سورۃ البلد

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ البلد
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿لَاۤ اُقۡسِمُ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ﴿۱﴾ وَ اَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ﴿۲﴾ وَ وَالِدٍ وَّ مَا وَلَدَ ۙ﴿۳﴾﴾
قسم کے شروع میں ”لَا“ لانے کا مقصد:
﴿لَاۤ اُقۡسِمُ ﴾
کے شروع میں جو
”لَا“
ہے یہ کلامِ عرب میں معروف ہے کہ جب بھی ان کے ہاں قسم کھائی جاتی ہے تو قسم کے شروع میں
”لَا“
لگاتے ہیں۔ شروع میں
”لَا“
لانے کا مقصد مخاطب کے خیال کی تردید کرنا ہے کہ تمہارے ذہن میں جو بات ہے یہ غلط ہے اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری بات ٹھیک ہے ۔
﴿لَاۤ اُقۡسِمُ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ﴿۱﴾﴾
اللہ تعالیٰ مشرکین کے ذہن کی نفی فرما رہے ہیں۔ مشرکین کا ذہن یہ تھا کہ ہم جو چاہیں کریں․․․ ہمیں کسی نے پوچھنا نہیں ․․․ کسی نے پکڑنا نہیں․․․ قیامت کا دن نہیں ہو گا․․․ فرمایا:
”لَا“
یہ بات نہیں ہے․․
”اُقۡسِمُ بِہٰذَا الۡبَلَدِ“
میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔ اس سے مراد شہر مکہ ہے۔ اللہ نے مکہ کی قسم کھائی ہے۔
﴿وَ اَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ﴿۲﴾﴾
یہ
”هٰذَا الْبَلَدِ“
کی مزید تعظیم بیان کی ہے کہ میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی، اب یہ شہر ایسا ہےکہ اے پیغمبر! آپ بھی اس شہر میں رہتے ہیں۔ تو اس سے اس مکہ کی عظمت دوگنی ہے۔ ایک مکان اچھا ہے اور دوسرا اس کا مکین اچھا ہے اور عموماً مکان کی قیمت مکین کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے۔ مکہ کی عظمت کو بڑھایا ہے کہ اس میں آپ بھی رہتے ہیں، اور یہ تب ہے جب
”حِلٌّ“
کا لفظ حلول سے ہو اور اگر یہ لفظ حلال سے ہو تو پھر معنی الگ ہو گا۔ پھر معنی یہ ہو گا کہ آپ کی ذات ایسی ہے کہ مکہ مکرمہ میں کافر آپ کے خون کو حلال سمجھتے ہیں․․․ یا اس کا معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات وہ ہے کہ حرمِ مکہ میں کسی کو قتل کرنا جائز نہیں ہے لیکن کچھ وقت کے لیے ہم نے حرمت کا یہ حکم اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہاں قتل کو حلال کر دینا ہے اور یہ فتحِ مکہ کے موقع پر ہوا بھی تھا کہ احکامِ حرم اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کفار کا قتل جائز کر دیا گیا تھا۔
﴿وَ وَالِدٍ وَّ مَا وَلَدَ ۙ﴿۳﴾﴾
قسم ہے والد یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی اور ان کی اولاد کی۔
مشقت؛ انسانی پیدائش کا جزء لازم
﴿لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡ کَبَدٍ ؕ﴿۴﴾﴾
اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا فرمایا ہے۔ یہ عنوان قرآن کریم میں بار بار آیا ہے۔ سورۃ الانشقاق میں گزرا ہے:
﴿یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ ۚ﴿۶﴾﴾
الانشقاق84: 6
کہ اے انسان! تم نے اپنے رب تک مشقت اٹھاتے اٹھاتے پہنچ جانا ہے۔
اور یہاں فرمایا :
”لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡ کَبَدٍ“
کہ ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔ اس سے یہ بات بڑی کھل کر سمجھ آتی ہے کہ دنیا میں کوئی آدمی مشقت کے بغیر ہو تو اس پر تعجب ہونا چاہیے اور دنیا میں کوئی مشقت میں ہو تو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ عین فطرت ہے۔ دنیا میں کسی شخص پر کوئی تکلیف کوئی مشقت نہ آئے تو اس پر تعجب ہونا چاہیے اور اگر تکلیف اور مصیبت آئی تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ دنیا تو نام ہی مشقت کا ہے۔ اس لیے اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے انسان کو مشقت میں بنایا ہے۔ یہاں
”كَبَدٍ“
کو اللہ نے ظرف بنایا اور انسان کو مظروف بنایا ہے کہ انسان ہے ہی مشقت میں، اس لیے اسے مشقت اٹھانی ہے۔
﴿اَیَحۡسَبُ اَنۡ لَّنۡ یَّقۡدِرَ عَلَیۡہِ اَحَدٌ ۘ﴿۵﴾﴾
کیا کافر یہ سمجھتا ہے کہ اس پر کسی کو بھی قدرت نہیں۔
﴿یَقُوۡلُ اَہۡلَکۡتُ مَالًا لُّبَدًا ؕ﴿۶﴾﴾
اور یہ کافر بدبخت اتنے ہیں کہ اسلام کی مخالفت میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں مال خرچ کرتے ہیں اور فخر سے کہتے ہیں کہ میں نے بہت زیادہ مال خرچ کیا ہے
۔” لُبَدًا “
کا معنی ہے وافر مقدار، کہ میں نے بہت مال خرچ کر دیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے مال تھوڑا خرچ کیا ہے اور اس تھوڑے کو زیادہ کہہ رہے ہیں اور پھر یہ کون سا کارنامہ کیا ہے انہوں نے پیغمبر کی مخالفت میں مال خرچ کر کے؟!
﴿اَیَحۡسَبُ اَنۡ لَّمۡ یَرَہٗۤ اَحَدٌ ؕ﴿۷﴾ اَلَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ عَیۡنَیۡنِ ۙ﴿۸﴾ وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیۡنِ ۙ﴿۹﴾ وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ ﴿ۚ۱۰﴾﴾
کیا یہ سمجھتا ہے کہ اس کو کوئی نہیں دیکھ رہا؟! یہ کیسے ہو سکتا ہے تم اللہ سے مخفی رہو؟ اللہ فرماتے ہیں: کیا ہم نے اسے آنکھیں نہیں دیں؟ اسے زبان نہیں دی؟ اسے دو ہونٹ نہیں دیے؟ اور اس کو ہم نے دو راستے دکھائے۔
آنکھ؛ نعمتِ خداوندی
﴿اَلَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ عَیۡنَیۡنِ﴾․․․
اللہ نے پورا جسم انسان کو دیا لیکن بطور خاص اللہ نے اس میں آنکھوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اس لیے کہ انسان آنکھوں سے اچھی اور بری جگہیں دیکھتا ہے، سیدھا اور برا راستہ دیکھتا ہے اس لیے بطورِ خاص ان کا ذکر فرمایا اور یہ آنکھیں انسان کے جسم میں اللہ کی نعمتیں ہیں۔ دیکھو! یہ ایک سیکنڈ میں لاکھوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتی ہیں۔ آنکھوں کی حفاظت کا نظام اللہ نے ایسا بنایا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ آنکھ میں یہ پانی ہے تھوڑا سا، یہ خشک ہو جائے تو دنیا کی ساری طاقتیں مل کر وہ پانی نہیں دے سکتیں اور یہ جو آنکھ کی پُتلی ہے یہ جسم کا ایک ایسا حصہ ہے جو ہر انسان کی برابر ہے چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا اور عجیب بات یہ کہ آنکھ کی پُتلی کبھی کسی کی بھی نہیں بڑھتی، انسان کے بدن کے تمام اعضاء آہستہ آہستہ بڑھتے رہتے ہیں لیکن آنکھ کی یہ جو کالی سی گول پُتلی ہے یہ بڑھتی نہیں ہے، جب بچہ پیدا ہوتا ہے تب بھی اتنی ہوتی ہے اور جب بندہ مرتا ہے تب بھی اتنی ہوتی ہے۔ شروع سے لے کر آخر عمر تک اس کا سائز ایک ہی رہتا ہے، یہ بڑا چھوٹا نہیں ہوتا۔ آپ کوئی بچہ دیکھیں تو اس کی پتلی اتنی بڑی ہو گی جتنی بڑوں کی ہوتی ہے، وہ چھوٹی نہیں ہو گی۔ یہ اللہ کا عجیب نظام ہے۔ آنکھ آہستہ آہستہ بڑھتی ہے لیکن اندر کی جو کالی سی گولی ہے وہ اتنی ہی رہے گی۔
آنکھ میں لاتعداد بلب ہیں جن کی وجہ سے روشنی ہوتی ہے اور بندہ دنیا کو دیکھتا ہے اور پھر آنکھ کی یہ خوبی ہے کہ اگر کوئی نقصان دہ چیز آنکھ کی طرف آئے تو بند نہیں کرنا پڑتی بلکہ خود بخود بند ہو جاتی ہے یعنی آپ آنکھ میں انگلی ڈالو تو آنکھ خود بخود بند ہو جائے گی۔
حضرت مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی نور اللہ مرقدہ بڑی عجیب بات فرماتے تھے، حضرت فرماتے کہ دنیا میں انسان کے جسم کو جو چیز تکلیف دیتی ہو اس کے آنے پر آنکھ خود بخود بند ہو جاتی ہے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ جو چیز آخرت کو تباہ کرتی ہو وہ آپ کے سامنے آئے اور آنکھ خود بخود بند نہ ہو! اصل میں ہم نے آنکھ سے گناہ کرنے کا مزاج ایسا بنا لیا ہے کہ گناہ کی چیز سامنے آئے تو آنکھ بند نہیں ہوتی۔ اگر یہ مزاج نہ بنایا ہوتا تو نا محرم کے سامنے آتے ہی آنکھ خود بخود بند ہو جاتی۔ اس کے بند نہ ہو نے کی وجہ ہماری اپنی عادات ہیں کہ ہم نے اس کو گندہ بنایا ہے۔
یہ بات مزید سمجھنی ہو تو دیکھیں کہ قبر کا ثواب و عذاب برحق ہے اور جب ہم یہ بات پیش کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چند قبروں کے پاس سے گزرے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری بدک گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو احساس ہوا کہ یہاں عذاب ہو رہا ہے۔
صحیح مسلم، رقم: 2867
معلوم ہوتا ہے کہ اس زمینی قبر کو ”قبر“ کہتے ہیں۔ جو لوگ اس کے قبر ہونے کے منکر ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر یہی قبر ہوتی تو کتنے قبرستان ہیں جن میں سے جانور گزرتے ہیں لیکن وہ نہیں بدکتے تو پھر یہ کیوں نہیں بدکتے، ان کو بھی بدکنا چاہیے، اس سے معلوم ہوتا ہے یہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا باقی اس قبر میں عذاب و ثواب نہیں ہوتا۔ سوال سمجھ میں آ گیا ان لوگوں کا؟ (جی ہاں۔ سامعین) تو اس کا جواب یہ ہے کہ معجزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نہیں تھا کہ جانور بدک گیا، معجزہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتا چل گیا کہ اس قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔
رہی یہ بات کہ اُس وقت جانور بدکا تھا تو اب کیوں نہیں بدکتے! تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مثلاً ایک جانور ہے جس نے کبھی ٹرین کو نہیں دیکھا اور آپ اس جانور کو لے جا رہے ہوں کہ اچانک ٹرین آ جائے تو وہ جانور آپ کو بھی گرا کر دوڑ جائے گا، لیکن وہ جانور جو ٹرین کی پٹری کے پاس رہتے ہیں، روزانہ انجن وہاں سے بولتے ہوئے گزرتا رہتا ہے لیکن ان جانوروں کو احساس بھی نہیں ہوتا۔ بالکل اسی طرح آج جب ہر قبرستان میں عذاب ہی عذاب ہے، جانور وہاں سے گزر کر عادی بنے ہوئے ہیں تو پھر اچانک بدکیں گے کیسے؟ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
زبان اور ہونٹ کی نعمت:
﴿وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیۡنِ﴾
کیا ہم نے اسے زبان نہیں دی؟ اسے دو ہونٹ نہیں دیے؟
زبان انسان کی تلوار ہے، یہ اچھے کام بھی کرتی ہے اور برے کام بھی کرتی ہے۔ تلوار کی حفاظت کے لیے نیام ہوتی ہے اللہ نے اس زبان کی حفاظت کےلیے دو ہونٹ دیے ہیں ۔ آپ اگر زبان کو غلط استعمال پر روکنا چاہیں تو ہونٹ بند کر دیں زبان بولنا بند کر دے گی۔ زبان نے تب بولنا ہے جب ہونٹوں نے کھلنا ہے، ہونٹ نہیں کھلیں گے تو زبان کام نہیں کرے گی۔ تو زبان کو غلط استعمال سے روکنے کےلیے اللہ نے ہمیں ہونٹ عطا فرمائے تاکہ اس کا غلط استعمال کبھی بھی نہ ہو۔ اللہ نے کیسے حفاظت کا انتظام فرمایا! انسان کے دماغ میں ایک سوچ آتی ہے، دماغ اس کو لفظ دیتا ہے اور زبان اس کو ادا کر دیتی ہے، ایک سیکنڈ کا بھی پتا نہیں کوئی کروڑواں حصہ ہو گا! اتنی رفتار سے کام چل رہا ہوتا ہے۔
حق وباطل کی پہچان:
﴿وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ ﴿ۚ۱۰﴾ فَلَا اقۡتَحَمَ الۡعَقَبَۃَ ﴿۫۱۱﴾﴾
ہم نے انسان کو دو راستے دے دیے ہیں؛ جنت والا بھی اور جہنم والا بھی لیکن انسان پھر بھی دین کی گھاٹی سے نہیں گزر سکا۔
﴿الۡعَقَبَۃَ﴾ ․․․
اصل میں کہتے ہیں پہاڑ کے اوپر والی چٹان کو جس پر چڑھ کر انسان دشمن سے بچتا ہے، اگر کوئی مخالف ہو تو چٹان کی چوٹ میں چلے جائیں تو مخالف سے بچ سکتے ہیں اور بسا اوقات دو پہاڑوں کے درمیان جو راستہ ہوتا ہے جسے گھاٹی کہتے ہیں اس کو بھی عقبہ کہتے ہیں۔ اگر دشمن کا خطرہ ہو تو آدمی گھاٹی سے گزر کر سائیڈ پر نکل جاتا ہے اور دشمن سے بچ جاتا ہے۔ یہاں اللہ نے دین اسلام کو ”عقبہ“ فرمایا ہے کہ جس طرح چٹان یا گھاٹی دشمن سے بچاتی ہے، دین اسلام بھی انسان کو جہنم سے بچاتا ہے۔
چند امورِ خیر:
﴿وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡعَقَبَۃُ ﴿ؕ۱۲﴾ فَکُّ رَقَبَۃٍ ﴿ۙ۱۳﴾ اَوۡ اِطۡعٰمٌ فِیۡ یَوۡمٍ ذِیۡ مَسۡغَبَۃٍ ﴿ۙ۱۴﴾ یَّتِیۡمًا ذَا مَقۡرَبَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾ اَوۡ مِسۡکِیۡنًا ذَا مَتۡرَبَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾﴾
اور تم کیا سمجھتے ہو کہ یہ عقبہ کیا ہے جس کی بات ہم نے کی ہے؟ غلام آزاد کرنا ، فاقے کے دن کسی بھوکے کو کھانا کھلانا، ایسا یتیم جو رشتہ دار بھی ہو اس کی خدمت کرنا یا کسی خاک آلود مسکین کے ساتھ تعاون کرنا۔
”یَتِیْمًا
“ کے ساتھ
”ذَا مَقْرَبَةٍ“
کی بات اس لیے فرمائی کہ یتیم بھی ہو اور رشتہ دار بھی ہو تو اس کو دینے پر اللہ دوہرا اجر دیتے ہیں؛ ایک یتیم کا پیٹ بھرنے کا اور دوسرا صلہ رحمی کا۔
صبر اور صلہ رحمی کی تلقین:
﴿ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡمَرۡحَمَۃِ ﴿ؕ۱۷﴾﴾
صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ انسان یہ کام کر لے کہ غلام آزاد کر دے، مسکین کو کھانا کھلا دے، یتیم کا اکرام کر لے بلکہ ان کاموں کے باوجود اس کو اہلِ ایمان کے زمرے میں داخل ہونا ضروری ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر یہ اعمال قبول نہیں ہوتے۔ اس لیے فرمایا اس شخص کو چاہیے کہ ایمان والوں میں شامل ہو جائے اور یہ ایمان والے ایک دوسرے کو تلقین کرتے ہیں کہ جب تکلیف آ جائے تو برداشت کیا کرو، ایک دوسرے کو تلقین کرتے ہیں کہ محبت اور شفقت سے رہا کرو!
دائیں ہاتھ والے اور بائیں ہاتھ والے:
﴿اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡمَیۡمَنَۃِ ﴿ؕ۱۸﴾﴾
فرمایا: یہی وہ لوگ ہیں جو دائیں ہاتھ والے ہیں یعنی ان کو اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ملے گا۔
﴿وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِنَا ہُمۡ اَصۡحٰبُ الۡمَشۡـَٔمَۃِ ﴿ؕ۱۹﴾ عَلَیۡہِمۡ نَارٌ مُّؤۡصَدَۃٌ ﴿٪۲۰﴾﴾
اور جو لوگ ہما ری آیات کا انکار کرنے والے ہیں وہ بائیں ہاتھ والے ہیں یعنی ان کو اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں ملے گا۔ ان کے اوپر آگ ہو گی جس کو بند کر دیا جائے گا یعنی کافروں کو جہنم میں ڈالیں گے اور جہنم کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ اب یہ کبھی بھی جہنم سے نہیں نکل سکتے، ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․