڑھے آدمی نے بہت کام کیا ہے، سرگودھا والوں پر اتنے احسانات ہیں کہ مرتے دم تک ان کے احسانات کو نہیں اتار سکتے۔ مجھے تعجب ہے ان بندوں پر جو باباجی کی بعض باتو ں پر ناراض ہو جاتے ہیں، آدمی جب زندگی بھر کام کرے اور اس کی آخری عمر ہو تو اب اس سے ناراض نہیں بلکہ خوش ہونا چاہیے۔ طوفانی صاحب اَسی سال کی عمر کے بوڑھے آدمی ہیں، انہوں نے خاتم النبیین ہسپتال بنا کر آپ پر احسان کیا ہے، آپ لوگ زندگی بھر اس کی قیمت نہیں چکا سکتے، یہ چھوٹی سی بات ہے کہ آپ کا سستاعلاج بھی ہو رہا ہے اور ایمان بھی بچ رہا ہے اور مرزائیت کفر ہے آپ ان کے ہسپتال میں پیسے بھی دیتے تھے اور وہ ایمان بھی چھین لیتے تھے۔ الحمد للہ! آج لوگو ں کا ایمان بچ گیا ہے، اللہ نے حجت کوتام کر دیا ہے، قیامت کے دن کوئی بندہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مسلمانو ں کے پاس دل کاہسپتال نہیں تھا۔ اس لیے میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ بابا جی کی قدر کریں ، میں نے اسیپشل ان سےتقریظ لی ہے اپنی اس کتاب پر۔ خانقاہ سراجیہ کے صاحبزادہ عزیز احمد صاحب سے بھی تقریظ لکھوائی ہے، آپ لوگ ذرا حضرت کے جملے پڑ ھیں حضرت نے لکھا ہے کہ ”مولانا محمد الیاس گھمن زید مجدہ اہلسنت کا سرمایہ ہیں“ آپ ذرا علماء کی تصدیقات کو پڑھیں کہ علماء نے کیا کیا لکھا ہے۔
خیر میں کہہ رہا تھا کہ مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ حدیث پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور دوسری حدیث حضرت مفتی شفیع صاحب نے یہ نقل کی ہے کہ قیامت کے دن ایک شحص کے اعمال تولے جائیں گے تو وہ کچھ کم ہوں گے جس سے اس کے اعمال کا پلڑا ہلکا رہ جائے گا، پھر ایک ایسی چیز لائی جائے گی جو بادل کی طرح ہو گی۔ جب اسے اس بنے کے نیکیوں والے پلڑے میں رکھا جائے گا تو وہ پلڑا بہت بھاری ہو جائے گا۔ وہ شحص پوچھے گا یا اللہ! یہ کیا چیز ہے؟ اللہ فرمائیں گے کہ یہ تیرا علم ہے جو تو لوگو ں کو سکھا تا تھا۔ (سبحان اللہ۔ سامعین) میں یہ حدیث پڑھ کر بہت خوش ہوا، یقین کریں کہ میں بہت کمزور ہوں لیکن بعض حدیثیں ایسی آ جاتی ہیں کہ دل خوش ہو جاتا ہے اور کچھ امیدیں ہمیں بھی لگ جاتی ہے۔ اللہ ہمیں نجات کا راستہ عطا فرمائیں، اللہ ہمیں قدر کی توفیق عطا فرمائیں۔
علماء کی قدر کیجیے!
اس لیے میں علماء کے خلاف باتیں کرنے سے منع کرتا ہو ں، عالم کمزور بھی ہو تو انسان ہے، کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں لیکن علماء کے خلاف بات نہ کیا کرو، عالم عالم ہی ہوتا ہے، نبی کاوارث یہی ہوتا ہے، جیسا بھی ہو یہی پیغمبر کا وارث ہے۔ اس لیے علماء کی قدر کیا کرو! اب دیکھو! فوت ہونے والا باپ آنکھوں کا اسپیشلسٹ ڈاکٹر ہے اور اس کا بیٹا نابینا ہے، اگر باپ فوت ہو جائےتو اس کا وارث کون ہوگا؟ بیٹا ہو گا۔ کوئی کہے کہ اس کا بیٹا تو نابینا ہے لہذا کوئی ڈاکٹر تلاش کرو جس کو اس کا وارث بنائیں تو سب کہیں گے کہ وارث یہی بیٹا ہوگا اگر چہ نابینا ہے۔ باپ پہلوان ہے اور بیٹا پاؤ ں سے لنگڑا ہے، اب باپ فوت ہو گیا تو وارث اسی لنگڑے بیٹے نے ہی بننا ہے، یہ نہیں کہ کو ئی پہلوان تلاش کرو جو اس کا وارث بنے۔ عالم ہی نبی کاوارث ہے چاہے جیسا بھی ہو، آپ چوبیس گھنٹے عبادت کریں رات کو تہجد پڑھیں روزانہ قرآن ختم کریں لیکن آپ کو کوئی نہیں کہے گا کہ آپ نبی کے وارث ہیں، کیونکہ آپ مولانا صاحب نہیں ہیں جبکہ وارث عالم ہی بنتا ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ علماء کے خلاف کبھی بات نہ کیا کرو، کچھ کوتا ہی ہوتو برداشت کرو یہ سوچ کر کہ یہ نبی کا وارث ہے، اس کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں علماء سے محبت اور قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جس بکری کا دودھ تم پیتے ہو اس بکری کی مینگنی بھی تم نے اٹھانی ہے، یہ نہیں کہ دودھ تم پیو اور مینگنیاں ہمسایہ اٹھائے۔ اسی طرح جس عالم کے علم سے نفع آپ اٹھاتے ہو اگر اس میں کچھ کمزوریا ں ہیں تو برداشت بھی آپ نے کرنی ہیں، یہ تو نہیں کہ علمی نفع آپ اٹھائیں اور کمزوریا ں مخالف برداشت کرے، یہ کیسے ہوسکتاہے!
جہنمیوں کی آہ کہ ہمیں یہاں سے نکالیں!
﴿ تَلۡفَحُ وُجُوۡہَہُمُ النَّارُ وَ ہُمۡ فِیۡہَا کٰلِحُوۡنَ ﴿۱۰۴﴾ اَلَمۡ تَکُنۡ اٰیٰتِیۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فَکُنۡتُمۡ بِہَا تُکَذِّبُوۡنَ ﴿۱۰۵﴾ قَالُوۡا رَبَّنَا غَلَبَتۡ عَلَیۡنَا شِقۡوَتُنَا وَ کُنَّا قَوۡمًا ضَآلِّیۡنَ ﴿۱۰۶﴾ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡہَا فَاِنۡ عُدۡنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوۡنَ ﴿۱۰۷﴾ قَالَ اخۡسَـُٔوۡا فِیۡہَا وَ لَا تُکَلِّمُوۡنِ ﴿۱۰۸﴾﴾
قیامت کا دن ہوگا، کافرجہنم میں ہوں گے، ان کے چہرے جھلس رہے ہوں گے اور وہاں وہ اللہ کو پکار رہے ہوں گے کہ اے اللہ! ہمیں یہاں سے نکال دیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تم پر ہماری آیتیں پڑھی جاتی تھیں اور تمہیں ڈرایا جاتا تھا لیکن تم ہماری آیات کو جھٹلاتے تھے۔وہ کہیں گے کہ یا اللہ! ہماری بدبختی ہم پر غالب آگئی ہم گمراہ ہوگئے، اللہ! ہمیں یہاں سے نکال دیں اب ہم نافرمانی نہیں کریں گے۔ اللہ فرمائیں گے:
﴿اخۡسَـُٔوۡا فِیۡہَا وَ لَا تُکَلِّمُوۡنِ﴾
کہ ذلیل ہوکر یہیں جہنم میں پڑے رہو اب تم نے ہم سے بات نہیں کرنی۔ پھر یہ اہل جہنم کسی سے بات نہ کر سکیں گے۔
نیکو کار لوگوں کا بدلہ:
﴿اِنَّہٗ کَانَ فَرِیۡقٌ مِّنۡ عِبَادِیۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغۡفِرۡ لَنَا وَ ارۡحَمۡنَا وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰحِمِیۡنَ ﴿۱۰۹﴾ۚۖ فَاتَّخَذۡتُمُوۡہُمۡ سِخۡرِیًّا حَتّٰۤی اَنۡسَوۡکُمۡ ذِکۡرِیۡ وَ کُنۡتُمۡ مِّنۡہُمۡ تَضۡحَکُوۡنَ ﴿۱۱۰﴾ اِنِّیۡ جَزَیۡتُہُمُ الۡیَوۡمَ بِمَا صَبَرُوۡۤا ۙ اَنَّہُمۡ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ ﴿۱۱۱﴾﴾
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے نیک بندوں کی ایک جماعت دنیا میں یہ دعا مانگا کرتی تھی:
”فَاغۡفِرۡ لَنَا“
اللہ! ہم سے گناہ ہوئے ہیں تو ہمیں معاف فرما،
” وَارۡحَمۡنَا“
اور ہم پر رحم فرما، اے اللہ! تو بہترین رحم کرنے والا ہے۔ اللہ جہنمیوں سے فرمائیں گےکہ تم میرے ان نیک بندوں کامذاق اڑاتے تھے، ان کے ساتھ ٹھٹھا اور مذاق کی وجہ سے تم میری یاد سے بھی غافل رہے، آج میں نے ان کے صبر کے بدلے میں انہیں جنت عطا کی ہے، آپ وہ کامیاب و کامران ہیں۔
﴿قٰلَ کَمۡ لَبِثۡتُمۡ فِی الۡاَرۡضِ عَدَدَ سِنِیۡنَ ﴿۱۱۲﴾ قَالُوۡا لَبِثۡنَا یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ فَسۡـَٔلِ الۡعَآدِّیۡنَ ﴿۱۱۳﴾ قٰلَ اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا لَّوۡ اَنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۱۴﴾﴾
پھر اللہ ان جہنمیوں سے پوچھیں گے کہ بتاؤ تم کتنا عرصہ دنیا میں رہے ہو؟ یہ لوگ کہیں گے کہ دن یا دن کا کچھ حصہ ہم زمین میں ٹھہرے ہیں، ہمیں صحیح یاد نہیں یا اللہ! آپ ان لوگوں سے پوچھیے جنہوں نے گنتی کی ہے! اللہ فرمائیں گے کہ تم تھوڑی مدت سے زیادہ نہیں رہے ہو۔
منکرین حیات الانبیاء کے ایک شبہ کا جواب:
یہاں ایک مسئلہ ذہن میں رکھیں۔ حضرت عزیر علیہ السلام ایک بستی سے گزرے۔ وہ بستی تباہ شدہ تھی۔ حضرت عزیر نے اللہ سے سوال کیا:
﴿اَنّٰی یُحۡیٖ ہٰذِہِ اللہُ بَعۡدَ مَوۡتِہَا﴾
البقرۃ2: 259
اللہ! آپ اس بستی کو کیسے زندہ کریں گے؟اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک سو سال تک موت دے دی۔ سو سال کے بعد اٹھایا اور فرمایا: ﴿کَمۡ لَبِثۡتَ﴾ آپ کتنا عرصہ اس حالت میں رہے ہو؟ حضرت عزیر علیہ السلام نے کہا کہ ﴿لَبِثۡتُ یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ﴾ اے اللہ!میں ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ اس حالت میں رہا۔
جو لوگ پیغمبر کی قبر والی حیات کا انکار کرتےہیں وہ قرآن کی اس آیت کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ نے سوسال موت دی، پھر اللہ نے ان کو زندہ کیا، پھر پوچھا:
﴿کَمۡ لَبِثۡتَ﴾
کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟ حضرت عزیر نے کہا:
﴿لَبِثۡتُ یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ﴾
کہ اللہ! ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ، تو اس سے پتا چلا کہ نبی قبر میں زندہ نہیں ہوتا، اگر زندہ ہوتا تو ان کو پتا ہوتا کہ میں کتنی مدت ٹھہرا ہوں۔
اس دلیل کا جواب یاد رکھ لیں کہ اللہ جب کفار سے قیامت کے دن پوچھیں گے کہ
﴿کَمۡ لَبِثۡتُمۡ فِی الۡاَرۡضِ﴾
تم دنیا میں کتنا عرصہ ٹھہرے رہے؟ تو کافر کہیں گے:
﴿لَبِثۡنَا یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ﴾
کہ ہم ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ زمین میں رہے، اب بتاؤ کہ کافر دنیامیں زندہ تھے تو ان کو پتا کیوں نہیں ہے؟ اگر پتا نہ ہونا موت کی دلیل ہے تو پھر دنیا میں سارے کافر مرے ہوئے ہیں کیونکہ ان کو قیامت کے دن یہ پتا نہیں چلے گا کہ دنیا میں کتنے دن ٹھہرے تھے۔
میں کسی بندے سے پوچھو ں کہ بیان شروع ہوئے کو کتنے منٹ ہوئے ہیں؟ تو آپ منٹ کو گن کر نہیں بتا سکتے جب تک کہ آپ گھڑی نہیں دیکھیں گے، تو کیا آپ مرے ہوئے ہیں؟ بھائی! پتا نہ چلنا یہ موت کی دلیل کیسے ہوسکتی ہے؟ دیکھو! اصحاب کہف غار میں گئے اور تین سو نو سال تک سوتے رہے اور جب اٹھے تو پوچھا کہ کتنا عرصہ ٹھہرے؟ کہاکہ ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ۔ اب وہ سوئے ہوئے تھے یا مرے ہوئے تھے؟( سوئے ہوئے تھے۔ سامعین) تو کیا پتا نہ چلنا دلیل ہے کہ وہ زندہ نہیں تھے؟
اور ان منکرین حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ یہ ہوتا ہےکہ ہم قرآن بیان کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ قرآن پڑھ کر عقیدہ غلط بتاتے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں ایسے کام سے محفوظ رکھے۔
انسان بے کار پیدا نہیں کیا گیا:
﴿اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمۡ اِلَیۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۱۱۵﴾ فَتَعٰلَی اللہُ الۡمَلِکُ الۡحَقُّ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡکَرِیۡمِ ﴿۱۱۶﴾﴾
اللہ فرماتے ہیں کہ کیا تمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نے تمہیں یونہی فضول پیداکیا ہے اور یہ کہ تم ہمارے پاس نہیں آؤ گے؟ اللہ رب العزت اونچی شان کا مالک ہے، حقیقی بادشاہ ہے، اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، اللہ عزت والے عرش کامالک ہے۔ جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہراتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، ان کا حساب تو اللہ کے ذمہ ہے، قیامت کو کافر کامیاب نہیں ہوں گے۔
پیغمبر پاک کو دعا کی ترغیب:
﴿وَ قُلۡ رَّبِّ اغۡفِرۡ وَ ارۡحَمۡ وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰحِمِیۡنَ ﴿٪۱۱۸﴾﴾
آخر میں فرمایا کہ اے میرے پیغمبر! آپ یہ دعا مانگا کریں:
﴿رَّبِّ اغۡفِرۡ وَ ارۡحَمۡ وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰحِمِیۡنَ﴾
یہ دعا آپ لوگ یاد کریں۔یہ قرآنی دعا ہے۔ آپ کو یاد نہیں ہے تو ایک مرتبہ میرے ساتھ پڑھ لیں:
﴿رَّبِّ اغۡفِرۡ وَ ارۡحَمۡ وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰحِمِیۡنَ﴾
امراض سے بچاؤ کا دم:
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا گزر ایک بندے پر ہوا جو کئی امراض میں مبتلا تھا۔ آپ نے سورۃ المومنون کی آخری آیات
﴿اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا﴾
سے آخر تک اس کے کان میں پڑھ دیں وہ بالکل ٹھیک ہو گیا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ! تو نے اس کے کان میں کیا پڑھا؟ انہوں نے عرض کیا کہ حضور! میں نے یہ آخر ی آیتیں پڑھی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: اگر کوئی مؤمن مکمل یقین کے ساتھ یہ آیتیں پڑھے تو پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہل سکتا ہے۔
اس لیے سورۃ المؤمنون کی آخری چار آیات
﴿اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا﴾
سے لے کر
﴿وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰحِمِیۡنَ﴾
تک یاد رکھ لیں، زبانی یاد نہیں ہوتیں تو قرآن کھول کر پڑھ لیا کریں، اگر گھر میں کوئی بیمار ہے تو یہ چار آیتیں اس کے کان میں دم کر دیا کریں، اگر سر درد ہے یا کوئی اور تکلیف ہے تو ان کو پڑھ لیا کریں، میں ان کے پڑھنے کی اجازت دیتا ہوں۔
کئی لوگ کہتے ہیں کہ جی ہمیں وظیفے کی اجازت دیں۔ ہماری اجازت بڑی کھلی ہوتی ہے تاکہ نفع عام ہو، ہم اس کو روک روک کر نہیں رکھتے، ہماری ساری چیزیں نیٹ پر موجود ہوتی ہیں، بغیر پیسے کے کلک کریں تو ہمارا سارا مال باہر آجاتا ہے۔اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔ (آمین)
سورت کی ابتدا اور انتہا کا ربط:
جب اس سورت کا آغاز ہوا تو فرمایا کہ
﴿قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ﴾
کہ ایمان والے کامیا ب ہیں اور جب سورت ختم ہورہی ہے تو فرمایا:
﴿اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الۡکٰفِرُوۡنَ﴾
کہ کافر ناکام ہوگیا۔ پتا چلا کہ کامیابی و کامرانی یہ صرف ایمان والوں کا حصہ ہے، کافر لوگ اس سے محروم ہیں۔ اللہ ہمیں ایمان پر ثابت قدم رکھے۔ (آمین)
زبدۃ الشمائل اور نماز اھل السنۃ والجماعۃکی اہمیت:
میں نے کئی مرتبہ عرض کیا ہے کہ میری کچھ کتابیں ایسی ہیں جو ہر کسی کے لیے مفید ہوتی ہیں تو میری یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہر بندے کے پاس ہوں جیسے نماز اھل السنۃ والجماعۃ یہ ہر گھر میں ہو اور ہر مسجد میں ہو، اس میں ہماری نماز پر پورے دلائل موجود ہیں، ایک کتاب زبدۃ الشمائل ہے یہ بھی ہر گھر میں ہو اور میں نے یہ کتاب چھپنے کے بعد سب سے پہلے اپنے گھر والو ں کو ہدیہ کی ہے۔ آپ اس کو ایک بار پڑھ لو اور میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ اگر ممکن ہو تو آپ اپنے گھر میں گھر والو ں کے ساتھ بیٹھ کر اس کی تھوڑی سی تعلیم کراؤ۔ میں نے تین دن پہلے گھر والو ں سے کہا کہ سرمہ لاؤ۔ وہ مجھے سرمہ لگانے لگیں تو میں نے کہا کہ پہلے زبدۃ الشمائل میں دیکھو کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سرمہ کیسے لگاتے تھے اور کون سا سرمہ لگاتے تھے اور کب لگاتے تھے؟ یہ پڑھو اور پھر لگاؤ۔ سرمہ تو لگا نا ہوتا ہے، تیل لگانا ہوتا ہے، کنگھی استعمال کرنی ہوتی ہے، بستر بچھانا ہوتا ہے لیکن اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کو سامنے رکھ کر ہم یہ کام کریں تو کتنی برکت ہو گی کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ ساری سنتیں اس کتاب میں موجود ہیں اور یہ کتاب اتنی آسان ہے کہ عامی بندہ بھی جب پڑھے گا تو اس کو بھی سمجھ میں آ جائے گی اور جن حضرات نے اس کتاب پر تقریظات لکھی ہیں تقریباً تمام علما ء نے یہ بات لکھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مولانا گھمن صاحب کو ایک فن دیا ہے کہ مشکل سے مشکل الفاظ کو آسان تعبیرات کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور انہوں نے اس کتاب میں اس فن کو خوب استعمال کیا ہے۔
توہماری خواہش ہے کہ آپ زبدۃ الشمائل اور نماز اھل السنۃ والجماعۃ کو خریدیں اور یہ الاتحاد ڈائری ہے جو ہر سال چھپتی ہے، جو حضرات ڈائریاں استعمال کرتے ہیں وہ اس کو بھی ساتھ رکھیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی زندگی رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․