سورۃالنبأ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃالنبأ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿عَمَّ یَتَسَآءَلُوۡنَ ۚ﴿۱﴾ عَنِ النَّبَاِ الۡعَظِیۡمِ ۙ﴿۲﴾ الَّذِیۡ ہُمۡ فِیۡہِ مُخۡتَلِفُوۡنَ ؕ﴿۳﴾﴾
بڑی خبر کیا ہے؟
عَمَّ
یہ
”عَنْ“
کے آگے
”مَا“
استفہامیہ ہے اور اس کا الف گرا ہوا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب توحید کے بعد قیامت کا ذکر فرمایا تو مشرکین ازروئے استہزاء اور مذاق یہ بات کہتے کہ قیامت کب آئے گی؟ تو یہاں اللہ رب العزت نے کتنے پیارے انداز میں بات کی ہے کہ یہ کس چیز کے بارے میں پوچھتے ہیں؟ یہ پوچھتے ہیں اس خبر کے بارے میں اور وہ بھی بہت بڑی خبر کے بارے میں اور اس میں اہلِ حق سے اختلاف کرتے ہیں! یہ بالکل ایسے ہے جیسےکوئی کہے کس کے بارے میں پوچھتے ہو؟ استاد جی کے بارے میں؟ جن کو ساری دنیا جانتی ہے! اب دیکھو سوال ہو رہا ہے۔
تو اسی طرح یہاں
”عَمَّ یَتَسَآءَلُوۡنَ“
ہے کہ یہ لوگ کس چیز کے بارے میں پوچھتے ہیں؟ اس خبر کے بارے میں جس میں اختلاف بھی کرتے ہیں۔
﴿کَلَّا سَیَعۡلَمُوۡنَ ۙ﴿۴﴾ ثُمَّ کَلَّا سَیَعۡلَمُوۡنَ ﴿۵﴾﴾
ان کا جو خیال ہے کہ قیامت نہیں آئے گی، تو فرمایا: ہرگز ایسا نہیں! قیامت آئے گی اور یہ لوگ دیکھ بھی لیں گے۔”ثُمَّ كَلَّا“ پھر سنو! یہ سمجھتے ہیں کہ قیامت نہیں آئے گی، ہرگز ایسا نہیں! قیامت آئے گی اور یہ لوگ دیکھ بھی لیں گے۔ ان کا خیال غلط ہے کہ قیامت نہیں آئے گی۔
یہ میں صرف اس لیے کہتا ہوں کہ
﴿کَلَّا سَیَعۡلَمُوۡنَ ۙ﴿۴﴾ ثُمَّ کَلَّا سَیَعۡلَمُوۡنَ ﴿۵﴾﴾
کے ترجمے کو سمجھو! یہ اللہ نے کیوں فرمایا
﴿عَمَّ یَتَسَآءَلُوۡنَ﴾
کہ ایک بڑی خبر کے بارے میں پوچھتے ہیں اور ان کے خیال میں ہے وہ نہیں آئے گی، فرمایا: ہرگز ایسی بات نہیں! وہ ضرور آئے گی اور یہ لوگ دیکھ لیں گے اور پھر سنو! ایسا نہیں ہو سکتا جیسے یہ کہتے ہیں، قیامت آئے گی،
﴿سَیَعۡلَمُوۡنَ ﴾
اور تمہیں پتا چل جائے گا جب وہ آئے گی۔
الفاظ کے ساتھ لہجے کی اہمیت:
میں اس لیے کہتا ہوں کہ استفہام کو استفہام کے لہجے میں کہو تو پھر بات سمجھ آتی ہے۔ ہم استفہام کو استفہام کے انداز میں نہیں کہتے تو پھر سمجھ نہیں آتی کہ قرآن مجید کیا کہہ رہا ہے۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دین کو سب سے زیادہ سمجھتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ بھی دیکھے ہیں اور ادائیں بھی دیکھی ہیں، ہم تک الفاظ پہنچتے ہیں اور ادائیں نہیں پہنچتیں، اس لیے سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے۔ اور جب ہم قرآن کریم کا ترجمہ کرتے ہیں پھر یونہی گزر جاتے ہیں اور ترجمہ کرتے ہیں کہ ” کس چیز کے بارے میں پوچھتے ہیں؟ پوچھتے ہیں ایک خبر کے بارے میں!“ تو طالب علم نہیں سمجھ پاتا کہ قرآن کیسے سمجھایا جا رہا ہے۔ اس لیے میں بار بار عرض کر رہا ہوں کہ اس کا طرز سمجھو! جیسے دو طالب علم ہوں اور تبصرہ کر رہے ہوں کسی امتحان کے بارے میں تو استاد جی سن لیں اور پوچھیں: ”کس چیز کے بارے میں تبصرہ کر رہے ہو؟ امتحان کے بارے میں؟ وہ تو ضرور ہو گا، کچھ فائدہ نہیں تبصرہ کرنے کا۔ ” اور اگر لہجہ سمجھائے بغیر ویسے ذکر کرو کہ ”طالب علم کس چیز کے بارے میں تبصرہ کرتے ہیں؟ تبصرہ کرتے ہیں امتحان کے بارے میں “ تو وہ کیسے سمجھ آئے گا؟
میں اس لیے کہتا ہوں کہ قرآن کریم سمجھیں اور پھر جب درسِ قرآن دیں تو پھر لوگوں کو سمجھائیں، جھجک سے کام نہ لیں! قرآن کریم محاورات پر بات کرتا ہے اور محاورات؛ کو محاورات کے انداز میں کہہ کر بات کی جاتی ہے اور قرآن جس لہجے میں بات کرتا ہے اس لہجے میں سمجھاؤ تو پھر مخاطب کو بات سمجھ آتی ہے وگرنہ سمجھ میں نہیں آتی۔
یہ کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں؟ نبا کہتے ہیں بڑی خبر کو، عظیم کہہ کر مزید اس کی عظمت بیان کی، یہ کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں؟ بڑی خبر کے بارے میں جس میں اہلِ حق سے اختلاف کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ قیامت نہیں آئے گی، کَلَّا ․․ ہرگز نہیں! وہ آئے گی،
” سَیَعۡلَمُوۡنَ “
ان کو پتا چل جائے گا،
”ثُمَّ“
پھر سنو! تم کہتے ہو کہ قیامت نہیں آئے گی، فرمایا: آئے گی اور ان کو پتا چل جائے گا جب آئے گی۔ اب اگر یوں بیان کریں تو ”ثُمَّ“کا معنی سمجھ میں آتا ہے وگرنہ
”ثُمَّ“
کا معنی سمجھ میں نہیں آتا۔ مثلاً میں کہتا ہوں: دیکھو! کل تم نے دس بجے پہنچنا ہے، پھر سنو! میں کہہ رہا ہو ں کہ دس بجے پہنچنا ہے! اب دیکھو!
”ثُمَّ“
کا معنی سمجھ آ رہا ہے یا نہیں؟ (آ رہا ہے۔ سامعین) اگر اس طرز سے نہ سمجھائیں تو قرآن کی فصاحت وبلاغت سمجھ میں نہیں آئے گی۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ صرف کتابوں کے مطالعہ سے نہیں سمجھ آتے، یہ درس گاہو ں میں سمجھ آتے ہیں۔
انعامات باری تعالیٰ:
﴿اَلَمۡ نَجۡعَلِ الۡاَرۡضَ مِہٰدًا ۙ﴿۶﴾ وَّ الۡجِبَالَ اَوۡتَادًا ﴿۪ۙ۷﴾ وَّ خَلَقۡنٰکُمۡ اَزۡوَاجًا ۙ﴿۸﴾﴾
یہ لوگ توحید اور قیامت میں شک کرتے ہیں، یہ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے زمین کو کیسے نرم بچھونا بنا دیا اور زمین میں پہاڑو ں کو میخوں کے طور پر ایسے لگا دیا ہے کہ زمین ہل نہیں سکتی اور ہم نے تم سب کو جوڑا جوڑا پیدا کیا؛ مرد اورعورت۔
نیند؛تھکاوٹ اتارنے کا مؤثر ذریعہ
﴿وَّ جَعَلۡنَا نَوۡمَکُمۡ سُبَاتًا ۙ﴿۹﴾﴾
”سُبَاتًا“
یہ سَبْت سے ہے، سَبْت کا معنی ہوتا ہے کاٹ کے رکھ دینا۔ نیند بھی بے آرامی کو ختم کر دیتی ہے۔ تو فرمایا: ہم نے نیند بنائی ہے تمہارے لیے راحت کی چیز، جس قدر راحت نیند سے آتی ہے کسی اور چیز سے نہیں آتی۔ میں مشاہدات نہیں بتاتا میں تجربات بتا رہا ہو ں۔ آدمی بہت تھکا ہو اور لوگ دبانا شروع کر دیں تو تھکاوٹ نہیں اترتی، سو جائیں تو تھکاوٹ اتر جاتی ہے۔ تیل لگواؤ تھکاوٹ نہیں اترے گی، سو جاؤ گے تھکاوٹ اتر جائے گی۔ تو نیند سب سے زیادہ راحت کی چیز ہے تھکاوٹ کو ختم کرنے میں، اور اس کا آپ معمول بنائیں خصوصاً قیلولہ کا، قیلولہ دس منٹ کاملے پھر بھی سنت سمجھ کر کریں، اس لیے کہ اس کے فوائد بہت زیادہ ہیں۔ میرا ابھی کراچی کا سفر تھا تو چونکہ پورا دن سفر رہا، عشاء کے بعد پھر میرا بیان تھا تو میں وہاں پہنچا ہوں تقریباً 7:40 پر، 8:00 بجے اذان تھی، میں پونے آٹھ سو گیا اور 8:10 پر اٹھا، نیند پوری ہو گئی، یہ اتنی سی نیند نہ ہوتی تو بہت تھکاوٹ ہو تی۔
﴿وَّ جَعَلۡنَا الَّیۡلَ لِبَاسًا ﴿ۙ۱۰﴾﴾
اور نیند کے لیے بہترین ہوتا ہے کہ روشنی کم ہو، شور نہ ہو، آرام دہ ماحول ہو اور اس کے لیے اللہ نے رات کو بنایا ہے، خود بخود روشنی ختم ہو جاتی ہے، خود بخود لوگوں پر ایسے آثار آنا شروع ہو جاتے ہیں کہ ہر بندہ سونے کے لیےمتوجہ ہو جاتا ہے، اس لیے رات کا انتخاب کیا۔
﴿وَّ جَعَلۡنَا النَّہَارَ مَعَاشًا ﴿۪۱۱﴾﴾
اور کام کرنے کے لیے روشنی چاہیے تو اس کے لیے انسان کے نکالے بغیر خود بخود سورج نکلتا ہے، اس لیے فرمایا کہ دن کو ہم نے بنایا ہے کام کرنے کے لیے، اندھیرے میں آدمی سوتا ہے اور روشنی میں کام کرتا ہے۔ تو رات میں اندھیرا کر دیا کہ سو جاؤ اور دن کو روشنی کر دی کہ اب اپنا کام کر لو۔
آسمانوں کی تخلیق وتزیین:
﴿وَّ بَنَیۡنَا فَوۡقَکُمۡ سَبۡعًا شِدَادًا ﴿ۙ۱۲﴾ وَّ جَعَلۡنَا سِرَاجًا وَّہَّاجًا ﴿۪ۙ۱۳﴾وَّ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡمُعۡصِرٰتِ مَآءً ثَجَّاجًا ﴿ۙ۱۴﴾ لِّنُخۡرِجَ بِہٖ حَبًّا وَّ نَبَاتًا ﴿ۙ۱۵﴾ وَّ جَنّٰتٍ اَلۡفَافًا ﴿ؕ۱۶﴾﴾
اور ہم نے تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے اور سورج کو روشن چراغ بنایا اور پانی سے بھرے ہوئے بادلوں سے ہم مسلسل پانی اتارتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے غلہ، سبزیاں اور باغات اگائیں۔باغات بھی کیسے؟ فرمایا ”اَلۡفَافًا“ ایک دوسرے سے ملے ہوئے جنہیں گھنے باغات کہتے ہیں۔
وقوعِ قیامت کا بیان:
﴿اِنَّ یَوۡمَ الۡفَصۡلِ کَانَ مِیۡقَاتًا ﴿ۙ۱۷﴾ یَّوۡمَ یُنۡفَخُ فِی الصُّوۡرِ فَتَاۡتُوۡنَ اَفۡوَاجًا ﴿ۙ۱۸﴾﴾
قیامت کا دن مقرر ہے جس دن صور میں پھونک دیا جائے گا تو تم فوج درفوج آؤ گے۔بعض روایات میں ہے کہ کچھ لوگ سوار ہو کر آئیں گے اور کچھ لوگ پیدل آئیں گے اور کچھ کو بیڑیوں میں جکڑ کر لایا جائے گا۔ جیسے جیسے لوگوں کے اعمال ہو ں گے ان کے مطابق ان سے معاملہ ہو گا، اور یہ بھی ہے کہ کافر الگ ہوں گے اور مؤمن الگ ہوں گے، پھر مؤمنین میں بھی فساق الگ ہوں گے، صالحین الگ ہوں گے تو قیامت کا بہت ہولناک منظر ہو گا۔ اللہ اس ہولناکی سے بچائیں۔
جو انسان دنیا میں دین کے لیے مشقت برداشت کرتا ہے اللہ آخرت کی ہولناکی سے اس کو محفوظ رکھتے ہیں۔ اللہ کریم ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ بندہ دنیا میں بھی دین کے لیے مصیبتیں اٹھائے اورقیامت کو پھر مصیبت زدہ ہو ایسانہیں ہوتا! یہ اللہ کی شان کریمی کے خلاف ہے۔ اللہ تعالی سے ہمیشہ عافیت مانگیں لیکن کبھی دنیا کی تکلیف آجائے تو برداشت کرنی ہے اور آخرت کی مشقت سے بچنا ہے۔
﴿وَّ فُتِحَتِ السَّمَآءُ فَکَانَتۡ اَبۡوَابًا ﴿ۙ۱۹﴾ وَّ سُیِّرَتِ الۡجِبَالُ فَکَانَتۡ سَرَابًا ﴿ؕ۲۰﴾﴾
اور آسمان کھول دیاجائے گا تو اس کے دروازے ہی دروازے بن جائیں گے، اور پہاڑوں کو چلایا جائے گا تو وہ سراب بن جائیں گے۔ جنگل میں جو ریت ہوتا ہے وہ دور سے پانی نظر آتا ہے لیکن قریب جائیں تو کچھ بھی نہیں ہوتا سوائے ریت گے، اس کو بھی سراب کہتے ہیں۔ تو قیامت کے دن یہ پہاڑ بھی اسی ریت کی طرح ریزہ ریزہ ہو کر نظر آئیں گے۔
”حَقَب“ کی مقدار:
﴿اِنَّ جَہَنَّمَ کَانَتۡ مِرۡصَادًا ﴿۪ۙ۲۱﴾ لِّلطَّاغِیۡنَ مَاٰبًا ﴿ۙ۲۲﴾ لّٰبِثِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَحۡقَابًا ﴿ۚ۲۳﴾﴾
جہنم گھات میں ہے جیسے کوئی چھپ کر بیٹھا ہوتا ہے کہ اچانک حملہ کرے گا اسی طرح جہنم گھات میں لگی ہوئی ہے، یہ جائیں گے تو فرشتے پکڑ کے جہنم میں ڈال دیں گے۔
”لِّلطَّاغِیۡنَ مَاٰبًا“ ․․
یہ جہنم سرکش لوگوں کے لیے ٹھکانا ہے۔ طاغین سے مراد کافر ہیں یا طاغین سے مراد وہ مسلمان ہیں جو فاسق اور گناہگار ہیں۔
”لّٰبِثِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَحۡقَابًا“ ․․
اور اس جہنم میں وہ زمانہ دراز ․․ در زمانہ در زمانہ در زمانہ رہیں گے۔ اَحْقاب یہ حَقَب کی جمع ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے مطابق ایک حقب اَسی سال کا ہوتا ہے۔ ایک سال بارہ مہینے کا، ایک مہینا تیس دن کا اور ایک دن ایک ہزار سال کا تو اس اعتبار سے حقب بنتا ہے دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سال کا۔
اس پر سوال یہ ہے کہ کفار کے بارے میں اللہ کا فیصلہ یہ ہےکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اور یہاں فرمایا کہ احقاب یعنی کئی زمانوں تک رہیں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر کار وہ جہنم سے نکل جائیں گے، تو یہ دوام تو نہ ہوا؟
اس کے دو جواب ہیں؛ ایک یہ کہ یہ عذاب کفار کے لیے نہیں ہے، یہ فساق مسلمانوں کے لیے ہے اور طاغین سے مراد فساق ہیں، یہ ایک مدت دراز تک جہنم مین رہیں گے اور پھر نکل جائیں گے۔
اور دوسرا جواب یہ ہے کہ یہاں نکلنے کا ذکر نہیں ہے، یہ نہیں فرمایا کہ چند حقب رہیں گے پھر نکل جائیں بلکہ فرمایا کہ کئی احقاب جہنم میں پڑے رہیں گے یعنی ایک حقب ختم ہو گا تو دوسرا شروع، وہ ختم ہو گا تو تیسرا شروع، وہ ختم ہو گا تو چوتھا شروع، تو احقاب ختم نہیں ہوں گے، ایک ختم ہو گا تو دوسرا شروع ہو جائے گا۔
جہنم کا ہولناک عذاب:
﴿لَا یَذُوۡقُوۡنَ فِیۡہَا بَرۡدًا وَّ لَا شَرَابًا ﴿ۙ۲۴﴾ اِلَّا حَمِیۡمًا وَّ غَسَّاقًا ﴿ۙ۲۵﴾ جَزَآءً وِّفَاقًا ﴿ؕ۲۶﴾﴾
نہ اس میں کوئی ٹھنڈی چیز ان کوملے گی اور نہ ہی کوئی اچھی چیز پینے کی ملے گی، ملے گا توکیا؟
﴿حَمِیۡمًا وَّ غَسَّاقًا﴾
گرم پانی اور پیپ، اور یہ پورا پورا بدلہ ہے۔
اس پر بھی سوال ہے کہ یہاں ہے
﴿لَا یَذُوۡقُوۡنَ فِیۡہَا بَرۡدًا﴾
کہ ان کو ٹھنڈ نہیں ملے گی اور بعض روایات میں ہے کہ جہنم میں زمہریر یعنی ٹھنڈک کا عذاب بھی ہو گا۔جواب یہ ہے کہ اس زمہریر سے مراد ہے ایسی ٹھنڈ جو بندے کو جما کر رکھ دے اور ”بَرْدًا“ کہتے ہیں ایسی ٹھنڈ کو جو معتدل ہو۔
﴿اِنَّہُمۡ کَانُوۡا لَا یَرۡجُوۡنَ حِسَابًا ﴿ۙ۲۷﴾ وَّ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا کِذَّابًا ﴿ؕ۲۸﴾ وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ کِتٰبًا ﴿ۙ۲۹﴾ فَذُوۡقُوۡا فَلَنۡ نَّزِیۡدَکُمۡ اِلَّا عَذَابًا ﴿٪۳۰﴾﴾
یہ لوگ قیامت کے حساب کی امید نہیں رکھتے تھے اور ہماری آیات کو جھٹلاتے تھے۔ ہم نے ہر چیز کو لکھ کر رکھا ہوا ہے اور قیامت کے دن ارشاد ہو گا کہ چکھو! آج ہم تمہیں صرف عذاب ہی چکھائیں گے۔
متقین کے لیے انعامات:
﴿اِنَّ لِلۡمُتَّقِیۡنَ مَفَازًا ﴿ۙ۳۱﴾ حَدَآئِقَ وَ اَعۡنَابًا ﴿ۙ۳۲﴾ وَّکَوَاعِبَ اَتۡرَابًا ﴿ۙ۳۳﴾﴾
یہاں سے متقین کا ذکر ہے۔ فرمایا: متقین کے لیے کامیابی ہے،ان کو باغات ملیں گے اور بطورِ خاص انگور کے باغات ملیں گے۔یہ تخصیص بعد تعمیم ہے۔ اور ان کو ایسی عورتیں ملیں گی جن کی ابھرتی جوانی ہو گی۔ ”اَتۡرَابًا“ ہم عمر، ”کَوَاعِبَ“ یہ کاعبہ کی جمع ہےاور کاعبہ کہتے ہیں کہ جس کا کچھ حصہ ابھرا ہو، اس لیے ٹخنے کو کعب کہتے ہیں کیونکہ ٹخنہ ابھرا ہوتا ہے باقی جسم سے۔ ابھرتی جوانی کامعنی ہوتا ہے کہ ان کے پستان اٹھے ہوتے ہیں، یہ عورت میں حسن ہے جس کے بغیر انسان کو لطف نہیں آتا اور اللہ نے جنت کی حوروں کی اٹھارہ صفتیں بیان فرمائیں اور یہ اس لیے بیان کیں کہ ان کو بیان کیا کرو، انہیں سنا کرو کیونکہ اس سے بندے کی رغبت بڑھتی ہے ۔ تاکہ ناپاک حسن سے جان چھوٹے اور پاک حسن کی طرف رغبت ہو۔ اللہ ہم سب کو حوریں عطا فرمائے۔ (آمین)
﴿وَّ کَاۡسًا دِہَاقًا ﴿ؕ۳۴﴾ لَا یَسۡمَعُوۡنَ فِیۡہَا لَغۡوًا وَّ لَا کِذّٰبًا ﴿ۚ۳۵﴾ جَزَآءً مِّنۡ رَّبِّکَ عَطَآءً حِسَابًا ﴿ۙ۳۶﴾﴾
اور صاف بھرے ہوئے پیالے ہوں گے، جنت میں نہ بے ہودگی ہو گی نہ جھوٹ ہو گا۔ یہ بدلہ ہے تمہارے رب کی طرف سے اور عطا ہے بغیر حساب کے۔
اس پر سوال یہ ہے کہ جزا کہتے ہیں کہ جو اعمال کے بدلے میں ہو اور عطا کہتے ہیں جو بغیر بدلے کے ہو۔ تو جزا اور عطا دو چیزیں اکٹھی کیسے ہوں گی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اصل تو انسان نے نیک اعمال کیے ہیں اور ان نیک اعمال کی وجہ سے جنت میں بھیجا جا رہا ہے لیکن بتانا یہ چاہتے ہیں کہ تمہارے نیک اعمال اس قابل نہیں ہیں کہ ان کے بدلےمیں جنت ہو، یہ اللہ کی طرف سے عطیہ ہے جو تمہیں عطا کر رہے ہیں۔
﴿رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا الرَّحۡمٰنِ لَا یَمۡلِکُوۡنَ مِنۡہُ خِطَابًا ﴿ۚ۳۷﴾ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الرُّوۡحُ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا ؕ٭ۙ ﴾
قیامت کے دن کوئی پوچھ نہیں سکے گا کہ اس کو چھوٹی جنت د ی ہے اس کو بڑی کیوں؟ اس کو سزا کیو ں دی؟ اس کو معاف کیو ں کیا؟ جبرائیل امین بھی ہوں گے اور دوسرے فرشتے بھی ہوں گے، سارے اب صف درصف کھڑےہوں گے۔
﴿لَّا یَتَکَلَّمُوۡنَ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا ﴿۳۸﴾﴾
اللہ کی اجازت کے بغیر قیامت کے دن کوئی بات بھی نہیں کر سکے گا اور جو کوئی بات کریں گے تو وہ درست بات ہی کریں گے۔ یہ حق ہے، سچا دن ہے، جو اپنے رب کے پاس ٹھکانا بنانا چاہتے ہیں تو بنا لیں۔
کافر کی حسرت؛ کاش میں مٹی بن جاتا
﴿وَ یَقُوۡلُ الۡکٰفِرُ یٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ تُرٰبًا ﴿٪۴۰﴾﴾
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن پہاڑ وغیرہ ختم کر کے پوری زمین کو برابر کیا جائے گا تاکہ درمیان میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس کی وجہ سے ایک کو دوسرا نظر نہ آ سکے۔ پھر قیامت کے دن اللہ ایسی بکریاں کھڑی کریں گے کہ ایک بکری نے دنیا میں اس بکری کو مارا تھا جس کے سینگ نہیں تھے، اللہ سینگ والی بکری کے سینگ ختم کر دیں گے اور جس کے دنیا میں سینگ نہیں تھے اس کو دیں گے اور فرمائیں گے کہ اس کو ٹکر مار کر بدلہ لو! وہ بدلہ لے گی۔ پھر حکم ہو گا کہ دونوں مٹی بن جاؤ! اس وقت کافر کہے گا :
”یٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ تُرٰبًا“
اے کاش! آج میں بھی مٹی بن جاتا ․․․ لیکن نہیں بن سکے گا۔
یہاں ایک نکتہ سمجھیں کہ جنت اوپر ہے اور جہنم نیچے ہے۔ نیچے مٹی ہے اور جہنمی آدمی نیچے کیوں جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گیارہ قسمیں کھا کر ارشاد فرمایا کہ ہم نے انسان کی جبلت میں فجور اور تقویٰ دونوں رکھے ہیں۔ فجور کا معنی ہے من مانی کرنا اور تقویٰ کا معنی ہے مان کےچلنا۔ مان کے چلنے والی مخلوق ہے ملائکہ جو اوپر ہیں اور من مانی کرنے والی مخلوق جانور ہے جو زمین سےبنتی ہے اور نیچے رہتی ہے۔ تو جو انسان من مانی کرتا ہے اللہ اس کو وہ ٹھکانا دیتا ہے جو جانوروں کا ہے جونیچے ہے اور جو مان کےچلتا ہے اس کو وہ ٹھکانا دیتا ہے جو ملائکہ کا ہے اور وہ اوپر ہے، اس لیے جنت کو اوپر بنایا اور جہنم کو نیچے بنایا۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․