سورۃ الانفطار

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الانفطار
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اِذَا السَّمَآءُ انۡفَطَرَتۡ ۙ﴿۱﴾ وَ اِذَا الۡکَوَاکِبُ انۡتَثَرَتۡ ۙ﴿۲﴾ وَ اِذَا الۡبِحَارُ فُجِّرَتۡ ﴿ۙ۳﴾﴾
احوالِ قیامت کا بیان:
جب آسمان ٹوٹ جائے گا، بکھر جائے گا۔ ستارے گر پڑیں گے۔ جب دریاؤں کو مزید چلا دیا جائے گا۔ دریا تو پہلے بھی چل رہے ہیں یہاں چلانے کا مطلب یہ ہے کہ میٹھے اور کھارے پانی کو ملا دیا جائے گا، پھر ان کو اکٹھا کر کے چلایا جائے گا۔
﴿وَ اِذَا الۡقُبُوۡرُ بُعۡثِرَتۡ ۙ﴿۴﴾﴾
قبروں کو اکھاڑ کر رکھ دیا جائے گا۔ اب دیکھو! قبر اسے کہتے ہیں جہاں میت یا اجزائے میت ہوں، قبر کا معنی علیین یا سجین نہیں ہے۔
﴿عَلِمَتۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ وَ اَخَّرَتۡ ؕ﴿۵﴾﴾
ہر آدمی جان لے گا کہ اس نے آگے کون سا عمل بھیجا ہے اور پیچھے کون سا عمل چھوڑا ہے۔ اس کا ایک معنی یہ ہے کہ جو نیک اعمال اس نے کیے تھے آگے وہ اس کے لیے ذخیرہ ہوں گے وہ بھی دیکھ لے گا اور جو نیک عمل وہ نہیں کر سکا تھا چھوڑ دیےتھے وہ بھی اس کے سامنے آ جائیں گے، پیچھے والے اور بعد والے بھی۔
یا یہ معنی ہے کہ کوئی ایسا شخص کہ جس نے کوئی نیک عمل خود کیا تو اس کا اجر بھی اسے ملے گا اور ایسا نیک عمل پیچھے چھوڑا کہ لوگ اس پر عمل کرتے تھے اس کا اجر بھی اس کو ملے گا جسے صدقہ جاریہ کہتےہیں۔ مثلاً مسجد بنا دی، مدرسہ بنا دیا، نیک اولاد چھوڑ کر چلا گیا یا علم چھوڑ کر چلا گیا۔ تو جو نیک اعمال خود کیے اور آگے بھیج دیے یہ اس کا
”قَدَّمَتْ “
ہیں اور جو پیچھے چھوڑے کہ لوگ اس پر عمل کرتے تھے یہ اس کا
”اَخَّرَتْ“
ہیں۔
﴿یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الۡکَرِیۡمِ ۙ﴿۶﴾ الَّذِیۡ خَلَقَکَ فَسَوّٰىکَ فَعَدَلَکَ ۙ﴿۷﴾ فِیۡۤ اَیِّ صُوۡرَۃٍ مَّا شَآءَ رَکَّبَکَ ؕ﴿۸﴾﴾
اے انسان! تجھے کس چیز نے دھوکے میں ڈالا اپنے رب کریم کے بارے میں جس اللہ نے تمہیں پیدا کیا، پھر تمہارے جوڑوں کو تناسب سے بنایا، پھر تمہارے مزاج میں اعتدال رکھا۔ اخلاطِ اربعہ میں سے کسی کو بڑھا دیا یا کسی کو کم کر دیا،جسم میں حرارت یا برودت بڑھ جائے یا کم ہو جائے ایسا نہیں کیا بلکہ مزاج میں اعتدال رکھا۔ پھر جیسے چاہا اس طرح تمہیں جوڑ کر تمہاری شکل کو بنا دیا۔
اللہ کی صفت کریمی:
اللہ نے یہاں صفت کریم کیوں بیان فرمائی۔ اللہ بتانا چاہتے ہیں کہ دیکھو! جس کے تم مستحق نہیں ہو اللہ پھر بھی دیتا ہے اور اللہ نے تمہارے اعمال پر فوراً مواخذہ نہیں فرمایا، تم نے رات کی تاریکی میں گناہ کیے تھے لیکن اللہ نے اپنی رحمت سے چھپا لیے تو تم دھوکے میں آ گئے ہو کہ ہمارا کچھ نہیں ہو گا! تو فرمایا:
﴿کَلَّا بَلۡ تُکَذِّبُوۡنَ بِالدِّیۡنِ ۙ﴿۹﴾﴾
ہرگز نہیں! دھوکے میں مت آؤ، بلکہ تم مزید دھوکے میں آ جاتے ہو اور اتنے دھوکے میں آتے ہو کہ قیامت کے دن کو بھی جھٹلانا شروع کر دیتے ہو، کچھ خیال کرو۔
﴿وَ اِنَّ عَلَیۡکُمۡ لَحٰفِظِیۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾ کِرَامًا کَاتِبِیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ یَعۡلَمُوۡنَ مَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۱۲﴾﴾
تم پر تو فرشتے متعین ہیں -تمہاری حفاظت ہورہی ہے - یہ فرشتے عزت والے ہیں۔ وہ لکھ رہے ہیں جو تم کرتے ہو وہ سب جانتے ہیں۔
اللہ! تیرے کرم نے دھوکے میں ڈالا
حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ کراچی والے میں نے خود ان کے سامنے بیٹھ کر سنا ہے، حضرت فرماتے تھے کہ میں جب یہ آیت پڑھتا ہوں :
﴿یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الۡکَرِیۡمِ﴾
کہ تمہیں تمہارے کریم رب کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں ڈالا تو بے ساختہ میری زبان سے نکلتا ہے
کَرَمُکَ․․ کَرَمُکَ․․ کَرَمُکَ ․․
بس اللہ! آپ کریم اتنے ہیں کہ ہم دھوکے میں پڑ گئے ہیں۔ جس طرح ایک بندہ ہے وہ سمجھتا ہے کہ فلاں بزرگ ایسا ہے کہ میں نے اس کی کوئی چیز کھا بھی لی تو وہ مجھے کچھ نہیں کہیں گے، میں نے ان کو کچھ کہَ بھی دیا تو بھی وہ مجھے کچھ نہیں کہیں گے، میں دیر سے چلا گیا تو استاذ جی نے پھر بھی کچھ نہیں کہنا! یہ ہے کرم۔ اس کرم کا تقاضا یہ تھا کہ وقت پر آتے، اس کا تقاضا یہ نہیں تھا کہ آدمی نافرمانیا ں شروع کر دیتا۔
اللہ کریم ہے اور کرم کا تقاضا یہ تھا کہ اس کے کرم کو دیکھ کر بات مانتے، ہم اس کے کرم کو دیکھ کر دھوکے میں آ گئے اور ہم نے کیا کام شروع کر دیا؟!
”کریم“ کے پانچ معانی:
علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے ”کریم“ کے پانچ معانی لکھے ہیں:
1: اَلَّذِیْ یُعْطِیْ بِدُوْنِ الاِسْتِحْقَاقِ․
کریم وہ ہے جو اس کو دیتا ہے جو حقدار نہیں ہوتا، غیر مستحق کو دینے والے کو کریم کہتے ہیں۔
2: اَلَّذِیْ یُعْطِیْ بِدُوْنِ الْمَنِّ وَالْفَضْلِ
کریم وہ ہے جو دیتا ہے پھر جتلاتانہیں ہے کہ تمہیں یاد ہے کہ میں نے تمہیں دیا تھا، اس کو کریم کہتے ہیں۔
3: اَلَّذِیْ یَتَفَضَّلُ عَلَیْنَا فَوْقَ مَانَتَمَنّٰی بِہٖ
جتنی آدمی کی توقع ہوتی ہے اس سے بڑھ کر دیتا ہے، اس کو کریم کہتے ہیں۔
4: اَلَّذِیْ یَتَفَضَّلُ عَلَیْنَا بِدُوْنِ مَسْئَلَۃٍ وَلَا وَسِیْلَۃٍ
جو بن مانگے بھی دے اور بن وسیلہ بھی دے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر وسیلہ نہ کریں تب بھی دیتا ہے اور اگر وسیلہ کریں تو اللہ تعالیٰ جلدی دیتا ہے۔ اھل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ وسیلہ کر سکتے ہیں۔
5: اَلَّذِیْ یَتَفَضَّلُ عَلَیْنَا وَلَا یَخَافُ نِفَادَ مَاعِنْدَہٗ
وہ عطا کرے اور اس کو اپنے خزانے میں کمی کا کوئی خدشہ نہ ہو۔
اللہ پاک ہمیں اپنی شان کریمی سے استفادہ کرنے کی توفیق عطافرمائیں۔
ایصال ثواب کا اثبات:
میں اس آیت کو بسا اوقات ایصالِ ثواب پر پیش کرتا ہوں بطورِ دلیل کے۔ دیکھو! اگر کوئی شخص ارادۂ گناہ کرے اور گناہ نہ کرے تو اس کو نہیں لکھا جاتا جب تک گناہ نہ کرے، ارادۂ نیکی کرے اور نیکی نہ کرے تب بھی لکھ لیا جاتا ہے۔ قانونِ عدل یہ ہے کہ ارادۂ گناہ پر گناہ نہ لکھتے تو ارادۂ نیکی پر نیکی نہ لکھی جاتی، اگر ارادۂ نیکی پر نیکی لکھ دیتے تو ارادۂ گنا ہ پر گناہ بھی لکھ لیتے لیکن اللہ نے قانونِ عدل سے کام نہیں لیا بلکہ قانونِ کرم سے کام لیا۔
آدمی گناہ ایک کرے تو ایک لکھا جاتا ہے اور نیکی ایک کرے تو دس لکھی جاتی ہیں۔ قانونِ عدل یہ تھا کہ ایک گناہ پر ایک گناہ اور ایک نیکی پر ایک نیکی لکھتے، نیکی پر دس ہے تو گناہ پر بھی دس لکھتے لیکن قانونِ عدل سے کام نہیں لیا بلکہ قانونِ کرم سے کام لیا۔ پھر اگر باپ مر جائے اور بیٹا زنا کرے اور کہے کہ یا اللہ! اس کا گناہ میرے ابا کو دے دیں تو اللہ نہیں دیتے اور اگر یہ بندہ نیک عمل کرے اور کہے کہ یا اللہ! اس کا ثواب میرے ابا کو دے دیں تو اللہ دے دیتے ہیں، ایصالِ عذاب نہیں ہوتا بلکہ ایصالِ ثواب ہوتا ہے، قانونِ عدل یہ ہے کہ اگر نیکی دی ہے تو اس کا گناہ بھی دے دیتے اور اگر گناہ نہیں پہنچتا تو نیکی بھی نہ پہنچتی، یہا ں بھی قانونِ عدل سے نہیں بلکہ قانونِ کرم سے کام لیا ہے۔
پھر اللہ رب العزت نے انسان کو جتنی عمر دی ہے مثلاً ستر سال۔ یہ بالغ ہوا ہے پندرہ سال کے بعد تو پچپن سال کی نیکیاں اور پچپن سال کے گناہ اعمال نامہ میں تول دیے جائیں گے۔ اب اگر جتنی عمر ہے اور اتنے ہی اعمال ہوتے -میں اپنی بات کرتا ہوں، آپ کی تو نہیں کرتا- شاید ہمارے لیے جنت میں جانے کی کوئی صورت پیدا نہ ہوتی چونکہ ہماری عمر میں گناہ زیادہ ہیں اور نیک اعمال کم ہیں اور شاید جنت کی صورت نہ نکلتی۔
اگر اللہ قیامت تک انسان کو زندہ رکھتے اور قیامت کے دن اس کو موت دیتے اور پھر اس کو زندہ کرتے اور اس کی نیکیوں اور گناہوں کو تولا جاتا تو گناہ بڑھ جاتے اور نیکیاں کم ہو جاتیں، اللہ نے کرم فرمایا کہ زندگی تھوڑی دی ہے اور اس کے بعد والے اگر گناہ کر کے اس کو بخشیں تو نامہ اعمال میں نہیں ڈالتے اور بعد والے نیک اعمال کر کے بخشیں تو اللہ اس کے نامہ اعمال میں ڈال دیتے ہیں۔ زندگی پچپن سال ہے، گناہ بھی پچپن سال کےہیں اور نیک اعمال پچپن سال کےنہیں، تو بعد والے نیک اعمال کر کے اس کو بخشیں تو قیامت تک اللہ اس کے نامہ اعمال میں ڈالتے رہیں گے۔ اب جب قیامت کے دن نامہ اعمال تولا جائے گا تو بہت کم بد قسمت ایسے ہوں گے کہ جن کےنامہ اعمال میں نیکیاں کم نکلیں اور گناہ زیادہ نکلیں۔ یہ اللہ کا قانونِ کرم ہے۔
ایصالِ ثواب اللہ کے کریم ہونے کی دلیل ہے اور ایصالِ ثواب کا انکار اللہ کے شانِ کرم کے انکار کی دلیل ہے۔ ہم اللہ کو کریم مانتے ہیں۔ ہاں ہم یہ بات کہتے ہیں کہ جو ایصالِ ثواب کو نہیں مانتے ہم دعاکرتے ہیں کہ ہمارے بعد والے نیک اعمال ہمیں بخش دیں تو وہ ہمیں مل جائیں اور تمہارے بعد والے نیک عمل کریں اور تمہیں بخشیں تو اللہ کرے تمہیں نہ ملیں تو اس پر ان آمین کہنے کو بھی جی نہیں چاہتا ۔ اللہ پاک ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔ آمین
نیک اور برے لوگوں کا انجام:
﴿اِنَّ الۡاَبۡرَارَ لَفِیۡ نَعِیۡمٍ ﴿ۚ۱۳﴾ وَ اِنَّ الۡفُجَّارَ لَفِیۡ جَحِیۡمٍ ﴿ۚ۱۴﴾ یَّصۡلَوۡنَہَا یَوۡمَ الدِّیۡنِ ﴿۱۵﴾ وَ مَا ہُمۡ عَنۡہَا بِغَآئِبِیۡنَ ﴿ؕ۱۶﴾﴾
نیک لوگ جنت کی نعمتوں میں ہوں گے اور کفار لوگ جہنم میں ہوں گے۔ یہاں فجار سے فاسق نہیں بلکہ فجار سے کافر مراد ہیں، اس کی دلیل
﴿وَ مَا ہُمۡ عَنۡہَا بِغَآئِبِیۡنَ ﴿ؕ۱۶﴾﴾
یہ جہنم میں داخل ہوں گے تو پھر کبھی اس سے نکلنے والے نہیں ہوں گے۔ خلود فی النار یہ کفر کے لیے ہوتا ہے فسق کے لیے نہیں ہوتا۔
﴿وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا یَوۡمُ الدِّیۡنِ ﴿ۙ۱۷﴾ ثُمَّ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا یَوۡمُ الدِّیۡنِ ﴿ؕ۱۸﴾﴾
آپ کو کیا پتا قیامت کتنی سخت ہے؟ آپ کو پھر بتا رہا ہوں کہ آپ کو کیا پتا قیامت کتنی سخت ہے؟
”ثُمَّ“
کا معنی سمجھ میں آ گیا؟ میں اس لیے رک رک کر ترجمہ کر رہا ہوں تاکہ تمہیں سمجھ میں آجائے۔
﴿یَوۡمَ لَا تَمۡلِکُ نَفۡسٌ لِّنَفۡسٍ شَیۡئًا ؕ وَ الۡاَمۡرُ یَوۡمَئِذٍ لِّلہِ ﴿٪۱۹﴾﴾
قیامت وہ ہے جس دن کوئی آدمی کسی دوسرے کے ذرہ برابر کام نہیں آ سکے گا اور اس دن معاملات خالص اللہ کےہاتھ میں ہوں گے، کسی کا اختیار نہیں چلے گا۔
یہاں سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ قیامت کے دن شفاعت نہیں ہو گی۔ شفاعت کا معاملہ الگ ہے۔ ذاتی طور پر انسان کسی دوسرے کے کام نہیں آئے گا۔ جس کو اللہ اجازت دیں گے وہ شفاعت بھی کرے گا اور وہ بولے گا بھی۔ اس سے شفاعت کی نفی نہیں ہوتی۔ اللہ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․