سورۃ التحریم

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ التحریم
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللہُ لَکَ ۚ تَبۡتَغِیۡ مَرۡضَاتَ اَزۡوَاجِکَ ؕ وَ اللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱﴾﴾
سورت کا شانِ نزول:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ عصر کی نمازکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے کھڑے تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے پاس تشریف لے جاتے، یہ آپ کا معمول تھا۔ ایک دن حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور معمول سے زیادہ ٹھہرے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد پیش کیا۔ آپ نے شہد پی لیا۔ اس کے بعد حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کی باری تھی۔ تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے جس کے پاس تشریف لائیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہے کہ حضور! آپ نے مغافیر پیا ہے! مغافیر ایک گوند ہوتا ہے اور اس میں خاص قسم کی کچھ بو بھی ہوتی ہے۔
چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے کہا کہ حضور! آج تو آپ کے منہ سے گوند مغافیر کی بو آ رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، میں نے تو شہد پیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ مکھی نے مغافیر گوند چوسا ہو اور اس سے شہد بناہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں قسم کھاتا ہوں کہ میں آئندہ شہد نہیں پیوں گا اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ زینب کو یہ بات نہ بتانا، اس کا دل دکھے گا۔ انہوں نے آگے بات بتا دی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اور یوں بات آگے نکل گئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آ گئی، ساری بات علم میں آ گئی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں ایک بات آگے بتانے سے منع کیا تھا لیکن تم نے پھر آگے بتا دی، تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
بعض روایات میں ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دینے کا بھی ارادہ کیا تھا کہ میں نےمنع کیا اور پھر بھی تم نے ایسا کیا! جبرائیل امین علیہ السلام حاضر ہوئے، کہا کہ حضرت حفصہ کو طلاق نہ دیں، یہ بہت نیک عورت ہیں، نمازیں بہت پڑھتی ہیں، ان کو کچھ نہ کہیں! تو یہ اس کا خلاصہ ہے ۔ اللہ کی طرف سے حکم آ گیا کہ آپ نے جو قسم کھائی ہے اس کا کفارہ ادا کریں اور اپنی قسم کو توڑ دیں ۔
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللہُ لَکَ ۚ تَبۡتَغِیۡ مَرۡضَاتَ اَزۡوَاجِکَ ؕ وَ اللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱﴾﴾
اے نبی! آپ ان چیزو ں کو کیو ں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہیں اور وہ بھی اپنی بیویوں کی خوشنودی کے لیے، ﴿وَ اللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴾ یہ جو آپ نے کیا ہے یہ گناہ نہیں ہے، گناہ ہوتا ہم تب بھی معاف کر دیتے!
یہاں بظاہر اسلوب ایسے ہے کہ جیسے آپ سے جواب طلبی ہو رہی ہے کہ آپ نے ایسا کیو ں کیا! حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ حقیقت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ نے شفقت والا معاملہ کیا ہے کہ ہم نے شہد حلال کیا ہے تو آپ نے اپنے اوپر کیوں حرام کیا ہے؟ اب کفارہ دیں، قسم توڑیں، کیو ں آپ حلال کو حرام کرتے ہیں؟ یہ شفقت کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن اسلوب ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے جواب طلبی ہو، اس لیے فرمایا
﴿وَ اللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴾
کہ اگر ہو بھی تو ہم رحم کرنے والے ہیں۔
الیاس! تم نے خون کیوں دیا؟
میں اس پر اپنا ایک واقعہ آپ کو سناتا ہوں، شاید پھر آپ کو جلدی بات سمجھ آ جائے۔ میں جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں درجہ خامسہ میں پڑھتا تھا۔ وہاں ایک طالب علم تھے ڈی آئی خان کے مولانا عبید اللہ صاحب، مدرسہ کے ساتھ ایک بڑا گراؤنڈ تھا اس میں فٹبال کھیلتے تھے عصر کے بعد۔ مولانا عبید اللہ کھیل کے دوران دوڑتے ہوئے دیوار کے ساتھ لگے تو بازو ٹوٹ گیا، خون نکلا تو اٹھا کر ہسپتال لے گئے۔ لڑکوں نے خون دینا چاہا لیکن گروپ نہیں ملا، میرا گروپ مل گیا تو میں نے خون دے دیا۔ دوسرے دن ظہر کے بعد میں سبق میں تھا تو استاذ جی شیخ نذیر صاحب رحمہ اللہ کلاس کے باہر تشریف لائے اور مجھے بلایا: الیاس! ادھر آؤ۔ مجھے باہر لے گئے اور فرمایا: تو نےخون کیوں دیا؟! اور کوئی لڑکانہیں تھا؟! اس طرح مجھے ڈانٹا ۔
میں جس مدرسے میں پڑھتا تھا تو ایسے پڑھتا تھا کہ اساتذہ کو بھی مزا آتا تھا۔ پھر مجھے کمرے میں لے گئے، دو سو روپے دیے اور کہا کہ ان سے دودھ پینا! پھر مجھے کھجوریں دیں، پھر کہا کہ میرے کمرے میں پنجیری پڑی ہے، تم کھا لینا۔ اب دیکھنے والا کیا سمجھ رہا ہے کہ استاذ ڈانٹ رہا ہے لیکن یہ ڈانٹنا نہیں تھا، یہ شفقت تھی کہ تجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
تو اللہ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے شفقت فرما رہے ہیں کہ آپ نے کیوں حرام کیا؟ آپ شہد پیا کریں! اب بتاؤ شفقت ہے کہ نہیں؟ لیکن اس پوری بات کو نہ سمجھیں تو بندہ سمجھتا ہے کہ شاید حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے غلطی ہو گئی ہے کہ آپ نے شہد کو حرام فرما لیا ہے۔
حلال کو حرام سمجھنے کے تین درجے:
کسی حلال چیز کو حرام کرنے کے تین درجے ہیں:
[1 ]: حلال کو اعتقاداً حرام سمجھے، یہ کفر ہے۔
[2]: اعتقاداً تو حرام نہ سمجھے لیکن کسی مصلحت کی وجہ سے قسم کھا کر حرام کر لے، یہ گنا ہ تو نہیں ہے لیکن مناسب بھی نہیں ہے اور اگر بغیر کسی مصلحت اور فائدے کے حرام کر لے تو یہ گناہ ہے۔
[3]: اعتقاداً بھی حلال سمجھے اور قسم کھا کر حرام بھی نہ کرے البتہ کسی عذر کی وجہ سے اس کے ساتھ معاملہ ایسا کرے کہ جیسے حرام سمجھتا ہے۔ جیسے ایک آدمی شوگر کا مریض ہو، اس سے پوچھا جائے کہ چائے پیو گے؟ وہ کہے کہ میں نے تو چائے اپنے اوپر حرام کی ہوئی ہے، میں نےنہیں پینی! اب اس طرح حلال کو حرام کرنا یہ حرام نہیں ہے یعنی عملاً ایسے ہے کہ گویا حرام ہے۔ایک بندہ کہتا ہے کہ حرام ہے کہ میں نے دس سال سے یہ بات کی ہو! کسی مصلحت و ضرورت کی وجہ سے ایسا کہنا جائز ہے لیکن بہتر نہیں ہے۔ تو ایسا ہو سکتا ہے کہ کسی عذر کی وجہ سے حلال چیز کو چھوڑ دیا ہو، کبھی عذر بیماری ہوتی ہے اور کبھی عذر باطنی اصلاح ہوتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی تھی مصلحت کی وجہ سے تو فرمایا کہ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔کیا محبت کا انداز ہے اللہ کا اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ!
﴿قَدۡ فَرَضَ اللہُ لَکُمۡ تَحِلَّۃَ اَیۡمَانِکُمۡ ۚ وَ اللہُ مَوۡلٰىکُمۡ ۚ وَ ہُوَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۲﴾﴾
اللہ نے تمہاری قسموں سے نکلنے کا طریقہ مقرر فرما دیا ہے، اللہ تمہارا مولا ہے، اللہ جانتا ہے حکمتوں والا ہے۔
یعنی آپ اپنی قسموں کوتوڑیں اور اس کا کفار ادا کریں۔
﴿وَ اِذۡ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعۡضِ اَزۡوَاجِہٖ حَدِیۡثًا ۚ فَلَمَّا نَبَّاَتۡ بِہٖ وَ اَظۡہَرَہُ اللہُ عَلَیۡہِ عَرَّفَ بَعۡضَہٗ وَ اَعۡرَضَ عَنۡۢ بَعۡضٍ ۚ فَلَمَّا نَبَّاَہَا بِہٖ قَالَتۡ مَنۡ اَنۡۢبَاَکَ ہٰذَا ؕ قَالَ نَبَّاَنِیَ الۡعَلِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ ﴿۳﴾﴾
اس وقت کو یاد کرو کہ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی سے کوئی راز کی بات کی تھی اور جب اس بیوی نے آگے بات بتائی تو اللہ نے نبی کو بتا دی۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے پوری بات بتا دی لیکن اللہ کے نبی نے پھر بھی یہ پوری بات بیوی سےنہیں کی تاکہ ان کو زیادہ شرمندگی نہ ہو، بس اتنا کہا کہ تم نے اچھا نہیں کیا، ہمارا راز فاش کیا، تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس بیوی نے عرض کیا کہ حضور! آپ کو کس نے بتایا؟ فرمایا: مجھے اللہ نے بتایا جو علیم اور خبیر ذات ہے۔
محبتِ رسول مطلوب ہے:
﴿اِنۡ تَتُوۡبَاۤ اِلَی اللہِ فَقَدۡ صَغَتۡ قُلُوۡبُکُمَا﴾
آیت سمجھنا ذرا! اس سے ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن پر کبھی شبہ نہیں ہو گا۔ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما نے ایسا کام کیو ں کیا تھا؟ اصل میں وہ چاہتی تھیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت زیادہ سے زیادہ حاصل کریں اور نبی کی محبت زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا یہ شریعت میں مطلوب ہے۔ ایسے طریقے اختیار کرنا کہ جس سے کوئی بندہ پیغمبر کا محبوب بنے یہ مطلوب ہے لیکن اس میں ایسا طرزِ عمل اختیار کرنا کہ جس سے دوسرے کی حق تلفی کا خدشہ ہو تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔ تو فرمایا:
﴿اِنۡ تَتُوۡبَاۤ اِلَی اللہِ فَقَدۡ صَغَتۡ قُلُوۡبُکُمَا﴾
کہ عائشہ اور حفصہ! تم نے یہ سارا کام کیوں کیا تاکہ حضور کی محبت ہم سے زیادہ ہو، زینب سے کم ہو تو تم توبہ کرو !
”فَقَدۡ صَغَتۡ“
تمہیں توبہ کرنی چاہیے ! یہ ”ف“ تعلیلیہ ہے ، مطلب کہ تمہیں توبہ کا حکم اس لیے ہے کہ تمہارے دل مائل ہو گئے تھے اس بات کی طرف کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب بن جائیں اور زینب کی محبت کم ہو جائے۔ اگر زینب کی محبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں کم ہوئی تو زینب کے حقوق میں کمی کا خدشہ ہے، اس لیے تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اللہ تعالی سے معافی مانگو!
﴿اِنۡ تَتُوۡبَاۤ اِلَی اللہِ﴾
کہ اگر تم نے توبہ کی، یہاں ”اِنۡ“ شرطیہ کی جزاء محذوف ہے یعنی ” اگر تم نے توبہ کی تو بہت اچھاہے۔“
﴿وَ اِنۡ تَظٰہَرَا عَلَیۡہِ فَاِنَّ اللہَ ہُوَ مَوۡلٰىہُ وَ جِبۡرِیۡلُ وَ صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ بَعۡدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ ﴿۴﴾﴾
اگر توبہ نہ کرو اور تم چاہو کہ ہم ایسی کوشش کریں کہ نبی پر غالب آ جائیں تو یہ نہیں ہو سکتا! کیوں ، اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست تو اللہ تعالیٰ ہیں اور جبرائیل علیہ السلام ہیں اور نیک ایمان والے ہیں، پھر فرشتے آپ کے مددگار ہیں۔ تو تم ایسی باتوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب نہیں آ سکتیں!
﴿عَسٰی رَبُّہٗۤ اِنۡ طَلَّقَکُنَّ اَنۡ یُّبۡدِلَہٗۤ اَزۡوَاجًا خَیۡرًا مِّنۡکُنَّ مُسۡلِمٰتٍ مُّؤۡمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّ اَبۡکَارًا ﴿۵﴾﴾
اور اگر تمہارے ذہن میں یہ ہو کہ
﴿لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ﴾
ہم کائنات میں سب سے بہترین عورتیں ہیں، ہم سے بہتر کون سی عورت ہو گی جس سے حضور نکاح کریں گے! فرمایا کہ ٹھیک ہے ابھی تو تم بہتر ہو لیکن جب اللہ فیصلہ فرمائیں گے تو تم سےبھی بہتر عورتیں ہو جائیں گی۔
﴿عَسٰی رَبُّہٗۤ اِنۡ طَلَّقَکُنَّ﴾....
یہ اشکال کا جواب ہے کہ نبی کی بیویاں تو سب سے بہتر ہوتی ہیں تو ان سے بہتر کون سی عورت ہو سکتی ہے؟ فرمایا: اگرچہ اس وقت تو تم سب سے بہتر ہو اور تم سے بہتر دنیا میں کوئی عورت موجود نہیں ہے لیکن جب نبی تمہیں طلاق دینے کا فیصلہ کریں گے تو پھر اللہ تم سے بہتر عورتیں بنا دیں گے یا کچھ عورتوں کو تم سے بہتر بنا دیں گے، وہ نبی کے نکاح میں آ جائیں گی تو اللہ تمہارے بدلے میں اپنے نبی کو دیں گے، ایسی بیویاں
”مُسۡلِمٰتٍ“
جو اطاعت بھی کریں،
”مُّؤۡمِنٰتٍ“
ان کے عقیدے بھی ٹھیک ہوں،
”قٰنِتٰتٍ“
فرمانبرداری بھی کریں،
”تٰٓئِبٰتٍ“
اللہ کی طرف متوجہ بھی ہوں،
”عٰبِدٰتٍ“
عبادت بھی کریں،
”سٰٓئِحٰتٍ“
روزے بھی رکھیں،
”ثَیِّبٰتٍ وَّ اَبۡکَارًا“
ان میں سے کچھ باکرہ؛ کنواری ہوں گی اور کچھ ثیبہ؛ پہلےسے شادی شدہ ہوں گی۔
اپنی اور گھر والوں کی فکر کیجیے!
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا وَّ قُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ عَلَیۡہَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعۡصُوۡنَ اللہَ مَاۤ اَمَرَہُمۡ وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ ﴿۶﴾﴾
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے، اس آگ پر ایسے فرشتے مامور ہیں جو تندخو اور سخت مزاج ہیں، اللہ جو حکم انہیں دے اس میں اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے!
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! خود کو جہنم کی آگ سے بچائیں یہ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اہل وعیال کو کیسے بچائیں؟ فرمایا کہ خود گناہوں سے بچو اور ان کو بھی گناہو ں سے بچاؤ، خود نیک اعمال کرو اور ان کو بھی نیک اعمال پہ لاؤ تو یہ بھی آگ سےبچ جائیں گے۔
توبۃ نصوحا کیا ہے؟
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا﴾
اے ایمان والو! خالص توبہ کرو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے خالص توبہ یہ ہے کہ:
1: جو گناہ کیا ہے اس پر آدمی کو ندامت ہو جائے۔
2: جو فرض چھوڑ دیا تھا اس کی قضا کر لے۔
3: کسی کا مال لوٹا تھا تو اس کو واپس کر دے۔
4: کسی سے زیادتی کی تھی تو اس سے معافی مانگ لے ۔
5: آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کر لے۔
6: اور جس طرح نفس کو گناہ کرتے دیکھا تھا اسی طرح نفس کو اللہ کی اطاعت کرتے بھی دیکھے! یہ ہے توبہ نصوحا۔
﴿عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ﴾
قرآن کریم میں بار بار یہ بات آئے گی کہ جب تم خالص توبہ کرو گے تو تمہیں امید رکھنی چاہیے کہ اللہ تمہارے گناہوں کو معاف فرما دیں گے۔ تو جب اللہ نے گناہو ں کے معاف کرنے کا وعدہ کیا ہے تو پھر امید نہیں یقین ہونا چاہیے، پھر ”عَسٰی“ یعنی امید کا لفظ کیوں لاتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان نیک عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نیک عمل پر دنیا میں نعمتیں دیتے ہیں۔ اس نیک عمل کے بدلے میں نعمت تو مل گئی، اب جنت کس بات کی؟! اگرچہ ہم نے وعدہ کیا تھا لیکن جو تم نے عمل کیا تھا اس کا بدلہ تو تمہیں دنیا میں مل گیا تھا، اس لیے اب تمہیں امید ہونی چاہیے۔
پیغمبر کو جہاد اور سختی کا حکم:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الۡکُفَّارَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ اغۡلُظۡ عَلَیۡہِمۡ﴾
یہاں اللہ نے دوحکم دیے ہیں:
1: جہاد کا
2: سخت ہونے کا
جہاد کرنے کا تعلق کفار کے ساتھ ہے اور سخت ہونے کا تعلق منافقین کے ساتھ ہے یعنی کفار سے جہاد کرو اور منافقین پر سختی کرو ۔
اب کسی کےذہن میں یہ بات آئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو سختی نہیں فرماتے تھے تو یہ بالکل غلط بات ہے۔ جب تک اسلام کا غلبہ نہیں تھا تو اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نرمی فرمائی ہے۔ پارہ نمبر گیارہ کے پہلے اور دوسرے رکوع میں آپ تفسیر ابن کثیر اٹھا کر دیکھ لیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے اور ایک ایک منافق کا نام لے کر مسجد سے نکالا
”اُخْرُجْ یَا فُلَانُ! اُخْرُجْ یَا فُلَانُ!“
نکل جاؤ مسجد سے ! جب تک غلبہ نہیں تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت نرمی فرمائی ہے اور جب غلبہ ہو گیا تو پھر صفوں سے باہر نکال دیا۔ اس لیے یہ غلطی کبھی بھی نہ کرنا کہ مکی دور کی بات لے کر تم مدنی دور پر فٹ کر دو! اللہ ہم سب کو بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دو مومن اور دو کافر عورتوں کی مثال:
﴿ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوا امۡرَاَتَ نُوۡحٍ وَّ امۡرَاَتَ لُوۡطٍ﴾
حضرت نوح علیہ السلام نبی ہیں اور بیوی کافرہ ہے، نام واغلہ ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام نبی ہیں اور بیوی کافرہ ہے، اس کا نام والہہ ہے۔ دونوں کفر پر تھیں اور پیغمبر کا ساتھ نہیں دیا تو دونوں جہنم میں گئیں ۔
﴿وَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا امۡرَاَتَ فِرۡعَوۡنَ﴾
فرعون کی بیوی آسیہ کافر کی بیوی ہیں لیکن نبی کا ساتھ دیا تو جنت میں گئیں ۔
﴿وَ مَرۡیَمَ ابۡنَتَ عِمۡرٰنَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا فَنَفَخۡنَا فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ صَدَّقَتۡ بِکَلِمٰتِ رَبِّہَا وَ کُتُبِہٖ وَ کَانَتۡ مِنَ الۡقٰنِتِیۡنَ ﴿٪۱۲﴾﴾
حضرت مریم علیہ السلام کا خاوند نہیں تھا۔ ان کے والد مسجد اقصیٰ کے امام تھے۔ بہت بڑے آدمی تھے۔
اللہ نے دو مومن عورتوں اور دو کافرہ عورتوں کی مثالیں دی ہیں۔ اللہ ہم سب کو نیک بنا دیں اور ہماری عورتوں کو بھی نیک بنا دیں اور ہم سب کو شریعت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دیں۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․