سورۃ المنافقون

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ المنافقون
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اِذَا جَآءَکَ الۡمُنٰفِقُوۡنَ قَالُوۡا نَشۡہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُ اللہِ ۘ وَ اللہُ یَعۡلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُہٗ ؕ وَ اللہُ یَشۡہَدُ اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَکٰذِبُوۡنَ ۚ﴿۱﴾﴾
سورت کا شانِ نزول (مفصل واقعہ):
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتا چلا کہ قبیلہ بنو المصطلق کا سردار حارث بن ضرّار کچھ افراد کو لے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگی تیاری کر رہا ہے۔ یہ حارث بن ضرّار حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے والد تھے جو اس غزوہ کے بعد مسلمان ہوئیں اور ازواجِ مطہرات میں شامل ہوئیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم خود پیش قدمی کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لے کر چل دیے ۔ ساتھ منافق بھی چلے گئے تاکہ مالِ غنیمت میں ہمارا بھی حصہ ہو جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بنو المصطلق کے مقام پر پہنچے تو وہاں ایک کنوا ں یا چشمہ تھا، جس کا نام تھا مریسیع، وہاں پر پڑاؤ ڈالا۔ اس لیے اس کو غزو ہ بنو المصطلق بھی کہتے ہیں اور غزوہ مریسیع بھی کہتے ہیں۔ خیر وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرے۔ حارث بن ضرار اپنا لشکر لے کر پہنچا۔ فریقین نے صفیں درست کیں اور دونوں نے تیروں سے ایک دوسرے پر حملہ کیا۔ اس میں بنو المصطلق کے کئی افراد مارے گئے اور اللہ نے فتح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی۔
لیکن یہاں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تھا کہ ابھی مریسیع کے کنویں پر ہی تھے، انصار اور مہاجرین صحابہ موجود تھے ۔ ایک انصاری اور مہاجر میں تھوڑی سی بات پر تکرار ہوئی اور نوبت جھگڑے تک پہنچ گئی۔ مہاجر صحابی کا نام تھا جہجاہ اور انصاری صحابی کا نام تھا سنان بن وبرہ جہنی رضی اللہ عنہما۔انصاری نے انصار کو بلایا اور مہاجر نے مہاجرین کو بلایا۔ قریب تھا کہ کوئی بڑا فتنہ کھڑا ہو جاتا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پتا چلا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم فوراً موقع پر پہنچ گئے۔ سب کو جمع کیا اور فرمایا:
”مَابَالُ دَعْوَی الْجَاہِلِیَّۃِ؟“
کہ یہ کیا جاہلیت کی آوازیں ابھی سے اٹھ رہی ہیں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بہت سمجھایا کہ مسلمان کو چاہیے کہ ظالم اور مظلوم کی مدد کرے، مظلوم کی مدد اس طرح کہ اس سے ظلم کو روکے اور ظالم کی مدد اس طرح کہ ظالم کا ہاتھ ظلم سے روک دے تاکہ وہ جہنم میں نہ چلا جائے ۔ خیر صحابہ رضی اللہ عنہ میں صلح ہو گئی۔
عبد اللہ ابن ابی کی ہرزہ سرائی:
عبد اللہ ابن ابی ابن سلول منافق کو جب اس بات کا پتا چلا تو اس نے اس موقع کو اپنے لیے نہایت غنیمت جانا کہ اب مسلمانوں کو لڑانے کا خوب موقع ہے۔ لشکر ابھی مریسیع کے مقام پر ہی تھا تو عبد اللہ بن ابی اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ایک جگہ پر بیٹھا تھا۔ اتفاق سے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بھی وہاں پر تھے۔ یہ صحابی تھے اور عمر اِن کی تھوڑی تھی، یہ بھی ساتھ بیٹھے تھے تو عبد اللہ بن ابی نے فتنے کی آگ کو بھڑکانے کے لیے کہا کہ دیکھو! تم نے مہاجرین کو سر پر چڑھا دیا ہے، پہلے تم نے ان کو کھانے کھلائے ہیں ، اب یہ ہمارے سر پر چڑھتے ہیں، ہر بات پر ہمیں ڈانٹتے ہیں ، ہمیں لے کر جنگوں میں نکلتے ہیں، ایک تو ان کا نان ونفقہ ختم کر دو یہ خود تنگ ہو کر چھوڑ کر چلے جائیں گے، باقی جب ہم عزت والے واپس جائیں گےتو ان ذلیل لوگوں کو اپنے شہر سے نکال دیں گے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنی تو جا کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھ کر کہ زید بن ارقم ابھی چھوٹے ہیں، ممکن ہے ان کو غلط فہمی ہوگئی ہو ان سےپوچھا: کیا تمہیں غلط فہمی تو نہیں ہوئی؟ عرض کیا: نہیں حضور، میں نے خود سنا ہے۔ فرمایا: دیکھ لو ۔ کہا کہ حضور میں نے سنا ہے اور مجھے غلط فہمی نہیں ہوئی۔
یہ بات لشکر میں پھیلی کہ زید بن ارقم کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن ابی نے یہ بات کی ہے تو چونکہ عبد اللہ بن ابی قبیلہ خزرج کا معزز آدمی سمجھا جاتا تھا تو اس کے بارے میں لوگوں نے کہاکہ نہیں وہ ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا کر پوچھا کہ کیا تم نے ایسی بات کی ہے؟ اس نے کہا: حضور! یہ بالکل جھوٹ ہے، میں نے تو ایسی بات نہیں کہی اور قسمیں کھا کر اپنی سچائی کا یقین دلایا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن ابی ابن سلول کی بات سن کر اس کا عذر قبول فرمایا لیا۔ اب لوگ حضرت زید بن ارقم کو ملامت کرنے لگے کہ تم نے ایک سردار کے بارے میں ایسی بات کہی ہے، اس پر تہمت لگائی ہے اور اس کے ساتھ قطع رحمی کا معاملہ کیا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب اس بات کا پتا چلا تو حضرت عمر نے کہا کہ حضور! مجھے اجازت دیں کہ میں عبداللہ بن ابی کا سر قلم کروں! اس کو جرأت کیسے ہوئی بات کرنے کی ؟! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں عمر! ایسا نہ کرو، لوگ کہیں گے کہ محمد اپنے بندوں کو مارتا ہے، پھر ایک نیا پروپیگنڈا شروع ہو جائے گا۔
عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق کے بیٹے حضرت عبداللہ مسلمان تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں میں اپنے باپ کا سر قلم کر کے لاتا ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی اور میرے باپ کا سر قلم کرے گا تو ممکن ہےکہ وہ میرے سامنے آئے گا تو مجھے تکلیف ہو گی اور پھر میں اس کو قتل کر بیٹھوں گا اور جہنم میں جاؤں گا، مجھے اجازت دیجیے، میں اپنے باپ کا سر خود قلم کرتا ہوں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی منع فرما دیا۔
غزوہ سے فارغ ہوئے۔ جب واپس آنے لگے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلاف ِمعمول پورا دن سفر کیا، پوری رات سفر کیا اور اگلے دن پھر سفر کیا۔ جب دوپہر کا وقت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ آرام کیا۔ اس کا مقصد مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ یہ اپنے قبیلہ کا بڑا آدمی ہے، ایک افواہ پھیل گئی ہے، اگر یہ افواہ سچی ہے تو مسئلہ اور اگر جھوٹی ہے تو بھی مسئلہ کیونکہ ایک انتشار کا خدشہ تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل سفر کر کے لشکر کو تھکانا شروع کیا تاکہ اس بات سے توجہ ہٹ جائے۔
دوران سفر جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر عبد اللہ بن ابی کے بارے میں کوئی آیات نازل نہیں ہوئی تھیں تو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن ابی کو نصیحت کی کہ دیکھو! تم نے بات کی ہے، بہتر ہے کہ غلطی کا اعتراف کر لو ورنہ وحی آئے گی تو تم پریشان ہو جاؤ گے لیکن عبد اللہ بن ابی نے یہ بات سن کر منہ پھیر لیا۔ حضرت عبادہ بن صامت فرمانے لگے کہ مجھے لگتا ہے کہ تو جس طرح تو منہ پھیر رہا ہے تو ضرور تیرے بارے میں قرآن اترے گا۔
جب راستے میں تھے تو حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ میں سامنے جاؤں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کروں۔ اس لیے وہ قریب ہوتے، پھر پیچھے ہٹتے، قریب ہوتے، پھر پیچھے ہٹتے۔ تھوڑا سفر آگے ہوا تو حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا گھوڑا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل ساتھ چل رہا تھا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بہت منتظر تھا کہ کوئی وحی آئے اور میرے بارے میں صفائی ہو ورنہ میں تو بدنام ہو جاؤں گا۔
حضرت زید بن ارقم فر ماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر پسینہ آ گیا، سانس پھولنا شروع ہوا اور سواری پر بوجھ پڑنا شروع ہوا تو میں سمجھ گیا کہ وحی آ رہی ہے۔ جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو چونکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہی تھا سواری پر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت میرا کان پکڑا اور فرمایا: اے بچے! جو تم نے بات کی تھی وہ ٹھیک ہے، اللہ نے تمہاری تصدیق کر دی ہے اور سورت المنافقون نازل ہو گئی ہے۔ یوں عبد اللہ بن ابی کے بارےمیں بات کھل گئی۔
جب یہ لشکر مدینہ میں داخل ہونے لگا تو عبد اللہ بن ابی منافق کے بیٹے حضرت عبد اللہ صحابی نے اپنے باپ کی سواری کو روک لیا اور پاؤں سواری کے گھٹنےپر رکھ کر بٹھا لیا۔ انہوں نے کہا کہ تو مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔ تو نے کہا تھا کہ میں مدینہ میں داخل ہوں گا تو عزت والے ذلت والوں کو نکال دیں گے! تو بتا کہ تو نے کس کو ذلت والا کہا اور کس کو عزت والا کہا؟ عزت والا تو ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ ابا! تو مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہ دیں! اس وقت عبد اللہ بن ابی نے کہا کہ میں تو عورتوں اور بچوں سے بھی زیادہ ذلیل ہو گیا ہوں۔ مطلب کہ میرا اپنا بیٹا میرے مقابلے میں اتر آیا ہے۔پیچھے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری آئی۔ فرمایا: کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے باپ کو چھوڑ دو! انہوں نے پھر اسے مدینہ میں داخل ہونے دیا۔ تو یہ سورت اس سفر میں نازل ہوئی۔
منافقین کی دروغ گوئی:
﴿اِذَا جَآءَکَ الۡمُنٰفِقُوۡنَ قَالُوۡا نَشۡہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُ اللہِ ۘ وَ اللہُ یَعۡلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُہٗ ؕ وَ اللہُ یَشۡہَدُ اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَکٰذِبُوۡنَ ۚ﴿۱﴾﴾
یہ منافق کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں لیکن یہ منافق لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔
جھوٹ بولنے سے مراد کیا ہے؟ کہ منافق کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مانتے ہیں۔ فرمایا کہ تم دل سے نہیں مانتے بلکہ محض زبان سے کہتے ہو ، تمہارے یہ دعوے بالکل جھوٹے ہیں ۔
﴿اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّۃً فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللہِ ؕ اِنَّہُمۡ سَآءَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۲﴾﴾
یہ لوگ دو کام کرتے تھے:
1: ایک تو جھوٹی قسمیں کھاتے تھے اپنی جان اور مال کو بچانے کے لیے ۔
2: لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے تھے۔
﴿اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّۃً﴾
یہ ان کا لازمی جرم تھا اور
﴿فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللہِ﴾
یہ ان کا متعدی جرم تھا۔ ایک جرم ان کی ذات کی حد تک تھا کہ جھوٹ بولتے تھے اور دوسرا جرم یہ کہ یہ لوگو ں کو دین سے روکتے تھے، یہ ان کا متعدی جرم تھا ۔

﴿ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَہُمۡ لَا یَفۡقَہُوۡنَ ﴿۳﴾﴾

تمہارے سامنے کلمہ پڑھتے ہیں اور جب اپنے بندوں کے پاس جاتے ہیں تو پھر زبان سے کفر بکتے ہیں۔ ان کے بار بار جرم کی وجہ سے ان کے دلو ں پر مہر لگ گئی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بات کو سمجھتےنہیں ۔
﴿وَ اِذَا رَاَیۡتَہُمۡ تُعۡجِبُکَ اَجۡسَامُہُمۡ ؕ وَ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡا تَسۡمَعۡ لِقَوۡلِہِمۡ ؕ کَاَنَّہُمۡ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ؕ یَحۡسَبُوۡنَ کُلَّ صَیۡحَۃٍ عَلَیۡہِمۡ ؕ ہُمُ الۡعَدُوُّ فَاحۡذَرۡہُمۡ ؕ قٰتَلَہُمُ اللہُ ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۴﴾﴾
منافقین کے ظاہر کو دیکھو تو بڑے بڑے ان کے جسم ہیں لیکن جب ان کی باتیں سنو تو ایسے لگتے ہیں کہ جیسے یہ لکڑیاں ہیں جوسہارے پر کھڑی ہوئی ہیں، یہ ڈرپوک اور بزدل قسم کے لوگ ہیں۔ جسم دیکھو تو بڑے بڑے اور جب باتیں دیکھو تو اتنے بزدل لوگ ہیں ۔ ان کو ہروقت خدشہ رہتاتھا یعنی جب بھی کہیں سے تھوڑی سی بھی آواز آئی گھوڑوں کی تو منافق سمجھتےتھے ہمارے بارے میں وحی آگئی ہے ہماراپتہ چل گیا ہے اب ہماری خیر نہیں ہے۔ ہر چیخ وپکار کو سمجھتے ہیں کہ ہمارے اوپر کوئی آفت آنے لگی ہے، یہ تمہارے دشمن ہیں، بچو ان سے۔ اللہ ان کو برباد کرے ۔ یہ لوگ کہاں پھرے جاتے ہیں!
عبد اللہ ابن ابی کا متکبرانہ رویہ:
﴿وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ تَعَالَوۡا یَسۡتَغۡفِرۡ لَکُمۡ رَسُوۡلُ اللہِ لَوَّوۡا رُءُوۡسَہُمۡ وَ رَاَیۡتَہُمۡ یَصُدُّوۡنَ وَ ہُمۡ مُّسۡتَکۡبِرُوۡنَ ﴿۵﴾﴾
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن ابی بن سلول سے کہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے جاؤ اور جا کر معافی مانگ لو۔ اس نے کہا تھا کہ تمہارے کہنے پر کلمہ بھی پڑھا ہے، تمہارے کہنے پر زکوٰۃ بھی دیتا ہوں، اب حضور کو سجدہ رہ گیا ہے وہ میں کر لیتا ہوں، آخر تم کیا چاہتے ہو مجھ سے؟!
فرمایا کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ! رسول اللہ تمہارے لیے مغفرت کی دعا کریں تو یہ لوگ اپنے سروں کو جھٹکنے لگتے ہیں، آپ ان کو دیکھیں کہ یہ کیسے تکبر کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے ہیں۔
﴿سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ اَسۡتَغۡفَرۡتَ لَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ ؕ لَنۡ یَّغۡفِرَ اللہُ لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۶﴾ ﴾
اےمیرے پیغمبر! آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں ان کے لیے برابر ہے، اللہ ان کومعاف نہیں کرے گا! اللہ تعالیٰ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتے۔
﴿ہُمُ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ لَا تُنۡفِقُوۡا عَلٰی مَنۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللہِ حَتّٰی یَنۡفَضُّوۡا ؕ وَ لِلہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لٰکِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَا یَفۡقَہُوۡنَ ﴿۷﴾﴾
یہی منافق لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ کے ساتھ ہیں ان پر مال خرچ نہ کرو تاکہ یہ لوگ چلے جائیں۔ فرمایا کہ آسمانوں اور زمینوں کے سارے خزانوں کا مالک اللہ ہے لیکن منافق لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے!
﴿یَقُوۡلُوۡنَ لَئِنۡ رَّجَعۡنَاۤ اِلَی الۡمَدِیۡنَۃِ لَیُخۡرِجَنَّ الۡاَعَزُّ مِنۡہَا الۡاَذَلَّ ؕ وَ لِلہِ الۡعِزَّۃُ وَ لِرَسُوۡلِہٖ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ لٰکِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ٪﴿۸﴾﴾
یہ منافق کہتے ہیں کہ جب ہم مدینہ میں پہنچیں گے تو عزت والے لوگ ذلت والوں کو باہر نکال دیں گے حالانکہ عزت بالذات اللہ کے لیے ہے، اللہ کے واسطہ سے پیغمبر کے لیے ہے، پھر پیغمبر کے دین پر عمل کریں گے تو مؤمنین کے لیے ہے لیکن منافق اس بات کو نہیں سمجھتے نہیں۔
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلۡہِکُمۡ اَمۡوَالُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللہِ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿۹﴾﴾
یہاں مسلمانوں کو ترغیب ہے کہ مال اور اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے، جو ایسا کرے گا نقصان اٹھائے گا۔
﴿وَ اَنۡفِقُوۡا مِنۡ مَّا رَزَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ فَیَقُوۡلَ رَبِّ لَوۡ لَاۤ اَخَّرۡتَنِیۡۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیۡبٍ ۙ فَاَصَّدَّقَ وَ اَکُنۡ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۰﴾﴾
موت آنے سے پہلے پہلے صدقات واجبہ ادا کرو ورنہ موت آئے گی توبندہ کہے گا کہ اے کاش! مجھے تھوڑا سا وقت مل جائے کہ میں صدقہ کروں اور نیک ہو جاؤں!
﴿وَ لَنۡ یُّؤَخِّرَ اللہُ نَفۡسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُہَا ؕ وَ اللہُ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۱﴾﴾
جب موت کا وقت آئے گا تو مہلت نہیں ملتی۔ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہیں۔
اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․