سورۃ العٰدیٰت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ العٰدیٰت
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَ الۡعٰدِیٰتِ ضَبۡحًا ۙ﴿۱﴾ فَالۡمُوۡرِیٰتِ قَدۡحًا ۙ﴿۲﴾ فَالۡمُغِیۡرٰتِ صُبۡحًا ۙ﴿۳﴾﴾
گھوڑوں کی قسمیں:
اس سورت میں اللہ پاک نے قسمیں کھائی ہیں گھوڑوں کی اور ان سے مراد لڑائی والے گھوڑے ہیں جو جہاد اور غیر جہاد میں استعمال ہوتے ہیں، خاص جہاد میں استعمال ہونے والے گھوڑے مراد نہیں ہیں بلکہ مراد مطلق لڑائی میں استعمال ہونے والے گھوڑے مراد ہیں۔ عرب چونکہ لڑائی اور جنگ وجدل کے عادی تھے اس لیے اس مناسبت سے انہیں سمجھانے کے لیے قسمیں کھائی ہیں۔ ارشاد فرمایا:
﴿وَ الۡعٰدِیٰتِ ضَبۡحًا ۙ﴿۱﴾﴾ قسم ہے ان گھوڑوں کی جو ہانپتے ہوئے دوڑتے ہیں۔ ﴿فَالۡمُوۡرِیٰتِ قَدۡحًا ۙ﴿۲﴾﴾قدحًا کہتے ہیں ٹاپ کو، گھوڑے اپنے ٹاپ کو جب سخت زمین پر ماریں تو اس سے آگ کی چنگاریاں نکلتی ہیں خصوصاً جب اس کے نیچے لوہے کی کڑیاں لگائی گئی ہوں تو اور آگ نکلتی ہے۔ فرمایا: قسم ہے ان گھوڑوں کی جو ٹاپ مار کر آگ نکالتے ہیں۔
﴿فَالۡمُغِیۡرٰتِ صُبۡحًا ۙ﴿۳﴾﴾اور ان گھوڑوں کی قسم جو صبح کے وقت تباہ وبرباد کر دیتے ہیں، تاراج کرتے ہیں۔ عرب کے ہاں عادت تھی کہ رات کے وقت حملہ نہیں کرتے تھے، جب صبح ہوتی تو پھر حملہ کرتے، رات کی تاریکی میں حملے کو بزدلی سمجھتے تھے اور صبح کے حملے کو شجاعت اور دلیری سمجھتے تھے۔
﴿فَاَثَرۡنَ بِہٖ نَقۡعًا ۙ﴿۴﴾ فَوَسَطۡنَ بِہٖ جَمۡعًا ۙ﴿۵﴾﴾قسم ہے ان گھوڑوں کی جو غبار اڑاتے ہیں اور دشمن کی جماعتوں میں گھس جاتے ہیں۔ ﴿اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوۡدٌ ۚ﴿۶﴾﴾گھوڑوں کی قسمیں کھا کر اب فرمایا کہ انسان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔
”کَنُوْدٌ“ کا معنی ہے کہ نعمتیں ملیں تو بھول جائے اور مصیبتیں ہمیشہ یاد رکھے، خوشی کا تذکرہ نہ کرے اور شر کا تذکرہ کرے۔ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔
انسانی خصلت مال سے محبت:
اس پر بظاہر یہ شبہ ہوتا ہے کہ ”انسان“ کا لفظ تو نیک اور برے سب کو شامل ہے، کفار کو بھی شامل ہے، مسلمانوں کو بھی شامل ہے، انبیاء علیہم السلام کو بھی شامل ہے تو کیا اس حکم میں العیاذ باللہ انبیاء علیہم السلام اور نیک لوگ بھی شامل ہوں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں ”اِنَّ الۡاِنۡسَانَ“سے مراد کافر شخص ہے کہ کافر کی خصلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ناشکرا ہوتا ہے، مال سے ضرورت سے زیادہ پیار کرتا ہے، حضرات انبیاء علیہم السلام اور نیک صالح مؤمنین اس سے ہرگز مراد نہیں!
عام مسلمانوں کو چاہیے کہ کافروں کی اس خصلت سے بچیں۔ اگر کوئی مسلمان ہو اور یہ کافرانہ خصلتیں اس میں ہوں تو اسے ان سے بچنے کا خوب اہتمام کرنا چاہیے۔﴿وَ اِنَّہٗ عَلٰی ذٰلِکَ لَشَہِیۡدٌ ۚ﴿۷﴾﴾اور ناشکرا ہونے پر خود گواہ ہے۔ اس کا عمل بتاتا ہےکہ یہ ایسا کرتا ہے ۔
حیات فی القبر:
﴿وَ اِنَّہٗ لِحُبِّ الۡخَیۡرِ لَشَدِیۡدٌ ؕ﴿۸﴾ اَفَلَا یَعۡلَمُ اِذَا بُعۡثِرَ مَا فِی الۡقُبُوۡرِ ۙ﴿۹﴾﴾
انسان مال کی محبت میں بہت سخت ہے۔ کیا یہ نہیں جانتا کہ جس دن قبروں میں پڑے مردوں کو زندہ کیا جائے گا۔
اس پر یہ شبہ نہ کریں کہ یہ آیت حیات فی القبرکے خلاف ہے! اس لیے کہ ایک ہوتی ہے حیات ظاہری اور ایک ہوتی ہے حیاتِ مخفی۔ قبر میں میت کو جو حیات ملتی ہے وہ حیات مخفی ہوتی ہے۔ حیات مخفی کا معنی یہ ہے کہ روح اور جسم کے تعلق سے اتنی حیات ہوتی ہے”قَدْرَ مَا یَتَلَذَّذُ وَیَتَأَلَّمُ“جس سے قبر والا جسم لذت بھی محسوس کرے اور تکلیف بھی محسوس کرے، بس اتنی سی حیات کے ہم قائل ہیں، اس سے زیادہ حیات کے ہم قائل نہیں ہیں اور وہ حیات بہت مخفی ہوتی ہے۔
جیسے دیکھو! بال میں حیات موجود ہے اور یہ اتنی کمزور حیات ہے کہ بال کو کاٹ لیں تب بھی درد نہیں ہوتا لیکن اتنی حیات ہے جس سے بال بڑھتا رہتا ہے۔ اب بال میں حیات ہے لیکن بہت کمزور ہے۔ اس کے اوپر آدمی کا رخسار ہے، اس میں بھی حیات ہے لیکن حیات اتنی ہے کہ کاٹیں تو درد ہوتا ہے لیکن اگر اس پر کوئی مٹی وغیرہ لگ جائے تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ پھر اس کے اوپر آنکھ کی پتلی کی حیات ہے، اس میں مٹی پڑئے تو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ یہ حیات مزید حساس ہے لیکن ہوا آنکھ کو لگ جائے تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس کے اوپر دماغ ہے، دماغ کی حیات اتنی حساس ہے کہ ہلکی سی ہوا لگے تو بھی موت کا خطر ہ ہوتا ہے۔
حیات کی قسمیں ہیں نا! اسی طرح کافر کی حیات ہے، پھر اس کے اوپر مؤمن کی حیات ہے، پھر شہید کی حیات ہے، پھر نبی کی حیات ہے۔ یہ حیات کے درجات ہیں، اس کا معنی یہ نہیں کہ حیات کا انکار کیا جائے! قیامت کے دن جو حیات ملے گی وہ ظاہری اور کھلی ہوئی حیات ہو گی اور قبر میں جو حیات ملتی ہے وہ مخفی اور چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ قیامت کے دن ظاہری حیات ملنے سے قبر والی چھپی ہوئی حیات کی نفی نہیں ہوتی۔
﴿وَ حُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوۡرِ ﴿ۙ۱۰﴾ اِنَّ رَبَّہُمۡ بِہِمۡ یَوۡمَئِذٍ لَّخَبِیۡرٌ ٪﴿۱۱﴾﴾
اور جو کچھ سینوں میں ہے اسے ظاہر کیا جائے گا۔ بیشک ان کا رب ان باتوں کو بہت اچھی طرح جانتا ہے۔
یہ جو اللہ قسم کھاتے ہیں کسی چیز کی تو اللہ اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ اس چیز کی قسم کھائیں اور اس کی نہ کھائیں بلکہ اللہ مخلوق کی قسم کھانا چاہےیں تو کھا سکتے ہیں، ہاں البتہ انسان مخلوق کی قسم نہیں کھا سکتا، ﴿لَا یُسۡـَٔلُ عَمَّا یَفۡعَلُ وَ ہُمۡ یُسۡـَٔلُوۡنَ﴾اس لیے کہ اللہ سے نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے ہیں البتہ مخلوق سے پوچھا جائے گا کہ تم نے کیا کیا ہے۔
الانبیاء 21: 23
قسم اور مقسم بہ میں مناسبت:
ہاں البتہ جب کسی چیز کی قسم کھاتے ہیں تو قسم کو مقام قسم سے مناسبت بہت ہوتی ہے۔یہاں گھوڑوں کی قسم کیوں کھائی ہے؟ یہ بتانے کے لیے کہ گھوڑوں کو تھوڑا سا اناج، تھوڑا سا کھانا، تھوڑا سا پانی انسان دیتا ہے اور گھوڑا جان کی بازی لگا دیتا ہے اپنے مالک کے لیے اور انسان کو اللہ رب العزت سب کچھ دیتے ہیں لیکن انسان خواہشات تک کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ تو اللہ رب العزت نے یہاں پر گھوڑوں کی قسمیں اس لیے اٹھائی ہیں کہ اے انسان! تم ان گھوڑوں کو دیکھتے تو تمہیں کچھ عبرت حاصل ہو جاتی۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․