سورۃ النور

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ النور
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿سُوۡرَۃٌ اَنۡزَلۡنٰہَا وَ فَرَضۡنٰہَا وَ اَنۡزَلۡنَا فِیۡہَاۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۱﴾ اَلزَّانِیَۃُ وَ الزَّانِیۡ فَاجۡلِدُوۡا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا مِائَۃَ جَلۡدَۃٍ ۪ وَّ لَا تَاۡخُذۡکُمۡ بِہِمَا رَاۡفَۃٌ فِیۡ دِیۡنِ اللہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ۚ وَ لۡیَشۡہَدۡ عَذَابَہُمَا طَآئِفَۃٌ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۲﴾﴾
زنا؛ انسانی معاشرے کا ایک سنگین جرم
وہ اعمال جو شریعت میں نہایت نا پسندیدہ اور گھناؤنے جرم قرار دیے گئے ہیں ان میں ایک زنا بھی ہے۔ زنا کو شریعت میں نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام دو ایسے نبی ہیں کہ جن کے نکاح میں آنے والی بیوی کافرہ ہے لیکن وہ فاحشہ اور زانیہ نہیں تھیں کیونکہ زنا انسانی سوسائٹی میں بہت بڑا عیب ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو ایسے عیوب سے پاک رکھتے ہیں جو انسانی سوسائٹی میں جرم شمار ہوتے ہوں۔
ایک معاشرہ وہ ہوتا ہے جسے ہم اسلامی معاشرہ اور اسلامک سوسائٹی کہتے ہیں اور ایک ہوتا ہے صرف انسانی معاشرہ۔ انسانی سوسائٹی میں اور بحیثیت انسان کفر اختیار کرنا معاشرے میں جرم شمار نہیں ہوتا لیکن بحیثیت انسان زنا کرنا یہ معاشرے میں عیب شمار ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ اپنے نبی کو ان عیوب سے محفوظ رکھتے ہیں۔ تو سورت نور کے پہلے رکوع میں اورپھر دوسرے رکوع میں بھی زنا کے متعلق کچھ احکام بیان فرمائے ہیں۔
زنا کے متعلق پہلا حکم:
سب سے متعلق پہلا حکم یہ ہے کہ زنا کرنے والے مرد یا عورت کو دیکھیں کہ کنوارہ ہے یا شادی شدہ ہے؟ کنوارے کو کہتے ہیں بکر، باکر، باکرہ اور شادی شدہ کو مُحْصَن، ثیب، ثیبہ کہتے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں نکاح کے عنوان میں اور زنا کی سزا کے عنوان میں محصن اور محصنہ ایسے مرد اور عورت کو کہتے ہیں جن میں یہ شرطیں ہوں:
1:آزاد ہو
2: عاقل ہو
3:بالغ ہو
4 :نکاح کر کے ہمبستری کی ہو یا خلوتِ صحیحہ کی ہو۔ خلوتِ صحیحہ کا معنی یہ ہے کہ شوہر اور بیوی ایسے مکان میں ہوں کہ اگر وہ ہمبستری کرنا چاہیں تو کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
ان شرائط کے حامل کو شریعت کی اصطلاح میں محصن کہتے ہیں۔ محصن کا حکم اور ہے اور کنوارے کا حکم اور ہے۔ محصن کا حکم یہ ہے کہ اسے رجم اور سنگسار کر دیا جائے اور کنوارے کا حکم یہ ہے کہ اسے سو کوڑے لگائے جائیں۔
زنا کی سزا کے تدریجی احکامات:
زنا کی سزا کے احکامات تدریجاً نازل ہوئے ہیں۔ پہلے یہ آیت نازل ہوئی ہے:
﴿وَ الّٰتِیۡ یَاۡتِیۡنَ الۡفَاحِشَۃَ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ فَاسۡتَشۡہِدُوۡا عَلَیۡہِنَّ اَرۡبَعَۃً مِّنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ شَہِدُوۡا فَاَمۡسِکُوۡ ہُنَّ فِی الۡبُیُوۡتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰہُنَّ الۡمَوۡتُ اَوۡ یَجۡعَلَ اللہُ لَہُنَّ سَبِیۡلًا ﴿۱۵﴾وَ الَّذٰنِ یَاۡتِیٰنِہَا مِنۡکُمۡ فَاٰذُوۡہُمَا ۚ﴾
النساء 4: 15، 16
کہ تمہاری عورتوں میں سے جب کوئی عورت زنا کا ارتکاب کرے تو اس پر چار گواہ بنا لو، اگر یہ گواہ ان عورتوں کے خلاف گواہی دیں تو ان عورتوں کی سزا یہ ہے کہ ان کو گھر میں روک کر رکھو یہاں تک کہ ان کو موت آجائے یا اللہ ان کے لیے کوئی اور راستہ پیدا کر دے اور اس کے علاوہ قاضی اپنی صواب دید سے اگر کچھ تنبیہ کرنا چاہے تو کرے۔
اس پہلے حکم میں سزا یہ تھی کہ عورت کو گھر میں قید کیا جائے اور اس جرم کے مرتکب مرد وعورت کو قاضی یا امیر اپنی صوابدید کے مطابق کچھ سزا دے۔ اس کے بعد پھر سورۃ النور کی یہ آیت نازل ہوئی:
﴿اَلزَّانِیَۃُ وَ الزَّانِیۡ فَاجۡلِدُوۡا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا مِائَۃَ جَلۡدَۃٍ﴾
زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد کو سو سو کوڑے مارو!
جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ سورۃ النساء میں جو وعدہ کیا گیا تھا
﴿اَوۡ یَجۡعَلَ اللہُ لَہُنَّ سَبِیۡلًا﴾
کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور راستہ پیدا کر دے گا تو اللہ نے سورۃ النور میں وہ راستہ بتا دیا ہے یعنی زانی عورت اور زانی مرد کو سو سو کوڑوں کی سزا دی جائے۔ساتھ ہی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نےیہ بات بھی فرما دی کہ اس آیت میں سو کوڑے مارنے کا جو ذکر ہے یہ غیر شادی شدہ مرد اور غیر شادی شدہ عورت کے ساتھ خاص ہے۔
پھر زنا کی سزا کا تیسرا درجہ وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ زانی مرد اور عورت اگر غیر شادی شدہ ہوں تو ان کی سزا سو سو کوڑے ہے اور شادی شدہ ہوں تو ان کی سزا فقط رجم اورسنگسار کرنا ہے۔
ثبوتِ زنا کی شرائط سخت ہیں:
زانی بندہ اگر شادی شدہ ہو تو شریعت نے اس کی سزا بہت سخت رکھی ہے کہ اس کو پتھروں کے ساتھ مار کر ہلاک کر دو اور شریعت نے زنا کے ثبوت کے لیے شرائط بھی بہت سخت رکھی ہیں کہ چار مرد ہوں جو مرد اور عورت کو زنا کرتا دیکھیں اور اس طرح دیکھیں کہ جیسے سلائی سرمہ دانی میں داخل ہے، صرف مرد کو عورت پر سوار نہ دیکھیں بلکہ گواہی دیں کہ عضو خاص عضو خاص میں ایسے داخل تھا جیسے سلائی سرمہ دانی میں داخل ہوتی ہے۔چونکہ زنا کی سزا بہت سخت ہے اس لیے اس کے ثبوت کے لیے شرائط بھی بہت سخت اور کڑی رکھی گئی ہیں۔
زنا کے ثبوت کے طریقے:
اس لیے زنا جب بھی ثابت ہوتا ہے تو اس کے لیے تین طریقے ہیں:
1 : چار مرد گواہ ہوں۔
2 : زانی یا زانیہ خود اعتراف کرے کہ میں نے زنا کیا ہے۔
3: کنواری عورت کا حمل ظاہر ہو جائے۔ اب ظاہر ہے کہ اس سےفرار تو اختیار نہیں کر سکتی کہ حمل کس کا ہے؟ پھر وہ بتائے گی کہ یہ فلاں بندے کا ہے۔ اب وہ بندہ اقرار کرے گا تو اسے سزا ملے گی اور اگر اقرار نہیں کرے گا تو عورت کو سزا ملے گی اور مرد کو سزا نہیں ملے گی۔
کسی کے ذہن میں یہ سوال ضرور آ سکتا ہے کہ جب ثبوتِ زنا کے لیے اتنی سخت شرائط ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کے زنا کا معاملہ شریعت میں نرم ہے، اتنی شرائط لگانے سے نہ زنا ثابت ہو گا اور نہ سزا ہو گی، پھر اس سے تو زنا کے دروازے کھل جائیں گے! تو یہ بات ذہن نشین فرما لیں کہ زنا کے ثابت ہونے کے بعد بہت سخت سزائیں ہیں لیکن اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ زنا کی اجازت مل گئی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کے بارے میں کہتا ہے کہ میں نے فلاں کو فلاں کے ساتھ زنا کرتے دیکھا ہے تو اس سے کہا جائے گا کہ اپنے ساتھ تین گواہ مزید پیش کرو! اگر گواہ نہیں ہیں تو زنا ثابت نہیں ہو گا لیکن اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ کھلی چھٹی دی ہے۔ کوئی آدمی عدالت میں قاضی کو یہ کہے کہ میں نے فلاں مرد کو فلاں عورت کے ساتھ خلوت میں دیکھا ہے تو قاضی تعزیر لگائے گا۔ کوئی کہے کہ میں نے ان دونوں کو اکٹھے ننگے بدن کے ساتھ دیکھا ہے تو قاضی تعزیر لگائے گا۔ تو شریعت نے مرد اور عورت کو ملنے کی چھٹی نہیں دی! ہاں اگر زنا کرتے دیکھا ہے تو اس کی شرائط سخت ہیں لیکن وہ زنا کی شکایت نہ لگائے بلکہ وہ کہے کہ میں نے ان کو پیار کرتے دیکھا ہے، بوس و کنار کرتے دیکھا ہے، دونوں کو ننگی حالت میں لیٹے دیکھا ہے تو اب اس پر چار گواہ نہیں چاہییں بلکہ اب اس پر تو دو گواہ ہی کافی ہیں جیسے دوسرے معاملات میں دو گواہ کافی ہو جاتے ہیں۔ تو اتنی سخت سزا کا معنی یہ نہیں ہے کہ زنا کا دروازہ کھولا ہے، اتنی سخت سزا کا مطلب یہ ہے کہ زنا جرم بہت بڑا ہے۔ کسی بندے کے بارے میں یہ بات کہنا کہ اس نے بدکاری کی ہے تو یہ اس بندے کا معاشرہ میں ستیاناس کرنے والی بات ہے۔ تو شریعت یہ چاہتی ہے کہ عزت کی حفاظت ہو، یہ نہیں ہے کہ زنا کی اجازت دی ہے۔
یہاں اس آیت میں یہ بات ارشاد فرمائی کہ غیر شادی شدہ زانی ہو یا زانیہ ہو تو ان کو سو سو کوڑے سزا دو اور ان کے معاملے میں تمہیں ترس نہیں کھانا چاہیے اور سزا بھی علی الاعلان دو، چھپ کر نہ دو،
﴿وَ لۡیَشۡہَدۡ عَذَابَہُمَا طَآئِفَۃٌ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴾
کہ جب ان کو سزا ملے تو مسلمانوں کا ایک مجمع ان کو دیکھے۔ عذاب کہتے ہیں
”إِیْلَامُ الْحَیِّ عَلٰی سَبِیْلِ الْھوَانِ“
زندہ آدمی کو رسوا کرنے کے لیے تکلیف دینا یہ ہے عذاب۔ یہ جو کوڑے مارے جاتے ہیں ان کوڑوں کا بنیادی مقصد تکلیف دینا نہیں ہے بلکہ بنیادی مقصد رسوا کرنا ہے تاکہ آئندہ اس گناہ کی کوئی ہمت اور جرأت نہ کرے، ان سے تکلیف دینا مقصود ہوتا تو ان کو بند کمرے میں ہی سزا دے دیتے جہاں کوئی بھی نہ دیکھتا۔ اسی لیے فرمایا کہ ان کی سزا کو مسلمانوں کا ایک مجمع دیکھے۔
سزا دینے کے وقت مسلمانوں کی ایک بہت بڑی جماعت موجود ہو، اس کا مقصد صرف تکلیف دینا اور تنبیہ کرنا نہیں بلکہ رسوا کرنا بھی ہے۔ اگر مارنا ہی مقصود ہوتا تو پھر کوڑا سخت ہوتا، حالانکہ حکم دیا گیا کہ کوڑا اتنا سخت نہ ہو، لفظ
﴿فَاجۡلِدُوۡا﴾
جِلد سے ہے، جِلد کہتے ہیں چمڑے کو، عام طور پر جو سزا دینے کے لیے کوڑا مارا جاتا ہے وہ لکڑی کا نہیں ہوتا بلکہ چمڑے کا بنا ہوتا ہے اور لکڑی کا بھی ہو تو اتنا سخت نہ مارو کہ جس سے چمڑا ادھڑ جائے اور ہڈی تک اس کا اثر پہنچ جائے۔ آپ کسی آدمی کو بند کمرے میں دس جوتے مارو وہ برداشت کر لے گا لیکن سو بندوں میں کھڑا کر کے اس کی بے عزتی کرو تو برداشت نہیں کرے گا۔ تو شریف لوگ اس کو اپنے لیے بڑی توہین سمجھتے ہیں۔ بہر حال یہ شریعت نے حکم دیا ہے۔ تو شریعت میں شادی شدہ کے لیے رجم کی سزا ہے اور غیر شادی شدہ کے لیے کوڑے مارنے کی سزا ہے۔
عورت کا ذکر مرد سے پہلے کیوں؟
یہاں جب زنا کا مسئلہ اور سزا بیان کی تو پہلے عورت کا ذکر کیا یعنی
﴿اَلزَّانِیَۃُ وَ الزَّانِیۡ﴾
کہا۔ زنا تب ہوتا ہے جب عورت بھی چاہے اور مرد بھی چاہے ورنہ زنا کیسے ہو سکتا ہے! بدکاری بہت مشکل ہے، جبر کے ساتھ کسی عورت کی عزت لوٹنا بہت مشکل ہے لیکن یہ بات یاد رکھنا کہ عورت کتنی بھی کمزور کیوں نہ ہو جب تک اس کی خواہش نہ ہو مرد عورت کے قریب جانے کی ہمت نہیں کرتا، ہمت تب کرے گا جب عورت کی طرف سے مرد کو کوئی گنجائش نظر آئے ورنہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کوئی عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے۔ اس لیے شریعت نے عورت کو باہر نکلنے سے منع کیا ہے اور پردہ کا حکم دیا ہے، شوہر کے علاوہ کسی کے سامنے زیب وزینت کرنے سے منع کیا ہے۔محرم کے سامنے اجازت ہے لیکن ترغیب نہیں ہے اور عورت کی آواز کو بھی ستر قرار دیا ہے اور عورت کے لباس تک کا خیال کیا ہے۔اگر یہ زیور پہن کر جائے تو یوں نہ چلے کہ اس کی چھنکار آئے، اتنا مخفی اس لیے رکھا ہے کہ اس کی وجہ سے زنا کی ترغیب ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیت میں عورت کا ذکر پہلے کیا ہے اور مرد کا بعد میں کیا ہے۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ (آمین)
زنا کے متعلق دوسرا حکم:
﴿اَلزَّانِیۡ لَا یَنۡکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً اَوۡ مُشۡرِکَۃً ۫ وَّ الزَّانِیَۃُ لَا یَنۡکِحُہَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوۡ مُشۡرِکٌ ۚ وَ حُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۳﴾﴾
زانی مرد جب نکاح کرتا ہے تو زانیہ عورت سے کرتا ہے یا مشرکہ عورت سے کرتا ہے اور زانیہ عورت سے بھی نکاح یا تو زانی مرد کرتا ہے یا مشرک مرد کرتا ہے، اور یہ بات ایمان والوں پر حرام کر دی گئی ہے کہ وہ بدکار مرد یا بدکار عورت کو نکاح کے لیے پسند کریں۔
ایک بات تو یہ سمجھ لیں کہ یہاں جب نکاح کی بات کی ہے تو نکاح کی نسبت مرد کی طرف کی ہے
﴿اَلزَّانِیۡ لَا یَنۡکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً اَوۡ مُشۡرِکَۃً﴾
کہ زانی مرد نکاح کرتا ہے تو زانیہ عورت سے کرتا ہے یا مشرکہ عورت سے کرتا ہے اور جب زانیہ عورت کا معاملہ آیا تو یہ نہیں فرمایاکہ زانیہ عورت نکاح کرتی ہے زانی مرد سے یا مشرک مرد سے بلکہ وہاں انداز یہ اختیار فرمایا
﴿وَّ الزَّانِیَۃُ لَا یَنۡکِحُہَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوۡ مُشۡرِکٌ﴾
کہ زانیہ عورت سے نکاح کرتا ہے زانی مرد یا مشرک مرد۔ یعنی دونوں کے نکاح کے بارے میں نسبت مرد کی طرف کیوں کی ہے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ نکاح کی نسبت مرد کی طرف ہوتی ہے کیونکہ نکاح میں مرد حاکم ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ نابالغہ لڑکی کے لیے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنےکی گنجائش ہی نہیں ہے اور اگر بالغ ہو تو نکاح خود نہ کرے بلکہ اس کا ولی نکاح کروائے کیونکہ اس میں عورت کی عفت بھی ہے، حفاظت بھی ہے اور بہتر بھی یہی ہے کیونکہ اس کی عقل کم ہے اور وہ اپنے لیے مسائل پیدا کرے گی۔
دوسری بات یہ سمجھیں کہ اس آیت کا معنی یہ نہیں ہے کہ زانی مرد اگر پاک دامن عورت سے نکاح کرے تو اس کا نکاح نہیں ہوتا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان کی فطرت اور طبیعت بیان کی ہے کہ زانی مردکو پاک دامن عورت اچھی نہیں لگتی، اس کا میلان بد کار عورت کی طرف ہی ہوتا ہے اور بدکار عورت کو پاک دامن مرد اچھا نہیں لگتا، اس کا رجحان بھی بدکار مرد کی طرف ہی ہوتا ہے۔
ایک بات یہ بھی سمجھیں کہ یہاں زانی مرد اور زانیہ عورت کے ساتھ مشرک مرد اور مشرکہ عورت کا ذکر کیوں کیا ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح زنا کرنے والا مرد ایک عورت پر راضی نہیں ہوتا بلکہ اور عورتوں کی طرف بھی دیکھتا ہے اسی طرح مشرک؛ ایک خدا پر راضی نہیں ہوتا بلکہ اور دروازوں کو بھی دیکھتا ہے، جس طرح زانیہ عورت ایک شوہر پر قناعت نہیں کرتی بلکہ اور مردوں کی طرف بھی نگاہ اٹھاتی ہے اسی طرح مشرک عورت بھی ایک اللہ کے در پر راضی نہیں ہوتی اور دروں پر بھی جاتی ہے، تو زانی اور مشرک ان دونوں کا مزاج چونکہ ایک جیسا ہے اس لیے دونو ں کو اکٹھا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔
ترکیب کے اعتبار سے دو معانی کا بیان:
﴿وَ حُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۳﴾﴾
یہ ایمان والوں پر حرام ہے۔
اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ”زنا ایمان والوں پر حرام ہے“۔
”حُرِّمَ“
میں جو ھو ضمیر ہے وہ زنا کی طرف لوٹتی ہے، پھر تو صاف سی بات ہے کہ زنا حرام ہے، کوئی تاویل کرنے یا مزید بات سمجھانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اگر
”حُرِّمَ“
کی ھو ضمیر سے مراد نکاحِ زانی و زانیہ اور نکاحِ مشرک و مشرکہ ہو تو اب مطلب ہو گا کہ پاکدامن آدمی کا زانیہ عورت سے اور پاکدامن عورت کا زانی مرد سے نکاح حرام ہے، اسی طرح مسلمان مرد کا مشرکہ عورت سے اور مسلمان عورت کا مشرک مرد سے نکاح حرام ہے۔ ان کو حرام کیوں فرمایا؟ اس کی وجہ سمجھ لیں۔ جہاں تک مسئلہ ہے کہ مسلمان مرد کا نکاح مشرکہ عورت سے اور مسلمان عورت کا نکاح مشرک مرد سے تو اس کا حرام ہونا تو بالکل واضح ہے، مسلمان اور کافر کا نکاح آپس میں نہیں ہوتا، یہ بات بڑے آرام سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔
جہاں تک دوسرا مسئلہ ہے کہ پاکدامن آدمی کا زانیہ عورت سے اور پاکدامن عورت کا زانی مرد سے نکاح حرام ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کو اچھی طرح سمجھ لیں! اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک پاکدامن اور عفت والا آدمی کسی زانیہ سے نکاح کرے اور نکاح کے بعد اس کو زنا سے نہ روکے بلکہ اس عورت کی زنا کاری پر راضی رہے تو اس بندے کا یہ فعل حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔ اسی طرح اگر کوئی پاکدامن اور صاحبِ عفت عورت زانی مرد سے نکاح کرے اور نکاح کے بعد اس کو اس فعلِ حرام سے نہ روکے اور اس پر راضی رہے تو اس عورت کا راضی رہنا فعلِ حرام اور ناجائز ہے۔ تو یہاں حرام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کا فعل حرام ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا نکاح بھی حرام ہو، ان کا نکاح ٹھیک ہے، اس پر نکاح کے ثمرات مرتب ہوں گے، حق مہر بھی ہوگا، نفقہ بھی ہوگا، جو اولاد پیدا ہو گی اس کا نسب ان کے ساتھ ثابت ہو جائے گا، ان میں کوئی مر جائے تو میراث بھی ہوگی لیکن ان کا یہ فعل حرام رہے گا۔
میں اس کی مثال دوں تو پھر بات سمجھنی آسان ہو گی۔ کوئی شخص کسی عورت کو اغوا کرے اور پھر اس کو زنا پر مجبور کرے اور عورت کہتی ہے کہ میں اس طرح تو آپ کے ساتھ نہیں کر سکتی۔ مرد نے کہا: چلو پھر نکاح کر لو۔ عورت راضی ہو گئی اور انہوں نے دو گواہ بنا کر نکاح کر لیا۔ اب اس نکاح کی وجہ سے ہمبستری حلال ہو گئی ہے لیکن کیا مرد کا اس طرح کرنا جائز ہے؟ (نہیں۔ سامعین) اس طرح نکاح کرنا حرام ہے لیکن چونکہ یہ عورت اس کے نکاح میں آ گئی ہے اس لیے ہمبستری حلال ہو گی، عورت کا نان و نفقہ اس مرد کے ذمے ہو گا، ان میں سے کوئی ایک مر جائے تو دوسرا اس کاوارث بھی ہو گا لیکن یہ طریقہ حرام ہے۔
زنا کے متعلق تیسرا حکم:
﴿وَ الَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ ثُمَّ لَمۡ یَاۡتُوۡا بِاَرۡبَعَۃِ شُہَدَآءَ فَاجۡلِدُوۡہُمۡ ثَمٰنِیۡنَ جَلۡدَۃً وَّ لَا تَقۡبَلُوۡا لَہُمۡ شَہَادَۃً اَبَدًا ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ۙ﴿۴﴾﴾
اب یہ تیسرا حکم آ گیا ہے زنا کے بارے میں کہ عورت پاکدامن ہو، نیک ہو اور کوئی بندہ اس پر زنا کی تہمت لگاتا ہے تو اس شخص کو چاہیے کہ چار گواہ پیش کرے۔ اگر چار گواہ پیش نہیں کر سکتا تو اس تہمت لگانے والے پر حدِ قذف لگائی جائے گی اور وہ مردود الشہادت ہوجائے گا، آئندہ کسی کیس میں اس کی شہادت قبول نہیں ہو گی۔ ہاں اگر یہ توبہ کر لیتا ہے تو اس کو آخرت میں سزا نہیں ملے گی لیکن دنیا کی سزا باقی رہے گی یعنی اس کو کوڑے بھی لگیں گے اور آئندہ گواہی بھی قبول نہیں ہو گی۔
خلاصہ یہ کہ کوئی آدمی کسی پاکدامن عورت پر زنا کی تہمت لگائے اورچار گواہ نہ پیش کر سکے تو اس کے بارے میں تین حکم ہیں:
1: اَسی کوڑے مارے جائیں گے۔
2 : آئندہ کسی مقدمے میں یہ گواہ بن کر آئے تو اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔
3: اس شخص کو آخرت میں سزا ہو گی۔ہاں اگر اس نے توبہ کر لی تو توبہ کرنے سے آخرت والی جو سزا ہے وہ ختم ہو جائے گی لیکن مردودالشہادۃ پھر بھی رہے گا اور کوڑے بھی لگیں گے۔
حدِ زنا اور حدِ قذف میں ایک فرق ہے۔ زنا اگر شہادتوں سے ثابت ہو جائے تو پھر کوئی مطالبہ کرے یا نہ کرے زانی اور زانیہ پر حدِ زنا ہو گی لیکن اگر کوئی شخص کسی پر تہمت لگائے اور چار گواہ پیش نہ کر سکے اور اگر مقذوف سزا کامطالبہ کرے تو تہمت لگانے والے کو اَسی کوڑے مارے جائیں گے۔ اگر مقذوف سزا کا مطالبہ نہ کرے تو صرف تہمت لگانے پر اَسی کوڑے نہیں ہوں گے۔ اس لیے کہ یہ حق العبد ہے اور حق العبد کا تعلق مطالبے کے ساتھ ہوتا ہے۔
لِعان کا مسئلہ:
﴿وَ الَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ اَزۡوَاجَہُمۡ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہُمۡ شُہَدَآءُ اِلَّاۤ اَنۡفُسُہُمۡ فَشَہَادَۃُ اَحَدِہِمۡ اَرۡبَعُ شَہٰدٰتٍۭ بِاللہِ ۙ اِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۶﴾﴾
یہ معاملہ خاوند اور بیوی کے درمیان ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور چار گواہ بھی پیش کرے تو اس کی بیوی پر حد زنا لگ جائے گی۔ اگر گواہ نہ ہوں تو لعان ہو گا۔ لعان کا طریقہ یہ ہے کہ یہ مرد چار مرتبہ قسمیں کھائے کہ میں قسم کھاتا ہوں کہ میں اس بات میں سچا ہوں کہ میں نے اسی طرح اس کو دیکھا ہے۔ پانچویں مرتبہ قسم یوں اٹھائے کہ اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو مجھ پر خدا کی لعنت ہو۔ اب بیوی سے کہا جائے گا کہ وہ بھی چار مرتبہ قسمیں کھائے کہ یہ جھوٹ بولتا ہے اور پانچویں مرتبہ یوں قسم کھائے کہ اگر یہ سچا ہے تو پھر مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو۔
یہاں شوہر کی پانچوں قسموں میں نسبت شوہر کی طرف ہے اور بیوی کی پانچوں قسموں میں بھی نسبت شوہر کی طرف ہے حالانکہ انکار تو بیوی بھی کر رہی ہے۔ تو چونکہ الزام شوہرنے لگایا ہے اس لیے نسبت بھی اسی کی طرف کر دی ہے۔ اسے شریعت میں
”لعان“
کہتے ہیں۔
حدیث پاک میں ہے کہ یہ دونوں کبھی بھی آپس میں جمع نہیں ہو سکتے، یہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے لیکن طلاق نہیں ہو گی۔ طلاق تب ہو گی جب شوہر اس کو طلاق دے گا اور اس کو طلاق دینی چاہیے۔ اگر شوہر طلاق نہیں دیتا تو پھر قاضی ان دونوں کے درمیان قضاءً تفریق کرائے اور پھر وہ تفریق طلاق شمار ہو گی۔
اگر کوئی بندہ اپنی بیوی کے علاوہ کسی اور عورت پر زنا کا الزام لگائے تو حکم الگ ہے اور اگر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے تو حکم الگ ہے۔
﴿وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ وَ اَنَّ اللہَ تَوَّابٌ حَکِیۡمٌ ﴿٪۱۰﴾﴾
دیکھو! یہ اللہ کا فضل اور رحمت ہے کہ تمہیں حکمِ لعان دیا ہے۔
کیونکہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو کسی کے ساتھ دیکھا تو برداشت نہیں کر سکتا ہے۔ اگر قاضی کو جا کر کہے کہ میں نے بیوی کو زنا کرتے دیکھا ہے تو قاضی حد کیسے لگائے گا؟ اس کے پاس چار گواہ نہیں ہیں اور کسی کو نہ بتائے تو چونکہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اس لیے برداشت کیسے کرے گا؟ اب اس کو گولی مار دے تو مارنا جائز نہیں ہے، اب یہ کیا کرے؟ اور اگر اپنے خاندان کو جمع کر کے کہے کہ میں نے اس کو طلاق دینی ہے، میں نے فلاں کے ساتھ دیکھا ہے تو ثبوت پیش کرو! اب کہاں سے ثبوت لائے گا؟ اس لیے حکمِ لعان اللہ کا فضل اور رحمت ہے۔
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان یہ بہت عجیب معاملہ تھا۔ جب یہ حکم نازل ہوا کہ اگر کسی کو زنا کرتے دیکھو تو چار گواہ پیش کرو تو حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے کہا کہ یا رسول اللہ! کوئی بندہ اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو دیکھے تو پھر گواہ لینے کے لیے جائے گا اور وہ واپس آئے گا تو وہ کام کر کے جا چکا ہو گا۔ تو ہم کیا کریں؟
دوسرا دن ہوا تو انصار صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک کے ساتھ یہ واقعہ پیش آ گیا۔ اس نے کہا: جی میرے گھر یہ واقعہ ہو گیا ہے۔ تو انصار صحابہ کہتے ہیں کہ جس کام کو ہم نے غیرت کا مسئلہ سمجھا تھا ہمارے گھر ہی وہ معاملہ ہو گیا۔ تو پھر یہ آیات نازل ہوئیں کہ اب لعان کرو۔
واقعۂ افک:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ بِالۡاِفۡکِ عُصۡبَۃٌ مِّنۡکُمۡ ؕ لَا تَحۡسَبُوۡہُ شَرًّا لَّکُمۡ ؕ بَلۡ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ؕ لِکُلِّ امۡرِیًٔ مِّنۡہُمۡ مَّا اکۡتَسَبَ مِنَ الۡاِثۡمِ ۚ وَ الَّذِیۡ تَوَلّٰی کِبۡرَہٗ مِنۡہُمۡ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۱﴾﴾
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سن 6 ھ کو غزوہ بنو المصطلق میں تشریف لے گئے۔ واپس آ رہے تھے تو حضرت ام المؤمنین امی عائشہ رضی اللہ عنہا قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئیں۔ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر بھی تھوڑی تھی اور وزن بھی کم تھا اور ہودج -جو اونٹ کے اوپر کجاوا ہوتا تھا- جس میں بیٹھتی تھیں اس کا پردہ بھی لٹکا ہوا تھا تو اٹھانے والے صحابہ نے یہ سمجھا کہ شاید امی عائشہ رضی اللہ عنہا اس میں موجود ہیں۔ چونکہ عمر تھوڑی ہے اور وزن کم ہے اس لیے محسوس نہیں کیا۔ ہودج اٹھا کر اونٹ کے اوپر رکھا اور قافلہ روانہ ہو گیا۔
امی عائشہ رضی اللہ عنہا جب واپس تشریف لائیں تو قافلہ جا چکا تھا۔ آپ نے نہایت عقل مندی سے فیصلہ فرمایا کہ جب اگلی منزل پر اتریں گے اور میں ہودج میں نہیں ہوں گی تو ظاہر ہے کہ مجھے تلاش کرنے کے لیے واپس آئیں گے، اس لیے بجائے اس کے کہ میں قافلے کے پیچھے جاؤں اور راستہ بھٹکوں تو میں ادھر ہی ٹھہر جاتی ہوں۔ حضرت امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے چادر اپنے اوپر لی اور وہیں لیٹ گئیں۔ حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کے ذمہ تھا کہ جب قافلہ چلے تو وہ پیچھے پیچھے آیا کریں اور وہ جگہ دیکھا کریں جہاں قافلہ رکا تھا، کسی کی کوئی چیز گر جاتی ہے تو ایسی چیزیں اکٹھی کر لیا کریں۔
حضرت صفوان رضی اللہ عنہ آئے تو دیکھا کہ ایک خاتون لیٹی ہوئی ہیں۔ نگاہ پڑی تو امی عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ انہوں نے فورا ً کہا:
”إِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ“
امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے آواز کو سنا تو اٹھ گئیں اور فوراً پردہ فرما لیا۔ پردے کے احکام کے نازل ہونے سے پہلے امی عائشہ رضی اللہ عنہا کو چونکہ حضرت صفوان نے دیکھا ہوا تھا اس لیے دیکھنے سے پہچان گئے۔ اونٹ کو بٹھایا۔ امی عائشہ رضی اللہ عنہا اس پر سوار ہو گئیں اور آپ ساتھ ساتھ چلے اور جب اگلی منزل پر پہنچے تو منافقین نے دیکھتے ہی ان پر الزام لگا دیا۔ یہ کیفیت تقریباً ایک مہینہ تک مدینہ منورہ میں رہی۔ سب سے بڑا شیطان عبد اللہ بن ابی تھا۔ اس نے اس واقعہ کو اڑایا۔ اس نے طریقہ یہ اختیار کیا کہ خود سامنے نہ آتا اور باقی لوگ بات کرتے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ باتیں سنتے رہے اور آپ کو بہت تکلیف ہوئی۔ آپ گھر تشریف لے جاتے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے کہ کیا حال ہے؟ ٹھیک ہو؟ کوئی چیز چاہیے؟ اور پھر واپس تشریف لاتے، اس سے زیادہ گھر رکتے نہیں تھے۔ حضرت امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے بہت تکلیف ہوتی لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے مجھ سے پہلے معاملہ فرماتے تھے اب اتنی شفقت اور توجہ کیوں نہیں ہے۔ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کوبہت تکلیف ہوئی اور بیمار ہو گئیں۔
ایک رات قضائے حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئیں۔ حضرت مسطح رضی اللہ عنہ کی والدہ ام مسطح رضی اللہ عنہا آپ کے ساتھ تھیں۔ ام مسطح کا پاؤں ان کی چادر میں الجھا تو وہ گر پڑیں اور ان کی زبان سے نکلا: مسطح ہلاک ہو جائے!
امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ وہ تو بدری صحابی ہے، اتنا نیک اور شریف آپ کا بیٹا ہے اور آپ بددعائیں دیتی ہیں! تو انہوں نے کہا: عائشہ! تجھےمعلوم نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟ پورا مہینا ہو گیا ہے۔ عبد اللہ بن ابی منافقین کے سردار نے جو تمہارے اوپر الزام لگایا ہے اس میں تو میرا بیٹا بھی شامل ہو گیا ہے۔ جب بتایا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی حالت بہت خراب ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اب سمجھ میں بات آئی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے اوپر توجہ کیوں نہیں دیتے تھے۔ پھر ظاہر ہے جو ان پر گزرنی تھی وہ انہی پر گزری ہو گی۔
اس کو عام بندہ کیسے سوچ سکتا ہے! پاکدامن بھی ہو، نبی کی بیوی بھی ہو، ام المؤمنین ہو اور اس پر الزام لگے تو آپ سوچیں ذرا کیا کیفیت ہو گی؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گھر آئیں تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی کہ آپ اگر مجھے اجازت دیں تو میں اپنی امی ابو کے ہاں چلی جاؤں۔ فرمایا: چلی جاؤ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی والدہ کے ہاں آ گئیں تو اپنی والدہ سے پوچھا کہ امی یہ کیا معاملہ ہے؟ ان کی والدہ نے کہا: دیکھو بیٹی! ایسے ہوتا ہے کہ جو بیوی خاوند کی منظورِ نظر ہو لوگ اس پر باتیں کرتے ہیں، اللہ کرم کرے گا، تم تسلی رکھو! خیر امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا تسلی رکھنی تھی۔ بیمار پڑ گئیں۔ بستر پر لیٹ گئیں۔ رو رو کے اپنے آنسو ختم کر لیے۔
اسی دوران حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس خبر کے پھیلنے کی وجہ سے بہت غمگین تھے۔ حضرت علی اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما یہ ان کے گھر کے بچے شمار ہوتے تھے۔ آپ نے دونوں کو بلا کر بطورِ خاص مشورہ کیا کہ اسامہ اور علی! تم بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے، میں کیا کروں؟ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کےحضور! مشورہ کیا کرنا ہے، وہ بہت نیک ہیں، پاکدامن ہیں، اتنی شریف ہیں تو آپ کیوں ایسی بات سوچتے ہیں، آپ ان افواہوں کی پروا مت کیجیے! حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حضور! اگر افواہوں کی وجہ سے آپ کی طبیعت میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کچھ تکدر آ گیا ہے تو آپ حکم فرمائیں اور رشتہ لے آتے ہیں! کیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی راحت کا خیال ہو رہاہے۔ یہ ہوتا ہے چھوٹوں کا بڑوں کے ساتھ معاملہ۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی بیوی نے گھر میں بات کی کہ ہم کیا سن رہے ہیں عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں! حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے فرمایا کہ تم یہ کام کر سکتی ہو؟ کہا کہ نہیں! تو انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کیسے سوچتی ہو؟ تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی کے بارے میں یہ کیسے سوچ لیا ہے؟ کہا کہ لوگ باتیں کر رہے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب سنا تو فوراً یہی کہا:
"هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ"
کہ یہ بہت بڑا بہتان ہے، ایسا نہیں ہو سکتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اپنے والدین کے گھر تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! مجھے تمہارے بارے میں یہ باتیں پہنچی ہیں۔ اگر تم بری ہو تو اللہ ضرور تمہیں بری کر دیں گے اور اگر تم سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو توبہ کر لو، بندہ جب اللہ کے حضور توبہ کرتا ہے تو اللہ ضرور اس کی توبہ قبول فرما لیتے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے ابو سے کہا: آپ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیں۔ انہوں نے کہا: میں کیا جواب دوں؟ پھر میں نے امی سے کہا کہ امی! آپ جواب دیں۔ امی نے کہا کہ بیٹا! اب ہم کیا بات کریں؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ہمت کر کے پھر میں نے بات کی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک عجیب فاضلانہ گفتگو کی۔انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں بری ہوں اللہ جانتا ہے لیکن اگر میں کہہ دوں کہ میں ٹھیک ہوں تو شاید آپ کو یقین نہ آئے اور اگر میں کہہ دوں کہ آپ نے ٹھیک سنا ہے تو شاید آپ کو یقین آ جائے۔ میں سمجھتی ہوں کہ آپ لوگوں کی باتوں سے اتنا متاثر ہیں کہ اب آپ میری ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بس میں اس کو اللہ کے حوالے کرتی ہوں۔ یہ کہا اور الگ بستر پر جا کر لیٹ گئیں۔
اب ظاہر ہے کہ ان کو کتنی تکلیف ہوئی ہو گی؟ آپ ذرا سوچیں! خیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں پر تھے۔ ابھی گھر سے نکلے نہیں تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے آثار شروع ہو گئے۔ وحی آئی۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور فرمایا :
”اَبْشِرِیْ یَا عَائِشَۃُ“
خوشخبری ہو عائشہ! اللہ نے تجھے بری قرار دیا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ نے کہا: عائشہ! اٹھو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ ادا کرو۔ آپ نے کہا: میں اٹھوں گی بھی نہیں اور شکریہ بھی ادا نہیں کروں گی، یہ تو میرے اللہ نے مجھ پر کرم کیا ہے۔ اب ظاہر ہے وہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی لاڈلی بیوی تھیں۔
خیر اس پر پھر یہ دو رکوع نازل ہوئے اور اللہ رب العزت نے امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی برأت کا اعلان فرمایا۔
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ بِالۡاِفۡکِ عُصۡبَۃٌ مِّنۡکُمۡ ﴾
اللہ فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہی کچھ لوگ ہیں جو اس میں شریک ہو گئے ہیں۔
حضرت مسطح اور حضرت حسان رضی اللہ عنہما بھی اس پروپیگنڈے میں شریک ہو گئے تھے اور ان دونوں صحابہ کو اسی کوڑے لگے ہیں لیکن یہ بدری صحابہ ہیں۔ ان کے بارے میں ہمارے دل میں رتی برابر بھی میل نہیں ہے۔ اللہ ہمیں شریعت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
﴿لَوۡ لَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہُ ظَنَّ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتُ بِاَنۡفُسِہِمۡ خَیۡرًا ۙ وَّ قَالُوۡا ہٰذَاۤ اِفۡکٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۲﴾ لَوۡ لَا جَآءُوۡ عَلَیۡہِ بِاَرۡبَعَۃِ شُہَدَآءَ ۚ فَاِذۡ لَمۡ یَاۡتُوۡا بِالشُّہَدَآءِ فَاُولٰٓئِکَ عِنۡدَ اللہِ ہُمُ الۡکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۳﴾﴾
اللہ فرماتے ہیں: جب تم نے یہ بات سنی تھی تو تم اچھا گمان رکھتے اور تم کہتے کہ یہ کھلا ہوا بہتان ہے۔ یہ بہتان لگانے والے اپنی اس بات پر چار گواہ کیوں نہیں لائے؟ جب یہ گواہ نہیں لائے تو یہی لوگ اللہ کے ہاں جھوٹے ہیں۔
﴿وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ لَمَسَّکُمۡ فِیۡ مَاۤ اَفَضۡتُمۡ فِیۡہِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿ۚ۱۴﴾﴾
اگر تم پر اللہ کا فضل وکرم نہ ہوتا تو جو کام تم لوگوں نے کیا ہے اس کی وجہ سے تم پر سخت عذاب نازل ہوتا!
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک یہ تھا کہ اپنی بیویوں میں سے جن کے گھر رات گزارتے تو اس گھر میں جو ہدیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملتا وہ اسی بیوی کا ہوتا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خواہش ہوتی تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ہوں تب ہدیہ دیں تاکہ حضرت عائشہ کو ہدیہ ملے اور باقی ازواج کو یہ بات پسند نہیں تھی۔
تو ایک مرتبہ بعض ازواج نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کریں کہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے کہیں کہ اتنا عائشہ رضی اللہ عنہا کا خیال نہ کریں کہ جب ان کے گھر ہوں تب ہی ہدیہ دیں۔ ہمارا بھی خیال کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سفارش کی تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فاطمہ!
"أَلَا تُحِبِّينَ مَا أُحِبُّ؟"
صحیح البخاری، رقم: 2581
جو بات تمہارے ابو پسند کرتے ہیں کیا تم وہ پسند نہیں کرتیں؟
حضرت عائشہ کی سات خصوصیات:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سات ایسی خصوصیات ہیں جن میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے:
1: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں۔ کسی بڑے کی اولاد ہونا یہ بہت بڑی خصوصیت ہے اور بہت بڑا اعزاز ہے۔
2: حضرت جبرئیل امین کپڑے پر یا اپنی ہتھیلی پر ان کی تصویر لے کر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھا یا کہ یہ آپ کی بیوی ہوں گی۔
3: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی دس ازواج ایسی ہیں جو مطلقہ یا بیوہ ہیں اور یہ واحد ہیں جو کنواری ہیں۔
4: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ایک بستر میں لیٹے ہوتے تھے تو وحی آ جاتی تھی، کسی اور بیوی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔
5: جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں رکھا ہوا تھا۔
6: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا جو حجرہ ہے وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا مدفن بنا ہے۔
7: ان کی برأت کا اعلان خود قرآن کریم نے کیا ہے۔
تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کتنی بڑی خصوصیات تھیں! اللہ پاک ہم سب کو قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
اہلِ فضل چاہیے کہ دوسروں کو نوازیں!
﴿وَ لَا یَاۡتَلِ اُولُوا الۡفَضۡلِ مِنۡکُمۡ وَ السَّعَۃِ اَنۡ یُّؤۡتُوۡۤا اُولِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ۪ۖ﴾
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت مسطح رضی اللہ عنہ کا جو اِن کے رشتہ دار بھی تھے، صحابی بھی تھے اور غریب بھی تھے، ان کا خرچہ بند کر دیا کہ تم نے یہ کیوں کہا؟ جب یہ آیات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حق میں اتریں تو اللہ نے فرمایا کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ یہ رشتہ دار بھی ہے، مسکین بھی ہے، مہاجر بھی ہے۔ تو جو تم دیتے تھے دیتے رہو! صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی قسم کو توڑا، کفارہ ادا کیا اور حضرت مسطح رضی اللہ عنہ کو پھر خرچہ دینا شروع فرما دیا۔
پارسا لوگوں اور گندے لوگوں کی فطرت:
﴿اَلۡخَبِیۡثٰتُ لِلۡخَبِیۡثِیۡنَ وَ الۡخَبِیۡثُوۡنَ لِلۡخَبِیۡثٰتِ ۚ وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیۡنَ وَ الطَّیِّبُوۡنَ لِلطَّیِّبٰتِ ۚ اُولٰٓئِکَ مُبَرَّءُوۡنَ مِمَّا یَقُوۡلُوۡنَ ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ﴿٪۲۶﴾﴾
یہاں مزاج بتایا ہے کہ گندی باتیں گندے مرد ہی کرتے ہیں اور گندے مرد گندی باتوں کے مناسب ہیں، اچھی باتیں اچھے مرد کرتے ہیں اور اچھے مرد اچھی باتوں کے مناسب ہیں یا اس کامطلب یہ ہے کہ گند؛ گندکی طرف مائل ہوتا ہے اور طہارت؛ طہارت کی طرف مائل ہوتی ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پا ک دامن ہیں، ان کے نکاح میں پاک دامن ہی آتی ہیں۔ پاکدامن لوگ پاکدامن بیویاں پسند کرتے ہیں اور پاکدامن عورتیں پاکدامن مرد پسند کرتی ہیں۔
تو یہ مزاج بتایا ہے۔ اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ نیک آدمی کے نکاح میں زانیہ نہیں آ سکتی اور نیک عورت کا شوہر زنا نہیں کر سکتا! اس کا یہ معنی نہیں ہے۔
چار قسم کے مکانات کا حکم:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا غَیۡرَ بُیُوۡتِکُمۡ حَتّٰی تَسۡتَاۡنِسُوۡا وَ تُسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَہۡلِہَا ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۲۷﴾﴾
مکانات عموماً چار قسم کے ہو تے ہیں :
1: وہ مکان جس میں آدمی خود اکیلا رہتا ہے۔
2: وہ مکان جس میں اور لوگ بھی رہتے ہوں، رشتے دار ہوں یا اجنبی ہو ں۔
3: وہ مکان جس میں کسی کا رہائش پذیر ہونا معلوم نہ ہو کہ کوئی اس میں رہتا بھی ہے یا نہیں!
4: وہ مکان جو رہائش کےلیے نہیں ہیں جیسے مسجد، خانقاہ اور مدرسہ وغیر ہ۔
 تو جو مکان رہنے کےلیے ہے اس میں اجازت کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور سلام اس نیت سے کر لیا جائے کہ اس میں فرشتے ہوں گے۔
 اور وہ مکان جس میں کچھ لوگ رہتے ہوں تو وہاں دو کام کرنے ہیں؛ ایک تو ان کو سلام کرنا ہے اور دوسرا ان سے اجازت لینی ہے اپنے تعارف کے ساتھ کہ میں کون ہو ں۔ مثلاً میں پہلے سلام کرتا ہوں کہ ”السلام علیکم رحمۃ اللہ وبرکاتہ!“ اند ر سے آواز آئے کہ کون؟ ”میں مولانا محمد الیاس گھمن سرگودھا سے“ صرف ”میں“ کہنا کافی نہیں ہے۔
امام علی بن عاصم واسطی بہت بڑے محدث گزرے ہیں۔ ایک بار وہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے گھر ان سے ملنے کے لیے گئے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے پو چھا: کون؟ انہوں نے کہا: ”اَنَا“ میں ہوں۔ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے دوستوں میں سے ”انا“ نام کا کوئی نہیں ہے۔ پھر حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ان کو ایک حدیث سنائی کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں آئے، دروازے پر دستک دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
”مَنْ؟“
کون ہو؟ انہوں نے کہا:
”اَنَا“
میں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فر مایا:
”انا انا! “
یعنی اناانا کیا ہوتا ہے، اپنا نام بتاؤ!
الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع للخطیب:ص260
اس لیے جب دروازے پر دستک دیں اور گھر والے پوچھیں کہ کون ہیں؟ تو اپنا پورا تعارف بتائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا:
اَلسَّلَامُ عَلٰي رَسُوْلِ اللهِ ، اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَيَدْخُلُ عُمَرُ؟
سنن ابی داؤد، رقم: 5201
اللہ کے نبی پر سلام ہو، حضور! کیا عمر اندر آ سکتا ہے؟
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملنے کے لیے گئے۔ فرمایا:
”اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ! ھٰذَا أَبُوْمُوْسٰی ، اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ! ھٰذَا الْأَشْعَرِیُّ“
یعنی پورا تعارف کروایا۔
صحیح مسلم، رقم: 2154
اس میں جھجکنا نہیں چاہیے۔ بعض لوگ صرف نام بتاتے ہیں اور ساتھ مولانا نہیں کہتے اور جو شہرت ہے وہ بھی نہیں بتاتے تو اس طرح بندے کو تعارف نہیں ہوتا۔ میں اپنی بات کرتا ہوں کہ میں جب کسی کو فون کرتا ہوں تو میں ”مولانا محمد الیاس گھمن“ کہتا ہو ں۔
بعض لوگ ہمیں فون کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آپ کون ہیں؟ میں کہتا ہوں: آپ نے کس کو فون کیا ہے؟ حالانکہ پہلے اپنا نام بتانا چاہیے تھا، پھر یوں پوچھنا چاہیے تھا کہ آپ فلاں مولانا صاحب ہیں؟ تو تہذیب کے دائرے میں رہ کر فون کرنا بہت ضروری ہے۔
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا غَیۡرَ بُیُوۡتِکُمۡ حَتّٰی تَسۡتَاۡنِسُوۡا وَ تُسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَہۡلِہَا ؕ﴾
یہ دوسرے مکان کاحکم ہے جہاں پر لوگ رہتے ہیں کہ ان کو سلام کرو، ان سے اجازت لو!
”تَسۡتَاۡنِسُوۡا“
کا معنی ہے کہ جب بندہ اجازت لیتا ہے تو مانوس ہو جاتا ہے۔
﴿فَاِنۡ لَّمۡ تَجِدُوۡا فِیۡہَاۤ اَحَدًا فَلَا تَدۡخُلُوۡہَا حَتّٰی یُؤۡذَنَ لَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ قِیۡلَ لَکُمُ ارۡجِعُوۡا فَارۡجِعُوۡا ہُوَ اَزۡکٰی لَکُمۡ ؕ﴾
یہ وہ مکان ہے جس میں بندے نہ ہوں اور یہ ہو سکتا ہے کہ ہوں تو ان سے اجازت مانگو! ملتی ہے تو ٹھیک ہے اور نہیں ملتی تو اندر نہ جاؤ! اگر اندر لوگ موجود ہیں اور کہتے ہیں کہ واپس جاؤ تو اس میں ہتکِ عزت محسوس نہ کرو! بسااوقات کوئی مجبوری ہوتی ہے، کوئی ضرورت ہوتی ہے۔
﴿لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا غَیۡرَ مَسۡکُوۡنَۃٍ فِیۡہَا مَتَاعٌ لَّکُمۡ ؕ﴾
یہ وہ مکان ہے جو رہائش کا نہیں ہے ویسےکوئی خانقاہ ہے یا مدرسہ ہے اس میں داخل ہو نے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ وہاں تمہارا سامان موجود ہے اور اپنی ضرورتیں پوری کرو۔
آنکھ اور عصمت کی حفاظت کا حکم:
﴿قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ﴾
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایمان والوں کو چاہیے کہ اپنی نگاہ نیچے رکھیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ زیادہ صفائی کا سبب ہے۔
﴿وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَ یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ﴾
ایمان والی عورتوں کو بھی چاہیے کہ اپنی نگاہیں نیچے رکھیں اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کریں۔
ایک ہے مرد کا نا محرم عورت کو دیکھنا اور ایک ہے عورت کا نا محرم مرد کو دیکھنا۔ اگر عورت کے لیے نا محرم مرد کو دیکھنے کی اجازت ہوتی تو اللہ کبھی نہ فرماتے
﴿یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ﴾
معلوم ہوتا ہے کہ مرد کے ذمہ ایک کام ہے عورت کو نہ دیکھنا اور عورت کے ذمہ دو کام ہیں: نمبر ایک ... مرد کو نہ دیکھنا اور نمبر دو ... اپنے چہروں کو چھپا کر رکھنا! مرد پر پردہ نہیں ہے، عورت پر پردہ ہے۔
عورت کے پردے کا ایک حکم:
﴿وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا﴾
عورت اپنی زینت کو ظاہر نہ کرے۔
ایک ہے زینت اور ایک ہے زینت کی جگہ۔ مثلاً زینت کی چیز سرمہ ہے اور زینت کی جگہ آنکھ ہے، ایک زینت کی چیز چوڑی ہے اور زینت کہ جگہ بازو ہے، زینت کی چیز انگوٹھی ہے اور زینت کی جگہ انگلی ہے۔ دونوں اس میں شامل ہیں یعنی اپنی زینت کی جگہیں اور مواقع ظاہر نہ کرو۔
﴿اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا﴾
مگر جسم کے وہ حصے جو خود بخود کھل جاتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس سے مراد دو قسم کی چیزیں ہیں؛ ایک زینت کی چیز یں ہیں مثلاً کپڑا اور ایک اس کو چھپانے کے لیے ہے جیسے برقعہ، اس کو تو نہیں چھپا سکتے کہ یہ ان کی مجبوری ہے۔ تو
﴿مَا ظَہَرَ مِنۡہَا﴾
میں برقعہ اور چادر شامل ہیں۔
اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ مواقعِ زینت کو ظاہر نہ کرو لیکن زینت کے مقامات جو خود بخود کھلتے ہیں ضرورت کی وجہ سے جس میں چہرہ ہے اور ہاتھ ہیں اس کا ذکر تو احادیث میں ہے اور پاؤں کو قیاس کیا ہے چہرہ وغیرہ پر کہ عموماً عورت کام کے لیے باہر جاتی ہے، لہذا اس کی اجازت ہے۔
اور اجازت کے دو مطلب ہیں؛ ایک یہ ہے کہ عورت پر ان اعضائے مذکورہ کا پردہ نہیں ہے اور ایک معنی ہے کہ ان کو دیکھنا جائز ہے۔ یہ دو چیزیں الگ ہیں؛ عورت کو ان چیزوں کی اجازت دی ہے ضرورت کی وجہ سے لیکن اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ مرد ؛عورت کے چہرے کو دیکھے۔
﴿اِلَّا لِبُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اٰبَآئِہِنَّ اَوۡ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآئِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اَخَوٰتِہِنَّ اَوۡ نِسَآئِہِنَّ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیۡنَ غَیۡرِ اُولِی الۡاِرۡبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَظۡہَرُوۡا عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ ۪﴾
یہاں سے بارہ قسم کے افراد بتائے ہیں کہ جن سے عورت پر پردہ نہیں ہے۔ اس سے مراد چہرہ نہیں ہے بلکہ مواقعِ زینت مراد ہیں یعنی سینہ، گردن، سر کے بال، پنڈلی کہنی تک بازو ہیں۔ وہ بارہ افراد کون کون سے ہیں:
(1) عورت کا شوہر
(2) اپنا والد
(3) سسر
(4) عورت کے اپنے بیٹے
(5) شوہر کا بیٹا جو کسی اور بیوی سے ہے
(6) عورت کے اپنے بھائی
(7) عورت کے بھائی کے بیٹے
(8) عورت کی بہن کے بیٹے
(9) مسلمان عورتیں
(10) باندیاں۔ اس میں غلام شامل نہیں ہیں، غلاموں سے پردہ فرض ہے
(11) ایسے لوگ جو گھر میں رہتے ہیں کھانے پینے کےلیے اور ان میں عقل اتنی نہیں ہوتی کہ عورتوں اور مردوں کے معاملات سمجھتے ہوں
(12) ایسے چھوٹے بچے جو مرد اور عورت کے معاملات سے واقف نہیں ہیں۔
تو ان مذکورہ بارہ قسم کے افراد کے سامنے عورت بوقت ضرورت بازو، پنڈلی، سر کے بال وغیرہ کھول سکتی ہے۔ اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ ان اعضاء کا کھولنا ضروری ہے۔
﴿وَ لَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ﴾
عورت اپنے پاؤں کی آواز کو بھی مخفی رکھے تا کہ اس کی جو زینت ہے وہ کھل نہ جائے۔
بعض عورتیں اپنے پاؤں میں زیور پہنتی ہیں کہ چلنے سے جن کی آواز آتی ہے۔ تو کوشش کریں کہ ان کی آواز بھی نہ آئے۔
عورت کی آواز بھی ستر ہے۔ بغیر ضرورت کے عورت کو اپنی آواز بھی نا محرم سے مخفی رکھنی چاہیے۔ ہاں ضرورت ہو تو الگ بات ہے۔ جیسےپردہ کی آیات نازل ہونے کے بعد بھی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پردہ میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے مسائل پوچھتے تھے، وہ جواب عنایت فرماتی تھیں۔
عورت کے جسم کا وہ حصہ جس کا نما ز میں چھپانا فرض ہے یہ عورت کا ستر ہے جس کا نامحرم سے چھپانا فرض ہے اور نماز پڑھتے وقت عورت کی ہتھیلیاں، چہرہ، پاؤں ننگے ہوں تو نماز ہو جاتی ہے۔
بے نکاحوں کے نکاح کرانے کی ترغیب:
﴿وَ اَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی مِنۡکُمۡ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنۡ عِبَادِکُمۡ وَ اِمَآئِکُمۡ﴾
جو مرد اور عورتیں بغیر نکاح کے ہیں ان کا بھی نکاح کراؤ!
بغیر نکاح کے ہونے سے مراد یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص کی بیوی تھی فوت ہو گئی ہے، یا کسی عورت کا شوہر تھا فوت ہو گیا ہے یا ایسا ہے کہ انہوں نے نکاح کیا ہی نہیں ہے تو ان کا نکاح کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔
یہاں
﴿وَ اَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی﴾
میں نکاح کی نسبت مردوں کی طرف کی ہے کہ ان کا نکاح تم خود کراؤ! اس سے معلوم ہوا کہ لڑکوں اور لڑکیوں کا از خود شادیاں کرنا ٹھیک نہیں ہے، بڑوں کو چاہیے کہ رشتے کروائیں کیونکہ بڑوں کے رشتوں میں خیر ہی خیر ہے۔
﴿وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنۡ عِبَادِکُمۡ وَ اِمَآئِکُمۡ﴾
اور جو نکاح کی صلاحیت رکھتے ہیں تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے تو ان کے نکاح کرا دو!
﴿اِنۡ یَّکُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ یُغۡنِہِمُ اللہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ﴾
اگر ان کے پاس پیسے نہیں ہیں تو اللہ اپنے فضل سے دے دیں گے۔
یہاں ترغیب دینا مقصود ہے کہ اگر ان میں صلاحیت ہو، حقوق ادا کرنے کی طاقت بھی ہو تو نکاح کرا دو! میں ذاتی طور پر اپنے تجربات کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ اللہ رب العزت نکاح کی وجہ سے غربت نہیں دیتے بلکہ نکاح کی وجہ سے اللہ دولت دیتے ہیں۔ یہ شرط ہے کہ نکاح نیک نیتی سے کیا جائے، محض اپنی شہوت اور شہرت کے لیے نہ کیا جائے۔ بعض شہوت کے لیے کرتے ہیں اور بعض شہرت کے لیے کرتے ہیں کہ میری دو بیویاں، تین بیویاں ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ اس سے تو جو نقصانات ہونے ہیں وہ تو ہونے ہیں۔
ابھی کچھ دن قبل کی بات ہے میں نے اپنی چھوٹی دونوں بیویوں کے اکاؤنٹ میں دس ہزار مہینا کے اعتبار سے چھ ماہ کے اکٹھے پیسے جمع کروا دیے تا کہ بعد میں ان کے کام آتے رہیں۔ مجھے شارجہ سے فون آ گیا کہ استاذ جی! اکاؤنٹ نمبر بھیج دیں، میں نے ہدیہ دینا ہے۔ میرا اکاؤنٹ نمبر تو نہیں ہے اس لیے میں نے کسی اور کا دے دیا۔ تو اس نے ایک لاکھ روپے بھیج دیے۔ تو جتنا خرچ کیا تھا اللہ نے اتنا دے دیا۔
ایک مرتبہ غالباً عید کا موقع تھا، گھر والوں نے کہا: پیسے چاہییں، کپڑے وغیرہ لینے ہیں۔ میں نے پوچھا: کتنے؟ کہا: تیس ہزار روپے۔ میرے پاس استطاعت نہیں تھی پھر بھی میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں دے دیے اس نیت سے کہ اللہ اور دے دیں گے۔ تو میرا ایک دوست آیا اس نے کہا: یہ آپ کے لیے ایک ہزار ریال ہدیہ ہے۔ تو جتنے خرچ ہوئے تھے اللہ نے اتنے دے دیے۔ اب میرا یقین ہو گیا ہے کہ اللہ رب العزت بیوی اور بچوں پر خرچ کرنے کی وجہ سے مال میں تنگی نہیں فرماتے۔
میں نے جب دوسری شادی کی تو میرا مکان نہیں تھا اور پیسے بھی نہیں تھے لیکن میں نے شادی اس نیت سے کی کہ بیوی عالمہ ہو گی تو بنات کا مدرسہ بن جائے گا اور بچیوں کے لیے تعلیم کا انتظام ہو جائے گا۔ میں نے شادی کر لی۔ میری بیوی ایک سال تک اسی میرے کمرے جو کہ میری بیٹھک ہے، اس میں رہی۔ ہمارے چچا امریکہ میں تھے، وہیں فوت ہو گئے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ مدرسہ کے لیے جگہ دیں تو بنات کے مدرسے کی یہ جگہ انہوں نے دے دی، کہا کہ مدرسہ بنا لو! میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ ہم نے نقشہ بنایا کہ ساتھ گھر بھی ہو گا۔ میں نے بھائی خبیب سے پوچھا: کتنے پیسے لگیں گے؟ انہو ں نے کہا: دس لاکھ کا خرچہ ہے۔ تو میں نے ایک دوست سے کہا کہ دس لاکھ روپے قرض دے دو! اس نے دے دیے۔ جب کام شروع کیا تو بنیادوں تک پہنچے پہنچتے دس لاکھ پورا ہو گیا۔ میں نے دوبارہ انہیں فون کیا کہ دس لاکھ اور دے دیں اور اپنا اکاؤنٹ نمبر بھی دیں، میں رمضان کے بعد تھوڑا تھوڑا دیتا رہا ہوں گا۔ اس نے کہا: پہلا دس لاکھ آپ کا ہدیہ اور دوسرا دس کل بھجوا دیتا ہوں۔ جب چھت تک پہنچے تو وہ دس بھی ختم ہو گئے۔ میں نے پھر اس کو فون کیا کہ دس اور دے دیں، میں تھوڑے تھوڑے کر کے دے دوں گا۔ اس نے کہا: دوسرا دس وہ بھی ہدیہ اور یہ تیسرا دس لاکھ بھیج رہا ہو ں یہ بھی ہدیہ ہے۔ تو کل تیس لاکھ ہیں۔ یہ مدرسہ میرے ذاتی پیسوں سے بنا ہوا ہے۔ دس لاکھ ہم نے اور لگائے تو مدرسہ اور مکان دونو ں بن گئے۔ مجھے اس پر بہت خوشی ہوتی ہے کہ مدرسہ کے پیسوں سے میرا مکان نہیں بنا بلکہ میرے پیسوں سے مدرسہ بنا ہے۔ لہذا مجھے شرح صدر ہوتا ہے کہ میں مکانات کو اپنے ذاتی استعمال میں لاتا رہوں تو مجھے شرعاً کوئی الجھن نہیں ہوتی۔
اگر اللہ مجھے وسائل دے تو دنیا اس مرکز کو دیکھنے آئے، نقشہ، تعمیرات، ڈسپلن وغیرہ۔ ہمیں تو فقر وفاقہ ہے، ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن وسائل کی وجہ سے بڑھ نہیں سکتے۔
خیر میں یہ کہہ رہا تھا کہ بیوی اور اولاد کے بارے میں حسنِ نیت بہت ضروری ہے اور بندہ ان پر خرچ کرے تو اللہ محرو م نہیں کرتے۔
میں کل ایک جگہ بیان پر گیا۔ تقریباً نو ہزار کا پٹرول ڈلوایا۔ میزبان نے ایک روپیہ بھی نہیں دیا اور نہ ہی میں نے ان سے تقاضا کیا ہے۔ ایک جگہ ناشتہ کیا تو میزبان نے پانچ ہزار دیے، دوسری جگہ سے ایک اور نے پانچ ہزار دیے اور تیسرے نے دو ہزار دیے۔ یوں دائیں بائیں سے لوگ ہدیے دیتے رہے اور اللہ نے پورے کر دیے۔
آج صبح میں مطالعہ کر رہا تھا۔ گھنٹی بجائی تومولانا ذاکر اللہ آئے۔ میں نے ان سے کہا: دودھ میں پتی اور جوشاندہ ڈال کر لے آؤ! میں بتا نہیں سکتا کہ میرے دل پر شکر کی کیفیت کیا تھی؟ میں ایسے مست ہوتا ہوں کہ جیسے کوئی اپنی سلطنت میں مست ہوتا ہے کہ ایک منٹ میں بیٹھے بیٹھے دودھ پتی چائے پہنچ گئی۔ میں بارہا کہا کرتا ہوں آپ سے بھی اور اپنے اساتذہ سے بھی کہتا رہتا ہوں کہ اللہ کے انعاما ت پر بہت زیادہ شکر ادا کیا کرو، کبھی کفرانِ نعمت نہ کیا کرو۔
﴿لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ ﴾
ابراہیم 14: 7
انسان اللہ کا جتنا شکر ادا کرتا ہے اللہ انعامات میں اضافہ فرماتے ہیں۔
﴿مَا یَفۡعَلُ اللہُ بِعَذَابِکُمۡ اِنۡ شَکَرۡتُمۡ وَ اٰمَنۡتُمۡ ؕ﴾
النساء4 :147
انسان کا عقیدہ ٹھیک ہو اور شاکر ہو تو اللہ فرماتے ہیں کہ میں اس کو عذاب کیوں دوں؟
باقی خواہشات تو بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتیں اور ضرورتیں فقیروں کی بھی پوری ہو جاتی ہیں۔ ہم لاہور سے آ رہے تھے تو مزدور سڑک پر کھڑے ہیں، پتا نہیں کہ کوئی لینے آئے گا بھی یا نہیں؟ پتا نہیں کھانا بھی ملنا ہے یا نہیں؟ اور ہمیں روزانہ ترو تازہ کھانا ملتا ہے بغیر کسی انتظار اور مشقت کے، یہ اللہ کا کتنا بڑا فضل ہے! ہماری کتنی پر سکون زندگی ہے اور آخرت میں اللہ کی رضا اور جنت تو ملنی ہے ان شاء اللہ۔
عفت و پاکدامنی اختیار کرنے کا حکم:
﴿وَ لۡیَسۡتَعۡفِفِ الَّذِیۡنَ لَا یَجِدُوۡنَ نِکَاحًا حَتّٰی یُغۡنِیَہُمُ اللہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ﴾
اور جس کے پاس نکاح کرنے کے اسباب نہ ہوں تو وہ پاک دامنی کی زندگی گزاریں، جب اللہ اپنے فضل سے انہیں ہمت دیں اور اسباب مہیا فرما دیں تو وہ پھر نکاح کر لیں۔
﴿وَ لَا تُکۡرِہُوۡا فَتَیٰتِکُمۡ عَلَی الۡبِغَآءِ اِنۡ اَرَدۡنَ تَحَصُّنًا لِّتَبۡتَغُوۡا عَرَضَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ﴾
زمانہ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ لوگ باندیاں رکھتے اور ان سے زنا کرواتے اور پیسے کھاتے۔ عبد اللہ بن ابی بے ایمان منافق یہ کرتوت کرتا تھا اور ان کی کمائی کھاتا تھا۔ بعض باندیاں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئیں وہ نہیں چاہتی تھیں لیکن یہ پھر بھی کراتا تھا۔ تو قرآن نے سمجھایا کہ ایسا کرنا تو جائز ہی نہیں ہے خصوصاً وہ باندی جو پاکدامن ہو اسے زنا پر مجبور کرنا یہ تو اور بھی گناہ ہے۔ باندیوں کو سمجھایا کہ تم یہ کام نہ کرو اگر آقا مجبور کر کے یہ کام کراتا ہے تو پھر تم پر کوئی گناہ نہیں ہے، اللہ تمہیں معاف کر دے گا۔
اللہ آسمان و زمین کا نور ہے:
﴿اَللہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشۡکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصۡبَاحٌ ؕ اَلۡمِصۡبَاحُ فِیۡ زُجَاجَۃٍ ؕ﴾
اس آیت میں اللہ نے اپنے نور؛ نورِ ہدایت کی مثال دی ہے۔ جب ہم کہتے ہیں: اللہ نور ہے تو اس سے مراد ہوتا ہے
”مُنَوِّرٌ“
یعنی روشن کرنے والا۔
">”نور“

کا حقیقی معنی ہے :

”اَلظَّاہِرُ بِنَفْسِہٖ وَالْمُظْہِرُ لِغَیْرِہٖ“

خود ظاہر ہو اور دوسرے کو ظاہر کرے۔ نور کا یہ حقیقی معنی اللہ پر صادق نہیں آتا کیونکہ اللہ ظاہر نہیں ہیں تو یہاں نور کا مجازی معنی ہے۔ نو ر سے مراد ہے ”مُنَوِّرٌ“ کہ اللہ رب العزت روشن کرتے ہیں آسمانوں کو اور زمین کو۔ اس سے مراد ہے ”مَا فِی السَّمٰوٰتِ“ ہے یعنی ان کو جو آسمانوں میں ہیں اور ”وَالْاَرْضِ“ کا معنی ہے ”وَمَا فِی الْاَرْضِ“ جو زمین میں ہیں۔ مراد صرف آسمان اور زمین کی مخلوق نہیں ہے بلکہ تمام مخلوقات ہیں، تمام مخلوق کا کنایہ آسمان اور زمین سے ہے کیونکہ ہمارے سامنے یا زمین ہے یا آسمان ہے، اس میں تمام مخلوقات آتی ہیں۔

اللہ رب العزت کیسے روشن کرتےہیں؟ تو اس کی مثال دی ہے کہ جیسے ایک طاقچہ ہو- طاقچہ سے مراد جیسے دیوار ہے اور دیوار میں روشن دان سا بنا ہو جو پیچھے سے بند ہو- پھر اس طاقچہ میں چراغ ہو اور چراغ ایک قندیل میں ہو اور چراغ کو جس تیل سے جلایا جا رہا ہے وہ زیتون کا تیل ہے،
﴿لَّا شَرۡقِیَّۃٍ وَّ لَا غَرۡبِیَّۃٍ﴾
اور زیتون بھی ایسا کہ جس کی مشرق کی جانب کسی درخت یا پہاڑ کی کوئی آڑ نہ ہو اور مغرب کی جانب بھی کسی درخت یا پہاڑ کی آڑ نہ ہو۔ اگر مشرق کی جانب سے کوئی آڑ نہ ہو تو شروع دن سے ہی اس پر دھوپ پڑتی رہتی ہے اور اگر مغرب کی جانب سے کوئی آڑ نہ ہو تو آخر دن تک اس پر دھوپ پڑتی رہتی ہے۔ تو یہ ایسا زیتون کا درخت ہے کہ جس پر پورا دن سورج کی روشنی پڑتی رہتی ہے اسی وجہ سے اس کا تیل نہایت صاف اور عمدہ ہوتا ہے۔
اب مثال دی ہے کہ طاقچہ ہو وہ بھی شیشے کا ہے، اس میں قندیل ہے وہ بھی شیشے کا ہے اور قندیل میں ایک چراغ ہے، چراغ زیتون کے تیل سے جلنا ہے اور زیتون بھی ایسا کہ نہایت لطیف اور عمدہ ہے کہ بہت جلد جلتاہے اور دھواں بہت کم دیتا ہے۔ فرمایا کہ اللہ اسی طرح روشن کرتے ہیں۔
اور اس سے مراد مؤمن کا دل ہے کہ مؤمن کے دل میں طبعی ایمان کے قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے، پھر اوپر سے وحی الٰہی جب آتی ہے تو بہت جلد اسے عمل کی توفیق مل جاتی ہے۔
﴿یَہۡدِی اللہُ لِنُوۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ یَضۡرِبُ اللہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ ؕ﴾
اللہ رب العزت رہنمائی فرماتے ہیں اپنے نور کے ذریعہ جس کو چاہتے ہیں اور لوگوں کو سمجھانے کے لیے مثالیں بھی دیتے ہیں۔
مساجد میں ذکر اللہ کی ترغیب:
﴿فِیۡ بُیُوۡتٍ اَذِنَ اللہُ اَنۡ تُرۡفَعَ وَ یُذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ ۙ﴾
﴿فِیۡ بُیُوۡتٍ﴾
کا تعلق پچھلے جملے میں موجود لفظ
﴿یَہۡدِی﴾
کے ساتھ ہے۔ معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نور کے ذریعے جورہنمائی فرماتے ہیں تو اس نورِ ہدایت کے ملنے کی جگہ ایسے گھر ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ ان کو بلند کیا جائے اور ان میں اللہ کا نام لے کر ذکر کیا جائے۔
یہاں بلند کرنے سے مراد ظاہراً بلند کرنا نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کی عظمت کا خیال کیا جائے۔ اور یہاں گھروں سے مراد مساجد ہیں۔
﴿ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیۡہَا بِالۡغُدُوِّ وَ الۡاٰصَالِ ﴿ۙ۳۶﴾ رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءِ الزَّکٰوۃِ ۪ۙ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ ﴿٭ۙ۳۷﴾﴾
ان گھروں میں صبح وشام اللہ کی تسبیح وہ لوگ بیان کرتے ہیں جنہیں کوئی تجارت یا کوئی خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے روکتی نہیں ہے، نماز قائم کرنے سے نہیں روکتی، زکوٰۃ اداکرنے سے نہیں روکتی اور یہ لوگ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں کہ جس دن دل تڑپتے تڑپتے رہ جائیں گے اور آنکھیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔
﴿لِیَجۡزِیَہُمُ اللہُ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَ یَزِیۡدَہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللہُ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ ﴿۳۸﴾﴾
اللہ رب العزت ان لوگوں کو ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دیں گے اور اپنے کرم سے مزید بھی عطا فرمائیں گے اور اللہ جس کو چاہتے ہیں بغیر حساب کے رزق عطا فرما دیتے ہیں۔
کفار کے اعمال سراب کی مانند ہیں:
﴿وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَعۡمَالُہُمۡ کَسَرَابٍۭ بِقِیۡعَۃٍ یَّحۡسَبُہُ الظَّمۡاٰنُ مَآءً ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَہٗ لَمۡ یَجِدۡہُ شَیۡئًا وَّ وَجَدَ اللہَ عِنۡدَہٗ فَوَفّٰىہُ حِسَابَہٗ ؕ وَ اللہُ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿ۙ۳۹﴾﴾
ان دو آیتوں میں اللہ نے دو قسم کے کافرو ں کی مثال دی ہے۔
[1]: دنیا میں ایک قسم ان کفار کی ہے جو قیامت کے قائل ہیں، جنت اور جہنم کے قائل ہیں لیکن عقائد کفریہ ہیں جیسے آج کے دور میں قادیانی ہیں، یہ جنت اور جہنم کو مانتے ہیں لیکن عقیدۃً مسلمان نہیں ہیں۔
[2]: اور بعض کافر وہ ہیں جو قیامت کےدن کے منکر ہیں۔ جیسے دہریے ہیں، یہ کافر ہیں اور قیامت کے دن کے منکر ہیں۔
تو کفار کی دو قسمیں ہیں؛ بعض قیامت کو مانتے ہیں لیکن کسی اور عقیدے کی وجہ سے کافر ہیں اور بعض قیامت کو بھی نہیں مانتے۔ تو جو قیامت کو مانتے ہیں وہ کچھ نہ کچھ نیک عمل بھی کرتےہیں اور اس کو امید بھی ہوتی ہے کہ نیک عمل قبول ہو گا اور توقع بھی ہوتی ہے کہ اس کو اجر بھی ملے گا لیکن چونکہ شرطِ ایمان مفقود ہے یعنی ایمانیات کے سارے عقائد موجود نہیں ہیں اس لیے ان کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔ تو ان کو نور؛ وہم کےدرجے میں حاصل ہے۔
تو پہلے ان کافروں کی مثال دی ہے جو قیامت کو مانتے ہیں کہ ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے سراب ہو۔ ”سراب“ کہتے ہیں کہ جب سخت دھوپ میں بندہ ریت پر کھڑا ہو تو اسے دور سے ایسے معلوم ہو گا جیسے پانی چل رہا ہو حالانکہ یہ دھوکہ ہے، یہ پانی نہیں ہوتا۔ تو پیاسا شخص سراب کو دور سے پانی سمجھتا ہے اور جب قریب جاتا ہے تو پانی موجود نہیں ہوتا۔ اب سوائے ندامت و شرمندگی اور حسرت کے اس کو کچھ نہیں ملتا۔ اس طرح یہ قیامت کو مانتے تھے تو نیک عمل کیا، ان کا وہم یہ تھا کہ نیک عمل کا اجر قیامت کے دن ملے گا اور جب قیامت کا دن آئے گا تو نیک عمل کا جو بدلہ ان کو اچھا نظر آ رہا تھا وہ اچھا نہیں ہو گا، کیونکہ ایمان کی شرط مفقود ہو گئی ہے۔ حسرت کی وجہ سے ان کا مرنے کو دل چاہے گا لیکن پھر بھی نہیں مریں گے۔
﴿اَوۡ کَظُلُمٰتٍ فِیۡ بَحۡرٍ لُّجِّیٍّ یَّغۡشٰہُ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ سَحَابٌ ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ اِذَاۤ اَخۡرَجَ یَدَہٗ لَمۡ یَکَدۡ یَرٰىہَا ؕ وَ مَنۡ لَّمۡ یَجۡعَلِ اللہُ لَہٗ نُوۡرًا فَمَا لَہٗ مِنۡ نُّوۡرٍ ﴿٪۴۰﴾﴾
اور دوسرا وہ کافر ہے جو قیامت کو مانتا ہی نہیں ہے، وہ چونکہ قیامت کو مانتا نہیں ہے تو وہم کے درجے میں بھی اس کو نور حاصل نہیں ہے۔ اس کا تو کفر در کفر ہے، عمل اس کے پاس ہے ہی نہیں۔
آپ کے ذہن میں آئے گا کہ بعض کافر ایسے ہیں جو دہریے ہیں، قیامت کو نہیں مانتے لیکن نیک اعمال پھر بھی کرتے ہیں، ہسپتال بناتے ہیں، یتیم خانے بناتے ہیں، نیکی کے کام کرتے ہیں۔ تو وہ نیکی کے کام آخرت کے لیے نہیں کرتے ہیں وہ نیکی کے کام دنیا کے لیے کرتے ہیں، ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ان کاموں سے نیک نامی ہو گی، اجر کی وجہ سے وہ ہرگز ایسے کام نہیں کرتے۔ ان کفار کی مثال ایسی ہے جیسے بہت گہرا سمندر ہو اوراس میں اندھیرے ہوں، اس کے اوپر پھر ایک موج ہے پانی کی، پھر اس کے اوپر ایک موج ہے، پھر اس کے اوپر بادل ہیں۔ اب اتنا اندھیرا موجود ہو تو آدمی کو اور اعضاء تو درکنار اپنا ہاتھ بھی نظر نہیں آتا۔
ہاتھ کی مثال کیوں دی ہے؟ اس لیے کہ آدمی کے اعضاء میں سے آنکھ کے سب سے قریب ترین عضو ہاتھ ہوتا ہے، چہرہ قریب تو ہے لیکن نظر نہیں آتا، پیشانی قریب ہے لیکن نظر نہیں آتی، باقی جتنے بھی اعضاء ہیں دیکھنے کے اعتبار سے سب سے زیادہ قریب ترین عضو ہاتھ ہے اور ہاتھ ایک ایسا عضو ہے کہ آدمی آنکھ کے جتنا قریب کرنا چاہے کر سکتا ہے، باقی اعضا میں سے کوئی اتنا قریب کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا۔ تو جب ہاتھ تک نظر نہیں آتا تو باقی اعضاء کیسے نظر آئیں گے؟ فرمایا کہ ان کفار کی مثال ایسے ہے کہ یہ قیامت کے دن کے قائل نہیں ہیں، نیک عمل بھی یہ کوئی نہیں کرتے تو یہ لوگ اندھیرے در اندھیرے میں ہیں، ان کو وہاں کچھ بھی نہیں ملے گا۔
تو دونوں میں فرق یہ ہے کہ جو قیامت کے دن کے قائل ہیں ان کے پاس نور ہے اگرچہ وہم کے درجے میں ہے اور جو قیامت کے دن کے قائل نہیں ہیں ان کے پاس وہم کے درجے میں بھی نور نہیں ہے۔
کامیابی کی بنیاد چار باتیں:
﴿وَ مَنۡ یُّطِعِ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَخۡشَ اللہَ وَ یَتَّقۡہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ ﴿۵۲﴾﴾
یہ آیت نہایت جامع ترین آیت ہے۔ مسجد نبوی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ موجود تھے کہ ایک شخص آیا۔ وہ کافر تھا، کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تیرا کلمہ پڑھنے کا خا ص سبب؟ اس نے کہا کہ قرآن کریم کی ایک آیت ہے، میں نے تورات اور انجیل کو پڑھا ہے اور ایسی جامع آیت مجھے دنیا میں کہیں نہیں ملی، میں حقانیتِ قرآن کا قائل ہو کر کلمہ پڑھتا ہوں۔ فرمایا کہ وہ آیت کون سی ہے؟ اس شخص نے کہا: یہ آیت ہے؛
﴿وَ مَنۡ یُّطِعِ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَخۡشَ اللہَ وَ یَتَّقۡہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ ﴿۵۲﴾﴾
اس نے کہا: اس کے شروع میں ہے
﴿وَ مَنۡ یُّطِعِ اللہَ﴾
کہ اللہ رب العزت کی اطاعت کریں، اس کا تعلق فرائض کے ساتھ ہے کہ فرائضِ الہیہ کو مانیں،
﴿وَ رَسُوۡلَہٗ﴾
اور پیغمبر کی سنت کو مانیں،
﴿وَ یَخۡشَ اللہَ﴾
خدا سے ڈریں یعنی ماضی میں خدا سے ڈرتا رہا ہو،
﴿وَ یَتَّقۡہِ﴾
اور خدا کی مخالفت کبھی نہ کریں یعنی مستقبل میں۔ تو جو شخص فرائض کا خیا ل بھی رکھے اور سنت کا خیال بھی رکھے، پھر اللہ سے بھی ڈرے اور خدا کی مخالفت بھی نہ کرے۔ تو
﴿فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ﴾
اس کے کامیاب ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے؟
آیتِ استخلاف:
﴿وَعَدَ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ﴾
اس آیت کو “آیتِ استخلاف“ کہتے ہیں۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے، تفصیل کے ساتھ اس موضوع پر سبق ہو گا ان شاء اللہ لیکن ابھی اس کا خلاصہ سمجھیں!
قرآن کریم میں اللہ پاک نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کن کن صحابہ کو خلافت دینے کا وعدہ فرمایاہے؟ جسے ہم کہتے ہیں کہ صحابہ کرام میں سے خلفائے راشدین کون ہیں جن کی خلافت کا وعدہ اس آیت میں ہے؟
خلفائے راشدین چار ہیں:
اھل السنۃ والجماعۃ کا مسلک یہ ہے حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم۔ خلافت راشدہ حق چار یار ہیں، تو خلافت راشدہ کا مصداق چار خلفائے راشدین ہیں۔
دلیل یہ آیتِ استخلاف ہے:
﴿وَعَدَ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ﴾
اللہ نے وعدہ کیا ان ایمان والوں سے جو تم میں سے ہیں۔ یہ
﴿مِنۡکُمۡ﴾
کا خطاب جب ہوا تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اس وقت کلمہ پڑھ کر مسلمان نہیں ہوئے تھے، لہذا وہ
﴿اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ﴾
میں شامل نہیں ہیں۔ حسنین کریمین ابھی نا بالغ بچے تھے تو وہ بھی
﴿اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ﴾
میں داخل نہیں تھے۔ اس لیے یہ صر ف چار خلفاء کے ساتھ خاص ہے۔ تو اللہ رب العزت اس آیت میں فرماتے ہیں:
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ہیں ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا اور ان کے لیے اس دین کو ضرور اقتدار بخشے گا جسے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ان کو جو خوف لاحق رہا ہے اس کے بدلے انہیں ضرور امن عطا کرے گا۔ وہ میری عبادت کریں، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور جو لوگ اس کے بعد بھی ناشکری کریں گے تو ایسے لوگ نافرمان شمار ہوں گے۔
تو جب یہ نعرہ لگے ”خلافتِ راشدہ“ تو جواب کیا دیتے ہیں؟ حق چار یار! خلافت راشدہ... حق چاریار! نعرہ لگا نا سیکھو اور جب مسئلہ سمجھانا ہو تو مسئلہ سمجھانا سیکھو!
نعروں کا جواب کیسے دیا جائے؟
بعض مواقع پر نعرے لگتے ہیں تو میں فوراً تردید نہیں کرتا بلکہ میں سمجھایا کرتا ہوں۔ مثلاً نعرۂ تکبیر... اللہ اکبر لگتا ہے، اسی طرح ”نعرۂ رسالت“ لگتا ہے تو بعض نئے نئے لوگ ہوتے ہیں وہ ”یا رسول اللہ!“ کہہ دیتے ہیں، میں فوراً تردید نہیں کرتا، بلکہ میں بات سمجھاتا ہوں، میں کہتا ہوں کہ بھائی! نعرہ کا جواب صحیح وہ دیتا ہے جو نعرے کو سمجھے، جو نعرے کو نہ سمجھے وہ صحیح جواب نہیں دیتا۔ اب ”نعرۂ تکبیر“ کا جواب ”اللہ اکبر“، ”نعرۂ رسالت“ کا جواب بعض کہتے ہیں ”محمد رسول اللہ“ اور بعض کہتے ہیں ”یارسول اللہ“ اور جب ”خلافتِ راشدہ“ کا نعرہ لگے تو بعض کہتے ہیں ”حق چار یار“ اور بعض کہتے ہیں کہ ”حق سارے یار“۔ یہ دو قسم کے جواب چلتے ہیں۔ اب نعرہ سمجھیں گے تو جواب صحیح دیں گے، نعرہ صحیح نہیں سمجھیں گے تو جواب کیسے صحیح دیں گے؟
جب ایک شحص کہتا ہے کہ ”نعرۂ تکبیر“ تو وہ آپ سے پوچھتا ہے کہ بتاؤ! سب سے بڑا کون ہے؟ تو جواب کیا دیں گے؟ ”اللہ اکبر“۔ پھر وہ کہتاہے کہ ”نعرۂ رسالت“ تو پہلے سوچو کہ نعرے والا پوچھتا کیاہے؟ ”نعرۂ رسالت“ والا پوچھتا ہے کہ تمہارا رسول کون ہے؟ تو جس کا رسول ”محمد“ ہے، صلی اللہ علیہ وسلم، وہ کہتا ہے کہ ”محمد رسول اللہ“ او ر جس کا رسول”یا“ ہے وہ کہتے ہیں ”یا رسول اللہ“۔ اب آپ کے رسول کون ہیں؟ (محمد رسول اللہ۔ سامعین) تو پھر ”نعرۂ رسالت“ کا جواب کیا ہونا چاہیے؟ (محمد رسول اللہ۔ سامعین)
اب دیکھیں! اہلِ بدعت پر رد ہو رہا ہے لیکن رد اس طرح نہیں ہو رہا کہ بھڑک اٹھیں، کفر کا فتویٰ دے کر ان کو مقابلے میں کھڑا کردیں۔ پھر ہم نے کہا کہ جب ”خلافتِ راشدہ“ لگتا ہے تو جواب میں کوئی کہتا ہے کہ ”حق چار یار“، کوئی کہتا ہے کہ ”حق سارے یار“۔
جو شخص کہتا ہے کہ ”خلافت راشدہ“ تو وہ آپ سے پوچھتا ہے کہ وہ صحابہ بتاؤ جن کی خلافت کا وعدہ اللہ نے قرآن میں کیا ہے! اگر سب سے کیا ہے تو جواب ”سارے یار“ ہے، اگر چار سے کیا ہے تو جواب ”چار یار“ ہیں۔ تو جب کہیں کہ ”خلافت راشدہ“ تو جواب کیا دیں گے؟ ( حق چار یار۔ سامعین) ”نعرۂ تکبیر“ کا جواب کیا دیں گے؟ اللہ اکبر، ”نعرۂ رسالت“ کا جواب کیا دیں گے؟ (محمد رسول اللہ۔ سامعین)
ایک اشکال کا جواب:
لوگ دھوکہ بڑا سخت دیتے ہیں اور دلیل اتنی عجیب دیتے ہیں کہ عام بندہ بالکل بے بس ہو جاتا ہے۔ دلیل ان کی کیا ہے؟ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت حسن چھ ماہ کے لیے خلیفہ بنے تھے تو وہ بھی تو خلیفہ تھے! حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی خلیفہ ہیں اور ان کے دور میں حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کچھ وقت کے لیے مکہ مکرمہ کے خلیفہ بنے ہیں۔ حضرت ابوبکر بھی خلیفہ، حضرت عمر بھی خلیفہ، حضرت عثمان بھی خلیفہ، حضرت علی بھی خلیفہ، حضرت حسن بھی خلیفہ، حضرت امیر معاویہ بھی خلیفہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر بھی خلیفہ، تو یہ خلفاء چار تو نہیں، خلفاء سات ہیں، اور اگر قرآن سے پوچھو تو قرآن کہتا ہے:
﴿اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ ۙ﴿۷﴾﴾
الحجرات49: 7
کہ وہ سارے راشد بھی ہیں۔ تو ان سات صحابہ میں سے ساتوں خلفاء بھی ہیں اور راشد بھی ہیں، اس لیے ہم ان سات کو ”خلیفہ راشد“ کہتے ہیں۔
اب دیکھو! بظاہر کتنی مضبوط دلیل ہے! بندہ اسے فوراً قبول کرتا ہے۔
ہم نے کہا کہ بات یوں نہیں ہے۔ یہ خلفاء بھی ہیں اور یہ راشدین بھی ہیں، اس پر اعتراض نہیں ہے، اصل بات یہ ہے کہ ”خلافتِ راشدہ“ یہ شریعت کی خاص اصطلاح ہے، جس کا خاص معنی ہے اور اس میں الجھن نہیں ہے۔ مثلاً ”عشرہ مبشرہ بالجنۃ“ یہ کتنے ہیں؟ دس ہیں یا سارے؟ (دس۔ سامعین) آپ کہتے ہیں کہ صحابہ میں سے دس ہیں کہ جن کو جنت کی بشارت دی ہے، دوسرا کہتا ہے کہ جھوٹ ہے، کیونکہ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ کُلًّا وَّعَدَ اللہُ الۡحُسۡنٰی ؕ﴾
الحدید57: 10
اللہ نے سب کو جنت کی بشارت دی ہے تو آپ عشرہ مبشرہ کیوں کہتے ہو؟ اس لیے یہ نہ کہا کرو کہ یہ دس مبشرہ ہیں بلکہ کہو کہ سارے مبشرہ ہیں۔ تو دس کو جنت کی بشارت دی ہے یا سب کو دی ہے؟ (سب کو دی ہے۔ سامعین) تو آپ ”عشرہ مبشرہ“ کیوں کہتے ہیں؟ تو جس طرح آپ نے یہ کہا کہ خلفاء بھی ہیں اور راشد بھی ہیں، لہذا سات خلفائے راشدین ہیں، آپ چار کیوں کہتے ہیں؟ تو آپ سے بھی کوئی بندہ کہے گا کہ سب کو جنت کی بشارت دی ہے تم ”عشرہ مبشرہ بالجنۃ“ کیوں کہتے ہو؟
ہم نے کہا کہ تمام صحابہ کرام جنتی ہیں لیکن جب ہم ”عشرہ مبشرہ بالجنۃ“ کہتے ہیں تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے ایسے صحابہ کہ جن کا نام ایک مجلس میں لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنتی فرمایا وہ دس ہیں۔ ویسے تو جنتی سارے ہیں۔ اب یہ سات خلفاء بھی ہیں اور ساتوں راشد بھی ہیں لیکن ”خلفائے راشدین“ سے مراد صحابہ کرام میں وہ صحابہ ہیں کہ جن کے بارے میں آیتِ استخلاف میں اللہ نے خلافت کا وعدہ کیا اور وہ سات نہیں بلکہ وہ چار ہیں۔
اب اس کے ساتھ تھوڑا سا اور اضافہ کر لو کہ جب ہم کہتے ہیں ”خلافتِ راشدہ“ تو اس سے مراد ہوتا ہے ”خلافتِ راشدہ موعودہ فی القرآن“ یعنی ایسی خلافت جس کا وعدہ قرآن میں کیا گیا ہے وہ چار کے ساتھ ہے، وہ سب کے ساتھ نہیں ہے ورنہ تو آیتِ استخلاف قیامت تک آنے والے ہر خلیفہ کو شامل ہو جائے گی، اللہ نے کسی کا نام تو نہیں لیا نا؟ جو بھی امام ہے اعمال صالحہ کرتاہے اور شریعت کے مطابق حکومت کرتاہے تو وہ خلیفہ ہو گا۔
تو ”خلفائے راشدین“ شریعت کی ایک اصطلاح ہے جس سے مراد چار ہیں، باقی سات کو ہم خلیفہ بھی کہہ دیں گے، راشد بھی کہہ دیں گے لیکن اصطلاحی خلافت راشدہ نہیں ہے، اس لیے ہم دونوں میں فرق کرتے ہیں کہ چار خلفاء کی خلافت ”خلافتِ راشدہ“ ہے اور باقی تین کی خلافت؛ خلافت عادلہ ہے۔ یہ فرق کر لیتے ہیں تاکہ الجھن نہ ہو۔
تین اوقات میں اجازت لے کر جاؤ!
﴿ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِیَسۡتَاۡذِنۡکُمُ الَّذِیۡنَ مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَبۡلُغُوا الۡحُلُمَ مِنۡکُمۡ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ؕ مِنۡ قَبۡلِ صَلٰوۃِ الۡفَجۡرِ وَ حِیۡنَ تَضَعُوۡنَ ثِیَابَکُمۡ مِّنَ الظَّہِیۡرَۃِ وَ مِنۡۢ بَعۡدِ صَلٰوۃِ الۡعِشَآءِ﴾
پہلے حکم یہ تھا کہ جب کسی کے گھر میں داخل ہو تو سلام کرو اور اجازت لو، اب حکم ہے ان لوگوں کے لیے جن کا گھر میں آنا جانا رہتا ہے کہ وہ کس وقت اجازت لیں اور کس وقت بغیر اجازت کے آئیں؟ فرمایا کہ صبح فجر سے پہلے کا وقت اور دوپہر کو سونے کا وقت اور عشاء کے بعد گھر میں آرام کا وقت ہے۔ عام طور پر جب ان تین وقتوں میں بندہ سوتا ہے تو بدن کے زائد کپڑے اتار دیتاہے، عام حالات میں کبھی کبھی بندہ سونے کے لیے جائے تو قمیص اتار تا ہے اور لنگی پہنتا ہے تو شلوار بھی اتار دیتا ہے، زائد کپڑے اترے ہوئے ہوتے ہیں، اس وقت بندہ نامناسب حالت میں ہوتا ہے، اس لیے ایسے وقت حکم دیا کہ جب جاؤ تو یہ تمہارے ستر کے اوقات ہیں، ڈھانپنے کے وقت ہیں ایسے وقت میں اجازت کے بغیر نہ جایا کرو، بلکہ اجازت لے کر جایا کرو۔
﴿لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ وَ لَا عَلَیۡہِمۡ جُنَاحٌۢ بَعۡدَہُنَّ ؕ﴾
ان اوقات کے علاوہ آنا جانا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور یہ حکم محارم کے لیے بیان ہو رہا ہے، اجنبی کے لیے نہیں ہے۔ اجنبی کے لیے تو ویسے جانا جائز ہی نہیں ہے۔
﴿طَوّٰفُوۡنَ عَلَیۡکُمۡ بَعۡضُکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ ﴾
ان کا ہر وقت تمہارے گھروں میں آنا جانا رہتا ہے، تم اتنی بار اجازت کیسے لو گے؟ لیکن ان وقتوں میں ذرا خیال کیا کرو!
﴿وَ اِذَا بَلَغَ الۡاَطۡفَالُ مِنۡکُمُ الۡحُلُمَ فَلۡیَسۡتَاۡذِنُوۡا کَمَا اسۡتَاۡذَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ﴾
اور جب نابالغ بچے بالغ ہو جائیں تو ان وقتوں میں وہ بھی اجازت لیں جیسے دوسرے بڑے لوگ اجازت لیتے ہیں۔
﴿وَ الۡقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ الّٰتِیۡ لَا یَرۡجُوۡنَ نِکَاحًا فَلَیۡسَ عَلَیۡہِنَّ جُنَاحٌ اَنۡ یَّضَعۡنَ ثِیَابَہُنَّ غَیۡرَ مُتَبَرِّجٰتٍۭ بِزِیۡنَۃٍ ؕ﴾
اور ایسی بوڑھی عورت کہ جو نکاح کی امید نہیں رکھتی یعنی ایسی حالت میں ہے کہ نکاح کی رغبت ان میں ختم ہو گئی ہے تو ان پر کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنے زائد کپڑے اتار دیں۔ ”زائد“ کی قید ذہن میں رکھنا! ایسی بوڑھی عورت زائد کپڑے اتاریں،
﴿ غَیۡرَ مُتَبَرِّجٰتٍۭ بِزِیۡنَۃٍ﴾
اس کا مقصد پھر بھی زینت کا دکھانا مقصود نہ ہو۔ زائد کپڑے سے مراد یہ ہے کہ جو اپنے چہرے کا کپڑا ہے اس کو اتار دیں تو کوئی حرج نہیں ہے، زنیت پھر بھی مقصود نہ ہو۔ بعض نے ان میں سے ہتھیلی اور پاؤں کو بھی خارج کیا ہے کہ اس حالت میں رہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کے حق میں اجنبی؛ محارم کی طرح ہوتا ہے۔ جس طرح محرم دیکھ سکتا ہے اجنبی بھی دیکھ سکتا ہے۔ اب اندر کی شہوت اس کا اللہ اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہے۔
معذورین کے کھانے کا مسئلہ:
﴿لَیۡسَ عَلَی الۡاَعۡمٰی حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡمَرِیۡضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَنۡ تَاۡکُلُوۡا مِنۡۢ بُیُوۡتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اٰبَآئِکُمۡ ﴾
بعض حضرات کی خواہش ہوتی ہے کہ ایک نابینا ہے اس کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھلائیں، لنگڑا ہے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلائیں، کوئی اور بیمار ہے تو ساتھ بٹھا کر کھاناکھلائیں لیکن الجھن پیش ہوتی کہ جب اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھائیں گے تو نابینا نے کا خیال ہوتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ مجھے کھانے کی تمیز نہیں، میں زیادہ کھالوں، ہو سکتا ہے کہ میں اچھی چیز کھا لوں اور دوسری چھوڑ دو ں۔ اور جو لنگڑا اور مریض ہوتا ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ مریض کے ساتھ لوگ بیٹھ کر کھانا پسند نہیں کرتے، مجھےمروّت میں شاید ساتھ تو بٹھا دیں لیکن ہو سکتا ہے کہ دل سے نہ چاہتے ہوں۔ یہ خلجان تھے۔ اللہ نے سارے خلجان ختم فرما دیے۔
فرمایا کہ کوئی معذور ہو، لنگڑا ہو، نابینا ہو تو اپنے ساتھ بٹھا کر کھلاؤ تب بھی حرج نہیں ہے، اپنے والد کے گھر سے کھلاؤ تب بھی حرج نہیں ہے، امی کی گھر سے کھلاؤ تب بھی حرج نہیں ہے، بھائی کے گھر سے کھلاؤ تب بھی حرج نہیں ہے، بہن کے گھر سے کھلاؤ تب بھی حرج نہیں ہے، اپنے چچا اور ماموں اور پھوپی کے گھر سے کھلاؤ تب بھی حرج نہیں ہے، یا اپنے قریبی بے تکلف دوست کے دسترخوان سے کھلاؤ تب بھی حرج نہیں ہے۔ یہ وہ رشتے ہیں جو عام طور پر کھانا کھانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے اور دل میں گھٹن محسوس نہیں کرتے تو ایسی جگہ پر خود کھاؤ یا ان کو ساتھ بٹھاؤ اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
جن کے گھروں کی چابیاں ہوں وہاں سے کھانے کا حکم:
﴿اَوۡ مَا مَلَکۡتُمۡ مَّفَاتِحَہٗۤ ﴾
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول تھا کہ جب جہاد پر جاتے تھے تو اپنے گھر کی چابیاں کسی معذور کو دیتے کہ تم اس کا خیال رکھو اور جو کھانا چاہو تو وہ کھا بھی سکتے ہو لیکن وہ کبھی کھاتے نہیں تھے کہ ہو سکتا ہے کہ مروت میں کہا ہو کہ میں کھاؤں! تو وہ کھانا نہیں کھایا کرتے تھے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:
﴿اَوۡ مَا مَلَکۡتُمۡ مَّفَاتِحَہٗۤ﴾
کہ جن کے گھر کی چابیاں تمہارے پاس ہیں وہ تمہیں دے کر گئے تو تم کھانا چاہو تو کھا سکتے ہو۔
پیغمبر کو ایسے نہ پکارو!
﴿لَا تَجۡعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمۡ کَدُعَآءِ بَعۡضِکُمۡ بَعۡضًا ؕ قَدۡ یَعۡلَمُ اللہُ الَّذِیۡنَ یَتَسَلَّلُوۡنَ مِنۡکُمۡ لِوَاذًا ۚ فَلۡیَحۡذَرِ الَّذِیۡنَ یُخَالِفُوۡنَ عَنۡ اَمۡرِہٖۤ اَنۡ تُصِیۡبَہُمۡ فِتۡنَۃٌ اَوۡ یُصِیۡبَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۶۳﴾﴾
یہ آیات خاص طور پر غزوۂ خندق کے موقع پر نازل ہوئی ہیں جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنے ساتھ ملایا تھا اور سب نے مل کر خندق کھودی تھی۔
اللہ پاک نے فرمایا کہ ان سب کو بلائیں اور صحابہ کرام سے فرمایا کہ نبی کے بلانے کو اپنے بلانے کی طرح نہ سمجھنا کہ کسی نے بلایا اور دل چاہے تو جائے اور دل نہ چاہے تو نہ جائے، بلکہ پیغمبر نے بلایا ہے تو پھر ضرور جانا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ ان کو بلائیں اور اپنے ساتھ کام پر لگائیں! اورنبی کو ہدایت دی ہے کہ اگر ان میں سے کسی کو ضرورت ہو اور وہ جانا چاہے تو اس کو اجازت دے دیجیے!
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ پیغمبر بلائیں تو ضرور جانا اور پیغمبر سے فرمایا کہ اگر کوئی اجازت مانگے تو اجازت دے دینا! یوں دونوں کی رعایت فرمائی ہے۔
پہلے تو ان کو سمجھایا کہ
﴿لَا تَجۡعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ﴾
کہ نبی کے بلانے کو اپنی طرح نہ سمجھنا اور بعض نے معنی کیا کہ
﴿لَا تَجۡعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمۡ کَدُعَآءِ بَعۡضِکُمۡ بَعۡضًا ؕ﴾
کہ پیغمبر کو ایسے نہ بلانا جیسے ایک دوسرے کو بلاتے ہو! اگر
﴿دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ﴾
سے مراد ہو پیغمبر کو بلانا تو یہ
”دعا“
مصدر ہے جس کی نسبت فاعل کی طرف ہو گی یعنی پیغمبر کا بلانا، اور اگر مراد یہ ہو کہ نبی کو نہ بلاؤ جیسے آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو پھر ”دعا“ مصد ر ہو گا جس کی نسبت مفعول کی طرف ہے۔ دونوں احتمال اس میں موجود ہیں۔
مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے استا ذ، اپنے شیخ، اپنے بڑے اور اپنے گھر کے بزرگ آدمی ان کو نام لے کر ایسے نہ بلاؤ جیسے اپنے دوستوں کے نام لے کر بلاتے ہو، ادب کے ساتھ انہیں پکارا کرو۔
کوئی جانے کی اجازت مانے تو دے دیں!
﴿فَاِذَا اسۡتَاۡذَنُوۡکَ لِبَعۡضِ شَاۡنِہِمۡ فَاۡذَنۡ لِّمَنۡ شِئۡتَ مِنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمُ اللہ ؕ اِنَّ اللہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۶۲﴾﴾
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ جب آپ سے اجازت مانگیں تو آپ ان کو اجازت دے دیا کریں! اب اس میں شبہ تھا کہ ایک طرف پیغمبر نے بلایا ہے اور ایک طرف ان کی اپنی حاجت ہے تو اپنی حاجت کو پیغمبر کے بلانے پر قربان کیوں نہیں کرتے؟ فرمایا یہ بات ایمان کے خلاف نہیں ہے۔ بسا اوقا ت انسان کی حاجات ایسی ہوتی ہیں کہ انسان کو جانا پڑتا ہے۔ تو آپ سے اجازت لیں تو آپ ان کو اجازت دے دیا کریں۔
لیکن اتنی بات ارشاد فرمائی کہ
﴿فَاِذَا اسۡتَاۡذَنُوۡکَ لِبَعۡضِ شَاۡنِہِمۡ فَاۡذَنۡ لِّمَنۡ شِئۡتَ مِنۡہُمۡ﴾
آپ اجازت دیں جس کو چاہیں اور جس کو نہ چاہیں تو آپ اجازت نہ دیں۔ آپ اجازت دینے کے پابند نہیں ہیں۔
اجازت دینے کے بعد استغفار کا حکم کیوں؟
﴿وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمُ اللہَ ؕ﴾
آپ اجازت بھی دیں اور پھر اللہ سے معافی بھی مانگیں! اجازت دے کر اللہ سے معافی مانگے کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف پیغمبر نے بلایا ہے اپنے کام کے لیے اور ایک طرف گھر کی ضرورت کے لیے ان کو جانا پڑتا ہے۔ اب بظاہر یہ ہے کہ پیغمبر کے بلانے کے بعد گھر کے کام کے لیے نہیں جانا چاہیے لیکن بشری تقاضے ہیں، ان کی ضرورتیں ہیں تو آپ اجازت بھی دے دیا کریں اور ان کے لیے اللہ سے معافی بھی مانگا کریں۔
بسا اوقات انسان سمجھتا ہے کہ میرا گھر جانا بہت ضروری ہے اور یہ اس کی اجتہادی خطا ہوتی ہے۔ اگر وہ نہ بھی جائے تو کام چل سکتا ہے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ میں نہ جاؤں تو کام نہیں ہو گا۔ فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ اس کے اجتہاد میں خطا ہو تو آپ ان کے لیے معافی بھی مانگیں تاکہ ان کی اجتہادی خطا پر بھی گرفت نہ ہو۔
﴿اِنَّ اللہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴾
اللہ تو معاف فرماتے ہیں۔
منافقین کی حرکتیں:
﴿قَدۡ یَعۡلَمُ اللہُ الَّذِیۡنَ یَتَسَلَّلُوۡنَ مِنۡکُمۡ لِوَاذًا ۚ﴾
یہ منافقین کے بارے میں ہے۔ غزوۂ خندق کے موقع پر بلایا گیا۔ مؤمنین سارے جمع ہو جاتے لیکن منافقین کھسک جاتے تھے۔
﴿فَلۡیَحۡذَرِ الَّذِیۡنَ یُخَالِفُوۡنَ عَنۡ اَمۡرِہٖۤ اَنۡ تُصِیۡبَہُمۡ فِتۡنَۃٌ اَوۡ یُصِیۡبَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۶۳﴾﴾
یہ جو پیغمبر کی بات نہیں مانتے اور چھپ چھپ کر کھسکتے ہیں، ان کو بچنا چاہیے فتنہ میں مبتلا ہونے سے اور ان کو بچنا چاہیے اللہ کے عذاب سے۔
﴿اَلَاۤ اِنَّ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ قَدۡ یَعۡلَمُ مَاۤ اَنۡتُمۡ عَلَیۡہِ ؕ وَ یَوۡمَ یُرۡجَعُوۡنَ اِلَیۡہِ فَیُنَبِّئُہُمۡ بِمَا عَمِلُوۡا ؕ وَ اللہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿٪۶۴﴾﴾
جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے سب کچھ اللہ کا ہے، اللہ جانتے ہیں جس حالت میں تم ہو اور اللہ جانتے ہیں جس حالت میں تمہیں لوٹایا جائے گا اور اللہ پھر ان کو ان کے اعمال کی خبر دے گا۔ اللہ ہر چیز کو جاننے والے ہیں۔
بس دعا کریں کہ اللہ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم والا ذوق اور جذبہ عطا فرمائے اور منافقین کے طرزِ عمل سے ہم سب کو محفوظ فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․