سورۃ البَیِّنۃ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ البَیِّنۃ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿لَمۡ یَکُنِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ مُنۡفَکِّیۡنَ حَتّٰی تَاۡتِیَہُمُ الۡبَیِّنَۃُ ۙ﴿۱﴾ رَسُوۡلٌ مِّنَ اللہِ یَتۡلُوۡا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً ۙ﴿۲﴾﴾
اہلِ کتاب اور مشرکین کی ہٹ دھرمی:
دورِ جاہلیت کے کفار خواہ وہ اہلِ کتاب؛ یہود و نصاریٰ ہوں یا مشرکین ؛ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے کفر میں اتنے سخت ہیں کہ بہت بڑی دلیل آنے تک یہ اپنے کفر سے باز آنے کے لیے تیار نہیں تھے اور عجیب بات یہ کہ بہت بڑی دلیل پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات آئی ہے اس کے باوجود بعض لوگ کلمہ حق قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ ان یہود و نصاریٰ اور مشرکین کا کفر اتنا سخت تھا کہ عام اور چھوٹے دلائل سے یہ کلمہ نہ پڑھتے بلکہ بہت بڑی دلیل آتی تب یہ کلمہ پڑھتے لیکن بعض بدبخت ایسے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے بڑی دلیل آنے کے باوجود بھی کلمہ نہیں پڑھ رہے۔
فرمایا: اہلِ کتاب اور مشرکین میں سے بعض ایسے تھے جو اپنے کفر سے باز آنے والے نہیں تھے یہاں تک کہ ان کے پاس بہت بڑی واضح دلیل نہ آتی۔ وہ دلیل اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو پاک صحیفے پڑھ کر سناتے ہیں۔
کتبِ قیمہ سے مراد:
﴿فِیۡہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ ؕ﴿۳﴾﴾
ان صحیفوں میں ایسے احکام درج ہیں جو مضبوط اور معتدل ہیں۔
”كُتُبٌ“․․․
کتاب کی جمع ہے اور یہاں کتاب سے مراد لکھی ہوئی کتاب نہیں ہے بلکہ اس سے مراد احکام ہیں۔ کیوں کہ اگر کتاب سے مراد معروف لکھی ہوئی کتاب ہو تو
”فِیْھَا“
میں ھَا سے مراد صحف ہیں جو کہ صحیفہ کی جمع ہے اور صحیفہ بھی لکھی ہوئی کتاب کو کہتے ہیں۔ پھر
”فِیْھَا“
کہنے کا کوئی معنی نہ ہوتا! اس لیے کتب سے مراد احکام ہیں۔ یہ ایسے ہے جس طرح قرآن کریم میں ہے:
﴿لَوۡ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمۡ فِیۡمَاۤ اَخَذۡتُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿۶۸﴾﴾
الانفال 8: 68
کہ اگر اللہ کا حکم طے شدہ نہ ہوتا تو تم پر عذاب آ جاتا۔ یہاں بھی کتاب سے مراد حکم ہے۔
شریعت محمدیہ اعتدال کا نام ہے:
﴿قَیِّمَۃٌ﴾ ․․․
سے مراد ہے معتدل اور مستحکم۔ معنی ہو گا کہ ان صحیفوں میں ایسے احکام درج ہیں جن میں اعتدال بھی ہے اور استحکام بھی ۔ مطلب یہ کہ ان احکام میں افراط وتفریط بھی نہیں ہے اور ان احکام میں کمزوری بھی نہیں ہے۔ احکام مضبوط بھی ہیں اور معتدل بھی ۔ کیونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ ہماری شریعت؛ شریعتِ معتدلہ ہے۔
 ﴿اَلۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴾
اے اللہ! ہمیں سیدھے راستے پر چلا
 ﴿وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا﴾
البقرۃ2: 143
ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا ہے۔
 ﴿اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقۡوَمُ﴾
الاسراء17: 9
یہ قرآن ایسا راستہ دکھاتا ہے جو مستقیم ہے۔
اہلِ کتاب کے اختلاف کی وجہ:
﴿وَ مَا تَفَرَّقَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُمُ الۡبَیِّنَۃُ ؕ﴿۴﴾﴾
اور اہل کتاب نےاس وقت آپس میں اختلاف کیا جب ان کے پاس روشن دلیل آ پہنچی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے یہود و نصاریٰ اس بات پر متفق تھے کہ آخر زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں گے۔ اس بارے میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا۔ تورات اور انجیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات اور آمد کا ذکر موجود تھا اور یہ لوگ ایسی بشارتیں سناتے بھی تھے۔ مزید یہ کہ جب ان کا مقابلہ مشرکین سے ہوتا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دے کر دعائیں مانگتے تھے کہ اے اللہ! جو آخری نبی آنے والے ہیں ان کی برکت سے ہمیں مخالفین پر فتح عطا فرما! لیکن جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ان لوگوں نے اختلافات شروع کر دیے۔ کچھ لوگوں نے تو مانا لیکن اکثر لوگوں نے نہ مانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنے لگے۔
﴿وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ وَ یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ذٰلِکَ دِیۡنُ الۡقَیِّمَۃِ ؕ﴿۵﴾﴾
حالانکہ ان کو یہی حکم ہوا تھا کہ اللہ کی عبادت کریں اور ہر باطل سے الگ رہتے ہوئے عبادت کو خالص اللہ کے لیے رکھیں، نماز کی پابندی کریں، زکوٰۃ اداکریں اور یہی مستقیم اور معتدل امت کا طریقہ ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہود اور نصاریٰ کے بارے میں تو بات سمجھ آتی ہے کہ ان کو حکم تھا کہ نماز پڑھیں، زکوٰۃ دیں اور عبادت خالص اللہ کے لیے کریں کیونکہ ان کے پاس تورات اور انجیل کتابیں موجود تھیں اور ان میں یہ احکامات درج تھے لیکن مشرکین کے لیے یہ حکم کہاں تھا کہ نماز پڑھیں، زکوٰۃ دیں اور عبادت خالص اللہ کے لیے کریں؟! اس کا جواب یہ ہے کہ مشرکینِ مکہ ملتِ ابراہیمی پر ہونے کے دعویدار تھے اور ابراہیم علیہ السلام تو یہ سارے کام کرتے تھے۔ جب وہ خود کو ملتِ ابراہیمی پر عمل پیرا کہتے تھے تو گویا انہیں بھی حکم ہے کہ وہی کام کریں جو ابراہیم علیہ السلام نے کیے تھے۔
اہلِ کتاب اور مشرکین کا انجام:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ شَرُّ الۡبَرِیَّۃِ ؕ﴿۶﴾ اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ خَیۡرُ الۡبَرِیَّۃِ ؕ﴿۷﴾﴾
یہاں ایمان والوں کا اور کافروں کا تقابل بیان کیا ہے۔ فرمایا: اہلِ کتاب اور مشرکین میں سے جن لوگوں نے کفر کا ارتکاب کیا وہ جہنم میں داخل ہوں گے اور ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، یہ بدترین مخلوق ہیں۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے تو یہ بہترین مخلوق ہیں۔
جنت کی نعمتیں:
﴿جَزَآؤُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ جَنّٰتُ عَدۡنٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ رَضِیَ اللہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ خَشِیَ رَبَّہٗ ٪﴿۸﴾﴾
ان ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کا بدلہ اللہ کے ہاں وہ باغات ہیں جو ہمیشہ رہنے والے ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، یہ لوگ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہو گا اور یہ اللہ سے راضی ہوں گے۔ یہ سب انعامات اس شخص کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتا ہو۔
حدیث پاک میں ہے اللہ رب العز ت اہلِ جنت سے فرمائیں گے:
”یَا اَہْلَ الْجَنَّۃِ “
وہ جنتی جواب دیں گے:
”لَبَّیْکَ رَبَّنَاوَسَعْدَیْکَ وَالْخَیْرُ کُلُّہُ فِیْ یَدَیْکَ“
اے ہمارے رب ہم حاضر ہیں! آپ کی فرمانبرداری کے لیے حاضر ہیں اور تمام بھلائیاں آپ ہی کے اختیار میں ہیں۔اللہ رب العزت فرمائیں گے:
”ھَلْ رَضِیْتُمْ؟“
کہ جو میں نے تمہیں نعمتیں دی ہیں کیا تم راضی ہو؟ جنتی کہیں گے: ”رَضِیْنَا“ یا اللہ! ہم خوش ہیں، آپ نے ہمیں سب کچھ دیا ہے تو پھر راضی کیوں نہ ہوں؟ تو اللہ فرمائیں گے کہ میں تمہیں اس سے بڑی چیز دیتا ہوں۔ عرض کریں گے: اے اللہ! اس سے بڑی چیز کیا ہے؟ اس وقت اللہ فرمائیں گے کہ میں تم سب سے راضی ہوں اب تم سے کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔ اللہ رب العزت یہ نعمت ہم سب کو عطا فرمائیں۔ (آمین) اور یہ نعمت اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو دنیا میں دی ہے کہ اللہ ان سے راضی ہو گئے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․