سورۃ الملک

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الملک
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿ تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ ۫ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرُۨ ۙ﴿۱﴾ ﴾
سورت الملک کی فضیلت:
سورۃ الملک کا ایک نام
”اَلْمَانِعَۃُ“
ہے اور
”اَلْمُنْجِیَۃُ“
بھی ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
هِيَ الْمَانِعَةُ هِيَ الْمُنْجِيَةُ تُنْجِيْهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ.
المعجم الکبیر للطبرانی:ج 6 ص 110 رقم الحدیث 12630
کہ سورۃ الملک عذابِ قبر کو روکنے والی اور عذابِ قبر سے نجات دلانے والی ہے۔
صفاتِ متَشابہات کے متعلق ہمارا موقف:
﴿تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ﴾
برکت والا ہے وہ اللہ جس کے قبضہ قدرت میں بادشاہی ہے۔
اس پر کئی بار بات ہو چکی ہے کہ ”ید“ اللہ کی صفت ہے جس کا معنی اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ متقدمین اھل السنۃ والجماعۃ کا مسلک یہ ہے کہ”ید“ متَشابہات میں سے ہے اور اس کا معنی کوئی نہیں جانتا ۔متاخرین اھل السنۃ والجماعۃ کا مسلک یہ ہے کہ ”ید“ سے مراد قدرت ہے ۔ چنانچہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ الفقہ الاکبر میں فرماتے ہیں:
"وَلَا یُقَالُ اِنَّ یَدَہٗ قُدْرَتُہٗ اَوْ نِعْمَتُہٗ لِاَنَّ فِیْہِ اِبْطَالَ الصِّفَۃِ وَھُوَ قَوْلُ اَھْلِ الْقَدْرِ وَالْاِعْتِزَالِ وَلٰکِنْ یَدُہٗ صِفَتُہٗ بِلَا کَیْفٍ."
الفقہ الاکبر : ص 2
”ید“ کا معنی قدرت کرنا یہ معتزلہ کا مذہب ہے، اس لیے ”ید“ کا معنی قدرت نہ کریں بلکہ ”ید“ اللہ کی صفت ہے جس کا معنی اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور معتزلہ کہتے ہیں کہ”ید“ کا معنی قدرت ہے ۔
یہاں سوال یہ ہے کہ اگر ”ید“ کا معنی قدرت کرنا معتزلہ کا مسلک ہے تو تقریباً ننانوے فیصد اکابر اھل السنۃ والجماعۃ بھی ”ید“ کا معنی قدرت ہی کرتے ہیں ۔ جس طرح حدیث میں ہے کہ:
وَالَّذِىْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهٖ لَوَدِدْتُ أَنْ أُقَاتِلَ فِىْ سَبِيْلِ اللهِ فَأُقْتَلَ ثُمَّ أُحْيَا فَأُقْتَلَ ثُمَّ أُحْيَا فَأُقْتَلَ ثُمَّ أُحْيَا فَأُقْتَلَ ثُمَّ أُحْيَا.
السنن الکبریٰ للبیہقی:ج9 ص 157 رقم 18957
اس کا ترجمہ ہمارے سارے اکابر یہی کرتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔تو سوال یہ ہے کہ جب ”ید“ کا معنی قدرت کرنا معتزلہ کا مذہب ہے توپھر اھل السنۃ والجماعۃ”ید“ کا معنی قدرت کیوں کرتے ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ”ید“ سے مراد قدرت یہ صرف معتزلہ کا مذہب نہیں ہے بلکہ متأخرین اھل السنۃ والجماعۃ اکابر کا بھی ہے۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ ”ید“ سے مراد قدرت ہے تو پھر واقعی سوال ہو گا کہ متأخرین اھل السنۃ والجماعۃ کے ہاں بھی ”ید“ کا معنی قدرت اور معتزلہ جو گمراہ ہیں ان کے ہاں بھی ”ید“ کا معنی قدرت ہو تو دونوں میں فرق کیا ہوا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ متأخرین اھل السنۃ والجماعۃ اھلِ حق کے ہاں ”ید“ کا معنی قدرت ہے درجہ ظن اور درجہ گمان میں جبکہ معتزلہ کے ہاں ”ید“ کا معنی قدرت ہے درجہ یقین میں۔ اس لیے دونوں میں بہت بڑا فرق ہے ۔
اور ”ید“ کا معنی ہاتھ کرنا متقدمین اور متاخرین اھل السنۃ والجماعۃ میں سے کسی کا مسلک نہیں۔ سن تین سو ہجری سے پہلے کے علماء متقدمین ہیں اور سن تین سو ہجری کے بعد کے علماء کو متأخرین کہا جاتا ہے ۔ بسا اوقات”ید“ کا معنی بعض حضرات ہاتھ کرتے ہیں تو وہ لغت کو دیکھ کر کرتے ہیں، اس کا اصطلاح ِشرع سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
احسنُ عملاً اور اکثر عملاً میں فرق:
﴿الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفُوۡرُ ۙ﴿۲﴾﴾
اللہ وہ ذات ہے جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تا کہ آزمائے کہ تم میں سے کس کے اعمال زیادہ اچھے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ غالب ہے اور حکمت والا ہے۔
یہاں موت کو حیات پر مقدم کیا حالانکہ حیات پہلے ہے اور موت بعد میں، اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو اللہ نے پیدا کیا ہے تاکہ موت کی تیاری کرے اور تیاری وہی کر سکتا ہے جو موت کو ذہن میں رکھ کر زندگی گزارے۔ یہ موت بمنزلہ شرط کے ہے آخرت کی تیاری کے لیے اور حیات بمنزلہ ظرف کے ہے آخرت کی تیاری کےلیے یعنی حیات وہ جگہ ہے جہاں انسان رہ کر کام کرتا ہے اگر اللہ کسی کو زندگی نہ دے تو تیاری کیسے کرے گا ؟اور موت نہ رکھی ہو تو تیاری کیوں کرے گا؟ تو موت بمنزلہ شرط کے ہے۔
﴿لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا﴾
ایک ہوتا ہے احسنُ عملاً اور ایک ہوتا ہے اکثر ُعملاً۔ یہاں احسنُ عملاً فرمایا ہے اکثر ُعملاً نہیں فرمایا۔ قیامت کے دن اعمال کا وزن ہو گا اور وزن کی بنیا د کمیت نہیں بلکہ کیفیت ہو گی۔ یہ بات میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ احادیث میں جہاں وزنِ اعمال کی بات ہے وہاں یہ نہیں ہے کہ اعمال کو قیامت کے دن گنا جائے گا بلکہ یہ ہے کہ اعمال کو قیامت کے دن تولا جائے گا۔ قیامت کے دن اعمال کو نہ گننا بلکہ وزن کرنا اس بات کی علامت ہے کہ وزن کی بنیا د کیفیت ہے کمیت نہیں ہے۔ اس لیے یہ نہیں فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ یہ دیکھے گا کہ تم میں سے کس نے اعمال زیادہ کیے ہیں، بلکہ فرمایا کہ اللہ یہ دیکھے گا کہ اعمال کس نے زیادہ اچھے کیے ہیں؟
سببِ تخلیقِ کائنات:
یہاں پر تو نہیں دوسرے ایک مقام پر مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے معارف القرآن میں لکھا ہے کہ
﴿لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا﴾
ا س بات کی دلیل ہے کہ کائنات کی تخلیق کا سبب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ کیوں، اس لیے کہ کائنات میں سب سے
احسنُ عملاً
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔
اکثرُ عملاً
تو ہو سکتے ہیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر احسنُ عملاً کوئی نہیں ہو سکتا۔
اور یہ جو ہے کہ موت اور حیات کو پیدا فرمایاتو حیات کے درجات ہیں۔ حیات کا ایک درجہ ہے کہ جس میں حس ہو کہ محسوس کرے اور ایک درجہ ہے کہ جس میں حرکت ہو کہ چلے پھرے اور ایک درجہ یہ ہے کہ اس میں نمو ہو کہ بڑھے۔ اب دیکھو! انسان میں حس بھی ہے، حرکت بھی ہے اور بڑھنا بھی ہے اور درخت نباتات میں نمو ہوتا ہے لیکن حرکت نہیں ہوتی دائیں بائیں کی۔ تو انسان، حیوان اور نباتات ان میں حیات کی تینوں قسمیں پائی جاتی ہیں؛ حس ،حرکت اور نمو اور یہ جو جمادات ہیں ان میں یہ تینوں قسمیں نہیں پائی جاتیں، ہاں البتہ ایک درجہ کی حیات ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں ۔
تقلید واجب ہے:
﴿ وَ قَالُوۡا لَوۡ کُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ مَا کُنَّا فِیۡۤ اَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ ﴿۱۰﴾ فَاعۡتَرَفُوۡا بِذَنۡۢبِہِمۡ ۚ فَسُحۡقًا لِّاَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ ﴿۱۱﴾﴾
وہ لوگ کہیں گے کہ کاش ہم کسی کی بات سن لیتے یا خود ہی عقل سے کام لے لیتے تو آج جہنم میں داخل نہ ہوتے! وہاں اپنے گناہ کا اعتراف کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ہو گا کہ دفع ہو جاؤ اہل جہنم !
تقلید کرنا واجب ہے اور تقلید کے بغیر انسان کبھی بھی شریعت پر عمل نہیں کر سکتا۔ عمل کرنا تو دور کی بات ہے تقلیدکے بغیر انسان کو عمل مل ہی نہیں سکتا ۔
درجہ حفظ کے بچوں کو مناظرہ سکھانا:
میرا ہری پور ایک جگہ بیان تھا۔ میں وہاں سے گزرتےہوئے ایک مدرسہ میں رکا تو درجہ حفظ کے طلبہ تھے۔ قاری صاحب نے فرمایا کہ آپ ان میں بیان کر دیں تو میں نے قاری صاحب سے عرض کیا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کے طلبہ کو مناظرہ سکھاؤں؟ مجھے وہ کہنے لگے کہ بچے کیسے سیکھیں گے؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے آپ سے یہ سوال تو نہیں کیا کہ آپ کے بچے مناظرہ سیکھیں گے یا نہیں سیکھیں گے؟ میں نے تو آپ سے یہ سوال کیا ہے کہ مناظرہ سکھاؤں یا نہ سکھاؤں ؟آ پ کہہ دیں کہ سکھا دو یا کہہ دیں کہ نہ سکھاؤ۔ انہوں نے کہا کہ آپ سکھا سکتے ہیں تو سکھا دیں!
میں نے بچوں سے کہا کہ آپ مسجد سے باہر نکلیں گے، ایک شخص آپ سے پوچھے گا: آپ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھتے ہیں؟ آپ نے کہنا ہے کہ نہیں۔ وہ پوچھے گا: کیوں نہیں پڑھتے؟ آپ نے کہنا ہے کہ ہمیں آتی نہیں ہے۔ تو وہ کہے گا کہ میں سکھا دوں؟ آپ کہیں کہ جی سکھا دیں تو ہم پڑھ لیں گے۔ جب وہ آپ کو فاتحہ سکھا نی شروع کرے تو وہ کہے گا: الف لام زبر” اَلْ“ تو ایک بچے نے کہنا ہے: الف لام پیش ”اُلْ“ وہ کہے گا: نہیں، الف لام زبر ” اَلْ“ آپ نے کہنا ہے: الف لام زیر ”اِلْ“ تو وہ کہے گا کہ آپ ” اَلْ“ کیوں نہیں پڑھتے؟ آپ اس سے پوچھو کہ انکل ! آپ ”اُلْ“ کیوں نہیں پڑھتے، ”اِلْ“ کیوں نہیں پڑھتے؟ وہ کہے گا کہ دیکھو! یہاں زبر لکھا ہوا ہے۔ آپ نے کہنا ہے کہ یہ زبر اللہ نے لکھا ہے؟ اللہ کے رسول نے لکھا ہے؟ کس نے لکھا ہے، اس کا نام بتاؤ؟ اب اس کو نام کا تو پتا نہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکے گا کہ حجاج بن یوسف نے لکھوایا تھا۔ لکھنے والے کا تو اس کو بھی نہیں پتا ۔تو آپ نے کہنا ہے کہ حجاج بن یوسف تو کوفہ کا ظالم آدمی تھا، ہم تو کوفہ کے نیک آدمی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بات بھی نہیں مانتے تو ظالم کی بات کیوں مانیں؟ یہ ان کا سبق انہی کوسنائیں۔
اس لیے کسی نیک آدمی کی بات کرو اور ہمیں بتاؤ کہ ”اَلْحَمْدُ“ کے شروع میں جو زبر ہے یہ زبر کیوں ہے؟ اصل میں تو ہمزہ ہوتا ہے نا، ابتدائے کلام میں مفتوح ہوتا ہے لیکن اس کو تو ہر بندہ نہیں سمجھتا، لوگ اس کو الف ہی کہتے ہیں اس لیے میں اس کو الف کہہ کر بات سمجھا دیتا ہوں۔ اب وہ پھنس جائے گا۔ اب دیکھو! اگر کسی شخص کی تقلید نہ کرو تو قرآن کریم کے شروع میں جو ہمزہ ہے اس پر جو زبر ہے وہ بھی ثابت نہیں ہوتی تقلید کے بغیر ۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ یہ تقلید نہیں ہے بلکہ ہمارے پاس تو دلیل ہے۔ تو اس سے پوچھو کہ کیا دلیل ہے؟ وہ کہے گا کہ نحو کا اصول ہے کہ ہمزہ وصلی ابتدائے کلام میں مفتوح ہوتا ہے۔ تو اس سے پوچھو کہ یہ اصول کس نے دیا ہے؟ کسی کا نام تو لو! تو وہ بندہ ابو الاسود دؤلی کا نام لے یا کسی کا بھی نام لے تو اسے کہیں کہ یہ نہ اللہ ہے اور نہ اللہ کا رسول ہے ۔ یہ تو تقلید ہی ہوئی نا ۔ تقلید کے بغیر ہمزہ کا زبر ثابت کر کے دو! نہیں کرسکتے تو پورے قرآن کو تقلید کے بغیر کیسے ثابت کرو گے؟ پھر شریعت کے اعمال تو بعد کا مسئلہ ہے، تقلید کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
تقلید نہ کرنے کے نقصانات:
لیکن جو شخص تقلید نہ کرے اس کا ایک نقصان دنیا میں ہے، ایک قبر میں ہے اور ایک آخرت میں۔ دنیا میں نقصان یہ ہوتا ہے کہ اسے شریعت نہیں ملتی جس کی وجہ سے گمراہ ہی رہتا ہے۔ قبر میں نقصان کیا ہوتا ہے؟ صحیح بخاری میں ہے کہ جب مردے کو قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں:
مَا كُنْتَ تَقُوْلُ فِيْ هٰذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟
کہ تمہارا اس شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟ وہ اس کا جواب نہیں دے پاتا تو کہتا ہے
”لَا أَدْرِيْ كُنْتُ أَقُوْلُ مَا يَقُوْلُ النَّاسُ“
مجھے کچھ پتا نہیں ہے ، جو لوگ کہتے تھے میں بھی وہی کہتا تھا۔ تو اسے کہا جاتا ہے
”لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ“
پھر اسے لو ہے کے ہتھوڑوں سے کنپٹیوں پر مارا جاتا ہے تو وہ چیختا ہے، اس کی چیخ و پکار کو جن و انس کے علاوہ ساری مخلوق سنتی ہے ۔
صحیح البخاری، رقم: 1338
علامہ کرمانی رحمہ اللہ شارح بخاری نے
”لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ“
کا معنی لکھا ہے :
(قَوْلُہٗ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ) اَیْ لَا عَلِمْتَ بِنَفْسِکَ بِالاِسْتِدْلَالِ وَ لَا تَلَوْتَ الْقُرْآنَ اَوِ الْمَعْنٰی لَا اتَّبَعْتَ الْعُلَمَاءَ بِالتَّقْلِیْدِ فِیْمَا یَقُوْلُوْنَ.
حاشیۃ صحیح البخاری: ج1 ص 178 طبع قدیمی کتب خانہ کراچی
کہ تو دلیل کی بنیاد پر بات جانتا بھی نہیں تھا اور علماء کی تقلید کر کے بات مانتا بھی نہیں تھا ۔
اور آخرت کے دن ترک تقلید کا نقصان کیا ہو گا؟ تارکینِ تقلید کہیں گے:
﴿وَ قَالُوۡا لَوۡ کُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ مَا کُنَّا فِیۡۤ اَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ ﴿۱۰﴾﴾
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ تفسیر عزیزی میں لکھتے ہیں:
”بعض حضرات مفسرین کرام نے
”نَسۡمَعُ “
کو تقلید پر اور
”نَعۡقِلُ“
کو تحقیق واجتہاد پر محمول کیا ہے۔ ان دونوں لفظوں سے یہی مراد ہے کہ یہ دونوں نجات کے ذریعے ہیں۔ “
تفسیرعزیزی اردو : ج3 ص23
”نَعۡقِلُ“
کا معنی ہوتا ہے دلیل سے خود بات سمجھنا اور
”نَسۡمَعُ “
کا معنی کہ دلیل نہیں سمجھ سکتے تھے تو سمجھانے والے کی بات توجہ سے سن لیتے اور مان لیتے۔ اسی کا نام تقلید اور اجتہاد ہے۔ تو ترکِ تقلید کا نقصان آخرت میں یہ ہے کہ انسان جہنم میں جائے گا۔
﴿ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ ذَلُوۡلًا فَامۡشُوۡا فِیۡ مَنَاکِبِہَا وَ کُلُوۡا مِنۡ رِّزۡقِہٖ ؕ وَ اِلَیۡہِ النُّشُوۡرُ ﴿۱۵﴾﴾
ذلول کہتے ہیں ایسے جانور کو جو سواری کے لیے خود کو پیش کرے اور سرکشی نہ کرے، ایسا جانور جو آرام سے سوار کو اپنے اوپر بٹھائے اور آگے ہے
﴿فَامۡشُوۡا فِیۡ مَنَاکِبِہَا﴾
مناکب کہتے ہیں کندھے کو۔ بیٹھتے تو جانور کی پیٹھ پر ہیں، کندھوں پر نہیں بیٹھتے لیکن یہاں کندھوں کا ذکر ہے۔ دراصل یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ ایسا جانور جو اپنے کندھے بھی پیش کر دے تو بتاؤ وہ کتنا مطیع ہو گا؟ تو یہ سمجھایا ہے کہ دیکھو! زمین کو اللہ نے اس جانور کی طرح بنایا ہے کہ جو اپنے کندھے بھی پیش کر دے یعنی اللہ نے کیسے زمین کو تمہارے لیے مطیع کر دیاہے ۔
اللہ کو صرف عرش پر ماننے والوں کا علمی جائزہ:
﴿ءَاَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِی السَّمَآءِ اَنۡ یَّخۡسِفَ بِکُمُ الۡاَرۡضَ فَاِذَا ہِیَ تَمُوۡرُ ﴿ۙ۱۶﴾ اَمۡ اَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِی السَّمَآءِ اَنۡ یُّرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ حَاصِبًا ؕ فَسَتَعۡلَمُوۡنَ کَیۡفَ نَذِیۡرِ ﴿۱۷﴾﴾
کیا تم اس اللہ کی اس بات سے بے خوف ہو جو آسمان میں ہے کہ وہ تم کو زمین میں دھنسا دے اور زمین تمہیں نگل جائے، کیا تم اس اللہ کی اس بات سے بے خوف ہو جو آسمان میں ہے کہ وہ تمہارے اوپر پتھر برسائے ۔ تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا ہے۔
اب یہاں دیکھو! اللہ کی ذات کے بارے میں فرمایا
”مَّنۡ فِی السَّمَآءِ “
کہ وہ اللہ جو آسمان میں ہے۔ تو وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اللہ عرش پر ہے، یہ دونوں آیتیں ان کے خلاف ہیں کیوں کہ آسمانوں پر کرسی ہے، کرسی پر سمندر ہے، سمندر پر عرش ہے یہ یہاں
”مَّنۡ فِی السَّمَآءِ “
فرمایا۔ اگر
”عَلَی الْعَرْشِ“
ہو گا تو
”مَّنۡ فِی السَّمَآءِ “
کیسے ہو گا؟ یہ تو قرآن کا ظاہر بتا رہا ہے کہ اللہ عرش پر نہیں ہے بلکہ آسمان میں ہے! اور جہاں تک معاملہ ہے
﴿اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی﴾
تو اس کوبہت سارے علماء نے متَشابہات میں سے لکھا ہے جبکہ یہ آیت
﴿مَّنۡ فِی السَّمَآءِ﴾
تو متَشابہات میں سے بھی نہیں ہے۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کا عرش پر ہونا قرآن کے ظاہر کے مطابق ہے تو اس سے بڑا دنیا میں جھوٹ کیا ہو گا؟ ظاہر کے مطابق کیسے ہے ؟ زیادہ سے زیادہ اگر آپ نے کہنا ہی ہے تو یہ کہہ دو کہ قرآن کریم کی بعض آیات کے ظاہر کے مطابق ہے، یہ تو نہ کہو کہ ظاہر کے مطابق ہے۔ میں اس لیے آپ حضرات کو سمجھاتا ہوں کہ بعض لوگ اعتدال کا نام استعمال کرتے ہیں لیکن در حقیقت ہم سے زیادہ متشدد ہوتے ہیں اور نام اعتدال کا ہوتا ہے۔
بس یہ چند آیتیں عقائد کے متعلقہ تھیں جو میں نے عرض کر دی ہیں ۔ اللہ ہمیں صحیح عقائد و نظریات پر قائم رکھے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․