سورۃ الفجر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الفجر
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَ الۡفَجۡرِ ۙ﴿۱﴾ وَ لَیَالٍ عَشۡرٍ ۙ﴿۲﴾ وَّ الشَّفۡعِ وَ الۡوَتۡرِ ۙ﴿۳﴾ وَ الَّیۡلِ اِذَا یَسۡرِ ۚ﴿۴﴾﴾
فجر، دس راتوں، جفت اور طاق سے مراد :
﴿وَ الۡفَجۡرِ﴾․․․․
قسم ہے فجر کی۔ اس فجر سے مراد ہر روز کی فجر ہے۔ جب ہر روز صبح صادق ہوتی ہے تو اللہ کی نئی شان کا ظہور ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ”الفجر“ سے مراد خاص یوم النحر کی فجر ہے یعنی دس ذو الحجہ کی فجر۔ اس کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ ہر دن کی رات ہوتی ہے صرف یوم النحر ایک ایسا دن ہے جس کی کوئی رات نہیں ہے، یوم النحر ہوتا ہے دس ذو الحجہ کو اور یوم عرفہ ہے نو ذو الحجہ کو کہ جب عرفات کے میدان میں حاجی وقوف کرتا ہے، اسی کا نام اصل حج ہے، حج کا رکنِ اعظم یہی ہے۔ تو یومِ عرفہ نو ذو الحجہ کا دن ہے۔ اس سے پہلے کی رات یوم عرفہ کی رات ہے اور اس کے بعد کی رات یہ بھی یوم عرفہ کی رات ہے یعنی یوم عرفہ کی دو راتیں ہیں۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ اگر انسان یوم عرفہ کے دن کا کوئی وقت میدانِ عرفات میں گزارے تب بھی حج ہو گا اور اگر یوم عرفہ کا دن گزار کر اگلی جو رات ہے صبح صادق سے پہلے پہلے وہاں کچھ قیام کرے تب بھی حج ہو جائے گا۔ تو یومِ عرفہ سے پہلے کی رات بھی یومِ عرفہ کی رات ہے اور اس کے بعد کی رات بھی یوم عرفہ کی رات ہے۔ یوم النحر ایک ایسا دن ہے جس کی کوئی رات نہیں ہے، اس لیے اس کی بطورِ خاص قسم کھائی ہے کہ
”وَ الْفَجْرِ“
قسم ہے فجر کی۔
﴿وَ لَیَالٍ عَشۡرٍ﴾ ․․․
اور قسم ہے دس راتوں کی۔ عموماً مفسرین ان دس راتوں سے ذو الحجہ کی پہلی دس راتیں مراد لیتے ہیں۔ حدیث میں ان کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ بعض روایات میں ان کی ہر رات کی عبادت کا اجر لیلۃ القدر کے برابر بتایا گیا ہے اور ہر دن کا اجر سال کے روزوں کے برابر بتایا گیا ہے، اس سے اللہ پچھلی خطاؤں کو معاف فرماتے ہیں۔
﴿وَّ الشَّفۡعِ وَ الۡوَتۡرِ﴾ ․․․
قسم ہے جفت اور طاق کی۔ جفت کہتے ہیں جوڑے کو اور طاق کہتے ہیں تنہا کو۔ اب یوم عرفہ؛ نو ذوا لحجہ کو دیکھیں تو یہ طاق ہے اور یوم النحر؛ دس ذوا لحجہ کو دیکھیں تو یہ جفت ہے، اس لیے بعض حضرات کہتے ہیں کہ نو ذوا لحجہ اور دس ذوا لحجہ کی قسمیں کھائی ہیں۔
﴿وَ الَّیۡلِ اِذَا یَسۡرِ﴾ ․․․
اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے۔
﴿ہَلۡ فِیۡ ذٰلِکَ قَسَمٌ لِّذِیۡ حِجۡرٍ ؕ﴿۵﴾﴾
اللہ فرماتے ہیں: کیا عقل والوں کے لیے یہ قسمیں کافی نہیں ہیں؟ کہ کتنی بڑی قسمیں ہم نے کھائی ہیں۔
”حِجْر“
کا معنی ہوتا ہے
”المنع“
یعنی روکنا۔ چونکہ عقل انسان کو گناہوں سے اور گندی باتوں سے روکتی ہے اس لیے بسا اوقات عقل کو بھی حجر سے تعبیر کر دیتے ہیں۔
قومِ عاد کا انجام:
﴿اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ ۪ۙ﴿۶﴾ اِرَمَ ذَاتِ الۡعِمَادِ ۪ۙ﴿۷﴾﴾
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے عاد کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ یعنی قوم ارم کے ساتھ جو اونچے اونچے ستونوں والی قوم تھی۔
یہ عاد؛ حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ نوح علیہ السلام کے بیٹے سام تھے اور ان کے بیٹے ارم تھے اور ان کے بیٹے عاص تھے اور عاص کے بیٹے عاد تھے۔ تو عاد کا سلسلہ نسب یوں ہے: عاد بن عاص بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام۔ ارم کے دو بیٹے تھے؛ ایک تو عاص تھے اور دوسرے بیٹے عابر تھے اور عابر کے بیٹے تھے ثمود یعنی ثمود بن عابر بن ارم۔ عاد اور ثمود دونوں ارم پر جا کر مل جاتے ہیں۔ عاد یہ عاص کے واسطے سے ارم میں جا کر مل جاتے ہیں اور ثمود ، عابر کے واسطے سے ارم میں مل جاتے ہیں۔
﴿اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ ۪ۙ﴿۶﴾ اِرَمَ ذَاتِ الۡعِمَادِ ۪ۙ﴿۷﴾ الَّتِیۡ لَمۡ یُخۡلَقۡ مِثۡلُہَا فِی الۡبِلَادِ ۪ۙ﴿۸﴾﴾ ․․․
آپ کے رب نے عاد کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ یعنی قوم ارم کے ساتھ۔
قومِ عاد دو ہیں: عادِ اولیٰ اور عاد اخریٰ۔ عادِ اولیٰ کون تھے؟ اور عاد اخری کون تھے؟ نوح علیہ السلام کے ایک بیٹے ہیں سام اور ان کے بیٹے ہیں ارم۔ پھر ان ارم کے بیٹے ہیں عاص اور ان کے بیٹے ہیں عاد۔ اسی طرح ارم کے دوسرے بیٹے تھے عابر اور عابر کے بیٹے تھے ثمود۔ ارم پر عاد اور ثمود دونوں ملتے ہیں۔ اگر عاد کے سلسلہ کو دیکھیں اور اوپر جائیں تو اوپر ارم ہے اور نیچے آئیں تو عاد ہے۔ تو بسا اوقات قومِ ارم کو ”عادِ اولیٰ“ کہتے ہیں اور قومِ عاد کو ”عادِ اخریٰ“ کہتے ہیں۔ عذاب ان دونوں پر آیا تھا لیکن یہاں تصریح کر دی گئی کہ یہاں عاد سے مراد عادِ اولیٰ ہے جو کہ قوم ارم ہے۔ یہ لوگ ایسے تھے کہ ان کے جسم ستونوں کی طرح تھے، بہت قد کاٹھ تھا، ان جیسے جسموں والے بندے اللہ نے دنیا میں پیدا نہیں کیے۔
قومِ ثمود کی پکڑ:
﴿وَ ثَمُوۡدَ الَّذِیۡنَ جَابُوا الصَّخۡرَ بِالۡوَادِ ۪ۙ﴿۹﴾﴾
اور آپ کے رب سے قومِ ثمود کے ساتھ کیا کیا جنہوں نے وادی قریٰ میں چٹانیں تراشی تھیں۔
یہ لوگ وادی القریٰ میں رہتے تھے۔”اَلْوَادِ“ یہ مخفف ہے وادی القریٰ کا۔ یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر ان میں اپنے مکان بناتے تھے۔ میں نے ان مکانات کو دیکھا ہے۔ بندے کو بہت تعجب ہوتا ہے اور یقین نہیں آتا بغیر مشینوں اور جدید آلات کے ایسا کچھ بھی ہو سکتاہے۔ غاریں ہیں اور ان میں مکان بنے پڑے ہیں۔ اندر جائیں تو عجیب طرح کا نظام ہے۔ ان کے سونے کے لیے جو بستر ہوتے تھے وہ ایسے تھے جیسے ہمارے ہاں قبریں ہوتی ہیں۔ غار کھودی ہے، غار میں نیچے جگہ بنی ہوئی ہے سونے کے لیے۔ ہماری چارپائی تو اوپر ہوتی ہے لیکن ان کی جگہ نیچے قبر کی طرح کھودی ہے، تقریباً ایک فٹ نیچے جگہ ہوتی تھی، وہاں لیٹنے کی جگہ بناتے تھے۔ یہ نظام تھا اس قوم ثمود کا۔ یہ کتنی پرانی بات ہے لیکن ابھی تک وہاں نشانات موجود ہیں۔
میخوں والے فرعون کا حشر:
﴿وَ فِرۡعَوۡنَ ذِی الۡاَوۡتَادِ ﴿۪ۙ۱۰﴾﴾
اور آپ کے رب سے فرعون کے ساتھ کیا کیا جومیخوں والا تھا۔
فرعون بدبخت کی عادت یہ تھی کہ جب کسی کو سزا دیتا تو اس کے دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں میں میخیں گاڑ دیتا تھا اور سانپ اور بچھو اوپر چھوڑ دیتا تھا سزا کے لیے۔
﴿الَّذِیۡنَ طَغَوۡا فِی الۡبِلَادِ ﴿۪ۙ۱۱﴾ فَاَکۡثَرُوۡا فِیۡہَا الۡفَسَادَ ﴿۪ۙ۱۲﴾ فَصَبَّ عَلَیۡہِمۡ رَبُّکَ سَوۡطَ عَذَابٍ ﴿ۚ۱۳﴾﴾
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے شہروں میں سر کشی کی اور بہت فساد برپا کیا پھر خدا نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا۔
عذاب کے ساتھ کوڑے کا لفظ اس لیے ذکر کرتے ہیں کہ عام طور پر جب کوڑا مارتے ہیں تو ایک جگہ نہیں مارتے بلکہ جسم کے مختلف حصوں پر مارتے ہیں۔ تو بتایا یہ جا رہا ہے کہ ان پر مختلف قسموں کا عذاب آیا تھا۔
اللہ کے گھات میں ہونے کا معنی:
﴿اِنَّ رَبَّکَ لَبِالۡمِرۡصَادِ ﴿ؕ۱۴﴾﴾
بے شک تمہارا رب گھات لگائے ہوئے ہے۔
یہ صرف تعبیر ہے سمجھانے کے لیے ورنہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کیسے گھات لگائے ہوئے ہیں۔ آپ نے ”القواعد فی العقائد“ میں یہ بات پڑھی ہے کہ انسانی عقول پر چونکہ محسوسات اتنے غالب ہیں کہ محسوس والی تعبیر کیے بغیر معقول سمجھ ہی نہیں آتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو سمجھانے کے لیے ایسے ذکر کیا جاتا ہے کہ جیسے محسوسات ہوتی ہیں کیونکہ ان کے بغیر بندہ سمجھ ہی نہیں سکتا۔ دنیا میں بندے کو سمجھ آتا ہے کہ جب کسی کو پکڑنا ہو تو بندہ گھات لگا کر بیٹھ جاتا ہے تو دشمن کو پکڑ لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی گرفت میں لیتے ہیں جس طرح ان کے شایان شان ہے۔ یہ انسان کے علم میں نہیں لیکن سمجھانے کے لیے بتایا ہے کہ جس طرح انسان گھات میں بیٹھا ہو تو فوراً پکڑتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ انسان کو نظر نہیں آتے لیکن جب گرفت کا ارادہ فرماتے ہیں تو فوراً پکڑ فرما لیتے ہیں۔
انسان کی ناشکری کا بیان:
﴿فَاَمَّا الۡاِنۡسَانُ اِذَا مَا ابۡتَلٰىہُ رَبُّہٗ فَاَکۡرَمَہٗ وَ نَعَّمَہٗۙ فَیَقُوۡلُ رَبِّیۡۤ اَکۡرَمَنِ ﴿ؕ۱۵﴾ وَ اَمَّاۤ اِذَا مَا ابۡتَلٰىہُ فَقَدَرَ عَلَیۡہِ رِزۡقَہٗ ۬ۙ فَیَقُوۡلُ رَبِّیۡۤ اَہَانَنِ ﴿ۚ۱۶﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے یہاں انسان کی دو حالتیں بیان فرمائی ہیں کہ جب اللہ اس کو آزمائش میں مبتلا کریں؛ عزت دے دیں، نعمتیں دے دیں تو انسان کہتا ہے
”رَبِّیۡۤ اَکۡرَمَنِ“
کہ میرے رب نے مجھے عزت دی ہے، اور جب اللہ اس کی آزمائش کریں کہ اس کا رزق تنگ کر دیں تو انسان کہہ اٹھتا ہے کہ اللہ نے مجھے رسوا کر دیا۔
پھر انسان اس وقت روتا ہے کہ خدا نے مجھے ذلیل کر دیا، میرا پیسہ ختم کر دیا۔ اگر اللہ کسی کو دولت دیں تو یہ سمجھتا ہے کہ میں دولت کا مستحق تھا، میں عزت کا مستحق تھا اس لیے خدا نے مجھے عزت دی ہے اور اگر دولت نہ دیں تو یہ سمجھتا ہے کہ میں دولت کا مستحق تھا لیکن خدا نے مجھے دولت نہ دے کر رسوا کیا ہے۔ انسان اس آزمائش سے جو سمجھا تھا اس کا نتیجہ دو باتیں ہیں:
نمبر ایک ․․․ کہ عزت اور ذلت کا مدار مال پر ہے، مال مقصود بالذات ہے کہ جس کو مال ملا تو اسےعزت مل گئی اور جس کو مال نہیں ملا تو اسے ذلت مل گئی۔
نمبر دو․․․ ان کا خیال تھا کہ ہم اس بات کے مستحق ہیں کہ ہمیں مال ملنا چاہیے۔ اس لیے اگر ملے تو خوش ہوتے ہیں کہ ہم مستحق تھے تو ہمیں مل گیا اور اگر نہ ملے تو اس پر کہتے ہیں کہ ہم مستحق تھے تو ہمیں کیوں نہیں دیا، ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔
تو یہ دو بنیادی باتیں ہیں جو انسان کہتا ہے۔
نیکی کے کام:
﴿کَلَّا بَلۡ لَّا تُکۡرِمُوۡنَ الۡیَتِیۡمَ ﴿ۙ۱۷﴾ وَ لَا تَحٰٓضُّوۡنَ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ﴿ۙ۱۸﴾ وَ تَاۡکُلُوۡنَ التُّرَاثَ اَکۡلًا لَّمًّا ﴿ۙ۱۹﴾ وَّ تُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴿ؕ۲۰﴾﴾
اللہ فرماتے ہیں:
” کَلَّا“
یہ بات ہرگز نہیں، تمہاری یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ مال مقصود بالذات نہیں اور تم اس کے مستحق بھی نہیں ہو۔ یہ تو تمہارے دو جرم تھے ہی کہ جو مقصود بالذات نہیں تھا تم نے اس کو مقصود سمجھ لیا اور یہ کہ تم مستحق نہیں تھے اور تم نے اپنا استحقاق سمجھ لیا۔ ان دو جرموں کے علاوہ تمہارے جرم کچھ اور بھی ہیں۔ وہ کون سے ہیں؟ فرمایا: تم یتیم کی عزت نہیں کرتے اور مسکین کے کھانے کی ترغیب نہیں دیتے اور میراث کا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو اور مال سے محبت بھی بہت زیادہ کرتے ہو!
یہاں یہ بات سمجھیں کہ یتیم کو صرف کھانا کھلانا کافی نہیں بلکہ یتیم کو کھانا کھلانا اور عزت کے ساتھ کھلانا ضروری ہے۔ اسی لیے فرمایا:
﴿بَلۡ لَّا تُکۡرِمُوۡنَ الۡیَتِیۡمَ﴾
بلکہ تم تو یتیم کی عزت بھی نہیں کرتے۔ اگر کوئی شخص کھانا کھلا بھی دے اور عزت نہ کرے تو اس نے قرآن کریم کے حکم پر عمل نہیں کیا، کھانا بھی کھلائیں اور عزت کے ساتھ کھلائیں۔
﴿وَ لَا تَحٰٓضُّوۡنَ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ﴾
مسکین کو خود بھی کھانا کھلائیں اور کھانا کھلانے کی ترغیب بھی دیں۔ قرآن کریم میں یتیم اور مسکین اور فقیر کو کھلانے کی بہت ترغیب آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے تو بندے کو اس کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔
﴿وَ تَاۡکُلُوۡنَ التُّرَاثَ اَکۡلًا لَّمًّا﴾ ․․․ ”لَمٌّ“
کا معنی ہے
”جَمٌّ“
یعنی تم وراثت کے سارے مال کو خود ہڑپ کر جاتے ہو کہ جن کا استحقاق ہے ان کو نہیں دیتے۔ یہ بھی تمہارا جرم ہے۔
﴿وَّ تُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا﴾․․․ ”جَمًّا“
سے مراد ہے ”بہت زیادہ“ یعنی تم مال سے بہت زیادہ پیار کرتے ہو، اتنا بھی نہیں کرنا چاہیے کہ حقوق کی رعایت نہ کر سکو۔
کفر کی وجہ سے جہنم اور اعمالِ بد کی وجہ سے ازدیادِ جہنم:
اصل میں یہاں بات چل رہی تھی کفار اور مشرکین کی اور آگے ذکر فرمایا ہے ان کے اعمال کو، کیونکہ ان کا اصل جرم؛ کفر اور شرک ہے، یہ جو جرم بیان فرمائے ہیں
﴿کَلَّا بَلۡ لَّا تُکۡرِمُوۡنَ الۡیَتِیۡمَ ﴿ۙ۱۷﴾ وَ لَا تَحٰٓضُّوۡنَ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ ﴿ۙ۱۸﴾ وَ تَاۡکُلُوۡنَ التُّرَاثَ اَکۡلًا لَّمًّا ﴿ۙ۱۹﴾ وَّ تُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴿ؕ۲۰﴾﴾
یہ اس کفر اور شرک کے جرم پر اضافی ہیں۔ یہ بات پہلے گزر چکی ہے -آپ کو یاد ہو گا- کہ جب کفار سے پوچھا جائے گا کہ
﴿مَا سَلَکَکُمۡ فِیۡ سَقَرَ ﴿۴۲﴾﴾
کہ تمہیں جہنم میں کس چیز نے ڈالا؟ تو وہ جواب دیں گے:
﴿لَمۡ نَکُ مِنَ الۡمُصَلِّیۡنَ ﴿ۙ۴۳﴾ وَ لَمۡ نَکُ نُطۡعِمُ الۡمِسۡکِیۡنَ﴿ۙ۴۴﴾﴾
کہ ہم نماز بھی نہیں پڑھتے تھے اور مسکین کو کھانا بھی نہیں کھلاتے تھے۔ تو کفار نے اپنے اعمال بیان کیے۔
سوال یہ ہے کہ کافر کو جہنم اور جہنم کی سزا کفر کی وجہ سے ملے گی اعمال چھوڑنے کی وجہ سے نہیں ملے گی تو پھر جواب میں انہوں نے اعمال کا ذکر کیوں کیا کہ ہمیں اس لیے سزا مل رہی ہے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے، ان پر تو نماز فرض ہی نہیں ہے، نماز اور صدقات فرض اس پر ہیں جو کلمہ پڑھ چکا ہو، جس نے کلمہ ہی نہیں پڑھا تو اس پر نماز اور زکوٰۃ فرض نہیں، وہ احکام کا مکلف نہیں ہے تو پھر احکام پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اس کو سزا کیوں ملتی ہے؟
وہاں بھی میں نےبات کی تھی اور یہاں پھر سمجھ لیں! ایک ہے عذاب اور ایک ہے امتدادِ عذاب، ایک ہے عذاب اور ایک ہے ازدیادِ عذاب، ایک ہے نفسِ عذاب اور ایک ہے زیادتی عذاب․․․ کافر اور مشرک کو جہنم میں عذاب ہو گا کفر کی وجہ سے اور اس عذاب میں اضافہ ہو گا بدعملی کی وجہ سے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر انسان مؤمن ہو تو جنت ملتی ہے ایمان کی وجہ سے اور جنت بڑھ جاتی ہے انسان کے اعمال کی وجہ سے، نفسِ ایمان پر تو جنت کا وعدہ ہے اور جب ایمان کے ساتھ اعمال بھی بڑھ جائیں تو جنت بھی بڑھتی جائے گی۔ اسی طرح نفسِ کفر پر جہنم کی وعید ہے اور جب کفر کے بعد اعمالِ بد بڑھ جائیں گے تو جہنم کی سزا بھی بڑھتی جائے گی۔ تو نفسِ جنت ایمان کی بنیاد پر ہے اور جنت بڑی ہو نا اور مزید نعمتیں ہونا یہ اعمال کی وجہ سے ہے، اسی طرح نفسِ جہنم یہ کفر کی وجہ سے ہے اور اس میں مزید سزاؤں کا بڑھنا بد اعمالیوں کی وجہ سے ہے۔
قیامت کے دن زمین کا بھونچال:
﴿کَلَّاۤ اِذَا دُکَّتِ الۡاَرۡضُ دَکًّا دَکًّا ﴿ۙ۲۱﴾﴾
فرمایا: ”كَلَّا“ ہرگز ایسا نہیں! یہاں ”كَلَّا“کا معنی یہ ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ یتیم کی عزت کریں گے تو کیا ہو گا آخرت میں تو کچھ ملنا نہیں! مسکین کو کھلائیں گے تو آخرت میں تو کچھ ملنا نہیں! جتنا مال جمع کر سکتے ہیں کر لیں یا کسی کے مال کو ہڑپ کر لیں گے تو کون سا ہماری پکڑ ہو گی کیوں کہ ہم نے تو دوبارہ اٹھنا نہیں، فرمایا: ”كَلَّا“تمہاری یہ بات ہرگز درست نہیں!
”دَكًّا“ کا معنی ہوتا ہے کسی چیز کو ٹکر مار کر توڑنا۔ فرمایا: جب زمین توڑ کر ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا۔
﴿وَّ جَآءَ رَبُّکَ وَ الۡمَلَکُ صَفًّا صَفًّا ﴿ۚ۲۲﴾ وَ جِایۡٓءَ یَوۡمَئِذٍۭ بِجَہَنَّمَ ۬ۙ یَوۡمَئِذٍ یَّتَذَکَّرُ الۡاِنۡسَانُ وَ اَنّٰی لَہُ الذِّکۡرٰی ﴿ؕ۲۳﴾﴾
قیامت کے دن تمہارا پرودگار اور قطاروں میں فرشتے آئیں گے۔ اللہ آئیں گے یہ متَشابہات میں سے ہے۔ متَشابہات کا معنی اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اللہ کیسے آئیں گے یہ اللہ ہی جانتے ہیں۔ اور جہنم کو گھسیٹ کر لایا جائے گا۔ پہلے یہ بات گزر چکی ہے کہ جہنم کی 70 سے زائد لگامیں ہیں اور ہر لگام پر 70 ہزار سے زائد فرشتے ہوں گے جو اس کو کھینچ کر لائیں گے۔ جہنم کو گھسیٹ کر میدان محشر کے قریب لایا جائے گا۔ اس دن کافر انسان کو سمجھ آجائے گی کہ مجھے دنیا میں کیا کرنا چاہیے تھا اور میں نے کیا کیا! لیکن اس وقت یہ سمجھ آنا بے سود ہو گا، اس کاکچھ بھی فائدہ نہیں ہو گا۔
﴿یَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِیۡ قَدَّمۡتُ لِحَیَاتِیۡ ﴿ۚ۲۴﴾ فَیَوۡمَئِذٍ لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَہٗۤ اَحَدٌ﴿ۙ۲۵﴾ وَّ لَا یُوۡثِقُ وَ ثَاقَہٗۤ اَحَدٌ ﴿ؕ۲۶﴾﴾
اس دن وہ کہے گا: اے کاش! میں آج کی زندگی کے لیے کچھ کما لیتا۔ اس دن کا عذاب ایسا اللہ دیں گے کہ اس جیسا عذاب کوئی نہیں دے سکتا اور اللہ ایسی گرفت فرمائیں گے کہ اس دن اس طرح کی گرفت کوئی نہیں کر سکتا۔
نفس کی تین اقسام:
﴿یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿٭ۖ۲۷﴾ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾﴾
حساب کتاب کے بعد یہ اعلان ہو گا: اے نفسِ مطمئنہ! -اے وہ انسان جو اطمینان والا ہے اور اللہ کے احکام پر راضی ہے! - اپنے اللہ کی طرف اس طرح لوٹو کہ تم اللہ سے راضی ہو اور اللہ تم سے راضی ہو!
”اِرْجِعِیْ“
یعنی واپس لوٹو․․․ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ نفسِ مطمئنہ آیا بھی وہاں سے ہے اور جائے گا بھی وہاں پہ۔ تو روح جہاں سے آئی ہے وہیں واپس جائے گی ۔
پہلے گزر چکا ہے کہ نفس کی تین قسمیں ہیں:
نفسِ امارہ ․․․ نفسِ لوامہ․․․ نفسِ مطمئنہ
فطرتاً ہر نفس؛ نفسِ امارہ ہے، ہر ایک کی طبیعت میں خدا نے گناہ کا تقاضا رکھا ہوا ہے۔ جب آدمی مشقت برداشت کرتا ہے اور گناہوں کو چھوڑتا ہے، توبہ کرتا ہے تو اس کا نفس؛ نفسِ لوامہ بنتا ہے اور مسلسل نیکیاں کر کے طبیعت پر جبر کر کے گناہوں سے بچتے بچتے ایک وقت آتا ہے کہ نفس؛ مطمئنہ بن جاتا ہے۔
اہل اللہ سے محبت:
﴿فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾ وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ ﴿٪۳۰﴾﴾
میرے بندوں میں داخل ہو جاؤ اور میری جنت میں داخل ہو جاؤ۔
﴿فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ﴾
کو
﴿وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ﴾
پر مقدم کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ دخولِ جنت کا راستہ دخول فی عباد اللہ ہے۔ اگر کوئی شخص جنت میں جانا چاہے تو اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ اللہ کے نیک بندوں میں -جو جنتی ہیں- شامل ہو جائے۔ بس یہ سب سے آسان ہے۔ حدیث پاک میں ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَحُبَّ عَمِلٍ يُقَرِّبُنِيْ إِلَى حُبِّكَ․
المعجم الکبیر للطبرانی: ج 8 ص433 رقم الحدیث 16640
یا اللہ! میں آپ سے آپ کی محبت مانگتا ہوں اور جو آپ سے محبت کریں ان کی محبت مانگتا ہوں اور ان اعمال کی محبت مانگتا ہوں جو آپ کی محبت کے قریب کر دیں۔
اصل تو اللہ کا قرب ہے اور اللہ کے قرب کا ذریعہ نیک اعمال ہیں اور اللہ کی محبت اور نیک اعمال کے درمیان ولایت کی محبت کا ذکر کیا
”وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ“،
اس کی وجہ یہ ہے کہ صاحبِ تقویٰ کی محبت یہ انسان کو تقویٰ عطا کر دیتی ہے، ولی کی محبت سے انسان بہت جلد اعمالِ صالحہ پر آ جاتا ہے۔
اولیاء اللہ کی توہین سے بچنا:
اور آپ نے خود بھی دیکھا ہو گا -اللہ ہمیں ان مواقع سے کبھی نہ گزارے- آپ نے دیکھا ہو گا کہ عام طور پر اہل اللہ کو بکنے والا شخص اعمال سے محروم رہتا ہے۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک بات کا اہتمام کیا ہے کہ کبھی اہل اللہ کے خلاف میں نے زبان اور قلم استعمال نہیں کیا۔ اگر مجھے ان کی تحقیق خلافِ شرع بھی محسوس ہوئی تو میں نے اس پر بھی در گزر کیا ہے کہ ان کے پاس بھی کوئی دلیل ہو گی، کسی بنیاد پر یہ بات کرتے ہوں گے، میں نے ایسا طرز اختیار نہیں کیا جس سے ان کی توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ اس لیے اس بات کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔
جنت میں جانے کا سب سے آسان راستہ کون سا ہے؟ اللہ کے بندوں میں شامل ہو جاؤ! ایک آدمی کہیں جاتا ہے، وہ بڑا آدمی ہے اور اس کے ساتھ اس کا ڈرائیور بھی ہے، اس کا سیکرٹری بھی ہے، اس کا گارڈ بھی ہے تو لوگ ڈرائیور، سیکرٹری اور گارڈ کو بھی عزت دیتے ہیں جس طرح آنے والے مہمان کو دیتے ہیں، اس کو بھی وہی کھانا ملتا ہے جو آنے والے مہمان کو ملتا ہے۔ اللہ رب العزت کی غیرت کے خلاف ہے کہ دنیا میں جس سے تعلق ہو اس کے ساتھ آنے والوں کا دنیا والے حیا کریں اور اللہ اولیاء اللہ سے محبت کرنے والوں کو محروم کر دے ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ اللہ ہم سب کو اہل تقوی ٰ کی محبت عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․