سورۃ المجادلۃ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ المجادلۃ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿ قَدۡ سَمِعَ اللہُ قَوۡلَ الَّتِیۡ تُجَادِلُکَ فِیۡ زَوۡجِہَا وَ تَشۡتَکِیۡۤ اِلَی اللہِ ٭ۖ وَ اللہُ یَسۡمَعُ تَحَاوُرَکُمَا ؕ اِنَّ اللہَ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ ﴿۱﴾ ﴾
ابتدائی آیات کا شانِ نزول:
حضرت اوس بنت صامت رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی حضرت خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
”اَنْتِ عَلَیَّ کَظَہْرِ اُمِّیْ “
کہ تم مجھ پر ایسے ہو جیسے میری ماں کی پشت ہے۔ عربوں میں جب کوئی ظہار کر لیتا تو اس کی بیوی ہمیشہ کے لیے اس پر حرام ہو جاتی اور یہ طلاق سے بھی سخت حرام ہوتی، اس کے حلال ہونے کی کوئی صورت نہیں تھی۔ حضرت خولہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے شوہر نے یہ بات کہہ دی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے علم میں تمہارے بارےمیں کوئی وحی نہیں ہے۔ حضرت خولہ رو پڑیں ۔ پھر اللہ سے فریاد کی
”اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَشْکُوْاِلَیْکَ“
کہ اللہ میں تیرے دربار میں فریاد لے کر آئی ہوں، میرے بچے ہیں، میں بوڑھی ہوں، اب میں کہاں جاؤں گی؟ اللہ! میری مدد فرما ۔ اس وقت اس سورت کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں اور ظہار کا حکم آ گیا۔
امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں وہاں قریب تھی، پوری گفتگو میں بھی نہیں سن سکی لیکن اللہ نے پوری گفتگو سن لی۔
ظہار کی تعریف اور حکم:
”ظہار“ کہتے ہیں کہ شوہر اپنی بیوی کو محرماتِ ابدیہ کے ایسے حصے کے ساتھ تشبیہ دے کہ جس کو دیکھنا اس کے لیے جائز نہ ہو۔ اس کا کفارہ یہ ہے کہ غلام آزاد کرو۔ اگر غلام آزاد کرنے کی طاقت نہیں ہے تو دو ماہ مسلسل روزے رکھو ۔ دو ماہ مسلسل روزے نہیں رکھ سکتے بڑھاپے کی وجہ سے یا کسی بیماری کی وجہ سے یا کسی عذر کی وجہ سے تو پھر ساٹھ مساکین کو کھانا کھلاؤ یا ساٹھ مسکینوں کو صدقۃ الفطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت دے دو ۔
حضرت خولہ رضی اللہ عنہا کے شوہر غریب تھے تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ! میرے پاس تو کوئی غلام نہیں ہے۔ فرمایا: روزے رکھو! کہا کہ جی میں تو آنکھوں کا مریض ہوں، میں تو دن میں تین بار کھانا نہ کھاؤں تو میری بینائی ختم ہونے کا خطرہ ہے۔ فرمایاکہ پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو۔ کہاکہ میری تو اس کی بھی استطاعت نہیں ہے، ہاں اگر آپ مدد کر دیں تو کچھ کر سکوں گا۔ تو پھر کچھ غلہ اللہ کے نبی نے دیا، کچھ باقی صحابہ رضی اللہ عنہم نے دیا۔ یوں جمع کرکے ساٹھ مساکین کا فدیہ ان کو دیا جو انہوں نے مساکین میں تقسیم کیا اور یوں مسئلہ حل ہوگیا۔
اگر کوئی شخص ظہار کر لے اور بیوی سے رجوع کرنا چاہے تو اس کے لیے یہ شرط ہے کہ کفارہ ضرور دے اور یہ قرآن کریم میں بالکل صاف طور پر اللہ نے فرما دیا ہے
﴿ثُمَّ یَعُوۡدُوۡنَ لِمَا قَالُوۡا﴾
کہ یہ اس شخص کے لیے ہے جس نے یہ گفتگو کی ہے اور اب اس کا تدارک کرنا چاہتا ہے اور اگر طلاق دے کر فارغ کرنا چاہے تو اس کی مرضی ہے۔ یعنی ظہار ہو گیا ہو تو بیوی اس سے جدانہیں ہوگی، بیوی اس کے نکاح میں رہے گی لیکن اس کے ساتھ صحبت اور صحبت کے جو اسباب ہیں وہ اختیار نہ کرے۔ ہاں اگر وہ اس کے ساتھ ملنا اور تعلقات رکھنا چاہتا ہے تو پھر یہ کفارہ ہے اور اگر طلاق دینا چاہتا ہے تو پھر ا س پر کوئی کفارہ نہیں ہے۔
ایمان والوں کو ایمان کا حکم؟
﴿ذٰلِکَ لِتُؤۡمِنُوۡا بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ؕ وَ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللہِ﴾
یہ جو حکم دیا گیا ہے کفارے کا یہ اس لیے ہے تاکہ تم اللہ اور اللہ کے رسول پر ایمان لاؤ۔ سوال یہ ہے کہ ایمان تو پہلے سے تھا، تو یہ دوبارہ ایمان لانے کا حکم کن کو ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ حکم تو ایمان والوں کو ہی ہے لیکن یہاں ایمان لانے سے مراد اعتقاد نہیں ہے، یہاں ایمان سے مراد عمل ہے یعنی اپنا عمل ایسے کرو کہ تمہارا عمل بتائے کہ تم مؤمن ہو۔ تو مراد اس سے عمل ہے، اعتقاد نہیں۔
عذاب مہین کا معنی:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحَآدُّوۡنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ کُبِتُوۡا کَمَا کُبِتَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ﴾
جو لوگ اللہ اور اللہ کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ اس طرح ذلیل ہوں گے جیسے ان سے پہلے لوگ ذلیل ہوئے تھے۔
﴿وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌۚ﴿۵﴾ ﴾
اور کفار کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہو گا ۔
یہ پہلے میں بات سمجھا چکا ہوں کہ کافر کو جو عذاب ہوتا ہے وہ اسے رسوا کرنے کے لیے ہوتا ہے اور مؤمن کو جو عذاب ہوتا ہے وہ گناہوں سے پاک کرنے کے لیے ہوتا ہے، ہاں صورت اس کی عذاب کی ہوتی ہے۔ اس لیے بسا اوقات اس پر عذاب کا اطلاق ہو جاتا ہے کیونکہ صورت خزی اور رسوائی کی ہوتی ہے۔
﴿یَوۡمَ یَبۡعَثُہُمُ اللہُ جَمِیۡعًا فَیُنَبِّئُہُمۡ بِمَا عَمِلُوۡا ؕ اَحۡصٰہُ اللہُ وَ نَسُوۡہُ ؕ وَ اللہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ ٪﴿۶﴾﴾
اللہ قیامت کے دن سب کو اٹھائیں گے اور انہیں ان کے اعمال کی خبر دیں گے، اللہ نے تو سب کچھ محفوظ کیا ہوا ہے اور یہ لوگ بھول گئے ہیں۔
”یہ لوگ بھول گئے ہیں“...یا تو سچ مچ بھول گئے ہیں یا معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے بندہ جاننے کے باوجود بھول رہا ہوتا ہے۔
معیتِ ذاتیہ:
﴿اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللہَ یَعۡلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ مَا یَکُوۡنُ مِنۡ نَّجۡوٰی ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمۡ وَ لَا خَمۡسَۃٍ اِلَّا ہُوَ سَادِسُہُمۡ وَ لَاۤ اَدۡنٰی مِنۡ ذٰلِکَ وَ لَاۤ اَکۡثَرَ اِلَّا ہُوَ مَعَہُمۡ اَیۡنَ مَا کَانُوۡا ۚ ثُمَّ یُنَبِّئُہُمۡ بِمَا عَمِلُوۡا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّ اللہَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۷﴾﴾
یہودیوں کی عادت تھی کہ جب مسلمانوں کو آتا دیکھتے تو آپس میں سرگوشی کرتے تھے۔ مقصد یہ ہوتا تھا کہ مسلمان پریشان ہوں کہ شاید ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی میں منافقین بھی ایسا کرتے تھے۔
تو فرمایا: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین ہے اللہ اس کو جانتے ہیں۔ اگر تین آدمیوں میں کوئی سرگوشی ہو تو ان کے ساتھ چوتھا اللہ ہوتا ہے، پانچ آدمیوں میں کوئی سرگوشی ہو تو ان کے ساتھ چھٹا اللہ ہوتا ہے۔ اور یہ سرگوشی کرنے والے کم یا زیادہ ہوں، وہ جہاں بھی ہوں اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ قیامت کے دن اللہ ان کو ان کے اعمال کے بارے میں بتائے گا کیونکہ اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔
یہاں میں پھر عرض کرتا ہوں اور میں بار بار یہ بات لاتا ہوں کہ دیکھو یہاں ہے
﴿ہُوَ مَعَہُمۡ﴾
،اب اگر تاویل نہ کرو تو معیت ذاتیہ ہوتی ہے اور تاویل کرو تو معیت وصفیہ ہوتی ہے۔ تو جو لوگ تاویل نہیں کرتے ان کو معیت ذاتیہ کا قائل ہونا چاہیے، اور اگلی بات میں پھر یہاں کہتا ہوں تاکہ آپ کے ذہن میں بات پختہ ہو جائے۔ ہمارے حضرات اکابر میں سے اگر کوئی معیتِ ذاتیہ کی نفی کرتے ہیں تو مقصود تجسیم کی نفی ہے، اگر تجسیم ذہن میں نہ ہو تو معیتِ ذاتیہ پر کوئی اشکال نہیں ہے۔
یہود احکام کے مکلف نہیں تو انہیں حکم کیوں؟
﴿اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ نُہُوۡا عَنِ النَّجۡوٰی ثُمَّ یَعُوۡدُوۡنَ لِمَا نُہُوۡا عَنۡہُ وَ یَتَنٰجَوۡنَ بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ وَ مَعۡصِیَتِ الرَّسُوۡلِ﴾
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ جن لوگوں کو سرگوشیاں کرنے سے منع کیا گیا تھا وہ پھر بھی وہی کام کرتے ہیں اور سرگوشی بھی کیسی کرتے ہیں ؛گناہ کی اور ظلم وزیادتی کی اور رسول کی نافرمانی کرنے کی۔
ایک تو مسلمان کو تکلیف دینا ایک مستقل ظلم ہے اور اگر واقعتاً اس کے خلاف کوئی پلان ہے تو اس کے تو ظلم ہونے پر تو کوئی اشکال ہی نہیں ہے۔
یہاں پر ایک سوال اور جواب ذہن میں رکھیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ احکام کا مکلف مسلمان ہے اور سرگوشیاں کرتے تھے یہودی، یہودی تو احکام کے مکلف ہی نہیں تھے تو ان کو منع کرنے کا فائدہ کیا ہو گا؟ ان کو منع کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہود بھی افعال کے مکلف ہیں ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہود من حیث الکافر تو احکام ِشریعتِ محمدیہ کے مکلف نہیں ہیں لیکن من حیث المعاہد یہ بھی مکلف ہیں کیوں کہ یہودیوں کا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ تھا۔ تو جب کوئی بندہ معاہدہ کرتا ہے تو پھر معاہدے میں دونوں فریقوں کو بات ماننا پڑتی ہے۔ معاہدہ تھا کہ ایک دوسرے کو تکلیف نہیں دیں گے اور ان کی سرگوشی سے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی تھی، تو فرمایا کہ تم ایسا کام کیوں کرتے ہو کہ جس سے تکلیف ہوتی ہے؟ تو وہ من حیث الکافر تو مکلف نہیں ہیں لیکن من حیث المعاہد پھر بندہ مکلف ہو جاتا ہے۔
یہود کی گستاخی( اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ کہنا)
﴿وَ اِذَا جَآءُوۡکَ حَیَّوۡکَ بِمَا لَمۡ یُحَیِّکَ بِہِ اللہُ ۙ وَ یَقُوۡلُوۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ لَوۡ لَا یُعَذِّبُنَا اللہُ بِمَا نَقُوۡلُ ؕ حَسۡبُہُمۡ جَہَنَّمُ ۚ یَصۡلَوۡنَہَا ۚ فَبِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۸﴾﴾
یہودی بسا اوقات آتے اور کہتے
”اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ“
سام کا معنی موت ہے۔ ایک مرتبہ یہودی آیا اور اس نے کہا
”اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ“
ام المؤمنین امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بہت غصہ آیا تو آپ نے کہا:
”اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ لَعَنَکُمُ اللہُ وَغَضِبَ عَلَیْکُمْ“
کہ موت تم پر ہو ،لعنت ہو اور خدا کا غضب تم پر نازل ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت تھی نا ں اور ایمان کا تقاضا بھی ہے کہ بندہ ایسے موقع پر خاموش نہ رہے ۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! ایسی بات کیوں کہتی ہو؟ کہا: حضور ! اس نے ایسی بات کہی جو ہم سے برداشت نہیں ہوتی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تو جواب ان کو دے دیا تھا۔ انہوں نے کہا”اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ“ تو میں نے کہا ”عَلَیْکُمْ “ ان کی دعا قبول نہیں ہو گی لیکن میری دعا قبول ہو گی تو میں نے جواب دے دیا۔
فرمایا: اے پیغمبر! جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کو سلام کرتے ہیں اور ایسا سلام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کو کبھی نہیں کیا، اور یہودی یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم غلط کہتے ہیں تو ہمارے اوپر اللہ کا عذاب کیوں نہیں آتا ؟ اللہ فرماتےہیں:
﴿حَسۡبُہُمۡ جَہَنَّمُ﴾
کہ دنیا میں عذاب نہ آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عذاب نہیں ہو گا، عذاب ہو گا اور عذاب بھی جہنم کا ہو گا، تم اس میں داخل ہو گے اور وہ بہت گندا ٹھکانا ہے۔
مجلس میں کشادگی کرنے کا حکم:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قِیۡلَ لَکُمۡ تَفَسَّحُوۡا فِی الۡمَجٰلِسِ فَافۡسَحُوۡا یَفۡسَحِ اللہُ لَکُمۡ ۚ وَ اِذَا قِیۡلَ انۡشُزُوۡا فَانۡشُزُوۡا یَرۡفَعِ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ ؕ وَ اللہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿۱۱﴾﴾
اے ایمان والو! جب کہا جائے کہ مجلس میں کشادگی پیدا کرو تو تم کشادگی پیدا کر لیا کرو! اللہ تمہیں وسعت عطا فرمائیں گے اور جب کہا جائے کہ اٹھ جاؤ ! تو تم اٹھ جاؤ۔ اللہ ایمان والوں کو بلندیاں عطا فرمائیں گے اور ایمان والوں میں بطورِ خاص اہلِ علم کو اللہ مزید درجات عطا فرمائیں گے۔ اللہ تمہارے اعمال سے خوب واقف ہیں۔
بعض لوگوں کو مجلس سے اٹھانے کی وجہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھےاور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی بیٹھے تھے۔ اسی دوران کچھ بزرگ صحابہ بھی آ گئے جو بدری تھے، ان کو مجلس میں بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں ملی تو وہ کھڑے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سمٹ سمٹ کر بیٹھو تاکہ آنے والوں کو جگہ ملے ، مجلس کے شرکاء سمٹ کر بھی بیٹھے لیکن اس کے باوجود ان آنے والے صحابہ کرام کے لیے بیٹھنے کی جگہ نہ بن سکی۔ تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض حضرات سے فرمایا کہ تم اٹھ جاؤ اور ان کو جگہ دے دو!
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بعض حضرات کو اٹھایا تو اس کی وجہ کیا تھی؟ بعض کہتے ہیں کہ وہ پہلے سے بیٹھے تھے تو جگہ تنگ تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اٹھ جاؤ تو یہ ایسے تھا جیسے شاگرد کو استاد کہتا ہے کہ بھائی !تم اٹھ جاؤ، مہمان ہیں ان کوجگہ دو! ایک تو یہ وجہ تھی ۔یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تادیباً اٹھایا کہ دیکھو ! وہ آئے ہیں تو تمہیں چاہیے تھا کہ جگہ کشادہ کرتے یا سمٹ کر ان کو بٹھاتے، اس لیے تم خود اٹھ جاؤ ! یا تادیباً نہیں اٹھایا بلکہ بس ویسے اٹھا دیا کہ اب تم اٹھ جاؤ، ان کو بھی بات سن لینے دو ۔
مجلس کے آداب:
 اور جب یہ کہا جائے کہ مجلس میں جگہ کشادہ کرو تو کشادگی پیدا کیا کرو، اللہ تعالی وسعت عطا فرمائے گا
﴿یَفۡسَحِ اللہُ لَکُمۡ﴾
کیا مطلب کہ دنیا میں رزق میں وسعت عطا فرمائے گا اور آخرت میں بھی وسیع جنت عطا فرمائے گا۔
 اور جب دو بندے بیٹھے ہوں اور سرگوشی کر رہے ہوں تو تیسرے آدمی کو آ کر نہیں بیٹھنا چاہیے جب تک کہ اجازت نہ ہو۔ یہ ادب کا تقاضا ہے۔ خواہ مخواہ نہ بیٹھیں، اجازت لیں کہ میں آ جاؤ ں یا بیٹھ سکتا ہوں ؟اگر کہیں کہ نہیں! تو چلے جائیں۔
 اور جب کچھ لوگ بیٹھے ہوں تو یہ بھی ٹھیک نہیں ہے کہ کسی کو اٹھاؤ اور خود بیٹھ جاؤ!
 اور جب کچھ لوگ بیٹھے ہوں اور کوئی اور بندہ آ جائے تو کوشش کرو کہ سمٹ کر بیٹھ جاؤ اور جگہ بناؤ تاکہ آنے والا بھی بیٹھ سکے۔
 اور جب کوئی بڑا کہہ دے کہ اٹھ جاؤ! تو فوراً اٹھ جایا کرو، جب کہے کہ جگہ وسیع کر دو! پھر فوراً وسیع کرو ۔پھر آدمی کو اس میں بالکل تردد کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔
حضور علیہ السلام سے ملاقات سے پہلے صدقہ کا حکم:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نَاجَیۡتُمُ الرَّسُوۡلَ فَقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیۡ نَجۡوٰىکُمۡ صَدَقَۃً ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ وَ اَطۡہَرُ ؕ فَاِنۡ لَّمۡ تَجِدُوۡا فَاِنَّ اللہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲﴾﴾
جو یہودی تھے وہ بسا اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تنہائی میں بات کرتے اور وقت ضائع کرتے اور بعض مالدار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بڑی دیر تک بیٹھ کر باتیں کرتے۔ اس کا ایک اثر تو یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پسند نہیں فرماتے تھے کہ بلا وجہ لمبی لمبی بات خلوت میں کریں، ایک ایک کو وقت دیں تو وقت بہت زیادہ چاہیے اور دوسرا یہ اثر ہوتا کہ جو غریب صحابہ تھے ان کو اس کی وجہ سے تکلیف ہوتی تھی کہ ہم غریب ہیں، ہم پیچھے رہتے ہیں، ان مالداروں کو قرب ملا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے لمبی لمبی بات کرتے ہیں۔ تو ان غریب صحابہ کی بھی دل جوئی نہیں ہوتی تھی ۔اس لیے اللہ پاک نے حکم دیا کہ تم ایسا کام نہ کرو! اگر کبھی بات کرنی ہی ہے تو نیکی کی بات کرو اور کبھی خلوت میں سرگوشی کرنے کا تو تصور ہی نہ کرو! اور پیغمبر سے بات کرنی ہو تو پہلے صدقہ دو اور اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرو! یہ حکم دیا گیا۔ اب جو منافق تھے ان کے لیے تو صدقہ دینا مشکل تھا، انہوں نے بات کرنا ہی چھوڑ دی۔ توحکم شرعی کا یہ فائدہ ہوا ۔تو فرمایا: اے ایمان والو! اگر کبھی تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خلوت میں بات کرنی پڑے تو اس تنہائی کی بات سے پہلے صدقہ کر لیا کرو! یہ تمہارے لیے بہتر ہے -کیونکہ تمہیں اس کا اجر ملے گا- اور پاکیزہ بھی ہے -اس لیے کہ جب اصلاح ہو گی تو فضول باتیں نہیں کروگے۔ اگر تمہارے پاس صدقہ کے لیے مال نہ ہو تو اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔ یعنی اس کا معنی یہ ہے کہ صدقہ دینا واجب تھا لیکن اگر نہ ہو تو اللہ تمہیں معاف فرما دے گا ۔
اس حکم کی منسوخی:
﴿ءَاَشۡفَقۡتُمۡ اَنۡ تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیۡ نَجۡوٰىکُمۡ صَدَقٰتٍ ؕ فَاِذۡ لَمۡ تَفۡعَلُوۡا وَ تَابَ اللہُ عَلَیۡکُمۡ فَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَطِیۡعُوا اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ وَ اللہُ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿٪۱۳﴾﴾
تنہائی میں بات کرنے کی وجہ سے جو صدقہ دینا ضروری تھا کیا تم اس سے ڈر گئے؟! اب جب تم صدقہ نہیں دے سکتے تو اللہ نے کرم یہ کیا کہ تمہیں معاف کر دیا! بس اب نماز پڑھتے رہو، زکوٰۃ ادا کرتے رہو، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو! اللہ تعالیٰ تمہارے عمل سے باخبر ہے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد تنہا میں وہ شخص ہوں جس نے اس پر عمل کیا ہے، نہ مجھ سے پہلے کسی نے کیا اور نہ میرے بعد کوئی کر ےگا۔
ملاقات کے لیے نظم بنایا جا سکتا ہے:
مجھے ایک بات پہ اشکال رہتا تھا لیکن اس آیت کو سمجھنے کے بعد میرا اشکال ختم ہو گیا۔ اشکال یہ رہتا تھا کہ آپ نے دیکھا کہ ہمارے ہاں ماہانہ خانقاہی مجلس میں لوگ آتے ہیں تو میں سب سے کہتا ہوں کہ آپ نے بات بھی سن لی ہے، بیعت بھی کر لی ہے ، مصافحہ بھی کر لیا ہے، اب بلا وجہ کمرے میں نہ آیا کریں، ہاں اگر کوئی ضروری کام ہو تو آ جائیں، میں اس سے آپ کو منع نہیں کرتا! کیونکہ بہت سارے لو گ ایسے ہوتے ہیں کہ فارغ ہونے کے بعد آتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں۔ پوچھتا ہوں کہ کوئی کام ہے؟ نہیں جی بس ویسے سلام کرنا تھا۔ میں نے کہا کہ وہ سلام تو ہم نے باہر کر لیا تھا... لیکن پھر بھی مجھے ایک جھجھک اور خوف سا رہتا تھا کہ یار ان کی دل شکنی نہ ہو کہ ہمیں بٹھاتا کیوں نہیں ہے؟ اس آیت کو پڑھنے کے بعد بالکل شرح صدر ہو گیا ہے کہ یہ پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ دیکھیں! نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے صاحبِ حیثیت لوگ بات کرتے تو اس سے دوسروں کا دل دکھتا اور جب بہت زیادہ دیر تک بات کرتے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مناسب نہیں سمجھتے تھے کہ ایک ایک کو میں اتنا اتنا وقت کیسے دوں گا؟ تو اللہ پاک نے مستقل حکمِ شرعی نازل فرما دیا کہ اگر یہ کرنا ہے تو پھر کچھ صدقہ دے کے آیا کرو پھر بات کیا کرو! اس کا معنی ہے کہ کچھ پابندی لگی۔ اب جو صدقہ نہیں دے سکتے تھے تو ان کو معافی دے دی لیکن اس سے شریعت کا مزاج تو سمجھ میں آ گیا کہ بلاوجہ یو ں نہیں کرنا چاہیے۔
منافقین کی کذب بیانی:
﴿اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ تَوَلَّوۡا قَوۡمًا غَضِبَ اللہُ عَلَیۡہِمۡ ؕ مَا ہُمۡ مِّنۡکُمۡ وَ لَا مِنۡہُمۡ ۙ وَ یَحۡلِفُوۡنَ عَلَی الۡکَذِبِ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۴﴾ اَعَدَّ اللہُ لَہُمۡ عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ اِنَّہُمۡ سَآءَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۵﴾ ﴾
کچھ منافق تھے جو قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ہم تم میں سے ہیں، ہم مسلمان ہیں ،اللہ فرماتے ہیں کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں ان کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
فرمایا: کیا آپ نے ان کو نہیں دیکھا جنہوں نے ایسے لوگوں سے دوستی کی ہوئی ہے جن پر اللہ کا غضب ہے۔ یہ لوگ نہ تم میں سے ہیں نہ ان میں سے ہیں ۔ جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور ان کو پتا بھی ہے کہ ہم جھوٹ بولتے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کیا ہوا ہے۔
﴿مَا ہُمۡ مِّنۡکُمۡ وَ لَا مِنۡہُمۡ﴾...
مطلب کہ ظاہراً تمہارے ساتھ ہیں ان کے ساتھ نہیں ہیں اور باطناً ان کےساتھ ہیں تمہارے ساتھ نہیں ہیں، تو نہ پورے ان کے ساتھ ہیں اور نہ پورے تمہارے ساتھ ہیں ۔
﴿اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّۃً فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللہِ فَلَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿۱۶﴾﴾
یہ لوگ اپنی قسموں کو ڈھال بناتے ہیں تم سے بچنےکے لیے کہ خداکی قسم ہم تو مسلمان ہیں، ہم تو مؤمن ہیں... یہ صرف تم سے بچنےکے لیے کرتے ہیں، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
﴿یَوۡمَ یَبۡعَثُہُمُ اللہُ جَمِیۡعًا فَیَحۡلِفُوۡنَ لَہٗ کَمَا یَحۡلِفُوۡنَ لَکُمۡ وَ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّہُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ ؕ اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ الۡکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۸﴾﴾
جب قیامت کا دن ہو گا تو یہ لوگ اللہ سے اس دن بھی یہی باتیں کریں گے جس طرح تمہارے سامنے کرتے ہیں، کہیں گے کہ اللہ! ہم قسمیں کھاتے ہیں کہ ہمارا مقصد یہ نہیں تھا، اللہ کی قسم!ہمارا ارادہ یہ نہیں تھا ۔اللہ فرمائیں گے کہ تم جھوٹ بولتے ہو، میں تمہارے ارادے کو جانتا ہوں۔
حزب الشیطان کی محرومی:
﴿اِسۡتَحۡوَذَ عَلَیۡہِمُ الشَّیۡطٰنُ فَاَنۡسٰہُمۡ ذِکۡرَ اللہِ ؕ اُولٰٓئِکَ حِزۡبُ الشَّیۡطٰنِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ الشَّیۡطٰنِ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿۱۹﴾ اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحَآدُّوۡنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗۤ اُولٰٓئِکَ فِی الۡاَذَلِّیۡنَ ﴿۲۰﴾ ﴾
شیطان نے ان پر غلبہ حاصل کیا ہے اور اللہ کی یاد کو ان سے بھلا دیا ہے، یہ شیطان کا گروہ ہے اور شیطان کا گروہ نقصان اٹھائے گا۔ جو لوگ اللہ اور اللہ کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل ترین ہوں گے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
﴿کَتَبَ اللہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ ؕ اِنَّ اللہَ قَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿۲۱﴾﴾
اللہ تعالی کا فیصلہ ہے کہ میں اور میرے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے۔ بے شک اللہ طاقتور اور غالب ہے۔
اس پر ایک سوال ہے کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ میرے رسول غالب رہیں گےلیکن دیکھا جائے تو کتنے انبیاء اور رسول ایسے ہیں جو شہید ہو گئے! اس کا جواب میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ غلبے کی دو قسمیں ہیں؛ ایک ہے غلبہ برہانی اور ایک ہے غلبہ عملی۔
[1]: یہاں غلبہ عملی نہیں بلکہ غلبہ برہانی مراد ہے۔ ظاہراً غلبہ اگر کفر کو مل بھی جائے تو بھی دلیل سے ہمیشہ رسول ہی غالب رہتا ہے۔
[2]: یا غلبہ سے مراد یہ ہے کہ میں تمہارا بدلہ لوں گا۔ اگر کوئی بندہ کسی نبی کو تکلیف دے تو اللہ اس کا بدلہ خود لیتے ہیں، اگر کوئی شخص رسول کو شہید کرے تو انتقام اللہ خود لیتے ہیں۔ تو فرمایا کہ یہ ہمارا فیصلہ ہے کہ غالب ہم ہیں اور ہمارےرسول ہیں۔ اللہ تو ہے ہی غالب اور رسول کے غالب ہونے کا معنی کہ اگر کوئی رسول کو قتل کر بھی دے تو اس کا بدلہ اللہ خود لیتے ہیں اور بالآخر پیغمبر ہی غالب آتا ہے اور کفر مغلوب ہو کر دنیا سے ختم ہو جاتا ہے۔
حزب اللہ کی کامیابی:
﴿لَا تَجِدُ قَوۡمًا یُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ یُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَوۡ کَانُوۡۤا اٰبَآءَہُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَہُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَہُمۡ اَوۡ عَشِیۡرَتَہُمۡ ؕ﴾
جو لوگ اللہ سے محبت رکھتے ہیں اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ ان لوگوں سے پیار کریں جو اللہ اور اللہ کے رسول کےمخالف ہیں خواہ وہ ان کے والد ہوں ، بیٹےہوں، بھائی ہوں یا خاندان کے لوگ ہو ں۔
﴿اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡاِیۡمَانَ وَ اَیَّدَہُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡہُ ؕ﴾
ان کے دلوں میں اللہ نے ایمان کو لکھ دیا ہے اور اللہ اپنی روح سے ان کی مدد فرماتے ہیں۔ ”روح“ سے مراد نورِ ایمان ہے کہ اللہ ایمان میں ایسا نور عطا فرما دیتے ہیں کہ جس سے بندے کی مدد ہوتی ہے، اس نور کی وجہ سے بند ہ کفر کو بھی پہچانتا ہے، سازشوں سے بھی بچ جاتا ہے۔ تو روح سے مراد یہاں نورِ ایمان ہے۔
﴿وَ یُدۡخِلُہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ رَضِیَ اللہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ اُولٰٓئِکَ حِزۡبُ اللہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللہِ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۲۲﴾﴾
اللہ ان کو ایسے باغات میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان باغات میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔ یہی اللہ کا گروہ ہے اور اللہ کا گروہ ہی کامیاب ہوتا ہے۔
اللہ ہمیں حزب اللہ میں شامل فرمائیں اور حزب الشیطان سے ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔ اللہ منافقت کی زندگی اور منافقت کی موت سے بچائیں۔ اللہ خالص ایمان عطا فرمائیں۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․