سورۃ المرسلٰت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ المرسلٰت
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَالۡمُرۡسَلٰتِ عُرۡفًا ۙ﴿۱﴾ فَالۡعٰصِفٰتِ عَصۡفًا ۙ﴿۲﴾ وَّالنّٰشِرٰتِ نَشۡرًا ۙ﴿۳﴾﴾
یہاں اللہ رب العزت نے پانچ قسمیں کھائی ہیں، پہلے تین قسمیں ہواؤں کی کھائی ہیں اور پھر دو قسمیں فرشتوں کی کھائی ہیں۔
ہواؤں او رفرشتوں کی قَسمیں:
فرمایا: قسم ہے ان ہواؤ ں کی جو مسلسل چلائی جاتی ہیں، قسم ہے ان ہواؤ ں کی جو آندھیوں کی طرح چلتی ہیں، قسم ہے ان ہواؤ ں کی جو بادلوں کو اڑا کر منتشر کر دیتی ہیں اور بعد میں بادل ختم ہو جاتے ہیں۔
﴿فَالۡفٰرِقٰتِ فَرۡقًا ۙ﴿۴﴾ فَالۡمُلۡقِیٰتِ ذِکۡرًا ۙ﴿۵﴾ عُذۡرًا اَوۡ نُذۡرًا ۙ﴿۶﴾ ﴾
قسم ہے ان فرشتوں کی جو وحی لا کر حق اور باطل کو الگ کر دیتے ہیں ، قسم ہے ان فرشتوں کی جو وحی کے ذریعے ذکر لاتے ہیں۔ یا تو اس وجہ سے کہ بندہ معذرت کرے اور توبہ کر لے اور یا اس وجہ سے کہ نہیں کرتا تو اس کو ڈرائیں کہ تم جہنم میں جاؤ گے۔
﴿اِنَّمَا تُوۡعَدُوۡنَ لَوَاقِعٌ ؕ﴿۷﴾ فَاِذَا النُّجُوۡمُ طُمِسَتۡ ۙ﴿۸﴾ وَ اِذَا السَّمَآءُ فُرِجَتۡ ۙ﴿۹﴾ وَ اِذَا الۡجِبَالُ نُسِفَتۡ ﴿ۙ۱۰﴾ وَ اِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتۡ ﴿ؕ۱۱﴾﴾
جو تمہارے ساتھ وعدہ ہے قیامت کا وہ ہو کر رہے گا، اور یہ وعدہ کب پورا ہو گا؟ جب ستارے بے نور ہو جائیں گے، آسمانوں میں دراڑیں آ جائیں گی، جب پہاڑوں کو اڑا دیا جائے گا، جب انبیاء علیہم السلام کو جمع کیا جائے گا۔
﴿لِاَیِّ یَوۡمٍ اُجِّلَتۡ ﴿ؕ۱۲﴾ لِیَوۡمِ الۡفَصۡلِ ﴿ۚ۱۳﴾ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا یَوۡمُ الۡفَصۡلِ ﴿ؕ۱۴﴾﴾
اگر کوئی کہے کہ اس معاملے میں پھر تاخیر کس دن کی ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ فیصلہ کے دن کی اور تمہیں اندازہ ہے کہ فیصلے کا دن کون سا ہے؟
جھٹلانے والوں کو انجام:
﴿وَیۡلٌ یَّوۡمَئِذٍ لِّلۡمُکَذِّبِیۡنَ ﴿۱۵﴾ اَلَمۡ نُہۡلِکِ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿ؕ۱۶﴾ ثُمَّ نُتۡبِعُہُمُ الۡاٰخِرِیۡنَ ﴿۱۷﴾ کَذٰلِکَ نَفۡعَلُ بِالۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿۱۸﴾ وَیۡلٌ یَّوۡمَئِذٍ لِّلۡمُکَذِّبِیۡنَ ﴿۱۹﴾﴾
کیا ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک نہیں کیا اور ان کے پیچھے دوسرے لوگوں کو بھی ہلاک کر دیا۔ ہم مجرموں کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتے ہیں۔ جھٹلانے والوں کے لیے سخت ہلاکت ہے۔ ویل؛ جہنم کی ایک وادی ہے جس میں جہنمیوں کی پیپ جمع ہوتی ہے۔
﴿اِنۡطَلِقُوۡۤا اِلٰی ظِلٍّ ذِیۡ ثَلٰثِ شُعَبٍ ﴿ۙ۳۰﴾ لَّا ظَلِیۡلٍ وَّ لَا یُغۡنِیۡ مِنَ اللَّہَبِ ﴿ؕ۳۱﴾﴾
قیامت کے دن اعلان ہو گا کہ تم آؤ اس بادل کی طرف اور سائے کی طرف جو تین شاخو ں والاہے۔ اس سے مراد وہ دھواں ہے جو قیامت کے دن جہنم سے اٹھے گا، جو دیکھنے میں سائبان کی طرح ہو گا لیکن چونکہ دھوا ں ہو گا اس لیے نہ اس کا سایہ ہو گا اور نہ وہ گرمی سے بچائے گا۔
﴿اِنَّہَا تَرۡمِیۡ بِشَرَرٍ کَالۡقَصۡرِ ﴿ۚ۳۲﴾ کَاَنَّہٗ جِمٰلَتٌ صُفۡرٌ ﴿ؕ۳۳﴾﴾
پھر اس دھویں سے شعلے نکلیں گے۔ انگارے نکلیں گے جو بڑے بڑے محل کی طرح ہوں گے۔ پھر جب محل ٹوٹے گا تو اس سے چھوٹے چھوٹے انگارے نکلیں گے جو زرد اونٹوں کی طرح ہوں گے۔
متقین کی کامیابی:
﴿اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ ظِلٰلٍ وَّ عُیُوۡنٍ ﴿ۙ۴۱﴾ وَّ فَوَاکِہَ مِمَّا یَشۡتَہُوۡنَ ﴿ؕ۴۲﴾ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا ہَنِیۡٓــًٔۢا بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۴۳﴾ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۴۴﴾﴾
قیامت کے دن نیک لوگ درختوں کے سائے میں ہوں گے اور پانی کے چشموں میں ہوں گے اور انہیں ایسے پھل ملیں گے جیسےیہ چاہیں گے۔ حکم ہو گا کہ رغبت کے ساتھ جو چاہو کھاؤ ۔ یہ تمہارے اعمال کا بدلہ ہے اور ہم اسی طرح احسان کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔
﴿وَیۡلٌ یَّوۡمَئِذٍ لِّلۡمُکَذِّبِیۡنَ ﴿۴۵﴾ کُلُوۡا وَ تَمَتَّعُوۡا قَلِیۡلًا اِنَّکُمۡ مُّجۡرِمُوۡنَ ﴿۴۶﴾ وَیۡلٌ یَّوۡمَئِذٍ لِّلۡمُکَذِّبِیۡنَ ﴿۴۷﴾ وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ ارۡکَعُوۡا لَا یَرۡکَعُوۡنَ ﴿۴۸﴾ وَیۡلٌ یَّوۡمَئِذٍ لِّلۡمُکَذِّبِیۡنَ ﴿۴۹﴾﴾
ہلاکت اور تباہی ہے جھٹلانے والوں کے لیے۔ کافروں کو حکم ہے کہ تم چند روز کھا پی لو اور عیش کی زندگی گزار لو۔ حقیقت میں تم ہی مجرم ہو! ہلاکت اور تباہی ہے جھٹلانے والوں کے لیے۔ جب انہیں کہا جاتا ہےکہ تم اللہ تعالیٰ کے آگے جھکو تو جھکتے نہیں ہیں۔ ہلاکت اور تباہی ہے جھٹلانے والوں کے لیے۔
یہاں رکوع سے مراد یا تو اس کا لغوی معنی ہے جھکنا۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے احکام کے سامنے سر جھکا دو اور انہیں تسلیم کر لو لیکن وہ ایسا نہیں کرتے۔ یا اس سے مراد نماز والا رکوع ہے۔ تو رکوع بول کر پوری نماز مراد ہے کہ جب ان کو نماز کے لیے بلایا جاتا ہے تو نماز کے لیے نہیں آتے۔
لفظ ”حدیث“ سے غیر مقلدین کے استدلال کا جواب:
﴿فَبِاَیِّ حَدِیۡثٍۭ بَعۡدَہٗ یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿٪۵۰﴾﴾
قرآن کے بعد کس بات پر یہ لوگ ایمان لائیں گے ؟ اس کے بعد کوئی اور چیز بھی ہے جس کو یہ مانیں گے؟
حدیث پاک میں ہے کہ جب تلاوت کرتے ہوئے یہاں پر پہنچیں
﴿فَبِاَیِّ حَدِیۡثٍۭ بَعۡدَہٗ یُؤۡمِنُوۡنَ﴾
تو یہ پڑھا کریں:
”اٰمَنَّابِاللہِ“
کہ ہم اللہ پر ایمان لائے۔
یہاں پر بعض غیر مقلد کہتے ہیں کہ دیکھو! ہم اہل حدیث ہیں، قرآن میں ہے
﴿فَبِاَیِّ حَدِیۡثٍۭ بَعۡدَہٗ یُؤۡمِنُوۡنَ﴾۔
میں نے کہا کہ یہ بات کتنی بے ہودہ ہے ، یہ تو لغوی بات ہے اور ”ہٗ“ ضمیر کا مرجع قرآن ہے کہ قرآن کریم کے بعد وہ کون سی بات ہے کہ جس کو یہ مانیں گے؟ تو یہاں تو جو چیز قرآن کے خلاف ہے اس کو حدیث کہا جا رہا ہے۔ اگر اس استدلال سے تم اہل حدیث بنو گے تو اس حدیث سے مراد قرآن کے خلاف باتیں ہیں ۔
اور کبھی کہتے ہیں کہ جی دیکھو! قرآن کریم کو اللہ نے ”حدیث“ کہا ہے
﴿اَللہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ﴾
تو اللہ نے احسن حدیث قرآن کو کہا ہے۔
الزمر39: 23
میں نے کہا: قرآن کریم میں جس طرح اللہ نےا پنی باتوں کو ”حدیث“ فرمایا ہے اسی طرح اللہ نے غیر کی باتوں کو بھی ”حدیث“ فرمایا ہے۔ فرمایا:
﴿فَبِاَیِّ حَدِیۡثٍۭ بَعۡدَہٗ یُؤۡمِنُوۡنَ﴾
تو یہ لغوی بات ہے۔ جب یہ چیزیں ذہن میں رکھو گے تو الجھن کبھی نہیں ہوتی۔
میں نے کہا: لغت میں تو ہر بات کو ”حدیث“ کہتے ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ صحیح البخاری حدیث کی کتاب ہے، صحیح مسلم حدیث کی کتاب ہے تو یہاں حدیث سے مراد اصطلاحی معنی ہے۔ تو لغتاً اس کامعنی الگ ہوتا ہے اور اصطلاحاً اس کا معنی الگ ہوتاہے۔ ہم لغات کے پابند نہیں ہیں بلکہ ہم اصطلاح کے پابند ہیں ۔
اللہ ہمیں یہ باتیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․