دوسری بات حدیث مبارک

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
﴿2- حدیث مبارک﴾
حدیث کی تعریف:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے قو ل، فعل اور تقریر کو ”حد یث“ کہتے ہیں۔نیز اس کو خبر اور اثر بھی کہتے ہیں۔
فا ئد ہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کو ”قول“، عمل مبارک کو ”فعل“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی صحابی عمل کرتا اور آپ اس پر خاموش رہتے تو اس کو ”تقریر“ کہا جاتا ہے۔ صحابی یا تابعی کے قول، فعل اور تقریر کا معنی بھی ایسے ہی ہے۔
حدیث کی قسمیں:
راویوں کی تعداد کے لحاظ سے حدیث کی دو قسمیں ہیں:
1: حدیث متواتر یا خبر متواتر
2: حدیث واحدیا خبر واحد
حدیث متواتر:
حدیث متواتروہ حدیث ہے جس کو نقل کرنے والے ہر دور میں اتنے زیادہ ہوں جن کا عموماً جھوٹ پر جمع ہونا نا ممکن ہو۔
حدیث واحد:
حدیث واحد وہ حدیث ہے جس کو نقل کرنے والے ہر دور میں یا کسی ایک دور میں حدیث متواتر کو نقل کرنے والوں سے کم ہوں۔
حدیث واحد کی دو قسمیں ہیں:
1: حدیث مقبول 2: حدیث غیر مقبول
1: حدیث مقبول
وہ حدیث ہے جو قابل قبول ہو۔
حدیث مقبول کی تین قسمیں ہیں:
1: حدیث صحیح 2: حدیث حسن 3: حدیث مرسل
حدیث صحیح:
وہ حدیث ہے جس کے تمام راوی عادل ہوں، اچھے حافظہ والے ہوں اور ان کی روایت ان سے زیادہ ثقہ راویوں کے مخالف نہ ہو۔
حدیث حسن:
وہ حدیث ہے جس کے تمام روای حدیث صحیح کی طرح ہوں البتہ ان کا حافظہ نسبتاً کمزور ہو۔
حدیث مرسل:
یہ وہ حدیث ہے جس کو صحابی، تابعی یا تبع تابعی کسی واسطے سے سنے اور آگے حدیث کو نقل کرتے وقت اس واسطے کا ذکر نہ کرے بلکہ یوں کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
2: حدیث غیر مقبول
یہ وہ حدیث ہے جو نا قابل قبول ہو۔
اس کی بھی دوقسمیں ہیں:
1: حدیث موضوع 2: حدیث ضعیف
حدیث موضوع:
یہ وہ حدیث ہے جو کسی نے اپنی طرف سے گھڑ کر اس کی نسبت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کر دی ہو۔
حدیث ضعیف:
یہ وہ حدیث ہے جس میں حدیث صحیح اور حسن کی شرائط نہ پائی جاتی ہوں۔
نوٹ: ضعیف حدیث عقائد واحکام میں تو قابل قبول نہیں البتہ قصص وحکایات اور فضائل میں یہ قابل قبول ہوتی ہے۔
سنت کا لغوی اوراصطلاحی معنی
لغت میں سنت طریقِ زندگی، دستور اور راستے کو کہتے ہیں۔
اصطلاحِ شریعت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قابل اتباع قول، فعل اور تقریر کو سنت کہتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خصوصاً خلفاء راشدین کے افعال بھی سنت کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت کی طرح ان کی سنت پربھی عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا عمدہ وعظ فرمایا جس سے آنکھیں بہنے لگیں اور دل کانپنے لگے۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ تو جانے والے اورالوداع کہنے والے کی نصیحت معلوم ہوتی ہے تو آپ ہمیں کچھ وصیت فرما دیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور امیر کی اطاعت کرتے رہنا اگرچہ وہ غلام ہی کیوں نہ ہو، جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، پس تم میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرنا اور اس کو گرہ لگا کر ڈاڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑ کر رکھنا اور دین میں نئی پیدا ہونے والی چیزوں سے بچنا، اس لیے کہ دین میں ہر نئی پیدا ہونے والی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
(سنن ابی داؤد:ج2ص290 کتاب السنۃ․ باب فی لزوم السنۃ)
فائدہ:
ہر سنت حدیث ہے مگر ہر حدیث سنت نہیں۔ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا اور حدیث پر عمل کرنے کا حکم نہیں دیا اس لیے کہ بعض احادیث ایسی ہیں جن پر عمل کرنا ممکن نہیں جیسے حدیث معراج۔اور بعض احادیث میں ایسے اعمال و افعال کا ذکر ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہیں اور امتی کے لیے جائز نہیں جیسے بیک وقت چار سے زیادہ نکاح اور بعض احادیث میں ایسے اعمال و افعال کا ذکر ہے جو کسی وقتی ضرورت کے تحت بیان جواز کے لیے تھے یعنی یہ بتانے کے لیے کہ بوقت ضرورت یہ عمل کرنا بھی جائز ہے جیسے ضرورت کے وقت کھڑے ہو کر پیشاب کرنا۔
بعض احادیث میں ایسے اعمال و افعال کا ذکر ہے جو اب منسوخ ہو چکے ہیں جیسے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا اور ہم بھی اپنے آپ کو اھل السنۃ و الجماعۃ کہلواتے ہیں، اہل حدیث نہیں۔