بارھواں سبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بارھواں سبق
[1]: صداقتِ قرآن
﴿قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰى اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا﴾
(بنی اسرائیل:88)
ترجمہ: آپ فرمادیں کہ اگر تمام انسان وجنات اس جیسا قرآن لانے پر جمع ہوجائیں توبھی اس جیسا قرآن نہیں لاسکتے چاہے وہ اس کے لیے ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں۔
[2]: جیسے اعمال ویسے حکمران
عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كَمَا تَكُوْنُوْا كَذٰلِكَ يُؤَمَّرُ عَلَيْكُمْ".
(شعب الایمان للبیہقی: ج6 ص23 باب فی طاعۃ اولی الامر رقم 7391)
ترجمہ: یونس بن ابی اسحاق اپنے والد ابو اسحاق (عمرو بن عبد اللہ السَّبِیعی) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جیسے تم ہو گے (یعنی جیسے تمہارے اعمال ہوں گے ) ویسے ہی تم پر حکمران لائے جائیں گے۔
[3]: آسمانی کتب کے متعلق عقائد
کتبِ سماویہ:
جس زمانے میں جس نبی پر جوکتاب اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی و ہ برحق اور سچی تھی، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات، حضرت داؤد علیہ السلام پر زبور، حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم نازل فرمایا۔ البتہ باقی کتابیں منسوخ ہوچکی ہیں اور اب قیامت تک کے لیے کتب سماویہ میں سے واجب الاتباع اور نجات کا مدار صرف قرآن کریم ہی ہے۔
صداقت ِقرآن:
سورۃ الفاتحہ سے لے کر و الناس تک قرآنِ کریم کا ایک ایک لفظ محفوظ ہے اس میں ایک بھی لفظ بلکہ حرف کے انکا ریا تحریف کا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔
[4]: حیض اوراستحاضہ کے احکام
حیض کی تعریف:
ہر مہینے بالغ عورت کو جوخون آتا ہے اسے حیض کہتے ہیں بشرطیکہ وہ خون بیماری یا حمل کی وجہ سے نہ ہو۔
مدت حیض:
حیض کی کم سے کم مدت تین دن تین رات ہے اس سے ذرابھی کم ہوا تووہ حیض نہیں، استحاضہ ہے۔ حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت دس دن دس راتیں ہے اگر اس سے ذرا بھی زائد ہو گیاتووہ حیض نہیں،استحاضہ ہے۔
استحاضہ کی تعریف:
بیماری وغیرہ کی وجہ سے جو خون آتا ہے اسے استحاضہ کہتے ہیں۔ اسی طرح حیض کے اصل خون سے پہلے اور بعد میں جو زائد خون آتا ہے اسے بھی استحاضہ کہتے ہیں۔
نوٹ: ایام حیض میں نمازیں معاف ہیں، بعد میں قضا کی ضرورت نہیں البتہ روزوں کی قضا واجب ہے جو پاک ہونے پر رکھنے ضروری ہیں۔ استحاضہ میں نہ نماز معاف ہے اور نہ روزہ ۔
حیض کارنگ:
سرخ،زرد،سبز،خاکی یعنی مٹیالا اور سیاہ رنگ حیض میں آسکتاہے۔ جو کپڑا یا گدی وغیرہ رکھی ہو جب تک وہ سفید دکھائی نہ دے حیض ہے اورجب بالکل سفید دکھائی دے کہ جیسی رکھی تھی ویسی ہی ہے تو اب حیض سے پاک ہوگئی۔
حیض کی ابتدائی اورانتہائی عمر:
حیض کی ابتدائی عمرنو برس ہے، نو برس سے پہلے کسی کو حیض نہیں آتا اورانتہائی عمر پچپن برس ہے اوریہ عام طور پرایک معمول ہے لیکن اس کے بعد آنا بھی ممکن ہے۔ اس لیے اگر پچپن برس کے بعد خون آجائے تواگر خوب سرخ یاسیاہ ہوتوحیض ہے اور اگر اس کے علاوہ ہوتواستحاضہ ہے اور یہ جب ہے کہ پہلے سے اس رنگ کاخون آنے کی عادت نہ ہو۔ اگر حیض کے زمانہ میں بھی اس عورت کویہ رنگ آیا کرتا تھاتو یہ حیض ہی سمجھا جائے گا۔
ایام عادت:
اگر کسی کی عادت تین دن یا چاردن حیض آنے کی ہے پھر کسی ماہ میں زیادہ آگیا تو اس کاحکم یہ ہے کہ جب تک دس دن سے نہ بڑھ جائے،سب حیض ہے۔ اگر دس دن سے بڑھ گیاتوجتنے دن پہلے سے عادت ہے وہ حیض ہے، باقی سب استحاضہ ہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ کسی کو تین دن حیض آنے کی عادت ہے لیکن کسی مہینہ میں دس رات سے زیادہ خون آ گیاتو وہی تین دن توحیض کے ہیں،باقی دنوں کا خون سب استحاضہ ہے۔
ان دنوں کی نمازوں کاحکم یہ ہے کہ دس دن رات تک تو نمازنہ پڑھے کیونکہ اندیشہ ہے کہ حیض ہولیکن جیسے ہی دس دن دس رات سے بڑھے تو فوراًپاک ہوکر نماز پڑھے اورتین دن تین رات کے علاوہ باقی دنوں کی قضا پڑھے اوریہ قضاپڑھناواجب ہے۔ایک عورت ہے جس کی کوئی عادت مقررنہیں ہے،کبھی چاردن خون آتاہے کبھی سات دن۔اس طرح بدلتا رہتا ہے تواس کا حکم یہ ہے کہ یہ حیض شمارہوگااوراگر کبھی دس دن سے بڑھ جائے تو دیکھا جائے گا کہ اس سے پہلے مہینہ میں کتنے دن حیض آیاتھا؟ بس اتنے دن حیض شمار کریں گے، باقی سب استحاضہ ہے،ان دنوں کی نمازوں کی قضا واجب ہوگی۔
حائضہ مبتدأۃ:
اگر کسی لڑکی کو پہلی مرتبہ خون آیا تواگروہ دس دن سے کم ہوتوسب حیض ہے،اگردس دن ہو توبھی حیض ہے اوراگردس دن سے بڑھ گیاتو وہ استحاضہ ہے۔اگر یہ خون مہینوں چلتا رہا،یعنی برابر کئی مہینے تک جاری رہا تواس پہلی تاریخ سے لے کردس دن تک حیض شمارکریں گے، باقی بیس دن استحاضہ شمارہوگا۔
مدت طہر:
دوحیض کے درمیان میں پاک رہنے کی کم سے کم مدت پندرہ دن ہے اورزیادہ کی کوئی مدت مقرر نہیں، سالوں تک بھی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ اگرکسی کوحیض آنا بند ہوجائے توجتنے مہینے تک نہ آئے وہ پاک رہے گی۔ اگر کسی کو ایک یادودن خون آیا پھر پندرہ دن پاک رہی پھر ایک دو دن خون آگیا تو اس کا حکم یہ ہے کہ پندرہ دن سے پہلے اور بعد میں ایک دودن جو خون آیا وہ حیض شمارنہ ہوگا بلکہ یہ استحاضہ ہے۔
اگر ایک دودن خون آیا پھرپندرہ دن سے کم پاک رہی پھر ایک دودن خون آیا تو اس کا حکم یہ کہ جن دنوں پاک رہی ان کا کچھ اعتبار نہیں بلکہ یوں سمجھیں گے کہ گویا برابر اتنے دن خون جاری رہا،اب اس کے جتنے دن کی عادت ہے وہ توحیض ہے،باقی سب استحاضہ ہے۔
[5]: اذان کے بعد کی دعا
أَللّٰهُمَّ رَبَّ هٰذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلوٰةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدَ نِ الْوَسِيْلَةَ وَالْفَضِيْلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودَ نِ الَّذِيْ وَعَدْتَهٗ.
(صحیح البخاری:ج1ص86 باب الدعاء عند النداء)
ترجمہ: اے اللہ! اے اس دعوت کاملہ اور اس کھڑی ہو نے والی نماز کے رب! تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور انہیں اس مقام محمود پر پہنچا دے جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔
نوٹ: ”وَعَدتَّہٗ“ تک صحیح البخاری میں ہے۔بیہقی کی روایت میں” اِنَّکَ لاَ تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ“ کے الفاظ بھی قوی سند سے آئے ہیں۔ البتہ
”وَارْزُقْنَا شَفَاعَتَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ“
کے الفاظ اس موقع پر اپنی طرف سے زائد نہ کیے جائیں کیونکہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔