سورۃ الھمزہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الھمزہ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿ وَیۡلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۣ ۙ﴿۱﴾ الَّذِیۡ جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَہٗ ۙ﴿۲﴾﴾
عیب جوئی اور طعنہ زنی دو بری خصلتیں :
ہَمْز کا معنی ہوتا ہے پیٹھ پیچھے کسی کے عیب بیان کرنا اور لَمْز کا معنی ہوتا ہے آمنے سامنے کسی کو طعنہ دینا۔ یہاں تین جرم بیان فرمائے ہیں۔
فرمایا: تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو دوسروں میں عیب نکالتےہیں اور طعنے دیتے ہیں۔
بعض اعتبار سے کسی کے عیب بیان کرنا، کسی کی غیبت کرنا بڑا جرم ہے اور بعض اعتبار سے طعنہ دینا بڑا جرم ہے۔ غیبت کرنا اس لیے بڑا جرم ہے کہ غیبت تو غیر موجودگی میں ہوتی ہے ۔جب آدمی کسی کی غیبت کرتا ہے تو اس کو روکنے والا کوئی نہیں ہوتا اس لیے بندہ اس میں لگا رہتا ہے اور بڑھتا ہی چلا جاتا ہے؛ اس حساب سے یہ بڑا گناہ ہے ۔اور جب کسی کو کوئی طعنہ دیں تو طعنہ دینے والا شخص چونکہ سامنے ہوتا ہے اس لیے وہ اپنا دفاع بھی کرتا ہے اس لیے یہ گناہ زیادہ بڑھتا نہیں ہے، بس ایک حد تک آ کے ختم ہو ہی جاتا ہے۔
اور بعض مرتبہ کسی کو طعنہ دینا بڑا جرم ہوتا ہے کیوں کہ جس کو طعنہ دیا جائے تو یہ اس کی توہین ہوتی ہےاور کسی کی توہین کرنا بہت بڑا جرم ہے۔
مال سے حد درجہ محبت:
﴿الَّذِیۡ جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَہٗ ۙ﴿۲﴾ یَحۡسَبُ اَنَّ مَالَہٗۤ اَخۡلَدَہٗ ۚ﴿۳﴾﴾
یہ وہ شخص ہے جو مال جمع کرتا ہے اور پھر اسے گنتا رہتا ہے۔ اس کا خیال یہ ہے کہ اس کا مال اس کو ہمیشہ زندہ رکھے گا!
اس کامعنی یہ نہیں ہے کہ مدرسے کے پیسے آئے تو ان پر یہ بات فٹ کریں، آدمی دکان پر بیٹھا ہو اور شام کو پیسے گنے تو اس پر فٹ کریں، کہیں سے کوئی ہدیہ یا صدقہ ملے اور اس کو گنیں تو اس پر فٹ کریں․․․ یہ معنی نہیں ہے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ یہ ایسا شخص ہے کہ جو اپنے مال پر فخر کرتا ہے اور گن گن کر اپنے آپ کو خوش کرتا ہے کہ میرے پاس اتنے لاکھ ہو گئے، اتنے کروڑ ہو گئے، گن گن کر بتاتا ہے اور یہ شخص مال کی محبت میں اتنا منہمک ہے کہ سمجھتا ہے کہ میری ہر مشکل مال و دولت سے حل ہو گی، موت سے غافل ہو کر زندگی کے منصوبے یوں بنا رہا ہے کہ گویا اس کا مال بھی ہمیشہ رہے گا اور یہ خود بھی ہمیشہ رہے گا، اس پر کبھی موت آئے گی ہی نہیں۔ فرمایا:
حُطمہ کیا ہے:
﴿کَلَّا لَیُنۡۢبَذَنَّ فِی الۡحُطَمَۃِ ۫﴿ۖ۴﴾ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡحُطَمَۃُ ؕ﴿۵﴾ نَارُ اللہِ الۡمُوۡقَدَۃُ ۙ﴿۶﴾ الَّتِیۡ تَطَّلِعُ عَلَی الۡاَفۡـِٕدَۃِ ؕ﴿۷﴾﴾
یہ بات اس کی بالکل غلط ہے کہ اس نے اور اس کے مال نے ہمیشہ رہنا ہے بلکہ اس کو ایسی آگ میں پھینکیں گے کہ جو توڑ پھوڑ کر رکھ دے گی۔ توڑ پھوڑنے کرنے والی آگ کون سی ہے؟ یہ اللہ کی سلگائی ہوئی آگ ہےاور یہ سیدھی دل پر پہنچتی ہے۔
یہ جو فرمایا کہ یہ آگ سیدھی دل پر پہنچتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے دنیا میں جو آگ ہے اگر وہ انسان کو لگے تو وہ بھی دل پر جاتی ہےاور جو جہنم کی آگ ہے وہ بھی دل پر جاتی ہے، دونوں میں فرق یہ ہے کہ دنیا کی آگ جب جسم کو لگے تو دل پر پہنچنے سے پہلے ہی انسان مر جاتا ہے تو دل جلانے کی تکلیف اس کو محسوس نہیں ہوتی لیکن جہنم کی آگ ایسی ہو گی کہ آدمی کا جسم جلا کر دل کو جلائے گی اور بندہ زندہ ہو گا اور دل جلنے کے درد کو محسوس کرے گا۔ تو جہنم کی آگ کا معاملہ دنیا کی آگ سے مختلف ہو گا کہ انسان زندہ بھی ہو گا اور دل کو جلتا ہوا دیکھے گا۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
﴿اِنَّہَا عَلَیۡہِمۡ مُّؤۡصَدَۃٌ ۙ﴿۸﴾ فِیۡ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ ٪﴿۹﴾﴾
ان کو اس آگ میں بند کر دیا جائے گا اور بڑے بڑے ستون ہوں گے جہاں سے یہ لوگ باہر نہیں نکل سکیں گے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․