سورۃ التغابن

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ التغابن
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿یُسَبِّحُ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ لَہُ الۡمُلۡکُ وَ لَہُ الۡحَمۡدُ ۫ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱﴾﴾
پانچ مسبحات:
میں نے بتایا تھا کہ پانچ سورتیں ایسی ہیں جن کا آغاز تسبیح سے ہوتا ہے۔ انہیں مُسَبِّحات کہتے ہیں۔ ان میں سے چار سورتیں سورت حدید، سورت حشر، سورت صف اور سورت جمعہ تو گزر چکی ہیں، یہ آخری سورت ہے سورت تغابن۔
فرمایا: جو چیزیں آسمانوں اور زمینوں میں ہیں وہ اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہیں ۔ اللہ ہی کی بادشاہت ہے اور تمام تعریفیں بھی اللہ کے لیے ہیں۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
تخلیقاتِ باری تعالیٰ:
﴿ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ فَمِنۡکُمۡ کَافِرٌ وَّ مِنۡکُمۡ مُّؤۡمِنٌ ؕ وَ اللہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۲﴾﴾
اللہ وہ ذات ہے جس نےتمہیں پیدا کیا ہے، اس کا تقاضا یہ تھا کہ تم سب اللہ کی عبادت کرتے لیکن تم نے کیا کیا؟ بعض کافر ہو گئے اور بعض مؤمن ہو گئے۔ تو تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ سب کو چاہیے کہ اللہ کو مانیں۔ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ تمہارے ان اعمال کو بھی جانتا ہے جو ایمان والے ہیں اور ان اعمال کو بھی جانتا ہے جو کفریہ ہیں ۔
﴿خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ وَ صَوَّرَکُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ ۚ وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿۳﴾﴾
اللہ رب العزت نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا فرمایا۔ اللہ نے تمہیں صورتیں دی ہیں اور بہت بہترین صورتیں تمہیں عطا کی ہیں اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
”بِالۡحَقِّ“
حق سے مراد ہے حکمت اور منفعت یعنی حکمت کے ساتھ اور نفع کے ساتھ پیدا فرمایا۔ اللہ کی تخلیق نہ نفع کے بغیر ہے اور نہ حکمت کے بغیر ۔
﴿فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ﴾
جتنی بھی صورتیں پیدا کی ہیں سب سے بہترین صورت انسان کو دی ہے۔ فرمایا:
﴿لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ﴾
کہ دنیا میں جتنی شکلیں اللہ نے بنائی ہیں ان میں سب سے زیادہ خوبصورت شکل انسان کو عطا فرمائی ہے ۔
﴿یَعۡلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ یَعۡلَمُ مَا تُسِرُّوۡنَ وَ مَا تُعۡلِنُوۡنَ ؕ وَ اللہُ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۴﴾﴾
جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے اللہ اسے جانتا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو یا ظاہر کرتے ہو اللہ اس کو بھی جانتا ہے۔ اللہ دلوں کے رازوں سے بھی واقف ہے۔
منکرین کا انجام:
﴿اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَبَؤُا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ۫ فَذَاقُوۡا وَبَالَ اَمۡرِہِمۡ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۵﴾﴾
کیا تمہارے پاس ان کافروں کے حالات نہیں پہنچے جو پہلے گزر چکے ہیں، انہوں نے اپنے کرتوتوں کا وبال چکھا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
﴿ذٰلِکَ بِاَنَّہٗ کَانَتۡ تَّاۡتِیۡہِمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَقَالُوۡۤا اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا ۫ فَکَفَرُوۡا وَ تَوَلَّوۡا وَّ اسۡتَغۡنَی اللہُ ؕ وَ اللہُ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ﴿۶﴾﴾
ان کے انکار اور اس پر عذاب کی وجہ یہ بنی کہ ان کے پاس جب رسول واضح دلائل لے کر آتے تو یہ ان سے کہتے کہ کیا بشر ہی ہمیں ہدایت کی راہ دکھائیں گے؟ اس لیے انہوں نے کفر اختیار کیا اور منہ موڑا تو اللہ نے بھی شانِ بے نیازی کا مظاہرہ کیا۔ اللہ بے نیاز اور لائق تعریف ذات ہے۔
﴿اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا﴾
میں اس پر پہلے کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ ان کی رائے یہ تھی کہ بشر نبی نہیں ہوتا۔ بد قسمتی سے آج بھی بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ نبی بشر نہیں ہوتا ۔ ذہن دونوں کا ایک ہے کہ بشریت نبوت کے منافی ہے۔ اُنہوں نے دیکھا تو نبی نہیں مانا اور اِنہوں نے نہیں دیکھا تو نبی مانا مگر بشر نہیں مانا۔ بشر لفظاً مفرد ہے لیکن معناً جمع ہے، اس لیے آگے
”یَّہۡدُوۡنَنَا“
یہ جمع ہے معنی کی رعایت کرتے ہوئے۔
﴿زَعَمَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ لَّنۡ یُّبۡعَثُوۡا ؕ قُلۡ بَلٰی وَ رَبِّیۡ لَتُبۡعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلۡتُمۡ ؕ وَ ذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیۡرٌ ﴿۷﴾﴾
کافر یہ گمان کرتے ہیں کہ انہیں قیامت کے دن نہیں اٹھایا جائے گا۔ اے پیغمبر! آپ فرمائیں کہ نہیں، اللہ تمہیں ضرور اٹھا ئے گا۔ پھر تمہیں تمہارے بارے میں بتائے گا۔ اللہ پر یہ بہت آسان ہے ۔
﴿فَاٰمِنُوۡا بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ النُّوۡرِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلۡنَا ؕ وَ اللہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿۸﴾ ﴾
اس لیے اللہ پر ایمان لاؤ، اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس نور پر ایمان لاؤ جو اللہ نے نازل کیا۔ یہاں نور سے مراد قرآن کریم ہے۔
مؤمنین کا انجام:
﴿یَوۡمَ یَجۡمَعُکُمۡ لِیَوۡمِ الۡجَمۡعِ ذٰلِکَ یَوۡمُ التَّغَابُنِ ؕ وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللہِ وَ یَعۡمَلۡ صَالِحًا یُّکَفِّرۡ عَنۡہُ سَیِّاٰتِہٖ وَ یُدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۹﴾﴾
جس دن اللہ تمہیں جمع کریں گے وہ بڑا خسارے کا دن ہے ۔ جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے تو اللہ ان کے گناہ معاف فرمائیں گے اور انہیں جنت میں داخل فرمائیں گے جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ جنتی ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
﴿وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿٪۱۰﴾﴾
اللہ جنتیوں کا تذکرہ فرماتے ہیں تو جہنمیوں کا ذکر بھی فرماتے ہیں۔ فرمایا: جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا تو یہ لوگ جہنم میں جائیں گے۔ جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے۔
تکالیف آنے کی وجوہات:
﴿مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللہِ ؕ﴾
دنیا میں جو بھی تکلیف آتی ہے وہ اللہ کے حکم کے بغیر نہیں آتی، اللہ کے حکم سے آتی ہے۔ اس کا معنی یہ نہیں کہ اللہ چاہتے ہیں کہ بندے کو تکلیف ہو بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ انسان اسباب تکلیف جمع کر بھی لے لیکن اللہ نہ چاہیں تو تکلیف نہیں آ سکتی۔
عموماً مصیبت آتی ہے گناہ کی وجہ سے۔ کبھی بندہ گناہ کرتا ہے تو گناہ کی وجہ سے تکلیف آ جاتی ہے، کبھی تکلیف آتی ہے بندے کے گناہ کے کفارے کی وجہ سے کہ تکلیف آتی ہے تو بندے کے کسی گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے اور کبھِ تکلیف بغیر کسی گناہ کے رفعِ درجات کے لیے آتی ہے۔
دنیا میں انسان کو جو بھی مصیبت آئے تو اگر دیکھنا ہو کہ یہ کفارہ ہے یا یہ عذاب ہے یا رفع درجات کا ذریعہ ہے؟ تو یہ دیکھیں کہ اگر تکلیف کے آنے سے پہلے گناہ سے بچتا تھا اور تکلیف کے بعد بھی بچتا ہے تو یہ تکلیف رفع درجات کے لیے ہے۔ اگر پہلے گناہوں سے نہیں بچتا تھا لیکن تکلیف کے بعد بچنا شروع ہو گیا ہے تو یہ تکلیف کفارہ سیئات کے لیے ہے اور اگر پہلے بھی گناہ کرتا تھا اور تکلیف کے بعد بھی گناہ کرتا ہے تو یہ تکلیف اس کے حق میں عذاب ہے، راحت کا ذریعہ نہیں ہے۔
﴿وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللہِ یَہۡدِ قَلۡبَہٗ ؕ وَ اللہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۱۱﴾﴾
جو اللہ کو مانتا ہے، اللہ اس کےدل کو صبر اور رضا کی توفیق دیتے ہیں۔ اور اللہ ہر چیز کو جانتے ہیں۔
﴿وَ اَطِیۡعُوا اللہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوۡلِنَا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۲﴾﴾
اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو۔ اگر تم نے منہ موڑا تو یاد رکھو ہمارے پیغمبر کی ذمہ داری صرف پہنچانا ہے۔ انکار کا وبال اور اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا۔
﴿اَللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ وَ عَلَی اللہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۳﴾﴾
اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ مومنین کو چاہیے کہ وہ اللہ ہی پر بھروسہ کریں۔
”بیوی اور اولاد دشمن ہیں“ کا مفہوم
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ وَ اَوۡلَادِکُمۡ عَدُوًّا لَّکُمۡ فَاحۡذَرُوۡہُمۡ﴾
اے ایمان والو! تمہاری بعض بیویاں اور تمہاری بعض اولادیں تمہارے دین کی دشمن ہیں، اس لیے تم ان سے احتیاط کرو۔
یہ آیتِ کریمہ کس موقع پر نازل ہوئی ہے؟ بعض کہتے ہیں فلاں خاص صحابی کے بارے میں ہے کہ وہ جہاد پر جانا چاہتے تو کبھی بیوی رکاوٹ بنتی، کبھی اولاد رکاوٹ بنتی کہ آپ ہمیں چھوڑ کر جائیں گے تو ہمارے پاس کون ہو گا ؟ ان کی بات سن کر وہ رک جاتے۔ عوف بن مالک الاشجعی ان کا نام تھا۔ یہ بات ان کے بارے میں ہے۔
اوربعض کہتے ہیں کہ یہ آیات ان صحابہ کرام کے بارے میں ہے جو مکہ مکرمہ میں تھے، مسلمان ہو گئے تھے ۔ اس وقت جو شخص مکہ میں مسلمان ہوتا تو اس کے لیے ہجرت کرنافرض تھا۔ اس کے ذمہ تھا کہ مکہ کو چھوڑ کر مدینہ آئے ۔ بعض اپنے گھر والوں کی وجہ سے مکہ نہیں چھوڑ سکے تو فرمایا کہ یہ تمہارے دین کے دشمن ہیں، ان سے بچو ۔
﴿وَ اِنۡ تَعۡفُوۡا وَ تَصۡفَحُوۡا وَ تَغۡفِرُوۡا فَاِنَّ اللہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾﴾
اور اگر تم ان کو معاف کر دو۔ مثلاً اگر بیوی سے خطا ہو جائے اور تم سے معافی مانگے تو معاف کردو،
”وَ تَصۡفَحُوۡا“
اور تم در گزر کرو! در گزر کا معنی کہ جب معافی دے دی ہے تو بار بار ملامت نہ کرو، اس کے جرم کو بار بار مت ذکر کرو۔
”وَ تَغۡفِرُوۡا “
اور تم ان کو بخش دو ۔ بخش دینے کا معنی کہ اب دل سے بھی نکال دو۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والے ہیں، رحم کرنے والے ہیں۔
﴿اِنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ ؕ وَ اللہُ عِنۡدَہٗۤ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۵﴾﴾
تمہارے اموال اور تمہاری اولاد امتحان ہیں اور اللہ کے پاس اجر عظیم ہے۔
﴿فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ وَ اسۡمَعُوۡا وَ اَطِیۡعُوۡا وَ اَنۡفِقُوۡا خَیۡرًا لِّاَنۡفُسِکُمۡ﴾
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم تھا کہ تقویٰ اختیار کرو۔ ان کو شبہ ہوتا کہ ہم تقویٰ اختیار کیسے کریں؟! ہم انسان ہیں اس لیے کبھی گنا ہ ہو جائیں گے، کبھی نیک عمل چھوٹ جائے گا، کبھی اللہ کے حکم پر عمل نہیں ہو گا۔ فرمایا:
”مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ“
تم اتنا کرو جتنا تمہارے بس میں ہے، پھر بھی کمی ہو جائے تو اللہ معاف فرمائیں گے۔ بات کو سنو، عمل کرو اور کچھ اللہ کی راہ میں صدقہ دو کہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔
﴿وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۶﴾﴾
اور جو بندہ بخل سے بچ گیا تو یہ انسان یقیناً کامیاب ہو جائے گا ۔
﴿اِنۡ تُقۡرِضُوا اللہَ قَرۡضًا حَسَنًا یُّضٰعِفۡہُ لَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللہُ شَکُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ﴿ۙ۱۷﴾﴾
اگر تم اللہ کو قرض دو اخلاص کے ساتھ ،یہ صورت قرض کی ہے لیکن درحقیقت صدقہ ہے، تو اللہ تعالی اسے بڑھا کر تمہیں دے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف بھی کرے گا۔
”وَ اللہُ شَکُوۡرٌ “
اللہ قدر کرتے ہیں تو نیک اعمال قبول فرما لیتے ہیں،
”حَلِیۡمٌ“
اللہ برد بار ہیں کہ اگر بندہ گناہ کرے تو سزا فوراً نہیں دیتے، توبہ کا موقع دیتے ہیں ،پھر بھی بندہ توبہ نہ کرے تو اس سزا کو آخرت تک مؤخر کر دیتے ہیں۔
﴿عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿٪۱۸﴾﴾
اللہ ظاہر اور باطن سب کو جانتے ہیں۔ غالب ہیں، حکمت والے ہیں ۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․