سورۃ الْزِلزال

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الْزِلزال
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اِذَا زُلۡزِلَتِ الۡاَرۡضُ زِلۡزَالَہَا ۙ﴿۱﴾ وَ اَخۡرَجَتِ الۡاَرۡضُ اَثۡقَالَہَا ۙ﴿۲﴾ وَ قَالَ الۡاِنۡسَانُ مَا لَہَا ۚ﴿۳﴾ یَوۡمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخۡبَارَہَا ۙ﴿۴﴾ بِاَنَّ رَبَّکَ اَوۡحٰی لَہَا ؕ﴿۵﴾﴾
احوالِ قیامت:
زلزلہ زمین میں دو مرتبہ ہو گا؛ ایک نفخہ اولیٰ کے وقت اور ایک نفخہ ثانیہ کے وقت۔
نفخ
کا معنی ہوتا ہے پھونک مارنا۔ ایک مرتبہ جب اسرافیل علیہ السلام صور میں پھونک ماریں گے تو زمین میں بھونچال آ جائے گا، زلزلہ ہو گا، پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے، آسمان کے ستارے گر جائیں گے اور دنیا میں سب مر جائیں گے۔ پھر دوبارہ صور میں پھونکیں گے تو پھر زلزلہ آئے گا، پھر مردے اٹھ جائیں گے، زمین کے دفینے باہر نکل آئیں گے۔ یہ دوسرا زلزلہ ہو گا اور یہاں
﴿اِذَا زُلۡزِلَتِ الۡاَرۡضُ زِلۡزَالَہَا﴾
میں یہی دوسرا زلزلہ مراد ہے۔
فرمایا: جب زمین میں زلزلہ آئے گا اور زمین اپنے اندر کے خزانے باہر نکال دے گی۔ اس وقت انسان کہے گا کہ زمین کو کیا ہو گیا ہے؟ اس دن زمین اپنے اندر کی ساری باتیں بتائے گی۔ اس لیے کہ اللہ نے اسے یہی حکم فرمایا ہو گا۔
زمین یہ بتائے گی کہ مجھ پر فلاں نے فلاں گناہ کیا، فلاں نے فلاں نیک کام کیا۔ زمین دفینے بھی باہر نکالے گی اور اپنے اوپر ہونے والے نیک اور برے کام بتائے گی۔ اس لیے حدیث پاک میں ہے:
”اِذَا تَابَ الْعَبْدُ أَنْسَى اللهُ الْحَفَظَةَ ذُنُوْبَهٗ وَأَنْسٰى ذٰلِكَ جَوَارِحَهٗ وَمَعَالِمَهٗ مِنَ الْأَرْضِ “
کہ جب بندہ گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ وہ گناہ فرشتوں کو بھلا دیتے ہیں اور اس کے اعضاء کو بھلا دیتے ہیں اور اس زمین پر جس پر اس نے گناہ کیا تھا اس زمین کو بھی بھلا دیں گے،
”حَتّٰى يَلْقَى اللهَ وَلَيْسَ عَلَيْهِ شَاهِدٌ مِنَ اللهِ بِذَنْبٍ“
یہ بندہ اللہ کے ساتھ قیامت کے دن ایسی حالت میں ملے گا کہ اس کے خلاف کوئی گواہی دینے والا نہیں ہو گا۔
کنز العمال: ج4 ص 87 رقم 10175
اللہ رب العزت ہم سب کو ایسا ہی بنا دے۔ آمین
﴿یَوۡمَئِذٍ یَّصۡدُرُ النَّاسُ اَشۡتَاتًا ۬ۙ لِّیُرَوۡا اَعۡمَالَہُمۡ ؕ﴿۶﴾﴾
اس دن لوگ کئی گروہوں میں بٹ جائیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھائے جائیں۔
کچھ گروہ ایمان والوں کے ہوں گے اور کچھ کافروں کے ہوں گے۔کافر اپنے اعمال کا نتیجہ جہنم دیکھیں گے اور مؤمن اپنے اعمال کا نتیجہ جنت دیکھیں گے۔
نیکی اور برائی کا بدلہ یقینی ہے:
﴿فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿۷﴾ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ٪﴿۸﴾﴾
جس شخص نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھے گا یعنی اس کا بدلہ اسے ملے گا اور ذرہ برابر بھی گناہ کیا ہو گا وہ بھی اسے بھی دیکھے گا۔
یہاں مفسرین نے لکھا ہے کہ خیر سے وہ مراد ہے جو خیر مقبول بھی ہو یعنی اس سے مراد ایسی نیکی ہے جو صحیح عقیدہ کے ساتھ ہو، باطل عقیدے کے ساتھ کی گئی نیکی کو اللہ ہر گز قبول نہیں کرتے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی لکھا ہے۔ پھر صحیح عقیدے کے ساتھ ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ وہ خیر ایسی ہو کہ جسے آدمی وہاں تک لے کر بھی پہنچے، ایسا نہ ہو کہ کفر کر بیٹھے اور ساری خیر کو ضائع کر دے۔ اسی طرح اگر دنیا میں شر یعنی کوئی گناہ کیا ہے اور بعد میں توبہ کر لی تو یہ شر قیامت کے دن نہیں دیکھے گا کیونکہ یہ شر قیامت تک پہنچا ہی نہیں بلکہ پہلے معاف ہو گیا ہے۔
حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت زلزال کو نصف قرآن فرمایا کہ یہ آدھا قرآن ہے اور سورت اخلاص کو تہائی قرآن فرمایا، سورت کافرون کو ربع قرآن فرمایا۔
جامع الترمذی، رقم: 2893
دین کا خلاصہ:
﴿فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿۷﴾ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ٪﴿۸﴾﴾
یہاں ایک بات سمجھیں۔ میں بار ہا آپ کو سمجھاتا ہوں کہ دین خلاصہ دو ہی چیزیں ہیں:
نمبر 1
․․․ ﴿وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ﴾
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں جو کچھ دیں وہ لے لو۔
نمبر 2
․․․ ﴿وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا﴾
اور جس چیز سے منع فرما دیں اس سے رک جاؤ۔
پیغمبر جو چیز دیں اس کا نام ”خیر“ ہے اور جس چیز سے منع کر دیں اس کا نام ”شر“ ہے۔ پیغمبر کی صفات کا خلاصہ بھی دوصفتیں ہیں ؛ بشیر اور نذیر۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بشیر الی الخیر ہیں اور نذیر من الشر ہیں۔ یہ دو ہی صفتیں کیوں ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ موت کے بعد دائمی ٹھکانے دو ہی ہیں؛ ایک جنت اور دوسرا جہنم۔ خیر والے جنت میں جائیں گے اور شر والے جہنم میں جائیں گے۔
اللہ تعالی ہم سب کی جہنم سے حفاظت فرمائیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․