سورۃ التکویر

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ التکویر
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اِذَا الشَّمۡسُ کُوِّرَتۡ ۪ۙ﴿۱﴾ وَ اِذَا النُّجُوۡمُ انۡکَدَرَتۡ ۪ۙ﴿۲﴾ وَ اِذَا الۡجِبَالُ سُیِّرَتۡ ۪ۙ﴿۳﴾﴾
نفخہ اولیٰ کے بعد کے احوال:
قیامت میں ایک نفخہ اولیٰ ہو گا اور ایک نفخہ ثانیہ ہو گا۔ نفخہ اولیٰ کامعنی کہ صور پہلی بار پھونکا جائے گا اور نفخہ ثانیہ کہ پھر دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا۔ قیامت کے بعض احوال وہ ہیں کہ جن کا تعلق نفخہ اولیٰ کے ساتھ ہے اور بعض وہ ہیں کہ جن کا تعلق نفخہ ثانیہ کے ساتھ ہے۔ اب یہ جو پہلے چھ احوال ہیں یہ نفخہ اولیٰ کے حوالے سے ہیں۔
﴿اِذَا الشَّمۡسُ کُوِّرَتۡ ۪ۙ﴿۱﴾﴾
اس کا ایک ترجمہ یہ ہے کہ جب سورج بے نور ہو جائے گا۔ دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ جب سورج کو توڑ دیا جائے گا۔ ”تکویر“ کے دونوں معانی ٹھیک ہیں اور دونو ں کی تائید احادیث سے ہوتی ہے۔ دونوں میں تطبیق بھی ممکن ہے کہ پہلے سورج کی روشنی ختم کر دی جائے گی، پھر اس کو سمندرمیں گرا دیا جائے گا کیونکہ روایات میں ہے کہ شمس وقمر کو سمندر میں پھینک دیا جائے گا، پھر وہاں تیز آندھی چلے گی جس سے پورا سمندر بھڑک اٹھے گا اور اس سے ایک طوفان برپا ہو گا۔
﴿وَ اِذَا النُّجُوۡمُ انۡکَدَرَتۡ ۪ۙ﴿۲﴾﴾
اور جب ستارے ٹوٹ کر گر پڑیں گے۔
﴿وَ اِذَا الۡجِبَالُ سُیِّرَتۡ ۪ۙ﴿۳﴾﴾
جب پہاڑوں کو چلا دیا جائے گا۔ پہاڑ اڑیں گے روئی کی طرح۔
﴿وَ اِذَا الۡعِشَارُ عُطِّلَتۡ ۪ۙ﴿۴﴾﴾
اور جب دس ماہ کی گابھن اونٹنی آزاد پھرے گی، کوئی بھی اس کو پکڑنے والا نہیں ہو گا۔ عربوں کے ہاں دس ماہ کی گابھن اونٹنی بہت قیمتی شمار ہوتی ہے۔ تو جب نفخہ اولیٰ ہو گا تو یہ آزاد پھر ے گی، کوئی بھی اس کا خیال کرنے والا نہیں ہو گا۔
﴿وَ اِذَا الۡوُحُوۡشُ حُشِرَتۡ ۪ۙ﴿۵﴾﴾
اور جب جنگلی اور وحشی جانور اکٹھے ہوجائیں گے۔ عام طور پر سارے جانور اکٹھے نہیں ہوتے، ہاتھیوں کے ریوڑ الگ ہوتے ہیں، گیدڑ الگ ہوتے ہیں، شیر الگ رہتے ہیں لیکن نفخہ اولیٰ کا منظر ایسے ہو گا کہ سارے مکس ہوں گے، اکٹھے پھریں گے۔
﴿وَ اِذَا الۡبِحَارُ سُجِّرَتۡ ۪ۙ﴿۶﴾﴾
اور جب دریاؤں کو بھڑکا دیا جائے گا۔
نفخہ ثانیہ کے بعد کے احوال:
﴿وَ اِذَا النُّفُوۡسُ زُوِّجَتۡ ۪ۙ﴿۷﴾﴾
یہاں سے آگے چھ احوال وہ ہیں جن کا تعلق نفخہ ثانیہ کے ساتھ ہو گا۔ فرمایا: جب ہر قسم کے لوگوں کے جوڑے بنا دیے جائیں گے، کافروں کا جوڑا الگ ہو گا مسلمانوں کا الگ ہو گا، گروہ اور ٹولیاں بنیں گی، پھر صلحا الگ ہوں گے، فساق الگ ہوں گے، پھر فساق میں بھی خاص گناہ کرنے والے الگ ہوں گے، زانی الگ ہوں گے، چور الگ ہوں گے، ڈکیت الگ ہوں گے۔
یعنی جرائم کرنے والے تو ہوں گے لیکن بعض لوگ خاص گناہ کرتے ہیں جیسے ڈکیتی کرتے ہیں، پھر شراب بھی پیتے ہیں، پھر زنا بھی کرتے ہیں اور عیاشی بھی کرتےہیں۔ اب یہ شراب اور زنا گناہ ہیں لیکن اصل اس کا جرم کون ساہے؟ ڈکیتیاں کرنا، اور جب ڈکیتی چھوڑ دیں تو زنا شراب بھی ختم ہو جائے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ ڈکیت ہے حالانکہ جرم اور بھی ہوتے ہیں، پھر جو اس طرح خاص جرم کرنے والے ہوں گے وہ لوگ اکٹھے ہو جائیں گے۔ اسی طرح صلحاء ہیں، عالم نماز بھی پڑھتےہیں، روزے بھی رکھتے ہیں، حج بھی کرتے ہیں لیکن یہ کون ہیں؛ علماء۔ اب یہ علماء اکٹھے ہو جائیں گے۔ یہ مطلب ہے اس کا۔
زندہ درگور کی ہوئی لڑکی سے سوال:
﴿وَ اِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَتۡ ۪ۙ﴿۸﴾﴾
اور جس بچی کو زندہ درگور کرتے تھے اس سے قیامت کےدن پوچھا جائے گا۔
﴿بِاَیِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ ۚ﴿۹﴾﴾
کہ کس جرم کی وجہ سے اس کو قتل کیا گیا ہے۔ یہ پوچھا کس سے جائے گا؟ خود ا س بچی سے پوچھا جائے گا کہ تجھے کیوں قتل کیا تھا؟ یہ اس لیے کہ اس بچی کی طرف سے قیامت کے دن دعویٰ کرنے والا کوئی نہیں ہو گا تو اللہ اسی سے پوچھیں گے کہ تو بتا تجھے کیوں قتل کیا گیا تھا؟ کوئی اور تو اس کا مقدمہ لڑنے والا نہیں ہو گا، تو وہ بتائے گی کہ اللہ! میرا کوئی جرم نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں لڑکی تھی اور یا اس بچی کے بارے میں ان درندوں سے پوچھیں گے جو زندہ درگور کرتے تھے کہ تم نے یہ جرم کیوں کیا تھا؟
قیامت کے دن ہر جرم کے بارے میں پوچھا جائے گا لیکن بطورِ خاص اس بچی کا ذکر اس لیے کیا کہ اس کی طرف سے قیامت کے دن کوئی دعوے دار نہیں ہو گا تو اللہ اس کے خود دعوے دار بن کر پوچھیں گے۔
﴿وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ ﴿۪ۙ۱۰﴾﴾
عمال نامے پھیلا دیے جائیں گے، ہر آدمی اپنے اعمال نامےکو دیکھے گا۔
﴿وَ اِذَا السَّمَآءُ کُشِطَتۡ ﴿۪ۙ۱۱﴾﴾
آسمان کھول دیے جائیں گے۔ کھول دینے کا معنی یہ ہے کہ نیچے سے دیکھیں گے تو آسمان کے اوپر کی جو چیزیں ہیں وہ بھی نظر آئیں گی۔
﴿وَ اِذَا الۡجَحِیۡمُ سُعِّرَتۡ ﴿۪ۙ۱۲﴾﴾
اور جب جہنم کو مزید بھڑکا دیا جائے گا۔
﴿وَ اِذَا الۡجَنَّۃُ اُزۡلِفَتۡ ﴿۪ۙ۱۳﴾﴾
اور جنت کو متقین کے قریب کر دیا جائے گا۔
﴿عَلِمَتۡ نَفۡسٌ مَّاۤ اَحۡضَرَتۡ ﴿ؕ۱۴﴾﴾
جس شخص نے جو اعمال کیے ہیں آج اس کے سامنے ہوں گے، وہ اپنے اعمال کو جان لے گا۔ یہاں تک کے چھ احوال نفخہ ثانیہ کے بعد ہوں گے۔
پانچ ستاروں کی قسمیں:
﴿فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِالۡخُنَّسِ ﴿ۙ۱۵﴾﴾
اللہ رب العزت نفخہ اولیٰ اور نفخہ ثانیہ کو بیان کرنے کے بعد اب قسمیں کھا کر یہ بات سمجھا رہے ہیں کہ قیامت نے بھی آنا ہے اور قرآن بھی سچا ہے، میرا پیغمبر بھی سچا ہے، لہذا تم اس کو مان لو۔فرمایا: قسم ہے ان ستاروں کی جو چھپ جاتے ہیں۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ
”اُقْسِمُ“
پر
” لَا “
داخل کیا جاتا ہے مخاطب کے نظریے کی تردید کرنے کے لیے کہ جو تمہارا خیال ہے کہ قرآن ٹھیک نہیں ہے، تمہارا جو خیال ہے کہ پیغمبر -معاذ اللہ- مجنون ہے ایسی بات نہیں ہے،
”اُقْسِمُ“
میں قسم کھا کر یہ بات کہہ رہا ہوں:
﴿اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ ﴿ۙ۱۹﴾﴾
﴿فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِالۡخُنَّسِ ﴿ۙ۱۵﴾ الۡجَوَارِ الۡکُنَّسِ ﴿ۙ۱۶﴾﴾
ستارو ں میں سے پانچ ستارے ایسے ہیں جو پہلے آگے چلتے ہیں، پھر الٹے ہوتے ہیں اور پھر وہ عالمِ ملکوت میں جا کر چھپ جاتے ہیں، ورنہ عام طور پر ستارے آگے جا کر پیچھے نہیں ہوتے یا کھڑے رہتے ہیں یا وہ اپنے مدار میں چلتے رہتے ہیں۔ وہ پانچ ستارے زحل، مشتری، عطارد، مریخ اور زہرا ہیں اور ان پانچوں کو فلسفہ میں ”نجوم متحیرہ“ کہتے ہیں۔ یہ حیران کن قسم کے ستارے ہیں۔ اللہ نے ان کی قسم کھائی ہے کہ قسم ہے ان ستاروں کی جو چھپ جاتے ہیں اور جب آگے ہو کر پیچھے ہوتے ہیں تو پھر چلتے رہتے ہیں۔
” الْخُنَّسِ“
کا معنی پیچھے ہٹ جانے والے،
”الْجَوَارِ“
کا معنی سیدھے چلنے والے اور ”الْكُنَّسِ“ کا معنی چھپ جانے والے۔
﴿وَ الَّیۡلِ اِذَا عَسۡعَسَ ﴿ۙ۱۷﴾﴾
قسم ہے رات کی جب وہ چلی جاتی ہے۔
﴿وَ الصُّبۡحِ اِذَا تَنَفَّسَ ﴿ۙ۱۸﴾﴾
اور قسم ہے صبح کی جب وہ آ جاتی ہے۔
جبرئیل امین کی صفات:
﴿اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ ﴿ۙ۱۹﴾ ذِیۡ قُوَّۃٍ عِنۡدَ ذِی الۡعَرۡشِ مَکِیۡنٍ ﴿ۙ۲۰﴾﴾
یہ جوابِ قسم ہے۔یعنی یہ جو قرآن کریم ہے یہ اللہ کا کلام ہے، اس کو لانے والا کریم ہے، عزت والاہے، طاقت والاہے۔ طاقت کا اندازہ اس سے لگاؤ کہ اس کے چھ سو پر ہیں۔یہ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام ہیں۔ اور عرش کے مالک؛ اللہ کے ہاں ان کا بڑا مرتبہ ہے۔
بطور خاص عرش کی بات کیو ں کی ہے۔ آپ ”القواعد فی العقائد“ میں ایک سوال جواب پڑھ چکے ہیں، سوال یہ تھا کہ اللہ رب العزت
﴿ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ﴾
کا تذکرہ کیوں کرتے ہیں کہ اللہ اپنے عرش پر مستوی ہوئے۔ وہاں ہم نے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم استواء علی العرش کا معنی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش کے مالک ہیں، اللہ تعالیٰ کی عرش پر حکومت ہے۔ ہم اس کا معنی یہ کرتے ہیں۔ مخلوقات میں سب سے بڑی مخلوق عرش ہے، اس لیے اللہ رب العزت عرش کا بطورِ خاص ذکر فرماتے ہیں۔ یہاں
﴿ذِی الۡعَرۡشِ﴾
فرمایا کہ اللہ تو وہ ہے جو عرش کا مالک ہے۔ تو جب عرش کے مالک ہیں تو باقی چیزیں سب کی سب خود بخود ان کی مِلک میں آئیں گی۔ اس لیے یہاں پر اللہ تعالیٰ نے بطورِ خاص عرش کا ذکر فرمایا ہے۔
﴿مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیۡنٍ ﴿ؕ۲۱﴾﴾
مطاع ہے یعنی اس کی بات فرشتے بھی مانتے ہیں، امانت دار بھی ہے خیانت کبھی نہیں کرتا۔
﴿وَ مَا صَاحِبُکُمۡ بِمَجۡنُوۡنٍ ﴿ۚ۲۲﴾﴾
اور جس کے پاس قرآن آیا ہے جو تمہارے ساتھی ہیں -العیاذ باللہ - ان میں جنون نہیں ہے۔
﴿وَ لَقَدۡ رَاٰہُ بِالۡاُفُقِ الۡمُبِیۡنِ ﴿ۚ۲۳﴾﴾
اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل کو افق؛ اوپر والا جو واضح کنارہ ہے وہا ں ان کو دیکھا ہے۔
﴿وَ مَا ہُوَ عَلَی الۡغَیۡبِ بِضَنِیۡنٍ ﴿ۚ۲۴﴾﴾
اور خود پیغمبر پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت یہ ہے کہ یہ غیب کی بات بتانے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ کاہن کے پاس غیب کی خبریں نہیں ہوتیں لیکن جو جھوٹی خبریں غیب کی بنا کر وہ بتاتے ہیں وہ بھی مفت میں نہیں بتاتے بلکہ پیسے لے کر بتاتے ہیں، خبریں چھپا کر رکھتے ہیں جبکہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم چھپا کر نہیں رکھتے بلکہ جو خبر آتی ہے بتا دیتے ہیں۔
﴿وَ مَا ہُوَ بِقَوۡلِ شَیۡطٰنٍ رَّجِیۡمٍ ﴿ۙ۲۵﴾﴾
اور یہ قرآن کریم شیطان مردود کاہنوں والی بات نہیں ہے بلکہ پیغمبر والی بات ہے۔
قسم اور مقسم بہ میں مناسبت:
اب یہاں دیکھو! جو قسمیں کھائی ہیں :
﴿فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِالۡخُنَّسِ ﴿ۙ۱۵﴾ الۡجَوَارِ الۡکُنَّسِ ﴿ۙ۱۶﴾﴾
کہ قسم ہے ستاروں کی جو آگے جاتے ہیں، پھر پیچھے آتے ہیں، پھر چلتے رہتے ہیں پھر عالمِ ملکوت میں چھپ جاتے ہیں۔ ا س کےمناسب آگے کیاہے؟ فرمایا:
﴿اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ ﴿ۙ۱۹﴾﴾
جبرائیل امین علیہ السلام آتے ہیں، پھر واپس چلے جاتے ہیں کسی کو نظر نہیں آتے۔ تو حضرت جبرائیل امین کی حالت کے موافق یہ قسم کھائی۔
یہ جو قسم کھائی ہے
﴿وَ الَّیۡلِ اِذَا عَسۡعَسَ ﴿ۙ۱۷﴾ وَ الصُّبۡحِ اِذَا تَنَفَّسَ﴿ۙ۱۸﴾﴾
یہ قرآن کریم اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتبار سے ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں تو ظلمتیں چھٹ گئی ہیں اور صبح ہو گئی ہے۔ تو ان دونو ں کی مناسبت سے اللہ نے دونوں طرح کی قسمیں کھائی ہیں۔ ایک قسم ایسی ہے کہ جو جبرائیل علیہ السلام کے مناسب ہے اور ایک قسم وہ ہے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مناسب ہے۔
﴿فَاَیۡنَ تَذۡہَبُوۡنَ ﴿ؕ۲۶﴾ اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۲۷﴾ لِمَنۡ شَآءَ مِنۡکُمۡ اَنۡ یَّسۡتَقِیۡمَ ﴿ؕ۲۸﴾﴾
اس قرآن کو چھوڑ کر تم کہاں دوڑتے ہو؟! یہ قرآن کریم نصیحت ہے بالعموم سارے جہان کے لیے اور بالخصوص اس شخص کے لیے جو سیدھے راستے پر چلنا چاہتا ہو۔ یہ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان القرآن کا ترجمہ ہے۔
ہدایت کی دو قسمیں:
ہم کہتے ہیں کہ ہدایت کے دو طریقے ہیں:
1:
اراءۃ الطریق ․․
سیدھا راستہ دکھا دینا
2:
ایصال الی المطلوب․․
سیدھے راستے پر چلا دینا۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ ذکر بالعموم نصیحت ہے جہان والوں کے لیے اور بالخصوص ان لوگوں کے لیے جو تم میں سے سیدھے راستے پر چلنا چاہتے ہوں۔ بالعموم عوام الناس کے لیے یہ قرآن نصیحت ہے اراءۃ الطریق کے طور پر کہ ان کو راستہ دکھا دیتا ہے اور خواص کے لیے یہ نصیحت ہے کہ ان کو منزلِ مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔یہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی تعبیرات ہیں۔
میں اس لیے کہتا ہوں کہ بیان القرآن پڑھا کرو، لطف لو بیان القرآن پڑھ کر، حضرت نے کمال کر دیا ہے لغا ت الگ حل کی ہیں، صرف ونحو کو الگ حل کیا ہے، تصوف کو الگ چھیڑا ہے، عقائد کی بات کرتے ہیں، پھر مسائل سلوک لاتے ہیں، پھر بین القوسین میں سارے شبہات کو رد فرما دیتے ہیں۔ حضرت نے یہ عوام کے لیے لکھا ہے اور آپ یقین فرمائیے کہ جب حضرت یہ فرماتے ہیں کہ میں طالب علمانہ طور پر یہ بات کر رہا ہوں تو میں کسی اور کی بات نہیں کرتا میں اپنی بات کرتا ہوں کہ میری بس ہو جاتی ہے، مجھے سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے جب حضرت خالص علمی رنگ اختیار فرما تے ہیں۔
جب یہ نصیحت ہے بالعموم بھی اور بالخصوص بھی تو پھر بھی لوگ ہدایت پر کیوں نہیں آتے؟ حضرت رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس میں اللہ کی تکوینی حکمتیں ہیں کہ بعضوں کے لیے مشیت ہوتی ہے تو ہدایت مل جاتی ہے اور بعضو ں کے لیے حکمت کی وجہ سے مشیت نہیں ہوتی تو ان کو ہدایت نہیں ملتی، اس لیے آپ اس پر زیادہ پریشان نہ ہوں۔
﴿وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿٪۲۹﴾﴾
تم چاہو بھی تو سیدھے راستے پر نہیں چل سکتے۔ ہاں جب اللہ چلانا چاہے تو پھر چل سکتے ہو۔ بس یہ دعاکریں کہ اللہ ہم سب کے لیے صراط مستقیم پر چلانے کا فیصلہ فرما لیں۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․