سورۃ اللہب

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ اللہب
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿ تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّ تَبَّ ؕ﴿۱﴾ ﴾
سورت کا شانِ نزول:
رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ آیت نازل ہوئی :
﴿وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ﴿۲۱۴﴾ۙ﴾
الشعراء 26: 214
کہ آپ اپنے رشتہ داروں کو ڈرائیں؛ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہِ صفا پر چڑھے اور فرمایا:
یَا صَبَاحَاہ!
یہ اعلان ہوتا تھا لوگوں کو بلانے کے لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو آواز دی اور بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا بنی فِہراور یا بنی عدی کہہ کر انہیں پکارا۔ لوگ اکٹھے ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں تمہیں کہوں کہ اس صفا پہاڑی کے پیچھے دشمن ہے جو تم پر حملہ کرے گا تو کیا تم مان لو گے؟ انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں مانیں گے
”مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا“
ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولنے والا پایا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ“
تمہیں آنے والے عذاب سے ڈرانے والا ہوں۔ابو لہب نے کہا -اس کا نام عبد العزیٰ تھا- اس بدبخت نے کہا:
”تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ، أَلِهٰذَا جَمَعْتَنَا؟“
اے محمد! -العیاذ باللہ- تو تباہ ہو جائے، تو نے اس لیے بلایا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہیں، قرآن اتراہے
﴿تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّ تَبَّ﴾
ابو لہب تباہ و برباد ہو جائے۔ یہ سور ت نازل ہوئی۔
صحیح البخاری ، رقم: 4770
یہاں ”ید“ سے مراد ابو لہب کے صرف ہاتھ نہیں ہیں بلکہ ید سے مراد پورا جسم ہے۔ ”تَبَّ“ یہ ماضی کا صیغہ ہے۔ سمجھو کہ وہ تباہ ہو گیا ہے۔
ابو لہب کا انجام:
﴿مَاۤ اَغۡنٰی عَنۡہُ مَالُہٗ وَ مَا کَسَبَ ؕ﴿۲﴾﴾
اس کا مال اور اس نے جو کچھ کمایا اس کے کسی کام نہیں آئے گا۔
ابو لہب کے بیٹے بھی خوب تھے اور پیسے بھی خوب تھے۔ کہتا تھا کہ جو محمد کہتا ہے وہ سب غلط کہتا ہے- صلی اللہ علیہ وسلم- اگر اس کی بات ٹھیک ہوئی بھی تو میں اپنے بیٹوں اور مال کو استعمال کر کے عذاب سے بچ جاؤں گا۔
﴿سَیَصۡلٰی نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ ۚ﴿ۖ۳﴾﴾
وہ داخل ہو گا ایسی آگ میں جو شعلے والی ہو گی۔
ابو لہب کی بیوی کا حشر:
﴿وَّ امۡرَاَتُہٗ ؕ حَمَّالَۃَ الۡحَطَبِ ۚ﴿۴﴾﴾
اور اس کی بیوی بھی اس آگ میں داخل ہوگی جو لکڑیاں اٹھاتی تھی۔
اس کا نام ام جمیل تھا اور یہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی بہن تھی۔ ”لکڑیاں اٹھاتی تھی“ کا یا تو حقیقی معنی مراد ہے کہ کانٹے دار لکڑیاں اٹھاتی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں بچھاتی تھی یا اس کا معنی یہ ہے کہ جہنم میں زقوم کا درخت اٹھائے گی اور ابولہب پر پھینکے گی اور اس کی آگ مزید بھڑکائے گی۔
﴿فِیۡ جِیۡدِہَا حَبۡلٌ مِّنۡ مَّسَدٍ ٪﴿۵﴾﴾
اور اس کی گردن میں بڑی مضبوط رسی ہو گی۔
جہنم کے طوق اور زنجیروں کو یہاں مضبوط رسی سے تعبیر فرمایا کہ یہ جہنم میں جلے گی اور وہاں اس کی گردن میں جہنم کے طوق اور زنجیریں ہوں گی، اور بعض کہتے ہیں کہ یہ کنجوس مزاج کی عورت تھی، اتنے بڑے سرداروں کی بہن اور بیوی ہونے کے باوجود اپنی کمر پر لکڑیاں اٹھا کر لاتی اور اس کی رسی کو اپنے گلے میں لپیٹ لیتی تھی۔ اس کی یہی رسی اس کے گلے میں پھنسی، جب اٹھنے لگی تو اس کا گلہ دب گیا اور دم گھٹنے سے مر گئی۔
الیکشن نہیں سلیکشن!
﴿تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّ تَبَّ﴾ ․․․
بعض حضرات اس آیت کے تحت یہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر جب ابو لہب نے جملہ کسا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا بلکہ جواب اللہ نے خود دیا ہے۔ یہی بات میں سمجھایا کرتا ہوں کہ نبی مبعوث من اللہ ہوتا ہے، کیونکہ نبی الیکشن سے نہیں ہوتا․․ نبی سلیکشن سے ہوتا ہے۔ اس لیے جب نبی پر اعتراض ہو تو نبی خاموش ہوتا ہے ، جو نبی کی سلیکشن کرتا ہے وہ خدا جواب دیتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہیں اور اللہ نے جواب دیا ہے۔ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․