سورۃ الدھر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الدھر
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿ہَلۡ اَتٰی عَلَی الۡاِنۡسَانِ حِیۡنٌ مِّنَ الدَّہۡرِ لَمۡ یَکُنۡ شَیۡئًا مَّذۡکُوۡرًا ﴿۱﴾﴾
انسان پر ایک ایسا وقت گزرا ہے کہ یہ بے نام ونشان تھا۔
”ھَلْ“ برائے تحقیق:
یہاں یہ بات سمجھنا کہ
”ہَلۡ“
اصل میں تو استفہام کے لیے آتا ہے لیکن کبھی کبھی ایسی چیز جو بالکل واضح اور کھلی ہو تو اس کو بھی
”ہَلۡ“
سے تعبیر کر دیتے ہیں۔ مقصد تاکید ہوتا ہے، مقصد استفہام نہیں ہوتا۔ جیسے ہم کہتے ہیں کہ دیکھ سورج نکلا ہوا نہیں ہے؟ اس کا معنی کہ ضرور نکلا ہوا ہے۔ میں نے کل تجھے یہ بات نہیں کہی تھی؟اس کا مطلب یہ ہےکہ ضرور کہی تھی۔ اس لیے بعض مفسرین نے اس مقام پر فرمایا ہے کہ یہاں
”ہَلۡ“
بمعنی قد کے ہے یعنی تحقیق انسان پر ایسا وقت گزرا ہے کہ وہ بے نام ونشان تھا۔
انسانی تخلیق کا مادہ:
﴿اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ ٭ۖ نَّبۡتَلِیۡہِ فَجَعَلۡنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿۲﴾ اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا ﴿۳﴾﴾
ہم نے انسان کو ایسے نطفے سے پیدا کیا ہےجو ملا جلا ہوتا ہے۔ پھر ہم اس کو آزماتے ہیں،اسے آنکھیں دیتے ہیں، کان دیتے ہیں،پھر ہم اس کو دو راستے دکھاتے ہیں کہ یہ شکر کرتا ہے یا ناشکری کرتا ہے۔
”اَمۡشَاجٍ“
کا معنی ہے مخلوط۔ یا تو اس سے مراد ہیں اخلاط اربعہ جن سے نطفہ پیدا ہوتا ہے۔ اخلاطِ اربعہ یعنی خون، بلغم، سودا اور صفراء۔ یا اس سے مراد یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں کا نطفہ ملتا ہے تو اس سے انسان پیدا ہوتا ہے۔
﴿اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ سَلٰسِلَا۠ وَ اَغۡلٰلًا وَّ سَعِیۡرًا ﴿۴﴾ اِنَّ الۡاَبۡرَارَ یَشۡرَبُوۡنَ مِنۡ کَاۡسٍ کَانَ مِزَاجُہَا کَافُوۡرًا ۚ﴿۵﴾ عَیۡنًا یَّشۡرَبُ بِہَا عِبَادُ اللہِ یُفَجِّرُوۡنَہَا تَفۡجِیۡرًا ﴿۶﴾ ﴾
اور کفارکے لیے ہم نے زنجیر یں بنائی ہیں، طوق بنائے ہیں اور آگ بنائی ہے۔ جو نیک لوگ ہیں وہ ایسی شراب پییں گے جس میں کافور ملی ہوئی ہو گی اور ایسے چشمے سے پییں گے جس سے نیک لوگ پیتے ہیں اور جہاں چاہیں گے اس کو جاری کر کے لے جا سکیں گے ۔
حدیث پاک میں ہے کہ اہلِ جنت کے ہاتھ میں سونے کی چھڑی ہو گی، چشمے کو جہاں حکم دیں گے وہاں سے ابلے گا اور نہر کو جدھر کا حکم کریں گے ادھر کو جاری ہو جائے گی۔ایک جنتی کہے گا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنی جگہ پر بیٹھ کر پیوں تو اپنی جگہ ہی سے اشارہ کرے گا تو نہر بالکل قریب آ جائے گی۔
نذر کا حکم اور بنیادی شرائط:
﴿یُوۡفُوۡنَ بِالنَّذۡرِ وَ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسۡتَطِیۡرًا ﴿۷﴾﴾
اور یہ واجبات کو ادا کرتے ہیں یعنی جو چیزیں ان کے ذمہ لازم ہیں ان کو ادا کرتے ہیں اور ایسے دن سے ڈرتےہیں جس کی برائی ہر طرف پھیلی ہوئی ہو گی۔
لازم کو
”النَّذۡرِ“
سے کیوں ذکر کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ نذر کا پورا کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن نذر کی شرائط میں سے دو شرطیں بنیادی ہیں:
1: آدمی نذر اور منت گناہ کی نہ مانے ۔
2: نذر ایسی چیز کی نہ مانےجو اس کے ذمہ پہلے سے فرض ہو، مثلاً یہ کہے کہ یا اللہ! اگر میرے پرچے میں 100نمبر آ جائیں تو میں ظہر کی نماز پڑھوں گا۔ ایسی نذر نہ مانے ، اس لیے کہ اگر وہ فیل ہو جائے؛ ظہر تو پڑھنی پھر بھی ہے۔
حضرت امام صاحب رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ اس میں تیسری شرط یہ بھی ہے کہ اس کی جنس میں سے کوئی چیز فرض ہو۔ مثلاً نماز کی منت مانے تو نماز فرض ہے، اس لیے نفل کی منت مان سکتا ہے۔ نفلی روزے کی منت مانے تو بھی درست ہے کیوں کہ روزے کی جنس رمضان کے روزے اس پر فرض ہیں لیکن جس عبادت کی جنس میں سے کوئی فرض نہ ہو وہ منت مانے گا تو فرض نہیں ہوگی۔ مثلاً میں نماز جنازہ پڑھوں گا تو جنازے کی کوئی ایسی جنس نہیں جو بندے پر فرض ہو اس لیے یہ منت اس پر لازم نہیں ہو گی۔ میں صدقہ کروں گا تو صدقے کی جنس زکوٰۃ بندے پر لازم ہے اس لیے ایسی منت ماننا اس کے لیے ٹھیک ہے۔
مسکین کو کھانا کھلانے کا اجر:
﴿وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا ﴿۸﴾﴾
یہ
”عَلٰی حُبِّہٖ“
میں
عَلٰی
بمعنی
مَعَ
کے ہے اور
”ہٗ“
ضمیر کا مرجع کھانا ہے۔ معنی یہ ہو گا کہ کھانے سے خود بھی پیار کرتا ہے لیکن پھر بھی غریب ،قیدی اور مسکین کو دیتا ہے۔ یا دوسری صورت یہ ہے کہ
”ہٗ“
ضمیر کا مرجع اللہ ہے کہ اللہ کی محبت میں خرچ کرتا ہے۔
قیدی اگر مظلوم ہو تو اس کو دینا صدقہ ہے اور اگر ظالم ہو اور قید میں ہو پھر بھی اس پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔ قیدی مسلمان ہو تب بھی اس پر خرچ کرنا چاہیے اور قیدی کافر ہو تب بھِ اس پر خرچ کرنا اجر کا کام ہے ۔
﴿اِنَّا نَخَافُ مِنۡ رَّبِّنَا یَوۡمًا عَبُوۡسًا قَمۡطَرِیۡرًا ﴿۱۰﴾ فَوَقٰہُمُ اللہُ شَرَّ ذٰلِکَ الۡیَوۡمِ وَ لَقّٰہُمۡ نَضۡرَۃً وَّ سُرُوۡرًا ﴿ۚ۱۱﴾ ﴾
”عبوس“
کہتے ہیں جو چہروں کو بے رونق اور اداس کر دے اور
”قمطریر“
کہتے ہیں سخت کو۔ فرمایا: یہ لوگ کہیں گے کہ ہمیں تو اس دن کا خوف ہے جو چہروں کو اداس کر دے گا اور بہت سخت ہو گا۔اللہ پاک ان کو اس دن سے کے شر سے بچائیں گےاور ان کو اللہ تازگیاں دیں گے اور خوشیا ں دیں گے۔
﴿وَ جَزٰىہُمۡ بِمَا صَبَرُوۡا جَنَّۃً وَّ حَرِیۡرًا ﴿ۙ۱۲﴾ مُّتَّکِـِٕیۡنَ فِیۡہَا عَلَی الۡاَرَآئِکِ ۚ لَا یَرَوۡنَ فِیۡہَا شَمۡسًا وَّ لَا زَمۡہَرِیۡرًا ﴿ۚ۱۳﴾﴾
اللہ فرماتے ہیں کہ ہم ان کے صبر کے بدلے میں انہیں جنت دیں گے اور ریشم کا لباس دیں گے اور وہاں پر آدمی مسہریوں پر بیٹھے ہوں گے اور جنت میں نہ تو سخت دھوپ ہو گی اور نہ سخت ٹھنڈ ہو گی۔
﴿وَ دَانِیَۃً عَلَیۡہِمۡ ظِلٰلُہَا وَ ذُلِّلَتۡ قُطُوۡفُہَا تَذۡلِیۡلًا ﴿۱۴﴾﴾
اور درختوں کے سائے بالکل قریب ہوں گے اور ان کے جو پھل ہیں وہ انسان کے اختیار میں ہوں گے کہ جب چاہے کھا لے، جب چاہے نہ کھائے۔
جنت کے پیالوں کی بناوٹ:
﴿وَ یُطَافُ عَلَیۡہِمۡ بِاٰنِیَۃٍ مِّنۡ فِضَّۃٍ وَّ اَکۡوَابٍ کَانَتۡ قَوَارِیۡرَا۠ ﴿ۙ۱۵﴾ قَ‍وَارِیۡرَا۠ مِنۡ فِضَّۃٍ قَدَّرُوۡہَا تَقۡدِیۡرًا ﴿۱۶﴾ ﴾
اور ان کےبرتن چاندی کے ہوں گے اور پیالے ہوں گے شیشے کے اور شیشہ ہو گا چاندی کا اور بڑے مناسب انداز میں اس کو بھر بھر کر استعمال کرے گا۔
یہ جو فرمایا کہ شیشہ ہو گا چاندی کا، تو یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ برتن سفیدی میں چاندی کی طرح ہو گا اور صفائی میں شیشے کی طرح ہو گا۔ شیشہ بہت صاف ہوتا ہے لیکن چاندی کی طرح سفید نہیں ہوتا اور چاندی بہت سفید ہوتی ہے لیکن ایسی صاف نہیں ہوتی کہ اس میں سے کوئی چیز نظر آ جائے لیکن وہاں کا برتن ایسا ہو گا کہ دیکھنے میں یو ں لگے گا جیسے چاندی ہے اور جب اس کی ستھرائی کو دیکھیں گے تو یوں لگے گا جیسے شیشہ ہے ؛ دونوں خوبیا ں ا س برتن میں ہوں گی۔
جنت کے خادم بچوں کی صفات:
﴿وَ یَطُوۡفُ عَلَیۡہِمۡ وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ﴾
اور وہاں ان کو پلانے کے لیے ایسے بچے ہوں گے جوہمیشہ بچے ہی رہیں گے۔
آپ کسی بھی گھر میں جائیں اور کوئی چیز بڑا آدمی لائے تو خوشی ہوتی ہے لیکن چھوٹا سا بچہ لے کر آئے تو کتنا پیارا لگتا ہے ۔ اللہ رب العزت وہاں خدمت کے لیے ایسے چھوٹے بچے دیں گے جو ہمیشہ بچے ہی رہیں گے۔
﴿اِذَا رَاَیۡتَہُمۡ حَسِبۡتَہُمۡ لُؤۡلُؤًا مَّنۡثُوۡرًا ﴿۱۹﴾ وَ اِذَا رَاَیۡتَ ثَمَّ رَاَیۡتَ نَعِیۡمًا وَّ مُلۡکًا کَبِیۡرًا ﴿۲۰﴾﴾
اور جب تم بچوں کو دیکھو گے تو ایسے دیکھو گے جیسے کے موتی ہوتے ہیں بکھرے ہوئے ۔اور تم دیکھوگے نعمت اور بہت بڑی بادشاہت ۔
﴿عٰلِیَہُمۡ ثِیَابُ سُنۡدُسٍ خُضۡرٌ وَّ اِسۡتَبۡرَقٌ ۫ وَّ حُلُّوۡۤا اَسَاوِرَ مِنۡ فِضَّۃٍ ۚ وَ سَقٰہُمۡ رَبُّہُمۡ شَرَابًا طَہُوۡرًا ﴿۲۱﴾﴾
”سندس“ کہتے ہیں باریک کو اور ”استبرق“ کہتے ہیں موٹی کو ۔ وہاں ریشم ایسی ہو گی جو موٹی بھی ہو گی اور باریک بھی ہو گی۔ انسان کبھی باریک کپڑا پہنتا ہے تو بہت مزہ آتا ہے، کبھی موٹا کپڑا پہنے تو اس کی لذت اپنی ہوتی ہے۔ دونوں قسم کی ریشم اللہ عطا فرمائیں گے ۔
قدر اور اجر میں فرق:
﴿اِنَّ ہٰذَا کَانَ لَکُمۡ جَزَآءً وَّ کَانَ سَعۡیُکُمۡ مَّشۡکُوۡرًا ﴿٪۲۲﴾﴾
یہاں دونوں قسم کی ریشم عطا فرما دی ہے۔ یہ تمہارے اعمال کا بدلہ بھی ہے اور تمہاری محنت کی قدر بھی ہے۔ قدر اور اجر میں فرق ہوتا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم اعمال کا اجر بھی دیں گے اور قدر بھی کریں گے، یعنی پرٹوکول بھی دیں گے۔
تنخواہ کو اجر کہتے ہیں اور اس پر پرٹوکول کو قدر کہتےہیں۔ وزیر اعلیٰ کی تنخواہ دو تین لاکھ ہوگی لیکن وزیر اعلیٰ کا پرٹوکول کیا ہے کہ وہ لاہور سے چلے تو سرگودھا تک روڈ بلاک ہوتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ صاحب آ رہے ہیں ۔ جس آدمی کی تنخواہ دس لاکھ کیا دس کروڑبھی ہو ، تو وزیر اعلیٰ کی طرح اس کے آنے پر کوئی روڈ بلاک نہیں ہو گا۔تو اجر اور قدر میں فرق ہوتا ہے۔
امام کی تنخواہ مقتدیوں کی بنسبت بہت کم ہوتی ہے ۔ مقتدی ایسا جس کی تنخواہ دس لاکھ ہے اور امام جس کی تنخواہ دس ہزار ہے۔ تو اجر دیکھیں تو امام کا کم ہے اور مقتدی کا زیادہ ہے لیکن قدر امام کی زیادہ ہے اور مقتدی کی کم ہے۔ تو اجر اور قدر میں فرق ہوتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ تَمَسَّكَ بِسُنَّتِيْ عِنْدَ فَسَادِ أُمَّتِيْ فَلَهُ أجْرُ مِائَةِ شَهِيْدٍ.
الزہد الکبیرللبیہقی :ج1 ص221 من تمسك بسنتي عند فساد أمتی
جو شخص میری ایک سنت کو زندہ کرے گا جس کو لوگ چھوڑ دیں گے تو اللہ اس کو سو شہید کا ثواب عطا فرمائیں گے۔
یہاں یہ نہیں فرمایا کہ سو شہید کی قدر دیں گے، اس لیے کہ اللہ کے راستے میں نکل کر کٹنے سے جو شہادت ملتی ہے اس پر اللہ جو مقام دیتے ہیں وہ قدر ہے اور سنت کے زندہ کرنے پر اللہ جو نعمتیں دیتے ہیں وہ اجر ہے۔ تو سنت کے زندہ کرنے پر اجر تو مل سکتا ہے لیکن ایک شہید کی قدر نہیں مل سکتی۔ قیامت کےدن جب جنت میں جائیں گے تو واحد شہید ہو گا جس کا اپنے پروٹوکول کو دیکھ کر یہ تقاضا ہو گا کہ مجھے دنیا میں بھیجا جائے، میں پھر جاؤں لیکن سنت کو زندہ کرنے والا کبھی یہ نہیں کہے گا کہ مجھے دنیا میں بھیج دو تاکہ میں پھر سنت کو زندہ کر کے آتا ہوں۔ چونکہ اس کا وہ پروٹوکول نہیں ہے جو شہید کا ہے۔ تو قدر الگ ہے اور اجر الگ ہے۔
اس حدیث کی وجہ سے بعض لوگ جہاد سے دور ہو جاتے ہیں کہ جب ایک سنت کے زندہ کرنے پر سو شہید کا اجر ملتا ہے تو پھر اللہ کے راستے میں جا کر کٹنے اور شہادت حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میدانِ جہاد میں کٹنے سے اللہ رب العزت انسان کو پروٹوکول دیتے ہیں جو قدر ہے کہ قیامت کےدن شہید ستر آدمیوں کی شفاعت کرے گا جن پر جہنم کا فیصلہ ہو چکا ہو گا۔ یہ اجر نہیں ہے بلکہ یہ قدر ہے، یہ پروٹوکول ہے۔
﴿نَحۡنُ خَلَقۡنٰہُمۡ وَ شَدَدۡنَاۤ اَسۡرَہُمۡ ۚ وَ اِذَا شِئۡنَا بَدَّلۡنَاۤ اَمۡثَالَہُمۡ تَبۡدِیۡلًا ﴿۲۸﴾﴾
ہم نے ہی ان کو پیدا کیا اور ان کے جوڑ مضبوط بنائے۔ جوڑ مضبوط بنانے کا مطلب یہ ہے کہ جوڑ بظاہر بہت کمزور ہوتے ہیں لیکن اللہ نے ان کو ایسے عمدہ طریقے سے بنایا ہے کہ سو سال بھی استعمال ہوتے ہیں تو گھستے نہیں ہیں، پرانےنہیں ہوتے، اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔
مشیتِ الہیٰ اور رضائے الٰہی میں فرق:
﴿ اِنَّ ہٰذِہٖ تَذۡکِرَۃٌ ۚ فَمَنۡ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیۡلًا ﴿۲۹﴾ وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللہُ ؕ اِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ﴿٭ۖ۳۰﴾﴾
یہ بات بڑی توجہ سے سمجھنا! فرمایا: یہ نصیحت ہے، بس جو چاہے اللہ کی طرف چلے، صحیح راستہ اختیار کرے اور اگر تم چاہو کہ ہم اللہ کی طرف چلیں تو تم نہیں جا سکتے جب تک اللہ نہ چاہے۔
تو اس پر شبہ ہوتا ہے کہ بندے کی مشیت اللہ کی مشیت کے تابع ہوتی ہے، جب اللہ چاہے گا تو بندہ نیک اعمال کرے گا، بندہ چاہے بھی تو نیک اعمال نہیں کر سکتا جب تک اللہ نہ چاہے۔ بندہ تو مجبورِ محض ہو گیا۔ تو پھر ہمارے عمل کرنے پر ثواب اور نہ کرنے پر عذاب کیو ں ہے؟
یہ بات اچھی طرح سمجھنا!
﴿وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللہُ﴾
کا مطلب یہ ہے کہ کوشش تم کرو گے، محنت تم کروگے، مانگو گےتم، ارادہ تمہارا ہو گا لیکن کر تم تب ہی سکتے ہو جب اللہ چاہے، اللہ کے چاہنے کے بغیر تو تم کر ہی نہیں سکتے لیکن محنت تو تم نے کی ہے، پھر اللہ نےبھی چاہا ہے۔ تم نے گناہ کا ارادہ کیا ہے، گناہ کی کوشش کی ہے، گناہ کے اسباب جمع کیے۔ اللہ کا نظام ہے کہ اسباب پر مسبب؛ دنیا میں ہوتا ہے۔کوئی بندہ کسی کو تلوار مارے تو اللہ نے تلوار میں قتل کی تاثیر رکھی ہے لیکن قتل کون کرے گا؟ بندہ۔ اب قتل بندے نے اپنے اختیار سے کیا ہے، اپنے ارادے سے کیا ہے، از خود مارا ہے لیکن اللہ اس تلوار میں قتل کی تاثیر نہ رکھیں تو قتل نہیں ہو سکتا لیکن تاثیر قتل کی تو اللہ نے رکھی ہے اور یہی تمہارا متحان تھا کہ میں چاہوں گا، تلوار کاٹے گی، نہیں چاہوں گا تو تلوار نہیں کاٹے گی لیکن ہم نے تلوا رمیں کاٹنے کی صلاحیت رکھی ہے۔ لہذا تم کسی کو ناحق مت مارو۔
ایک بندہ کہتا ہے کہ میں نے خود کشی کی ہے، اللہ نے چاہا تو میں مرا ہوں، اگر اللہ نہ چاہتا تو میں نہ مرتا۔ ہم نے کہا کہ اس کا معنی ہے کہ زہر میں اللہ نے قتل کی صلاحیت رکھی ہے اور تمہیں بتایا ہے کہ زہر نہ کھانا! اگر کھاؤ گے تو مر جاؤ گے ،ناحق مرو گے، خود کشی ہو گی اور ہم نے زہر میں مارنے کی صلاحیت رکھی ہے۔ یہ معنی ہے کہ اللہ چاہتا ہے تو بندہ زہر سے مرتا ہے اور نہ چاہے تو نہیں مرتا، اللہ نے چاہا ہے تو زہر میں تاثیر رکھی ہے، تم نے زہر کو استعمال کیا ہے، لہذا تم مجرم ہو۔ تو یہ معنی نہیں ہے کہ بندہ محبور محض ہے اور اس کو اعمال میں کوئی دخل نہیں ہے ۔
اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․