سورۃ الفیل

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الفیل
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصۡحٰبِ الۡفِیۡلِ ؕ﴿۱﴾﴾
واقعہ اصحاب فیل:
اصحاب فیل کا واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولاد ت والے سال کا پیش آیا تھا۔ سورۃ البروج میں پہلے بات گزر چکی ہے کہ یمن کا آخری بادشاہ یوسف ذونواس تھا جو قوم ح
ِمْیَر
کا تھا۔ اس نے اس وقت کے جو اہلِ حق تھے یعنی نصاریٰ ان پر بہت ظلم و ستم کیا تھا۔ خندقیں کھدوا کر ان میں آگ بھری اور ان لوگوں کو اس آگ میں جھونک دیا۔ بارہ ہزار یا اس سے بھی زائد بندے اس نے جلائے تھے۔ ان کا اپنا انجام یہ ہوا کہ خندقوں کی آگ خندقوں سے باہر نکل کر پھیلی اور اس نے خندق پر موجود سپاہیوں کو جلا کر راکھ کر ڈالا۔ ملکِ یمن پر ارباط اور ابرہہ نے قبضہ کیا، ذونواس کو شکست دی، وہ بھاگ کر دریا کی طرف گیا اور دریا میں غرق ہو کر مرا۔ یہ واقعہ آپ کے علم میں ہے۔
ان مظلوم عیسائیوں میں سے دو آدمی ذونواس کی گرفت سے بچ کر ملک شام نکل گئے قیصر کے پاس اور اسے جا کر کہا کہ حِمْیَر کے بادشاہ ذونواس نے نصاریٰ پر ظلم کیا ہے، آپ اس سے انتقام لیں۔ قیصر نے حبشہ کے بادشاہ کو پیغام بھیجا کہ ذونواس بادشاہ سے انتقام لو! ملکِ یمن حبشہ سے قریب پڑتا تھا۔ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے ابرہہ اورا رباط -یہ اس کے دو جرنیل تھے- ان کو بھیجا یمن پر حملے کے لیے تو انہوں نے جا کر پورے یمن کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ پھر ان کی آپس میں بھی لڑائی ہوئی، ارباط مارا گیا اور ابرہہ بچ گیا۔ اس ابرہہ کو نجاشی بادشاہ نے یمن کا حاکم بنا دیا۔
اب چونکہ یہ تھا نصرانی اور اس کا مکہ سے تو تعلق تھا نہیں تو اس کے ذہن میں یہ تھاکہ جب مجھے اپنی سلطنت ملی ہے، اپنی حکومت ملی ہے، اپنی طاقت ملی ہے تو میں یہاں پر ایک ایسا کنیسہ بناؤں گا کہ لوگ مکہ میں بیت اللہ کے بجائے یہاں اس کنیسہ میں عبادت کریں۔ اس نے پھر ایک بہت بڑا عبادت خانہ بنایا جو اتنا اونچا تھا کہ نیچے کھڑے ہو کر اس عبادت خانے کی بلندی پر نظر ڈالنا ممکن نہیں تھا۔ ہیرے جواہرات سب کچھ اس پہ لگا دیا۔
یمن میں جو لوگ رہتے تھے وہ اس سے نفرت کرتے تھے، ان کی خواہش تھی کہ لوگ مکہ میں جائیں اور بیت اللہ کی زیارت کریں۔ بعض روایات میں ہے کہ کسی مسافر قبیلہ نے کنیسہ کے قریب آگ جلائی اور آگ کنیسہ کو لگ گئی اور اسے کافی نقصان پہنچا۔ بعض روایات میں ہے اس سے نفرت کرتے ہوئے کسی نے اس کنیسہ میں پاخانہ کر دیا۔ جب ابرہہ کو پتا چلا تو اس نے کہا کہ میں مکہ جاؤں گا اور بیت اللہ کو گرا کے رکھ دوں گا۔ اب ابرہہ بیت اللہ کو گرانے کے لیے نکلا تو جو عرب تھے راستے میں
ذُونفر
انہوں نے مقابلہ کیا۔ یمن میں تھے، انہوں نے اپنے عرب قبائل کو اکٹھا کیا، مقابلہ کیا لیکن وہ بیچ میں ہی ختم ہو گئے۔
پھر یہ آگے نکلا تو راستے میں ایک قبیلہ تھا قبیلہ خثعم، اس کا سردار تھا نفیل بن حبیب۔ انہوں نے مقابلہ کیا، وہ بھی گرفتار ہو گئے۔ پھر یہ طائف گئے انہوں نے ان سے معاہدہ کر لیا کہ تم ہمارے بتوں کو کچھ نہ کہو ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ بالآخر یہ مکہ پہنچے اور انہوں نے سب سے پہلےجو ان کے اونٹ تھے ان پر قبضہ کر لیا۔ جناب عبدالمطلب کے بھی دو سو اونٹ تھے۔ اس ابرہہ کا ایک سفیر اندر گیا حناطہ حِمْیَری تو اس نے مکہ والوں سے بات کی۔ مکہ والوں نے کہا کہ ہمارے بڑے سردار ہیں عبد المطلب آپ ان سے بات کریں۔ عبدالمطلب سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے اونٹ دے دو، باقی تم جانو اور کعبے کا خدا جانے۔
حناطہ حِمْیَری نے کہا کہ چلو تم بات کرو ابرہہ سے۔ بات کرنے کے لیے گئے۔ کہتے ہیں کہ عبد المطلب بہت وجیہ آدمی تھے، قد آور آدمی تھے۔ ان کو ابرہہ نے دیکھا تو اپنے شاہی تخت سے نیچے اتر آیا، ان کے ساتھ بیٹھا، پوچھا: کیسے آئے ؟ ابرہہ نے کہا کہ ہمارے آنے کا مقصد تو کعبہ گرانا ہے۔ عبد المطلب نے کہا کہ میں کعبہ کے لیے بات کرنے نہیں آیا ہوں، میں تو اونٹ مانگنے کے لیے آیا ہوں۔ تو ابرہہ نے کہا کہ میرے دل میں جو تمہاری عزت تھی وہ اس بات سے ختم ہو گئی، میرا خیال یہ تھا کہ تم اپنے عبادت خانے کی بات کرو گے، تم عبادت خانے کے بجائے اونٹوں کی بات کرتے ہو۔ انہوں نے کہا کہ بہرحال وہ تو کعبہ جانے اور اس کا رب جانے، وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔ ہمارے اونٹ واپس کر دو! ابرہہ نے اونٹ واپس دے دیے۔ عبدالمطلب واپس چلے گئے۔
واپس جا کر انہوں نے کعبہ کو پکڑ کر دعائیں مانگیں اور ان کو یقین تھا کہ یہ لوگ تبا ہ ہو جائیں گے۔اس کے بعد دعائیں مانگیں اور قریش کے جتنے لوگ تھے وہ پہاڑوں پر چڑھ گئے منظر دیکھنے کے لیے۔ ابرہہ کے ہاتھی کا نام تھامحمود جو بڑا ہاتھی تھا، سات آٹھ ہاتھی اور بھی اس کے ساتھ تھے۔ جب یہ مکہ میں داخل ہونے لگے تو ہاتھی نے اٹھنے سے انکار کر دیا اور بعض کہتے ہیں کہ نفیل بن حبیب نے اس ہاتھی کے کان میں کہا تھا کہ دیکھو! یہ اللہ کا گھر ہے ادھر نہ جانا ورنہ تباہ ہو جاؤ گے۔
اب ہاتھی کو واپس لاتے تو وہ چلتا، سیدھا چلاتے تو نہیں چلتا تھا، اٹھنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہو رہا تھا، بہت کچھ کیا جیسے ہاتھی کو مارتے ہیں، کڑے ڈالتے ہیں لیکن وہ تیار نہیں ہوا۔ پھر مجبور کیا اس کے ناک میں کڑا ڈال کر تیار کیا، کھینچا پھر بھی آگے نہیں گیا۔
خیر وہ تو نہیں اٹھا، باقی ہاتھی اٹھے اور ان لوگوں نے کعبہ کا جونہی رخ کیا تو اللہ رب العزت نے چھوٹے چھوٹے پرندوں سے جو بہت چھوٹے تھے اور سرخ رنگ کے ان کے پنجے تھے، ہر ایک کےپاس تین کنکریاں ہوتیں اور وہ کنکریاں ایسی تھیں جو تر مٹی کو آگ پر پکانے سے تیار ہوتی ہیں، ایک چونچ میں ایک دائیں پنجے میں اور ایک بائیں پنجے میں۔ جس کے سر پر لگتی اس کے اوپر سے داخل ہو کر نیچے سے نکل جاتی اور پورا جسم بھوسے کی طرح ہو جاتا تھا۔ ابرہہ کو اللہ تعالی نے زندہ رکھا۔ اس کا جسم گلنا شروع ہو گیا تو اس کے جسم کا ایک ایک حصہ گل گل کر سڑ سڑ کر گرتا رہا اور بالآخر یہ مر گیا۔
یمن کا دارالحکومت ہے صنعاء اور وہاں پر یہ کلیسا ہے۔ اس کو میں نے خود دیکھا ہے۔ اس طرح عجیب تباہ شدہ جگہ ہے کہ آدمی کو دیکھ عبرت ہوتی ہے۔ تھوڑی سی جگہ ہے، کنویں کی طرح ہے اور کوئی مخلوق وہاں آباد نہیں ۔ ایک اجڑا ہوا سا محلہ ہے اور وہاں اس کے آثار ونشان پڑے ہیں۔ اس کے باہر ایک جنگلا لگا ہوا ہے، اس کو بند کیا ہوا ہے، بس یہ جگہ تھی۔
ہاتھی والوں کا انجام:
﴿اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصۡحٰبِ الۡفِیۡلِ ؕ﴿۱﴾﴾
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کو نہیں دیکھا لیکن اگر واقعہ ایسا یقینی ہو کہ لوگوں نے اس کو دیکھا ہو اور اس کا مشاہدہ بھی کیا ہو تو اس کے علم یقینی کو کبھی لفظِ رؤیت سے بھی تعبیر کر دیا جاتا ہے۔ جس طرح مستقبل میں ہونے والے واقعات جن کا وقوع یقینی ہو تو انہیں بھی ماضی سے تعبیر کر دیتے ہیں۔
امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے دو آدمیوں کو مکہ مکرمہ میں خود دیکھا، وہ آنکھوں سے نابینا اور پاؤں سے لنگڑے تھے اور اللہ کے عذاب کو بھگت رہے تھے۔ یہ اصحاب الفیل میں سے تھے۔
﴿اَلَمۡ یَجۡعَلۡ کَیۡدَہُمۡ فِیۡ تَضۡلِیۡلٍ ۙ﴿۲﴾ وَّ اَرۡسَلَ عَلَیۡہِمۡ طَیۡرًا اَبَابِیۡلَ ۙ﴿۳﴾﴾
کیا اللہ نے ان کی ساری تدبیروں کو خاک میں نہیں ملا دیا تھا؟! اور ان پر مختلف قسم کے پرندے بھیجے تھے۔
”ابابیل“ کسی خاص پرندے کا نام نہیں ہے۔ پرندوں کے جھنڈ کو ابابیل کہا گیا ہے۔ یہ پرندوں کی کوئی قسم تھی جو اللہ نے ان پر بھیجی تھی۔ ایک خاص قسم کا پرندہ جسے ہم اپنی زبان میں ابابیل کہتے ہیں یہ وہ نہیں تھے۔
﴿تَرۡمِیۡہِمۡ بِحِجَارَۃٍ مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ۪ۙ﴿۴﴾﴾
یہ پرندے ان پر پتھر کے کنکر پھینک رہے تھے۔”سِجِّیْلٍ“ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مُعَرَّب ہے سنگِ گل سے۔
﴿فَجَعَلَہُمۡ کَعَصۡفٍ مَّاۡکُوۡلٍ ٪﴿۵﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا کر دیا جیسے کھایا ہوا بھوسہ ہوتا ہے۔
عام بھوسہ نہیں بلکہ وہ بھوسہ جو کھایا ہوا ہوتا ہے، اس کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․