سورۃ الحدید

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ الحدید
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿سَبَّحَ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾﴾
پانچ مسبحات:
سورت حدید، سورت حشر ،سورت صف ، سورت جمعہ اور سورت تغابن یہ پانچ سورتیں ایسی ہیں جن کا آغاز تسبیح سے ہوتا ہے۔ ان پانچ سورتوں کو مُسَبِّحات کہتے ہیں۔ پہلی تین سورتیں حدید، حشر اور صف یہ لفظ ”سَبَّحَ“ سےشروع ہوتی ہیں اور سورت جمعہ اور تغابن یہ لفظ ”یُسَبِّحُ“سے شروع ہوتی ہیں ۔
تسبیح حالاً اور تسبیح قالاً:
﴿سَبَّحَ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾﴾
اللہ ہی کے لیے تسبیح بیان کرتے ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمینوں میں ہیں۔
تسبیح دوقسم کی ہے؛ ایک ہوتی ہے تسبیح حالاً اور ایک ہوتی ہے تسبیح قالاً ۔ حالاً کا معنی ہے کہ ایسی تسبیح جو دوسرے کو سنائی نہ دے اور قالاً کا معنی ہوتا ہے کہ ایسی تسبیح جو دوسرے کو محسوس ہو۔ سورج صبح سے لے کر شام تک چلتا ہے، روزانہ ایک وقتِ مقررہ پر نکلتا ہے اور ایک مقررہ وقت پر ڈوبتا ہے، ترتیب سے دائیں بائیں نہیں ہوتا، سورج اللہ کے حکم کی پابندی کرتا ہے، یہی اس کی تسبیح ہے۔
جس طرح ہم کہتے ہیں کہ شکر کی دو قسمیں ہیں: ایک ہوتا ہے شکرِ صوری اور ایک ہوتا ہے شکرِ حقیقی۔ شکرِ صوری یہ ہے کہ شکر کی صورت ہو۔ مثلاً یا اللہ! تیرا بڑا شکر ہے، یا اللہ! تیرا بڑا کرم ہے،یا اللہ! تیرا بڑا احسان ہے... اور شکرِ حقیقی کہ آدمی زبان سے تو کچھ نہیں کہہ رہا لیکن جو اللہ کا حکم ہو اس پر پابندی سے عمل کرتا ہے اور مان لیتا ہے ۔ شکرِ حقیقی یہ شکرِ صوری سے بھی زیادہ افضل ہوتا ہے لیکن صوری اور حقیقی ہونے دونوں چاہییں ۔
﴿ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۳﴾﴾
اللہ اول حقیقی ہےاور آخر حقیقی ہے۔ اول حقیقی کا معنی کہ جس کی کوئی ابتدا نہیں اور آخر حقیقی کا معنی کہ جس کی کوئی انتہا نہیں، ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ہے۔
وساوس کے بچنے کا وظیفہ:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو وساوس کی تکلیف ہو، وساوس کا مریض ہو تو یہ آیت آہستہ سے پڑھ لیا کرے اللہ اس سے وساوس کو ختم فرما دیتے ہیں۔
فنائے امکانی اور فنائے عملی:
اللہ تعالیٰ اول بھی ہے اور آخر بھی ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ باقی جتنی چیزیں ہیں وہ فنا ہوں گی لیکن اللہ کی ذات کبھی فنا نہیں ہو گی ۔
اس پر ایک اشکال ہے کہ یہ جو فرمایا گیا ہے
﴿کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ﴾
کہ ہر چیز فنا ہو گی لیکن اللہ رب العزت نے جنت کو پیدا فرمایا ہے اور یہ فنا نہیں ہو گی، جہنم کو پیدا فرمایا ہے یہ بھی فنا نہیں ہو گی... تو پھر یہ بات کیسے ٹھیک ہو گی کہ اللہ رب العزت کی ذات کے علاوہ ہر چیز فنا ہو گی؟!
اس کا جواب یہ ہے کہ ایک ہے فنا کا وقوع اور ایک ہے فنا کا امکان۔ فنا کا وقوع تو سب پر نہیں ہو گا، اللہ نے جنت کو پیدا فرما دیا ہے اب جنت فنا نہیں ہو گی، جہنم کو پیدا فرما دیا ہے اب جہنم فنا نہیں ہو گی لیکن فنا کا امکان ان پر بھی ہے یعنی جنت اپنی ذات کے لحاظ سے باقی رہنے والی نہیں ہے، اپنی ذات کے اعتبار سے تو فانی ہے لیکن اللہ نے اس کو بقا عطا فرما دی ہے اور اللہ کی ذات وہ ہے جس پر فنا کا وقوع بھی نہیں اور فنا کا امکان بھی نہیں۔
معیتِ باری تعالیٰ:
﴿وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ؕ وَ اللہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۴﴾﴾
اللہ پاک تمہارے ساتھ ہیں تم جہاں کہیں بھی ہو اور اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہیں۔
میں ایسی آیات بار بار ذکر کرتا ہوں تاکہ آپ اس عقیدے کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ ایک اللہ کی معیتِ ذاتیہ ہے اور ایک اللہ کی معیتِ وصفیہ ہے۔ جمہور اسی بات پر ہیں کہ اللہ کی معیت؛ معیتِ ذاتیہ ہے اور ہمارے بہت سارے صوفیا اس بات پر ہیں کہ اللہ کی معیت؛ معیتِ صفاتیہ ہے۔ مجھے خود اس پر ہمیشہ خلجان رہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی معیت کو معیتِ ذاتیہ ماننے میں کوئی اشکال نہیں ہے تو پھر معیتِ ذاتیہ کی نفی کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟
حکیم الامت مجدد الملت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا میں نے ایک جواب پڑھا اور وہ جو اب وہ تھا جو میں خود دیتا ہوں، جب حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا جواب پڑھا تو شرح صدر ہوتا ہے کہ یہ ہمارا ذاتی جواب بھی ہے اور اکابر کا بھی ہے۔ وہ جواب یہ ہے کہ جب جمہور معیتِ ذاتیہ کی نفی کرتے ہیں تو وہاں اصل نفی تجسیم کی ہے، چونکہ جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ پر ہے تو عوام کا ذہن یہ بنتا ہے کہ شاید اللہ کا جسم ہر جگہ پر ہے، اللہ تعالیٰ چونکہ جسم سے پاک ہیں توتجسیم کی نفی کے لیے معیتِ ذاتیہ کی نفی ہوتی ہے اور اگر تجسیم کا شبہ نہ ہو تو پھر معیتِ ذاتیہ پر کوئی اشکال اور کوئی کلام نہیں ہے۔
میں نے پہلے بھی آپ سے عرض کیا تھا -آپ کو یاد ہو گا- کہ بہت سارے معاملات میں میری اپنی تعبیرات ہوتی ہیں، مجھے ایک بات پر شرح صدر ہوتا ہے تو وہ میں اپنی رائے کے طور پر پیش کرتا ہوں اور الجھن یہ رہتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ رائے راجح نہ ہو لیکن جب اس پر اکابر کی رائے ملتی ہے تو پھر آ دمی کا دل بہت خوش ہوتا ہے کہ یہ میری ذاتی رائے نہیں ہے۔
ایمان لانے کا فطری جذبہ ہر ایک میں موجود ہے:
﴿وَ مَا لَکُمۡ لَا تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللہِ ۚ وَ الرَّسُوۡلُ یَدۡعُوۡکُمۡ لِتُؤۡمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ وَ قَدۡ اَخَذَ مِیۡثَاقَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۸﴾﴾
کیا بات ہے کہ تم ایمان نہیں لاتے حالانکہ اللہ کے رسول تمہیں بلاتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان لاؤ اور اس سے پہلے تم اللہ سے وعدہ بھی کر چکے ہو۔ عالمِ ارواح میں جب اللہ رب العزت نے فرمایا تھا کہ ”اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ“ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو سب نے کہا تھا ”بَلٰی“ کیوں نہیں؟! آپ ہمارے رب ہیں۔ تو تم عالم ارواح میں وعدہ کر چکے ہو تو اب ایمان کیوں نہیں لاتے؟
ایک بات اچھی طرح ذہن نشین فرما لیں! کیونکہ عالمِ ارواح میں روح نے ”بَلٰی“ کہا تھا اس لیے آج دنیا میں فطر ی اور طبعی طور پر انسان میں اللہ کی ذات پر ایمان لانے کاجذبہ موجود ہے، بس ماحول اس کو دبا دیتا ہے،جس طرح آگ کی چھوٹی سی چنگاری را کھ میں موجود ہوتی ہے اور اوپر جو راکھ پڑی ہے وہ آگ کی چنگاری کو بھڑکنے نہیں دیتی، جب آپ راکھ ہٹائیں گے تو اندر سے وہ چنگاری بھڑک جائے گی۔ بالکل اسی طرح انسان کے دل میں ایمان لانے کا جذبہ موجود ہوتا ہے لیکن وہاں کا جو ماحول ہوتا ہے وہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کو ابھرنے کا موقع نہیں دیتا۔ آپ جب کسی کا فر کو دلائل سے بات سمجھائیں گے اور دلائل سے ماحول کا اثر چھٹے گا تو اللہ کی ذات پر ایمان لانے کا جذبہ بیدار ہو جائے گا۔ جیسے حدیث پاک میں ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كُلُّ مَوْلُودٍ يُوْلَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهٖ وَيُنَصِّرَانِهٖ.
السنن الکبریٰ للبیہقی:ج6 ص 203 رقم الحدیث 12498
ہر بندہ طبعاً فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے، بعد میں اس کے والدین کبھی اس کو یہودی بنا دیتے ہیں اور کبھی اس کو عیسائی بنا دیتے ہیں۔
اسی طرح اللہ نے انسان کی فطرت میں نیکی کا جذبہ بھی رکھا ہے۔
اللہ گیارہ قسمیں کھا کر فرما رہے ہیں
﴿فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾﴾
(سورۃ الشمس)
کہ اللہ نے ہر انسان کی طبیعت میں گناہ کا ذوق بھی رکھا ہے اور گناہ سے بچنے کی طاقت بھی رکھی ہے۔
بعض لوگ خالصتاً بے حیائی کے ماحول میں ہوں گے اور کسی بھی وقت مسجد کی طرف آئیں اور تھوڑی سی بات سنیں تو زندگی ایسے بدل جاتی ہے کہ بندے کو بظاہر یقین نہیں آتا کہ کبھی اس کی زندگی بھی بدلے گی؟ اور بعض لوگ گناہوں میں ڈوبے ہوتے ہیں لیکن آپ تھوڑی سی دین کی بات شروع کر دیں تو تڑپنا شروع ہو جاتے ہیں پھر جب باہر جاتے ہیں تو دوبارہ گناہ شروع ہو جاتے ہیں ۔ ہم یہاں نیکیوں کے ماحول میں ہوتے ہیں، پھر اندر سے توبہ کی طبیعت بھی بن جاتی ہے لیکن باہر نکل کر پھر گناہ ہو جاتا ہے۔ یہ جو برا ماحول ہے یہ انسان کو بہت زیادہ تباہ کر دیتا ہے۔
کفار کو ” اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ “ کہنے کا مطلب:
﴿وَ مَا لَکُمۡ لَا تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللہِ ۚ وَ الرَّسُوۡلُ یَدۡعُوۡکُمۡ لِتُؤۡمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ وَ قَدۡ اَخَذَ مِیۡثَاقَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴾
سوال اس پہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کفار کو یہ فرما رہے ہیں کہ تم اللہ پر ایمان کیوں نہیں لاتے حالانکہ رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے، پھر کہا کہ اس سے پہلے عالم ارواح میں تم عہد بھی کر چکے ہو ایمان لانے کا، آگے فرمایا:
﴿اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴾
کہ اگر تم مؤمن ہو! سوال یہ ہے کہ وہ تو مؤمن نہیں تھے؛ وہ تو کافر تھے تبھی تو ان سے کہا جا رہا ہےکہ تم اللہ پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟ تو کافروں کو
﴿اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴾
کہنے کا کیا مطلب ہوا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ
﴿اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴾
میں نفسِ فعل مراد نہیں ہے بلکہ دعویٰ فعل مراد ہے یعنی اگر تم ایمان کا دعویٰ کرتے ہو اور اپنے دعوے میں سچے ہو تو پھر پیغمبر کی بات کیوں نہیں مانتے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کافرخود بھی کہتے تھے کہ ہم مومن ہیں، کہتے تھے :
﴿مَا نَعۡبُدُہُمۡ اِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی اللہِ زُلۡفٰی﴾
الزمر39: 3
کہ ہم جو بتوں کی پوجا کرتے ہیں تو اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ ہم اللہ کو نہیں مانتے، ہم اللہ کو مانتے ہیں، باقی یہ اللہ کے محبوب بندوں کی تصویریں ہیں، یہ ہمیں اللہ کے اور قریب کر لیتے ہیں ۔
وہ دعویٰ ایمان کا رکھتے تھے تو اللہ فرماتے ہیں کہ اگر اپنے دعویٰ ایمان میں سچے ہو کہ اللہ کو مانتے ہو تو اللہ کے رسول کو کیوں نہیں مانتے؟ صرف اللہ کو ماننے کا نام ایمان نہیں ہے بلکہ اللہ کی ساری باتوں کو ماننے کا نام ایمان ہے۔ تو جب اللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا ہے اور تمہارا دعویٰ ہے کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں تو اللہ کی بات مان کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مان لو! پھر کیوں نہیں مانتے ۔
انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب:
﴿وَ مَا لَکُمۡ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَ لِلہِ مِیۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ﴾
تم اللہ کے راستہ میں مال خرچ کیوں نہیں کرتے؟ حالانکہ زمین وآسمان کا وارث تو اللہ ہے۔
یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ مال جو تمہیں دیا ہے وہ اللہ کا ہے ، آپ کو تھوڑے وقت کے لیے دیا ہے اور اللہ کا مال اللہ کے راستے میں خرچ کرنا اس سے انسان کو رکنا نہیں چاہیے بلکہ بڑھ کر خر چ کرنا چاہیے۔
”میراث“ کا معنی ہوتا ہے کہ ایک مالک کے فوت ہونے کے بعد دوسرے انسان کو مال مل جائے، یہ میراث ہے اور وراثت میں مِلک اختیاری نہیں ہوتی بلکہ مِلک جبری ہوتی ہے یعنی بیٹا باپ کے مرنے کے بعد باپ کے مال کا مالک نہ بھی بننا چاہے تو وہ پھر بھی بنے گا، اس میں اس کے اختیار کو دخل نہیں ہوتا ۔ یہ جبری چیز ہے۔ تو اللہ تعالیٰ یہاں پر یہ سمجھا رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین کے مالک ہیں، کیا مطلب کہ حقیقتاً مال ہے ہی اللہ کا، تم چاہو تب بھی اللہ کا ہے اور نہ چاہو تب بھی اللہ کا ہے، وقتی طور پر تمہیں دیا ہے، تم جب جاؤ گے تو مال اپنے حقیقی مالک کے پاس خود بخود چلا جائے گا، یہ تھوڑی دیر کے لیے دیا ہے، اس کو اللہ کے راستے میں خرچ کر و۔
اولین ساتھ دینے والے افضل ہوتے ہیں:
﴿لَا یَسۡتَوِیۡ مِنۡکُمۡ مَّنۡ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبۡلِ الۡفَتۡحِ وَ قٰتَلَ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعۡظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعۡدُ وَ قٰتَلُوۡا ؕ وَ کُلًّا وَّعَدَ اللہُ الۡحُسۡنٰی ؕ وَ اللہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿٪۱۰﴾﴾
خرچ کرنے والے تو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے لیکن یہ بات فرمائی کہ فتح مکہ سے پہلے جنہوں نے خرچ کیا اور جہاد کیا وہ افضل ہیں ان سے جنہوں نے فتحِ مکہ کے بعد خرچ کیا اور جہاد کیا۔ پہلے والے افضل ہیں۔ افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان کوئی تحریک لے کر اٹھے اور پتا نہ ہو کہ تحریک چلے گی یا نہیں چلے گی؟ مشکلات ہوں تو اس وقت جو ساتھ دینے والے ہوں وہ افضل ہوتے ہیں ۔ تو فتح مکہ سے پہلے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چل رہے تھے تو اس وقت لوگوں کو شک تھا کہ پتا نہیں آگے ان کا کیا ہو گا اور اکثر کفار کو یقین تھا کہ معاذ اللہ یہ کچھ دنوں بعد ختم ہو جائیں گے۔ اس وقت جو لوگ جان کی پرواہ کیے بغیر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ملے ہیں وہ ان سے افضل ہیں جو اس وقت آئے جب اطمینان ہو گیا تھا کہ اب اسلام غالب ہے، اب اس کو کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ حکمت ہے پہلے لوگوں کے زیادہ اجر کی۔
ایک اشکال کا جواب (حضرت سعد بن معاذ اور قبر کی تنگی)
﴿وَ کُلًّا وَّعَدَ اللہُ الۡحُسۡنٰی ؕ﴾
اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک کے ساتھ جنت کا وعدہ کیا ہے۔ یہاں ایک سوال اور اس کا جواب سمجھیں :
سوال یہ ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم جنتی ہیں، کسی صحابی کو عذاب نہیں ہو گا لیکن بہت ساری روایات سے پتا چلتا ہے کہ بعض صحابہ کو قبر کا عذاب ہوا ہے۔ مثلاً حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو جب قبر میں دفن کیا گیا تو قبر نے ان کو دبوچا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر وہاں ٹھہرے، ان کے لیے دعا کی۔ تو عذاب تو ہوا ہے۔
اس کے کئی ایک جوابات ہیں۔ ان کو اچھی طرح سمجھ لیں:
[۱]: ایک جواب تو ا س کا یہ ہے کہ یہ جو وعدہ ہے کہ صحابی کو عذاب نہیں ہو گا، اس سے مراد قبر کا عذاب نہیں ہے بلکہ مراد جہنم کا عذاب ہے۔ حدیث میں جو ہے:
لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَاٰنِيْ أَوْ رَاٰى مَنْ رَاٰنِيْ.
سنن الترمذی، رقم: 3858
اس مسلمان کو آگ نہیں چھو سکتی جس نے مجھے دیکھا یا اس مسلمان کو دیکھا جس نے مجھے دیکھا!
تو اس کا تعلق قبر کے ساتھ نہیں ہے، اس کا تعلق جہنم کے ساتھ ہے اور کسی صحابی کے بارے میں کوئی روایت موجود نہیں ہے کہ حشر کے بعد کوئی صحابی تھوڑی دیر کے لیے بھی جہنم میں جائے... قبر کے واقعات تو ملیں گے لیکن جہنم کا کوئی واقعہ ہمارے علم میں نہیں ہے ۔
[۲]: اور دوسرا اس کا جواب یہ ذہن میں رکھ لیں کہ قبر کی حیثیت کیا ہے؟ قبر دنیا کی زندگی کا تتمہ ہے اور آخر ت کی زندگی کا مقدمہ ہے۔ قبر؛ دنیا کی انتہا ہے اور آخرت کی ابتدا ہے۔ جس طرح معروف شاعر علامہ محمد اقبال کا شعر ہے:
موت کو سمجھے

ہیں غافل اختتامِ زندگی

ہے یہ شامِ

زندگی، صبحِ دوامِ زندگی

ایک جہاں ختم ہو رہا ہے اور دوسرا جہان شروع ہو رہا ہے۔ تو قبر ایک حیثیت سے دنیا ہے اور ایک حیثیت سے آخرت ہے۔ اب یہ دیکھیں کہ دار العمل نہیں ہے تو اس حساب سے آخرت شروع ہو گئی ہے اور یہ دیکھیں کہ جزا و سزا مکمل نہیں ہے تو پھر آخرت بھی نہیں ہے کیونکہ جزاء وسزاء آخرت میں مکمل ہو گی۔ یہاں جزاء و سزا مکمل نہیں ہے کیونکہ نہ تفصیلی سوال ہے، نہ تفصیلی جواب ہے لیکن چونکہ دار العمل بھی نہیں ہے اس لیے اس کو دنیا بھی نہیں کہہ سکتے۔ تو یہاں پر دنیا ختم ہو رہی ہے اور آخرت شروع ہو رہی ہے اور دنیا میں آدمی نیک سے نیک بھی ہو تو اس کو کچھ تکلیف کا آجانا یہ نیکی کے خلاف نہیں ہوتا۔ تو یہ چونکہ من کل وجوہ آخرت نہیں ہے اس لیے کسی صحابی کو اس میں تکلیف کا آ جانا یہ صحابی کو عذاب نہ ہونے کے مخالف نہیں ہے۔
عام طور پر لوگ یہ کہتے ہیں کہ دم کر دیں تاکہ میں ٹھیک ہو جاؤں اور دم کرنے والا خود بیمار ہو جائے تو لوگوں کو تعجب ہوتا ہے حالانکہ تعجب نہیں ہونا چاہیے، دنیا تو دار الابتلاء ہے۔ تو جس طرح دنیا میں کسی نیک آدمی پر تکلیف کا آ جانا اس کے تقویٰ کے خلاف نہیں ہوتا اسی طرح قبر چونکہ من کل الوجوہ آخرت نہیں ہے تو اس میں بھی کسی صحابی پر تکلیف کا آ جانا اس کے عذاب نہ ہونے کے خلاف نہیں ہے۔
یہ دونوں جواب ذہن نشین فرما لیں۔ یہ جو پہلا جواب میں نے دیا ہے یہ مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے معارف القرآن میں دیا ہے اور جو دوسرا جواب ہے یہ میں نے کہیں نہیں پڑھا، اگر غلطی ہو تو میری طرف سےاور اگر ٹھیک ہو تو پھر اللہ کی طرف سے...بعض حضرات نے اور جوابات بھی دیے ہیں لیکن بہترین یہی دو جواب ہیں جو میں نے آپ کی خد مت میں عر ض کیے ہیں ۔
خلاصہ ان کا یہ نکلتا ہے کہ یا تو عذاب سے مراد ہے جہنم کا عذاب کہ جہنم میں نہیں جائیں گے... یا جواب یہ ہے کہ قبر من کل الوجوہ آخرت نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کا تتمہ ہے اور آخر ت کا مقدمہ ہے ، تو جس طرح دنیا میں کسی مسلمان متقی پر تکلیف کا آ جانا یہ تقویٰ کے منافی نہیں ہے اسی طرح قبر میں کسی صحابی پر تکلیف کا آ جانا ان کے عذاب کے نہ ہونے کے منافی نہیں ہے۔ جہنم کا عذاب ان پر ہر گز نہیں ہو گا۔
خلفائے راشدین چار ہیں:
﴿وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الۡحُسۡنٰی﴾
یہاں پر ایک بات اور بھی سمجھ لیں! جب ہم کہتے ہیں کہ خلفائے راشدین چار ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان بن عفان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم۔ بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ خلفائے راشدین چار نہیں بلکہ سات ہیں۔ وہ ان چار کے بعد حضرت امیر معاویہ ، حضرت حسن اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کو بھی خلفائے راشدین میں شامل کرتے ہیں ۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ چھے ماہ تک خلیفہ رہے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد،حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کچھ عرصہ مکہ مکرمہ پر خلیفہ رہے ہیں اور حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت تو کئی سالوں پر محیط ہے۔ تو ان کاخلیفہ ہونا حقائق سے ثابت ہے جس کا رد نہیں ہو سکتا اور یہ تینوں راشدین بھی ہیں کیونکہ قرآن کریم نے تمام صحابہ کو فرمایا:
﴿اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ﴾
تو یہ تینوں خلفاء بھی ہیں اور راشد بھی ہیں، اس لیے خلفائے راشدین چار نہیں بلکہ سات ہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ ”خلفائے راشدین“ یہ شرعی اصطلاح ہے۔ خلفائے راشدین سے مراد کیا ہے؟ تو قرآن کریم میں ہے:
﴿وَعَدَ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ﴾
النور24: 55
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال بھی کیے تو اللہ کا ان سے وعدہ ہے کہ اللہ انہیں زمین میں خلافت گا جس طرح پہلے لوگوں کو دی تھی اور اپنے پسندیدہ دین کو ضرور اقتدار بخشے گا۔
اس آیتِ استخلاف میں جن حضرات سے خلافت کا وعدہ ہے وہ چار ہیں، سات نہیں۔ تو خلفائے راشدین سے مراد ہے ”خلافتِ راشدہ موعودہ فی القرآن“ اس سے مطلق خلافت راشدہ مراد نہیں اور وہ چار خلفاء ہی ہیں، سات نہیں ہیں۔ باقی ان تین صحابہ کی خلافت ہے اور خلافت عادلہ ہے۔ خلافت راشدہ سے مراد وہ خلفاء ہیں جن کے ساتھ خلافت کا قرآن میں وعدہ ہے اور وہ چار ہیں سات نہیں۔ اس کے دلائل آیتِ استخلاف کی تشریح میں اپنے مقام پر ہیں۔
عشرہ مبشرہ ایک اصطلاح ہے:
یہ آیت
﴿کُلًّا وَّعَدَ اللہُ الۡحُسۡنٰی﴾
میں بطور جواب کے پیش کرنے لگا ہوں کہ ہم کہتے ہیں عشرہ مبشرہ فی الجنۃ کہ جن صحابہ کو جنت کی بشارت دی ہے وہ دس ہیں؛ حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت سعد، حضرت سعید، حضرت زبیر، حضرت ابوعبیدہ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین۔ یہ دس صحابہ کرام ہیں۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اللہ رب العزت تو فرما رہے ہیں:
﴿کُلًّا وَّعَدَ اللہُ الۡحُسۡنٰی﴾
کہ جنت کا سب کے ساتھ وعدہ ہے اور تم کہتے ہو کہ جنت کی بشارت ان دس کو ملی ہے،لہذا ان میں سے صرف دس کو عشرہ مبشرہ بالجنۃ کہنا یہ اس آیت کے خلاف ہے، سب صحابہ کو جنت کی بشارت ہے ، لہذا عشرہ مبشرہ بالجنۃ نہ کہا کرو! یہ سوال بالکل اسی طرح ہے جس طرح وہ کہتے ہیں کہ ساتوں خلفاء بھی ہیں اور راشد بھی ہیں، اس لیے خلفائے راشدین سات بنتے ہیں چار نہیں، اس لیے صرف چار کو خلیفہ راشد نہ کہا کرو بلکہ سات کو کہا کرو!
اس کا جواب یہ ہے کہ عشرہ مبشرہ بالجنۃ ایک خاص اصطلاح ہے اور اس سے مراد ایسے صحابہ کرام ہیں جن کو ایک مجلس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے کر جنتی ہونے کی بشارت دی ہے۔ وہ دس ہیں، وہ سارے نہیں ہیں۔ اس کا معنی یہ نہیں کہ باقی کو بشارت نہیں ملی بلکہ اس کا معنی یہ ہےکہ وہ صحابہ جن کا نام لے کر ایک مجلس میں جنت کی بشارت دی ہے وہ دس ہیں، اب یہ
﴿کُلًّا وَّعَدَ اللہُ الۡحُسۡنٰی﴾
کے خلاف نہیں ہے۔بالکل اسی طرح خلفائے راشدین سے مراد وہ صحابہ ہیں جن کی خلافت کا وعدہ آیتِ استخلاف
وَعَدَ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ
میں ہے اور وہ چار ہی ہیں۔ لہذا ان چار کا خلیفہ راشد ہونا باقی کے ”ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ“ ہونے کے خلاف نہیں ہے۔ یہ بات سمجھ میں آ گئی؟
یہ باتیں میں اس لیے آپ کو بار بار سمجھاتا ہوں اور سبق میں عرض کرتا رہتا ہوں تاکہ آپ پر بات کھلے۔ جب انسان پر اپنا موقف کھل جاتا ہے تو پھر اس حقیقی مسلک کے خلاف آنے والے دلائل سے بندہ متاثر نہیں ہوتا۔
مؤمنین کے نور سے کیا مراد ہے؟
﴿یَوۡمَ تَرَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ یَسۡعٰی نُوۡرُہُمۡ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ بُشۡرٰىکُمُ الۡیَوۡمَ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿ۚ۱۲﴾﴾
اس دن جب آپ ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو دیکھیں گے کہ ان کا نور ان کے سامنے اور دائیں جانب ہو گا۔ ان سے یہ کہا جائے گا کہ آج کے دن تمہارے لیے خوشخبری ہے ایسے باغات کی جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ تم ہمیشہ ان میں رہو گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔
اس نور سے مراد وہ نور ہے جو قیامت کے دن مؤمن کو ملے گا جب وہ پل صراط کی طرف جائیں گے، نور ان کے سامنے بھی ہو گا اور دائیں جانب بھی ہو گا۔ بعض روایات میں بائیں جانب کے نور کا بھی ذکر ہے، اس لیے یہاں دائیں جانب کا ذکر ہونا یہ بائیں جانب کے خلا ف نہیں ہے، کیوں کہ عدمِ ذکر عدمِ وجود کو مستلزم نہیں ہوتا کہ اگر یہاں بائیں جانب کا ذکر نہیں کیا تو بائیں جانب ہو گا ہی نہیں! ایسی بات نہیں۔ یہاں اعزاز بیان کرنا مقصود ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اصحاب الیمین ہیں، ان کے سامنے بھی نور ہو گا اور ان کے دائیں جانب بھی نور ہو گا۔
اور بعض روایات میں ہے کہ ہر بندے کا نور اس کے اعمال کے مطابق ہو گا۔ مختلف روایتیں ہیں در منثورمیں اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر مظہری میں بھی ان کو جمع کیا ہے۔ مختلف روایات ہیں مثلاً وضو کریں گے تو اس کا بھی نور ہو گا،صدقہ کریں گے تو اس کا بھی نور ہو گا،تکبیرِ اولیٰ سے نماز پڑھیں گے تو اس کا بھی نور ہو گا اور سورۃ الکہف کا نور تو اتنا لکھا ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن سورت کہف پڑھتا ہے تو اس کے قدم سے لے کر آسمان تک نور ہو گا۔
منافقین کی اس نور سے محرومی:
﴿یَوۡمَ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا انۡظُرُوۡنَا نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِکُمۡ ۚ قِیۡلَ ارۡجِعُوۡا وَرَآءَکُمۡ فَالۡتَمِسُوۡا نُوۡرًا ؕ فَضُرِبَ بَیۡنَہُمۡ بِسُوۡرٍ لَّہٗ بَابٌ ؕ بَاطِنُہٗ فِیۡہِ الرَّحۡمَۃُ وَ ظَاہِرُہٗ مِنۡ قِبَلِہِ الۡعَذَابُ ﴿ؕ۱۳﴾﴾
روایات میں ہے کہ مؤمن کو بھی نور ملے گا اور منافق کو بھی ملے گا۔ مؤمن اور منافق دونوں پل صراط کی طرف آئیں گے تو وہاں منافقین کا نور ختم ہو جائے گا۔ اس وقت یہ لوگ پریشان ہوں گے اور مؤمنین کو پکار کر کہیں گے:
﴿انۡظُرُوۡنَا نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِکُمۡ﴾
کہ ہمیں دیکھو! ہمیں بھی تھوڑا سا نور دے دو، تو ان سے کہا جائے گا
﴿ارۡجِعُوۡا وَرَآءَکُمۡ فَالۡتَمِسُوۡا نُوۡرًا﴾
کہ پیچھے مڑ جاؤ اور نور تلاش کرو! جب وہ پیچھے دیکھیں گے کہ شاید پیچھے سے نور ہمیں ملے گا تو مسلمانوں اور منافقین کے درمیان دیوار آ جائے گی۔ اب یہ آگے دیکھیں گے تو کچھ بھی نہیں ہو گا اور دیوار ایسی ہو گی کہ اس میں کی جانب جو مؤمنین کی طرف ہو گی وہاں رحمت ہوگی اور باہر کی جانب جو منافقین کی طرف ہو گی وہاں عذاب ہو گا۔ اب یہ الجھن میں پڑ جائیں گے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا؟!
مؤمنین اور منافقین کا مکالمہ:
﴿یُنَادُوۡنَہُمۡ اَلَمۡ نَکُنۡ مَّعَکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی وَ لٰکِنَّکُمۡ فَتَنۡتُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ وَ تَرَبَّصۡتُمۡ وَ ارۡتَبۡتُمۡ وَ غَرَّتۡکُمُ الۡاَمَانِیُّ حَتّٰی جَآءَ اَمۡرُ اللّٰہِ وَ غَرَّکُمۡ بِاللّٰہِ الۡغَرُوۡرُ ﴿۱۴﴾﴾
وہ منافق لوگ ان مؤمنین سے کہیں گے: کیا ہم دنیا میں تمہارے ساتھ نہیں تھے ؟ مسلمان کہیں گے کیوں نہیں! تم ہمارے ساتھ تھے لیکن تم نے خود کو گمراہی میں ڈال دیا تھا اور تم منتظرتھے کہ کب اسلام ختم ہو گا،کب ان مسلمانوں پر کافر غالب آئیں گے؟! اور تم دین کے بارے میں شک میں پڑے رہتے تھے اور تمہاری تمناؤں اور امیدوں نے تمہیں دھوکے میں ڈال رکھا تھا کہ مسلمان آج مرے تو کل مرے... تم اسی فکر میں پڑے رہتے تھے یہاں تک کہ موت آ گئی۔ شیطان نے تمہیں دھوکہ دے کر خدا سے کتنا دور کر رکھا تھا۔
﴿فَالۡیَوۡمَ لَا یُؤۡخَذُ مِنۡکُمۡ فِدۡیَۃٌ وَّ لَا مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ مَاۡوٰىکُمُ النَّارُ ؕ ہِیَ مَوۡلٰىکُمۡ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۱۵﴾﴾
آج نہ تو تم سے فدیہ لیا جائے گا اور نہ عام کافرو ں سے۔ تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے اور تم وہیں رہو گے اور جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے۔
ایمان والوں کا تذکرہ:
اب اللہ ایمان والوں سے فرماتےہیں:
﴿اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الۡحَقِّ ۙ وَ لَا یَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلُ فَطَالَ عَلَیۡہِمُ الۡاَمَدُ فَقَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ﴿۱۶﴾﴾
کیا ایمان والوں پر ابھی ایسا وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر اور دین حق کی وجہ سے نرم پڑ جائیں اور یہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوں جنہیں کتاب دی گئی اور پھر ان پر ایک لمبا زمانہ گزر گیااور ان کے دل سخت ہو گئے اور بہت سے لوگ ان میں نافرمان بھی ہیں۔
﴿اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللہَ یُحۡیِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ قَدۡ بَیَّنَّا لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۷﴾﴾
آدمی گناہ کرے تو دل مر جاتا ہے، توبہ کرے تو دل زندہ ہو جاتا ہے جیسے مردہ زمین کو اللہ زندہ کر دیتے ہیں۔ مردہ زمین اور بنجر زمین کے لیے پانی آباد ہونے کا سبب بنتا ہے، اسی طرح اللہ کے ذکر سے مردہ قلوب زندہ ہوتے ہیں۔
﴿اِنَّ الۡمُصَّدِّقِیۡنَ وَ الۡمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقۡرَضُوا اللہَ قَرۡضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَہُمۡ وَ لَہُمۡ اَجۡرٌ کَرِیۡمٌ ﴿۱۸﴾﴾
جو مرد اور عورتیں صدقہ کرتے ہیں اور اللہ کو اچھا قرض دیتے ہیں تو اللہ ان کے صدقات کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے اور ان کے لیے بہترین اجر ہے۔
آج وقت ہے اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا اس لیے خلوص سے اللہ کی راہ میں دیں۔
سارے صحابہ ؛ صدیق بھی ہیں شہید بھی ہیں:
﴿وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ وَ نُوۡرُہُمۡ ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿٪۱۹﴾﴾
جو لوگ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہ اپنے رب کے ہاں صدیق بھی ہیں اور شہید بھی ہیں۔ ان کے لیے اجر ہو گا اور ان کو نور ملے گا۔ جن لوگوں نے انکار کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا ان کو جہنم میں ڈالا جائے گا۔
یہاں اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مؤمن سارے کے سارے صدیق بھی ہیں اور شہید بھی ہیں حالانکہ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ سارے مؤمن شہید نہیں ہوتے، کچھ شہید ہوتے ہیں اور کچھ نہیں ہوتے۔
قرآن کریم کی آیت بھی ہے :
﴿وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ﴾
النساء 4: 69
کہ سب شہید بھی نہیں اور سب صدیق بھی نہیں جبکہ سورۃ حدید سے معلوم ہوتا ہے کہ سب صدیق بھی ہیں اور سب شہید بھی ہیں۔
[۱]: اس کا ایک جواب سمجھیں اور یہ بات بعض حضرات نے فرمائی ہے کہ یہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ خاص ہے کہ صحابہ جتنے بھی تھے وہ سارے صدیق بھی تھے اور سارے شہید بھی تھے۔ خود حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام سے فرمایا: تم سب کے سب صدیق اور شہید ہو اور دلیل کے طور پر یہ آیت تلاو ت فرمائی
﴿وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ﴾
کہ صحابہ سارے صدیق بھی ہیں اور سارے شہید بھی ہیں۔
اگر مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہوں تو پھر شہید کا مطلب صرف وہ شخص نہیں جو اللہ کے راستے میں کٹ جائے بلکہ شہید وہ بھی ہے کہ جو اللہ کے راستے میں قتل ہونے کے لیے خود کو پیش کر دے۔ اگر بظاہر اس کو شہادت نہ بھی ملے تب بھی وہ شہید کے مقام پر پہنچتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے:
مَنْ سَأَلَ اللّهَ الشَّهَادَةَ بِصِدْقٍ بَلَّغَهُ اللّهُ مَنَازِلَ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ مَاتَ عَلٰى فِرَاشِهِ.
السنن الکبریٰ للبیہقی:ج9 ص170 رقم الحدیث 19026
کہ جو شخص صدق دل سے اللہ سے شہادت مانگے تو اللہ اسے شہداء کی منازل عطا فرما دیتے ہیں اگرچہ وہ بستر پر ہی جان دے دے۔
یعنی جو خود کو پیش کر دے اور وہ شہید نہ بھی ہو تب بھی اس کو شہید ہی شمار کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ہر وقت خود کو پیش کیا تھا اس لیے وہ اگر میدان جہاد میں شہید نہ بھی ہوں تب بھی شہید ہیں۔
تو یہ بات سمجھ آ گئی کہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےساتھ خاص ہے کہ وہ صدیق بھی سارے تھے اور شہید بھی سارے تھے۔
[۲]: اور اس کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ یہ آیت ان کے بارے میں ہے جو کامل ایمان والے ہیں۔ کامل ایمان والے صدیق تو ہوتے ہی ہیں، باقی ایسا نہیں ہو سکتا کہ قتل ہونے کا موقع ہو اور کامل ایمان والا خود کو پیچھے کرے، کامل ایمان والا تبھی ہو گا جب شریعت پر پورا عمل کرنے والا ہو۔تو اس سے ایمان کامل والے لوگ مراد ہیں۔ اس لیے کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔
ایک معروف اشکال کا جواب:
یہاں ایک معروف سوال اور اس کا جواب سمجھیں ۔ سوال یہ ہے کہ حدیث پاک میں ہے کہ دوشخص اکٹھے مسلمان ہوئے، ان میں سے ایک شہید ہو گیا اور دوسرا ایک سال تک زندہ رہا۔ جو ایک سال زندہ رہا وہ بھی فوت ہو گیا۔ ایک صحابی کہتے ہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ بعد میں فوت ہونے والاجنت میں پہلے گیا۔ مجھے بہت تعجب ہوا۔ جب صبح ہوئی تو میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ بات عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَلَيْسَ قَدْ صَامَ رَمَضَانَ بَعْدَهُ وَصَلّٰى بَعْدَهُ سِتَّةَ أَلْفِ رَكْعَةٍ.
شرح مشکل الآثار: ج6 ص76 رقم الحدیث 2307
کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اس نے ایک سال روزے رکھے ہیں اور نمازیں پڑھی ہیں۔
اب اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ شہادت سے بندہ جلدی جنت میں نہیں جاتا بلکہ باقی اعمال سے بندہ جلدی جنت میں جاتا ہے۔ بعض لوگ ایسی آیات اور احادیث کو جہاد کے خلاف پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بہتر ہے کہ جہاد نہ کریں اور نماز روزے میں لگے رہیں، اس سے آدمی جنت میں جلدی جاتا ہے۔
اس کا جواب سمجھ لیں کہ شہادت کی دو قسمیں ہیں؛ ایک ہوتی ہے شہادتِ حقیقیہ اور ایک ہوتی ہے شہادتِ صوریہ۔ شہادتِ حقیقیہ یہ ہے کہ آدمی کٹے، قتل ہو اور شہید ہو جائے اور شہادت صوریہ یہ ہے کہ خود کو قتل کے لیے پیش کرے اور اس کے لیے لڑتا بھی رہے، میدانوں میں جاتا بھی رہےاور پھر بھی اتفاقاً ایسا ہوکہ قتل نہ ہو بلکہ طبعی موت مر جائے تو یہ بھی شہید ہے۔ اس کی دلیل حدیث مبارک ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ سَأَلَ اللّهَ الشَّهَادَةَ بِصِدْقٍ بَلَّغَهُ اللّهُ مَنَازِلَ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ مَاتَ عَلٰى فِرَاشِهِ.
السنن الکبریٰ للبیہقی:ج9 ص170 رقم الحدیث 19026
کہ جو شخص صدق دل سے اللہ سے شہادت مانگے اور مانگنے کا معنی میں نے عرض کر دیا کہ یہ خود کو قتال کے لیے پیش بھی کرے اور اس کے لیے لڑتا بھی رہے، تو اللہ اسے شہداء کی منازل عطا فرما دیتے ہیں اگرچہ وہ بستر پر ہی جان دے دے۔
اب یہ جو دو صحابی تھے، ایک کو شہادت صوریہ ملی اور ایک کو شہادت صوریہ تو نہیں ملی لیکن شہادت حقیقی دونوں کو ملی ہے،
﴿اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ﴾
صحابہ سارے کے سارے شہید ہیں، کیوں کہ صحابہ کرام میں سے کوئی ایسا نہیں کہ جب میدانِ جنگ ہو اور شہادت کی طرف نہ بڑھے، ہاں کبھی عذر کی وجہ سے ایسا ہو بھی گیا تو توبہ کی اور معافی مانگ لی، وہاں تو ہر بندہ قتل ہونے کے لیے جاتا تھا لیکن کسی کو شہادت مل گئی اور کسی کو نہیں ملی۔ جن کو نہیں ملا ان کے اختیار میں نہیں ہے، انہوں نے تو خود کو پیش کر دیا تھا ۔ تو چونکہ حقیقتاً دونوں شہیدتھے۔ اس لیے جب دونوں شہید ہوں اور ایک شہید کے اعمال نامہ میں اعمال زیادہ ہوں اور ایک شہید کے نامہ اعمال میں نیک اعمال کم ہوں تو جنت میں پہلے وہ جائے جس کے پاس شہادت بھی ہے اور شہادت کےساتھ ساتھ نامہ اعمال میں اعمال بھی زیادہ ہیں تو اس میں کوئی اشکال کی بات نہیں ہے۔
اصل میں ہمیں جو اشکال ہوا ہے -اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائیں- اس وجہ سے ہوا ہے کہ ہم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی کو ایسے دیکھا کہ جیسے ہم خود ہیں کہ ہم میں سے کوئی شخص لڑنے کے لیے جاتا ہے اور کوئی نہیں جاتا تو ہم نے سمجھا کہ شاید وہ بھی ایسے تھے کہ کچھ جاتے تھے اور کچھ نہیں جاتے تھے۔ صحابہ ایسے نہیں تھے، وہ سارے لڑنے کے لیے جاتے تھے، ہربندہ قتل ہونے کے لیے جاتا تھا اور بعض شہید ہو جاتے اور بعض نہ ہوتے۔ ہمیں اپنی زندگی دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی اپنی طرح نظر آئی، اس لیے ہمیں اشکال پیدا ہوا۔
اکابر کے علوم سے توافق:
یہ جو میں نے حدیث پاک کا جواب دیا ہے کہ شہادت صوریہ اور شہادت حقیقیہ... مجھے ایک الجھن تھی کہ یہ جو میں جواب دیتا ہوں کیا یہ جواب کسی بزرگ نے بھی دیا ہے کہ نہیں؟ رات مجھے تفسیر معارف القرآن میں یہ لفظ مل گیا تو مجھے بہت خوشی ہوئی کہ یہ جو میں کہتا ہوں کہ شہادتِ صوریہ اور شہادتِ حقیقیہ اور یہ کہ صحابہ سب کے سب شہادت ِ حقیقیہ پر فائز تھے ... یہ اکابر کے کلام میں بھی ہے۔ اب اشکال کا جواب صرف ہمارا نہ رہا بلکہ اکابر کے ساتھ مل گیا ورنہ یہ جواب تو میں بارہ سال پہلے سے دے رہا تھا لیکن اس کی باضابطہ کہیں نقل نہیں مل رہی تھی اس لیے اس پر یہ الجھن تھی۔
دنیا کی زندگی کے پانچ مراحل:
﴿اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰىہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا ؕ وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ۙ وَّ مَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللہِ وَ رِضۡوَانٌ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ ﴿۲۰﴾﴾
دنیا میں پانچ مراحل بیان فرمائے ہیں :لہو، لعب، زینت، تفاخر اور تکاثر۔
[1]: آدمی ایسا کھیل کھیلے جیسے چھ ،سات ماہ کے چھوٹے بچے لیٹ کر اپنے کھیل میں مگن ہوتے ہیں، ان کھیلوں کا کوئی معمولی سا بھی فائدہ نہیں ہوتا، اسے ”لہو“ کہتے ہیں۔
[2]: اور ایک وہ کھیل ہوتا ہے کہ نفع ذہن میں نہیں ہوتا لیکن نفع ہوتا ضرور ہے جیسے چھے سات سال کے بچے دوڑ رہے ہوتے ہیں، بھاگ رہے ہوتے ہیں، وہ اس کا نفع سمجھتے نہیں ہیں لیکن نفع بہر حال ہوتا ہے، جسم کو فائدہ ہوتا ہے، ایکسرسائز ہو رہی ہوتی ہے۔ اسے ”لَعِب “ کہتے ہیں۔
[3]: جو فطری خوبصورتی ہوتی ہے بندہ اس سے بڑھ کر زیب وآرائش اختیار کرے تو اسے زینت کہتے ہیں۔
[4]: اور آپس میں فخر کرنا کہ میری طاقت... میری دولت... میری جوانی ... میری فلاں چیز ... اسے تفاخر کہتے ہیں ۔
[5]: پھر مال اور اولاد کے اضافے کی فکر میں لگے رہنا، اسے تکاثرکہتے ہیں ۔
دنیا بس یہ چند چیزیں ہیں کہ پہلےلہو ہوتی ہے، پھرلعب ہوتاہے، اس کے بعدزینت ہوتی ہے، پھر تفاخر ہے اور پھر تکاثر ہے۔ ہر اگلی حالت پر پہنچنے کے بعد پچھلی حالت بندے کو عبث اورفضول نظر آ رہی ہوتی ہے۔ جب بچہ چھ ماہ یا سال کا ہوتا ہے تو وہ کھیل میں مگن ہوتا ہے، اس کی ساری زندگی وہی ہوتی ہے، آپ اس سے کھلونا لے لیں تو وہ چیختا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میرا سب کچھ یہی ہے لیکن جب یہ چھ سال کا ہوتا ہے اور اس کو وہی کھلونا دو تو وہ لینے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا۔وہ سمجھتا ہے کہ یہ فضول چیز ہے۔ اب اس کے اور کھلونے ہوتے ہیں، اگر وہ کھلونا اس سے واپس لیں مثلاً چھوٹی سی کار ہے، چھوٹا سا سکوٹر ہے، چھوٹی سی سائیکل ہے تو اس پر وہ مرتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے پوری کائنا ت یہی ہے ، اور جب یہی بچہ دس بارہ سال کا ہو جائے تو اس کو ان کھلونوں پر تعجب ہوتا ہے، اس کو دیں تو لینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
اب اس کو اپنی طاقت پر ناز ہوتا ہے۔ آپ دیکھیں! بارہ سال سے لے کر اٹھارہ سال کا زمانہ اس میں لڑکے بھی لڑکیوں کے ساتھ شامل ہوتے ہیں، بناؤ سنگھار، زیب و زینت... پتا نہیں کیا کچھ ہوتا ہے اور پھر جب تھوڑی سی عمر بڑی ہو جائے تو پھر بڑی عمر لڑکو ں کو کپڑوں کے ٹیپ ٹاپ کا نہیں ہوتا، بس اپنی طاقت کے گھمنڈ میں سب کچھ بھول جاتے ہیں اور جب بڑھاپا ہوتا ہے پھر یہ بھی عجیب لگتا ہے، اب فکر ہوتی ہے کہ اب ان چیزوں پر پیسا لگانا چھوڑ دو، اب پیسہ بچاؤ! اور جوانی میں بچانے کے بجائے لگانے کی کوشش ہوتی ہے۔
ہر اگلی حالت میں پہنچنے پر پچھلی حالت فضول لگتی ہے، اور جب موت آ جائے گی تو پھر پانچوں کی پانچوں حالتیں فضول لگیں گی، پھر ایک ہی چیز نظر آئے گی کہ نیک اعمال کیا تھے؟ نیک اعمال کیا تھے؟ اس لیے اللہ نے فرمایا کہ دنیا تو ایسی ہے کہ:
﴿کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰىہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا﴾
جیسے کھیتیاں اگتی ہیں تو کسان کو بہت اچھی لگتی ہیں اور پھر وہ خشک ہو جاتی ہیں، پھر وہ زرد ہو جاتی ہیں، پھر چورا چورا ہو جاتی ہیں۔ یہی حال انسان کی زندگی کا ہے، پہلے لہو... پھر لعب... پھر زینت... پھر تفاخر... پھر تکاثراور پھر سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ صرف نیک اعمال باقی رہ جاتے ہیں۔
مغفرت کی طرف دوڑو!
﴿سَابِقُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ جَنَّۃٍ عَرۡضُہَا کَعَرۡضِ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ۙ اُعِدَّتۡ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللہِ وَ رُسُلِہٖ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۲۱﴾﴾
اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اللہ کی جنت کی طرف دوڑو جس کا کم ازکم عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ کم از کم اس کی چوڑائی آسمانوں اور زمینوں کے برابر ہے ۔یہ چوڑائی بتائی جا رہی ہے ،لمبائی نہیں بتائی۔ یہ جنت ایمان والوں کے لیے تیار ہے اور یہ اللہ کا فضل ہے، اللہ جس کو چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے۔
مصیبت کی دو قسمیں:
﴿مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ ﴿ۚ۲۲﴾﴾
یہا ں دوقسم کی مصیبتیں بیان فرمائی ہیں؛ ایک جو انسان کی ذات کو پیش آتی ہے اور دوسری جو انسان کی ذات کو نہیں ہوتی، وہ خارجی دنیا میں نظر آتی ہے۔ مثلاً انسان کو بخار ہو گیا تو یہ اس کی ذاتی مصیبت ہے، بارش ہو گئی اور باہر کیچڑ ہو گیا، باغات ختم ہو گئے،یہ بھی مصیبت ہے لیکن یہ خارجی مصیبت ہے۔
فرمایا: دونوں قسم کی مصیبتیں آتی ہیں اور آنے سے پہلے اللہ نے لکھ دی تھیں، یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔
﴿لِّکَیۡلَا تَاۡسَوۡا عَلٰی مَا فَاتَکُمۡ وَ لَا تَفۡرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰىکُمۡ ؕ وَ اللہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرِۣ ﴿ۙ۲۳﴾﴾
یہ اس لیے تھا تاکہ اگر کوئی چیز تمہیں نہیں ملی تو تمہیں رنج نہ ہو اور اگر اللہ کوئی چیز دے دیتے ہیں تو تم اس پر اکڑو بھی نہیں۔ اس لیے کہ اللہ رب العزت اکڑنے والے کو اور شیخی کرنے والے کو نہیں پسند فرماتے۔
مختال اور فخور میں فرق :
مختال اور فخور میں فرق ہوتا ہے۔ انسان کے جو داخلی فضائل ہیں اگر ان پر انسان عُجب میں مبتلا ہوتا ہے تو مختال ہے اور اگر خارجی چیزیں دیکھ کر انسان کبر میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ فخور ہے۔ ذاتی چیزیں مثلاً میرا جسم بہت اچھا ہے، میری صحت بہت اچھی ہے ،میں بولتا بہت اچھا ہوں، میرا دماغ بہت اچھا ہے،میرا حافظہ بڑا اچھا ہے، اس سے بندہ عجب کا شکار ہوتا ہے تو اسے کہتے ہیں مختال... اور خارجی چیزیں مثلاً میرے پاس گاڑی بہت بڑی ہے،ساتھی بڑے اچھے ہیں، پیسہ بہت ہے تو اس کی وجہ سے جو کِبر پیدا ہوتا ہے اس کو فخور کہتے ہیں۔ اگر انسان کے داخلی فضائل سے عُجب آئے تو ایسے شخص کو مختال کہتے ہیں اور خارجی وسائل کی وجہ سے جو کِبر پیدا ہو اسے فخور کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نہ مختال کو پسند کرتے ہیں نہ فخور کو پسند فرماتے ہیں، اور لفظ کیسے فرماتے ہیں
”لَا یُحِبُّ“
کہ محبت نہیں کرتے۔ اس کا معنی کہ انسان کو اللہ کی محبت ہر وقت سامنے رکھنی چاہیے۔
بخل کی مذمت:
﴿الَّذِیۡنَ یَبۡخَلُوۡنَ وَ یَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبُخۡلِ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللہَ ہُوَ الۡغَنِیُّ الۡحَمِیۡدُ ﴿۲۴﴾﴾
اللہ نے مختال اور فخور کی عادات کو بیان فرمایا کہ مختال اور فخور وہ لوگ ہیں جو خود بھی بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کی دعوت دیتے ہیں ۔ جو شخص اللہ سے منہ موڑے گا تو اللہ بے نیاز اور لائق تعریف ذات ہے۔
لوہا اتارنے کا مطلب:
﴿لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیۡزٌ﴿۲۵﴾﴾
ہم نے رسولوں کو معجزات دے کر بھیجا، ہم نے ان کے ساتھ کتب بھی نازل فرمائی ہیں اور ترازو بھی نازل کیا تاکہ لوگ عدل و انصاف سے کام لیں اور ہم نے بطورِ خاص لوہا بھی نازل کیا جس میں جنگی قوت بھی ہے اور لوگوں کے لیے دیگر منافع بھی ہیں۔ اللہ نے یہ چیزیں اس لیے نازل کی ہیں تاکہ اللہ دیکھیں کہ کون شخص اس کے دین کی مدد کرتاہے، اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قوی اور غالب ہے ۔
یہاں
”البینات“
سے مراد ہیں معجزات ، ”الکتاب“ سے مراد ہیں کتابیں اور ”المیزان“ سے مراد وہ خاص احکام ہیں جو عد ل سے متعلقہ ہیں۔ ان کو بطور خاص ذکر فرمایا تاکہ حقوق العباد کی بہت زیادہ رعایت ہو۔
فرمایا کہ لوہے کو نازل کیا ہے جس میں جنگی قوت اور منافع ہیں۔ کتابوں کو تو نازل کیا ہے یہ بات تو سمجھ آتی ہے لیکن لوہے کو نازل تو نہیں کیا بلکہ لو ہے کو تو پیدا فرمایا ہے تو پھر
﴿وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ﴾
کیوں فرمایا؟
بعض حضرات اس کا ایک جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ عرب کے محاروات میں استعمال ہوتا ہےکہ ایک چیز اتاری جاتی ہے،دوسری اتاری نہیں جاتی لیکن لفظ دونوں کے لیے ایک طرح بولا جاتا ہے۔ جیسے ہم اپنے مہمان سے کہتے ہیں کہ کھانا وغیرہ کھا لیں! اب ”کھانا“ تو اس نے کھانا ہے اور ”وغیرہ“ میں چائے ہے لیکن دونوں کے لیے لفظ استعمال کیا ہے ”کھانا“۔ اسی طرح
﴿وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ﴾
فرمایا کہ لوہا ہم نے اتارا ہے۔ تو جو لفظ کتابوں کے اتارنے کے لیے فرمایا وہی لفظ لوہے کے لیے استعمال کیا ہے کیونکہ عرب ایسے محاورات استعمال کرتے ہیں۔
اور دوسرا اس کا جواب یہ ہے کہ
”اَنۡزَلۡنَا“
کا لفظ صرف لوہے کے لیے ہی نہیں فرمایا بلکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے چوپائیوں کے لیے بھی یہی لفظ ارشاد فرمایا ہے
﴿وَ اَنۡزَلَ لَکُمۡ مِّنَ الۡاَنۡعَامِ ثَمٰنِیَۃَ اَزۡوَاجٍ﴾
الزمر39: 6
اس کی وجہ یہ ہے کہ جتنی بھی چیزیں ہیں پیدائش سے پہلے اللہ نے لوح محفوظ میں لکھا ہے کہ فلاں چیز پیدا کرنی ہے اور لوح محفوظ اوپر ہے، اب
”اَنۡزَلۡنَا“
ہم نے اس کو نازل کیا کا معنی یہ ہو گا کہ ہم نے اس کو پیداکرنے کا حکم نازل کیا۔ تو چونکہ ان کے بارے میں جو حکم تھا وہ پہلے سے لوح محفوظ میں تھا، حکم اوپر سے نیچے آتا ہے اس لیے لفظ
”اَنۡزَلۡنَا“
استعمال فرمایا ہے۔
اور ایک جواب مفتی رشید احمدلدھیانوی رحمہ اللہ نے دیا، میں اس مجلس میں موجود تھا اور میں نے اپنے کانوں سے یہ جواب خود سنا ہے۔حضرت فرماتے ہیں کہ
”اَنۡزَلۡنَا“
کا ذکر یہ بات سمجھانے کے لیے کیا کہ جس طرح تم کتابوں کو مُنَزَّل من اللہ سمجھتے ہو لوہے کو بھی اہمیت ایسے دو! یہ اسلوب اس لیے بتایا ہے ورنہ کہنا چاہیے تھا
”اَنْشَاْنَا الْحَدِیْدَ مِنَ الْاَرْضِ“
کہ ہم نے کتابیں آسمان سے نازل کی ہیں اور لوہا زمین سے پیدا کیا ہے لیکن
”اَنۡزَلۡنَا“
کا لفظ یہ بتانے کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ لوہے کو اہمیت ایسے دو دین کی اشاعت اور دین کے نفاذ میں جس طرح آسمانی کتابوں کو اہمیت دیتے ہو!
پھر لوہے کی بنیادی طور پر دو اہمیتیں بیان فرمائی ہیں؛
[۱]:
فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ...
ایک جنگی استعمال
[۲]:
وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ...
اور دوسرا عام استعمال کی چیزیں جیسے گارڈر، مائک، گھڑیاں اور دیگر سامان ہے۔
ان میں پہلا اصل مقصد ہے
”فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ“ ،
مؤمن کی شان یہ ہے کہ لوہے کو استعمال کرے دین کی تنفیذ کے لیے، دین کی طاقت کے لیے، بس اس سے دین بہت مضبوط ہوتا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کی تبلیغ:
﴿وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا وَّ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ جَعَلۡنَا فِیۡ ذُرِّیَّتِہِمَا النُّبُوَّۃَ وَ الۡکِتٰبَ فَمِنۡہُمۡ مُّہۡتَدٍ ۚ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ﴿۲۶﴾﴾
حضرت نوح علیہ السلام کو ”آدم ثانی“ بھی کہتے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ”قدوۃ الانبیاء“ اور ”قدوۃ الانسان“ کہتے ہیں جو بعد والوں سب کے مقتدیٰ ہیں ۔
فرمایا: ہم نے حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کو بھیجا -علیہما السلام- اور ان دونوں کی اولاد میں ہم نے نبوت کا سلسلہ جاری کیا اور کتاب بھی دی، پھر ان میں سے بعض لوگ ہدایت یافتہ ہو گئے اور اکثر لوگ فاسق نکلے۔ اس کے بعد اور نبی بھیجے۔ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو بھیجاا ور انہیں انجیل دی۔
رہبانیت کی ابتدا:
﴿وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابۡتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ اِلَّا ابۡتِغَآءَ رِضۡوَانِ اللہِ فَمَا رَعَوۡہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ فَاٰتَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡہُمۡ اَجۡرَہُمۡ ۚ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ﴿۲۷﴾﴾
حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا سے تشریف لے گئے۔ ان کے متبعین نے آہستہ آہستہ شریعت کو چھوڑنا شروع کیا اور ایک طبقہ ایسا پیدا ہوا جس نے طاقت سے نافرمانوں کو روکنا چاہا لیکن طاقت ان کے مقابلے میں کم تھی، یہ بیچارے قتل ہو گئے اور بعض ایسے تھے جن کے پاس طاقت نہیں تھی تو انہوں نے زبان سے سمجھا کر روکنا چاہا تو یہ بھی آخر کار ان کے حملوں کی زد میں آ کر شہیدہو گئے۔ ایک تیسرا طبقہ تھا کہ جنہوں نے روکنا چاہا لیکن وہ سمجھتے تھے کہ نہیں روک سکتے تو انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ ہم اس معاشرے سے الگ تھلگ ہوجائیں تاکہ گناہوں میں مبتلا نہ ہوں۔ اس کا حکم اس شریعت میں نہیں تھابلکہ انہوں نے خود اس کا اہتمام کیا تھا۔
ا س لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں نے رہبانیت کو از خود اختیار کیا تھا، ہم نے ان پر رہبانیت کو فرض قرار نہیں دیا تھا اور ان کی منشا یہ تھی کہ ہم گناہوں سے بچ جائیں اور اللہ ہم سے راضی ہو جائیں، بعد میں وہ اس پر قائم نہیں رہ سکے۔ البتہ ان میں سے جو ایمان لائے تھے تو ہم نے ان کو اجر دیا۔ البتہ ان میں بھی اکثر ایسے تھے جو نا فرمان نکلے۔
رہبانیت کا حکم:
”رہبانیت“ کا اصل معنی ڈرنا ہے، راہب کہتے ہیں اللہ سے ڈرنے والے کو یعنی اللہ سے ڈر کر حلال چیزوں کو چھوڑ کے الگ تھلگ ہو کر رہنا۔ ہمارے ہاں رہبانیت کا حکم کیا ہے؟اس کے لیے سمجھیں کہ رہبانیت یعنی حلال چیزوں کو چھوڑ دینے کے تین درجے ہیں:
(1): اعتقاداً حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کر دیں، یہ جائز نہیں ہے۔
(2): اعتقاداً تو حلال سمجھیں لیکن عملاً ایسے ہوں جیسے اس کو حرام سمجھیں یعنی اس شدت کے ساتھ چھوڑیں جیسے حرام کو چھوڑا جاتا ہے، جیسے کوئی انسان بیماری میں مبتلا ہوتا ہے اور ایک حلال چیز کھانے سے بیماری بڑھ جاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ مجھے دس سال ہو گئے کہ میں نے فلاں چیز کو نہیں کھایا اور نہ ہی کھاؤں گا۔ اب یہ عملاً ایسا ہے جیسے حرام سمجھا ہو لیکن یہ جائز ہےکیوں کہ اس کا اعتقاد یہ نہیں ہے کہ یہ چیز حرام ہے بلکہ اعتقاد یہ ہے کہ اس چیز کے کھانے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے لہذا میں نہیں کھاؤں گا۔ اسی طرح ایک آدمی بعض جائز چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے کہ اس سے گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ مثلاً بازار میں جانا جائز تو ہے لیکن میں نہیں جاؤں گا کیوں کہ اگر جاؤں گا تو بدنظری ہوتی ہے۔ تو یہاں حلال چھوڑنے کا منشا حرام سے بچنا ہے، اس لیے یہ بھی جائز ہے۔
(3): آدمی بعض حلال چیزوں کو چھوڑے اور یہ سمجھے کہ اس کے چھوڑنے پر مجھے ثواب ملتا ہے تو اس اعتقاد کے ساتھ چھوڑنا جائز نہیں ہے۔نرم آرام دہ کپڑا پہننا جائز ہے لیکن میں نہیں پہنتا کیوں کہ اس کے نہ پہننے پر مجھے ثواب ملے گا... یہ غلط بات ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ :
1: حلال کو چھوڑنا اعتقاداً حرام سمجھتے ہوئے ،یہ جائز نہیں ہے۔
2: حلال چیز کو چھوڑنا علاجاً یہ جائز ہے۔
3: حلال چیز کو چھوڑنا کہ اس کے چھوڑنے پر ثواب ملے گا یہ بھی جائز نہیں۔
اہلِ کتاب کے ایمان لانے پر دو اجر کی وجہ:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ اٰمِنُوۡا بِرَسُوۡلِہٖ یُؤۡتِکُمۡ کِفۡلَیۡنِ مِنۡ رَّحۡمَتِہٖ وَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ نُوۡرًا تَمۡشُوۡنَ بِہٖ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿ۚ۲۸﴾﴾
اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ تاکہ اللہ تمہیں دہرا اجر دے اور تمہیں نور عطا کرے جس کے ذریعے تم چلو اور تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے۔ اللہ غفور ورحیم ہے۔
پہلے ایمان حضرت عیسی ٰ علیہ السلام پر لائے تھے اور اب ایمان حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر لاؤ تو تمہیں دو اجر مل جائیں گے۔قیامت کے دن اللہ تعالی تمہیں نورعطا فرمائیں گے جس پر تم چلوگے اور جو پہلے تم گناہ کرچکے ہواللہ تعالی ان کو معاف فرمادیں گے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی انسان اسلام قبول نہیں کر رہا اور نیک اعمال کرتا ہے تو اس کے نیک اعمال کی کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن جب یہ بندہ ایمان قبول کر لے گا تو جو حالت کفر میں نیک اعمال کیے تھے اللہ ان نیک اعمال کا بھی اجر عطا فرما دیتے ہیں اور حالت کفر میں جو گناہ کیے تھے اللہ اپنے کرم سے ان گناہوں کو گناہ نہیں لکھیں گے ۔
اہل کتاب کو ”یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا“سے خطاب کی وجہ:
یہاں صرف ایک اشکال رہ جاتا ہے کہ یہود اور نصاریٰ جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائیں انہیں اہل کتاب کہتے ہیں اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئیں تو پھر انہیں اہل کتاب نہیں کہتے بلکہ اہل ایمان کہتےہیں لیکن یہاں پر نصاریٰ کو خطاب فرمایا:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا﴾
حالانکہ کہنا چاہیے تھا
”یٰاَهْلَ الْکِتٰبِ“
اصل میں ان کو یہ بات سمجھانا مقصود ہے کہ دیکھو! اگر اس بات پر غور کرو تو کہ تمہارے ہاں انجیل میں لکھا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننا چاہیے ۔ صرف تم نے اس لکھے ہوئے پر عمل ہی کرنا ہے۔ اس حساب سے تو تم تو مؤمنین کی طرح ہو۔ تمہارے پاس بھی لکھی ہوئی کتاب موجود ہے اور مؤمنین کے پاس بھی کتاب قرآن موجود ہے، لکھے ہوئے قرآن پر یہ بھی عمل کرتے ہیں اور لکھی کتاب پر تم بھی عمل کر لو تو تم ایمان والوں کی طرح ہو۔اس لیے یہاں پر
”یٰاَهْلَ الْکِتٰبِ“
کے بجائے
”یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا“
فرمایا۔
بعض کہتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے بالآخر کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونا تھا اس لیے لفظ ایمان استعمال فرمایامایؤل کے اعتبار سے۔
﴿ لِّئَلَّا یَعۡلَمَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ اَلَّا یَقۡدِرُوۡنَ عَلٰی شَیۡءٍ مِّنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ وَ اَنَّ الۡفَضۡلَ بِیَدِ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿٪۲۹﴾﴾
یہاں پر ”لا“ زائدہ ہے مطلب یہ ہے کہ وہ اہل کتاب جو ایمان لے آئے ان کو دگنا اجر ملے گا اور جو ایمان نہیں لائے ان کو قیامت کے دن اس بات کا پتا چلے گا کہ اللہ کے فضل میں سے کچھ بھی ان کے اختیار میں نہیں ہے۔ سارا فضل اللہ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے۔ اللہ جس کو چاہتے ہیں اسے عطا فرما دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں اس کو نہیں عطا فرماتے ۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․